Monday, August 15, 2011

مدینہ کی معصوم شہزادی---

مدینہ کی معصوم شہزادی---
از طاہر نقاش
کیا دور آ گیا ہے، جسے دیکھو وہی سر ، سرگم اور سنگیت کا متوالا ہے، کانوں میں ہیڈ فون پھنسائے اپنی ہی ترنگ میں مگن جھوم رہا ہے۔ گھر سے دفتر روانہ ہوتے ہوئے میں نے بھی دیکھا دیکھی اپنے موبائل کے ساتھ ہینڈ فری لگائی، کانوں میں ہیڈ فون کے سپیکر ایڈجسٹ کئے اور پلے کرنے کے بعد اپنی بائیک کے گھوڑے کو ایڑ لگا کر ہواں کے دوش پر محو سفر ہو گیا.... دفعتاً کانوں میں ایک مانوس و معروف ترانے کی آواز گونجی....

میرے زندان کے ساتھی کہیں تم بھول نہ جانا اذیت کے کٹہروں میں جو ہم نے دن گزارے تھے
جوں جوں ترانے پر غور کرتا گیا.... بائیک کی رفتار کم ہوتی گئی اور صرف 20 کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی.... اب موٹرسائیکل رینگ رہی تھی جبکہ میری آنکھوں نے.... تیز رفتاری کے عالم میں.... گرم گرم آنسوں کی.... رم جھم رم جھم بارش برسانا شروع کر دی تھی....آنسو پلکوں کا مضبوط حصار توڑ کر شبنم کے چمکتے دمکتے موتیوں کی مانند، مگر تندو تیز سیلاب کی طرح.... موسلا دھار بارش بن کر برس رہے تھے، میرے دل کے آسمان کا موسم یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔ دریائے راوی کے پل پر پہنچنے پر میں نے بائیک ایک سائیڈ پر کھڑی کی، ترانہ بند کیا، چہرے کو رومال سے صاف کیااور کچھ دیر اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کے بعد دوبارہ چل پڑا۔ ایسا کیوں ہوا؟ آج وہ راز میں آپ کو بتا دوں جو مجھے صداقتوں کے پاسبان، عزیمتوں کے نگہبان اور اخوتوں کے ترجمان ایک غازی و مجاہد نے سونپا تھا۔ ٹھہریے! ابھی گوش گزار کرتا ہوں آپ کی خدمت میں وہ راز.... لیکن.... کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس وقت کافروں کی قید میں امت مسلمہ کے کیسے کیسے قیمتی ہیرے اور گوہر پارے، اذیتوں کی داستان اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں اور عقوبت خانوں میں کفار کی سفاکیت، ظلم و جبر، درندگی اور ہولناکی کا شکار ہو کر بے یارومددگار گمنامی میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، ان کی اذیتوں و تکلیفوں کا ہمیں کچھ علم بھی نہیں اور فکر بھی نہیں کہ کون کہاں سے آیا.... کہاں پکڑا گیا.... کہاں لے جایا گیا، اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا.... آخر اس کا کیا بنا.... اور اب وہ کہاں ہے....؟ ایسی ہی ایک شام تھی، افغانستان کی ایک سنسان سڑک پر ڈاٹسن گاڑی اندھیرے کا سینہ چیر کر آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اس میں دو ایسے مسافر بھی تھے کہ جنہیں امت محمدﷺ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ وہ سلطان مدینہ، سرور قلب و سینہ، آقائے دو جہاں کے شہر مدینہ کے رہنے والے تھے۔ لیکن پھر بھی کوئی ان کو اپنانے، اپنے پاس بٹھانے یا ان کی بات سننے کے لئے تیار نہ تھا.... شہر مدینہ کے دونوں باسی 17 اور 16 سالہ بھائی بہن انجانی منزلوں کی جانب رواں دواں تھے گاڑی کی ایک سائیڈ میں سہمے سہمے، ڈرے ڈرے خوف زدہ بیٹھے تھے۔ اس لئے کہ ان کا عظیم باپ ایک مجاہد تھا.... کہ جس نے نہتے افغانی مسلمانوں پر امریکی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا ”جرم“ کیا تھا، کافروں سے ڈرنے والی امت ان دومدنی مہمانوں کو اپنے ہاں رکھنے سے انکاری تھی.... اور وہ جائے پناہ کے لئے انجانی منزلوں کی تلاش میں سرگرداں، اس گاڑی میں سوار روشن منزل کی امید میں آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک ایک دوراہے پر فوجی کھڑے نظر آئے، انہوں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی روکی گئی.... ”ہمیں مخبری ہوئی ہے کہ اس گاڑی میں عربی موجود ہیں“ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے سب کو نیچے اتار دیا، پروقار چمکتے دمکتے روشن چہرے والے سرخ و سفید رنگت کے حامل اس موٹی آنکھوں والے 17 سالہ جوان نے اپنی بہن کو نیچے اتارا اور مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ سب کی تلاشی لی جانے لگی، تلاشی لینے والوں کے سروں پر امریکی فوجی سایہ بنکر کھڑے سب کو غور سے کھا جانے والے انداز میں دیکھ رہے تھے۔ سب کی تلاشی مکمل ہو گئی تو انہوں نے 16 سالہ عرب شہزادی کو علیحدہ کرنے کا اشارہ کیا۔ ایک فوجی اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف لے جانے لگا۔ بہن پکاری: اخی عبدالعزیز .... بھائی عبدالعزیز یہ کیاہے.... مجھے بچا.... بھائی نے بہن کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور.... فوجی کے ہاتھ سے اس کا ہاتھ چھڑا کر دریافت کرنے لگا: کیا بات ہے؟ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ اسے باقی لوگوں کی طرح کیوں نہیں چھوڑ رہے؟ اسے کیمپ کی طرف کس جرم میں لے جایا جا رہا ہے.... فوجیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ اس کو زور لگا کر کھینچنے لگے لیکن عبدالعزیز چھوڑ نہ رہا تھا اور ہر طرح سے پردہ میں ملبوس بہن بھی بھائی کی طرف لپک رہی تھی، فوجی زور لگا رہے تھے لیکن دونوں کے مضبوطی سے پکڑے ہاتھ نہ چھڑا سکے۔ اوپر کھڑے امریکی ظالم کی غصے بھری ہدایت کی آواز گونجی تو دو فوجیوں نے عبدالعزیز کے بازو پر زور دار قوت سے گن کے بٹ مارے.... اب وہ درد سے کراہتے ہوئے بہن کی طرف بڑھ رہا تھا.... اور پکار رہا تھا.... فاطمہ، فاطمہ، فاطمہ.... تو پتہ چلا کہ مدینہ کی شہزادی، جو ضمیر فروشوں کے ہاتھ آن پھنسی تھی، اس کانام فاطمہ تھا۔ ہاں ہمارے آقا محمد عربیﷺ کی بیٹی کا نام بھی فاطمہ ہی تھا.... ہم سپین میں عیسائیوں کی بیٹی کی عزت بچانے کے لئے اپنی جانوں پر کھیل گئے تھے۔ لیکن یہاں کوئی آگے نہ بڑھا جو فاطمہ کو ان ظالم امریکیوں سے بچاتا، سب دم سادھے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے.... جبکہ فاطمہ چیخ رہی تھی، اخی الکریم.... اخی الکریم!.... میرے عظیم بھائیو!.... اپنی کمزور و ناتواں بہن کو بچالو.... اگلی بات بتانے سے پہلے ایک اور بات بتا دوں کہ محمد عربیﷺ کے دیس کی رہنے والی اس امت مسلمہ کی بیٹی فاطمہ کی شان دوسرے لوگوں سے نرالی تھی۔ کیوں؟ 16سال کی بالڑی عمر میں اکثر لڑکیاں رنگین گلابی نیلے پیلے سپنوں کے تانے بانے بنتی ہیں.... آئیڈیل کے حسین خواب دیکھتی ہیں.... اپنے روشن مستقبل کے سہانے محل تعمیر کرتی ہیں ....اور کچے گھروندوں کی طرح مسمار کر کے نت نئے تخیلات پر مبنی نئے گلشن آباد کرتی ہیں.... ان کے سینے سلگتے، ارمانوں مچلتی امنگوں آرزوں، خواہشوں اور فرمائشوں کا گہوارہ ہوتے ہیں لیکن اس معصوم فاطمہ کا سینہ بھی معمور تھا، بھرپور تھا، دل بھی مسرور تھا، کس چیز سے!!؟ آج تک تو سنتے آئے ہیں کہ فلاں کے سینے میں قرآن جیسی عظیم الشان کتاب محفوظ ہے.... لیکن آپ یہ سن کر خوشگوار حیرت میں موجزن ہو جائیں گے کہ اس کے سینے میں قرآن کے بعد دوسری اہم صحیح مقدس کتاب بخاری شریف بھی محفوظ تھی۔ اسے بخاری شریف کی حافظہ ہونے کا اعزاز حاصل تھا.... یعنی اس کے سینے میں قال قال رسول اللہ(ﷺ) کے خزانوں کا بے پایاں سمندر موجزن تھا.... اس کا پاکیزہ سینہ احادیث رسول کے انمول مجموعے (بخاری شریف) کے انوار سے منور تھا.... جب اس سے فرمائش کی جاتی وہ قرآن سنانے لگتی اور جب کہا جاتا وہ بیٹھے ہی بیٹھے جونہی احادیث کا مطالبہ ہوتا وہ پڑھنا شروع کر دیتی.... لیکن بیٹی تھی امت محمد کی.... کتنی چھوٹی عمر میں اللہ نے اس پاکیزہ بندی کو کتنا بڑا رتبہ عطا کر دیا تھا....کیا قابل عمل نمونہ تھا، اس کی زندگی کا.... ہر وقت اس کی زبان قرآن اور احادیث کے انوار سے رطب اللسان رہتی۔ یہ عظیم بیٹی.... معصوم بہن.... پکار رہی تھی.... اخی الکریم.... اخی الکریم.... بھائیو! مجھے بچا.... امت محمد کے غیور فرزندو! مجھے بچا لو، لیکن نہ صرف وہاں موجود گاڑی کے مسافر بے حس تھے بلکہ ....پوری امت مسلمہ بھی گونگی بہری اور اپاہج ہو چکی تھی.... کوئی نہ تھا جو درندوں کے دست و بازو کاٹ کر اس کو آزاد کراتا۔ آگے بڑھتے عبدالعزیز کو امریکی درندوں نے .... بہن کے سامنے .... سر میں بٹ مار مار کر لہو لہان کر دیا اور بیہوش کر کے زمین پر گرا دیا تھا ....جبکہ فاطمہ یہ جانکاہ منظر دیکھتے ہی بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی اور صلیبی درندے اسے اٹھا کر لے گئے۔ پھر انہوں نے آرڈر کیا کہ سب لوگ بھاگ جائیں لہٰذا ڈاٹسن کا انجن سٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور گاڑی فرائے بھرتی ہوئی تاریکیوں میں غائب ہو گئی۔ فاطمہ بہن امت کی بیٹی کہ چشم فلک نے ایسی عظیم پاکباز پاکیزہ بیٹی کا مشاہدہ کبھی نہ کیا ہو گا۔ آج اس عظیم بہن کی یاد اس ترانے کی وجہ سے ایک بار پھر میرے دل کے نہاں خانوں میں چلی آئی تھی.... میں سوچ رہا ہوں، کیا بنا ہو گا، ہماری اس بیٹی کا.... اس بہن کا، کیا سلوک کیا ہو گا، اس کے ساتھ صلیبی درندوں نے، کیا کیا ظلم و جبر کے چرکے لگائے ہوں گے، کیا اسے ابو غریب یا، افغانستان کی کال کوٹھڑیوں میں، یا پھر گوانتانامو کے اذیت خانوں میں پہنچا دیا گیا ہے.... کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا قرآن و حدیث کے انوار سے منور اس کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ....میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو ایک فاطمہ ہے کتنی ہی امت مظلومہ کے عبدالعزیز اور فاطمائیں، عافیہ صدیقی جیسی بہنیں سسک سسک کر بے نام موت مر رہی ہیں جبکہ ہمیں نہ علم.... نہ احساس اور نہ ہی ان کی رہائی کی پریشانی مدد کے اپنے فریضے کا ادراک ہے.... کیا ایسے لوگوں میں ....محمد بن قاسم اور ....طارق دوبارہ جنم لے سکتے ہیں؟

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔