بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الشیخ اسامہ کے نقش قدم پر
شيخ ابی المنذر الشنقيطی حفظه الله
ترجمہ: انصار اللہ اردو بلاگ
بسم الله الرحمن الرحيم ، الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبيه الكريم وعلى آله وصحبه أجمعين.
شیخ اسامہ اُمت مسلمہ کی ایسی آواز تھی کہ جو اُسکی تکلیف وپریشانیوں کی ترجمانی کرتی تھی۔ہمیں اس کی غمناک آواز میں ہر زخمی کی آواز ہر زخمی کی آہ، ہر گمشدہ بچے کی ماں کا رونا اور ہر بچے کی چیخ وپکار کی گونج سنائی دیتی ہے۔
اور ہم ظالموں اور سرکشوں کے ہاتھوں ذلیل ومقہور اُمت مسلمہ کے آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپکتے دیکھتے تھے۔ اُس کے نظریات اور اُس کے افعال اُمت کی نبض اور اس کے جذبات کے آئینہ دار تھے۔ اور اس کی تمناؤں اور مرادوں کے حقیقی ترجمان تھے۔ اور اس کے کلمات لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں اُٹھنے والی اُمنگوں کی تعبیر تھے۔
تیس سال سے الشیخ اُسامہ جہاد کا پرچم تھامے اپنے دین اور اپنی اُمت کا دفاع کررہے تھے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے پوری زمین میں اس کے لیے قبولیت ڈال دی اور مسلمانوں کے دلوں میں اُس کے لیے محبت اور کفار کی آنکھوں میں ھیبت ڈال دی۔
لہٰذا اُس کے پُرسکون کلمات کی گونج آفاق میں پھیلتی اور سینوں اور دلوں پر راج کرتی تھی جو دوستوں کو جوش دلاتی اور دشمنوں کے دلوں میں رعب طاری کرتی۔اورانکا جہاد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق تھا کہ:
أذلة على المؤمنين أعزة على الكافرين
(مومنوں کے لئے نر م اور کفاروں کے لئے سخت (المائدہ: ۵۴
لہٰذا کتنے ہی مومن اس کی تعلیمات اور اس کی پکار سن کر سکون محسوس کرتے تھے۔ اور کتنے ہی کفار کے جمگھٹے ایسے تھے کہ جو اس کی دھمکیوں اور وعیدوں کو سُن کر بدترین حال میں رہتے تھے۔
فبأس يذوب الصخر من حر ناره ** ولُطفٌ له بالماءِ ينبجسُ الصَّخرُ
ترجمہ شعر : وہ ایسا طاقتور خوف ہے کہ جس کی حرارت سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔
اور وہ اتنا نرم ولطیف ہے کہ جیسے پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے
اس نے اپنے دین اور اپنی امت کی نصرت کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹادیا اور ہر محبوب چیز کو چھوڑا۔ اُس نے مال وجان لٹائی اور اپنے اہل وعیال اور وطن کو چھوڑا۔ اُس نے دیا تو ہے مانگا کچھ نہیں اور قربانی دی جبکہ لیا کچھ نہیں جیساکہ یہ سچے ، مخلص اللہ تعالیٰ سے اجر کے امیدواروں کا طریقہ ہے۔
اس کے باوجودکہ اُس نے اپنا سب کچھ لٹایا اور یہ تمام قربانیاں دیں مگر دلوں کے مریض لوگ پھر بھی ابھی تک اس کی قدروقیمت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تو کیا ہی تعجب کی بات ہے ۔! کہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والے ، گناہگار لوگ اتنے بڑے مجاہدوں کے خلاف جرأت کررہے ہیں!! وہ جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے کے گناہ کے مرتکب تو تھے ہی اس کے ساتھ انہوں نے مجاہدین کی عزتوں پر حملے کرنے کے گناہ کو بھی شامل کرلیا۔!
هو البطل الشهم الأغر السميدع ** الهمامُ السريُّ الأكرمُ المتكرِّمُ
وقد جحدت قومٌ عظيم مقامه ** وقالوا بما قالوا ضَلالاً وأبهموا
وما أنكرت أعداؤه عن جهالة ** مناقبَه العُظمى ولكنَّهم عَمُوا
ترجمہ شعر: وہ تو بہادر ذکی، شریف اور فیاض سردار ہے۔ دلیر صاحب مروت وسخی سردار، کریم اور متکرم ہے۔ اور یہ قوم اس کی عظیم مقام سے تنگ آگئی۔ اور انہوں نے گمراہی کی جوبات کہی تھی کہ دی اور پھر ششں وپنچ میں پڑ گئے۔ اس کے دشمنوں نے اس کے عظیم مناقب کا جہالت سے انکار نہیں کیا بلکہ وہ تو (اس کی دشمنی میں) اندھے ہوگئے۔
ہمارے شیخ اسامہ عزت ووقار کے ساتھ کھڑے ہوئے اور امت کے دشمنوں کے سامنے اس ذلت ومنافقت کے دور میں ڈٹ گئے اور ہمارے لئے شجاعت وخوداری کی مثال بن گئے۔ اس نے پوری دُنیا کے کفار کے لشکروں اور اُن کے متکبروجابر کو چیلنج کیا۔ تو وہ سب انتہائی سرعت کے ساتھ اُس کے خلاف اپنی تمام تر سازشوں اور مکروفریب کے بڑے جال اٹھالائے۔ مگر کیا مجال ہے بزدلی کوکہ اُس کے دروازے پر دستک دے اور نہ وہ موت کے علاوہ ذلت ورسوائی سے رہنے پر راضی ہوا۔
قالت فَلا كذبَتْ شَجاعَتُه ** أقْدِمْ فنَفْسُكَ مَا لهَا أجَلُ
فَهُوَ النّهَايَةُ إنْ جَرَى مَثَلٌ ** أوْ قيلَ يَوْمَ وَغىً منِ البَطَلُ
ترجمہ شعر: بہادری وشجاعت نے کہا آگے بڑھ کیونکہ تیری جان کی تقدیر لکھی جاچکی ہے۔ یہ ایسا خاتمہ ہوگا کہ جس کی مثال دی جائے گی یا پھر جنگ کے روز پوچھا جائے گا کہ بہادر کون ہے!
میں گواہی دیتا ہوں اےابوعبداللہ۔!
کہ تو نے ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجداد کی دلیری کو زندہ کردیا اور ہمیں عزت وعظمت اور نصرت وکامیابیوں کےذمانے کی یادتازہ کرادی۔ لہٰذا ہم نے فخرسے سراُٹھائے اور اپنا اسلحہ اٹھاکر جہاد کے میدانوں کی طرف چل نکلے۔!
اور ہم نے اپنے بہادروں خالد، سعد، مثنیٰ اور مقداد کی اقتداء کی
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
کہ بلاشبہ اللہ نے آپ کے ذریعے دین کی نصرت کی۔ اور آپ کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد پھیلایا۔ اور آپ ہی کے ذریعے کفار کو ذلیل کیا۔ لہٰذا آپ نے متکبرامریکوں کے سروں کو نیچا دکھایا۔ اور آپ نے ان پر ان کے محفوظ ٹھکانے پر حملہ ایسے وقت کیا کہ جب وہ ہر قسم کے حملے سے محفوظ قلعہ بند تھے۔ اور آپ نے اُن کی رُسوائی وخوای کی ہمیشہ کے لائے تاریخ لکھ ڈالی۔
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
اگر حق بات کہنا اور دین کا اظہار کرنے میں اجر ہے تو وہ آپ نے کردکھایا۔ اور یہ کہ اگر دشمنوں کی ناک کو مٹی میں رگڑنے میں اجر ہے تو وہ آپ نے رگڑدیا اور اگر کفر کو غیض وغضب میں مبتلا کرنے میں اجر ہے تو انہیں آپ نے اس میں مبتلا کردیا اور اگر ہجرت کرنے میں اجر ہے تو آپ نے ہجرت کی۔ اور اگر جہاد میں اجر ہے تو آپ نے جہاد کیا۔ اور اگر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں اجر ہے تو آپ نے مال بھی خرچ کیا ۔
ألست الذي ما زال كهلاً ويافعاً ** له المكرمات الغر والنائل الغمر
ترجمہ شعر: کیا آپ وہی نہیں جواب بھی مضبوط وتوانا ہے۔ کہ جس کے اوصاف حمیدہ یہ ہیں کہ وہ بہت زیادہ خرچ کرتا ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں اےابوعبداللہ۔!
بلاشبہ آپ نے ہم طالبعلموں اور مجاہدین کے درمیان ابن المبارک کا مقام صاصل کیا اور جابر حکمرانوں کے سامنے ابن حنبل کا کرداراداکیا۔ اور خونخوارجنگ جووں کے سامنے ابن تیمیہ کا سامقام حاصل کیا۔اور صلیبی لشکروں کے سامنے صلاح الدین کا کرداراداکیا۔
!میں گواہی دیتا ہوں اے ابوعبداللہ ۔
بلاشبہ آپ کی تعریف کرنے والے خواہ کتنے ہی ہیں نظمیں اور قصیدے اور نثروبیان کا اہتمام کریں مگر وہ آپ کو آپ کے شایان شان مقام نہیں دے سکتے اور یہ کہ آپ کا انتقام لینے والوں کا غصہ کبھی ٹھنڈا نہ ہوگا خواہ وہ کتنے ہی صلیبی پجاریوں کو قتل کریں۔
اور یہ کہ بلاشبہ رونے والے آپ کا حق ہرگز ادانہ کرسکیں گیں خواہ ان کا رونا کتنا ہی لمبا ہوجائے اور غم وحُزن کتنا ہی کیا جائے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں آپ کی رحلت پر روؤں یا اُن علماء کی حالت پ روؤں کہ جو تیرے جہاد کے خلاف رکاوٹ بنے اور آپ کے دشمن امریکیوں اور ان کے آلہ کاروپیروکار حکمرانوں کی صف میں جاکھڑے ہوئے۔
سمجھ نہیں آتی کہ میں آپ کی رحلت پر آنسو بہاؤں یا اُمت کی حالت پر آنسو بہاؤں کہ جو اکثر اوقات اپنے دوستوں اور دشمنوں میں فرق تمیز نہیں کرتی لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کسی زندیق کی شان کو تو بہت بڑھاتی ہے جبکہ کسی انتہائی شفیق ناصح کے رُتبے کو کم کرتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہن یہ اُمت اپنے دشمن کے دوستوں کی شان کو تو بڑھاتی ہے ۔ جبکہ اس کا اپنا دفاع کرنے والے اور اس کے مرکز کی چوکیداری کرنے والے کی قدرومنزلت کو کم کرتی ہے۔ حتی کہ اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
سيأتي على الناس سنوات خداعات يصدق فيها الكاذب ويكذب فيها الصادق ويؤتمن فيها الخائن ويخون فيها الأمين رواه ابن ماجه من حديث أبي هريرة
لوگوں پر ایسے جھوٹے سال بھی عنقریب آئیں گے کہ جب جھوٹ کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا، امین کو خائن اور خائن کو امین سمجھا جائے گا۔ (اسے ابن ماجہ نے ابوہریرہ کی حدیث سے روایت کیا ہے۔)
اورہم اگر چہ اپنے شیخ کی جدائی پر غمگین ہیں مگر ہم اس کی کامیابیوں پر خوش بھی ہیں اور کامیابی کے ہمارے پیمانے وہ نہیں کہ جو پیمانے ہمارے دشمن کے ہیں ۔ بلاشبہ ہمارے شیخ کی یہ بھی کامیابی ہے کہ جب اس کی روح نے دنیا سے منہ پھیرا اور ہجرت وجہاد کا راستہ اختیار کیا۔ اور وہ کامیاب ہوا جب اللہ تعالیٰ نے اسے صلیبیوں کے خلاف اور ان کے مددگاروں کے خلاف جہاد کی چنگاری بھڑکانے کی توفیق دی اور اُسے بھڑکتے ہوئے چھوڑگیا اور یہ انشاء اللہ اسی طرح بھڑکتی رہے گی۔
قد قدحت العزّ زنداً غير كاب ** وَلَبِسْتَ المَجدَ بُرْداً غَيرَ بَالي
ترجمہ شعر: بلاشبہ آپ نے نہ بجھنے والا شعلہ بھڑکا دیا اور عزت وعظمت بوسیدہ نہ ہونے والا لباس پہنا۔
اور اس نے کامیابی حاصل کی کہ جب اللہ نے اسے چُنا اور شھید ہوا کہ جس کی وہ تمنا کرتا تھا۔ وہ کامیاب رہا کیونکہ وہ بہادروں کی موت مرا عزت کے ساتھے آگے بڑھتے ہوئے اور پیٹھ پھیرے بغیر۔
وأمَّا القائِلونَ قَتيلُ طَعْنٍ ** فذلك مصرع البطل الجليد
ترجمہ شعر: کہنے والے تو کہتے ہیں کہ وہ نیزہ کھاکر قتل ہوا حقیقت یہ ہے کہ یہی کسی بہادر ، صابر کی موت ہوتی ہے۔
اس نے کامیابی حاصل کی کیونکہ اس کی موت بھی (دوسروں کے لیے) نمونہ بن گئی جیساکہ اس کی زندگی ایک نمونہ تھی۔ اور اس کی کامیابی کی تکمیل یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنی عمر دی کہ جس میں مجاہدین کی کامیابیوں اور صلیبیوں کی ہزیمتوں اورطاغوتوں کے گرنے اور جہادی جماعتوں کے پھیلنے سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی۔ لہٰذا گویا کہ یہ کامیابیاں اس کے لئے ایک خوشخبری تھیں کیونکہ مہم سر ہوچکی لہٰذا کام اور مشقت وتھکاوٹ کا وقت ختم ہوچکا ہے اور اب راحت اور اجروبدلے کا وقت آگیا۔
اس امت کے دشمن یہ گمان کرتے ہیں کہ بلاشبہ جہادی قیادت اور اس کے لیڈروں کو قتل کرکے وہ جہاد کا خاتمہ کردیں گے۔ ہر گرز نہیں۔ بہت دور۔۔
بلاشبہ وہ ایک اہم حقیقت کو بھول رہے ہیں اور وہ یہ کہ بہادروں کی اپنے نظریات وعقائد کی راہ میں موت بذات خود ان عقائد ونظریات کے پھیلاؤ لوگوں کا ان سے قائل ہونے کا ایک سبب ہوتی ہے۔ جی ہاں۔۔ ہمارے لیڈروں کے خُون دشمن کے قدموں میں لگنے والی آگ کو مزید بھڑکانے والا ایندھن بنے گا۔
اے صلیبیوں یقینا تم نے ہم سے ایک عظیم کامیابی حاصل کرلی۔
يا عصبة الشرك ما أعلى جدودكُمُ ** لقد ظفرتم برب النصر والظفر
لقد ظفرتم بمن ما هزّ مُنصلَهُ **إلا تَحكَّم في الهامات والقَصَر
شعر : اے مشرکو۔۔! تمہارے نصیب کے کیا ہی کہنے، کیونکہ تم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ تم نے اُسے (مارکر) کامیابی حاصل کی کہ جب بھی وہ تلوار لہراتا تو کھوپڑیاں اڑادیتا۔
لیکن اس سے ہمارا اتحاد ختم ہوگا نہ ہی ہمارا جہاد کمزورہوگا ۔ ان شاء اللہ
خبردار۔۔۔! اگر آج تم نے ایک اُسامہ کو قتل کیا تو کل تم پر لاکھوں اُسامہ حملہ آور ہوں گے۔۔
خبردار۔۔! جان لو کہ بلاشبہ اُسامہ ایک اُمت کا نام ہے اور بلاشبہ یہ اُمت ہی اُسامہ ہی ہے۔
خبردار۔۔! جان لو کہ تم کسی ایک شخص سے نہیں لڑرہے بلکہ تم کو لوگوں کی ایک اُمت سے لڑرہے ہو۔
إذا مات منا سيد قام بعدهُ **نظير له يغني غناه ويخلفُ
ترجمہ شعر: اگر ہم میں ایک سردار ماراگیا تو اس کے بعد اس کی مانند اور اُٹھ کھڑا ہوگا جو اس سے بے پرواہ کردے گا اور اس کی جگہ پُر کرے گا۔
خبردار۔۔! یادرکھو۔۔۔! بلاشبہ مجاہدین اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں نہ کہ اُسامہ کی راہ میں۔ اور بلاشبہ اُن کا جہاد قیامت تک جاری رہے گا تو لہٰذا تیار رہو۔۔! جنگ کے لئے اور بہادروں کا سامنا کرنے اور خوفناک ترین حالات کے لیے۔۔۔۔
اے مسلمانو۔۔۔۔! ہم ایک ایسی زخمی امت ہیں کہ جسے دشمن نوچ رہے ہیں لہٰذا ہمارے پاس رونے دھونے کا وقت نہیں ۔ اور نہ تعزیت کی کوئی جگہ ۔ ہماری تعزیت ایک ہی ہے اور وہ ہے دشمنوں سے جنگ لڑنا۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے عہدکروکہ آج کے بعد اسلامی ملکوں میں امریکیوں کا جھنڈا بلند نہ ہونے دیں گے ۔اور ہمارے دلیر شیخ کے نقش قدم پر چلو۔ اور کمزوری اور سستی اور جھکنے کو چھوڑ کر جہاد کا پرچم اٹھا کر اس کا انتقام لو اور دشمنوں پر اس طاقت اور شدت سے حملہ کرو کہ جواُنہیں ان کی خوشیاں بھلادے اور جو ان کے لیے اندوہ وغم لائے ۔ اپنی کوشش کو دوگنا کردو اللہ تعالیٰ تمہارے اجروثواب کو دوگنا کردے گا۔ جو کوئی اس غزوہ سے باہر تھا تو اُسے آج ہی اس کے لئے نکلنا چاہئے اور ذرہ بھر تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اور جو کوئی دس (مجاہدوں) کو تیار کرتا تھا اُسے بیس تیار کرنے چاہئیں۔ اور جو کوئی سوکافروں سے لڑتا تھا اُسے دوسوسے لڑنا چاہئے۔
یادرکھو۔۔۔! بلاشبہ جنگ میں شکست وفتح بدلتی رہتی ہے اور دن ایک جیسے نہیں رہتے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
ترجمہ: اگر تمہیں زخم (شکست) لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو متمیز کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا (آل عمران: ۱۴۰)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ إِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
ترجمہ: اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا اور (بڑی) حکمت والا ہے (النساء ۱۰۴)
اور حقیقی کامیابی اس کی ہوتی ہے کہ دونوں فریقوں میں سے جوزیادہ صبر کرنے والا زیادہ عزم وحوصلہ رکھنے والا ہو جیساکہ شاعر نے کہا:
سَقَيْنَاهُمُ كَأساً سَقَوْنَا بمِثْلِهَا ** وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْمَوْتِ اصْبَرَا
شعر : ہم نے انہیں (غم وتکالیف کا) ایسا پیالہ پلایا جیساکہ انہوں نے ہمیں پلایا لیکن وہ موت پر ہم سے زیادہ صبر کرنے والے نکلے۔
اور اللہ کی پناہ۔۔۔! کہ دین کے دشمن ہم سے زیادہ صبر والے ، زیادہ عزیمت والے اور زیادہ خوددار وغیرت والے ہوں۔ لہٰذا صبر کیجئے اپنے جہاد پر اور اپنے دشمنوں کے ساتھ لڑنے میں صبرکرواور اپنی سرحدوں پر رہو۔ اور یادرکھو۔! کہ بلاشبہ دشمن کا مقصد قیادت کو نشانہ بناکر صرف اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور اختلاف کو ہوا دینا ہے ۔ لہٰذا یکجہتی اور اپنے امیروں کی سمع واطاعت لازم پکڑے رہو۔
اور خوشخبری حاصل کرو اللہ کی اس نصرف کی کہ جس کا اس نے آپ سے وعدہ کیا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُون
(ترجمہ : اور بے شک ہماری فوج ہی کامیاب ہو گی (الصافات: ۱۷۳
:اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست بنائےگا اور مومنوں کو تو یقینا اللہ کے گروں والے ہی غالب آنے والے ہے (المائدہ : ۵۴)
:اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ
(ترجمہ : بے شک ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی ضرور مدد کرتے ہیں (غافر: ۵۱
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
(ترجمہ: اے ایمان والوں اگر اللہ کی مدد کروگےاللہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارےقدم جما دے گا (محمد: ۷
یہ اللہ تعالیٰ کا یقینی وعدہ ہے لہٰذا خوش ہوجاؤ اور اس کا یقین کرو اور جہاد کے راستے پر چلتے رہو۔ یا اللہ اُمت کے اس شہید کو قبول فرما اور اسکے اھل اور اس کی اُمت کو اس کا نعم البدل عطافرما۔ اور اس کی شھادت کو اللہ کے دشمنوں کے لئے آگ بنادے جبکہ اسے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے ایسی روشنی بنادے کہ جو ان کی اس راہ کو منور کردے۔
والحمدللہ رب العالمین
ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
جمعہ ۰۳ جمادی الثانی ۱۴۳۲ھ
ڈاؤن لوڈ کریں:
http://www.mediafire.com/?zy43462m0pjgpk3
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔