Friday, November 4, 2011

نورا کشتی

نورا کشتی

عرفان بھائی میرا ذہن بڑی کشمکش سے گزر رہا ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں اگر امریکہ پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو کیا
::: مجاہدین اس مرتد فوج کے ساتھ مل کر اس کے خلاف لڑیں گے
::: یا اس جنگ میں حصہ نہیں لیں گے
::: یا امریکہ کے ساتھ مل کر ان مرتدین کے خلاف لڑیں گے
فرض کیا کہ اگر مجاہدین ان مرتدین کے ساتھ مل کر لڑیں گے تو جو مجاہدین انہوں نے شہید کیے ہیں ان مجاہدین اور جو مجاہدین ہمارے انہوں نے قید کیے ہیں ان کا بدلہ کون لے گا
یا اگر جنگ میں حصہ نہیں لیں گے تو پاکستانی مسلمانوں کی مدد کون کرے گا کیوں کہ عوام تو مسلمان ہیں نا چاہے فوج اور قیادت کافر ہو
یا امریکہ کے ساتھ مل کر لڑیں گے تو یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ شکار خود چل کر آئے اور شکاری فائدہ نہ اٹھائے
یہ سوال میرا آپ سے بھی اور آپ کے بلاگ کے ذریعے مجاہدین کے علماء سے بھی ہے کہ اگر امریکہ پاکستان پر حملہ کرے گا تو عوام اور مجاہدین کو کیا کرنا چاہیے ؟؟
جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائی اس میں زیادہ پریشان ہونے کی بات نہیں ۔ کیوں کہ آپ نے صرف تین صورتیں بیان کی ہیں حالانکہ مجھے مزیدصورتیں بھی نظر آرہی ہیں اور ان میں سے ایک بڑی سادہ اور آسان سی صورت یہ ہے کہ مجاہدین اللہ کے حکم سے دونوں کافر گروہوں کے خلاف بیک وقت قتال کریں گے ۔
یہ تو تھا آپ کے سوال کا جواب لیکن ضروری ہے کہ پہلے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اس ڈرامہ کا پردہ چاک کر دیا جائے ۔ کیوں کہ مجاہدین پر اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ وہ اکثر حالات کا صحیح اور درست تجزیہ کر لیتے ہیں جب کہ جہاد کے مقدس فریضے کو معطل کر کے بیٹھ رہنے والے اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ۔۔۔۔بہت فرق ہے ۔۔۔ بہت فرق ہے ۔۔۔ حالات کے تدارک اور ان تجزیوں کا جو جہاد سے وابستہ اور غیر وابستہ گروہوں کے درمیان ہوگا ۔
مجاہدین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان سیاسی محاذ آرائی محض نورا کشتی اور مخلص مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اب کیوں کہ یہ نقطہ نظر ایک دعویٰ کی حیثیت بھی رکھتا ہے لہٰذا ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم مجاہدین کے موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے اس دعوے کو دلائل کے ساتھ پیش کر سکیں ۔ ابتداً یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ یہاں لفظ پاکستان سے مراد پاکستان کا کفریہ ریاستی نظام اور اس کو بالجبر نافذ کرنے والے حکمران اور افواج پاکستان ہیں نہ کہ پاکستان بحیثیت ایک قوم ۔ کیوں پاکستان میں موجودمختلف طبقات کے درمیان بھی ایک کشمکش برپا ہے اور ضروری نہیں کہ پاکستان کا سرکاری موقف یہاں کے مسلمانوں کی ترجمانی کرتا ہو۔
خبر کی تہہ میں اتریں
سب سے پہلی دلیل تو خود یہ خبر ہے جس میں امریکہ نے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی دھمکی دی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اصل خبر یہ ہے ہی نہیں کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے ۔ امریکہ نے پاکستان پر نہیں بلکہ پاکستان کے مغربی قبائلی علاقوں میں بالخصوص افغان طالبان کے خلاف آپریشن کی دھمکی دے رکھی ہے ۔ جسے یہ دجالی میڈیا حکمرانوں ، جرنیلوں اور سیاسی قائدین کی بیان بازیوں سے متاثر ہوکراور کچھ اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کردیتا ہے ۔ خبروں پر غور کرنے کی ضرورت ہے :
امریکہ یہ نہیں کہتا کہ حملہ ضرور ہوگا بلکہ کبھی خبر آتی ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی آپریشن پر غور ۔۔۔۔
پھر اس سے آگے بڑھ کر کہا جاتا ہے ۔۔۔۔ امریکی افواج نےقبائل میں آپریشن کی دھمکی دے دی۔۔۔۔
یااس سے ملتی جلتی خبریں جیسا کہ ۔۔۔۔ امریکہ کا آئی ایس آئی پر طالبان کی مدد کا الزام۔۔ ۔۔۔وغیرہ
اس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے کبھی دباؤ لینا اور کبھی نہ لینا مثلاً یہ کہنا کہ ۔۔۔
امریکی حملہ ملکی سالمیت کے خلاف تصور کیا جائے گا ۔۔۔
یا کوئی ایسا مزحکہ خیز بیان کہ۔۔۔ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے ۔۔۔
یا ۔۔۔ امریکہ خطےمیں اہم دوست سے محروم ہو سکتا ہے ۔۔۔وغیرہ ۔۔۔
مثالیں بہت ہیں ۔۔۔ غرض یہ ہے کہ آپ کہیں بھی تلاش نہیں کر سکتے کہ امریکہ نے پاکستان کو ان معنوں میں حملہ کی دھمکیاں دی ہوں جیسا کہ پاکستانی قوم یا شہری علاقوں پر حملہ کیا جانے والا ہو ۔۔۔اب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے
کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی
پاکستان اور امریکہ کی دوستی کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی پر تشکیل دی گئی ہے ۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتا ، بس یہی سمجھ لیں کہ دونوں فریق اس طرح ایک دوسرے پر دباؤ بڑھا کر زیادہ سے زیادہ لینے اور کم سے کم دینے پر راضی کرنا چاہتے ہیں ۔
یہ پریشر گیم کہلاتا ہے یعنی یہ سب کچھ محض دباؤ بڑھانے کے لیے کہا جاتا ہے ، یعنی پہلے ایک چنگاری چھوڑی جاتی ہے جب اس سے کام نہیں چلتا تو اس سے زیادہ گرم بیان داغا جاتا ہے۔ اس طرح کے بیانات کا ماحاصل یہی ہے کہ کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ مانگ لیا جائے اور فریق ثانی کو کم سے کم لینے پر راضی کر لیا جائے ۔
لیکن اگر اس گرما گرمی میں ماحول زیادہ خراب ہوتا محسوس ہو تو فورا کوئی وفد واشنگٹن سے آتا ہے یا واشنگٹن جاتا نظر آتا ہے ، کیوں کہ دونوں کے مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لیے یہ دوستی ترک بھی نہیں کر سکتے ۔۔۔۔فکر کی بات یہ ہے کہ اتنی سی بات کو باربار کی مثالوں سے بھی سمجھا نہیں جاتا ۔۔۔۔۔ واللہ المستعان علینا ۔۔۔۔
افغان طالبان کے ساتھ ساتھ
عسکری تجزیہ نگار اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ کو آج یا کل بہر حال اس خطے سے نکلنا ہوگا ۔۔ ۔ پاکستان کے دفاعی ماہرین یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوگا ۔۔۔۔ پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کے گرداب میں پھنس تو گیا ہے اور اس کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرتا آرہا ہے۔ لیکن اس بات کے لیے یہ ہر گز تیار نہیں کہ اپنے اہم ترین ہم سایہ ملک افغانستان اور اس کی حقیقی طاقت یعنی طالبان یا دوسرے الفاظ میں امارت اسلامیہ سے دوستی کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے ۔۔۔لہٰذا ناپاک فوج کی پالیسی یہ ہے کہ افغان طالبان سے دوستی نہیں تو دشمنی بھی نہیں بڑھا ئی جاسکتی ۔۔۔ کیوں کہ اُن کے نزدیک اگر پاکستان ہی باقی نہ رہا تو پھر ہم کس کو پوجیں گے ۔۔۔
کیا فضائی حملہ ، حملہ شمار نہیں ہوتا
اس ساری بحثا بحثی میں کوئی نیک آدمی ان سے یہ بھی نہیں پوچھتا کہ حضرت آپ کے نزدیک قبائلی علاقوں میں مجاہدین کے خلاف امریکی آپریشن ، پاکستان پر حملہ کیوں کر شمار ہوسکتا ہے جب کہ اسی علاقے میں آئے روز مجاہدین کے اوپر فضائی حملے کیے جاتے ہیں ۔ خود مغربی اعداد و شمار کے مطابق امریکہ ۲۰۰۴ سے اب تک اس علاقے میں تین سو سے زائد فضائی حملے کر چکا ہے جس میں کئی ہزارمسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔ کیا فضائی حملہ ، امریکی حملہ نہیں ہے ۔ اور کیا اس میں شہید ہونے والے مسلمان پاکستانی شہریت نہیں رکھتے تھے ۔یا فضائیں آپ مستقل امریکہ کے حوالے کر چکے ہیں اور صرف زمین ہی پاکستان کا حصہ رہ گئی ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے کافر حکمران اور مرتد افواج یہ بات جانتی ہیں کہ امریکی زمینی آپریشن کی صورت میں انہیں پہلے سے زیادہ اندرونی خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں اور پروازوں کے بارے میں وہ نیم خاموشی اور عدم تائید کی سیاسی پالیسی پر عمل کرتے آرہے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ زمینی حملے کی صورت میں پاکستان کےخلاف قتال میں مصروف مجاہدین کی ہمدردیوں میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا ۔۔۔اسی طرح وہ مسلمان جو ڈرون حملوں پر احتجاج رکارڈ کروانے کے سوا اب تک کچھ نہیں کر پاتے انہیں جہاد میں شرکت کا قابل ذکر جواز فراہم ہو جائے گا ۔۔۔یہ بات بھی واضح ہے کہ امریکی زمینی آپریشن براہ راست ناپاک فوج کی بدنامی میں اضافہ کا ذریعہ بنے گا ۔
پاکستانی اور امریکی مجبوریاں
یہ ہے وہ مجموعی صورتحال جس میں پاکستان اور امریکہ اپنی اپنی مجبوریوں میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ ایک طرف قبائلی علاقوں میں موجود مجاہدین بالخصوص حقانی نیٹ ورک نے امریکہ کے لیے شدید مصیبت کھڑی کر رکھی ہے اور وہ ان کے خلاف بھرپور آپریشن چاہتا ہے ۔۔۔ امریکہ کا خیال ہے کہ ان کے خلاف محض فضائی حملے ناکافی ہیں چنانچہ وہ پاکستان سے اس معاملے میں مدد کا خواہاں ہے لیکن اس معاملے میں پاکستان امریکہ سے زیادہ اپنے مفاد کو سامنے رکھے ہوئے ہے ۔ اور یہ دین کی بنیاد پر نہیں بلکہ شرکیہ وطنی مفاد کی بنیاد پر ہے ۔۔۔۔
پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اس علاقے میں نہ تو امریکی زمینی آپریشن کے لیے تیار ہے نہ ہی افغان طالبان کے خلاف خود کوئی قدم اٹھانا چاہتا ہے ۔
لہٰذا وہ یہ کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے کہ "اے عالی قدر امریکہ !!! آپ حقانی نیٹ ورک یا دیگر افغان طالبان کے خلاف جو کچھ بھی کرنا چاہیں وہ افغانستان کی حدود ہی میں کر گزریں ۔۔۔۔"
بالفرض ۔۔۔ حملہ ہوا تو ۔۔۔
موجودہ حالات میں عالمی منظر نامہ میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کو دیکھ کر یہ بھی امکان رکھا جانا چاہیے کہ مستقبل میں پاکستان میں ایسی کسی متوقع تبدیلی کا آثار دیکھ کر امریکہ واقعتا پاکستان پر حملہ آور ہو جائے ۔۔۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ پاکستان پر امریکی حملہ کی صورت کیا ہوگی ۔۔۔ لیکن ہم ہر قسم کے حالات میں اللہ کی طرف سے بہتری کی توقع رکھ سکتے ہیں ۔۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس موقعہ کا فائدہ اٹھا کرمجاہدین کسی حد تک یہاں کی قیادت بھی سنبھال لیں ۔ کیوں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسے حالات میں بھی مسلمانوں کی اکثریت معرکوں سے دور بیٹھ رہنے پر راضی ہوگی اور یہ بات افواج پاکستان بھی جانتی ہیں کہ انہیں اس خطے میں امریکہ یا بھارت کے مقابلے میں دفاع کے لیے مجاہدین سے ہی مدد لینی ہوگی ۔جب کہ ان کے سابقہ رکارڈ کو دیکھتے ہوئے مجاہدین فوجی قیادت میں لڑنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ مجاہدین عارضی طور پر افواج پاکستان کے خلاف جنگ بندی پر رضا مند ہوجائیں ۔۔۔۔ لہٰذا معرکوں میں حصہ لینے کے خواہش مند مسلمانوں کا مجاہدین کی قیادت پر راضی ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہوگی ۔۔۔۔ہمارا گمان ہے کہ ایسے حالات میں سیاسی قائدین کی اکثریت برے وقتوں کا سوچ کر سویس بینکوں میں جمع کی گئی دولت بٹورنے اگلی ہی فلائٹس سے یہ ملک چھوڑ چکے ہوں گے ۔۔۔۔ رہی بات موج حوادث کا نظارہ کرنے والی اکثریت کا تو اس کا ذکر ہی فضول ہے کیوں کہ ایسی اکثریت کا امت کی گنتی میں اضافہ کے سوا نہ پہلے کوئی کردار رہا ہے نہ بعد میں ہوگا ۔۔۔۔ الا ماشاء اللہ العلی العظیم ۔۔۔۔
واللہ غالب علیٰ امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔