بسم اللہ الرحمن الرحیم
جہادی قیادت کے شہید ہوجانے کے پیچھے اللہ تعالی کی حکمت
شیخ ابوسعد العاملی حفظہ اللہ
القاعدہ کےقائدین کی شہادت ۔۔۔۔ ایک سنت اور قاعدہ ہے۔
ترجمہ :انصار اللہ اردو ٹیم
الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات وتنجلي الكربات ، القائل {وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ}، والصلاة والسلام على إمام المجاهدين القائل "لوددت أني أجاهد فأُقتل ثم أجاهد فأُقتل ثم أجاهد فُقتل لما للشهيد من درجة عند الله"، ثم أما بعد:
تمام تعریفیں اس ذات کے لیےہیں جس کی نعمت ہی سے نیک کام مکمل ہوتے ہیں اورمصیبتیں چھٹتی ہیں۔جو فرمانے والا ہے: "اللہ ایمان والوں کو متمیز کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے۔"، اوردرود وسلام ہو مجاہدین کے پیشوا پر جو فرماتے ہیں:
"میرا جی چاہتا ہے کہ جہادکروں پھرقتل کیا جاؤں پھرجہادکروں پھر قتل کیاجاؤں پھر جہاد کروں پھرقتل کیاجاؤں کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں شہید کابڑامرتبہ ہے۔" امابعد :
بلاشبہ اللہ عزوجل نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیداکیا۔ اس نے عبادت کو نہایت اعلیٰ طریقوں سےاوربہت پاکیزہ طورپرسرانجام دینے کےلئے بہت سے راستے اورذریعے مقرر کئے۔اسی طرح اس نےاپنے بندوں پر جہاد جیسی عبادت فرض کی تاکہ اُن تمام رکاوٹوں کوختم کیاجاسکے جو اُس کی عبودیت کی تکمیل میں آڑے آتی ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:
{وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ }
"اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ( کفروشرک) باقی نہ رہے اور دین سب اللہ ہی کے لیے ہوجائے ۔" )الأنفال:8 -:39)
جہادی کارروائی کے دوران اللہ تعالی نےظلم کرنے کاحکم نہیں دیا :
{وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ} )البقرۃ٢:١٩٠)
"اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔"
لیکن اس کے بالمقابل اللہ تعالی نے دین الٰہی کی مدد کےلئے قتال شروع کرنے کاحکم دیاہےجسے جہاد الطلب کہاجاتاہے اورصرف دفاعی جہاد پر جس میں اسلام اورمسلمانوں کے مقدسات کا دفاع ہوتاہے، اکتفا نہ کرنے کا کہاہے، چنانچہ وہ فرماتا ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ}) التوبة٩: ١٢٣)
"اے اہلِ ایمان! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔"
كتب عليكم القتال وهو كره لكم:
جی ہاں لڑنا نفس پر ناگوار گزرتاہے کیونکہ وہ توچاہتا ہےکہ اسے ہزار سالہ زندگی مل جائے۔انسان اپنی جان کویہ امیدیں دلاتاہے کہ وہ لوگوں میں خیر پھیلانے کے لیےاوران کی اصلاح کی خاطر زندہ رہناچاہتاہے۔ اس کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ کوئی اس کے سامنے موت کا تذکرہ نہ کرے، اس لیے کہ اسے یہ ڈرہوتا ہے کہ وہ جو پُرکیف زندگی کی بہاریں گزار رہاہے کہیں وہ مکدّر نہ ہوجائے۔اللہ تعالی نے ، جونفسوں کا خالق اوران سے باخبر ہے، اس حقیقت کوخود بیان کیاہے:
{أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}(٦٧:١٤)
"بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے۔ "
وہ فرماتاہے:
{كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ}
"(مسلمانو) تم پر (اللہ کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے جبکہ وہ تمہارے لیے ناگوار ہے۔"(البقرۃ۲ :۲۱۶)
نفس سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتاہے، وہ موت ہے ۔موت سے کم تر ہر چیز نفس پر اس کی نسبت آسان ہے۔ نفس کسی حد تک موت کو برداشت کرسکتاہے۔لیکن جہادی معرکے میں جو موت ہے وہ عام زندگی والی موت نہیں۔جس کا انسان سامناکرتاہے بلکہ یہ جنت میں ہمیشہ رہنے کےلئے ایک دروازہ اورایسا پُل ہے جسے مؤمن اس لئے پار کرتاہے تاکہ وہ ایک ایسا خصوصی أجروثواب حاصل کرسکے کہ رب العزت نے اس پردیگرجوعبادات فرض کی ہیں ان میں ایسے أجروثواب کا ملناممکن نہ ہو۔
یہ شہید ہوتاہے یا اللہ کے راستے میں شہادت ہے ۔یہ ایک ایسی موت ہے جس کی تمنا انبیاء کرام اورپیغمبر کرتے آئے ہیں اورا ن میں سب سے بڑھ کر نبی سیدالمرسلین محمد بن عبداللہ علیہ افضل الصلاۃ واز کی تسلیم ہیں جنہوں نے خود شہادت کی تمناکی۔
قتال اس اُمت پرفرض ہے: عام سپاہیوں پربھی اورقائدین پربھی:
بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پرلڑنا فرض کیاہے تاکہ وہ اپنے دین کی حفاظت کرسکیں اور اس کی شریعت کوپھیلاسکیں۔یہ لڑنا صرف مال ، عزت اورجان کے دفاع کی خاطر نہیں۔ جس طرح کہ آج کل بعض لوگوں کا خیال ہے۔ اس طرح کہ انہوں نے جہاد کو ایک تنگ مفہوم میں منحصر کردیا ہے جودفاعی جہاد ہے اوریہ مفہوم کتاب وسنت کے نصوص کے مخالف ہے:
{ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ}
"اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ " (التوبۃ:9 -:111)
جہاد اللہ تعالی نے ہم پرشرعاً فرض کیاہے ۔یہ موجودہ حالات میں بھی فرض ہے کیونکہ دشمن ہمارے دروازوں پر ہیں،ہماری زمینوں میں فساد مچارہے ہیں اورہمارے لوگوں کوذلت ورسوائی سے دوچارکررہے ہیں۔۔ کسی عاقل کے لئے بھی یہ روانہیں ــ چہ جائیکہ وہ اللہ ،رسول اورروز آخرت پرایمان رکھتاہو ــ کہ وہ اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کے سامنے زبان اورہاتھ روک کر تماشائی بنا بیٹھارہے۔ اس کا کم از کم یہ فرض بنتاہے کہ وہ اپنے رب کی اس پکار پر لبیک کہتےہوئے اٹھ کھڑاہوجائے :
{انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ}
"تم سبکبار ہو یا گراں بار ( مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت، گھروں سے) نکل آؤ۔ اوراللہ کے رستے میں مال اور جان سے لڑو۔" ( التوبۃ:9 – 41)
وہ اپنے آپ کو اپنے رب عزوجل کی اس وعید سے بچالے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ} )التوبة٩: ٣٨)
"مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں ۔"
شہادت ہی سب سے بلند مقصدہے:
جلدیابدیر تمام لوگوں کومرناہے ۔لیکن موت کےاسباب مختلف ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہےکہ جو ہرلحظۂ زندگی میں پیش آتی ہے لیکن ہم اس سے غفلت برتتے ہیں اور اس کو نہیں سمجھتے ــ إلا من رحم الله ــ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس موت کی حقیقت سے واقف ہوئےہیں اور اس کی حقیقت کو سمجھ چکے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہےکہ ان کی موت یکتا اورانوکھی ہو۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی یہ موت دنیا وآخرت میں رفعت وبلندی کا دروازہ بن جائے۔ مؤمن نصرت،فتح اوردین کاغلبہ تلاش کرتاہے۔اس کی یہ تمناہوتی ہےکہ وہ ایسی خلافت راشدہ کی حکومت کے سائے میں زندگی گزارے جس میں رحمٰن کی شریعت کے مطابق فیصلے ہوتے ہو ۔ جب اس مقصد میں وہ کامیاب نہ ہوسکے تو اس کا دوسرا ہدف یہ ہوتاہےکہ وہ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت حاصل کرلے ۔گویا یہ اس کی پہلی نیت کوعملی جامہ پہنانے کی ایک دلیل ہوتی ہے۔
وہ اس کے ذریعے سےآخرت میں ایسا ثواب اوراللہ تعالی کی ایسی رضاحاصل کرناچاہتاہے جسے شہداء کے علاوہ کوئی حاصل نہیں کرسکتا۔
قائدین کمانڈربننے سےپہلےعام سپاہی ہوتے ہیں:
مؤمن ابتداء ہی سے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتاہے۔اس کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ ایسے اعمال آگے بھیجے جواسے اللہ کےقریب کردیں اوراس کے نواہی اور محرمات سےاسے دور کردیں۔ اسے اس بات کی کوئی پریشانی نہیں کہ یہ مقصدکسی بھی محاذ پرحاصل ہو ۔ اس کے لئے یہی کافی ہےکہ جہاں اللہ تعالی نے اسے حکم دیاہے یہ وہاں ہو اور جہاں سے روکاہے یہ وہاں نہ ہو ۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی نفسانی خواہشات کو توڑنے اور ذاتیات کو روندنے پرصحابہ کرام کی تربیت کی ہے۔اس چیز کو ہم نے شریعت کے اس طریقے میں پاتے ہیں جوطریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم أجمعین کےساتھ اپنایا تھا۔ اس کے باوجود کہ ان کی ایمانی سطح ایک جیسی نہیں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیحد خواہش اورترغیب ہوتی تھی کہ صحابہ کرام کے اعمال اللہ کے لئے خالص ہوجائیں تاکہ اللہ تعالی کے ہاں ان کے ثواب محفوظ رہے۔ بنابریں ہم دیکھتےہیں کہ آپﷺ کسی صحابی کو غزوے یادستےیامہم میں قائد بنادیتے اوراکثر اوقات اسے کسی اورصحابی کے زیرِ قیادت عام سپاہی بنادیتے۔ اسی طرح باقی سارے صحابہ کےساتھ کرتے تھے تاکہ انکو عہدوں سے سروکارنہ رہے اوراخلاص کی تعلیم ملے۔اس کے مقابلے میں صحابہ کرام کامل اطاعت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر کی بجاآوری کرتے ۔ وہ مسؤلیت سےبھاگتے تھے اوراسےاپنے سروں پر ایک مصیبت سمجھتے تھے۔ اس وقت کی جہادی جماعتوں میں ،خاص کرقاعدۃ الجہاد میں، ہم ان منفرد مثالیں دیکھ سکتےہیں ۔آپ دیکھیں گے کہ بھائی کس طرح قائدین کےاحکام پر لبیک کہتے ،ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اورہر قسم کی ریاکاری وشہرت کےمظاہر سےدوررہتے ہیں۔ان کی انتہائی تواضع ، خودکو گرانے اور نفسانی خواہشات کوکچلنے کی وجہ سے مسئولیت کے عہدوں پر بھی آپ ان میں اورباقی بھائیوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرسکیں گے۔
قیادت عام سپاہیوں کی بنسبت دشمن سے زیادہ قریب ہوتی ہے:
اسلام کے عرف عام میں ایک قانون ہےکہ جوجاہلی قوانین سےمختلف ہے۔بالخصوص یہ کہ قائد اپنے سپاہیوں کے ساتھ تعامل اورطرزعمل اور اسی طرح ان تصرفات اورحرکات میں جوقائدین کے ساتھ امن وجنگ کے عرصے میں مخصوص ہیں، وہ عام سپاہی کے برابر ہیں۔ہم اس کے بالمقابل مادہ پرست جاہلی معاشروں میں دیکھتے ہیں کہ ان کے قائدین بہت سے حفاظتی پہروں اورزبردست حصار میں گھرے ہوئے ہوتےہیں۔ تاکہ وہ ہمیشہ اپنے ماتحتوں اور اپنے دشمنوں کے سامنے ایک جیسی بلند اوراونچی پوزیشن میں رہے جبکہ انکی حقیقت اور قدروقیمت اس سے بہت کم تر ہے جووہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ معرکوں کی سختی اورہرقسم کے خطروں سے دوررہتے ہیں، جبکہ ایمانی معاشروں میں ،خاص کرجہادی معاشرے میں یہ قاعدہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ مسلمان قائد ہمیشہ اگلے صفوں ہی میں لڑتے ہیں،دین کی نصرت کی راہ میں وقت اور مال خرچ کرنے اورقربانی دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
یہ ایک دائمی سنت ہے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قیامت تک ایمانی معاشرے میں چلی آرہی ہے۔ قائدین اللہ کی اطاعت اوراپنے ماتحت افرادکی خدمت کی طرف اس سے کہیں زیادہ دوڑتے ہیں جوکفار کے سپاہی اپنے سربراہوں کی خدمت کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے دوڑتے ہیں۔ قائدین اپنے اردگرد لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہوتے ہیں ۔ان پر سب سے پہلافرض یہ ہوتا ہے کہ وہ سختی اورآسانی ہروقت صفوں میں سب سے آگے ہوں تاکہ لشکرکے عام لوگ قربانی دینے کےزیادہ خواہشمند ہو اوران کی زیادہ اطاعت کرنے والے ہوں۔
یہاں ایک معروف مقولہ ہےکہ جوموجودہ دور کے جہادی قائدین میں سے کسی کا ہے ، شاید یہ ابوأنس شامی تقبلہ اللہ کامقولہ ہے جو دونہروں والے بلاد(عراق) میں تھے :
"كن أَمامي تكن إِمامي"
"میرے آگے رہو (تو) تم میرے امام بن جاؤگے "۔
قائدین پرلازم ہےکہ وہ اپنے ماتحتوں کوجوحکم دیتے ہیں، خود سب سےپہلے اسےبجالانے والے ہوں:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ} )الصف٦١ :٢)
"مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے ہو ۔"
{ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ} )الصف٦١ :٣)
"اللہ کے ہاں ناراضگی کے اعتبار سے یہ بات بہت بڑی ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ہو ۔"
دشمن پہلے قیادت کونشانہ بناتاہے:
{وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ}
"اور (اے محمدﷺ اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں ۔"( الأنفال:8 – 30 )
یہ ایسی قرآنی حقیقت ہے جس کی ہم موجودہ صورتحال میں عملی تطبیق دیکھتے ہیں۔ دشمن قائدین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بہت جدوجہد کرتے ہیں اوران تک پہنچنے، انہیں شہید کرنے،انکو پکڑنے، کمزورترحالات میں ان کا محاصرہ کرنے یا ان کو جلا وطن کرنے کے لیے بہت وسائل خرچ کرتے ہیں۔
یہ ایسی حالت ہےجوجہادی قائدین ہر جگہ پر ہمارے اوردشمنوں کےدرمیان جاری کشمکش کے اس مرحلے میں گزاررہے ہیں ۔ ہم ابھی تک قرب ظہور اورخلافت راشدہ یااسلامی مملکت کی بنیادی اینٹیں رکھنے کے مرحلے میں ہیں ۔یہ طبعی بات ہےکہ قائدین اوراسی طرح عام سپاہی بھی اس صورتحال میں رہے جو بظاہر آرام دہ نہیں لیکن جہاد کے مستقبل کے لیے بہت مثبت ہے۔ اس طرح کہ اس کی وجہ سے مجاہدین اپنے تمام تروسائل استعمال کریں گے اورمکمل ہوشیار رہیں گے برخلاف خوشحالی کے جس میں ہمتیں بہت پست پڑجاتی ہیں، مجاہدین کی طرف سے احتیاط کادرجہ بہت کمزور پڑجاتاہے اور بے احتیاطی ادنی سطح تک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح ان کے دشمنوں پر انہیں محدود کرنے کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔
پس سختی،ناکہ بندی اورتنگی اللہ تعالی کی طرف سے اپنے مجاہدین بندوں پرنعمتیں ہیں تاکہ انکے نفس ہوشیاررہیں،انکی ہمتیں بلند رہیں اورانکی احتیاط اعلی درجہ کی سطح پرہو۔ یہ چیزیں مدد کے اہم ترین اسباب اورشکست سے بچنے کے ذرائع ہیں۔
ہمارے قائدین دوسروں کے علاوہ کہیں زیادہ نشانے پرہیں۔وہ خود بھی اپنے کردار سے اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پرنقل وحرکت کرتے ہیں۔ وہ قوت کےحصول کے اسباب میں سے کسی بھی سبب کونہیں چھوڑتے اور نہ ایسا کوئی شگا ف باقی رہنے دیتے ہیں جس سے وہ اللہ کا تقرب حاصل کرسکتے ہیں۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگرانہیں کوئی آزمائش آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے مقدر کردہ ہے اور اس کو قبول کرنا ،اس پر ایمان لانا بلکہ اس پرراضی رہنا ضروری ہے۔
قائدین کی شہادت سے جہاد کوتقویت ملتی ہے:
یہاں سے ہمارے سامنے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہےکہ اس دین کےاندرا للہ تعالی کی لازمی حکمت میں سے یہ ہے کہ اسکے راستے میں مال خرچ کرکے اور جان دیکر اس کی قیمت چکائی جائے ۔یہاں نفسِ جان سے بڑھ کر کوئی ایسی مہنگی چیزنہیں جسے مؤمن اپنے رب تعالی کے سامنے پیش کردے،اسکے ذریعے سے وہ اعلی درجات اوربلند مقامات حاصل کرسکے۔
{لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ}
"(مومنو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (راہِ الہی میں) صرف نہ کرو گے۔" ( آل عمران:3 – 92)
یہ چیز ایک مجاہد فرد کےلئے یاپوری مجاہد جماعت کے لئے برابر ہےکیونکہ قربانی پیش کرنا ضروری ہے تاکہ ہم ایک طرف اپنے ایمان کی سچائی پردلیل پیش کرسکیں اوردوسری طرف وہ اجروثواب حاصل کرسکیں جس کے وہ منتظر ہوتے ہیں ۔
{يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ. وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ}
’’وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تم کو جنت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں اور پاکیزہ مکانات میں جو ہمیشہ کی بہشت میں ہیں داخل کرے گا یہی بڑی کامیابی ہے۔اور ایک اور چیز جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی) تمہیں اللہ کی طرف سے غلبہ نصیب ہو گا اور فتح عنقریب ہو گی اور مومنوں کو اسکی خوشخبری سنا دو۔ ‘‘ ( الصف:61 –12۔۱۳)
پس واضح مدد اورقریبی فتح جس کا مؤمن انتظارکررہے ہیں ، وہ شہادت کے بغیر کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔خاص کر قیادت کی شہادت کے بغیر ان فتوحات کا آنا توعقل کے منطق کےخلاف ہے کیونکہ مدد اورغلبہ کی بات کیسے کی جاسکتی ہےجب جہادی قائدین لڑائی سے غائب ہوں، جو مجاہدین کی جماعت کو فتح حاصل کرنے تک اوراس کے بعد بھی قیادت کرتے ہیں!!!
لیکن جہادی دنیا میں یہ قانون مختلف ہوتاہے ۔وہاں موجود قائدین صرف ایک پُل کی طرح ہوتےہیں جس کے اوپر سےحق کے لشکر گزرتے ہیں ۔یہ جہادی قائدین ایسےایندھن ہیں جس سے بہت جلد ایسی نئی قیادتیں نکلتی ہیں جو علم کے لحاظ سے اورنقصان پہنچانے کے اعتبارسے اپنی سابقہ قیادتوں سےبڑھ کرہوتی ہیں،کیونکہ انہوں نے وہ علم اور جہادی تجربات جمع کرلیے ہیں جواس سے پہلے سابقہ قیادتوں کے پاس تھے۔ بلاشبہ یہ دونوں چیزیں جہادی معاشرے کےلئے ایک مضبوط پوائنٹ اورجہادی کارواں کے تسلسل کو جاری رکھنے کی ضامن ہے۔
اس سے ان شہداء کوفائدہ حاصل ہوجاتاہے جنہوں نےا پنا وعدہ پوراکیا ــ جس کی خاطروہ جہاد کرتے تھےــ وہ اس کو پالیں گے اوروہ شہادت ہے۔ اسی وقت یہ جہادی معاشرے کو مضبوط بنانے ، ثابت قدم رکھنےاوراس تسلسل کو جاری رکھنے کا باعث بنتاہے۔اسی طرح دشمن کی وہ توقعات ناکام پڑجاتی ہیں جن کی تکمیل کا وہ ان قائدین کی شہادت کےذریعے انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ جہادی معاشرے کواسکے ذریعے سے ایسی قوت اورتجربہ حاصل ہوتاہے جس سے قیادت کے فقدان کی کچھ بھی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
یہ اللہ تعالی کے میزان میں شہادت کی حقیقت ہے اوریہ ایک عجیب ذاتی طاقت ہے جسے مجاہدین اپنے قائدین کے عالم اخروی کی طرف انتقال سے حاصل کرتےہیں، جواپنے پیچھے تجربات کا ایساخزانہ چھوڑ دیتے ہیں جو اپنے بعد والوں کے لئے مشعل راہ بنتاہے اوردشمن کی امیدوں اوردلوں پرآگ لگادیتاہے۔
ڈاؤن لوڈ کریں:
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔