Thursday, April 17, 2014

کافروں سے دشمنی کے بغیر مومنوں سے دوستی ناممکن ہے:


یہ اصول وضابطہ بھی ذہن نشین رہے کہ پوری طرح اور صحیح طور پر مومنوں سے دوستی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کافروں سے دشمنی اور نفرت نہ ہو ۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫کے شاگرد رشید امام ابن قیم ﷫اسی بات کی تائید میں یوں فرماتے ہیں :
’’لَا تَصِحُّ الْمُوَالَاۃُ اِلَّا بِالمُعَادَاۃِ کَمَا قَالَ تَعَالٰی عَنْ اِمَامِ الْحُنَفَاءِ وَ الْمُحِبِّیْنَ قَالَ لِقَوْمِہٖ :﴿اَفَرَئَیْتُمْ مَّا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ، اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمُ الْاَقْدَمُوْنَ، فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ﴾)الشعراء(75-72:فَلَمْ تَصِحَّ لِخَلِیْلِ اللہِ ھٰذِہِ الْمُوَالَاۃُ وَالْخُلَّۃُ اِلَّا بِتَحْقِیْقِ ھِذِہِ الْمُعَادَاۃِ فَاِنَّہُ لَا وَلَاءَ اِلَّا لِلّٰہِ وَ لَا وَلَاءَ بِالْبَرَاءَ ۃِ مِنْ کُلِّ مَعْبُوْدٍ سِوَاہُ ، قَالَ تَعَالٰی :﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُون،إِلا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ،وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾(الزخرف:26-28)أَیْ جَعَلَ ھِذِہِ الْمُوَلَاۃَ لِلّٰہِ وَ الْبَرَا ءۃَ لِلّٰہِ وَالْبَرَاءَ ۃُ مِنْ کُلِّ مَعْبُودٍ سِوَاہُ کَلِمَۃً بَاقِیۃٌ فِی عَقِبِہِ یَتَوَارَثُھَا الأَنْبِیَاءُ وَأَتْبَاعُھُمْ بَعْضُھُمْ عَنْ بَعْضٍ وَ ھِیَ کَلِمَۃُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ وَ ھِیَ الَّتِیْ وَرَّثَھَا اِمَامُ الْحُنَفَاءِ لِأَتْبَاعِہٖ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ‘‘ 1
’’جب تک کافروں سے دشمنی نہ ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول اور اہل ایمان سے صحیح طور پر دوستی ہوسکتی ہی نہیں ۔اس حقیقت کو اللہ رب العزت نے اِمَامِ الْحُنَفَاءِ وَ الْمُحِبِّیْنَ ، امامُ الْمُؤحِّدِین جناب ابراہیم ﷤کے حوالے سے خوب واضح کیا ہے ۔انہوں نے جب اپنی قوم سے وہ بات کہی تھی جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء میں نقل فرمائی ہے،ابراہیم ﷤فرماتے ہیں :’’کیا تم نے دیکھا جن کو تم پوج رہے ہو ،تم بھی اور تمہارے اگلے باپ داد بھی ،اللہ رب العالمین کے سوا وہ سب میرے دشمن ہیں ‘‘اس فرمان ذی شان سے معلوم ہوا کہ جناب ابراہیم خلیل اللہ ﷤کی اللہ سے یہ دوستی اور گہری محبت اس وقت تک نامکمل اور ادھوری ہوتی جب تک وہ کافروں اور معبودانِ باطلہ سے اعلانِ عداوت نہ کرتے ۔اس آیت سے یہ قاعدہ وکلیہ معلوم ہوا کہ :’’لَا وَلَاءَ اِلَّا لِلّٰہِ وَ لَا وَلَاءَ بِالْبَرَاءَ ۃِ مِنْ کُلِّ مَعْبُوْدٍ سِوَاہُ‘‘ اس کامعنی یہ ہے کہ )دوستی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہو اور یہ صرف اس وقت تک ممکن ہے جب اللہ کے سوا ہر قسم کے معبود باطل سے اظہار لا تعلقی ہو (نیز اللہ رب العزت جناب ابراہیم ﷤کے بارے میں ہی سورٔ زخرف میں ارشاد فرماتے ہیں :’’اور جب ابراہیم﷤نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ،ہاں جس نے مجھ کو پیدا کیا وہی مجھ کو سیدھا راستہ دکھائے گا ،اور یہی بات اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گئے ۔تاکہ وہ )اللہ کی طرف(رجوع کرتے رہیں‘‘اللہ تعالیٰ کے اس فرمان عالی شان سے معلوم ہوا کہ ابراہیم ﷤کی اس دوٹوک اور واضح پالیسی کو -----کہ صرف اللہ کے لیے ہی دوستی ہو ،صرف اللہ کے لیے ہی دشمنی ہواور اللہ کے سوا ہر معبود سے اظہار لاتعلقی ہو-----اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے زندہ وجاوید اور قیامت تک چلنے والی مستقل پالیسی کا درجہ عطا کردیا ۔یہی وہ واضح پالیسی ہے جو ابراہیم ﷤کے بعد آنے والے تمام انبیاء اور ان انبیاء کےپیروکاروں میں یکے بعد دیگرے منتقل (Transfer)ہوتی چلی آرہی ہے ۔کلمۂ توحید لاالٰہ الااللہ کا بھی تو یہی معنی و مفہوم ہے۔اس کھری کھری بات اور حکمت عملی کاہی امامُ الْمُؤحِّدِین اِمَام الْحُنَفَاء جناب ابراہیم﷤نے قیامت تک آنے والے پیروکاروں کو ورثہ عطا فرمایاہے۔‘‘


1الجواب الکافی:311

مکمل تحریر  »

صرف مجاہدین اسلام ہی امید کی روشن کرن ہیں :

اللہ رب العزت کابھی یہ اٹل فیصلہ ہے کہ جن ناگفتہ بہ اوربدترین حالات سے آج بے چارے مسلمان دوچار ہیں اس ذلت ورسوائی کو عزت وفلاح میں وہی لوگ تبدیل کریں گے جو اللہ رب العالمین کے لیے ’’الولاء والبراء‘‘پر پختہ یقین رکھتے ہیں ۔یعنی ان کی دوستیاں بھی اللہ کے لیے ہیں اور اُن کی دشمنیاں بھی اللہ کے لیے ہیں ،قادر وقدیر اللہ رب العالمین سے مدد طلب کرتے ہوئے وہ میدانوں میں کھڑے ہوتے ہیں،اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں ،کافروں اور ان کا تعاون کرنے والے مجرم اور ایجنٹوں سے جنگ کرتے ہیں ۔میدانوں میں ایک دوسرے کو تھامے رکھتے ہیں ۔قربانیاں پیش کرتے ہوئے دنیا کا کوئی مفاد ان کے پیش نظر نہیں ہوتا ۔بلکہ صرف اللہ ہی سے اجر وثواب کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔اُس وقت تک میدانوں میں ڈٹے رہتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل وکرم اور اذن واجازت کے پسندیدہ اور محبوب دین ’’دین اسلام ‘‘کو دنیا کے تمام باطل ومنسوخ دینوں پر غالب کردیں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًايَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ)النور: (55
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اورجنہوں نے نیک اعمال کیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا ۔جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا ،جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لیے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا ،جسے وہ ان لوگوں کے لیے پسند کرچکا ہے اور ان کے خوف وہراس کو وہ امن امان میں بدل دے گا ۔وہ لوگ میری عبادت کریں گے ۔میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے ۔اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں تو وہ لوگ فاسق ہیں ۔‘‘

مکمل تحریر  »

مجاہدین اسلام کے خلاف علماء کے فتاوٰی جات:


منافق اوربے دین مسلمانوں نے اپنی اپنی کرسیوں اور عہدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کافروں کے ساتھ ذلتوں اور رسوائیوں پر مبنی معاہدے کیے ہوئے ہیں اور اِن کرسیوں اور عہدوں پر وہ بزور شمشیر وسناں قابض ہوئے ہیں۔

پھر نہلے پر دہلا یہ کہ ان کو مسلمانوں ہی کی صفوں سے ایسے ایسے علماء سوء،درباری اور سرکاری مفتیان اور اصحاب جبہ ودستار مولوی ہاتھ لگ گئے جنہوں نے ضمیر فروشی اور دین فروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے ایسے فتوے دے ڈالے جن فتوؤں سے ان مجرم حکمرانوں کے جرائم کوبھی نیک اعمال بناکر پیش کیاگیا۔کافروں کے ساتھ ذلتوں کے معاہدے (Pacts) کو جائز قرار دیا گیا ۔مسلمانوں کی مال ودولت اور جائیداد واملاک کافرو ں کے ہاتھوں بیچ دینے کو بھی درست کہا گیا ۔یہاںتک کہ ایسے ایسے قوانین بھی بنائے اور پاس کئے گئے کہ جن کی بدولت کافر وملحد قوتیں مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہوتی چلی گئیں ۔

بلکہ معاملہ اس سے بھی کہیں آگے چلا گیا ۔ان دین فروش مفتیوں نے یہ فتوے بھی جاری کردیے کہ اگر کوئی ان جیسے مجرم وملحد اور بے دین وسیکولر حکمرانوں کے خلاف خروج کرتے ہوئے کلمہ حق سربلند کرتا توان لوگوں کو قتل کرنا اور ان پر گولی چلانا بھی جائز ومباح ہے۔یہ بھی فتوے جاری کئے گئے کہ جو بھی مجاہد فی سبیل اللہ ہے اس کو )دہشت گرد کانام دے کر(قتل کرنا واجب ہے ۔یہ بھی فتوے جاری ہوئے کہ اگر کوئی شخص اللہ ، اس کے رسول ﷺاورمومنوں کے کسی دشمن کو قتل کردے تو اس )مجاہد وغازی (کو قتل کرنا واجب ہے۔

خاص طورپر اگرکسی مجاہد کے ہاتھوں جہنم واصل ہونے والے کا تعلق کسی یہودی یا عیسائی لیڈر سے ہوتو پھر ساری حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے اور دین اسلام سے محبت کرنے والے سلفی العقیدہ اور مذہبی لوگوں کا جینا حرام کردیا جاتا ہے ۔ایسی صورت میں تو ان دین فروش مفتیان ،ضمیر فروش شیوخ ،محکمہ اوقاف کی وزارتوں پر براجمان ارکان حکومت ،ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں رکھنے والے درباری وسرکاری مذہبی پیشواؤں کے پاس تو ہر وقت فتوے تیار ہوتے ہیں کہ دین کاجذبہ رکھنے والوں ،دینی سوچ رکھنے والوں ،جہاد کی تڑپ رکھنے والوں اور جہاد کی تیاری کرنے والوں کی گردنیں اڑانا اشدضروری ہے ۔

اگرچہ اس مجاہد نے فقط اسلام کی لاج رکھتے ہوئے اللہ اور رسول ﷺکی عزت وناموس پر غیرت کھاتے ہوئے اور اسلام کی بے حرمتی پر کبیدہ خاطر ہوتے ہوئے اللہ رب العزت کے کسی دشمن کے خلاف برسر پیکار کسی یہودی کافر یا مرتد کو قتل کیا ہو۔

مکمل تحریر  »

Wednesday, April 16, 2014

پاکستان دار الاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے

پاکستان دار الاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے
پیارے عرفان بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے دارالاسلام کے حوالے سے دو باتیں لکھی ہیں ، ممکن ہے کہ مجھے سمجھنے میں غلطی ہو رہی ہو لیکن میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سے وضاحت لے کر اپنی غلطی سے براءت کروں:
(۱) آپ نے کہا ہے کہ:
علماء نے دارالاسلام کی جو تعریف مقرر کی ہے اس کی رو سے اس وقت روئے زمین کا کوئی بھی ملک دار الاسلام کہلانے کا حقدار نہیں ہے علاوہ ان چند خطوں کے جہاں مجاہدین کے زیر قبضہ امارت اسلامیہ اپنی ابتدائی شکل میں جلوہ گر ہوچکی ہے ۔(مثلاً ، امارت اسلامیہ افغانستان ، امارت اسلامیہ قوقاز، امارت اسلامیہ جزائر مغرب ، امارت اسلامیہ بلاد الرافدین وغیرہ )
جب کہ آپ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
کیونکہ علماء کے نزدیک ہر وہ خطہ زمین جو ایک مرتبہ دارالاسلام بن جائے وہ قیامت تک دارالاسلام رہے گا خواہ کفار اس زمین پر قابض ہوجائیں اور خواہ کفار کا یہ قبضہ کئی صدیوں تک طاری رہے
کیا اس سے مراد موجودہ صورت ہے ؟ برائے مہربانی تفصیل سے وضاحت فرمائیں ؟
(۲) کیا آپ اس موضوع پر لکھی کسی کتاب کی رہنمائی کرسکتے ہیں؟
میں آپ کا بے حد مشکور ہوں گا ۔
-------------------------
میرے بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کو میری تحریر کو سمجھنے میں جو دشواری پیش آئی اس کے لیے معذرت ، میں نے دوسرے حصے میں نے جو کچھ تحریر کیا ہے اس میں مجھ ہی سے ایک چوک ہو گئی ہے یوں سمجھ لیں کہ اس کی بہتر وضاحت کی جا سکتی تھی ۔
تفصیلی تو نہیں لیکن مختصر وضاحت کردیتا ہوں:
دارالاسلام کی بنیادی شرائط:
دار الاسلام کی جو مختصر ترین تعریف علماء نے کی ہے ، اس کی رو سے دار الاسلام کی دو بنیادی شرائط ہیں، بہت ہی سادہ اور آسان ، بقیہ اضافی خصوصیات تو ہوسکتی ہیں ، شرائط نہیں ۔
پہلی شرط : حاکم مسلمان ہو
دوسری شرط: قوانین خالصتاً اسلامی شریعت پر مبنی ہوں
یعنی کفریہ قوانین اور اسلامی قوانین کا ملغوبہ نہ ہو ، بلکہ خالص شرعی قوانین جاری و ساری ہوں
[حوالہ کے لیے دیکھیں:
دعوۃ المقاومۃ الاسلامیۃ العالمیۃ : شیخ ابو مصعب السوری :صفحہ نمبر ۹۸۳]
اس تعریف کی رو سے میری تحریر کے پہلے حصے میں غلطی نہیں بلکہ دوسرے حصے میں ہے ۔
دوسرے حصے میں جو کچھ کہا گیا تھا اس کے لیے دار الاسلام کے الفاظ صحیح نہیں تھے میرے لیے بہتر تھا کہ میںبلاد اسلامیہ کے الفاظ استعمال کرتا ۔ آپ کے استفسار پر اس مسئلہ کی تھوڑی مزید وضاحت کر رہا ہوں :
جو علاقے ایک مرتبہ مسلمانوں کے زیر تسلط رہے ہوں اور اب وہاں کفار قابض ہوں وہ ہمیشہ مسلم مقبوضہ علاقے تصور کیے جائیں گے ۔ یعنی بلاد اسلامیہ میں شمار ہوں گے ۔کفار کا ان علاقوں پر قبضہ جتنا بھی طویل ہوجائے وہ ان مسلم اراضی سے مسلمانوں کو اُن کے حق سے دستبردار نہیں کر سکتا ۔اور یہ مسئلہ بھی جہاد کے ان مسائل میں سے ہے جو دفاعی جہاد یا فرض عین کے ذیل میں آتے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ میں اس کی وضاحت کروں یہ ضروری ہے کہ آپ دفاعی جہاد کے مسائل سے واقف ہوں ۔ لیکن کیونکہ یہ مسائل مشہور ہیں اس لیے انہیں تفصیل سے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں دفاعی جہاد کی صرف ایک صورت پر یاددہانی کروانا چاہتا ہوں اور وہ ہے مسلم سرزمینوں کے دفاع کا مسئلہ ۔یعنی مسلم سرزمینوں پر کفار حملہ آور ہوں تو ان کے دفاع کے لیے جہاد فرداً فرداً ہر مسلمان پر فرض عین ہوجاتا ہے ۔دفاعی جہاد میں کفار کے حملوں کی چار ممکنہ صورتیں بیان کی جاتی ہیں جن میں سے ایک مشہور صورت یہ بھی ہے کہ اگر کفار ایک چپہ بھر مسلم سرزمین پر بھی قابض ہوجائیں تو اس کو کفار کے قبضے سے چھڑانا مسلمانوں پر فرض عین ہو جائے گا ۔اور اس وقت تک فرض عین رہے گا جب تک اس زمین کو کفار کے قبضے سے چھڑا نہ لیا جائے ۔
[اس مسئلہ کو تفصیل سے جاننا چاہتے ہوں تو اس کے لیے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ میں چند ان کتابوں کے نام لکھ رہا ہوں جن میں یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ دیا گیا ہے ۔
ایمان کے بعد اہم ترین فرض عین :عبداللہ عزام ؒ اردو، انگریزی ، عربی
مشاری الاشواق الی مصاری العشاق : امام ابن نحاس ؒ ۔۔۔( باب اول) انگریزی ، عربی
دعوۃ المقاومۃ الاسلامیۃ العالمیۃ : شیخ ابو مصعب السوری :صفحہ نمبر۱۳۸ تا ۱۹۰ عربی
اب آتا ہوں اس طرف جہاں میری ایک چوک سے غلط فہمی پیدا ہوئی تھی ۔میری تحریر کا مدعا یہ تھا کہ

اگر بلاد اسلامیہ پر کفار کا قبضہ طویل یا مستقل ہو جائے اور مسلمانوں کی کئی نسلیں بیت جائیں تو بھی جہاد کی فرضیت ساقط نہیں ہوجائے گی ، بلکہ اب نئے زمانے کے مسلمانوں پر ان مقبوضہ مسلم اراضی کو کفار کے قبضے سے بازیاب کرانا فرض عین ہوگا ۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔اور اس فرض کی معطلی پر قیامت تک مسلمان گناہ گار ہوتے رہیں گے ۔
(یہاں میں نے غلطی سے یہ لکھ دیا تھا کہ یہ زمین قیامت تک دارالاسلام ہی شمار ہوگی )
آپ کا سوال غالباً یہ ہے کہ اس مسئلہ کی تفصیل کس کتاب میں مل سکتی ہے :
میں عرض کرنا چاہوں گا کہ تاریخ اسلام میں اس قسم کے واقعات پہلے کبھی پیش نہیں آئے تھے جس کی وجہ سے مجھے امید ہے کہ اس پر علمائے سلف اور فقہاء کی رائے تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہوگا ۔ اسی طرح موجودہ جہادی بیداری سے پہلے امت مسلمہ مجموعی حیثیت سے جہاد سے دور اور دین سے شدید غفلت کا شکار رہی ہے لہٰذا اُس زمانے کے علماء نے بھی بنیادی مسائل جیسے توحید و شرک اور سنت و بدعات وغیرہ پر زیادہ توجہ دی ہے ۔البتہ آج کے زمانے میں عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے ان کی کم از کم دو کتابوں میں مجھے یہ مسئلہ نظر آیا ہے ۔جن میں سے ایک کا ذکر پہلے کر چکا ہوں یعنی "ایمان کے بعد اہم ترین فرض حملہ آور کافر کا دفاع "۔دوسری کتاب غالباً ۔۔۔۔ "دیکھنا قافلہ چھوٹ نہ جائے "میں بھی انہوں نے اس مسئلہ کا تفصیلی تو نہیں لیکن سرسری طور پر ذکر کیا ہے ۔
اس مسئلہ کی رو سے شیخ عبداللہ عزام شہید ؒنے اپنی کتاب میں کم از کم پچاس سے زائد مقبوضہ مسلم علاقوں کا ذکر کیا ہے جن میں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی ہسپانیہ ، اندلس کا نام بھی شامل ہے ۔ جی ہاں ان کا فتویٰ ہے کہ آج دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہسپانیہ کو کفار کے تسلط سے آزاد کروانا فرض عین ہے ۔ آپ کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ شیخ عبداللہ عزام شہید نے اپنے ان فتاویٰ کو دنیا بھر کے علماء بالخصوص عرب علماء کے سامنے پیش کیا تھا لیکن ہمارے علم کے مطابق ان کی آراء پر کسی نے اختلاف نہیں کیا بلکہ اکثر جید علماء کی تائید حاصل ہوئی ۔تفصیل کے لیے دیکھیے عبداللہ عزام ؒ کی کتاب ایمان کے بعد اہم ترین فرض عین ۔(عربی، انگریزی ، اردو میں دستیاب ہے)
اور یہ عقلاً اور شرعاً زیادہ قرین الصواب ہے ،کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ دفاعی جہاد کی فرضیت مسلمانوں کی کمزوری کے سبب دائرے کی صورت میں پھیلتی ہے ۔ چنانچہ جس طرح یہ فرض دائرے کی صورت میں پھیلتا ہوا قریب کے مسلمانوں پر عائد ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح گذشتہ نسل سے آئندہ نسل اور پچھلے سے اگلے زمانے تک بھی مسلمانوں پر عائد ہوتا چلا جاتا ہے ۔آنے والے دور کے مسلمان یہ عذر پیش نہیں کر سکتے کہ یہ علاقے ہم سے اگلے زمانے کے مسلمانوں کی کمزوریوں سے چھینے گئے تھے چنانچہ ہم پر سے فرض ساقط ہوگیا ۔البتہ شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس طرح فریضہ جہاد معطل کرنے پر علماء ، داعیان دین اور صاحب حیثیت عام مسلمانوں کی نسبت زیادہ گناہ گار ہیں اسی طرح اس جہاد کی معطلی پر اگلے مسلمان پچھلوں کے مقابلے میں زیادہ گناہ گار ہوں گے ۔
اس ساری تفصیل سے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ اس طرح ہے
پاکستان دار الاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے ۔
(اصلاً ایسے کسی خطے کو دار الحرب نہیں کہا جاتا بلکہ دار المرکب کہا جاتا ہے ۔۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے ، یعنی جنگ کے وہ حربے اختیار نہیں کیے جاسکتے جو دارالکفر میں اختیار کیے جاسکتے ہیں )

ہندوستا ن کے دار الحرب ہونے کا پرانا فتویٰ تو موجود ہی ہے جو شیخ محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ نے جاری کیا تھا ۔
جو بات میں اپنے بھارتی مسلمان بھائی سے کہنا چاہتا تھا وہ یہ تھی کہ :
ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی اصلاً بلاد اسلامیہ ہیں ، لیکن دونوں دارالحرب ہیں ، کیونکہ دونوں پر کفار کا تسلط ہے اور دونوں میں شریعت معطل ہے ، لہٰذا یہاں کے مسلمانوں پر ان علاقوں کو کفار سے بازیاب کرانا اور شریعت بالفعل نافذ کرنا فرض عین ہے ۔اور الحمدللہ مجھے اس بارے میں ایک فی صد بھی شک نہیں اور پوری طرح شرح صدر حاصل ہے ۔
البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی مسلمان فریضہ جہاد کی معطلی پر ہندوستانی مسلمان سے زیادہ گناہ گار ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب

مکمل تحریر  »