صحابہ کے عہد اور خیر القرون کے بابرکت زمانے تک سیدھا سادہ مطابق فطرت دین تھا۔ واضح عقائد اور خلوص اور بے ریائی کی عبادت تھی، اصول و اعتقادی مسائل میں کبھی کوئی شخص عقلی شک و شبہ ظاہر کرتا بھی تو قرآن و حدیث کے احکام و نصوص بتا کر خاموش کردیا جاتا، نہ کسی کا عقیدہ بدلتا اور نہ کسی کے زہد و تقوی میں فرق آتا۔ مگر تعلیمات نبوت کا اثر جس قدر کمزور ہوتاگیا۔ اسی قدر وسوسہ ہائے شیطانی نے قیل و قال اور چون و چراکے شبہے پیدا کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ واصل بن عطا ، ، عمرو بن عبید جیسے عقل پرست لوگ سامنے آئے۔ یہ لوگ معتزلہ کے نام سے مشہور ہوئے۔جب ہارون و مامون کے عہد میں فلسفہ یونان کی کتابیں بہ کثرت ترجمہ ہوئیں تو معتزلہ کو اپنے خیالات و شبہات کے لیے فلسفی دلیلیں مل گئیں اور انہوں نے ایک نیا عقلی اسلامی فن ایجاد کیا جس کا نام علم " کلام" قرار دیا۔۔ ان لوگوں نے دینی عقائد واحکام میں عقل کو معیار بنایا اور مبہا ت اور مخفی علوم میں اپنی عقل لڑا کر تشریحات اور تاویلیں کرنی شروع کردیں۔معتزلہ کی اس عقلیت پسندی سے قرآنی ہدایت کے نتیجہ خیز ہونے کااعتمادزائل ہونے لگا، جن مسائل کا حل صرف وحی سے میسر آسکتا تھاان کا حل انسانی شعور اور عقل سے تلاش کرنے سے وہ وحی کی ہدایت سے محروم ہوگئے۔یوں وحی کے ساتھ نبوت کی احتیاج بھی ختم ہوتی ہوئی نظر آئی ،تاویل کا فن حیلہ طرازیوں میں تبدیل ہونے لگا،ذات باری سے متعلق مجرد تصور توحید نے جنم لیا،ظاہر شریعت اورمسلک سلف کی علمی بے توقیری اور ان پر بے اعتمادی پیدا ہونے لگی،قرآن مجید کی تفسیراورعقائداسلام،ان فلسفی نمامناظرین کے لیے بازیچہٴ اطفال بنے جارہے تھے،مسلمانوں میں ایک خام عقلیت اورسطحی فلسفیت مقبول ہورہی تھی، یہ صورت حال دینی وقاراورسنت کے اقتدار کے لیے سخت خطرناک تھی ۔شروع میں علما نے وہی طریقہ تعلیم رکھا کہ علوم وحی سمجھ آئیں یا نہ آئیں ہم نے ان پر غیبی ایمان اور اعتقاد رکناا ہے۔ لیکن جب فسا د ذیادہ بڑھنے لگا اور معتزلہ کی عقلی دلیلوں اور وساوس نے عوام کے ساتھ حکمران طبقہ کو بھی متاثر کر لیا اور مامون رشید، معتصم بااللہ، متوکل علی اللہ، واثق بااللہ جیسے حکمران بھی معتزلہ کے مسلک کو اختیار کرگئے تو علما نے مجبورا ان معتزلہ کے ساتھ عقلی مباحثے اور مناظرے شروع کیے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل، امام ابوالحسن اشعری، ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ جیسے لوگ سامنے آئے اور معتزلہ کی ہر دلیل کا جواب دیا ، امام احمد بن حنبل کے فتنہ خلق قرآن کے مناظرے مشہور ہیں جن میں معتزلہ کو بری طرح شکست ہوئی ۔
بعد میں معتزلہ مختلف فرقوں اور ناموں سے مشہور ہوئے مثلاواصلیہ، ہذیلیہ ، نظامیہ وغیرہ ۔انگریز برصغیر میں آئے تو مختلف خوشنما اصطلاحیں اور نام متعارف کروائے گئے، اعتزال نےبھی ایک نئے خوبصورت نام سے دنیا کو اپنی صورت دکھائی ،چنانچہ بے دینی، الحاد اور عقل پرستی کو روشن خیالی کا نام دیا گیا اور اسکے نام پر تاریک ضمیری‘ ضمیر فروشی اور جمہور علماء کی راہ سے انحراف کیا جانے لگا ۔ آج بھی روشن خیال سارا زور اس پر خرچ کررہے ہیں کہ دینی عقائد واعمال کو یا عقل کے ترازو میں پیش کردیں‘ ورنہ کوئی توجیہ اپنی طرف سے کرکے اصل حکم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔
برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد :۔
انگریزوں کو برصغیر میں اپنا قبضہ جمانے کے دوران سب ذیادہ علما اور دیندار طبقے کی طرف سےمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے انہوں نے عوام میں دین اسلام کے بارے میں کنفیوزین پیدا کرنے والے لوگوں کی بھرپور سپورٹ کی ۔ اور چند لوگوں کو خصوصی طور پر منتخب کیا گیا۔ ایک مرزا احمد کو کچہری سے اٹھایا منصب نبوت پر بٹھا دیا، ایک اور سید احمد کو کلرکی کے درجے سے ترقی دی اور سرسید احمدخان بنا دیا۔ مرزا غلام قادیانی نے جھوٹی نبوت کا سہارا لے کر جہاد کا انکار کیا اور سر سید احمد خان نے نا صرف احادیث، معجزات‘ جنت‘ دوزخ اور فرشتوں کے انکار پر گمراہ کن تفسیر اور کتابیں لکھیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو دینی تعلیم کے مقابلے میں فرنگی نظام تعلیم سے متعارف کروایا۔ دونوں انگریزوں سے خوب دادِ شجاعت لے کر دنیاوی مفاد حاصل کئے اور اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کرگئے ۔
سرسید کے مذہب پر ایک نظر
تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان سے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سرسید کا عقیدہ کیا تھا ؟ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ سرسید احمد تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے۔
• ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
• دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے۔
• تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے۔
سرسید کو موجودہ دور کا روشن خیال طبقہ نئے دور کا مجدّد اور مسلمانوں کی ترقی کا راہنما سمجھتے ہیں، ذیل میں سرسید کے افکار پر کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ کےلیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ سرسید بھی حقیقت میں معتزلہ کے اسی سلسلہ کا فرد تھا اوراور اس کے روحانی شاگرد’ روشن خیال مذہب کے موجودہ داعی ڈاکٹر، فلاسفر، دانشور، پروفیسر ٹائپ لوگ بھی معتزلہ کے اسی مقصد یعنی دین میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور لوگوں کا ایمان چوسنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے معاشرہ کا تھوڑا پڑھا لکھا اور آزاد خیال طبقہ ان کو اسلام کا اصل داعی سمجھ کر انہی کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔
1 - سرسید کی چند تصنیفات :۔
سرسید نے اسلام کے نام پر بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کیں۔ ایک خلق الانسان( انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ یوں قرآن وسنت کی نصوص کا منکر ہوا)، اسباب بغاوت ہند (۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور انگریز سامراج کے مخالف علما اور مجاہدین پر کھلی تنقید کی)، تفسیر القرآن (پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے جو درحقیقت تحریف القرآن ہے۔ سرسید لکھتے ہیں
”میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہئے“۔ (تفسیر القرآن: ۱۹ ص:۲)
چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اسلام کے نام پر اپنے ملحدانہ نظریات سے فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں۔
خود سرسید کے پیرو کار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالی‘ مؤلف مسدس (وفات دسمبر ۱۹۱۴ء) تحریر فرماتے ہیں کہ:
” سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں“۔
(حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۱۸۴)
2 - سرسید کی عربی شناسی:۔
غزوہٴ احد میں نبی اکرم ا کے سامنے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا تھا‘ چنانچہ علامہ ابن کثیررحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
”وان الرباعیة التی کسرت لہ علیہ السلام ہی الیمنیٰ السفلیٰ“ (السیرة النبویة ج:۳‘ ص:۵۷)
ترجمہ:․․․”نبی علیہ السلام کے سامنے کا داہنا نچلا دانت مبارک شہید ہوا تھا“۔
فن تجوید وقرأت کے لحاظ سے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو رباعی کہتے ہیں‘ جیسے لغت کے امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
رباعی کا لفظ ثمانی کی طرح ہے یعنی سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک۔(لسان العرب ج:۸‘ ص:۱۰۸)
سرسید نے رباعی کا لفظ دیکھ کر اسے اربع (چار) سمجھ لیا ہے اور حکم لگا دیا کہ آپ کے چار دانت شہید ہوئے تھے“۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”آنحضرت کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۴‘ص:۶۴)
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص رباعی اور اربعہ میں فرق نہیں کرسکا اس نے قرآن کی تفسیر لکھنے میں کیا گل کھلائے ہوں گے۔
3 - قرآن کی من مانی تشریحات :۔
سرسید نے معتزلی سوچ کے مطابق دین اسلام کو عقل کی ترازو میں تول کر مسلماتِ دین کا انکار کیا اور قرآن کریم میں جہاں معجزات یا مظاہر قدرت خداوندی کا ذکر ہے‘ اس کی تاویل فاسدہ کرکے من مانی تشریح کی ہے۔
پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:” یہود سے جب عہد وپیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا“۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سرسید اس واقعہ کا انکار کرتاہے اور لکھتاہے:
پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:” یہود سے جب عہد وپیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا“۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سرسید اس واقعہ کا انکار کرتاہے اور لکھتاہے:
”پہاڑ کو اٹھاکر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا‘ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے رہے تھے کہ وہ ان کے سروں پر گر پڑے گا“۔
سرسید نہ صرف آیت کی غلط تاویل کرتا ہے بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مفسرین کا مذاق بھی اڑاتاہے۔ وہ لکھتاہے:
”مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب وغریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر عجائباتِ دور ازکار کا ہونا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے‘ اس لئے انہوں نے تفسیروں میں لغو اور بیہودہ عجائبات (یعنی معجزات) بھر دی ہیں‘ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہِ سینا کو خدا ان کے سروں پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتاہوں‘ یہ تمام خرافات اور لغو اور بیہودہ باتیں ہیں“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص۹۷تا۹۹)
کوئی سر سید سے یہ پوچھے کہ آتش فشانی اور پہاڑ کے لرزنے کا بیان اس نے کس آیت اور کس حدیث کی بناء پر کیا ہے۔ اس کے پاس کوئی نقلی ثبوت نہیں ہے یہ اس کی اپنی عقلی اختراع ہے ہم اس کے جمہور مفسرین کے مقابلے میں ایسی عقل پر دس حرف بھیجتے ہیں۔
بریں عقل ودانش بباید گریست
بریں عقل ودانش بباید گریست
4 - جنت ودوزخ کا انکار :۔
تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت ودوزخ حق ہیں اور دونوں پیدا کی جاچکی ہیں۔ خود قرآن پاک سے یہ ثابت ہے ارشاد خداوندی ہے:
”وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات والارض اعدت للمتقین“ (آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ:․․․”اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“ ۔
دوزخ کے پیدا کئے جانے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
”فاتقوا النار التی وقود ہا الناس والحجارة اعدت للکافرین“ (البقرہ:۲۴)
ترجمہ:․․․”پس ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“۔
سرسید جنت ودوزخ دونوں کے وجود کا انکار کرتا ہے وہ لکھتا ہے:
”پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں‘ قرآن سے ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۳۰)
وہ مزید لکھتاہے:
”یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے‘ اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں‘ دودھ وشراب وشہد کی نالیاں بہہ رہی ہیں‘ ہرقسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے․․․ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے‘ اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“۔ (نعوذ باللہ) ایضاً ج:۱‘ص:۲۳)
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کسی قرآن پڑھنے والے سے مخفی نہیں، مگر سرسید نے نا صرف ان کا صاف انکار کیا بلکہ مذاق بھی اڑایا اور شراب خانوں کو جنت سے ہزار درجے بہتر قرار دیا۔
5 - بیت اللہ شریف کے متعلق موقف :۔
بیت اللہ شریف بارے کی عظمت کے بارے میں قرآن وحدیث میں کافی تذکرہ موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یعنی سب سے پہلا گھرجو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا ہے یہ وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ بابرکت ہے اور جہاں والوں کے لئے راہنما ہے۔ (آل عمران:۹۶)
ترجمہ:․․․” اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی اور تعظیم والا‘ لوگوں کے لئے قیام کا باعث بنایاہے“ ۔ (المائدہ:۹۷)
علامہ اقبال نے اسی کی تشریح میں فرمایا ہے:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
اب ذرا کلیجہ تھام کر سرسید کی ہرزہ سرائی کعبۃ اللہ کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ نقل کفر کفر نباشد ۔ اپنی تحریف القرآن میں لکھتاہے:
”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے․․․ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۲۱۱و۲۵۱)
مزید لکھتاہے:
”کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے “۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۱۵۷)
خانہ کعبہ کے گرد طواف کے مقدس عمل کو سرسید کا ”سات دفعہ اس کے گرد پھرنا“ پھر خدا کے اس عظیم اور مقدس گھر کو انتہائی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ ”چوکھونٹا گھر“ کہنا اور آگے خباثت کی انتہا کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں‘ کیا وہ حاجی بن گئے؟ پھر نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے خلاف یہ زہر افشانی کرنا کہ یہ اسلام کا اصلی حکم نہیں ہے‘ کیا یہ بکواسات کیا کوئی صاحب ایمان کرسکتا ہے ؟
دوسرے پارہ کے شروع میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایاہے:
”سیقول السفہاء الخ“ ”اب بہت سارے بیوقوف کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا؟“
اس آیت کی رو سے جو لوگ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نہیں مانتے وہ بیوقوف ہیں اور سرسید تمام بیوقوفوں کا سردار۔
6 - سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
فرشتوں کا مستقل خارجی وجود قرآن وحدیث سے صراحۃ ثابت ہے اور فرشتوں کا اس طرح وجود ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ان کے وجود کو مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔قرآن پاک میں ہے کہ:
فرشتے خدا کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس کام کا حکم دیا جاتاہے اس کو بجالاتے ہیں (التحریم:۶)
دوسری جگہ مذکور ہے
پھر یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور قوم لوط پر عذاب ڈھانے لگے۔ (الحجر:۵۸تا۷۷)
ان تمام آیات اور روایات سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا مستقل خارجی وجود ہے‘ مگر سرسید اس کے منکر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ:
” قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کررکھا ہے ثابت نہیں ہوتا“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۴۲)
آگے لکھتا ہے
”اس میں شک نہیں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے‘ انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے۔علماء مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے‘ حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔ (ایضاً ج:۵‘ص:۶۱)
اس طرح قرآن پاک اور احادیث طیبہ یہ بات موجود ہے کہ مختلف غزوات کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ہے جیسا کہ آیت ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة“ (آل عمران:۱۲۳) میں مذکور ہے۔ سرسید اس کا منکر ہے وہ اس آیت کے تحت لکھتاہے۔
” بڑا بحث طلب مسئلہ اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کے لئے اترناہے‘ میں اس بات کا بالکل منکر ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کریا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا‘ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں“۔
(تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ص:۵۲)
7 - سرسید جبرائیل امین کا منکر :۔
قرآن پاک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے‘
ترجمہ:․․․”جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل کا اور میکائیل کاتو اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا مخالف ہے“۔(البقرہ:۹۸)
اسی طرح کئ احادیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی انسانی شکل میِں بار گاہ نبوی میں تشریف لاتے ‘چنانچہ مشکوٰة کی پہلی حدیث ”حدیث جبرائیل“ میں جب سوالات کرنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا:”فانہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم“ (یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے) (مشکوٰة: کتاب الایمان)
سرسید حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود کا منکر ہے۔ وہ لکھتاہے:
ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شئ واحد تجویز کرتے ہیں‘ مگر اس کو خارج از خلقتِ انبیاء جداگانہ مخلوق تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام میں جو ملکہ نبوت ہے اور ذریعہ مبدء فیاض سے ان امورکے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں‘ وہی روح القدس ہے اور وہی جبرائیل ہے“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ ص:۱۵۶‘ ج:۱‘ ص:۱۸۱‘ ۱۲۲‘ ۱۲۹‘ ۱۷۰)
اس عبارت میں سرسید نے اس بات کا انکار کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کوئی خارجی وجود ہے ‘ بلکہ ان کے نزدیک یہ رسول اکرم کی طبیعت میں ودیعت کردہ ایک ملکہٴ نبوت کا نام ہے۔
8 - سرسید کا واقعہٴ معراج سے انکار:۔
رسول اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ واقعہٴ معراج ہے ۔سرسید نےیہاں بھی عقل لڑائی مشکرکین مکہ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے جسم مبار کے ساتھ سات آسمانوں پر جانا اسکی عقل میں نہ آسکا اور وہ انکار کرگیا ۔ اپنی تفسیرالقرآن ج :۲ ص: ۱۳۰ پرلکھتا ہے:
”ہماری تحقیق میں واقعہ معراج ایک خواب تھا جو رسول اللہ نے دیکھا تھا"
حقیقت میں معجزہ کہتے ہی اسکو ہیں جسکو سمجھنے سے عقل عاجز ہو۔ اگر اسے خواب یا تصور کا واقعہ قرار دیں تو معجزہ نہیں کہلا یا جاسکتا‘ کیونکہ خواب اور تصور میں کوئی بھی شخص اس قسم کا واقعہ دیکھ سکتاہے۔ اس لیے آنحضرت کا واقعہ معراج تب معجزہ بنے گا جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آنحضرت کو معراج روح مع الجسد ہوئی تھی یعنی جسم اور روح دونوں کو معراج ہوئی تھی‘ اور اسی بات پر امت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ روایات میں آتاہے کہ واقعہ معراج کا سن کر کفار ومشرکین مکہ آپ کے ساتھ حجت بازی کرنے لگے۔ اگر واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار ومشرکین کبھی آپ کے ساتھ حجت بازی نہ کرتے۔
9 - جنات وشیاطین کے وجود کا انکار :۔
جنات وشیاطین کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ مگر سرسید اس کا انکار کرتا ہے‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے ماتحت جنات کے کام کرنے کے قرآنی واقعہ پر تبصرہ کرتا ہے:
”ان آیتوں میں ”جن“ کا لفظ آیا ہے‘ اس سے وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی مراد ہے‘ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اور نیز بسبب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے ”جن“ کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق مع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں‘ ماناہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں۔ (تفسیر القرآن ج: ۳‘ ص: ۶۷)
اس طرح سرسید شیطان کا الگ مستقل وجود تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ انسان کے اندر موجود شرانگیز صفت کو شیطان قرار دیتاہے
آگے لکھتاہے: ”
انہی قویٰ کو جو انسان میں ہے اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی شیطان ہے“۔ (ج ۳ ص۴۵ پ)
سرسید کے اعتزالی عقائد و نظریات کا مکمل احاطہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے ، ہم نے اس کے چند گمراہ افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ حقیقت میں سرسید اور ان جیسے دیگر روشن خیالوں کی فکری جولانیوں کودیکھ کر یہی کہا جاسکتاہے کہ:
ناطقہ بگریباں ہے اسے کیا کہئے؟
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے؟
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے ان معتزلہ کے افکار ونظریات کو پہچان کر اپنے ایمان وعمل کو ان کی فریب کاری سے بچائیں اور جو سادہ لوح مسلمان ان کے شکنجہ میں آچکے ہیں ان کے بارے میں فکر مند ہوکر ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں.
****
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔