بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدالله رب العالمین حمدا کثیرا طیبا مبارکا فيه
، واشهد ان لااله الا الله وحدہ لا شریک له واشهد ان محمدا عبدہ ورسوله اما بعد !
ہمارے نبی کریم اپنے دن کا آغاز دعا سے
کرتے، اپنے دن کا اختتام بھی دعا پر کرتے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم
اور جو دعائیں ہمیں آنی چاہئیے ہیں اور جن
کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دن کا آغاز کرتے جو صبح وشام کے اذکار ہیں
ان میں ایک یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث أصلح لي شأني كله ولا تكلني إلى نفسي
طرفة عين لا إله إلا أنت
ترجمہ:
اے زندہ اے قائم رکھنے والے میں تیری رحمت کے واسطے سے
فریاد کرتا ہوں ،تو میری ساری حالت سنوار دے اور پلک جھپکنے برابر بھی مجھے میرے
نفس کے حوالے نہ کر۔
جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دن
کا آغاز دعا کے ذریعے کیا اسی طرح ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا دن دعا سے شروع
کرے اور دعا پرہی اپنا دن ختم کرے ،اسکی پوری زندگی دعا ہو،وہ پوری زندگی اپنے رب
سبحانہ تعالی کے ساتھہ وابستہ رہے کیونکہ اللہ کے بغیر انسان کچھ نہیں لہذا اللہ
کے ساتھ اسکا تعلق ضروری ہے،ضروری ہے کہ وہ اللہ پر توکل رکھے ضروری ہے کہ وہ اپنے
تمام امور واحوال میں اللہ سبحانہ تعالی سے مدد مانگے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس دعا کا آغاز اللہ سبحانہ وتعالی کے ناموں میں سے دوناموں کے ذریعے کیا )يا حي, يا
قيوم( بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا "اسم اعظم" ہے (الحیّ۔زندہ) یعنی جسے حیات کاملہ حاصل ہو چنانچہ اللہ
سبحانہ تعالی کی حیات کامل ہے اللہ سبحانہ تعالی کی حیات ہماری حیات جیسی نہیں
اسکی حیات سے قبل "عدم " نہیں نہ ہی اسکی حیات کے بعد )زوال( ہے اسکے برعکس انسان کی حیات سے پہلے )عدم( ہے اور اسکے
بعد )زوال( ہے اللہ جل و علیٰ کی حیات میں نقص یا خلل یا عیب نہیں درآسکتا ۔
لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ
ترجمہ: اسے اونگھ یا نیند نہیں آتی۔
اسکے برعکس انسان کو اسکی حیات میں نقص اور
کمزوری اور بے بسی اور بہت سے عیوب کا سامنا ہوتا ہے۔
)يا
حي يا قيوم( قیوم بھی اللہ کا نام ہے اور حیّ بھی اللہ کا نام ہے قیّوم (قائم رکھنے والا) کا معنی ہے جو خود قائم ہو اور
دوسروں کو قائم رکھے چنانچہ اللہ سبحانہ تعالی اپنے غنی (بے
پرواہ ) ہونے کے سبب بذات خود قائم ہے اور اپنے غیر کا محتاج نہیں ہے
کیونکہ وہ غنی (بے پرواہ ) ہے اسکے برعکس انسان اپنے غیر کا محتاج ہوتا
ہےکھانے،پینے، بیوی کا محتاج ہوتا ہے بیمار ہوجائے تو ڈاکٹر کا محتاج ہوتا ہے ۔
جبکہ اللہ سبحانہ تعالی کسی بھی شے کا
محتاج نہیں کیونکہ وہ غنی (بے پرواہ غیر محتاج ،مستغنی
) اور حمید (تعریف کیا گیا) اور مجید
(بزرگ تر) ہے بذات خود قائم ہے اور اپنے سوا ہر شے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
آسمان و زمین کی تمام خلائق کو اسی نے قائم
رکھا ہوا ہے وہی ہے جوان کی ضروریات پوری کرتا ہے ۔
يا حي يا قيّوم برحمتك أستغيث
ترجمہ
: اے زندہ رہنے والے، اے قائم رہنے والے ،تیری رحمت کے ذریعے میں مدد
چاہتا ہوں۔
آپ اللہ سبحانہ تعالی کو رحمت کے ذریعے مدد
مانگیں کیونکہ اللہ سبحانہ تعالی نے اپنے آپ کو قرآن میں صفت )ارحم
الراحمین۔ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑارحم کرنے والا(کے ساتھ موصوف کیا ہے چنانچہ بہتر یہی ہے کہ انسان
ہمیشہ اللہ کی رحمت کے ذریعے سوال کرے آپ کہیں :
یا ارحم الراحمین: اے رحم
کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے،
یا اکرم الاکرمین: اے
کرم کرنے والوں میں سب سےبڑھ کر کرم کرنے والے
یا خیر الرازقین: اے
رزق دینے والوں میں سب سے بہتر اللہ سے ہمیشہ اسکے ناموں اور اسکی صفات کے
واسطے سے دعا کریں یہی فرض ہے ،یہ آداب دعا میں سے ہے کہ انسان اپنی دعا سے قبل
اسکے آغاز میں اللہ کی حمدوثناء بیان کرے اور اللہ کے اسماءحُسنیٰ اور صفات عُلیٰ
کے وسیلے سے مانگے۔
برحمتك أستغيث أصلح لي شأني كله
ترجمہ:
تیری رحمت کے ذریعے میں مدد چاہتاہوں تو میری ساری
حالت سنواردے۔
اس جملے پرغور کریں ہم اس پر ذرا طویل بات
کریں گے میری ساری حالت سنوار دے (ساری حالت)
دین ودنیا کے تمام امور کو شامل ہے یہ دعا کرتے وقت آپ سب سے پہلے یہ سوچیں کہ
اللہ کے ساتھ آپکی حالت درست ہوجائے خالق عظیم کے ساتھ آپکی حالت بہتر ہوجائے،شاید
کے آپ پوچھیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے ساتھ میری حالت کس طرح درست کرے؟
میں اسکے جواب میں مختصر سی بات کہوں گا کہ
آپ احکامات پر قائم رہیں،نواھی)حرام اور ناجائز کاموں سے( سے باز رہیں، یہ انتہائی اختصارہے ،آپکااللہ کے ساتھ تعلق رہے
،اللہ جل وعلیٰ کو یکتامانیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہے جو حالتوں کو
سنوارتا ہے بندے کے پاس خواہ کتنا ہی علم ہو کتنی ہی فقہ ہو وہ بذات خود اپنی حالت
نہیں سنوار سکتا وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کی نگہبانی کا محتاج ہے،اللہ
کی توفیق کا محتاج ہے،اللہ کی حفاظت کا محتاج ہے ،وہ محتاج ہے کہ اللہ سبحانہ
وتعالی اسکی حالت سنوار کر اسے ہدایت سے نوازدے ، اسے درست کردے،اسکا معاملہ اس کے
لئے آسان کردے چنانچہ اسے چاہیے کہ وہ ہمیشہ ،باربار،ہر بار اللہ سبحانہ وتعالی کے
سامنے گڑگڑ ائے کہ وہ اسکی حالت کو سنوار دے۔
اور یہ دعا صبح وشام کے اذکار کے ساتھ خاص
نہیں ہے بلکہ مسلمان اپنے سجدوں میں بھی یہ دعا کرسکتاہے حتی کہ آپ اپنے گھر میں
اپنی بیوی کے ساتھ کام کاج کرتے ہوئے بھی یہ دعا کر سکتے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں ۔
يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث أصلح لي شأني كله
ترجمہ
: ائے زندہ رہنے والے، ائے قائم رہنے والے میں تیری رحمت کے ذریعے مدد
مانگتا ہوں تو میری ساری حالت سنوار دے ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ اپنے ساتھ
آپکی حالت سنوار دے ، دوسری بات یہ کہ وہ آپکے نفس امارہ بالسوء)برائی
کاحکم دینے والا نفس( کے ساتھ آپکی حالت سنوار دے اللہ اسے پاک صاف کردے، ہمارے رسول
علیہ الصلاة والسلام خطبہ دیتے وقت اسکے شروع میں فرماتے:
ونعوذ بالله من شرور أنفسنا
ترجمہ:
اور ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ میں آتے
ہیں۔
کیونکہ نفس کی شرارتیں ہوتی ہیں مثلا
دکھلاوے کا شر ، غرور کاشر،نفاق کا شر نفس کے شر بہت سے ہیں چنانچہ آپ اللہ کی
پناہ طلب کریں، اللہ کے آگے منت کریں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے کہ :
اللهم آت نفوسنا تقواها وزكها أنت خير من زكاها أنت وليها ومولاها
ترجمہ:
یا اللہ تو ہمارے نفوس کو تقوی اورانکی پاکی عطاء فرما
تو ہی انہیں سب سے بہتر پاک کرسکتاہے تو ان کا مالک اور آقاہے۔
آپ بھی کہیں کہ ائے میرے رب میں اپنے نفس
کا تزکیہ نہیں کرسکتا تو اپنی رحمت اور اپنے فضل وکرم سے میرے نفس کو پاک فرمادے ۔
لہذا اس دعا میں دوسری بات آپ یہ یاد رکھیں
کہ اللہ آپکے نفس امارة بالسوء کے ساتھ آپکی حالت سنواردے ، اللہ اس دین پر آپ کو
ثابت قدم رکھے اورآپ پر اپنا معزز فضل جاری رکھے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے ساتھ
آپکی حالت سنواردے سب لوگوں کے ساتھ خواہ قریب ہوں یا بعید چنانچہ سب سے پہلے وہ
آپکےوالدین کے ساتھ آپکی حالت سنواردے کہ آپ انکی اطاعت کریں انہیں خوش رکھیں ایسے
ہی آپکی بیوی کے ساتھ آپکی حالت سنوار دے آپ اسکے حقوق ادا کریں آپکی اولاد کے
ساتھ آپکی حالت سنوار دے آپ انکی تربیت کریں آپکے پڑوسی کے ساتھ آپکی حالت سنوار
دے،آپ اس کے حقوق ادا کریں خلاصہ یہ ہے کہ سب لوگوں کے ساتھ آپکی حالت سنوار دے آپ
حقوق اداکرنے والے بن جائیں او رحق تلفیوں سے بچے رہیں یہ خلاصہ ہے۔
چنانچہ لوگوں کے ساتھ آپکا معاملہ صدق
وراست بازی اور اخلاص والا ہو ،آپ لوگوں کو دھوکہ نہ دیں،لوگوں سے جھوٹ نہ بولیں،
لوگوں سے خیانت نہ کریں،لوگوں کوفائدہ پہنچائیں،دوسروں کا بھلا چاہیں۔۔۔۔۔۔وغیرہ
وغیرہ
عزیزان گرامی!
خلاصہ یہ ہے کہ ہم ہروقت، ہر حال میں اس
دعا کے بار بار ،صبح وشام سجدوں میں اور دیگر اعمال میں مانگنے کے شدید محتاج ہیں
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی حالتوں کو سنوار سکتاہے مثلا اگر آپ کو کوئی معاشرتی
یا معاشی یا جانی مشکل ہو تو آپ باربار یہ دعا کریں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی
حالت سنوارے گا۔ میں اپنا یہ درس ایک عجیب واقعہ پر ختم کرتاہوں کہ ایک عورت اپنے
خاوند کے لئے خوبصورتی اختیارکرتی اور میک اپ کرکے رکھتی تاکہ اسکا خاوند اسے
چاہتارہے سبحان اللہ! اس نے زیب وزینت،میک اپ، خوشبو جات وغیرہ مادی اسباب اختیار
کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن شوہر گھر آتا تو اسکی جانب توجہ نہیں دیتا نہ
اس سے اچھی طرح،نرم اورشیریں گفتگو کرتا نہ ا سے چاہتا۔
یہ عورت سب سے عظیم،بڑا،میٹھا اور خوبصورت
سبب بھولے ہوئے تھی دعا کیونکہ دعا ہی مومن کا سب سے بہتر ہتھیار ہے سبحان اللہ
چنانچہ جب اس نے دعا شروع کی اور کہا کہ :
يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث أصلح لي
شأني كله ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين لا إله إلا أنت
اور بار بار یہی دعا رکرتی
رہی
آپ یہ دعا کسی ایک دن یا ایک مہینے یا سال
تک نہ کریں بلکہ ساری زندگی کریں جلد ہی آپ کو توفیق ،نگرانی،حفاظت،درستگی محسوس
ہونا شروع ہوجائے گی بہرحال وہ دن رات یہ دعا مانگنے لگی اس کے بعد اسکا شوہر بدل
گیا جیسا کہ کہا جاتاہے 180 ڈگری کے زاویئے پر سبحان اللہ اسے چاہنے لگا اسکی عزت
کرنے لگا،اسکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے لگا کیونکہ اللہ سبحا نہ وتعالی ہی ہے جو
دونوں جہانوں کا مالک ہے جو دلوں کو جس طرح چاہتاہے پھیر دیتاہے
عزیزان گرامی:
میں آپکو تاکید کروں گا کہ آپ اس دعا کو
باربار مانگیں اگر آپ کرسکیں تو نماز میں سجدوں میں بار بار یہی دعا کریں تو ایسا
ضرور کریں کیونکہ اس میں بڑی خیر اور بڑا فائدہ ہےیہ دعا آپکی زندگی بدل دے گی
آپکی حقیقت بدل دے گی آپ کے اخلاق بدل دے گی آپکا برتاؤ بدل دے گی اگر اللہ سبحانہ
وتعالی کا حکم ہوا ہم اسی دعا کومکمل کرتے ہیں ارشاد فرمایا:
ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين
ترجمہ: اور
پلک جھپکنے برابر بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کر۔
یہاں آپ اللہ جل وعلا سے دعا کررہے ہیں کہ
وہ آپکو آپکے نفس کےسپرد نہ کرے کیونکہ اگر اللہ نے آپکو آپکے نفس کے حوالے کردیا
تو باالفاظ دیگر اس نے آپکو کمزوری،بےبسی،عیب،غلطی،گناہ وغیر ہ کے حوالے کردیا اسی
لئے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
اہل معرفت نے اتفاق کیا ہے کہ
توفیق یہ ہے کہ اللہ آپکو آپکے نفس کے سپردنہ کرے بلکہ آپ اللہ جل وعلی کی جانب سے
نگرانی ،توفیق ،ہدایت،درستگی کو محسوس کریں۔سبحان اللہ!
عارفین کہتے ہیں کہ خذلان)مدد
نہ کرنا،توفیق نہ دینا( یہ کہ اللہ آپکو آپکے نفس کے حوالے کردے چنانچہ آپ کہتے ہیں کہ :
ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين
ترجمہ:
اور مجھے پلک جھپکنے برابر بھی میرے نفس کے حوالے نہ
کر۔
اسی لئے انسا ن کو ہمیشہ کہتے رہنا چاہیے
لا حول ولا قوة إلى بالله
ترجمہ :کوئی شش
نہیں نہ ہی کوئی قوت مگر اللہ کی۔
اللہ آپ پر رحم کرے )لا حول ولا قوة إلا بالله( یہ الفاظ
کثرت سے کیا کریں کیونکہ ہر معاملے کو اللہ جل وعلی کے حوالے اورسپرد کردینا ہے
گویا کہ آ پ کہتے ہیں ائے میرے رب میری کوشش کچھ نہیں نہ ہی میری طاقت کچھ ہے نہ
ہی خیر واطاعت اور نیکی کے اعمال کی توفیق ہے نہ میں نافرمانی سے فرمانبرداری کی
جانب آسکتاہوں مگر تیری توفیق سے تو اکیلا ہے تیر اکوئی شریک نہیں۔
ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين لا إله إلا أنت
ترجمہ
: اور مجھے پلک جھپکنے برابر بھی میرے نفس کے حوالے نہ تیرےسو ا کوئی
معبود نہیں۔
سبحان اللہ! دعا
کو ختم بھی ثناء پر کیا اور شروع بھی )یا حی یا قیوم( یعنی اللہ کی
ثناء سے ایسے ہی دعا کو ختم بھی اللہ کی ثناء پر کیا لا الله الا
انت
یعنی تیرے سوا کوئی نہیں جو عبادت کا مستحق ہو اس بات کا مستحق ہو کہ اسکے آگے
جھکائے سوائے الله وحدہ لا شریک له کے
ہم نے چاہا کہ ہم اس حدیث اور اس دعا کی وضاحت
کردیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی سے ہماری دعاہے کہ وہ
ہمیں اپنے پسندیدہ اعمال کی توفیق دے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمين
سبحان اللہ بہت ہی خوبصورت بیان ہے
Mashallah