Tuesday, April 5, 2011

جہاد فی سبیل اللہ ترک کرنے کی سزائیں

جہاد فی سبیل اللہ ترک کرنے کی سزائیں

O کیا جہاد فی سبیل اللہ ترک کرنے والے کے لئے کوئی محضوص سزا معین ہے؟

P الحمد للہ۔جہاد فی سبیل اللہ کا حکم، اور اسے ترک کرنے پر ترہیب )سزا کی دھمکی(بہت سی آیات اور احادیث میں وارد ہے۔

اوراگر مسلمانوں نے جہاد فی سبیل اللہ ترک کردیا اورسہولت و آسانی کی زندگی کوترجیح دی اور دنیا کی طرف مائل ہوئے تو ان پر ذلت اور پستی مسلط ہو جائے گی اور ان کے تمام معاملات فساد کا شکار ہو جائیں گے اور وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نفرت اور غیض و غضب کے سامنے پیش کر دیں گے ، اور اسلام‘ نقصان اورکفر کی ظلم و سرکشی سے دوچار ہو جائے گا۔ لہٰذا ترکِ جہاد کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔

’الزواجر‘میں ابن حجر﷫ فرماتے ہیں:

’’کبیرہ )گناہوں کی فہرست (میں390،391 اور392 فرضیت کے وقت جہاد ترک کرنے سے متعلق ہیں، کہ جب حربی مسلم علاقوں میں داخل ہو جائیں یا کسی مسلمان کو قید میں لے لیں اور اسے اُن سے چھڑانا ممکن ہو اورلوگ قطعی طور پر جہاد کوتر ک کر دیں۔ اور جب کسی علاقے کے لوگ اپنی سرحدوں کی حفاظت ترک کر دیں جبکہ اس ترکِ حفاظت کی وجہ سے کفار کا ان پر قبضے کا خطرہ موجود ہو۔ ‘‘

چنانچہ یہ بات صحابہ )( کے نزدیک معلوم و مقرر تھی کہ جب جہاد فرضِ عین ہو تو اس وقت ضعیف، معذور یا منافق کے علاوہ کوئی بھی اس سے پیچھے نہیں بیٹھ رہے گا۔اور کعب بن مالک﷜اپنے غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانے کے متعلق یہی بات کرتے ہیں:

’’فکنت اذا خرجت في الناس بعد خروج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فطفت فیہم،ٲحزنني ٲني لا ٲری الا رجلا مغموصا علیہ النفاق ٲو رجلا ممن عذر اللّٰہ من الضعفاء‘‘

’’رسول اللہﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا اور لوگوں کے درمیان گھوتا پھرتا تو مجھے بڑا رنج ہوتاکیونکہ یاتو وہ لوگ نظر آتے جن کے چہروںسے نفاق ٹپکتا تھا یا پھر وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور اور ضعیف قرار دے دیا تھا‘‘

) بخاری 4066، مسلم4973 (

اورجہاد ترک کرنے کی سزائیں بعض دلائل سے واضح ہوتی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں

1 ترکِ جہاد دنیا اور آخرت میں ہلاکت کا باعث ہے۔

دنیا میں ڈرپوک بزدل‘ ذلیل ہوتا ہے دوسروں کاغلام اور تابع ہوتا ہے اور کوئی اس کے تابع نہیں ہوتا )یعنی وہ کسی کی قیادت نہیں کرتا(۔ جبکہ آخرت میں ترکِ جہاد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب بن جائے گا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ وَ اَحْسِنُوْا ج اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ)البقرۃ 2: 195(

’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو، اور سلوک و احسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘

ترمذی )2972(میں روایت ہے کہ اسلم ابو عمران﷜فرماتے ہیں:

’’کنا بمدینۃ الروم فٲخرجوا الینا صفا عظیما من الروم، فحمل رجل من المسلمین علی صف الروم حتی دخل فیہم ، فصاح الناس وقالوا: سبحان اللَّہ! یلقي بید یہ الی التہلکۃ! فقام ٲَبو ٲیوب الانصاري فقال: یا ایھاالناس، انکم تتاولون ہذہ الآیۃ ہذا التاویل، وانما ٲنزلت ہذہ الآیۃ فینا معشر الانصار، لما ٲعز اللّٰہ الاسلام، وکثر ناصروہ، فقال بعضنا لبعض سرا دون رسول اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم: ان ٲموالنا قد ضاعت، و ان اللَّہ قد ٲعز الاسلام، و کثر ناصروہ، فلو ٲقمنا في ٲموالنا فاصلحنا ما ضاع منہا، فنزل اللَّہ علی نبیہ صلی اللَّہ علیہ وسلم یرد علینا ما قلنا ﴿ وٲنفقوا في سبیل اللَّہ ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ فکانت التہلکۃ الاقامۃ علی الاموال واصلاحہا، وترکنا الغزو. فلم یزل ٲبوٲیوب یجاہد في سبیل اللَّہ حتی دفن بالقسطنطنیۃ‘‘

’’ہم روم میں تھے تورومی ہمارے مقابلے میں ایک بہت بڑے لشکر کی صف نکال کر لائے ، اور مسلمانوں میں سے ایک شخص نے رومیوں کے لشکر کی اس صف پر حملہ کر دیا اور ان میں داخل ہو گیا، تو لوگ چیخ کر کہنے لگے : سبحان اللہ! یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے ! ) حالانکہ قرآن مجید میں تو آیا ہے کہ ’لا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ‘کہ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو!(چنانچہ ابو ایوب انصاری ﷜ اٹھے اور فرمایا:لوگو تم اس آیت کی یہ تاویل اور تفسیر کر رہے ہو، بلکہ یہ آیت تو ہمارے انصار صحابہ کے متعلق نازل ہوئی، جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام کو عزت سے نوازا اور اسلام کے مددگار بہت زیادہ ہو گئے ، تو ہم میں سے کچھ صحابہ نے راز دارانہ طریقے سے کہا اور رسول کریم ﷺکو اس کا علم نہ ہونے دیا، کہ ہمارے مال ضائع ہو گئے ہیں، اور اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت سے نواز دیا ہے ، اور اس کے مددگار بھی زیادہ ہو گئے ہیں، تو اگر اب ہم جاکر اپنے اموال میں رک جائیں اورجو ضائع ہوا ہے اس کی اصلاح کر لیں! تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے قول کا جواب دیتے ہوئے اپنے نبی ﷺ پر یہ آیت نازل فرما دی: ﴿اور تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت پڑو ﴾ چنانچہ ہمارا اپنے اموال پر ٹھہرنا اور ان کی اصلاح کرنا)یعنی گھروں میں بیٹھے رہنا( اور جہاد اور جنگ کو ترک کرنا ہلاکت تھا، اس کے بعد ابو ایوب﷜جہاد میں مشغول رہے حتی کہ وہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے ‘‘

) البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے (

’تحفۃ الاحوذي‘ میں بیان ہے:

’’والحدیث یدل علی ٲن المراد بالقاء الایدي الی التہلکۃ ہو الاقامۃ في الاہل والمال و ترک الجہاد ‘‘

’’یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے سے مراد اہل و مال میں رکنا اور جہاد ترک کرنا ہے ‘‘

2 ترکِ جہاد ذلت اور پستی کا سبب ہے۔

ابو دواد )3462(سے مروی ہے کہ ابن عمر﷠ نے فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:

’’اذا تبایعتم بالعینۃ، وٲخذتم ٲذناب البقر، ورضیتم بالزرع، وترکتم الجہاد، سلط اللَّہ علیکم ذلا لا ینزعہ حتی ترجعوا الی دینکم، سلط اللَّہ علیکم ذلا لا ینزعہ حتی ترجعوا الی دینکم، سلط اللَّہ علیکم ذلا لا ینزعہ حتی ترجعوا الی دینکم‘‘

’’جب تم سودی تجارت)عینہ(کرنے لگوگے اورگائے بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے ، اور کھیتی باڑی )کی زندگی(میں) مگن ہو کر(مطمئن ہو جائو گے اورجہاد چھوڑ بیٹھو گے تواللہ تمہارے اوپر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو وہ اس وقت تک نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے اصل دین )حقیقی اسلام(کی طرف واپس نہ لوٹ آئو ، اللہ تمہارے اوپر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو وہ اس وقت تک نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے اصل دین )حقیقی اسلام(کی طرف واپس نہ لوٹ آؤ، اللہ تمہارے اوپر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو وہ اس وقت تک نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے اصل دین )حقیقی اسلام(کی طرف واپس نہ لوٹ آئو‘‘

) البانی نے صحیح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے (

اور بے شک ہمارے رسول ﷺ نے سچ فرمایا، کیونکہ جو بھی آج مسلمانوں کے حال پرنظر دوڑاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ )مسلمان(اپنے دین کے معاملے میں حد رجہ لا پرواہی کا شکار ہیں۔ چنانچہ وہ سود خوری کرنے لگے. اور دنیا کی طرف مائل ہوگئے . اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کر دیا. تو پھر کیا نتیجہ نکلا؟! اللہ نے ان کی گرنوں میں ذلت کا طوق ڈال دیا ہے، پس وہ پناہ لینے کے لئے مشرق و مغرب کی طرف جاتے ہیں اور پست اور ذلیل ہو کر)اُن سے( اپنے دشمنوں کے خلاف مدد مانگتے ہیں، اور یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان پر سے ذلت اس وقت تک نہیں ہٹے گی جب تک وہ اپنے دین کی طرف واپس نہیں لوٹ آئیں گے، جیسا کہ صادق اور مصدوق)سچے اور تائید کیے گئے نبیﷺ (نے خبر دی ہے۔

اور بزرگ و برتر اللہ نے سچ فرمایا:

﴿ بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا،الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ﴾ ﴿النساء 4: 138-139﴾

’’منافقوں کو اس امر کی خبر پہنچا دو کہ ان کے لئے دردناک عذاب یقینی ہے،جن کی یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں، کیا ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟)تو یاد رکھیں کہ( عزت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے ‘‘

3 اورترکِ جہاد دنیا اور آخرت میں نزولِ عذاب )الٰہی(کا باعث ہے۔

ابو داود )2503( سے مروی ہے کہ ابو امامہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’من لم یغز، ٲویجہز غازیا، ٲو یخلف غازیا في اہلہ بخیر، ٲصابہ اللّٰہ بقارعۃ قبل یوم القیامۃ‘‘

’’جس شخص نے نہ تو )بنفس خود(جہاد کیا ،اور نہ کسی مجاہد )کے لئے ساز و سامان (کو تیار کیا، اورنہ کسی غازی کے )جہاد میں ہونے کے دوران اس کے( اہل وعیال کے حق میں بھلائی کے ساتھ ان کا نائب بنا تو اللہ تعالیٰ اس کوروزِقیامت سے پہلے کسی سخت مصیبت میں مبتلا کرے گا‘ ) البانی نے صحیح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے (

اور ’قارعۃ‘ مہلک بلا)مصیبت( ہے جوایک دم وارد ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے :قرعہ ٲمرا اذا ٲتاہ فجاۃ)ترجمہ(کسی پر کوئی معاملہ اچانک نازل ہو جائے تو اسے ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلا قَلِيلٌ ،إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللہُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )التوبۃ 9: 38-39(

’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو؟ سنو! دنیا کی زندگی کا نفع تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑا سا ہے۔ اگر تم نے کوچ نہ کیا توتمہیں اللہ تعالیٰ دردناک سزا دے گا اورتمہارے سوا اور لوگوں کو بدل لائے گا، تم اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘

’’اور وہ انہیں جس عذاب کی دھمکی دے رہا ہے وہ فقط آخرت کا عذاب نہیں ہے، بلکہ دنیا اور آخرت کا عذاب ہے، ذلت کا عذاب جو جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والوں پر نازل ہوتا ہے، خیر سے محرومی کا عذاب کہ جس )یعنی خیر(سے کافر دشمن تو مستفید ہوتا ہے مگر اس کے اصل حقدار محروم ہو جاتے ہیں، اور اس سب کے ساتھ ساتھ وہ جانوں اور اموال کے ایسے خسارے سے دوچار ہوتے ہیں جوجہاد میں ہونے والے خسارے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے اور ذلت کی قربان گاہوں پر اس سے کئی گنا زیادہ قربانیاں پیش کرتے ہیں جن کا تقاضا عزت اور تکریم )کی زندگی(کرتی ہے ، اگر یہ اس کے لئے خود رضاکارانہ طور پر پیش ہو جاتے تو۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں کہ جس نے جہاد ترک کیا ہو اور اللہ نے اسے ذلت و رسوائی سے دوچار نہ کر دیا ہو، چنانچہ اسے مجبوراًاس کی ناپسندیدہ اور ذلت آمیز قیمت چکانی پڑی ،جو اس )قیمت(سے کئی گنا زیادہ تھی کہ جس کا تقاضا دشمن سے جہاد کی صورت میں ہوتا‘‘ )الظلال 1655/3(

سعدی﷫ نے فرمایا)ص532(:

’’﴿یا ایھا الذین امنوا﴾’اے ایمان والو!‘کیا تم ایمان کے تقاضوں اور یقین کے داعیوں کو نہیں جانتے؟ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں سبقت کی جائے، اس کی رضا کے حصول اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور تمہارے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی طرف سرعت سے بڑھا جائے۔ پس ﴿ما لکم اذا قیل لکم انفروا في سبیل اللّٰہ اثاقلتم الی الارض﴾’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو؟ ‘یعنی تم سستی کا مظاہرہ کر رہے ہو )اور بیٹھ رہے ہو(اوردنیاکی طرف اور اس میں راحت و آرام کی طرف مائل ہو رہے ہو ۔

﴿ارضیتم بالحیوۃ الدنیا من الاخرۃ﴾ ’کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو؟‘ یعنی تمہارا حال تو بس اس شخص جیسا ہے جو دنیا کی زندگی پر راضی ہے اور اسی کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے اور آخرت کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، گویا آخرت پروہ ایمان ہی نہیں رکھتا۔

﴿فما متاع الحیوۃ الدنیا﴾’ پس نہیں ہے نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا‘جس کی طرف تم مائل ہواور جس کو تم نے آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے﴿الا قلیل﴾’مگر بہت تھوڑا‘کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل سے نہیں نوازاجس کے ذریعے تم تمام معاملات کو تولوکہ کون سا معاملہ ہے جو ترجیح دیئے جانے کا مستحق ہے؟


کیا ایسا نہیں کہ یہ دنیا.اول سے لے کر آخر تک.آخرت کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں؟

اس دنیا میں انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے، یہ عمر اتنی نہیں کہ اسی کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کے ماوراء کوئی مقصد ہی نہ ہواور انسان کی کوشش‘ اس کی جہد اور اس کے ارادے اس انتہائی مختصر زندگی سے آگے نہ بڑھتے ہوں جو تکدر سے لبریز اور خطرات سے بھرپور ہے۔

تب کس بناء پر تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے دی، جو تمام نعمتوں کی جامع ہے جس میں وہ سب کچھ ہو گا نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تم اس آخرت میں ہمیشہ رہو گے.اللہ کی قسم!وہ شخص جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہو گیا ہے، اور وہ جو صائب رائے رکھتا ہے، اوروہ جو عقلمندوں میں شمار ہوتا ہے، کبھی بھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دے گا۔

پھراللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاد کے لئے نہ نکلنے پر ان کو سخت وعیدسناتے ہوئے فرمایا:﴿ الا تنفروا یعذبکم عذابا ٲلیما﴾ ’اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تم کو عذاب دے گا، دردناک عذاب ‘دنیا اور آخرت میں، کیونکہ جہاد کے لئے بلائے جانے کی صورت میں جہاد کے لئے گھر سے نہ نکلنا کبیرہ گناہ ہے جو سخت ترین عذاب کا موجب ہے، کہ جس میں شدید نقصان ہے کیونکہ)بوقت ضرورت جہاد سے جی چرا کر( پیچھے بیٹھ رہنے والے نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور اس کی منہیات )منع کی ہوئی بات(کا مرتکب ہوا، اور اللہ کے دین کی نصرت میں مددگار نہیں ہوا، اور اس نے کتاب اللہ اور اس کی شریعت کا دفاع نہیں کیا ، اور نہ ہی اپنے مسلمان بھائیوں کی ان کے دشمن کے خلاف اعانت کی جو ان کو ختم کرنا اور ان کے دین کو مٹانا چاہتا ہے ، بلکہ ضعیف الایمان لوگ )جہاد سے جی چرانے میں(شاید اس کی پیروی کرنے لگ جائیں،یا غالباً یہ اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہو ، تو بس جس کا یہ حال ہو تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی شدید وعید لازم ہے، سو فرمایا: ﴿الا تنفروا یعذبکم عذابا ٲلیماو یستبدل قوما غیرکم و لا تضروہ شیئا﴾’اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تم کو دردناک عذاب دے گااور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدلے میں لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے ‘کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت اور اپنے کلمہ کو بلند کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔ اس لئے اگر تم اللہ کے احکام کی تعمیل کرتے ہو یا انہیں پیٹھ پیچھے پھینک دیتے ہو، اللہ کے لئے ایک برابر ہے۔

﴿واللّٰہ علی کل شيئ قدیر﴾’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرے تو کوئی چیز اسے بے بس نہیں کر سکتی اور کوئی اس پر غالب نہیں آ سکتا‘‘

ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے دین کی جانب خوش اسلوبی کے ساتھ واپس لوٹا دے، اور ان پر سے ذلت اور پستی کو ہٹا دے۔

اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔

1 comments:

  • Anonymous says:
    April 6, 2011 at 5:22 AM

    Jazak Allah

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔