شہید اُسامہ اپنی ذمے داری نبھا گئے
کالم نگار: سید عاصم محمود
دو مئی کی صبح امریکہ کے صدر باراک اوباما نے بڑی خوشی سے اپنی قوم کو بتایا "اسامہ کو مار کر ہم نے 1500 امریکیوں کے خون کا بدلہ لے لیا۔"
صدر اوبامہ میں اگر تھوڑی سی بھی اخلاقی جرأت ہوتی، تھوڑا سا ضمیر ہی زندہ ہوتا، تو شاید وہ اپنی تقریر میں ان جملوں کا بھی اضافہ کر دیتے "یہ بدلہ لینے کے لیے ہم نے عراق میں پندرہ لاکھ، افغانستان میں پانچ لاکھ اور اپنے دوست ملک پاکستان میں بے گناہ تیس ہزار مسلمان قتل کر ڈالے ہیں۔"
امریکی قوم کی اخلاقی باختگی کا عالم اب یہ ہے کہ امریکی حکومت نے ایک آزاد مملکت میں پیشہ ور قاتل بھجوائے جنہوں نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ایک غیر مسلح انسان کو مار ڈالا اس کے باوجود وہ اِسے اپنی فتح عظیم قرار دیتے ہیں۔
امریکہ ہی کے ایک غیر جانبدار دانشور اور اُسامہ شہیدؒ کے ایک پسندیدہ لکھاری، نوم چومسکی نے اپنے ایک مضمون میں امریکی عوام سے ایک سوال کیا ہے: "اگر ایک صبح عراقی کمانڈوز ہیلی کاپٹروں پر سوار جارج بش کے گھر پر اتریں، اُسے قتل کر ڈالیں اور اُس کی لاش بحر اوقیانوس میں پھینک دیں، تو ہمارا ردعمل کیا ہو گا؟"
ظاہر ہے، امریکہ بھر میں انتقام، انتقام کا شور مچ جائے گا اور مسلمانوں کے خلاف نئی صلیبی جنگ جنم لے گی۔ تب امریکی حقوقِ انسانی، جمہوریت اور عدل و انصاف کے اپنے تمام نعرے بھول جائیں گے۔ یہی امریکیوں کا دوغلا پن اور منافقت ہے جس کے خلاف اُسامہ بن لادنؒ نے پامردی سے جہاد کیا۔
سچ تو یہ ہے کہ شہید اسامہ جدید عالمِ اسلام کے ہیرو ہیں۔ ان کا شمار ایسے عظیم اور غیور مجاہدین و شہداءمثلاً امام شامل، امیر عبدالقادر الجزائری، عمر مختار، حیدر علی، ٹیپو سلطان ، تیتو میر وغیرہم میں ہوتا ہے جنہوں نے بے سروسامانی کے باوجود اپنے وقتوں کی استعماری اور نو آبادیاتی طاقتوں کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور کئی معرکوں میں انہیں شکستِ فاش دی۔
شہید اسامہ بھی اس دور کے سب سے بڑے دہشت گرد اور استعماری قوت کے خلاف مردانہ وار کھڑے ہوئے اور پندرہ سولہ برس تک اُسے چین و سکون سے نہ رہنے دیا۔ وہ شہید ہو گئے لیکن آج ان کی شخصیت پوری دنیا کے حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اسامہ نے 2001 ہی میں کہہ دیا تھا:
"میں چاہے، شہید بھی ہو جاؤں، تو استعماری قوتوں کے خلاف جہاد جاری رہے گا"۔
شہید اسامہ خوامخواہ امریکہ کے دشمن نہیں بنے، بلکہ اس سپر پاور نے خفیہ و عیاں طور پر اسلامی دنیا کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ دراصل یوں امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔ اوّل اس طرح اسلام اور مسلمانوں کی طاقت ماند پڑ جائے گی۔ دوم امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں ہر سال اربوں روپے کے ہتھیار بنا کر بھاری بھر کم منافع کماتی رہیں گی۔
لیکن عام امریکی کو یہ خبر نہیں کہ پچھلے دس سال میں اسامہ شہید نے اپنی حکمتِ عملی اس خوبی سے ترتیب دی کہ وہ خودبخود پوری ہوتی چلی گئی۔ اس حکمتِ عملی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ امریکہ کو عراق و افغانستان میں جنگوں میں اس طرح پھنسا دیا جائے کہ وہ سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی نہ نکل سکے۔
اس حکمتِ عملی کا نتیجہ کیا نکلا؟ آج امریکہ کا قومی خسارہ "145 ٹریلین ڈالر" تک پہنچ چکا ہے۔ اور آپ کو علم ہے کہ امریکی حکومت کی سالانہ آمدن کیا ہے؟ تقریباً 15 ٹریلین ڈالر! گویا امریکہ کا قومی خسارہ اُس کی آمدن کے برابر پہنچ چکا اور ہر ایک منٹ میں اس میں لاکھوں ڈالر کے حسا ب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اسامہ شہید کو علم تھا کہ امریکہ کو عسکری لحاظ سے شکست دینا ممکن نہیں، لیکن اُسے دیوالیہ بنا کر اس کا غرور و پندار توڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے خیال کوعملی رُوپ بخش ڈالا اور آج امریکہ چاہے سائنسی و عسکری لحاظ سے کتنا ہی طاقتور ہو، وہ معاشی طور پر کھوکھلا ہو چکا۔
راقم کے نزدیک شہید اسامہؒ بے بسی یا مایوسی کے عالم میں اپنی رب کے حضور پیش نہیں ہوئے۔ وہ ایک سرخرو شہید کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا اور دورِ جدید کی مغرور ترین اور گھمنڈی طاقت کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اسامہ بن لادن پچھلے پچاس برس میں جنم لینے والے سب سے بڑے مجاہد تھے اور اُن کی حیات و کارنامے آنے والے ادوار میں استعماری قوتوں سے بر سرِ پیکار مجاہدین کا لہو گرماتے اور حوصلہ بڑھاتے رہیں گے انشاءاللہ!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔