بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الشیخ اسامہ کے نقش قدم پر
شيخ ابی المنذر الشنقيطی حفظه الله
ترجمہ: انصار اللہ اردو بلاگ
بسم الله الرحمن الرحيم ، الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبيه الكريم وعلى آله وصحبه أجمعين.
شیخ اسامہ اُمت مسلمہ کی ایسی آواز تھی کہ جو اُسکی تکلیف وپریشانیوں کی ترجمانی کرتی تھی۔ہمیں اس کی غمناک آواز میں ہر زخمی کی آواز ہر زخمی کی آہ، ہر گمشدہ بچے کی ماں کا رونا اور ہر بچے کی چیخ وپکار کی گونج سنائی دیتی ہے۔
اور ہم ظالموں اور سرکشوں کے ہاتھوں ذلیل ومقہور اُمت مسلمہ کے آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپکتے دیکھتے تھے۔ اُس کے نظریات اور اُس کے افعال اُمت کی نبض اور اس کے جذبات کے آئینہ دار تھے۔ اور اس کی تمناؤں اور مرادوں کے حقیقی ترجمان تھے۔ اور اس کے کلمات لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں اُٹھنے والی اُمنگوں کی تعبیر تھے۔
تیس سال سے الشیخ اُسامہ جہاد کا پرچم تھامے اپنے دین اور اپنی اُمت کا دفاع کررہے تھے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے پوری زمین میں اس کے لیے قبولیت ڈال دی اور مسلمانوں کے دلوں میں اُس کے لیے محبت اور کفار کی آنکھوں میں ھیبت ڈال دی۔
لہٰذا اُس کے پُرسکون کلمات کی گونج آفاق میں پھیلتی اور سینوں اور دلوں پر راج کرتی تھی جو دوستوں کو جوش دلاتی اور دشمنوں کے دلوں میں رعب طاری کرتی۔اورانکا جہاد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق تھا کہ:
أذلة على المؤمنين أعزة على الكافرين
(مومنوں کے لئے نر م اور کفاروں کے لئے سخت (المائدہ: ۵۴
لہٰذا کتنے ہی مومن اس کی تعلیمات اور اس کی پکار سن کر سکون محسوس کرتے تھے۔ اور کتنے ہی کفار کے جمگھٹے ایسے تھے کہ جو اس کی دھمکیوں اور وعیدوں کو سُن کر بدترین حال میں رہتے تھے۔
فبأس يذوب الصخر من حر ناره ** ولُطفٌ له بالماءِ ينبجسُ الصَّخرُ
ترجمہ شعر : وہ ایسا طاقتور خوف ہے کہ جس کی حرارت سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔
اور وہ اتنا نرم ولطیف ہے کہ جیسے پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے
اس نے اپنے دین اور اپنی امت کی نصرت کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹادیا اور ہر محبوب چیز کو چھوڑا۔ اُس نے مال وجان لٹائی اور اپنے اہل وعیال اور وطن کو چھوڑا۔ اُس نے دیا تو ہے مانگا کچھ نہیں اور قربانی دی جبکہ لیا کچھ نہیں جیساکہ یہ سچے ، مخلص اللہ تعالیٰ سے اجر کے امیدواروں کا طریقہ ہے۔
اس کے باوجودکہ اُس نے اپنا سب کچھ لٹایا اور یہ تمام قربانیاں دیں مگر دلوں کے مریض لوگ پھر بھی ابھی تک اس کی قدروقیمت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تو کیا ہی تعجب کی بات ہے ۔! کہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والے ، گناہگار لوگ اتنے بڑے مجاہدوں کے خلاف جرأت کررہے ہیں!! وہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے کے گناہ کے مرتکب تو تھے ہی اس کے ساتھ انہوں نے مجاہدین کی عزتوں پر حملے کرنے کے گناہ کو بھی شامل کرلیا۔!
هو البطل الشهم الأغر السميدع ** الهمامُ السريُّ الأكرمُ المتكرِّمُ
وقد جحدت قومٌ عظيم مقامه ** وقالوا بما قالوا ضَلالاً وأبهموا
وما أنكرت أعداؤه عن جهالة ** مناقبَه العُظمى ولكنَّهم عَمُوا
ترجمہ شعر: وہ تو بہادر ذکی، شریف اور فیاض سردار ہے۔ دلیر صاحب مروت وسخی سردار، کریم اور متکرم ہے۔ اور یہ قوم اس کی عظیم مقام سے تنگ آگئی۔ اور انہوں نے گمراہی کی جوبات کہی تھی کہ دی اور پھر ششں وپنچ میں پڑ گئے۔ اس کے دشمنوں نے اس کے عظیم مناقب کا جہالت سے انکار نہیں کیا بلکہ وہ تو (اس کی دشمنی میں) اندھے ہوگئے۔
ہمارے شیخ اسامہ عزت ووقار کے ساتھ کھڑے ہوئے اور امت کے دشمنوں کے سامنے اس ذلت ومنافقت کے دور میں ڈٹ گئے اور ہمارے لئے شجاعت وخوداری کی مثال بن گئے۔ اس نے پوری دُنیا کے کفار کے لشکروں اور اُن کے متکبروجابر کو چیلنج کیا۔ تو وہ سب انتہائی سرعت کے ساتھ اُس کے خلاف اپنی تمام تر سازشوں اور مکروفریب کے بڑے جال اٹھالائے۔ مگر کیا مجال ہے بزدلی کوکہ اُس کے دروازے پر دستک دے اور نہ وہ موت کے علاوہ ذلت ورسوائی سے رہنے پر راضی ہوا۔
قالت فَلا كذبَتْ شَجاعَتُه ** أقْدِمْ فنَفْسُكَ مَا لهَا أجَلُ
فَهُوَ النّهَايَةُ إنْ جَرَى مَثَلٌ ** أوْ قيلَ يَوْمَ وَغىً منِ البَطَلُ
ترجمہ شعر: بہادری وشجاعت نے کہا آگے بڑھ کیونکہ تیری جان کی تقدیر لکھی جاچکی ہے۔ یہ ایسا خاتمہ ہوگا کہ جس کی مثال دی جائے گی یا پھر جنگ کے روز پوچھا جائے گا کہ بہادر کون ہے!
میں گواہی دیتا ہوں اےابوعبداللہ۔!
کہ تو نے ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجداد کی دلیری کو زندہ کردیا اور ہمیں عزت وعظمت اور نصرت وکامیابیوں کےذمانے کی یادتازہ کرادی۔ لہٰذا ہم نے فخرسے سراُٹھائے اور اپنا اسلحہ اٹھاکر جہاد کے میدانوں کی طرف چل نکلے۔!
اور ہم نے اپنے بہادروں خالد، سعد، مثنیٰ اور مقداد کی اقتداء کی
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
کہ بلاشبہ اللہ نے آپ کے ذریعے دین کی نصرت کی۔ اور آپ کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد پھیلایا۔ اور آپ ہی کے ذریعے کفار کو ذلیل کیا۔ لہٰذا آپ نے متکبرامریکوں کے سروں کو نیچا دکھایا۔ اور آپ نے ان پر ان کے محفوظ ٹھکانے پر حملہ ایسے وقت کیا کہ جب وہ ہر قسم کے حملے سے محفوظ قلعہ بند تھے۔ اور آپ نے اُن کی رُسوائی وخوای کی ہمیشہ کے لائے تاریخ لکھ ڈالی۔
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
اگر حق بات کہنا اور دین کا اظہار کرنے میں اجر ہے تو وہ آپ نے کردکھایا۔ اور یہ کہ اگر دشمنوں کی ناک کو مٹی میں رگڑنے میں اجر ہے تو وہ آپ نے رگڑدیا اور اگر کفر کو غیض وغضب میں مبتلا کرنے میں اجر ہے تو انہیں آپ نے اس میں مبتلا کردیا اور اگر ہجرت کرنے میں اجر ہے تو آپ نے ہجرت کی۔ اور اگر جہاد میں اجر ہے تو آپ نے جہاد کیا۔ اور اگر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں اجر ہے تو آپ نے مال بھی خرچ کیا ۔
ألست الذي ما زال كهلاً ويافعاً ** له المكرمات الغر والنائل الغمر
ترجمہ شعر: کیا آپ وہی نہیں جواب بھی مضبوط وتوانا ہے۔ کہ جس کے اوصاف حمیدہ یہ ہیں کہ وہ بہت زیادہ خرچ کرتا ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں اےابوعبداللہ۔!
بلاشبہ آپ نے ہم طالبعلموں اور مجاہدین کے درمیان ابن المبارک کا مقام صاصل کیا اور جابر حکمرانوں کے سامنے ابن حنبل کا کرداراداکیا۔ اور خونخوارجنگ جووں کے سامنے ابن تیمیہ کا سامقام حاصل کیا۔اور صلیبی لشکروں کے سامنے صلاح الدین کا کرداراداکیا۔
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
بلاشبہ آپ کی تعریف کرنے والے خواہ کتنے ہی ہیں نظمیں اور قصیدے اور نثروبیان کا اہتمام کریں مگر وہ آپ کو آپ کے شایان شان مقام نہیں دے سکتے اور یہ کہ آپ کا انتقام لینے والوں کا غصہ کبھی ٹھنڈا نہ ہوگا خواہ وہ کتنے ہی صلیبی پجاریوں کو قتل کریں۔
اور یہ کہ بلاشبہ رونے والے آپ کا حق ہرگز ادانہ کرسکیں گیں خواہ ان کا رونا کتنا ہی لمبا ہوجائے اور غم وحُزن کتنا ہی کیا جائے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں آپ کی رحلت پر روؤں یا اُن علماء کی حالت پ روؤں کہ جو تیرے جہاد کے خلاف رکاوٹ بنے اور آپ کے دشمن امریکیوں اور ان کے آلہ کاروپیروکار حکمرانوں کی صف میں جاکھڑے ہوئے۔
سمجھ نہیں آتی کہ میں آپ کی رحلت پر آنسو بہاؤں یا اُمت کی حالت پر آنسو بہاؤں کہ جو اکثر اوقات اپنے دوستوں اور دشمنوں میں فرق تمیز نہیں کرتی لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کسی زندیق کی شان کو تو بہت بڑھاتی ہے جبکہ کسی انتہائی شفیق ناصح کے رُتبے کو کم کرتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہن یہ اُمت اپنے دشمن کے دوستوں کی شان کو تو بڑھاتی ہے ۔ جبکہ اس کا اپنا دفاع کرنے والے اور اس کے مرکز کی چوکیداری کرنے والے کی قدرومنزلت کو کم کرتی ہے۔ حتی کہ اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
سيأتي على الناس سنوات خداعات يصدق فيها الكاذب ويكذب فيها الصادق ويؤتمن فيها الخائن ويخون فيها الأمين رواه ابن ماجه من حديث أبي هريرة
لوگوں پر ایسے جھوٹے سال بھی عنقریب آئیں گے کہ جب جھوٹ کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا، امین کو خائن اور خائن کو امین سمجھا جائے گا۔ (اسے ابن ماجہ نے ابوہریرہ کی حدیث سے روایت کیا ہے۔)
اورہم اگر چہ اپنے شیخ کی جدائی پر غمگین ہیں مگر ہم اس کی کامیابیوں پر خوش بھی ہیں اور کامیابی کے ہمارے پیمانے وہ نہیں کہ جو پیمانے ہمارے دشمن کے ہیں ۔ بلاشبہ ہمارے شیخ کی یہ بھی کامیابی ہے کہ جب اس کی روح نے دنیا سے منہ پھیرا اور ہجرت وجہاد کا راستہ اختیار کیا۔ اور وہ کامیاب ہوا جب اللہ تعالیٰ نے اسے صلیبیوں کے خلاف اور ان کے مددگاروں کے خلاف جہاد کی چنگاری بھڑکانے کی توفیق دی اور اُسے بھڑکتے ہوئے چھوڑگیا اور یہ انشاء اللہ اسی طرح بھڑکتی رہے گی۔
قد قدحت العزّ زنداً غير كاب ** وَلَبِسْتَ المَجدَ بُرْداً غَيرَ بَالي
ترجمہ شعر: بلاشبہ آپ نے نہ بجھنے والا شعلہ بھڑکا دیا اور عزت وعظمت بوسیدہ نہ ہونے والا لباس پہنا۔
اور اس نے کامیابی حاصل کی کہ جب اللہ نے اسے چُنا اور شھید ہوا کہ جس کی وہ تمنا کرتا تھا۔ وہ کامیاب رہا کیونکہ وہ بہادروں کی موت مرا عزت کے ساتھے آگے بڑھتے ہوئے اور پیٹھ پھیرے بغیر۔
وأمَّا القائِلونَ قَتيلُ طَعْنٍ ** فذلك مصرع البطل الجليد
ترجمہ شعر: کہنے والے تو کہتے ہیں کہ وہ نیزہ کھاکر قتل ہوا حقیقت یہ ہے کہ یہی کسی بہادر ، صابر کی موت ہوتی ہے۔
اس نے کامیابی حاصل کی کیونکہ اس کی موت بھی (دوسروں کے لیے) نمونہ بن گئی جیساکہ اس کی زندگی ایک نمونہ تھی۔ اور اس کی کامیابی کی تکمیل یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنی عمر دی کہ جس میں مجاہدین کی کامیابیوں اور صلیبیوں کی ہزیمتوں اورطاغوتوں کے گرنے اور جہادی جماعتوں کے پھیلنے سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی۔ لہٰذا گویا کہ یہ کامیابیاں اس کے لئے ایک خوشخبری تھیں کیونکہ مہم سر ہوچکی لہٰذا کام اور مشقت وتھکاوٹ کا وقت ختم ہوچکا ہے اور اب راحت اور اجروبدلے کا وقت آگیا۔
اس امت کے دشمن یہ گمان کرتے ہیں کہ بلاشبہ جہادی قیادت اور اس کے لیڈروں کو قتل کرکے وہ جہاد کا خاتمہ کردیں گے۔ ہر گرز نہیں۔ بہت دور۔۔
بلاشبہ وہ ایک اہم حقیقت کو بھول رہے ہیں اور وہ یہ کہ بہادروں کی اپنے نظریات وعقائد کی راہ میں موت بذات خود ان عقائد ونظریات کے پھیلاؤ لوگوں کا ان سے قائل ہونے کا ایک سبب ہوتی ہے۔ جی ہاں۔۔ ہمارے لیڈروں کے خُون دشمن کے قدموں میں لگنے والی آگ کو مزید بھڑکانے والا ایندھن بنے گا۔
اے صلیبیوں یقینا تم نے ہم سے ایک عظیم کامیابی حاصل کرلی۔
يا عصبة الشرك ما أعلى جدودكُمُ ** لقد ظفرتم برب النصر والظفر
لقد ظفرتم بمن ما هزّ مُنصلَهُ **إلا تَحكَّم في الهامات والقَصَر
شعر : اے مشرکو۔۔! تمہارے نصیب کے کیا ہی کہنے، کیونکہ تم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ تم نے اُسے (مارکر) کامیابی حاصل کی کہ جب بھی وہ تلوار لہراتا تو کھوپڑیاں اڑادیتا۔
لیکن اس سے ہمارا اتحاد ختم ہوگا نہ ہی ہمارا جہاد کمزورہوگا ۔ ان شاء اللہ
خبردار۔۔۔! اگر آج تم نے ایک اُسامہ کو قتل کیا تو کل تم پر لاکھوں اُسامہ حملہ آور ہوں گے۔۔
خبردار۔۔! جان لو کہ بلاشبہ اُسامہ ایک اُمت کا نام ہے اور بلاشبہ یہ اُمت ہی اُسامہ ہی ہے۔
خبردار۔۔! جان لو کہ تم کسی ایک شخص سے نہیں لڑرہے بلکہ تم کو لوگوں کی ایک اُمت سے لڑرہے ہو۔
إذا مات منا سيد قام بعدهُ **نظير له يغني غناه ويخلفُ
ترجمہ شعر: اگر ہم میں ایک سردار ماراگیا تو اس کے بعد اس کی مانند اور اُٹھ کھڑا ہوگا جو اس سے بے پرواہ کردے گا اور اس کی جگہ پُر کرے گا۔
خبردار۔۔! یادرکھو۔۔۔! بلاشبہ مجاہدین اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں نہ کہ اُسامہ کی راہ میں۔ اور بلاشبہ اُن کا جہاد قیامت تک جاری رہے گا تو لہٰذا تیار رہو۔۔! جنگ کے لئے اور بہادروں کا سامنا کرنے اور خوفناک ترین حالات کے لیے۔۔۔۔
اے مسلمانو۔۔۔۔! ہم ایک ایسی زخمی امت ہیں کہ جسے دشمن نوچ رہے ہیں لہٰذا ہمارے پاس رونے دھونے کا وقت نہیں ۔ اور نہ تعزیت کی کوئی جگہ ۔ ہماری تعزیت ایک ہی ہے اور وہ ہے دشمنوں سے جنگ لڑنا۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے عہدکروکہ آج کے بعد اسلامی ملکوں میں امریکیوں کا جھنڈا بلند نہ ہونے دیں گے ۔اور ہمارے دلیر شیخ کے نقش قدم پر چلو۔ اور کمزوری اور سستی اور جھکنے کو چھوڑ کر جہاد کا پرچم اٹھا کر اس کا انتقام لو اور دشمنوں پر اس طاقت اور شدت سے حملہ کرو کہ جواُنہیں ان کی خوشیاں بھلادے اور جو ان کے لیے اندوہ وغم لائے ۔ اپنی کوشش کو دوگنا کردو اللہ تعالیٰ تمہارے اجروثواب کو دوگنا کردے گا۔ جو کوئی اس غزوہ سے باہر تھا تو اُسے آج ہی اس کے لئے نکلنا چاہئے اور ذرہ بھر تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اور جو کوئی دس (مجاہدوں) کو تیار کرتا تھا اُسے بیس تیار کرنے چاہئیں۔ اور جو کوئی سوکافروں سے لڑتا تھا اُسے دوسوسے لڑنا چاہئے۔
یادرکھو۔۔۔! بلاشبہ جنگ میں شکست وفتح بدلتی رہتی ہے اور دن ایک جیسے نہیں رہتے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
ترجمہ: اگر تمہیں زخم (شکست) لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو متمیز کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا (آل عمران: ۱۴۰)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ إِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
ترجمہ: اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا اور (بڑی) حکمت والا ہے (النساء ۱۰۴)
اور حقیقی کامیابی اس کی ہوتی ہے کہ دونوں فریقوں میں سے جوزیادہ صبر کرنے والا زیادہ عزم وحوصلہ رکھنے والا ہو جیساکہ شاعر نے کہا:
سَقَيْنَاهُمُ كَأساً سَقَوْنَا بمِثْلِهَا ** وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْمَوْتِ اصْبَرَا
شعر : ہم نے انہیں (غم وتکالیف کا) ایسا پیالہ پلایا جیساکہ انہوں نے ہمیں پلایا لیکن وہ موت پر ہم سے زیادہ صبر کرنے والے نکلے۔
اور اللہ کی پناہ۔۔۔! کہ دین کے دشمن ہم سے زیادہ صبر والے ، زیادہ عزیمت والے اور زیادہ خوددار وغیرت والے ہوں۔ لہٰذا صبر کیجئے اپنے جہاد پر اور اپنے دشمنوں کے ساتھ لڑنے میں صبرکرواور اپنی سرحدوں پر رہو۔ اور یادرکھو۔! کہ بلاشبہ دشمن کا مقصد قیادت کو نشانہ بناکر صرف اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور اختلاف کو ہوا دینا ہے ۔ لہٰذا یکجہتی اور اپنے امیروں کی سمع واطاعت لازم پکڑے رہو۔
اور خوشخبری حاصل کرو اللہ کی اس نصرف کی کہ جس کا اس نے آپ سے وعدہ کیا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُون
(ترجمہ : اور بے شک ہماری فوج ہی کامیاب ہو گی (الصافات: ۱۷۳
:اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست بنائےگا اور مومنوں کو تو یقینا اللہ کے گروں والے ہی غالب آنے والے ہے (المائدہ : ۵۴)
:اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ
(ترجمہ : بے شک ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی ضرور مدد کرتے ہیں (غافر: ۵۱
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
(ترجمہ: اے ایمان والوں اگر اللہ کی مدد کروگےاللہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارےقدم جما دے گا (محمد: ۷
یہ اللہ تعالیٰ کا یقینی وعدہ ہے لہٰذا خوش ہوجاؤ اور اس کا یقین کرو اور جہاد کے راستے پر چلتے رہو۔ یا اللہ اُمت کے اس شہید کو قبول فرما اور اسکے اھل اور اس کی اُمت کو اس کا نعم البدل عطافرما۔ اور اس کی شھادت کو اللہ کے دشمنوں کے لئے آگ بنادے جبکہ اسے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے ایسی روشنی بنادے کہ جو ان کی اس راہ کو منور کردے۔
والحمدللہ رب العالمین
ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
جمعہ ۰۳ جمادی الثانی ۱۴۳۲ھ
ڈاؤن لوڈ کریں:
http://www.mediafire.com/?zy43462m0pjgpk3
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شیرِاسلام
شیخ حسین بن محمود
ترجمہ: انصار اللہ اردو بلاگ
آج میں اس شخص کے نَسَب کے بارے میں بات نہیں کروں گا کیونکہ اس جیسوں سے تو نسب شروع ہوتا ہے اگرچہ اس کے والد تین مسجدوں (مسجد حرام، مسجد نبوی،مسجداقصیٰ) کے بانی تھے ۔ لہٰذا گویا کہ ہمارا ساتھی لسان حال سے کہہ رہا ہے
لسنا ، وإن كرمت أنسابُنا يوماً … على الأنساب نتّكلُ
نبني كما كانت أوائلنا تَبني … ونفعل مثلما فعلوا
ترجمہ: گو کہ ہمارے انساب بہت عزت والے ہیں مگر ہم کبھی بھی انساب پر بھروسہ کر کے نہیں بیٹھے ۔
ہم تو بنیاد ڈالتے ہیں جیسا ہم سے پہلے والوں نے بنیاد ڈالی تھی اور ہم کام کرتے ہیں جیسا کہ اُنہوں نے کئے
رہا اُس کا لقب تو کہا گیا (شیخ المجاہدین) اور کہا گیا (فاروق الاسلام) اور کہا گیا (دہشت گرد) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسکے ذریعے اپنے دُشمنوں پر اتنی دہشت طاری کردی کہ اُنکی نیندیں حرام ہوگئیں ۔
ورموه بالإرهاب حين أبى الخِنى … ومضى على درب الكرامة وارتقا
ترجمہ: جب اُس نے ذلت قبول کرنے سے انکار کردیااور عزّت و کرامت کی راہ پر چلا اور بلند ہوا تو انہوں نے اس پر دہشت گرد ہونے کی تہمت لگادی
اور کہا گیا (بہادرسردار) اور کہا گیا (ہیرو شیر) اور کہا گیا ۔۔۔۔۔ اور کہا گیا ۔۔۔۔۔۔ اور کہا گیا۔۔۔ لیکن میں تو اُس کے اُس نام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں کہ جو اُسکے والدین نے رکھا اور وہ ہے اُسامہ (اُسامہ) شیر کا اسم عَلَم ہے جیسا کہ (الرائد) لغت کی کتاب میں ہے لیکن میرے پاس جو کتاب ہے اسکی طباعت پرانی ہے 1967ء کی اور ہوسکتا ہےکہ ان حادثات (9/11)کے بعد اسکے مولف نے یہ معنی تبدیل کرکے یوں لکھ دیا ہو کہ اَسد (شیر) اُسامہ کا اسم عَلَم ہے ۔
ہمارا ساتھی مسلمان ہو نے کے ناطےشیر تو تھاہی اور چونکہ آج اُسکی نظیر نہیں ملتی لہٰذا وہ (شیر اسلام) ہے
أسدٌ ، دم الأسد الهزبر خضابه … موتٌ ، فريص الموت منه ترعَّد
شعر کا ترجمہ: شیر کی ایسی موت ہے کہ خود موت بھی جس سے کا نپتی ہے ببر شیر کے خون کا رنگ بھی موت ہی ہوتا ہے
اُس نے عیش و عشرت کی زندگی چھوڑدی اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے اپنے دُشمنوں پر دہشت طاری کر دی اور اس کے ذریعے اللہ نے اسلام کا پرچم اُس وقت سر بُلند کیا کہ جب مسلمانوں کے سَر جُھکے ہوئے تھے اور ایسا کسی تواضع کیوجہ سے نہ تھا
ولولا صارمي وسِنانُ رُمحي … لما رَفَعَت بنو عبْسٍ عِمادا
ترجمہ شعر: اور اگر میری تلوار اور میرے نیزے کی نوک نہ ہوتی تو بنو عبس کبھی خیمہ نہ لگا سکتے ۔
میں یہ کلمات (شیرِ اسلام)کے بارے میں اس وقت لکھ رہا ہوں کہ جب چُوہے اپنے بِلوں میں سے نکل کر اُچھل کُود کررہے ، اکڑفوں کررہے، چیخ و پکار کررہے ہیں تاکہ اس خطرناک و بہادر شیر کو اپنے غیض و غضب اور قہر کا نشانہ بنائیں کہ جس نے ان کے مغربی معبودوں کی نیندیں حرام کردیں ۔
لیکن میں کیا کہہ سکتا ہوں جبکہ اُس کی زبان فعل کہہ رہی ہے کہ:
وأكونُ أوّلَ ضاربٍ بِمُهَنّدٍ … يُفري الجماجِمَ لا يُريدُ سِواها
وأكونُ أوّلَ فارسٍ يَغشى الوغى … فأقودُ أوّلَ فارسٍ يَغْشاها
والخيْلُ تَعلَمُ والفوارِسُ أنني … شيْخُ الحُروبِ وكَهْلُها وفَتاها
ترجمہ شعر: میں پہلا شخص ہوں جو تلوار کا ایسا وار کرے گا کہ جِس سے کھوپڑیاں اُڑتی ہیں اور اس تلوار کا کام صرف یہی ہے ۔
میں پہلا شہ سوار ہوں گا کہ جو معرکے میں گُھسے گا اور جنگ میں شامل ہونے والے پہلے گھڑ سوار کی کمان بھی مین ہی سبھالوں
شہ سوار اور گھوڑے جانتے ہیں کہ میں جنگوں کا شیخ بوڑھا اور جوان سب کچھ ہوں ۔
میں اِس (شیرِ اسلام) کے بارے میں بات نہیں کروں گا اور نہ ہی اسکے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اس کے عظیم کارناموں کے سا منے الفاظ بہک نہ جائیں اور تعبیریں ہچکچاہٹ کا مظھرہ نہ کریں لیکن میں وہ کلام ذکر کرون گا کہ جس پر جنگ کے شیروں مین سے ایک اور شیر چلا ۔ یہ وہ کلمات ہیں کہ جو ایسے مجدّد کا قصّہ بیان کرتے ہیں کہ جو اونگھھ سے بیدار ہوا اور عزّت و آبرو کی ایسی صدا بلند کی کہ دُنیا اُس کی عظمت کی چوٹی کی بلندی کو دیکھنے سے عاجز ہے ۔
اپنے زمانے کے جہادی فقہ کے مجّدد الشیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ نے فرمایا (ہم اللہ تعالیٰ سے دُعاگو ہیں کہ وہ ہمارے بھائی ابو عبداللہ اُسامہ بن لادن کی حفاظت کرے۔ یہ ایسا آدمی ہے کہ میری آنکھ کھوتے ہی روئے زمین پر ایسا آدمی کبھی نہیں دیکھا) اور آپ (عبد اللہ عزّام رحمہ اللہ) نے فرمایا
(یہ شخض اکیلا ہی ایک امت کے برابر ہے نیز فرمایا اللہ کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ مجھے عالمِ اسلامی میں اسکی نظیر نہیں ملتی ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے متمنی ہیں کہ وہ اسکے دین و مال کی حفاظت فرمائے اور یہ کہ اس کی زندگی میں برکت عطا فرمائے)۔ آمین
إني لأفتح عيني حين أفتحها … على كثير ولكن لا أرى أحدا
ترجمہ شعر: میں جب بھی اپنی آنکھ کھولتا ہوں تو بہت سوں کو دیکھتا ہوں مگر اُس جیسا کسی کو نہیں پاتا
لہٰذا اس بات کا جو اب تو بہت آسان ہے کہ شیرِ اسلام اِس پہاڑ (عزّام) کی اس اجلالی نظر کا کیسے مستحق بنا ۔ کیونکہ اس نے جب اللہ کی کتاب میں یہ پڑھا
أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ
ترجمہ : اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو ۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو سنو!دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے۔ (التوبہ ۔ 38)
تو اس نے مُنہ بھر کر کہا کہ (ہر گزنہیں) اور اس نے اپنے پیچھے اِس دنیاوی زندگی کی بے وقعت متاع کو چھوڑا اور موت کے موقع کی جگہوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہُوا ۔
إن لله عباداً فُطنا … طلّقوا الدنيا وعافوا الفتنا
نظروا فيها فلمّا علموا … أنها ليست لحيٍّ وطنا
جعلوها لُجّة واتخذوا … صالح الأعمال فيها سُفنا
اشعار کا ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے ایسے عقلمند بندے بھی ہیں کہ جنہوں نے دُنیا کی عیش و عشرت کو طلاق دی اور فتنوں سے بچ گئے ۔
اُنہوں نے اس دنیا کی طرف دیکھا اور جب اُنہیں پتہ چلا کہ کسی بھی زندہ رہنے والے کا یہ ہمیشہ کا وطن نہیں تو اُنہوں نے اُسے سمندر سمجھا اورنیک اَعمال کو اسکی کشتیاں بنا لیا ۔
عزّام رحمہ اللہ اس (شیرِ اسلام)کے حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (وہ زندگی گزارتا ہے تو فقیروں کی سی زندگی گزارتا ہے میں جب کبھی حج یا عمرے کے لیے جاتا تو میں اس کے گھر جاتا اُس کے گھر میں نہ تو کوئی کرسی ہوتی اور نہ میز کبھی بھی حالانکہ اُسکی چار بیویاں تھیں مگر اس کے کسی گھر میں کوئی کرسی ہوتی نہ میز ۔ مِصر یا اُردن کے کسی ملازم کا گھر اُسامہ کے گھر سے زیادہ اچھا تھا ۔ اسکے باوجود جب آپ اس سے مجاہدین کے لیے ریال طلب کریں تو چند لمحوں کے اندر آپ کو ملین ریال کا چیک مجاہدین کے لیے لکھ کردے دیتے)۔
اور آپ (عزام) فرماتے ہیں کہ افغان دیکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عربی ہے کہ جِس نے اپنے اثاثہ جات اور اپنا کام اور اپنی کمپنی سعودیہ یا خلیج یا اُردن میں چھوڑ ی اور خود ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر خشک روٹی اور چائے پر زندگی گزارنے آیا ہے اور وہ (افغانی) دیکھتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن نے مدنی حَرم کی توسیع کا کام (پروجیکٹ) اور اپنی آمدن (جو کہ آٹھ لاکھ سعودی ریال ہے)چھو ڑ دی اور خود یہاں میدان معرکہ میں پڑا ہے ۔عزام رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی ۔
صرف یہی نہیں بلکہ ہمارا یہ شیر تو شیروں کی کُچھار سے نکلا ہےشیخ الجہاد عزّام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (اس شیرِ اسلام)نے اپنی ایک بہن کے پاس گیا اور اسکے سامنے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مال کے ساتھ جہاد کرنے کا فتویٰ پیش کیا تو اُس نے آٹھ ملین کا چیک لکھ دیا یعنی چالیس ملین روپیہ ۔ تو اس کے پاس اُسے سمجھانے والے آئے اور اُسے قائل کرتے ہوئے کہنے لگے کہ کیا آپ پاگل ہوگئیں ہیں ۔
اللہ کی قسم مُسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اُسے سمجھانے اور قائل کرنے پر لگے ہوئے تھے کہ کیا آپ نے ایسا کیا اور مسلمان مرد اُسکے شوہر کو سمجھانے لگے کہ ایک ہی مرتبہ میں آٹھ ملین ۔۔۔ !!؟
اور اُسے کہنے لگے کہ آپ کرائے کے فلیٹ میں رہتی ہیں تو کم از کم اپنے گھر بنانے کے لیے ایک ملین بچالیے ہوتے تو وہ اس پر قائل ہوگئیں اور اس کے پاس آئی اور اُسے کہا کہ اُسامہ میرے بھائی! ایک ملین ریال واپس کردیں تاکہ میں اپنا گھر بنا سکوں تو آپ نے اُسے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ایک رہال بھی واپس نہ ہوگا اس لیے آپ تو ایک فلیٹ میں بڑے آرام سے رہ رہیں ہیں جبکہ لوگ مررہے ہیں اور انہیں ایک خیمہ بھی نہیں ملتا۔
(عزام رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)
اُس کے پاس دُنیا اُسے دھوکہ دینے آئی تو اُس نے اُسے کہا کہ کسی اور کو دھوکہ دو بلاشبہ میں تمہیں تین ایسی طلاقیں دے چکا ہوں کہ جس میں رجوع نہیں اور دیکھیے اس کی توضع کی جانب (اللہ اُسے عزّت دے اور اسکی مدد کرے) اس شیر کی تواضع کہ جِس نے دُنیا کو اپنے پنجوں سے چیر پھاڑ ڈالا۔ عزام رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
اور جب وہ آپ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو آپ گمان کریں گے کہ وہ تو خادموں میں سے کوئی خادم ہے ادب و احترام اور مردانگی کے ساتھ اور اللہ کی قسم میں اسے ایسے پکڑتا اور (الشیخ سیاف)سے کہتا کہ آپ اِس کے لیے حکم جاری کریں کہ اسکا یہاں سے حرکت کرنا ممنوع ہے کیونکہ وہ ہمیشہ محاذ پر رہنے کو خواہش رکھتا۔
اور جب اُسامہ میرے گھر آتا تو یقین کیجیے کہ جب فون کی گھنٹی بجتی تو وہ خود فون اُٹھا کر میرے پاس لاتا تاکہ میں اپنی جگہ سے نہ اُٹھوں اور یہ ادب و حیا اور مردانگی ہے اسکی ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ اسکی حفاظت فرمائےگا ۔ انشاء اللہ رمضان کے دنوں میں پہلی متربہ اس نے میری دعوت کی تو میں اس کے پاس گیا تو اذان کے وقت وہ ایک برتن میں شوربہ لایا کہ جِس میں چند ہڈیاں تھیں جن پر تھوڑا ساگوشت تھا اور دو یا تین کباب تھے۔
(عزام رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)
بلاشبہ شیر اپنے ساتھیوں سے الفت رکھتا ہے اور یہ (شیرِ اسلام) اپنے خلیلوں (دوستوں) سے اکیلا نہیں رہتا کیونکہ اس کے ارد گِرد بھی جنگل کے وہ شیر ہیں کہ جنہوں نے زمین کو بچھونا بنایا تو آسمان کو لحاف اور بارش کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو اپنا ٹھکانہ بنایا ۔ شیروں کی سرزمین میں شیر اور چیر پھاڑ کرنے والے بہادر اپنی موت کو ہنستے کھیلتے گلے لگاتے ہیں۔ میری جان قربان ہو ان خوش نصیب گروہ پر ۔
إن لله عباداً فُطنا … طلّقوا الدنيا وعافوا الفتنا
نظروا فيها فلمّا علموا … أنها ليست لحيٍّ وطنا
جعلوها لُجّة واتخذوا … صالح الأعمال فيها سُفنا
ترجمہ شعر: میری جان قربان ہو اور جو کچھ میرے پاس ہے اُن شہ سواروں پر کہ جنہوں نے اپنے بارے میں میرے گمانوں کو سچ کر دکھایا وہ شہ سوار کہ جو ایسے وقت موت سے نہیں گھبراتے کہ جب خوفناک جنگ کا معرکہ اپنے عروج پر ہو ۔
اور ان خوبصورت لمحوں کا تصوّر کیجیے کہ جو ہمارے لیے (اللہ کے فضل سے) شیخ الجہاد عزّام نے نقل کیے ہیں مومن کی خواہش کے لمحے ! کاش کہ وہ اپنا سب کچھ فروخت کرکے اُن حقیقتوں میں چند لمحے گذارے کہ جنہیں کوہِ سلیمان نے دیکھا کہ جب جنگ کا شعلہ بھڑکا اور معاملہ بہت سخت ہوگیا اور بہادروں کے خلاف مکرو فریب ہونے لگا اور حوروں کے عاشق میدان معرکہ کی طرف سبقت کرنے لگے اور اگر آپ اُنہیں منع کا اشارہ بھی کریں تو ان کے گالوں پر آنسو موتی بن کر گرنے لگتے ہیں گویا کہ اُن میں سے کوئی اور اس (موت) کا کا بڑا والہانہ عاشق ہے یا پھر وہ شدتِ غم سے بول بھی نہیں سکتا بلاشبہ اُس کا خیال سوچ اپنے اُس بھائی لگا رہتا ہے جو اس سے سبقت لے گیا ان میں سے چھوٹے بڑے ، ہلکے ، بوجھل سب کے سب میدان معرکہ کی طرف جانا چاہتے ہیں ہم کوشش کرتے ہیں اُنہیں موت سے روکیں تو گویا کہ ہم کسی شیر کو اُس کے کیے ہوئے شکار سے پیچھے ہٹا رہے ہیں اور گویا کہ ہم فضول کوشش کررہے ہیں اور اگر نافرمانی کا خوف نہ ہوتا تو وہ ایسے جھپٹ پڑتے کہ جیسے بھوکے دستر خوان پر جھپٹتے ہیں جبکہ اسامہ بن لادن تو گویا پیاسے گھوڑون کی لگامیں کھینچ کر اُنہیں پانی سے منع کرتا ہے اور انہیں پیچھےکھینچتا ہے
(عزام رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)
اور اس کے بعد یہ تو ضروری ہے کہ حاقد و حاسد کیڑے مکوڑے جہادی شیروں پر زبان درازی کریں اور ان بہادروں کے قائدین پر طعن و تشنیع کریں جیسے (شیخ الجہاد عزّام) اور ان کے وہ ساتھی کہ جنہوں نے اُں تاریخی لمحوں اور ایمان کےمواقع مین شرکت کی۔ لیکن ہم ان حقیر ترین زمینی حشرات کے مُنہ پتھر کے اس لقمے سے بند کرتے ہیں کہ جِس کے بعد اُنہیں کچھ بھی اچھا نہیں لگے گا ۔
یہ لیجیے سیّد ضیاء (شمالی اتحاد کا کمانڈر اور عبد الرّب الرسول سیاف کا بھانجا ہے اور اُن لوگوں میں سے ہے کہ جنہوں نے آٹھویں صلیبی جنگ میں شیر مجاہدین کے خلاف لڑائی کی) فرانسیسی اخبار بومنڈ کے نامہ نگار کو بتاتا ہے کہ (ہم جانتے تھے کہ اُسامہ امیر آدمی ہے لیکن وہ ہمارے درمیان حیرت انگیز سادہ زندگی گذارتا تھا اور وہ روسیوں کے گھیراؤ میں دو مرتبہ آیا تھا اور ان میں سے ایک مرتبہ اُس وقت وہ گھیرے میں آیا تھا کہ جب وہ معرکہ 24دن تک ہوتا رہا اور اپنی زندگی کا یہ سب سے لمبا معرکہ میں نے دیکھا تھا جس میں اُسامہ اپنے سو ساتھیوں کے ساتھ ایک پہاڑ کی چوٹی پر سات دن تک گھیرے میں رہا اور بہت شدید بمباری ہورہی تھی تو اُس (اُسامہ) نے اپنے مورچوں کے ارد گرد کے علاقے کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا تاکہ روسیوں کو اوپر چڑھنے سے روکے پھر اُس نے ساتویں روز بھرپور حملہ کیا اور اس معرکے کو جیتا ۔ اُسامہ اور عرب لوگ حقیقت میں بہت بہادر تھے اورمیں اُس وقت کے بعد کبھی اتنی شدّت کا معرکہ نہیں دیکھا اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس گولہ بارود کی بہت کمی تھی لہٰذا ہم مجبور ہوتے تھے کہ روسی فوجی ہمارے مورچوں کے قریب آئیں تو پھر ہم فائرنگ کرتے لیکن بلاشبہ عرب لوگ دُشمن سے لڑنے کے لیے مورچوں سے چھلانگیں لگا کر نکل جاتے وہ آمنے سامنے آکر للکارنے کو محبوب سمجھتے تھے جبکہ کوئی ایک افغانی ایسا نہیں کرتا تھا) اسکی بات ختم ہوئی۔
إن المنية لو لاقتهم جفلـت … خرقاء تتهم الإقـدام والهربا
ترجہ شعر: بلاشبہ جب اُں کا سامنا موت سے ہوتا ہے تو موت بھاگ جاتی ہے
میں اِن چوہوں سے کہتا ہوں کہ! اُسامہ (شیر) کی دھاڑ سے تمہارے معبودوں کے جِسم کانپ رہے ہیں اور دُنیا کانپ اُٹھی ہے اور تمہارے آقاوں کی نیندیں اُڑگئٰں ۔ کیا یہ سب میدانِ جنگ کے اُسامہ (شیر) کیوجہ سے نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ (شیرِ اسلام) اپنی قسم نہیں توڑتا ۔
اے قابل فخر بہادر بیٹے تو نے سچ کیا اور تجھ جیسا سچا ہی ہوتا ہے جو تلوارسے کھوپڑیاں اُڑارہے ہے ۔ جنگ تم جیسے بہادروں کے شوق میں ہے کہ جن کے عزائم عمر بن خطاب جیسے ہوتے ہیں نہ کہ غلاموں جیسے
یہ رہا تمہاراسب سے بڑا بُت کہ جس نے واشنگٹن شہر میں اپنے ارگرد ظالم درندے کھلے چھوڑ رکھے ہیں اور اپنی خاص بھیڑوں کو شیروں کی سرزمین پر بھیجتا ہے جہاں کے خوفناک شیر انکی چیر پھاڑ کرتے ہیں
ومن رعى غنماً في أرض مسبعةٍ …. ونام عنها ، تولّى رعيها الأسدُ
ترجمہ شعر: جوکوئی شیروں کی سرزمین پر بکریاں چراتے ہوئےسوجاتا ہے تو پھر ان (بکریوں) کو شیر ہی سنبھالتے ہیں ۔
اے ایماندار بھائیو!! تحقیق اہلِ جہاد نے زمین کے سینے پر مردہ بن کر رہنے پر میزائلوں کی خندقوں میں باعزّت دفن ہونے کو ترجیح دی ہے۔
جہاد ایسا سمندر ہے کہ اس میں صرف سچے ایمان والے ہی تیراکی کرسکتے ہیں بلاشبہ بہادروں کے چلنے کا راستہ توپیں بناتی ہیں نہ کہ سڑکیں ۔ میرے برادرِ اسلام
اختَرْ لنفسِك منزلاً تُعلم به … أو مُتْ كريماً تحتَ ظلِّ القسطَلِ
موتُ الفتى في عزّةٍ خيْرٌ لهُ … من أن يَبيتَ أسيرَ طَرْفٍ أكْحَلِ
لا تَسقني ماءَ الحياةِ بذِلَّةٍ … بل فاسقِني بالعِزِّ كأسَ الحَنظلِ
ترجمہ شعر: اپنے لیے ایسا گھر اختیار کرو کہ جِس سے پہچانے جاؤ یا عزّت کی موت مرو تلواروں کے سائے تلے
کسی جوان کا عزّت کے ساتھ مرنا اُس کے لیے اِس سے بہتر ہے کہ وہ کسی زُلف کا اَسیر ہوکر رات گذارے
مجھے ذلت آمیز زندگی کا پانی مت پلاؤ بلکہ مجھے باعزّت کڑوی موت کا پیالہ پلاؤ
وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ * وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلاَّ أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لاَ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہوکر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست رہے اور نہ دبے اور اللہ صبر کرنے والوں کو ہی چاہتا ہے O وہ یہی کہتے رہے کہ اے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے اسے بھی معاف فرما اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر مدد دے O اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا ور آخرت کے ثواب کی خوبی بھی عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔
(اٰلِ عمران ۔ 146۔ 148)
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لاَ يَعْلَمُونَ
واللہ اعلم ۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ وسلم
اسے (حسین بن محمود) نے لکھا
28 جمادی الآخر 1432ھ
ڈاؤن لوڈ کریں:
http://www.mediafire.com/?1sr9txr3cdq974s