شیخ حامد العلی
1) دورِ حاضر کے اندر جہاد کو معطل ٹھہرا دینے کا فتویٰ؛ اِس بنیاد پر کہ امت اب اِس پوزیشن میں نہیں رہی کہ جہاد کرے! اِس مضمون کے فتووں کی بھرمار آپ کو خاص اُس وقت نظر آئے گی جس وقت بیرونی استعمار عالم اسلام پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہا ہو! تاکہ اُس کا کام ہمارے اِن ملکوں کے اندر آسان ہو سکے! سب سے پہلے جس ہستی کو عالم اسلام میں یہ فتویٰ دینے کی 'سعادت' حاصل ہوئی ہے وہ ہے بدنامِ زمانہ مرزا غلام احمد قادیانی۔ اور دور تھا: برطانوی استعمار، جوکہ اُس وقت مسلم ہند کے اندر اپنے پیر مضبوط کر رہا تھا۔ اسلام کے نامور علماءنے اللہ کے فضل سے عین اُسی وقت مرزا قادیانی کے اِس فتویٰ کے بخیے ادھیڑے تھے اور امت کے حق میں اس فتویٰ کی خباثت اور سنگینی واضح کی تھی۔
2) یہ فتویٰ کہ مسلم سرزمینوں پر کافر قوتوں کا اپنا تیر وتفنگ لا کر دھر دینا ایک جائز و شرعی امر ہے! بلادِ اسلام میں کفار کیلئے فوجی اڈے بنانے کو جائز قرار دینا، اِس بنیاد پر کہ وہ مُعَاہَد کی صنف میں آتے ہیں! اسلام میں تو اس بات کی اجازت نہیں کہ کافر اسلحہ سے لیس ہو کر سرزمین ِ اسلام کے اندر مسلمانوں پر رعب ڈالیں۔ تو پھر اُن فوجی اڈوں کی گنجائش کہاں سے نکل آئی جو کافر قوتوں کو مسلم سرزمینوں پر اسٹرٹیجک کنٹرول دلوانے کیلئے قائم کروائے جاتے ہیں؟ کفار کو مسلمانوں پر اِس انداز کی برتری دلوانا تو اصلاً نواقض ِ اسلام میں آتا ہے۔
3) یہ فتویٰ کہ مسلم سرزمینوں پر قابض استعماری افواجِ کے ہاں نوکری کرنا جائز ہے، بس شرط یہ ہے کہ نوکری کے اندر لڑاکا کارروائیوں میں شرکت کرنا نہ آتا ہو! مراد یہ کہ جس دوران وہ اہل اسلام کا قتل کر رہے ہوں اور مسلم سرزمینوں پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہے ہوں، اُس دوران اُن کی خاطر تواضع کرنے یا ان کے لئے ترجمہ وغیرہ ایسی خدمات ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں!
4) 2001ءمیں افغانستان پر امریکی حملہ کے وقت سامنے آنے والا فتویٰ، جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان پر چڑھ آنے والی فوجوں کے خلاف جو جہاد ہو رہا ہے وہ قتالِ فتنہ ہے نہ کہ جہاد! بعد ازاں ایسا ہی فتویٰ عراق پر امریکی قبضہ ہونے کے وقت سامنے آیا تھا!
5) 2003ءمیں عراق کے اندر امریکی فاتحین کے ہاتھوں قائم ہونے والی وزارتوں میں شمولیت کو جائز قرار دینے والا فتویٰ۔ یا اسی جیسی کسی حکومت میں شمولیت کو جائز قرار دینے والے فتاویٰ۔ اس سے بڑھ کر حماقت پر مبنی فتویٰ البتہ یہ تھا کہ وہ شخص جس کو کافر فاتحین ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد ہمارے اوپر حاکم مقرر کر دیں وہ ہمارا شرعی ولی الامر ہو جاتا ہے اور اس کی اطاعت ہم پر ازروئے شریعت واجب!
6) صیہونیوں کے ساتھ کسی بھی ایسی صلح کو جائز قرار دینے والا فتویٰ جس میں ارضِ فلسطین کے اندر کسی بھی اسلامی حق سے دستبرداری کی گئی ہو۔
7) یہ فتویٰ کہ مکالمۂ ادیان میں __ اُس کی حالیہ رائج شکل کے ساتھ __ شریک ہونا جائز ہے۔
8) وہ فتاویٰ جو وطنیت کو __ اُس کی حالیہ رائج شکل کے ساتھ، جوکہ درحقیقت مغرب کے اندر پروان چڑھی ہے __ جائز قرار دیتے ہیں۔ اور اُن لکیروں کا پابند رہنے کو جو استعمار ہمارے لئے کھینچ گیا ہے، شریعت ِ اسلام کا تقاضا قرار دیتے ہیں!
9) یہ فتویٰ کہ بر سر اقتدار طبقوں پر علی الاعلان نکیر کرنا حرام ہے۔ اور یہ کہ جو آدمی برسراقتدار طبقوں کی خالی مخالفت ہی کر لیتا ہے تو وہ "خروج" میں آ جاتا ہے۔ اور یہ کہ ولی الامر ہر ہر معاملے میں خاص اپنی صوابدید کے مطابق مصلحت کا تعین کرنے کا مجاز ہے؛ امت کے آگے نہ تو اُس کی کوئی جوابدہی ہے اور نہ کوئی احتساب۔ یہاں تک کہ اگر بچہ بچہ یہ جانتا ہو کہ حاکم مسلمانوں کے سب کے سب مصالح اور سب کے سب مفادات کو داؤ پر لگا چکا ہے، تو بھی اُس کے معاملے میں خاموش رہنا ہی دین کا حکم ہے، اور گونگا بنا رہنا ہی ایک صحیح شرعی منہج!
10) یہ فتویٰ کہ مجلس ِ اقوام متحدہ یا سیکورٹی کونسل کے صادر کردہ فیصلوں کو جائز و صحیح مانا جائے، جن کے ذریعہ سے (سبھی کو معلوم ہے) ہمیشہ مسلم ایشوز کے خلاف ریشہ دوانی ہوتی ہے.... اِس بنیاد پر کہ یہ وہ معاہدات ہیں جن کے اب ہم شرعاً پابند ہیں!
11) یہ فتویٰ کہ جو شخص کھلم کھلا کفر ِ اکبر کا ارتکاب کرے، اُس پر __ ظاہری معاملے تک میں __ ارتداد کا حکم لگانا جائز نہیں.... خواہ وہ شخص شرعِ خداوندی کو کسی اور شرع سے کیوں نہ بدل دے، خواہ وہ (اسلام کے خلاف) دشمنانِ دین کے ساتھ مل کر بلاک بندی کیوں نہ کرتا پھرے، حتیٰ کہ صلیب کو سجدہ ہی کیوں نہ کر آئے، مصحف ِ قرآنی کو پھاڑ کر کیوں نہ پھینک دے، اسلام کی دعوت کے خلاف برسرجنگ کیوں نہ ہو، مسلم معاشرے کے اندر تعلیم سے لے کر قضاءتک لادینیت کے ادارے کیوں نہ بیج دے، وغیرہ وغیرہ (یعنی عمل کی بنا پر اُس کو کافر نہیں کہا جائے گا، چاہے وہ کتنا ہی کھلا کفریہ 'عمل' کیوں نہ ہو).... تا آنکہ وہ شخص آپ اپنی زبان سے ہی بول کر نہ کہہ دے کہ وہ تو اسلام کو مانتا ہی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اسلام کو ایک نرا جھوٹا مذہب جانتا ہے!
آپ جانتے ہیں یہ فتویٰ (کہ عمل کی بنا پر آدمی کی تکفیر بہرصورت نہ ہو گی، خواہ وہ کتنا ہی برہنہ کفر کیوں نہ ہو).... پورے کے پورے اسلامی عقیدہ کی بساط لپیٹ دینے کے مترادف ہے۔ یہ فتویٰ پورے کے پورے اسلام کو ہی ختم کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ جو زمانۂ حاضر کے مرجئہ کا مذہب ہے، ماضی کے غالی مرجئہ تک اس سے پناہ مانگتے ہوں گے۔
12) یہ فتویٰ کہ زمین پر رہنے والے کسی بنی آدم کو نبوتِ محمد ﷺ پر ایمان لانے سے چھوٹ حاصل ہے۔ چنانچہ کوئی شخص نبوتِ محمد ﷺ کی تکذیب کر کے بھی، یا محمد ﷺ کے سچا ہونے کے اندر شک کر لینے کے بعد بھی، یا آپ ﷺ کے خاتم المرسلین ہونے کو محل نظر جان کر بھی، تکفیر سے بچ سکتا ہے۔ اِس فتویٰ کی رو سے محمد ﷺ پر ایمان نہ لانے والی اِس خلقت کی تکفیر نہ ہو گی، اس لئے کہ یہ اہل کتاب ہیں، اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہونے والی کسی کتاب کو ماننے والے ہیں!
یہ فتویٰ کچھ نہایت پر اَسرار انداز میں عام کروایا گیا ہے۔ عصر حاضر کی نام نہاد تحریک 'مکالمۂ ادیان' کے میدان میں آنے سے پہلے اس فتویٰ کی ایک خاص پزیرائی کرائی گئی اور پھر اِس فتویٰ کے جلو میں یہ تحریک عالم اسلام کے اندر دھیرے دھیرے جلوہ افروز ہوتی چلی گئی۔ یہ فتویٰ دینا اور نشر کرنا جملہ علمائے اسلام کے اجماع کی رو سے ارتداد ہے۔ کیونکہ اِس فتویٰ کی رو سے ایک ایسے شخص کا ایمان صحیح قرار پاتا ہے جو محمد ﷺ کی رسالت کی تکذیب کرتا ہو۔ علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہود اور نصاریٰ دُہرے کفر کے مرتکب ہیں: ایک ان کا اس دین پر باقی نہ رہنا جس پر انبیائے کرام رہے تھے، یعنی انبیاءکے دین کو بدل دینا۔ دوسرا، ان کا نبوتِ محمدﷺ کی تکذیب کرنا، بعد اس کے کہ محمد ﷺ کو جملہ انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ہے۔ ہاں بعثتِ محمدی سے پہلے ضرور ایسا تھا کہ جو شخص اپنے زمانے کے نبی کی اتباع کر رہا ہو وہ (اپنے وقت کا) مسلم ہے۔ اِس معنیٰ میں اسلام یقینا سب کے سب انبیاءکا دین ہے۔
13) بعض 'علماء' کی جانب سے یہ فتویٰ آنا کہ ایک عیسائی عورت کو، مسلمان ہو جانے کے بعد، عیسائی ہوجانے کا مشورہ دینا جائز ہے۔ جملہ مسلمانوں کے اتفاق کی رو سے ایسا فتویٰ دینا ارتداد ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر واضح ہے کہ گمراہ فرقے تک اس چیز کو ارتداد کہیں گے۔ ایسا مشورہ دینے والا مرتد ہو جاتا ہے، کجا یہ کہ کوئی اسکا باقاعدہ فتویٰ دے!
14) یہ فتویٰ کہ کفار کے اُن تمام منصوبوں کا حصہ بننا جنہیں وہ مسلم سرزمینوں پر اپنا قبضہ قائم کرنے کیلئے لانچ کرتے ہیں.. اور اُن تمام پروگراموں کا ایک فعال ترین کردار بننا جو وہ اسلام کی تباہی کیلئے عسکری، ثقافتی، سیاسی اور معاشی سطح پر جاری رکھے ہوئے ہیں.... یہ فتویٰ دینا کہ یہ تمام تر عمل، صحابی ِ جلیل حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے قصے پر ہی قیاس ہوتا رہے گا! حق یہ ہے کہ ایسا بیہودہ فتویٰ مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی نہ دیا گیا ہوگا۔
یہ فتویٰ کہ مسلمانوں کے ممالک پر قبضہ کروانے میں کفار کی اعانت کرنا، اور مسلم دنیا کو صیہونی صلیبی اتحاد کا دم چھلا بنانے کے عمل کو تمام تر مطلوبہ آسائشیں بہم پہنچا کر ر کھنا شریعت کی رو سے بالکل صحیح ہے.... اِس بنا پر کہ مسلمانوں میں سے کسی گروہ نے اُن کفار کے ساتھ کوئی ایگریمنٹ سائن کر رکھا ہے! لہٰذا (قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم سرزمین کے اندر کیا کیا کچھ کر رہے ہیں) اُن کے ساتھ وہ ایگریمنٹ (عہد) نبھانا ہر حال میں شریعت کا تقاضا ہے! اور تو اور، اِس 'دلیل' کی رو سے کفار کو ایسے مسلمانوں تک کے خلاف مدد دینا جائز کر لیا جاتا ہے جن کا ان کفار کے ساتھ سرے سے کوئی ایگریمنٹ (عہد) نہیں!
(مثلاً ملا عمر حفظہ اللہ کا ان کفار کے ساتھ کونسا عہد تھا؟ کافر ملکوں مانند نیٹو ممالک، اور کافر اداروں مانند اقوام متحدہ وغیرہ، کے ساتھ ملا عمر اور ان کی دولت اسلامی اور ان کے پیروکار مجاہدین آخر کونسے معاہدے کے پابند ہیں کہ اُن کے خلاف کفار کو مدد دینے کیلئے ہمارے یہ مفتیانِ دین 'بین الاقوامی معاہدوں' کے احترام پر مبنی 'دلائل' نکال نکال کر ہم کو دکھاتے پھریں؟ .... ازمترجم)
15) یہ فتویٰ کہ وہ مجاہدین جو اس وقت ملت اور دین کے دفاع کیلئے لڑ رہے ہیں، وہ صلیبی اور صیہونی دشمن سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے.... اِس بنا پر کہ خوارج کا خطرہ ہر خطرے سے بڑھ کر ہے!
16) سودی بینکاری کو جائز قرار دینے کا فتویٰ
17) بالغ مرد کو رضاعت کروانے کا فتویٰ!
18) یہ فتویٰ کہ نقاب، اسلام کے اندر ایک بدعت ہے!
19) دین ِ رافضہ کو ایک معتبر اسلامی مذہب قرار دینے کا فتویٰ۔ اور یہ کہ کوئی شخص اگر دین ِ روافض پر چلتے ہوئے اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ بھی ٹھیک ہی ہے۔ حالانکہ وہ دین اسلام سے صاف طور پر متصادم ہے۔ البتہ بعد ازاں جب کچھ سیاسی اختلافات نے تقاضا کیا، تو اِس فتویٰ کا سر تا پیر بدل جانا ٹھہر گیا!
20) ایسے لٹریچر کو حرام قرار دینے کا فتویٰ جس میں مسلمانوں کو اسلام کی عزت و بالاتری کے اسباق دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ مشکوک قسم کے فتاویٰ جو دشمنانِ دین کے اغراض کو پورا کرانے کیلئے سامنے آتے ہیں، مثلاً وہ فتاویٰ جو معروف مسلم داعیوں کے 'شر' سے خبردار کرنے کیلئے آتے ہیں! وہ فتاویٰ جو مسلمانوں کو اسلامی تحریکوں اور جہادی جماعتوں سے 'متنبہ' رہنے کی مکرر تلقین و یاددہانی کراتے ہیں! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری ان تحریکوں اور جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ بابرکت کرے، اِن سے امت کی اصلاح کا کام لے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُن سب طبقوں سے نجات دے جو خراب کار ہیں۔ مفسد ہیں۔ جہاد سے روکنے اور بد دل کرنے والے ہیں۔ اور امت کے اندر شکست خوردگی پھیلانے والے ہیں۔ آمین
اردو استفادہ: ابن علی
اصل مضمون کا لنک:
http://www.h-alali.cc/m_open.php?id=3653bcd2-ca68-102c-909e-00e04d932bf7
کالم نگار: سید عاصم محمود
دو مئی کی صبح امریکہ کے صدر باراک اوباما نے بڑی خوشی سے اپنی قوم کو بتایا "اسامہ کو مار کر ہم نے 1500 امریکیوں کے خون کا بدلہ لے لیا۔"
صدر اوبامہ میں اگر تھوڑی سی بھی اخلاقی جرأت ہوتی، تھوڑا سا ضمیر ہی زندہ ہوتا، تو شاید وہ اپنی تقریر میں ان جملوں کا بھی اضافہ کر دیتے "یہ بدلہ لینے کے لیے ہم نے عراق میں پندرہ لاکھ، افغانستان میں پانچ لاکھ اور اپنے دوست ملک پاکستان میں بے گناہ تیس ہزار مسلمان قتل کر ڈالے ہیں۔"
امریکی قوم کی اخلاقی باختگی کا عالم اب یہ ہے کہ امریکی حکومت نے ایک آزاد مملکت میں پیشہ ور قاتل بھجوائے جنہوں نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ایک غیر مسلح انسان کو مار ڈالا اس کے باوجود وہ اِسے اپنی فتح عظیم قرار دیتے ہیں۔
امریکہ ہی کے ایک غیر جانبدار دانشور اور اُسامہ شہیدؒ کے ایک پسندیدہ لکھاری، نوم چومسکی نے اپنے ایک مضمون میں امریکی عوام سے ایک سوال کیا ہے: "اگر ایک صبح عراقی کمانڈوز ہیلی کاپٹروں پر سوار جارج بش کے گھر پر اتریں، اُسے قتل کر ڈالیں اور اُس کی لاش بحر اوقیانوس میں پھینک دیں، تو ہمارا ردعمل کیا ہو گا؟"
ظاہر ہے، امریکہ بھر میں انتقام، انتقام کا شور مچ جائے گا اور مسلمانوں کے خلاف نئی صلیبی جنگ جنم لے گی۔ تب امریکی حقوقِ انسانی، جمہوریت اور عدل و انصاف کے اپنے تمام نعرے بھول جائیں گے۔ یہی امریکیوں کا دوغلا پن اور منافقت ہے جس کے خلاف اُسامہ بن لادنؒ نے پامردی سے جہاد کیا۔
سچ تو یہ ہے کہ شہید اسامہ جدید عالمِ اسلام کے ہیرو ہیں۔ ان کا شمار ایسے عظیم اور غیور مجاہدین و شہداءمثلاً امام شامل، امیر عبدالقادر الجزائری، عمر مختار، حیدر علی، ٹیپو سلطان ، تیتو میر وغیرہم میں ہوتا ہے جنہوں نے بے سروسامانی کے باوجود اپنے وقتوں کی استعماری اور نو آبادیاتی طاقتوں کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور کئی معرکوں میں انہیں شکستِ فاش دی۔
شہید اسامہ بھی اس دور کے سب سے بڑے دہشت گرد اور استعماری قوت کے خلاف مردانہ وار کھڑے ہوئے اور پندرہ سولہ برس تک اُسے چین و سکون سے نہ رہنے دیا۔ وہ شہید ہو گئے لیکن آج ان کی شخصیت پوری دنیا کے حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اسامہ نے 2001 ہی میں کہہ دیا تھا:
"میں چاہے، شہید بھی ہو جاؤں، تو استعماری قوتوں کے خلاف جہاد جاری رہے گا"۔
شہید اسامہ خوامخواہ امریکہ کے دشمن نہیں بنے، بلکہ اس سپر پاور نے خفیہ و عیاں طور پر اسلامی دنیا کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ دراصل یوں امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔ اوّل اس طرح اسلام اور مسلمانوں کی طاقت ماند پڑ جائے گی۔ دوم امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں ہر سال اربوں روپے کے ہتھیار بنا کر بھاری بھر کم منافع کماتی رہیں گی۔
لیکن عام امریکی کو یہ خبر نہیں کہ پچھلے دس سال میں اسامہ شہید نے اپنی حکمتِ عملی اس خوبی سے ترتیب دی کہ وہ خودبخود پوری ہوتی چلی گئی۔ اس حکمتِ عملی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ امریکہ کو عراق و افغانستان میں جنگوں میں اس طرح پھنسا دیا جائے کہ وہ سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی نہ نکل سکے۔
اس حکمتِ عملی کا نتیجہ کیا نکلا؟ آج امریکہ کا قومی خسارہ "145 ٹریلین ڈالر" تک پہنچ چکا ہے۔ اور آپ کو علم ہے کہ امریکی حکومت کی سالانہ آمدن کیا ہے؟ تقریباً 15 ٹریلین ڈالر! گویا امریکہ کا قومی خسارہ اُس کی آمدن کے برابر پہنچ چکا اور ہر ایک منٹ میں اس میں لاکھوں ڈالر کے حسا ب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اسامہ شہید کو علم تھا کہ امریکہ کو عسکری لحاظ سے شکست دینا ممکن نہیں، لیکن اُسے دیوالیہ بنا کر اس کا غرور و پندار توڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے خیال کوعملی رُوپ بخش ڈالا اور آج امریکہ چاہے سائنسی و عسکری لحاظ سے کتنا ہی طاقتور ہو، وہ معاشی طور پر کھوکھلا ہو چکا۔
راقم کے نزدیک شہید اسامہؒ بے بسی یا مایوسی کے عالم میں اپنی رب کے حضور پیش نہیں ہوئے۔ وہ ایک سرخرو شہید کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا اور دورِ جدید کی مغرور ترین اور گھمنڈی طاقت کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اسامہ بن لادن پچھلے پچاس برس میں جنم لینے والے سب سے بڑے مجاہد تھے اور اُن کی حیات و کارنامے آنے والے ادوار میں استعماری قوتوں سے بر سرِ پیکار مجاہدین کا لہو گرماتے اور حوصلہ بڑھاتے رہیں گے انشاءاللہ!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسلمانوں کی عادت ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت کے نزدیک یہ مہینہ اور یہ عظیم عبادت محض کھانے پینے،جاگنے اور گپے لگانے کے موسم میں تبدیل ہوچکاہے یہ لوگ میری اس تحریر کا مقصود نہیں ہیں کیونکہ وہ اسے پڑھیں گے ہی نہیں اور اگر پڑھ لیں تو ذرا بھی اہمیت نہیں دیں گے کیونکہ یہ تحریر اس فضیلت والے مہینے میں انکی اختیار کردہ ان عادات اوررسم ورواج کی مخالفت کرتی ہے جو ماہ صیام کا حصہ بن چکی ہیں اس سے الگ نہیں ہوسکتیں۔
رمضان کا مقدس فریضہ لوگوں کی حقیر اور معمولی خواہشات سے گڈ مڈ ہوچکا ہےاس ماہ کا مقصد عام طور پر رسم ورواج کی تکمیل رہ گیا ہے رمضان صرف تبرک حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے اسکے علاوہ اورکچھ نہیں۔
ان لوگوں کے نزدیک رمضان محض دن میں بھوکا پیاسے رہنے اور رات میں کھیل کود کرنے کا موسم ہے یہ حدیث ان پر صادق آتی ہے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
رب صائم ليس له من صيامه إلا الجوع والعطش، ورب قائم ليس له من قيامه إلا السهر (رواه النسائي وابن ماجه والحاكم، وقال صحيح على شرط البخاري)
ترجمہ:
کتنے روزے دار ہیں جنھیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنےہی (رمضان کا) قیام کرنے والے(یعنی تروایح پڑھنے والے) ہیں جنہیں سوائے بیداری کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ، نسائی، ا بن ماجہ، حاکم، حاکم نے کہا کہ بخاری کی شرط پر صحیح ہے
اسکے علاوہ وہ بہت سی مختلف قسم کی شرعی مخالفتیں ،نافرمانیاں اور کبیرہ گناہ جن میں لو گ مشغول رہتے ہیں مثلا ان عورتو ں کے ساتھ اختلاط کرنا جنکے ساتھ اختلاط حرام ہے،انہیں گھورنا اور ایسی اشیاء کی جانب توجہ دینا جو حرام ہیں۔
ان لوگوں کے خیال میں جو گناہ اور نافرمانیاں ساری رات کرتے ہیں انکی اجا زت انہیں انکا دن بھر ان سے رکے رہنے دیتا ہے انکے خیال میں نیکی برائی کو مٹادیتی ہے اور روزہ توبڑے بڑے گناہ کو مٹا دیتا ہے چہ جائیکہ چھوٹے موٹے گناہ اور نافرمانیاں یہ رمضان کا وہ مسخ شدہ مفہوم ہے جو طاغوتی حکام اور انکے جادوگر فریبی اور ظالموں کےمظالم کو جائز قرار دینے والے علماء رائج کر تے ہیں تاکہ قوم رمضان کے اصلی اور مرکزی مقصد سے غافل اور بے خبر رہے۔
اور اس طرح وہ حقیقی تیاری (یعنی اعداد وجہاد) کی فضاؤں سے دور ہوجائیں جو انہیں غفلت اور قعود (جہاد سے پیچھے بیھٹے رہنے) سے نکال کر احساس ذمہ داری اور جہاد کے دائرے میں داخل کرسکتی ہے۔
کچھ جماعتیں ان پہلے والے لوگوں سے زیادہ سمجھدار اور عقل مند ہیں وہ اس مہینے کی تعظیم کرتی ہیں اور اسے ایمان وعبادات اور اعتکاف کا موسم قرار دیتی ہیں ان کے نزدیک ماہ تقوی وصبر و جہاد کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے سب کی کوشش ہونی چاہیےکہ وہ اسکے دنوں کو روزے میں اور راتوں کو قیام میں گزارے۔
ان لوگوں کے سامنے یہ سوال خود بخود آجاتا ہے کہ کیا ہم ایسے حالات میں ہیں کہ اپنے لئے کم ترین حد پر راضی ہوجائیں؟ اور کیا ماہ رمضان کا مقصود خود اسکی ذات ہے یا وہ ایک بڑے اور بلند مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے؟
ان لوگوں کی حالت نے ہمیں ایک بزرگ عالم فضیل بن عیاض کی یاد دلادی جب عبداللہ بن مبارک نے انہیں انکے جہاد ترک کرکے حرم نبوی میں عبادت میں مشغول رہنےپر چند اشعار بھیجے۔
يا عابد الحرمين لو أبصرتنا * لعلمت أنك في العبادة تلعب من كان يخضب خده بدموعه * فنحورنا بدمائنا تتخضب
ائے عابد حرمین تو ہمیں دیکھ لے تو جان لے کہ تو عبادت میں کھیل رہا ہے جسکے گال اسکے آنسوؤں سے تر بتر رہتےہوں تو ہمارے سینے ہمارے ہی خون سےرنگین رہتےہیں۔
تو آج مجاہدین اربوں نفوس پر مشتمل امت سے کیا کہیں؟ جبکہ وہ حرم مکی یا حرم نبوی کے علاوہ مساجد میں دن اور رات کے اوقات میں چند رکعات کو کافی سمجھ رہی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ اور مجاہدین کی مدد سے کنارہ کشی کرچکی ہے۔
ان لوگوں کو میں اس جامع حدیث کے علاوہ کوئی اور نصیحت نہیں کرسکتا۔
عن أبي هريرة أن رجلاً قال : يا رسول اللّه علمني عملاً أنال به ثواب المجاهدين في سبيل الله، قال: هل تستطيع أن تقوم فلا تفتر، وتصوم فلا تفطر؟ فقال: يا رسول الله أنا أضعف من أستطيع ذلك، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: فو الذي نفسي بيده لو طوّقت ذلك ما بلغت المجاهدين في سبيل الله، أو ما علمت أن الفرس المجاهد ليستن في طوله فيكتب له بذلك الحسنات ؟ (الحديث رواه البخاري في كتاب الجهاد والسير ، باب الجهاد والسير)
ترجمہ:
ابوھریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نےکہا: یا رسول اللہ مجھے ایسا عمل سکھادیجئے جسکے ذریعے مجاہدین فی سبیل اللہ کا اجر حاصل کرلوں تو آپ نے فرمایا: کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ تو قیا م کرے اور رکے نہ روزہ رکھے اور چھوڑے نہ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ میں ایسا کرنے سے بے بس ہوں پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تو اسکی طاقت رکھتا مجاہدین فی سبیل اللہ تک نہ پہنچ پاتا کیا تو جانتا نہیں کہ مجاہد کا گھوڑا جس قدر طویل مسافت طے کرے اسکےلئے اسکے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (بخاری کتاب الجہاد باب الجہاد والسیر)
میں اس تحریر میں جن جماعتوں سے مخاطب ہونا چاہتاہوں ان سے مراد وہ جماعتیں ہیں جو پرچم اسلام کو حق کے ساتھ تھامے ہوئی ہیں جنہوں نے تبدیلی کی راہ میں اپنا پہلا قدم رکھ دیا ہے وہ تبدیلی جسکا خواب ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں اور ہمیشہ ہی جسکے اسباب ووسائل ڈھونڈتے رہے ہیں۔
وہ جماعتیں جنہوں نے اپنےآپ کو اپنے رب کو بیچ دیا ہر پسند وناپسند میں سمع وطاعت اور ہر تنگی وآسانی میں انفاق اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرے بغیر اللہ کے لئے کھڑے رہنے اور اپنے نبی کی سنت کی مدد کرنے اسے زندہ کرنے اپنے گھر والوں اور اپنی اولاد کی طرح اسکی حمایت اور بچاؤ کرنے کی بیعت کرکے بیعت عقبہ کی یاد تازہ کردی۔
وہ جماعتیں جنہوں نے اللہ کے حرام کردہ کو چھوڑ کر اللہ کی راہ میں ہجر ت کی تاکہ اپنے دین کےلئے پناہ گاہ اور ایسی جگہ تلاش کرسکیں جہاں وہ اپنے رب کی عبادت کرسکتی ہوں اور جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کرسکتی ہوں
وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل
ترجمہ: ان (دشمنوں کوخوفزدہ رکھنے) کے لئے جس قدر ممکن ہو قوت تیار رکھو اور گھوڑے باندھ رکھو
وإن استنصروكم في الدين فعليكم النصر
ترجمہ: اگر وہ دین کے سلسلے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مددکرنا فرض ہے
وہ جماعتیں جو اپنے دین کے لئے اپنے دین کے مطابق جیتی ہیں اور اللہ عزوجل کے لئے رکوع ،سجود اور اسکی اطاعت کرتی ہیں جن پر نہ دھوکہ چلتا ہےنہ دھمکی اثر انداز ہوتی ہے۔ (وہ میری اس تحریر کا مقصود ہیں)
رمضان مقصد نہیں ذریعہ ہے: رمضان صبر اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہےاس میں جو صبر نہ سیکھ سکے اور خود کو ا سکا عادی نہ بناسکےتو واضح خسارہ میں رہا کیونکہ صبر ہی دین ودنیا میں کامیابی ونجات کی کنجی ہے اور جہاد صبر،قر بانی اور نفس کی سرکشی کا نام ہےجسکا ہدف جہاد فی سبیل اللہ کے لئے خود کوتیار کرنا نہ ہو وہ بلاشبہ اس جماعت میں داخل نہیں چنانچہ اس پر فرض عظیم ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفاق کے پنجوں سے بچائے جس میں وہ جلد ہی گرفتار ہونے والا ہے کیو نکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا :
من مات ولم يغز ولم يحدث نفسه بغزو فقد مات على شعبة من نفاق (رواه ابن عساكر بسند صحيح)
جو شخص مر گیا ا س نے غزوہ نہ کیا نہ غزوہ کی نیت کی تو وہ نفاق کے ایک شعبہ پر مرا
رمضان کامہینہ نفس کو میدان جہاد میں داخل کردینے کے لئے تیا رکرنے کی تربیت واعداد کا مہینہ ہے کیونکہ اس میں وہ پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت سے رکا رہتا ہے اور دوران جہادانہی دو بنیادی شہوتو ں سے بچا جاتا ہےجبکہ لوگ ان دونوں انتہاؤں کو معمولی سمجھتے ہیں بلکہ زیادہ تر روزے دار ماہ صیام میں ان دونو ں سے بچنے کی عادت نہیں ڈال پاتے اس طرح کے دن میں جو بنیاد ڈالتے ہیں رات میں اسے گرا دیتے ہیں ساری رات ان دونوں شہوتوں کی لگا م آزاد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ جو دن بھر میں رہ گیا اسکا عوض حاصل کرلیں اگر چہ حلال طریقے سے ہی ہو چنانچہ نہ تو فائدہ حاصل ہو ا نہ فائدہ حاصل کیا۔
ہر گزرتا لمحہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ماہ رمضان سے فائدہ اُٹھا لیں او راسے نفس کو تقوی اور صبر کے اعلی مراتب تک ترقی دینے کا ذریعہ بنالیں تاکہ کسی بھی لمحے جہاد کی پکار پر لبیک کہنا ممکن ہوجائے۔
جس طرح گمراہ جماعتیں اسے شب بیداری اور کھانے پینے کا مہینہ قرار دیتی ہیں اور جس طرح جہاد سے بیھٹی رہنے والی جماعتیں اسے عبادت اور مساجد آبادکرنے کا مہینہ قرار دیتی ہیں اسی طرح مجاہدین انصارین پر بھی یہ فرض ہے کہ و ہ اس مہینے میں الگ رہ کر اسے اپنی کمزوریوں کے شگاف پر کرنے اور موجود وسائل کو قوی کرنےکی درسگاہ اور مرکز میں تبدیل کردیں تاکہ وہ اللہ سے اور ہجرت وجہاد کی پکا ر پر لبیک کہنےسےاور زیادہ قریب ہوجائیں۔
یقینا ہر سچےاور مخلص مسلمان کی تمنا ہوتی ہے کہ سارا سا ل ہی رمضان رہے کیونکہ اس میں بڑی خیر اور ایسا عالمی ایمانی ماحول ہوتا ہے جس میں نفس کے پاس تمام مراحل طے کرنے اور سستی دلانے والے تمام امور کوختم کردینے کےلئے وافر فرصت ہوتی ہے لیکن اس کے لئے کسی ضابطے (شیڈول) کاہونا ضروری ہے جسکی وہ پابندی کرے تاکہ نیند اور روزے کے درمیان اسکے اوقات ضائع نہ ہوں
معرکوں میں رہنے والوں کے لئے: یہ مہینہ انکے جہادی اعمال کو ترقی دینے اور انہیں موثر بنا نے کے لئے بہتر ین موقع ہےسلف صالحین اوررسو ل ملحمہ (ملحمہ جنگ کو کہتے ہیں یعنی جنگجو رسول) علیہ افضل الصلاة ازکی التسلیم کی اتباع واطاعت کا بھی یہی تقاضہ ہے ارشاد فرمایا:
بعثت بالسيف، حتى يعبد الله وحده لا شريك له،وجعل رزقي تحت ظل رمحي، وجعل الذل والصغار على من خالف أمري، ومن تشبه بقوم فهو منهم (رواه أحمد)
ترجمہ: مجھے تلوار کے ساتھ بھیجا گیاہے حتی کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی جانے لگے اور میر ا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھا گیا ہے اور میرے اس امر کی مخالفت کرنے والے ہر شخص پر ذلت ورسوائی مسلط کردی گئ ہے اور جو کسی قوم کی مشابہت کرےگا وہ انہی میں سے ہوگا (مسند احمد)
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معرکوں میں سےسب سے پہلا معرکہ غزوہ بدر رمضان میں ہو ا مسلمانوں اور کافروں کی میدان جنگ میں یہ پہلی ملاقات تھی جسے اللہ تعالی نے اسکی بہت زیادہ اہمیت کے سبب یوم الفرقان(حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا دن) کا نا م دیا۔
چنانچہ دشمنوں سے قتال کرنا اللہ کا قر ب حاصل کرنے کے ذرائع میں سے سب سے بڑا ذریعہ ہے یہ اسلام کی چوٹی ہے اگر یہ قتا ل رمضان میں ہو تو کیا بات ہےکیونکہ اللہ عزوجل کے نزدیک رمضان تما م مہینوں سے افضل ہے۔
رمضان میں قتال کرنے سے بلا شبہ دوچوٹیاں ملکر ایک عظیم چوٹی بن جائیں گی جس تک وہی شخص پہنچ پائے گا جسے اللہ منتخب کرے اور اس عظیم شرف کےلئے مختص کرے روزہ اور قتال یہ دونوں جہاد ہیں پہلا نفس کو نافرمانی اور سرکشی سےروکنے کے لئے جہاد ہےجبکہ دوسرا دشمن کو زمین پر فساد مچانے اور فتنہ ڈھانے سے روکنے کے لئے جہاد ہے چنانچہ جس شخص کو اللہ اس ماہ مبارک میں شرف شہادت حاصل کرکے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپکے پاکباز صحابہ کے ساتھ اعلی علیین میں روزہ افطار کرنے کی توفیق دے اور با اختیار بادشاہ کے ہا ں صدق کی گھاٹی میں منتظر 72 بڑی آنکھوں والی حوروں کےساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کر ام کی موجودگی میں نکاح کے لئے منتخب فرمالے اس کے لئے طوبی(جنت کی خوشخبری) ہے
ایسے ہی مجاہدین کواس ماہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ایمانی روابط مضبوط کرکے اور اپنےبھائیوں کی خوب خدمت کرکے اللہ تعالی کا قرب حاصل کر نا چاہیے ہے تاکہ دشمن کے خلاف قتال کرنے والی صف مضبوط ہوجائے اپنی متانت وصلابت میں بڑھ جائے اسی طرح وہ شیطان کو انکے باہمی تعلقات بگاڑ کر صف کمزور کرنے اور قدم اکھیڑنے کے مواقع سے محروم کرسکتے ہیں
بھائی چارے (اخوت واتحاد) کا عنصر سب سے مضبوط ہتھیار ہےجسکی حفاظت کرنی چاہیے اورصفوں کو(چونا گچھ) اور نفسانی خواہش سے رک جانے اور اللہ کی رضا اور شیطان کی ناراضگی کے لئے اس ماہ میں سکنیت ورحمت کے نزول سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے اللہ تعالی نے فرمایا:
إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفاً كأنهم بنيان مرصوص (الصف4)
ترجمہ: اللہ ان لوگو ں سے محبت کرتا ہے جو اسکی راہ میں قتال کرتے ہیں گویا وہ چونا گچھ دیوار ہوں
انسان کانفس اور شیطان وہ خطرناک ترین دشمن ہیں جنکے خلاف اس فضیلت والے مہینے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور ان پر کامیابی حاصل کئے بغیر خارجی دشمن پر کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہے۔
یہ حقیقت کی زمین پر جہاد کرنے والے تمام مجاہد طبقات کی جانب متوجہ ہے میں خاص طور پر اپنے عراقی بھائیوں کا ذکر کروں گا صفوں کو متحد کرنے کے لئے موثر اور بہتر کو شش کرنا ہوگی اور دشمن کو کمزور کرکےجہاد کی قوت کو مضبوط کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کو منظم ومرتب کرنےکی مسلسل جاری رہنے والی راہیں تلاش کرنی ہوں گی بسا اوقات جماعتوں کا متعددہوجانا اسلام او ر مسلمانوں کےلئے مصلحت ثابت ہوتا ہے لیکن ان جماعتوں کو ایک امارت کے تحت متحد کردینا سب سے بڑی مصلحت ہے اگر وہ یقین کریں۔ایسے ہی یہ صدا ان بھائیوں کی جا نب بھی متوجہ ہے جو طاغوتی حکام کی ہر جگہ بنی ہوئی جیلوں میں قید ہیں تاکہ وہ بھائی اپنی صفوں کو مضبوط اوراپنی آواز کو متحد کر کے پیشکشوں اور دھمکیوں کے ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر سکیں جنہیں طاغوتی حکام انکی صفوں میں تفریق ڈالنے اور انکی قوت کو کمزور کرنے کے لئے استعما ل کرتے ہیں تاکہ وہ بھولنےنہ پائیں کہ وہ اپنے دین کی حفاظت اور ظالموں کی جانب مائل نہ ہونے کے بڑے معرکے اور جاری جہاد میں اب بھی مصروف عمل ہیں۔
انصار(مجاہدین کے مددگاروں) کےلئے: اس مبارک مہینے میں ان کاکردار یہ ہے کہ وہ اعداد (جہاد کی تیاری) کی کوششوں کو تیز کریں اور اپنے مجاہد بھائیوں کی مدد کرنے کے نت نئے اور مختلف طریقے اختیار کریں اور یہ اس انتظار میں ہو کہ جلد ہی وہ خود بھی قتال کے میدانوں میں داخل ہوجائیں گے اگر چہ وہ جن میدانوں میں متحرک ہیں وہ براہ راست قتال کے میدانوں سے کم اہم نہیں کیونکہ وہ ایک بہت بڑے شگاف کو پر کر رہےہیں جسے پر کرنا نہایت ضروری ہے وہ مجاہدین کو مختلف قسم کی ایسی قوت فراہم کررہے ہیں جسکے وہ اپنے جہاد میں محتاج ہیں۔
ایسے ہی انہیں ہر جانب گھات لگائے بیھٹے ہوئے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
يا أيها الذين آمنوا خذوا حذركم فانفروا ثبات أو انفروا جميعاً (النساء)
ترجمہ: ائے ایمان والوں اپنا بچاؤ اختیار کرو ٹولیوں کی شکل میں نکلو یا اکھٹے ہی نکل جاؤ۔
دشمن نے انہیں تلاش کرکے انہیں اپنی صفوں سے ختم کرنے کے لئے بے شمار ایجنٹس اور وسائل اختیار کر رکھے ہیں یہ صورتحا ل انصار سے تقاضہ کرتی ہے کہ ان وسائل کا مقابلہ کرنے کے لئے انکے پاس برابرکی قوت اور طاقت ہو اور نہایت احتیاط سے حرکت کریں تاکہ دشمن کے لئے انہیں تلاش کرناناممکن ہو جائے یا اپنی سر گرمیاں محدود رکھیں۔دیگر مہینوں کی نسبت اس مبارک مہینے میں بندہ اپنے رب سے زیادہ نزدیک ہوتا ہے چنانچہ اللہ سبحانہ سے مسلسل دعا کرنی چاہیے اوراس کے آگے گڑ گڑ انا چاہیے کہ وہ ان پر خیر کے دروازے کھول دے اور دشمنوں کی آنکھوں کو انکےلئے اندھا کردے تاکہ وہ مجاہدین کی مسلسل مدد کرتے رہیں او ر انکے ساتھ مل جانے کے انتظار میں رہتےہوئے اعداد (جہاد کی تر بیت)کے عمل کو مسلسل جاری رکھ سکیں۔
ایسے ہی اس بات سے بھی ہوشیار رہیں کہ اس ماہ میں عبادت کےلئے فارغ ہوجانے کی دلیل کی بناء پر اپنی ذمہ داریاں ترک کردیں کیونکہ ان کا اپنے بھائیوں کی مدد کرناسب سے بڑی عبادت ہےبلکہ چوٹی کی عبادت ہے۔
یہا ں میں خا ص طور پر اپنے ان بھائیوں کا ذکر کروں گا جو عنکبوتی نیٹ ورک (یعنی انٹرنیٹ پر)مخصوص طریقے سے جہادی ویب سائٹس اور مباحثے فورمز چلارہے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ مجاہدین کی زیادہ سے زیادہ سے خبریں جمع کریں اور قتال کے میدانوں ہونے والے واقعات مسلمانوں تک پہنچائیں تا کہ مسلمان مجاہدین کے لئے اپنی دعائیں اور مادی سپورٹ مسلسل فراہم کرتےرہیں کیونکہ بقیہ سا ل کی بنسبت ان اوقات میں نفوس جو دو سخا کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں۔
ایسے ہی انصاران جہاد کو چاہیے کے اس ماہ کریم میں دعوت کو بنیادی ہدف بنالیں اور اس میں زیادہ سرگرمی دکھائیں کیونکہ اللہ تعالی اس ماہ میں اعمال صالح میں زیادہ برکت عطاء فرماتا ہے اور انکا تزکیہ فرماتا ہےتاکہ زیادہ سے زیادہ ایمانی فضائیں میسر ہوں اور نفوس ہدایت و استقامت سے قریب تر ہوجائیں۔
مدد اور تعاون کرنے کا یہ فریضہ برابری کی سطح پر اوقات واموال کے انفاق(اللہ کی راہ میں خرچ کرنے) کا مطالبہ بھی کرتا ہے جہادی رجحان اور قوت کو مضبوط کرنے کے لئے رمضان کے ایام نفوس کو اس عظیم عبادت کا عادی بنانے کا نہایت منا سب موقع ہے انفاق کے بغیر جہاد ناقص او رضعیف ہوجاتا ہے چنانچہ جہاد بالمال کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ انصاران جہاد پر عائد ہوتی ہے اور یہ اس جہادبالنفس کے برابر ہی ہو جو مجاہدین میدانوں میں سر انجام دیتے ہیں۔
یہ وہ اہم ترین مواقع واہداف تھے جنہیں بآسانی سمجھا جاسکتاہے خاص طور پر درجہ شہادت تک پہنچنے کی خاطر مرحلہ اعداد(جہاد کی تیاری) وجہاد (یعنی عملی جہاد) میں ماہ رمضان سے مطلوبہ استفادے یعنی شہادت کے ذریعے یہی وہ درجہ ومقام ہے جسکی ہمیں ہر جگہ اور ہر لمحہ دعوت دینی چاہیے شاید اللہ ہم پر رحم فرمائے او ران لوگوں میں شامل فرمائے جن کےزریعہ وہ اپنےدین کی مدد کرتا ہے اسی طرح ہم دنیامیں صالحین جبکہ آخرت میں اسکی رضا حاصل کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔
والحمد لله رب العالمين وصلى الله وسلم وبارك على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه.
تحریر برائے نصرت جہاد ومجاہدین: ابو سعد العاملی
آخر شبعان
http://www.mediafire.com/?t6du821ce1arcvs