یہ اصول وضابطہ بھی ذہن نشین رہے کہ پوری
طرح اور صحیح طور پر مومنوں سے دوستی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کافروں سے
دشمنی اور نفرت نہ ہو ۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے شاگرد رشید امام ابن قیم اسی
بات کی تائید میں یوں فرماتے ہیں :
’’لَا تَصِحُّ الْمُوَالَاۃُ
اِلَّا بِالمُعَادَاۃِ کَمَا قَالَ تَعَالٰی عَنْ اِمَامِ الْحُنَفَاءِ وَ الْمُحِبِّیْنَ
قَالَ لِقَوْمِہٖ :﴿اَفَرَئَیْتُمْ
مَّا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ، اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمُ الْاَقْدَمُوْنَ،
فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ﴾)الشعراء(75-72:فَلَمْ تَصِحَّ لِخَلِیْلِ اللہِ ھٰذِہِ الْمُوَالَاۃُ
وَالْخُلَّۃُ اِلَّا بِتَحْقِیْقِ ھِذِہِ الْمُعَادَاۃِ فَاِنَّہُ لَا وَلَاءَ
اِلَّا لِلّٰہِ وَ لَا وَلَاءَ بِالْبَرَاءَ ۃِ مِنْ کُلِّ مَعْبُوْدٍ سِوَاہُ ،
قَالَ تَعَالٰی :﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ
مِمَّا تَعْبُدُون،إِلا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ،وَجَعَلَهَا
كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾(الزخرف:26-28)أَیْ جَعَلَ
ھِذِہِ الْمُوَلَاۃَ لِلّٰہِ وَ الْبَرَا ءۃَ لِلّٰہِ وَالْبَرَاءَ ۃُ مِنْ کُلِّ
مَعْبُودٍ سِوَاہُ کَلِمَۃً بَاقِیۃٌ فِی عَقِبِہِ یَتَوَارَثُھَا الأَنْبِیَاءُ
وَأَتْبَاعُھُمْ بَعْضُھُمْ عَنْ بَعْضٍ وَ ھِیَ کَلِمَۃُ لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہ ُ وَ ھِیَ الَّتِیْ وَرَّثَھَا اِمَامُ
الْحُنَفَاءِ لِأَتْبَاعِہٖ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ‘‘ 1
’’جب تک کافروں سے دشمنی نہ ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول
اور اہل ایمان سے صحیح طور پر دوستی ہوسکتی ہی نہیں ۔اس حقیقت کو اللہ رب العزت نے
اِمَامِ
الْحُنَفَاءِ وَ الْمُحِبِّیْنَ ، امامُ الْمُؤحِّدِین جناب ابراہیم کے حوالے سے خوب واضح کیا ہے
۔انہوں نے جب اپنی قوم سے وہ بات کہی تھی جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء میں نقل
فرمائی ہے،ابراہیم فرماتے ہیں :’’کیا تم نے دیکھا جن کو تم پوج رہے ہو ،تم بھی
اور تمہارے اگلے باپ داد بھی ،اللہ رب العالمین کے سوا وہ سب میرے دشمن ہیں ‘‘اس
فرمان ذی شان سے معلوم ہوا کہ جناب ابراہیم خلیل اللہ کی اللہ سے یہ دوستی اور
گہری محبت اس وقت تک نامکمل اور ادھوری ہوتی جب تک وہ کافروں اور معبودانِ باطلہ
سے اعلانِ عداوت نہ کرتے ۔اس آیت سے یہ قاعدہ وکلیہ معلوم ہوا کہ :’’لَا وَلَاءَ اِلَّا لِلّٰہِ وَ لَا وَلَاءَ بِالْبَرَاءَ
ۃِ مِنْ کُلِّ مَعْبُوْدٍ سِوَاہُ‘‘ اس کامعنی یہ ہے کہ )دوستی
صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہو اور یہ صرف اس وقت تک ممکن ہے جب اللہ کے
سوا ہر قسم کے معبود باطل سے اظہار لا تعلقی ہو (نیز اللہ رب العزت جناب ابراہیم کے
بارے میں ہی سورٔ زخرف میں ارشاد فرماتے ہیں :’’اور جب ابراہیمنے اپنے باپ اور
اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ،ہاں جس
نے مجھ کو پیدا کیا وہی مجھ کو سیدھا راستہ دکھائے گا ،اور یہی بات اپنے پیچھے
اپنی اولاد میں چھوڑ گئے ۔تاکہ وہ )اللہ کی طرف(رجوع کرتے رہیں‘‘اللہ تعالیٰ کے اس
فرمان عالی شان سے معلوم ہوا کہ ابراہیم کی اس دوٹوک اور واضح پالیسی کو -----کہ
صرف اللہ کے لیے ہی دوستی ہو ،صرف اللہ کے لیے ہی دشمنی ہواور اللہ کے سوا ہر
معبود سے اظہار لاتعلقی ہو-----اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے زندہ وجاوید اور
قیامت تک چلنے والی مستقل پالیسی کا درجہ عطا کردیا ۔یہی وہ واضح پالیسی ہے جو
ابراہیم کے بعد آنے والے تمام انبیاء اور ان انبیاء کےپیروکاروں میں یکے بعد
دیگرے منتقل (Transfer)ہوتی چلی آرہی ہے ۔کلمۂ توحید لاالٰہ الااللہ کا بھی تو یہی
معنی و مفہوم ہے۔اس کھری کھری بات اور حکمت عملی کاہی امامُ الْمُؤحِّدِین اِمَام الْحُنَفَاء جناب ابراہیمنے قیامت تک آنے والے پیروکاروں کو
ورثہ عطا فرمایاہے۔‘‘
1الجواب الکافی:311
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔