ایک ایسی گہری اور پُر اثر تحریر
جو
فتنوں اور
آزمائشوں کے موجودہ دور میں
موحدین اور
مؤمنین کے لئے
دین و دنیا کی کامیابی کےایک انتہائی حساس اور دقیق
راز پر
قرآن و سنت کی رہنمائی میں مدلل روشنی ڈال رہی ہے
بسم اللہ
الرحمن الرحیم
ادارہ القادسیہ
برائے نشرواشاعت
پیش کرتا ہے
تأملات في حسن الظن بالله
اللہ تعالیٰ
سے حسن ِظن رکھنے پر کچھ غور و فکر
کا اردو
ترجمہ
از ابو محمد
المقدسی (فک اللہ اسرہ)
قیدی کی
ڈائری سے چند اوراق
{{{
﴿ وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا
قَنَطُوا ﴾
’’اور وہی ہے جو لوگوں کے نا امید ہو
جانے کے بعد بارش برساتا ہے ‘‘
{{{
جس قدر بندے کا اللہ پر حسنِ ظن ہوتا ہے ، اُس
سے اچھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور اُس پر سچا توکل ہوتا ہے، تو اللہ تعالی اُس
کی توقعات کو ذرّہ برابر بھی ٹھیس نہیں پہنچاتا، کہ بے شک وہ سبحانہ و تعالیٰ کسی امید لگانے والے کی
امید کو نہیں توڑتا اور نہ عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع کرتا ہے...
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پر گہرا غور و فکر کیا اوراس پر کافی دیر
ٹھہرا رہا... اور اس پر میرا رکنا حق بنتا تھا...
وہ (آیت) سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالی کا یہ
فرمان ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ
مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ ﴾ [الشوریٰ42: 28]
’’اور وہی ہے جو لوگوں کے نا امید ہو
جانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔اوروہی ہے کارساز( اور) قابل
حمد و ثنا‘‘
چنانچہ میں اپنے تخیل میں لوگوں
کےاُس حال کا مشاہدہ کرنے لگا جب آگ جیسی
شدید تپش اور سخت خشک سالی کی وجہ سے
مویشیوں کے تھن سوکھ چکےتھے اور زمین بنجر ہو چکی تھی، اور ایسے میں وہ اپنی
جانوں‘ اولادوں‘ مویشیوں‘ اور کھیتیوں کی بابت
پریشان تھے...
پس وہ اللہ کی طرف راغب ہوتے
ہوئے دعاؤں التجاؤں میں گڑگڑانے لگے
یہاں تک کہ ان کی آسیں امیدیں بھی منقطع ہو چلیں... اور انہیں ہلاکت وبربادی کا
یقین ہو گیا... کہ یکایک آسمان پر سے وافر
اور موسلادھار برسنے والی بارش نے انہیں چونکا دیا، جس نے اللہ کی رحمت کو زمین کی
وادیوں اور گھاٹیوں میں پھیلا دیا ، تا کہ زمین اور جانوں اور روحوں کواُن کی نا
امیدی اور موت کے بعد زندگی بخش دے...
کتنی پیاری بات ہے کہ اس آیت کا
اختتام اللہ کے اسماء ’الولی الحمید‘ (بڑا
مددگار اور حمایتی‘ تعریف کے لائق) پرہورہاہے۔پس
صرف تنہا وہی پاک ذات بندوں کی مددگارہے، جو ہر لمحہ ان کی کفالت کرتی ہے
اور ان کے معاملات چلاتی ہے... اسی وجہ سے
ہر حال میں وہ تنہا ہی حمد کے لائق ہے...
اس کے سوا ہر ولی بھول جاتا ہے یا
بھٹک جاتا ہے یا کمی یا غفلت برت جاتا ہے...
جبکہ میرا رب ’الولی الحمید‘ نہ
بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ پاک ہے وہ نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند... وہ حی و
قیوم (ہمیشہ زندہ رہنے والا اورسب کو قائم
رکھنے والااور سنبھالنے والا) ہے... لہٰذا جو کوئی بھی اس کی مدد لے گا وہ
اسے ضرورپائے گا – اس میں کوئی شک نہیں ہے – وہ بہترین کارساز اور
بہترین مددگارہے... وہ اپنے دوستوں پر ہر لمحے اور ہر جگہ اپنی رحمتیں نازل فرماتا
ہے... یہاں تک کہ تنگ ترین مقامات اور کٹھن ترین لمحات میں بھی...
پھر وقت کی ڈگر پر گزرنے والے صالحین کے گذشتہ رواں دواں قافلےمیرے تخیل میں پھرنے لگے...
- پس میں (اللہ کے) خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کویاد کرتا
ہوں جب اُن کی قوم نے اُنہیں ہر جانب سے گھیر رکھا تھا اوروہ لوگ اُن پر اپنے معبودوں کو توڑنے کا الزام لگا رہے
تھے اور اُن سے زبردستی اعتراف کروا رہے تھے اور اُنہیں ڈرا دھمکا رہے تھے، تو وہ
اپنے ولی پر مکمل حُسنِ ظن رکھتے ہوئے... پہاڑوں جیسی ثابت قدمی یا اس سے بھی شدید تر ثابت قدمی کے ساتھ... اُنہیں جواب
دیتے ہیں...
﴿ أَتُحَاجُّونِّي فِي
اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ
رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ * وَكَيْفَ أَخَافُ مَا
أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ
يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ
إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ [الانعام6:
80-81]
’’کیا تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ
بتلادیا ہے، اور میں ان چیزوں سے نہیں
ڈرتا جن کو تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو ، ہاں اگر میرا رب ہی کوئی امر چاہے، میرارب ہرچیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر
بھی خیال نہیں کرتے * اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس
بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ
تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ
مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو۔‘‘
دونوں فریقوں میں سے کون اپنے ولی سے
اطمینان‘ امن‘ اور حسنِ ظن رکھنے میں حق بجانب ہے؟ جس کا ولی آسمانوں اور زمین میں
ایسازبردست ترین قادرِ مطلق ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے؟ یا
وہ کہ جس کے اولیاء (مددگار)ایسے شرکاء کار ہیں جو جھگڑالو اور منتشر ہیں اور خود
اپنے آپ کو یا کسی اورکو کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی قدرت تک نہیں رکھتے؟ جواب بڑا واضح اور فیصلہ کن ہے:
﴿ الَّذِينَ
آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ
وَهُمْ مُهْتَدُونَ ﴾ [الانعام6: 82]
’’جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان
کو ظلم (یعنی شرک) کے ساتھ آلودہ نہیں کیا، اُنہی کے لئے امن ہے اور وہی راہِ راست
پر چل رہے ہیں‘‘
پس امن و امان اور اطمینان جو اللہ سے
حسنِ ظن رکھنے کا نتیجہ ہوتا ہے، یہ سب کچھ توحید کے ثمرات میں سے ہے ... اور پھر
میں ابراھیم علیہ السلام کی قوم کا تصور
کرتا ہوں جب اُن لوگوں نے اُنہیں اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور آگ کے وسط میں پھینک دیا، تو اُن کے اپنے
مولیٰ سے مطمئن اور اُس پر اعتماد سے
بھرپوردل نے صرف یہی کہا:
"حسبنا الله
ونعم الوكيل" (ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے اور وہی
بہترین کارساز ہے۔)
- پھر میں اُن کی با برکت شریکِ حیات
کا تصور کرتا ہوں جنہیں ابراہیم (علیہ السلام)نے اُن کے چھوٹے بچے کے ساتھ ایک بے
آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا تھا اور جاتے ہوئے اُن کی جانب مُڑ کر بھی نہ دیکھا
جبکہ وہ اُنہیں پکار رہی تھیں: ’ اے ابراہیم... اے ابراہیم... ہمیں اس جگہ کس کے
سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو...؟‘ پھر اُن کے التفات
برتے بغیر چلتے چلے جانے پر متعجب ہونے کے بعد وہ سمجھ جاتی ہیں اور فرماتی
ہیں:’ کیا اللہ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ ‘تو وہ فرماتے ہیں:’ ہاں۔ ‘
تو وہ اپنے مولیٰ پر وثوق اور حسنِ ظن
کے ساتھ فرماتی ہیں: ’تو پھر وہ ہمیں بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا!! ‘کیا ہی
بہترین شوہر تھے اور کیا ہی بہترین بیوی
تھیں...
- پھر
اسی با عزت و شرف قافلے میں وقت کی ڈگر پر نوح (علیہ السلام) کو یاد کرتا ہوں جبکہ
وہ اپنی قوم کے روبرو تنہا کھڑے ہیں اور اُنہیں چیلنج کر رہے ہیں، اس حال میں کہ
وہ اکیلے اور بے یارومددگارہیں، لیکن اُن کے الفاظ پر غور و فکر کرنے والا اپنے
مولیٰ پراُن کے عظیم اعتماد کواور رب
تعالیٰ کی مدد کے بارے میں اُن کے حسنِ ظن کو جان لیتا ہے:
﴿ وَاتْلُ
عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ
عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ
فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ
غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ ﴾ [یونس10: 71]
’’اور آپ اُن کو نوح کا قصہ پڑھ کر
سنائیےجبکہ اُنہوں نے اپنی قوم سے فرمایاکہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور
احکامِ الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تواللہ ہی پر بھروسہ ہے،
پس تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکاء کے پختہ کر لو ، پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا
باعث نہیں ہونی چاہیئے۔ پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو‘‘
- اور اُن کے بعد ہود(علیہ السلام) زمین
پر ایسے طاقتور ترین جابروں کا سامنا فرما رہے ہیں جن کی تصویر کشی کرتے ہوئے اللہ
تبارک و تعالیٰ ’قوت‘کی امتیازی خصوصیت کا ذکر کرتے ہیں ۔ چنانچہ ہود (علیہ السلام)
اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک ایسے پُر اعتماد شخص کی طرح کہ جس کواپنے ولی کی مدد کا اطمینان ہو اور اسے حسنِ ظن ہوکہ اُس کا
ولی اسے مایوس نہیں کرے گا، فرماتے ہیں:
﴿ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا
أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ * مِنْ دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا
تُنْظِرُونِ * إِنِّي تَوَكَّلْتُ
عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ
بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ﴾ [ہود11: 54-56]
’’اُنہوں نے جواب دیا کہ میں اللہ کو
گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہوکہ میں
اللہ کے سوا اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم شریک بنا رہے ہو * اچھا تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل
لو اور مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو * میرا بھروسہ صرف اللہ ہی پر ہے، جو میرا اور
تم سب کا رب ہے، جتنے بھی (زمین پر) چلنے
پھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامےہوئے ہے، یقیناً میرا رب بالکل صحیح راہ پر
ہے‘‘
- اور پھر میں ان با شرف نوجوانوں کو
یاد کرتا ہوں جنہوں نے اپنے مولیٰ سے اچھا گمان رکھا ۔چنانچہ اُس کی رضامندی کی
خاطر قریب و دوروالوں کی مخالفت مول لی
اور نتیجتاً شرک ، فسق و نافرمانی سے فرار حاصل کرنے کے لئے اپنے قریبی ترین لوگوں سےعلیحدگی
اختیار کرتے ہوئے اپنے ولی سبحانہ و تعالیٰ کی جانب رجوع کیا ...
پس اُس کی رضا جوئی کی خاطر ایک پُر
تعیش زندگی کے مزوں کے بدلے میں غار کی تنگی کوچُن لیا ، تو نتیجہ صرف یہی رہا
کہ اللہ نے اپنی جو رحمت اُن پر نازل فرمائی اُس سے اُس غار کو اُن پر کشادہ فرما دیا :
﴿ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ
رَبُّكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرْفَقًا﴾ [الکہف18: 16]
’’تو اب تم کسی
غار میں جا بیٹھو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے
کام میں سہولت مہیا کر دے گا۔‘‘
پھر میں اس قولِ باری تعالیٰ میں غور و فکر کرتا
ہوں ﴿ يَنْشُرْ لَكُمْ
رَبُّكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ﴾ تو یہ بات میری سمجھ میں آتی ہے کہ
اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ اِس میں سے
صرف کچھ – یا وہ مقدار جو اللہ ہی کو معلوم ہے – اس امر کے لئے کافی ہے کہ اُس غار
یا جیل یا اُس قید کوٹھری کو جنت یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے...
پھر میں پہلی آیت کی یاد کی جانب
لوٹتا ہوں اورسوچتا ہوں کہ اللہ کس طرح
بارش برسا کر کھلی فضاء میں بندوں
پراپنی رحمت نازل فرماتا ہے بعد از کہ وہ مایوس ہو چکے تھے... اوروہ کس طرح
کٹھن اور تنگ و تاریک غار میں نوجوانوں پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور
اسے ایک وسیع اورکشادہ جگہ بنا دیتا ہے... پس میں اپنے مولیٰ کی تسبیح اور عظمت
بیان کرتا ہوں...
بے شک یہ ولی و حمید کا اپنے اُن دوستوں (اولیاء) کے ساتھ معاملہ ہے جو اُس پر
حسنِ ظن کے ساتھ حد درجہ اعتماد کرتے ہیں، اور اُس کے لئے بدگمانی نہیں رکھتے، اور
اُس کے وعدوں کو سچا جانتے ہیں اور اس کی ضمانتوں پر وثوق رکھتے ہیں، اور اپنے دلوں
کو اضطراب سے بچا کر سکون کی حالت میں رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ولی سے مطمئن ہیں...
اسی لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے
ہیں، جیسا کہ بخاری و مسلم میں مروی اس حدیثِ قدسی میں بیان ہے:
"أَنَا عِنْدَ ظَنِّ
عَبْدِي بِيْ، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ
ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ
خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ
ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ
أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً "[رواہ البخاري والمسلم]
’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق
ہوتاہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ
ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا
ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد
کرے تو میں اُسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اُس (جماعت)سے بہتر ہے، اور اگر
وہ ایک بالشت میرے قریب آئے تو میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور اگر وہ ایک
ہاتھ میرے قریب آئے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلانے کے برابر اُس کے قریب آتا ہوں
، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اُس کے پاس آتا ہوں۔‘‘
پس غور کیجیے کہ ہمارا مولیٰ کس قدر
رحیم و عادل ہے... " أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ"
تو جس نے اپنے مولیٰ سے سوئے ظن رکھا
کہ وہ (مولیٰ)اُسے مایوس کرے گا اور چھوڑ
دے گا، تو ایسا شخص اللہ کے عدل کے نتیجے میں اس رویے کی سزا کے طور پر حسرت و
مایوسی کی پھٹکار سے دوچار ہوگا...
جو کوئی اپنے مولیٰ سے حسنِ ظن رکھے گا اور جان
لے گا کہ وہ بہترین کارساز اور بہترین مددگار ہے، اوراُسے دیگر تمام مددگاروں سے تشبیہ دینے سے منزہ و پاک سمجھے گا... جو (مددگار) اپنے پیروکاروں کو مایوس کرتے ہیں
اور اُن سے غفلت برتتے ہیں اور اُنہیں بھول جاتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں، پس اُن
میں سے ہر ایک بہت ہی بد تر مددگار اور برا ساتھی ہے... چنانچہ جو کوئی بھی اپنے
مولیٰ کو اُن کے نقائص سے بالاتر جانے گا اور اُس کی تعظیم و تسبیح کرے گا اور اُس
سے حسنِ ظن رکھے گا اوراُس پر ایسا توکل کرے گا جیسا توکل کرنے کا حق ہے تو صرف
مولیٰ ہی اُس کے لئے کافی سہارا ہو جائے گا۔
﴿ وَمَنْ
يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾
[الطلاق65: 3]
’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ
اسے کافی ہو گا‘‘
اور ’الحسیب‘ یعنی کافی، اور ’حسبنا اللہ‘ یعنی وہ پاک ذات ہی ہمارے لئے کافی ہے۔
جس قدر بندے کا اللہ پر حسنِ ظن ہوتا ہے اور اُس
سے اچھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور اُس پر سچا توکل ہوتا ہے، تو اللہ اُس کی
توقعات کو ذرّہ برابر بھی ٹھیس نہیں پہنچاتا، کہ بے شک وہ سبحانہ و تعالیٰ کسی امید لگانے والے کی
امید کو نہیں توڑتا اور نہ عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع کرتا ہے...
اسی لئے جب رسول اللہ ﷺ حراء سے تشریف لائے تھے اور فرشتے
سے پہلی ملاقات کے بعد اُن کا دل کانپ رہا تھا، توہماری والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اُس وقت اُن سے یہ
فرمایا:
"كَلَّا وَاللَّهِ، لَا
يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا؛
إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ،
وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ۔"[رواہ البخاري]
’’اللہ کی قسم ہر گز نہیں، اللہ آپ کو
کبھی بھی رسوا نہ کرے گا، آپ (ﷺ) صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،
تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر(مصیبت
زدوں کی) اعانت کرتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری)
چنانچہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو قسم
اٹھائی کہ اللہ اُن (ﷺ) کو ہر گز بھی رسوا نہیں کرے گا ،اس کی بنیاد اُن کا اللہ عزّ و جل کی اُس عادت
(معاملے)کے متعلق حسنِ ظن تھا جووہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فیصلہ
فرما دیا ہے:
﴿ إِنَّهُ
لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴾ [یوسف12: 87]
’’یقیناً اللہ کی رحمت سے نا امید وہی
ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں‘‘
لہٰذا جو مؤمنوں میں سے ہو اُس پر
لازم ہے کہ وہ کافروں کے راستے سے اپنے آپ کو آزاد کرے، چنانچہ دنیا و آخرت کے
معاملات میں اللہ سے حسنِ ظن رکھے... اگرچہ کہ پہلی آیت بظاہر امورِ دنیا سے متعلق
ہے...
امورِ آخرت کے متعلق قولِ باری تعالیٰ
ہے:
﴿ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى
أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ
الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ [الزمر39: 53]
’’(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے
بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ،
بالیقین اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے،
بیشک واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے‘‘
چنانچہ یہ آیت، جیسا کہ علماء کا بیان
ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب میں سب سے زیادہ امید افزاء آیت ہے۔ایسا اس (آیت)
کا سب سے بڑی بشارت کے حامل ہونے کی وجہ سے ہے، کہ پہلے تو اُس پاک ذات نے بندوں
کی عزت افزائی کرنے اور پھراُنہیں خوشخبری دینے کے لئے اُنہیں اپنے ساتھ منسوب کیا
ہے، کہ وہ اُن کا (ایسا)مددگار ہے جو تعریف کے لائق ہے، جو اُنہیں رسوا نہیں کرتا
بشرطیکہ وہ اُس سے حسنِ ظن رکھیں اور اُس سے لو لگائے رکھیں اور اپنی تمام امیدیں
اُس سے وابستہ کر رکھیں، اوریہ سب کچھ کرنے کے بعد اُس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں...
پھر پاک ذات نے واضح ترین عبارت میں اُن پر ظاہر کر دیا ہے کہ جو کوئی اُس کی جانب
رجوع کرتاہے تو وہ اُس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے...
کیا ہی عمدہ بشارت ہے جس سے (اُن)موحدین
کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے، اوراُن مؤمنین کے دلوں کو سکون ملتا ہے جو اپنے رب
اور مددگار سے حسنِ ظن رکھتے ہیں، جو اُس سے سچی امیدلگاتے ہیں، جو اُس (پاک ذات) کے
متعلق مایوسی اور سوئے ظن کا لبادہ اتار پھینکتے ہیں کہ جِس(پاک ذات) کے لئے کوئی
گناہ اتنا بڑا نہیں (کہ وہ اُسے معاف نہ فرما سکے)، اور جو اپنے (اُن)بندوں کے لئے
اپنی مغفرت اور رحمت میں بخیلی نہیں کرتا، جو اُس کی جانب متوجہ ہوں، اُس سے
التجائیں کریں اور اُس کی جانب رجوع کریں...
لہٰذا اس سے اگلی ہی آیت میں اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَأَنِيبُوا إِلَى
رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا
تُنْصَرُونَ * وَاتَّبِعُوا
أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ ﴾ [الزمر39:
54-55]
’’اورتم (سب) اپنے رب کی طرف جھک پڑو
اور اُس کی حکم برداری کیے جاؤ اِس سے قبل کہ تمہارےپاس عذاب آجائےاور پھر تمہاری
مدد نہ کی جائے * اور اس بہترین چیز کی پیروی کرو جو تمہاری طرف
تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔‘‘
چنانچہ موت کے وقت اللہ سے حسنِ ظن یہ ہونا چاہیے کہ مؤمنوں کے ساتھ اُس کے وعدوں
پر اطمینان ہو، اپنے مولیٰ پر یہ اعتماد ہوکہ وہ اُسے رسوا
نہیں کرے گا اور نہ ہی اُس کے گذشتہ ایام
کے عمل اور نیکیوں کو ضائع جانے دے گا... جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"لاَ يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلاَّ وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِالله
تَعَالىٰ " [رواہ مسلم و أبو داود]
’’تم میں سے کوئی بھی ایسی حالت میں
نہ مرے سوائے اِس کےکہ اُس کا اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن ہو‘‘
پس انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے
حسنِ ظن ایسے ہے جیسے مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے، جو اِس بات کا تقاضا
کرتا ہےکہ اس کی جانب رجوع اوراستقامت
اختیار کی جائے اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے
اس کی رضا جوئی کی جانب راہ لی جائے... اور اُن لوگوں کے راستے سے جدائی اختیار کی
جائے جنہوں نے اپنے رب سے سوئے ظن رکھا اور اُس کی نافرمانی کی...
یہ ہے فرق’ اللہ سے امیدیں لگانے‘ میں ، جو کہ
اُن لوگوں کا راستہ ہے جو اُس پاک ذات کےنافرمان ہیں...بمقابلہ ’اللہ سے حسنِ ظن
رکھنے‘ میں، جو کہ مؤمنوں کا راستہ ہے...
’امیدیں‘: کمزوری ‘ کاہلی‘ اور نفس کی خواہشات
کی پیروی کرنے کے ساتھ ہوتی ہیں... اور کوشش‘محنت‘توبہ‘ رجوع ‘اورعمل کے راستے پر
نہ چلنے کی صورت میں ہوتی ہیں... اور پھر
اس کے باوجود اللہ سے امیدیں رکھی جاتی ہیں !
جبکہ محمود ( تعریف کیے گئے) حسنِ ظن
اور شرعی طور پر امیدیں لگانے کی صورت یہ
ہے کہ کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پراحسن توکل کیا جائے!
پس پہلے والے (یعنی عمل کے بغیر محض
امید لگانے والے)کا حال اُس شخص جیسا ہے جو چاہتا ہو کہ اُس کے پاس زمین ہو جس میں
وہ بغیر حرکت کے سکون کی حالت میں رہتے ہوئے یا پھر اپنے آپ کو عمل کی تکلیف میں
ڈالے بغیر بیج بوئے اوراُسے کاشت کرے ... یا پھر اُس شخص جیسا جو چاہتا ہو کہ
نکاح اور رشتہ قائم کیے بغیر اُس کی اولاد
ہو، جبکہ دوسرا (عملِ صالح کرنے والا شخص جو اللہ سے حسنِ ظن رکھتا ہے)زمین میں ہل
چلاتا ہے‘ بیج بوتا ہے‘ اُسے کاشت کرتا ہے‘ اور پھر ایک پاکیزہ اور عمدہ فصل کی
امید رکھتا ہے... لہٰذا اہلِ علم اِس بات پرمتفق ہیں کہ عمل کے بغیر امید اور حسنِ
ظن رکھنا درست نہیں... ام المؤمنین رضی
اللہ عنہا کے الفاظ پہلے ذکر کیے جا چکے ہیں جو اُن کی ذہانت اور تجربے پر دلالت
کرتے ہیں کہ جو کوئی عملِ صالح کرے تو اللہ کبھی بھی اُسے رسوا نہیں کرتا۔
پس اللہ سےایسا حسنِ ظن رکھنا جو
محبوب کی راہوں کی جانب دھکیلنے والا پہیہ بن جائے اور مسافر کے لئے سفر کو عمدہ
بنا دے اور دارِ آخرت کی منزل تک پہنچنا آسان بنا دے، تو اُسے (یعنی ایسے حسنِ ظن
کو)لازماًعمل سے مرتبط ہونا چاہیئے۔
صالحین نے اللہ سے حسنِ ظن رکھنے کا ذکر کثرت سے کیا ہے اور اِس سلسلے میں
اُن کی تمام تحریریں اِس شرط کو لاگو کرتی ہیں۔ پس ابن ابی الدنیا اپنی کتاب ’’حسن الظن باللہ تعالیٰ‘‘میں علی بن بکار کی سند سے ذکر کرتے
ہیں کہ اُن سے اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنے کے متعلق سوال پوچھا
گیا، تو اُنہوں نے فرمایا: ’کہ وہ آپ کو اور گناہگاروں کو ایک گھر میں اکٹھا
نہیں کرے گا۔‘ یعنی جہنم میں جو
بربادی کا گھر ہے...
اس سے یہ شرط لازم آتی ہے کہ آپ کو
اُن (گناہگاروں) کے ساتھ اس دنیا کے گھر میں بھی برے اعمال یا گمراہی کی راہ پر،
یا فسق و فجور کے مقام میں اکٹھا نہیں کرے گا۔ پس جو دنیا میں اللہ کے دشمنوں سے
فاصلہ رکھے اور اُن سے قطع تعلق کرے اور اُن سے عداوت رکھےاور اپنے آپ کو اور اپنی
راہ کو اُن سے جدا رکھے، تو پھر وہ یہ
حسنِ ظن رکھ سکتا ہے کہ اُس کا مولیٰ اُسے
اُن (اللہ کے دشمنوں) کے انجام اور عذاب سے بچا لے گا، اور آخرت کے گھر میں
اُنہیں اُسی طرح علیحدہ رکھے گا جس طرح دنیا کے گھر میں اُنہیں علیحدہ رکھا تھا...
بصورتِ دیگراللہ تعالیٰ اس کے خلاف
کرنے والےسے، جو اُن (اللہ کے دشمنوں)کے باطل میں اُن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا
اور اُن کا شریک کارہو،اپنے اس قول کے ذریعے وعدہ فرماتے ہیں:
﴿ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ
وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾ [النساء4: 140]
’’یقیناً اللہ تمام کافروں اور سب
منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے‘‘
سلیمان بن الحکم بن عوانہ سے روایت ہے کہ ایک
شخص عرفات میں یہ کہتے ہوئے دعا کر رہا تھا: ’اپنی توحید کو ہمارے دلوں میں جاں
گزین کرنے کے بعد ہمیں آگ میں عذاب نہ دینا...‘، پھر رونے لگا اور کہنے لگا:’تو
اپنے رحم کے ذریعے جو چاہے کرے...‘، پھر رونے لگا اور کہنے لگا:’اور اگر تو
نے ہم پر رحم نہ کیا تو ایسا ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہو گا...ہمیں اُن ظالم لوگوں
کے ساتھ اکٹھا نہ کرنا جن سے ہم نے تیری خاطر عداوت رکھی...‘ [التخویف من النار، ابن رجب ،
ص 264]
پس جس نے دنیا میں اہلِ باطل سے عداوت
رکھی اور اُن کے طریقوں اور منہج کی
مخالفت کی، تو پھر وہ اللہ سے ایسے ملاقات کر سکتا ہے کہ وہ اس سے حسنِ ظن رکھے
ہوئے ہو۔
اسی (مؤخر
الذکر)کتاب کے صفحہ 264 میں بیان ہے:
حکیم بن جابر نے فرمایا کہ ابراہیم
علیہ السلام نے فرمایا: ’اے اللہ! جو تیرے ساتھ شرک کرتا ہے اور جو تیرے ساتھ
شرک نہیں کرتا، اُنہیں اکٹھا مت کرنا۔‘ یعنی انجام اور عذاب کے اعتبار سے...
اسی کتاب کے صفحہ 265 میں ہے:
ابی نعیم اپنی سند سے روایت کرتے ہیں
کہ عون بن عبد اللہ نے فرمایا: ’اللہ ہمیں کسی شر سے بچا کرپھرا ُسی کی جانب
واپس لوٹانے والا نہیں‘(پھر تلاوت فرمائی):
﴿ وَكُنْتُمْ
عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا﴾ [آل عمران3: 103]
(ترجمہ: اورتم آگ کے گڑھے کے کنارے
پہنچ چکے تھے تو اُس نے تمہیں اُس سے بچا لیا)
اور نہ ہی اللہ دونوں قسموں کے لوگوں
کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔
﴿ وَأَقْسَمُوا
بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ ﴾ [النحل16: 38]
(ترجمہ: اور وہ لوگ بڑی سخت سخت قسمیں
کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ مُردوں کو
زندہ نہیں کرے گا۔)
ہم اللہ کی سخت
ترین قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ مُردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
پس اپنے مولیٰ کے ساتھ ایک مضبوط عہد
کرو جس میں نہ دھوکے کا ڈر ہو نہ بخیلی کا اور نہ رسوائی کا... تاوقتیکہ تم اچھائی
کرتے رہو، وفادار رہو، اللہ کی جانب رجوع رکھو، اور مؤمنوں کے راستے پر چلتے رہو
اور مجرموں کے راستے سے کنارہ کشی رکھو...
﴿ إِنَّ
اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ
لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ
وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ
أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي
بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ [التوبہ9: 111]
’’بلا شبہ
اللہ نے مسلمانوں سے اُن کی جانوں کو اور اُن کے مالوں کو اِس بات کے عوض میں خرید
لیا ہے کہ اُن کو جنت ملے گی، وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے
ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، اِس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں
اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے، تو تم لوگ
اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ، اور یہ بڑی کامیابی
ہے‘‘
اسے ابو محمد
المقدسی نے السلط جیل سے تحریر کیاہے
اس روز کی
شام جس میں اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو اُس کے دشمن سے نجات دلائی(10 محرم)
اس سال جس میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کوگزرے 1419 سال ہوگئے
ہیں۔
اے اللہ! ہم
تجھ سے حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ تو ہمیں اس طرح نجات دلائے گا جس طرح تو نے اپنے نبی
کو نجات دلائی تھی
اے اللہ! پس
تو ہمیں دنیا اور آخرت کے دکھوں سے نجات دلا... آمین
ضمیمہ
(یہ ضمیمہ
اصل عربی مضمون کے انگریزی ترجمہ نگار Abu Sabaya کی جانب سے ایک عمدہ کاوش ہے، جز
اہ اللہ خیراً الجزاء)
اقوالِ سلف
رسول اللہ ﷺ اپنے رب کا فرمان ذکرکرتے
ہیں کہ رب تعالیٰ نے فرمایا:
’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں
جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے۔‘‘ [بخاری: 7405، مسلم: 2675]
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’یعنی میں وہ سب کچھ کر سکتا ہوں جو
وہ مجھ سے توقع کرتا ہے کہ میں کروں گا۔‘‘ [فتح الباری: 17/397]
النووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’علماء کہتے ہیں کہ اللہ سے بہترین
کی امید رکھنے سے مراد یہ توقع رکھنا
ہے کہ وہ (بندے پر)رحم فرمائے گا اور اُسے مشکل سے نجات دلائے گا۔‘‘ [شرح صحیح
مسلم: 14/210]
النووی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید یہ فرمایا:
’’القاضی عیاض نے فرمایا کہ اِس کا
مطلب ہے کہ اگر (بندہ)معافی کو طلبگار ہو تو وہ اُسے معاف فرمائے گا، اگر توبہ کرے
تو اُس کی توبہ قبول فرمائے گا، دعا کرے تو اُسے سنے گا، اور اگر وہ کچھ مانگے تو
اُس کے لئے کافی ہو جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس سے مراد امید رکھنا اور (مشکلات
سے)نجات چاہنا ہے، اور یہ زیادہ درست ہے۔‘‘ [شرح صحیح مسلم: 14/2]
احمد بن عمرالقرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے
فرمایا:
’’یہ کہا گیا ہے کہ اللہ کے فرمان
’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں‘ کا مطلب ہے کہ اگر کوئی توقع کرتا ہے
کہ اُس کی دعا کا جواب ملے گا ، اُس کی توبہ قبول ہو گی ، کوئی ناپسندیدہ چیز اُس
سے دور ہٹا دی جائے گی ، اُس کے وہ اعمال قبول ہوں گے جو درست شرائط کے ساتھ بجا
لائے گئے... یہ بات رب تعالیٰ کے اس فرمان
سے ثابت ہوتی ہے: ’اللہ سے اس طرح مانگو کہ تمہیں یقین ہو کہ تمہاری دعا سنی جائے
گی۔‘ اسی طرح ، جو توبہ کرتا ہے، بخشش طلب کرتا ہے، اور اچھے اعمال کرتا ہے ، اُس
پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو اُس کے فرائض کی
بجا آوری میں لگا دے جبکہ اُسے یقین ہو کہ اللہ اُس کے اعمال کو قبول فرمائے گا
اور اُس کے گناہ معاف فرمائے گا، جیسا کہ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ کسی بھی
سچی توبہ اور عملِ صالح کو قبول فرمائے گا۔ پس جو کوئی بھی ایسا عمل کرے اور یقین
رکھے اور توقع کرے کہ اللہ اسے قبول نہیں فرمائے گا اور یہ اُسے فائدہ نہ دے گا،
تو یہ اللہ کی رحمت سے مایوسی ہے، اور یہ کبائر کے بڑے ترین گناہوں میں سے ہے۔ جو کوئی اِس حالت
میں مرے تو اُسے وہی انجام ملے گا جس کی اُس نے توقع رکھی تھی۔‘‘ [المفہم لما یشکل من تلخیص کتاب مسلم: 5/267]
ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اکثر لوگ – در حقیقت، سبھی سوائے
جنہیں اللہ محفوظ رکھے – سچ سے ہٹ کر قیاس کرتے ہیں، اور بد ترین قیاس کرتے ہیں۔
اکثر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق سے محروم کیے گئے ہیں، بد قسمت ہیں، جو
اللہ نے اُنہیں دیا ہے وہ اس سے زیادہ کے حقدار ہیں، جیسے کہ یہ کہہ رہے ہوں: ’میرے
رب نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور مجھے اس سے محروم رکھا ہے جس کا میں حقدار تھا۔‘
حالانکہ اُن کی روح اس بات پر گواہی دیتی
ہے جبکہ زبان تردید کرتی ہے اور کھلے عام ایسا کہنے سے انکار کرتی ہے۔ جو کوئی اپنی روح کی گہرائی میں جھانکتا ہےاور
اس کے اندر باہر کو پہچانتا ہے تو وہ اِس بات کو اِس (یعنی اپنی روح ) میں ایسے
دیکھے گا جیسے زور دار دھماکے میں آگ... اور اگر آپ کسی کی روح کی گہرائی میں
جھانکیں توآپ دیکھیں گے کہ وہ قسمت کو الزام دیتا ہے اورجو کچھ اُس کے ساتھ اصل
میں ہوا اُس کے بجائے کچھ اور چاہتا ہے، کہ ایسے ہوتا یا ویسے ہوتا... چنانچہ آپ
اپنے نفس کی گہرائی میں جھانکیں: کیا آپ اِس سے محفوظ ہیں؟ اگر آپ اِس سے محفوظ
ہیں توپھر آپ ایک بہت بڑی چیز سے محفوظ ہیں۔ بصورتِ دیگرمیں نہیں دیکھتا کہ آپ
بچالیے گئے ہیں۔‘‘ [زاد المعاد: 3/235]
اُنہوں نے مزیدیہ فرمایا:
’’جتنا زیادہ آپ اپنے رب سے حسنِ ظن
رکھیں گےاور اُس سے امید لگائیں گے، اتنا ہی زیادہ آپ اُس پر توکل اور اعتماد کریں
گے۔ اسی لئے بعض نے حقیقی توکل اور اعتماد کو اللہ سے حسنِ ظن رکھنے سے بیان کیا
ہے۔ در حقیقت، اُس سے حسنِ ظن رکھنا اُس پر توکل اور اعتماد کرنے کی جانب لے جاتا
ہے، کیونکہ یہ بات بعید از سوچ ہے کہ کوئی کسی ایسے پر اعتماد کرے جس سے
اُسےبدگمانی ہو یا جس سے اُسےکوئی امید نہ
ہو، واللہ اعلم۔‘‘ [تہذیب مدارج السالکین: ص240]
اُنہوں نے یہ بھی فرمایا:
’’جو اللہ سے امید رکھتا ہے اُسے اُس
سے بہترین کی توقع رکھتے ہوئے ہمیشہ خوش بین، محتاط، اور اللہ کے فضل و کرم کا
امیدوار رہنا چاہیئے۔‘‘ [تہذیب مدارج السالکین: ص300]
سید قطب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’اُن مؤمنوں کے لئے جن کے قلوب اللہ
سے جڑے ہوئے ہیں، جن کی ارواح اُس سے قربت رکھتی ہیں، جو اُس کے مستقل فضل و کرم
کو محسوس کرتے ہیں – وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے، چاہے وہ ہر طرف سے ہی
مصائب اور مشکلات میں کیوں نہ گھِر جائیں۔ مؤمن اپنے اعتقاد ، اپنے رب سے اپنے تعلق کی حلاوت ،اور
اپنے مولیٰ پر اعتماد کے سکون کی رحمت کے سایے تلے ہوتا ہے، اگرچہ وہ مشکلات اور
مصائب کے شدیدتھپیڑوں میں ہی کیوں نہ گھِرا ہوا ہو۔‘‘
اُنہوں نے یہ بھی فرمایا:
’’یقین کرنے والا دل اپنے رب سے
بہترین گمان رکھتا ہے، اور ہمیشہ اُس سے بہترین کی توقع رکھتا ہے۔ یہ آسانی کے
اوقات میں اور مشکل کے اوقات میں اُس سے
اچھی توقع رکھتا ہے، اور یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ ہر صورت میں اُس کی بھلائی ہی
چاہتا ہے۔ اِس کا راز یہ ہے کہ دل اللہ سے جڑا ہوا ہوتا ہےاور اللہ کی جانب سے خیر
کبھی منقطع نہیں ہوتی۔ پس جب بھی دل اُس سے جڑا ہوا ہو تو وہ اِس بنیادی حقیقت کو
چھو لیتا ہے اور اس (حقیقت) کوبلاواسطہ اور حلاوت سے بھرپور انداز میں محسوس کرتا
ہے۔‘‘ [فی ضلال
القرآن: 6/3219]
بعض اسلاف نے فرمایا:
’’جب بھی تمہیں کسی مصیبت سے واسطہ
پڑے، تو اسے دور کرنے کے لئے اللہ سے اپنے
حسنِ ظن کواستعمال کرو۔ یہ (رویہ) تمہیں راحت سے قریب تر لے جائے گا۔‘‘ [الفرج بعد
الشدّہ: 1/154]
سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ دعا کیا
کرتے تھے:
’’اے اللہ! مجھےاپنی (پاک)ذات پرسچا
توکل اور اپنے آپ پر حسنِ ظن عطا فرما۔‘‘ [سیر اعلام النبلاء: 4/325]
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے
فرمایا:
’’اُس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی
عبادت کے لائق نہیں ہے، مؤمن کو اللہ سے حسنِ ظن سے بہتر کوئی عطا نہیں ملتی ،
اوراُس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اللہ کا جو بندہ بھی
اُس سے حسنِ ظن رکھے تو اللہ اُسے وہی عنایت فرماتا ہے جس کی اُس (بندے)نے توقع رکھی، کیونکہ ہر خیر اُسی کے ہاتھ میں
ہے۔‘‘ [حسن الظن
باللہ: ص93]
سفیان الثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے:
’’میں اپنے باپ کے ذریعے نہیں پرکھا جانا چاہتا، کیونکہ میرے
لئے میرا رب میرے باپ سے بہتر ہے۔‘‘ [حسن الظن باللہ: ص45]
عمار بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:
’’میں نے حسن بن صالح کوایک خواب میں دیکھا اور میں نے کہا: ’میں آپ سے
ملنے کی توقع رکھے ہوئے تھا! آپ ہمیں کیا
بتا سکتے ہیں؟‘ اُنہوں نے جواب دیا: ’میں تمہیں یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ میں اللہ
سے حسنِ ظن رکھنے سے بہتر کوئی چیز نہیں دیکھتا۔‘‘‘[حسن الظن باللہ: ص45]