Monday, December 12, 2011

کیا دورحاضر میں جہاد کرنا فتنہ ہے؟

ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم

سوال نمبر: 5243
ہمارے عالی قدر اوربا بصیرت امام ابوہمام الاثری: اللہ کی قسم میں آپ سے اللہ کی خاطر محبت کرتاہوں۔ اللہ تعالی طواغیت کے دلوں میں آپکا رعب ودبدبہ قائم ودائم رکھے اور مرجئہ کی زبانوں کے لئے آپکو لاجواب کردینے والی کاٹ دار تلوار بنائے رکھے ۔
ہمارے ہاں عراق میں مرجئہ لوگوں کے سامنے جب کبھی بھی جہادو غزوہ کا مسئلہ بیان ہوتاہے تو یہ اسکو رد کریتے ہیں، اس حجت کی بناء پر کے ہم فتنے کے دور میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم فتنوں سے کنارہ کشی اوردوری اختیار کریں۔اپنے اس نظریہ پر وہ احادیثِ فتن سے استدلال کرتے ہیں۔ اس شبہے کے ذریعے سےان لوگوں نے بہت سے نوجوانوں کو جہاد ترک کرنے پر اکسایا ہے۔
ہم آپ سے اس شبہے کا لاجواب رد کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ ہمارے محبوب شیخ!اللہ آپکوجزائے خیرعطافرمائے۔
سائل: داحر الطواغیت
جواب: منبر کی شرعی کمیٹی
میں اس ذات کی خاطر آپ سے محبت کرتاہوں کہ جس کی خاطر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔
میرے سائل بھائی !
یقیناَ اللہ اور اسکے رسول کےحکم پر لبیک کہتے ہوئے سرکشوں، حملہ آوروں اور ان کے مددگاروں کے خلاف جہاد کرنا فتنہ نہیں بلکہ فتنہ تو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )النور: 63)
"رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے "
اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک مرفوع حدیث ذکر کی ہے جس میں ہے کہ:
(ألا وإنه يُجَاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال، فأقول: يا رب أصيحابي، فيقال: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك..) )الحديث(
" خبردار میری امت کے کچھ نوجوان آئیں گے تو انہیں جانب شمال سے پکڑ لیا جائےگا تو میں کہوں گا اے میرے پرودگار! یہ میرے امتی ہیں تو کہاجائےگا آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلیں تھیں"۔
امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں کتاب الفتن میں ذکر کیا ہے(یہ ان کی طرف سے اشارہ ہے جیساکہ اپنے تراجم ابواب میں ان کی عادت ہے)دین میں نئے کام ایجاد کرنا، دین کوبدل دینا اور اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرنا فتنوں کا سب سے بڑاسبب اوروہ اس کی ایسی بنیاد ہے جو زمانہ قدیم اوردورجدید میں بھی ہے۔
میرے سائل بھائی جان لیں کہ جہاد جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ،فتنہ نہیں جیساکہ جہاد کوچھوڑنے والے کہتے ہیں بلکہ جہاد کو ترک کرنا فتنہ ہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا )الفاضحة: 49)
" ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ "مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے۔ سن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں ۔"
جہاد فتنہ کودور کرنے کاشرعی طریقہ ہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (193) )البقرة(
" تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں ۔"
نیز فرمایا:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (39) )الأنفال(
" (اے ایمان لانے والو!) تم ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے۔ "
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"الجهاد وإنفاق الأموال؛ قد تكون مضرة، لكن لما كانت مصلحته راجحة على مفسدته؛ أمر به الشارع".اهـ )مجموع الفتاوى 1/265)
"جہاد کرنا اور مال خرچ کرنا کبھی کبار باعث نقصان ہوتاہے لیکن چونکہ اس کی مصلحت (فائدہ) اسکی خرابی پر مقدم ہے۔ تو شریعت نے اس کا حکم دیاہے۔ (مجموع الفتاوی 1/265)
اسی طرح آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
"الجهاد؛ هو دفع فتنة الكفر، فيحصل فيها من المضرة ما هو دونها".اهـ )مجموع الفتاوى 20/52)
"جہادفتنہ کفر کودور کرنےکانام ہے چنانچہ اس میں کچھ نقصان بھی ہوتاہے جوفتنہ کفر کے نقصان سے کم ہوتاہے"۔
"الشريعة تأمر بالمصالح الخالصة والراجحة، كالإيمان والجهاد، فإن الإيمان مصلحة محضة، والجهاد – وإن كان فيه قتل النفوس – فمصلحته راجحة، وفتنة الكفر أعظم فسادا من القتل، كما قال تعالى: (وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ) )البقرة: 217)".اهـ )مجموع الفتاوى 27/230)
"شریعت خالص اورراجح مصلحتوں کاحکم دیتی ہے جیساکہ ایمان وجہاد ۔چنانچہ ایمان خالص مصلحت ہے اورجہاد (اگرچہ اس میں جانوں کی ہلاکت ہے) تو اسکی مصلحت مقدم ہے اور فتنہ کفر قتل سے بڑافسادہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: "اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے۔"(مجموع الفتاوی27/230)
آپ رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
"(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ…) ، فأمر بالجهاد، وهو مكروه للنفوس، لكن مصلحته ومنفعته راجحة على ما يحصل للنفوس من ألمه، بمنزلة من يشرب الدواء الكريه لتحصل له العافية، فإن مصلحة حصول العافية له؛ راجحة على ألم شرب الدواء".اهـ )مجموع الفتاوى 24/279)
"تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔")البقرة: 216) لہذا جہاد کاحکم انسانی جانوں کے لئے ناپسند شے ہے لیکن اس کی مصلحت اوراس کا فائدہ جانوں کوملنے والی تکالیف پرمقدم ہے۔ اس شخص کی طرح جو بدذائقہ (کڑوی) دوا پیتاہے تاکہ اسے عافیت مل جائے تو اسے عافیت ملنےکی مصلحت دواپینے کی تکلیف پر مقدم ہے۔" (مجموع الفتاوی24/ 279)
اسی طرح آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:
"الله سبحانه إنما حرم علينا الخبائث لما فيها من المضرة والفساد، وأمرنا بالأعمال الصالحة لما فيها من المنفعة والصلاح لنا، وقد لا تحصل هذه الأعمال إلا بمشقة – كالجهاد والحج والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وطلب العلم – فيحتمل تلك المشقة ويُثاب عليها، لما يعقبه من المنفعة".اهـ )مجموع الفتاوى 25/282)
"اللہ تعالی نے ہمارے پر خبیث (گندی) چیزوں کوحرام قرار دیا ہے کیونکہ اس میں نقصان اورخرابی ہے ،اور ہمیں صالح اعمال کاحکم دیاہے کیونکہ اس میں ہمارے لیے فائدہ اور بہتری ہے۔ بسااوقات یہ اعمال صرف مشقت سے حاصل ہوتے ہیں (جیساکہ جہاد ، حج ،امربالمعروف ونھی عن المنکراور حصول علم) ہیں ۔اس مشقت کوبرداشت کیاجائے اور اس پرثواب حاصل کیاجائے کیونکہ اس میں فائدہ ہے"۔ (مجموع الفتاوی 25/282)
شیخ علامہ سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إذا عرفت أن التحاكم إلى الطاغوت كفر, فقد ذكر الله في كتابه: أن الكفر أكبر من القتل, قال: (والفتنة أكبر من القتل) )البقرة: 217) وقال: (والفتنة أشد من القتل) )البقرة: 191) والفتنة: هي الكفر؛ فلو اقتتلت البادية والحاضرة حتى يذهبوا, لكان أهون من أن ينصبوا في الأرض طاغوتاً, يحكم بخلاف شريعة الإسلام, التي بعث الله بها رسوله صلى الله عليه وسلم".اهـ )الدرر السنية 10/510)
"جب آ پ یہ جان چکے کہ طاغوت کی طرف فیصلہ لے جانا کفرہے تواللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بیان کیاہے کہ کفر قتل وغارت سے زیادہ بڑاہے جیساکہ اللہ نے فرمایا:
"فتنہ قتل سے زیادہ شدید تر ہے۔" فتنہ سے مراد کفرہے ۔پس اگر گاؤں والے اور شہروالے باہم لڑیں حتی کہ مرجائیں یہ اس سےہلکا اور معمولی ہے کہ لوگ زمین پر ایسے طاغوت کو نامزدکریں جو اس شریعتِ اسلام کے خلاف فیصلہ کرے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا ہے۔"(الدرر السنیہ10/ 510)
شیخ علامہ عبدالقادر بن عبدالعزیز (اللہ آپکو رہائی عطافرمائے) فرماتے ہیں کہ:
"ولا شك أن الضرر النازل بالمسلمين من تسلط الحكام المرتدين عليهم، وما في ذلك من الفتنة العظيمة، هذا الضرر يفوق أضعافا مضاعفة قتل بعض المسلمين المكرهين في صف العدو أو المخالطين له عن غير قصد حال القتال، إن كثيرا من بلدان المسلمين تسير في طريق الردة الشاملة من جراء هؤلاء، فأي فتنة أعظم من هذا، هذه فتنة تفوق ما يصيب المسلمين بالجهاد من قتل أو سجن أو تعذيب أو تشريد، قال تعالى: (وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ)، وقال تعالى: (وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنْ الْقَتْلِ). فيجب دفع المفسدة العظمى (فتنة الكفر والردة) بتحمل المفسدة الأخف (وهو ما يترتب على الجهاد من قتل وغيره) وهذا هو المقرر في القواعد الفقهية الخاصة بدفع الضرر، كقاعدة (الضرورات تبيح المحظورات) وقاعدة (يُتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام) وقاعدة (الضرر الأشد يُزال بالضرر الأخف) وقاعدة (إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا) وقاعدة (يُختار أهون الشرين) وغيرها".اهـ"
"بلاشبہ مسلمانوں پر مرتدین کے تسلط کی صورت میں انہیں پیش آنے والا نقصان اور اس میں موجود فتنہ عظیم کا نقصان قتال کی صورت میں دشمن کی صف میں زبردستی لائے گئے مسلمانوں یابغیر ارادے کے ان سے مل جل کر رہنے والے مسلمانوں کے قتل سے کئی گناہ زیادہ بڑھ کرہے۔ یقینا بہت سے مسلمان ممالک ان کی وجہ سے ہمہ گیر ارتداد کے راستے پرچل رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اورکیا فتنہ ہوسکتاہے۔ یہ فتنہ جہاد کی وجہ سے قتل ،قید وسزا اورجلاوطنی کی صورت میں مسلمانوں پر نازل ہونے والے مصائب سے زیادہ بڑاہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: " فتنہ قتل وغارت سے بڑاہے۔"
چنانچہ چھوٹی خرابی (جو قتل وغارت کی صورت میں جہاد کرنے کے نتیجے میں برآمد ہوتی ہے)کو برداشت کرتے ہوئے بڑی خرابی کو دورکرناواجب ہوتاہے اوریہ دفع ضرر(نقصان کودورکرنے) سے متعلق خاص فقہی قواعد میں مقرر ہےجیساکہ یہ قاعدہ "ضرورتیں ناجائز امور کو جائز کردیتی ہیں۔"اسی طرح یہ قاعدہ " کہ عام نقصان کو دور کر نے کے لئے خاص نقصان کو برداشت کیا جائے"۔
اس کے علاوہ یہ قاعدہ "کہ بڑے نقصان کا چھوٹے نقصان کےذریعے ازالہ ہوتاہے۔" علاوہ ازیں یہ قاعدہ " کہ جب دو خرابیاں آپس میں ٹکرائیں (متعارض ہوں) تو اس میں سے زیادہ نقصان دہ خرابی کودور کیاجائے۔" نیز یہ قاعدہ "دو برائیوں میں سے ہلکی ومعمولی کو اختیار کیا جائے"۔ (لعمدۃ فی اعداد العدۃ ص :320)
آخر میں میرے سائل بھائی آپ اور آپکے اردگرد رہنے والے لوگ جان لیں کہ آپ نے اپنے سوال کے اندر جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا، دراصل ان کا یہ کلام ہی فتنہ ہے پس آپ اسے ماننے سے انکاراور قتال کوترک کرنےوالے سے بچیں ۔اللہ ذوالجلال نے ہمیں اس طرح کے لوگوں سےآگاہ کیاہے چنانچہ ارشادباری تعالی ہے :
لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (47) لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (48) )الفاضحة(
" اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔"
لہذا جوشخص یہ فتوی دے کہ جہاد کرنا غیر مشروع ہے اس حجت سے کہ جہاد فتنہ ہے یاہم فتنوں کے دور میں ہیں یامجاہدین فتنوں میں مبتلا ہیں تو وہ مفتی نہیں مفتن (فتنے میں مبتلاہے)۔
صحیح مسلم میں صحیح روایت موجودہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ :
(من قال هلك الناس فهو أهلكهم)
"جوشخص یہ کہے کہ لوگ ہلاکت میں پڑگئے تووہ ان میں سب سے زیادہ ہلاکت میں ہے۔"
میرے سائل بھائی کیاہی خوب ہوگاکہ آپ کسی کہنے والے کی یہ مثال پیش کریں کہ:
سأغسلُ عنّي العارَ بالسيفِ جالباً *** عليَّ قضاء اللهِ ما كانَ جالباً
وأذهل عن داري وأجعلُ هدمها *** (لديني) من باقي المذمَّةِ حاجباً

مفہوم اشعار:

میں اللہ تعالی کے ہرفیصلے پرراضی ہوتےہوئے عنقریب تلوار سےاپنے عیب کو دھو ڈالوں گا اور عنقریب اپنے گھر سے بے پرواہ ہوکر دین کی خاطر اس کے منہدم ہوجانےکو دیگر برائیوں کے لئے رکاوٹ بنادوں گا۔
اللہ تعالی سے دعاہے کہ وہ آپکی مدد فرمائے اورآپکے ذریعے اسلام ومسلمانوں کی مدد فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
جواب منجانب: شیخ ابوہمام بن عبدالعزیز الاثری
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد
ڈاؤن لوڈ کریں:

مکمل تحریر  »

جہادی قیادت کے شہید ہوجانے کے پیچھے اللہ تعالی کی حکمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جہادی قیادت کے شہید ہوجانے کے پیچھے اللہ تعالی کی حکمت

شیخ ابوسعد العاملی حفظہ اللہ

القاعدہ کےقائدین کی شہادت ۔۔۔۔ ایک سنت اور قاعدہ ہے۔

ترجمہ :انصار اللہ اردو ٹیم

الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات وتنجلي الكربات ، القائل {وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ}، والصلاة والسلام على إمام المجاهدين القائل "لوددت أني أجاهد فأُقتل ثم أجاهد فأُقتل ثم أجاهد فُقتل لما للشهيد من درجة عند الله"، ثم أما بعد:
تمام تعریفیں اس ذات کے لیےہیں جس کی نعمت ہی سے نیک کام مکمل ہوتے ہیں اورمصیبتیں چھٹتی ہیں۔جو فرمانے والا ہے: "اللہ ایمان والوں کو متمیز کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے۔"، اوردرود وسلام ہو مجاہدین کے پیشوا پر جو فرماتے ہیں:
"میرا جی چاہتا ہے کہ جہادکروں پھرقتل کیا جاؤں پھرجہادکروں پھر قتل کیاجاؤں پھر جہاد کروں پھرقتل کیاجاؤں کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں شہید کابڑامرتبہ ہے۔" امابعد :
بلاشبہ اللہ عزوجل نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیداکیا۔ اس نے عبادت کو نہایت اعلیٰ طریقوں سےاوربہت پاکیزہ طورپرسرانجام دینے کےلئے بہت سے راستے اورذریعے مقرر کئے۔اسی طرح اس نےاپنے بندوں پر جہاد جیسی عبادت فرض کی تاکہ اُن تمام رکاوٹوں کوختم کیاجاسکے جو اُس کی عبودیت کی تکمیل میں آڑے آتی ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:
{وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ }
"اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ( کفروشرک) باقی نہ رہے اور دین سب اللہ ہی کے لیے ہوجائے ۔" )الأنفال:8 -:39)
جہادی کارروائی کے دوران اللہ تعالی نےظلم کرنے کاحکم نہیں دیا :
{وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ} )البقرۃ٢:١٩٠)
"اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔"
لیکن اس کے بالمقابل اللہ تعالی نے دین الٰہی کی مدد کےلئے قتال شروع کرنے کاحکم دیاہےجسے جہاد الطلب کہاجاتاہے اورصرف دفاعی جہاد پر جس میں اسلام اورمسلمانوں کے مقدسات کا دفاع ہوتاہے، اکتفا نہ کرنے کا کہاہے، چنانچہ وہ فرماتا ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ}) التوبة٩: ١٢٣)
"اے اہلِ ایمان! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔"

كتب عليكم القتال وهو كره لكم:

جی ہاں لڑنا نفس پر ناگوار گزرتاہے کیونکہ وہ توچاہتا ہےکہ اسے ہزار سالہ زندگی مل جائے۔انسان اپنی جان کویہ امیدیں دلاتاہے کہ وہ لوگوں میں خیر پھیلانے کے لیےاوران کی اصلاح کی خاطر زندہ رہناچاہتاہے۔ اس کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ کوئی اس کے سامنے موت کا تذکرہ نہ کرے، اس لیے کہ اسے یہ ڈرہوتا ہے کہ وہ جو پُرکیف زندگی کی بہاریں گزار رہاہے کہیں وہ مکدّر نہ ہوجائے۔اللہ تعالی نے ، جونفسوں کا خالق اوران سے باخبر ہے، اس حقیقت کوخود بیان کیاہے:
{أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}(٦٧:١٤)
"بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے۔ "
وہ فرماتاہے:
{كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ}
"(مسلمانو) تم پر (اللہ کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے جبکہ وہ تمہارے لیے ناگوار ہے۔"(البقرۃ۲ :۲۱۶)
نفس سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتاہے، وہ موت ہے ۔موت سے کم تر ہر چیز نفس پر اس کی نسبت آسان ہے۔ نفس کسی حد تک موت کو برداشت کرسکتاہے۔لیکن جہادی معرکے میں جو موت ہے وہ عام زندگی والی موت نہیں۔جس کا انسان سامناکرتاہے بلکہ یہ جنت میں ہمیشہ رہنے کےلئے ایک دروازہ اورایسا پُل ہے جسے مؤمن اس لئے پار کرتاہے تاکہ وہ ایک ایسا خصوصی أجروثواب حاصل کرسکے کہ رب العزت نے اس پردیگرجوعبادات فرض کی ہیں ان میں ایسے أجروثواب کا ملناممکن نہ ہو۔
یہ شہید ہوتاہے یا اللہ کے راستے میں شہادت ہے ۔یہ ایک ایسی موت ہے جس کی تمنا انبیاء کرام اورپیغمبر کرتے آئے ہیں اورا ن میں سب سے بڑھ کر نبی سیدالمرسلین محمد بن عبداللہ علیہ افضل الصلاۃ واز کی تسلیم ہیں جنہوں نے خود شہادت کی تمناکی۔

قتال اس اُمت پرفرض ہے: عام سپاہیوں پربھی اورقائدین پربھی:

بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پرلڑنا فرض کیاہے تاکہ وہ اپنے دین کی حفاظت کرسکیں اور اس کی شریعت کوپھیلاسکیں۔یہ لڑنا صرف مال ، عزت اورجان کے دفاع کی خاطر نہیں۔ جس طرح کہ آج کل بعض لوگوں کا خیال ہے۔ اس طرح کہ انہوں نے جہاد کو ایک تنگ مفہوم میں منحصر کردیا ہے جودفاعی جہاد ہے اوریہ مفہوم کتاب وسنت کے نصوص کے مخالف ہے:
{ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ}
"اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ " (التوبۃ:9 -:111)
جہاد اللہ تعالی نے ہم پرشرعاً فرض کیاہے ۔یہ موجودہ حالات میں بھی فرض ہے کیونکہ دشمن ہمارے دروازوں پر ہیں،ہماری زمینوں میں فساد مچارہے ہیں اورہمارے لوگوں کوذلت ورسوائی سے دوچارکررہے ہیں۔۔ کسی عاقل کے لئے بھی یہ روانہیں ــ چہ جائیکہ وہ اللہ ،رسول اورروز آخرت پرایمان رکھتاہو ــ کہ وہ اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کے سامنے زبان اورہاتھ روک کر تماشائی بنا بیٹھارہے۔ اس کا کم از کم یہ فرض بنتاہے کہ وہ اپنے رب کی اس پکار پر لبیک کہتےہوئے اٹھ کھڑاہوجائے :
{انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ}
"تم سبکبار ہو یا گراں بار ( مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت، گھروں سے) نکل آؤ۔ اوراللہ کے رستے میں مال اور جان سے لڑو۔" ( التوبۃ:9 – 41)
وہ اپنے آپ کو اپنے رب عزوجل کی اس وعید سے بچالے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ} )التوبة٩: ٣٨)
"مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں ۔"

شہادت ہی سب سے بلند مقصدہے:

جلدیابدیر تمام لوگوں کومرناہے ۔لیکن موت کےاسباب مختلف ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہےکہ جو ہرلحظۂ زندگی میں پیش آتی ہے لیکن ہم اس سے غفلت برتتے ہیں اور اس کو نہیں سمجھتے ــ إلا من رحم الله ــ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس موت کی حقیقت سے واقف ہوئےہیں اور اس کی حقیقت کو سمجھ چکے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہےکہ ان کی موت یکتا اورانوکھی ہو۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی یہ موت دنیا وآخرت میں رفعت وبلندی کا دروازہ بن جائے۔ مؤمن نصرت،فتح اوردین کاغلبہ تلاش کرتاہے۔اس کی یہ تمناہوتی ہےکہ وہ ایسی خلافت راشدہ کی حکومت کے سائے میں زندگی گزارے جس میں رحمٰن کی شریعت کے مطابق فیصلے ہوتے ہو ۔ جب اس مقصد میں وہ کامیاب نہ ہوسکے تو اس کا دوسرا ہدف یہ ہوتاہےکہ وہ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت حاصل کرلے ۔گویا یہ اس کی پہلی نیت کوعملی جامہ پہنانے کی ایک دلیل ہوتی ہے۔
وہ اس کے ذریعے سےآخرت میں ایسا ثواب اوراللہ تعالی کی ایسی رضاحاصل کرناچاہتاہے جسے شہداء کے علاوہ کوئی حاصل نہیں کرسکتا۔

قائدین کمانڈربننے سےپہلےعام سپاہی ہوتے ہیں:

مؤمن ابتداء ہی سے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتاہے۔اس کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ ایسے اعمال آگے بھیجے جواسے اللہ کےقریب کردیں اوراس کے نواہی اور محرمات سےاسے دور کردیں۔ اسے اس بات کی کوئی پریشانی نہیں کہ یہ مقصدکسی بھی محاذ پرحاصل ہو ۔ اس کے لئے یہی کافی ہےکہ جہاں اللہ تعالی نے اسے حکم دیاہے یہ وہاں ہو اور جہاں سے روکاہے یہ وہاں نہ ہو ۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی نفسانی خواہشات کو توڑنے اور ذاتیات کو روندنے پرصحابہ کرام کی تربیت کی ہے۔اس چیز کو ہم نے شریعت کے اس طریقے میں پاتے ہیں جوطریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم أجمعین کےساتھ اپنایا تھا۔ اس کے باوجود کہ ان کی ایمانی سطح ایک جیسی نہیں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیحد خواہش اورترغیب ہوتی تھی کہ صحابہ کرام کے اعمال اللہ کے لئے خالص ہوجائیں تاکہ اللہ تعالی کے ہاں ان کے ثواب محفوظ رہے۔ بنابریں ہم دیکھتےہیں کہ آپﷺ کسی صحابی کو غزوے یادستےیامہم میں قائد بنادیتے اوراکثر اوقات اسے کسی اورصحابی کے زیرِ قیادت عام سپاہی بنادیتے۔ اسی طرح باقی سارے صحابہ کےساتھ کرتے تھے تاکہ انکو عہدوں سے سروکارنہ رہے اوراخلاص کی تعلیم ملے۔اس کے مقابلے میں صحابہ کرام کامل اطاعت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر کی بجاآوری کرتے ۔ وہ مسؤلیت سےبھاگتے تھے اوراسےاپنے سروں پر ایک مصیبت سمجھتے تھے۔ اس وقت کی جہادی جماعتوں میں ،خاص کرقاعدۃ الجہاد میں، ہم ان منفرد مثالیں دیکھ سکتےہیں ۔آپ دیکھیں گے کہ بھائی کس طرح قائدین کےاحکام پر لبیک کہتے ،ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اورہر قسم کی ریاکاری وشہرت کےمظاہر سےدوررہتے ہیں۔ان کی انتہائی تواضع ، خودکو گرانے اور نفسانی خواہشات کوکچلنے کی وجہ سے مسئولیت کے عہدوں پر بھی آپ ان میں اورباقی بھائیوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرسکیں گے۔

قیادت عام سپاہیوں کی بنسبت دشمن سے زیادہ قریب ہوتی ہے:

اسلام کے عرف عام میں ایک قانون ہےکہ جوجاہلی قوانین سےمختلف ہے۔بالخصوص یہ کہ قائد اپنے سپاہیوں کے ساتھ تعامل اورطرزعمل اور اسی طرح ان تصرفات اورحرکات میں جوقائدین کے ساتھ امن وجنگ کے عرصے میں مخصوص ہیں، وہ عام سپاہی کے برابر ہیں۔ہم اس کے بالمقابل مادہ پرست جاہلی معاشروں میں دیکھتے ہیں کہ ان کے قائدین بہت سے حفاظتی پہروں اورزبردست حصار میں گھرے ہوئے ہوتےہیں۔ تاکہ وہ ہمیشہ اپنے ماتحتوں اور اپنے دشمنوں کے سامنے ایک جیسی بلند اوراونچی پوزیشن میں رہے جبکہ انکی حقیقت اور قدروقیمت اس سے بہت کم تر ہے جووہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ معرکوں کی سختی اورہرقسم کے خطروں سے دوررہتے ہیں، جبکہ ایمانی معاشروں میں ،خاص کرجہادی معاشرے میں یہ قاعدہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ مسلمان قائد ہمیشہ اگلے صفوں ہی میں لڑتے ہیں،دین کی نصرت کی راہ میں وقت اور مال خرچ کرنے اورقربانی دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
یہ ایک دائمی سنت ہے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قیامت تک ایمانی معاشرے میں چلی آرہی ہے۔ قائدین اللہ کی اطاعت اوراپنے ماتحت افرادکی خدمت کی طرف اس سے کہیں زیادہ دوڑتے ہیں جوکفار کے سپاہی اپنے سربراہوں کی خدمت کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے دوڑتے ہیں۔ قائدین اپنے اردگرد لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہوتے ہیں ۔ان پر سب سے پہلافرض یہ ہوتا ہے کہ وہ سختی اورآسانی ہروقت صفوں میں سب سے آگے ہوں تاکہ لشکرکے عام لوگ قربانی دینے کےزیادہ خواہشمند ہو اوران کی زیادہ اطاعت کرنے والے ہوں۔
یہاں ایک معروف مقولہ ہےکہ جوموجودہ دور کے جہادی قائدین میں سے کسی کا ہے ، شاید یہ ابوأنس شامی تقبلہ اللہ کامقولہ ہے جو دونہروں والے بلاد(عراق) میں تھے :
"كن أَمامي تكن إِمامي"
"میرے آگے رہو (تو) تم میرے امام بن جاؤگے
قائدین پرلازم ہےکہ وہ اپنے ماتحتوں کوجوحکم دیتے ہیں، خود سب سےپہلے اسےبجالانے والے ہوں:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ} )الصف٦١ :٢)
"مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے ہو ۔"
{ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ} )الصف٦١ :٣)
"اللہ کے ہاں ناراضگی کے اعتبار سے یہ بات بہت بڑی ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ہو ۔"

دشمن پہلے قیادت کونشانہ بناتاہے:

{وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ}
"اور (اے محمدﷺ اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں ۔"( الأنفال:8 – 30 )
یہ ایسی قرآنی حقیقت ہے جس کی ہم موجودہ صورتحال میں عملی تطبیق دیکھتے ہیں۔ دشمن قائدین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بہت جدوجہد کرتے ہیں اوران تک پہنچنے، انہیں شہید کرنے،انکو پکڑنے، کمزورترحالات میں ان کا محاصرہ کرنے یا ان کو جلا وطن کرنے کے لیے بہت وسائل خرچ کرتے ہیں۔
یہ ایسی حالت ہےجوجہادی قائدین ہر جگہ پر ہمارے اوردشمنوں کےدرمیان جاری کشمکش کے اس مرحلے میں گزاررہے ہیں ۔ ہم ابھی تک قرب ظہور اورخلافت راشدہ یااسلامی مملکت کی بنیادی اینٹیں رکھنے کے مرحلے میں ہیں ۔یہ طبعی بات ہےکہ قائدین اوراسی طرح عام سپاہی بھی اس صورتحال میں رہے جو بظاہر آرام دہ نہیں لیکن جہاد کے مستقبل کے لیے بہت مثبت ہے۔ اس طرح کہ اس کی وجہ سے مجاہدین اپنے تمام تروسائل استعمال کریں گے اورمکمل ہوشیار رہیں گے برخلاف خوشحالی کے جس میں ہمتیں بہت پست پڑجاتی ہیں، مجاہدین کی طرف سے احتیاط کادرجہ بہت کمزور پڑجاتاہے اور بے احتیاطی ادنی سطح تک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح ان کے دشمنوں پر انہیں محدود کرنے کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔
پس سختی،ناکہ بندی اورتنگی اللہ تعالی کی طرف سے اپنے مجاہدین بندوں پرنعمتیں ہیں تاکہ انکے نفس ہوشیاررہیں،انکی ہمتیں بلند رہیں اورانکی احتیاط اعلی درجہ کی سطح پرہو۔ یہ چیزیں مدد کے اہم ترین اسباب اورشکست سے بچنے کے ذرائع ہیں۔
ہمارے قائدین دوسروں کے علاوہ کہیں زیادہ نشانے پرہیں۔وہ خود بھی اپنے کردار سے اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پرنقل وحرکت کرتے ہیں۔ وہ قوت کےحصول کے اسباب میں سے کسی بھی سبب کونہیں چھوڑتے اور نہ ایسا کوئی شگا ف باقی رہنے دیتے ہیں جس سے وہ اللہ کا تقرب حاصل کرسکتے ہیں۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگرانہیں کوئی آزمائش آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے مقدر کردہ ہے اور اس کو قبول کرنا ،اس پر ایمان لانا بلکہ اس پرراضی رہنا ضروری ہے۔

قائدین کی شہادت سے جہاد کوتقویت ملتی ہے:

یہاں سے ہمارے سامنے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہےکہ اس دین کےاندرا للہ تعالی کی لازمی حکمت میں سے یہ ہے کہ اسکے راستے میں مال خرچ کرکے اور جان دیکر اس کی قیمت چکائی جائے ۔یہاں نفسِ جان سے بڑھ کر کوئی ایسی مہنگی چیزنہیں جسے مؤمن اپنے رب تعالی کے سامنے پیش کردے،اسکے ذریعے سے وہ اعلی درجات اوربلند مقامات حاصل کرسکے۔
{لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ}
"(مومنو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (راہِ الہی میں) صرف نہ کرو گے۔" ( آل عمران:3 – 92)
یہ چیز ایک مجاہد فرد کےلئے یاپوری مجاہد جماعت کے لئے برابر ہےکیونکہ قربانی پیش کرنا ضروری ہے تاکہ ہم ایک طرف اپنے ایمان کی سچائی پردلیل پیش کرسکیں اوردوسری طرف وہ اجروثواب حاصل کرسکیں جس کے وہ منتظر ہوتے ہیں ۔
{يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ. وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ}
’’وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تم کو جنت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں اور پاکیزہ مکانات میں جو ہمیشہ کی بہشت میں ہیں داخل کرے گا یہی بڑی کامیابی ہے۔اور ایک اور چیز جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی) تمہیں اللہ کی طرف سے غلبہ نصیب ہو گا اور فتح عنقریب ہو گی اور مومنوں کو اسکی خوشخبری سنا دو۔ ‘‘ ( الصف:61 –12۔۱۳)
پس واضح مدد اورقریبی فتح جس کا مؤمن انتظارکررہے ہیں ، وہ شہادت کے بغیر کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔خاص کر قیادت کی شہادت کے بغیر ان فتوحات کا آنا توعقل کے منطق کےخلاف ہے کیونکہ مدد اورغلبہ کی بات کیسے کی جاسکتی ہےجب جہادی قائدین لڑائی سے غائب ہوں، جو مجاہدین کی جماعت کو فتح حاصل کرنے تک اوراس کے بعد بھی قیادت کرتے ہیں!!!
لیکن جہادی دنیا میں یہ قانون مختلف ہوتاہے ۔وہاں موجود قائدین صرف ایک پُل کی طرح ہوتےہیں جس کے اوپر سےحق کے لشکر گزرتے ہیں ۔یہ جہادی قائدین ایسےایندھن ہیں جس سے بہت جلد ایسی نئی قیادتیں نکلتی ہیں جو علم کے لحاظ سے اورنقصان پہنچانے کے اعتبارسے اپنی سابقہ قیادتوں سےبڑھ کرہوتی ہیں،کیونکہ انہوں نے وہ علم اور جہادی تجربات جمع کرلیے ہیں جواس سے پہلے سابقہ قیادتوں کے پاس تھے۔ بلاشبہ یہ دونوں چیزیں جہادی معاشرے کےلئے ایک مضبوط پوائنٹ اورجہادی کارواں کے تسلسل کو جاری رکھنے کی ضامن ہے۔
اس سے ان شہداء کوفائدہ حاصل ہوجاتاہے جنہوں نےا پنا وعدہ پوراکیا ــ جس کی خاطروہ جہاد کرتے تھےــ وہ اس کو پالیں گے اوروہ شہادت ہے۔ اسی وقت یہ جہادی معاشرے کو مضبوط بنانے ، ثابت قدم رکھنےاوراس تسلسل کو جاری رکھنے کا باعث بنتاہے۔اسی طرح دشمن کی وہ توقعات ناکام پڑجاتی ہیں جن کی تکمیل کا وہ ان قائدین کی شہادت کےذریعے انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ جہادی معاشرے کواسکے ذریعے سے ایسی قوت اورتجربہ حاصل ہوتاہے جس سے قیادت کے فقدان کی کچھ بھی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
یہ اللہ تعالی کے میزان میں شہادت کی حقیقت ہے اوریہ ایک عجیب ذاتی طاقت ہے جسے مجاہدین اپنے قائدین کے عالم اخروی کی طرف انتقال سے حاصل کرتےہیں، جواپنے پیچھے تجربات کا ایساخزانہ چھوڑ دیتے ہیں جو اپنے بعد والوں کے لئے مشعل راہ بنتاہے اوردشمن کی امیدوں اوردلوں پرآگ لگادیتاہے۔
ڈاؤن لوڈ کریں:

مکمل تحریر  »

Thursday, November 17, 2011

e


صحابہ کے عہد اور خیر القرون کے بابرکت زمانے تک سیدھا سادہ مطابق فطرت دین تھا۔ واضح عقائد اور خلوص اور بے ریائی کی عبادت تھی، اصول و اعتقادی مسائل میں کبھی کوئی شخص عقلی شک و شبہ ظاہر کرتا بھی تو قرآن و حدیث کے احکام و نصوص بتا کر خاموش کردیا جاتا، نہ کسی کا عقیدہ بدلتا اور نہ کسی کے زہد و تقوی میں فرق آتا۔ مگر تعلیمات نبوت کا اثر جس قدر کمزور ہوتاگیا۔ اسی قدر وسوسہ ہائے شیطانی نے قیل و قال اور چون و چراکے شبہے پیدا کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ واصل بن عطا ، ، عمرو بن عبید جیسے عقل پرست لوگ سامنے آئے۔ یہ لوگ معتزلہ کے نام سے مشہور ہوئے۔جب ہارون و مامون کے عہد میں فلسفہ یونان کی کتابیں بہ کثرت ترجمہ ہوئیں تو معتزلہ کو اپنے خیالات و شبہات کے لیے فلسفی دلیلیں مل گئیں اور انہوں نے ایک نیا عقلی اسلامی فن ایجاد کیا جس کا نام علم " کلام" قرار دیا۔۔ ان لوگوں نے دینی عقائد واحکام میں عقل کو معیار بنایا اور مبہا ت اور مخفی علوم میں اپنی عقل لڑا کر تشریحات اور تاویلیں کرنی شروع کردیں۔معتزلہ کی اس عقلیت پسندی سے قرآنی ہدایت کے نتیجہ خیز ہونے کااعتمادزائل ہونے لگا، جن مسائل کا حل صرف وحی سے میسر آسکتا تھاان کا حل انسانی شعور اور عقل سے تلاش کرنے سے وہ وحی کی ہدایت سے محروم ہوگئے۔یوں وحی کے ساتھ نبوت کی احتیاج بھی ختم ہوتی ہوئی نظر آئی ،تاویل کا فن حیلہ طرازیوں میں تبدیل ہونے لگا،ذات باری سے متعلق مجرد تصور توحید نے جنم لیا،ظاہر شریعت اورمسلک سلف کی علمی بے توقیری اور ان پر بے اعتمادی پیدا ہونے لگی،قرآن مجید کی تفسیراورعقائداسلام،ان فلسفی نمامناظرین کے لیے بازیچہٴ اطفال بنے جارہے تھے،مسلمانوں میں ایک خام عقلیت اورسطحی فلسفیت مقبول ہورہی تھی، یہ صورت حال دینی وقاراورسنت کے اقتدار کے لیے سخت خطرناک تھی ۔شروع میں علما نے وہی طریقہ تعلیم رکھا کہ علوم وحی سمجھ آئیں یا نہ آئیں ہم نے ان پر غیبی ایمان اور اعتقاد رکناا ہے۔ لیکن جب فسا د ذیادہ بڑھنے لگا اور معتزلہ کی عقلی دلیلوں اور وساوس نے عوام کے ساتھ حکمران طبقہ کو بھی متاثر کر لیا اور مامون رشید، معتصم بااللہ، متوکل علی اللہ، واثق بااللہ جیسے حکمران بھی معتزلہ کے مسلک کو اختیار کرگئے تو علما نے مجبورا ان معتزلہ کے ساتھ عقلی مباحثے اور مناظرے شروع کیے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل، امام ابوالحسن اشعری، ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ جیسے لوگ سامنے آئے اور معتزلہ کی ہر دلیل کا جواب دیا ، امام احمد بن حنبل کے فتنہ خلق قرآن کے مناظرے مشہور ہیں جن میں معتزلہ کو بری طرح شکست ہوئی ۔
بعد میں معتزلہ مختلف فرقوں اور ناموں سے مشہور ہوئے مثلاواصلیہ، ہذیلیہ ، نظامیہ وغیرہ ۔انگریز برصغیر میں آئے تو مختلف خوشنما اصطلاحیں اور نام متعارف کروائے گئے، اعتزال نےبھی ایک نئے خوبصورت نام سے دنیا کو اپنی صورت دکھائی ،چنانچہ بے دینی، الحاد اور عقل پرستی کو روشن خیالی کا نام دیا گیا اور اسکے نام پر تاریک ضمیری‘ ضمیر فروشی اور جمہور علماء کی راہ سے انحراف کیا جانے لگا ۔ آج بھی روشن خیال سارا زور اس پر خرچ کررہے ہیں کہ دینی عقائد واعمال کو یا عقل کے ترازو میں پیش کردیں‘ ورنہ کوئی توجیہ اپنی طرف سے کرکے اصل حکم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔
برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد :۔
انگریزوں کو برصغیر میں اپنا قبضہ جمانے کے دوران سب ذیادہ علما اور دیندار طبقے کی طرف سےمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے انہوں نے عوام میں دین اسلام کے بارے میں کنفیوزین پیدا کرنے والے لوگوں کی بھرپور سپورٹ کی ۔ اور چند لوگوں کو خصوصی طور پر منتخب کیا گیا۔ ایک مرزا احمد کو کچہری سے اٹھایا منصب نبوت پر بٹھا دیا، ایک اور سید احمد کو کلرکی کے درجے سے ترقی دی اور سرسید احمدخان بنا دیا۔ مرزا غلام قادیانی نے جھوٹی نبوت کا سہارا لے کر جہاد کا انکار کیا اور سر سید احمد خان نے نا صرف احادیث، معجزات‘ جنت‘ دوزخ اور فرشتوں کے انکار پر گمراہ کن تفسیر اور کتابیں لکھیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو دینی تعلیم کے مقابلے میں فرنگی نظام تعلیم سے متعارف کروایا۔ دونوں انگریزوں سے خوب دادِ شجاعت لے کر دنیاوی مفاد حاصل کئے اور اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کرگئے ۔
سرسید کے مذہب پر ایک نظر
تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان سے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سرسید کا عقیدہ کیا تھا ؟ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ سرسید احمد تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے۔
ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے۔
تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے۔

سرسید کو موجودہ دور کا روشن خیال طبقہ نئے دور کا مجدّد اور مسلمانوں کی ترقی کا راہنما سمجھتے ہیں، ذیل میں سرسید کے افکار پر کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ کےلیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ سرسید بھی حقیقت میں معتزلہ کے اسی سلسلہ کا فرد تھا اوراور اس کے روحانی شاگرد’ روشن خیال مذہب کے موجودہ داعی ڈاکٹر، فلاسفر، دانشور، پروفیسر ٹائپ لوگ بھی معتزلہ کے اسی مقصد یعنی دین میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور لوگوں کا ایمان چوسنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے معاشرہ کا تھوڑا پڑھا لکھا اور آزاد خیال طبقہ ان کو اسلام کا اصل داعی سمجھ کر انہی کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔
1 - سرسید کی چند تصنیفات :۔
سرسید نے اسلام کے نام پر بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کیں۔ ایک خلق الانسان( انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ یوں قرآن وسنت کی نصوص کا منکر ہوا)، اسباب بغاوت ہند (۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور انگریز سامراج کے مخالف علما اور مجاہدین پر کھلی تنقید کی)، تفسیر القرآن (پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے جو درحقیقت تحریف القرآن ہے۔ سرسید لکھتے ہیں
”میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہئے“۔ (تفسیر القرآن: ۱۹ ص:۲)
چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اسلام کے نام پر اپنے ملحدانہ نظریات سے فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں۔
خود سرسید کے پیرو کار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالی‘ مؤلف مسدس (وفات دسمبر ۱۹۱۴ء) تحریر فرماتے ہیں کہ:
” سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں“۔
(حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۱۸۴)
2 - سرسید کی عربی شناسی:۔
غزوہٴ احد میں نبی اکرم ا کے سامنے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا تھا‘ چنانچہ علامہ ابن کثیررحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
”وان الرباعیة التی کسرت لہ علیہ السلام ہی الیمنیٰ السفلیٰ“ (السیرة النبویة ج:۳‘ ص:۵۷)
ترجمہ:․․․”نبی علیہ السلام کے سامنے کا داہنا نچلا دانت مبارک شہید ہوا تھا“۔
فن تجوید وقرأت کے لحاظ سے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو رباعی کہتے ہیں‘ جیسے لغت کے امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
رباعی کا لفظ ثمانی کی طرح ہے یعنی سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک۔(لسان العرب ج:۸‘ ص:۱۰۸)
سرسید نے رباعی کا لفظ دیکھ کر اسے اربع (چار) سمجھ لیا ہے اور حکم لگا دیا کہ آپ کے چار دانت شہید ہوئے تھے“۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”آنحضرت کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۴‘ص:۶۴)
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص رباعی اور اربعہ میں فرق نہیں کرسکا اس نے قرآن کی تفسیر لکھنے میں کیا گل کھلائے ہوں گے۔
3 - قرآن کی من مانی تشریحات :۔
سرسید نے معتزلی سوچ کے مطابق دین اسلام کو عقل کی ترازو میں تول کر مسلماتِ دین کا انکار کیا اور قرآن کریم میں جہاں معجزات یا مظاہر قدرت خداوندی کا ذکر ہے‘ اس کی تاویل فاسدہ کرکے من مانی تشریح کی ہے۔
پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:” یہود سے جب عہد وپیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا“۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سرسید اس واقعہ کا انکار کرتاہے اور لکھتاہے:
”پہاڑ کو اٹھاکر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا‘ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے رہے تھے کہ وہ ان کے سروں پر گر پڑے گا“۔
سرسید نہ صرف آیت کی غلط تاویل کرتا ہے بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مفسرین کا مذاق بھی اڑاتاہے۔ وہ لکھتاہے:
”مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب وغریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر عجائباتِ دور ازکار کا ہونا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے‘ اس لئے انہوں نے تفسیروں میں لغو اور بیہودہ عجائبات (یعنی معجزات) بھر دی ہیں‘ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہِ سینا کو خدا ان کے سروں پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتاہوں‘ یہ تمام خرافات اور لغو اور بیہودہ باتیں ہیں“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص۹۷تا۹۹)
کوئی سر سید سے یہ پوچھے کہ آتش فشانی اور پہاڑ کے لرزنے کا بیان اس نے کس آیت اور کس حدیث کی بناء پر کیا ہے۔ اس کے پاس کوئی نقلی ثبوت نہیں ہے یہ اس کی اپنی عقلی اختراع ہے ہم اس کے جمہور مفسرین کے مقابلے میں ایسی عقل پر دس حرف بھیجتے ہیں۔
بریں عقل ودانش بباید گریست
4 - جنت ودوزخ کا انکار :۔
تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت ودوزخ حق ہیں اور دونوں پیدا کی جاچکی ہیں۔ خود قرآن پاک سے یہ ثابت ہے ارشاد خداوندی ہے:
”وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات والارض اعدت للمتقین“ (آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ:․․․”اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“ ۔
دوزخ کے پیدا کئے جانے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
”فاتقوا النار التی وقود ہا الناس والحجارة اعدت للکافرین“ (البقرہ:۲۴)
ترجمہ:․․․”پس ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“۔
سرسید جنت ودوزخ دونوں کے وجود کا انکار کرتا ہے وہ لکھتا ہے:
”پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں‘ قرآن سے ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۳۰)
وہ مزید لکھتاہے:
”یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے‘ اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں‘ دودھ وشراب وشہد کی نالیاں بہہ رہی ہیں‘ ہرقسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے․․․ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے‘ اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“۔ (نعوذ باللہ) ایضاً ج:۱‘ص:۲۳)
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کسی قرآن پڑھنے والے سے مخفی نہیں، مگر سرسید نے نا صرف ان کا صاف انکار کیا بلکہ مذاق بھی اڑایا اور شراب خانوں کو جنت سے ہزار درجے بہتر قرار دیا۔
5 - بیت اللہ شریف کے متعلق موقف :۔
بیت اللہ شریف بارے کی عظمت کے بارے میں قرآن وحدیث میں کافی تذکرہ موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یعنی سب سے پہلا گھرجو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا ہے یہ وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ بابرکت ہے اور جہاں والوں کے لئے راہنما ہے۔ (آل عمران:۹۶)
ترجمہ:․․․” اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی اور تعظیم والا‘ لوگوں کے لئے قیام کا باعث بنایاہے“ ۔ (المائدہ:۹۷)
علامہ اقبال نے اسی کی تشریح میں فرمایا ہے:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
اب ذرا کلیجہ تھام کر سرسید کی ہرزہ سرائی کعبۃ اللہ کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ نقل کفر کفر نباشد ۔ اپنی تحریف القرآن میں لکھتاہے:
”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے․․․ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۲۱۱و۲۵۱)
مزید لکھتاہے:
”کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے “۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۱۵۷)
خانہ کعبہ کے گرد طواف کے مقدس عمل کو سرسید کا ”سات دفعہ اس کے گرد پھرنا“ پھر خدا کے اس عظیم اور مقدس گھر کو انتہائی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ ”چوکھونٹا گھر“ کہنا اور آگے خباثت کی انتہا کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں‘ کیا وہ حاجی بن گئے؟ پھر نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے خلاف یہ زہر افشانی کرنا کہ یہ اسلام کا اصلی حکم نہیں ہے‘ کیا یہ بکواسات کیا کوئی صاحب ایمان کرسکتا ہے ؟
دوسرے پارہ کے شروع میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایاہے:
”سیقول السفہاء الخ“ ”اب بہت سارے بیوقوف کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا؟“
اس آیت کی رو سے جو لوگ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نہیں مانتے وہ بیوقوف ہیں اور سرسید تمام بیوقوفوں کا سردار۔
6 - سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
فرشتوں کا مستقل خارجی وجود قرآن وحدیث سے صراحۃ ثابت ہے اور فرشتوں کا اس طرح وجود ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ان کے وجود کو مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔قرآن پاک میں ہے کہ:
فرشتے خدا کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس کام کا حکم دیا جاتاہے اس کو بجالاتے ہیں (التحریم:۶)
دوسری جگہ مذکور ہے
پھر یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور قوم لوط پر عذاب ڈھانے لگے۔ (الحجر:۵۸تا۷۷)
ان تمام آیات اور روایات سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا مستقل خارجی وجود ہے‘ مگر سرسید اس کے منکر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ:
” قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کررکھا ہے ثابت نہیں ہوتا“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۴۲)
آگے لکھتا ہے
”اس میں شک نہیں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے‘ انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے۔علماء مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے‘ حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔ (ایضاً ج:۵‘ص:۶۱)
اس طرح قرآن پاک اور احادیث طیبہ یہ بات موجود ہے کہ مختلف غزوات کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ہے جیسا کہ آیت ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة“ (آل عمران:۱۲۳) میں مذکور ہے۔ سرسید اس کا منکر ہے وہ اس آیت کے تحت لکھتاہے۔
” بڑا بحث طلب مسئلہ اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کے لئے اترناہے‘ میں اس بات کا بالکل منکر ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کریا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا‘ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں“۔
(تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ص:۵۲)
7 - سرسید جبرائیل امین کا منکر :۔
قرآن پاک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے‘
ترجمہ:․․․”جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل کا اور میکائیل کاتو اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا مخالف ہے“۔(البقرہ:۹۸)
اسی طرح کئ احادیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی انسانی شکل میِں بار گاہ نبوی میں تشریف لاتے ‘چنانچہ مشکوٰة کی پہلی حدیث ”حدیث جبرائیل“ میں جب سوالات کرنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا:”فانہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم“ (یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے) (مشکوٰة: کتاب الایمان)
سرسید حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود کا منکر ہے۔ وہ لکھتاہے:
ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شئ واحد تجویز کرتے ہیں‘ مگر اس کو خارج از خلقتِ انبیاء جداگانہ مخلوق تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام میں جو ملکہ نبوت ہے اور ذریعہ مبدء فیاض سے ان امورکے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں‘ وہی روح القدس ہے اور وہی جبرائیل ہے“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ ص:۱۵۶‘ ج:۱‘ ص:۱۸۱‘ ۱۲۲‘ ۱۲۹‘ ۱۷۰)
اس عبارت میں سرسید نے اس بات کا انکار کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کوئی خارجی وجود ہے ‘ بلکہ ان کے نزدیک یہ رسول اکرم کی طبیعت میں ودیعت کردہ ایک ملکہٴ نبوت کا نام ہے۔
8 - سرسید کا واقعہٴ معراج سے انکار:۔
رسول اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ واقعہٴ معراج ہے ۔سرسید نےیہاں بھی عقل لڑائی مشکرکین مکہ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے جسم مبار کے ساتھ سات آسمانوں پر جانا اسکی عقل میں نہ آسکا اور وہ انکار کرگیا ۔ اپنی تفسیرالقرآن ج :۲ ص: ۱۳۰ پرلکھتا ہے:
”ہماری تحقیق میں واقعہ معراج ایک خواب تھا جو رسول اللہ نے دیکھا تھا"
حقیقت میں معجزہ کہتے ہی اسکو ہیں جسکو سمجھنے سے عقل عاجز ہو۔ اگر اسے خواب یا تصور کا واقعہ قرار دیں تو معجزہ نہیں کہلا یا جاسکتا‘ کیونکہ خواب اور تصور میں کوئی بھی شخص اس قسم کا واقعہ دیکھ سکتاہے۔ اس لیے آنحضرت کا واقعہ معراج تب معجزہ بنے گا جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آنحضرت کو معراج روح مع الجسد ہوئی تھی یعنی جسم اور روح دونوں کو معراج ہوئی تھی‘ اور اسی بات پر امت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ روایات میں آتاہے کہ واقعہ معراج کا سن کر کفار ومشرکین مکہ آپ کے ساتھ حجت بازی کرنے لگے۔ اگر واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار ومشرکین کبھی آپ کے ساتھ حجت بازی نہ کرتے۔
9 - جنات وشیاطین کے وجود کا انکار :۔
جنات وشیاطین کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ مگر سرسید اس کا انکار کرتا ہے‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے ماتحت جنات کے کام کرنے کے قرآنی واقعہ پر تبصرہ کرتا ہے:
”ان آیتوں میں ”جن“ کا لفظ آیا ہے‘ اس سے وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی مراد ہے‘ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اور نیز بسبب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے ”جن“ کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق مع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں‘ ماناہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں۔ (تفسیر القرآن ج: ۳‘ ص: ۶۷)
اس طرح سرسید شیطان کا الگ مستقل وجود تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ انسان کے اندر موجود شرانگیز صفت کو شیطان قرار دیتاہے
آگے لکھتاہے: ”
انہی قویٰ کو جو انسان میں ہے اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی شیطان ہے“۔ (ج ۳ ص۴۵ پ)
سرسید کے اعتزالی عقائد و نظریات کا مکمل احاطہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے ، ہم نے اس کے چند گمراہ افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ حقیقت میں سرسید اور ان جیسے دیگر روشن خیالوں کی فکری جولانیوں کودیکھ کر یہی کہا جاسکتاہے کہ:
ناطقہ بگریباں ہے اسے کیا کہئے؟
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے؟
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے ان معتزلہ کے افکار ونظریات کو پہچان کر اپنے ایمان وعمل کو ان کی فریب کاری سے بچائیں اور جو سادہ لوح مسلمان ان کے شکنجہ میں آچکے ہیں ان کے بارے میں فکر مند ہوکر ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں.
****

مکمل تحریر  »