بسم اللہ الرحمن الرحیم
حق شخصیات اورتنظیموں سے نہیں بلکہ شخصیات اورتنظیمیں حق سے پہچانی جاتی ہیں
تحریر : صلاح الدین غزنوی
انصار اللہ اردو ویب سائٹ کی خصوصی پیشکش
حق اور باطل کے درمیان جاری لڑائی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ اس جنگ ولڑائی میں کامیابی صرف ان لوگوں کے چہرے کا جھومر بنتی ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کو اختیار کرتے ہیں اور اس کے تمام احکامات کو بغیر کسی چوں وچراں کے بجالاتے ہیں۔کائنات کے اس حقیقی مالک کے علاوہ نہ وہ کسی کے در پر اپنی پیشانی کو جھکاتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی کے آگے اپنے آپ کو سلنڈر کرتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جواپنا تن من ودھن سب کچھ حق کی خاطر قربان کردیتے ہیں اور باطل کی طرف سے آنے والی ہرتکالیف ومصائب کے سامنے صبرواستقامت کے ایسے پہاڑ بن جاتے ہیں کہ ریزہ ریزہ ہوکر اپنی جانوں کو توآفرین کے سپرد کردیتے ہیں لیکن اسلام پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دیتے ۔ان لوگوں کا جینا مرنا حق کے لئے ہوتا ہے اور یہ لوگ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے ہوئے اس کے ساتھ وفاداری کرتے ہیں ۔ ان کی خوشیاں ، ان کی غمیاں، ان کی دوستیاں اوران کی د شمنیاں بھی حق کی بنیادپر ہوتی ہے۔اس حوالے سے کسی ملامت کرنے والی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔یہی وہ لوگ ہیں جو اہل حق کہلانے کے حقدار ہیں اور اللہ تعالی کی تائیدونصرت اوررحمت وشفقت کوپانے کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آج کے اس دلفریب پُر فتن دور میں اہل حق اوراہل باطل کون ہیں؟ان کی علامات ونشانیاں کیاہیں؟حق وباطل کے ترازو میں لوگوں کو پرکھنے کی کسوٹی اور معیار کیاہے؟
ان سوالات کے جوابات جاننے سے پہلے یہ جاننا بیحد ضروری ہے کہ حق کیاہے اورباطل سے کیا مرادہے؟
آج ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے حق کو پہچانا نہیں اورجو کوئی اہل حق ہونے کا دعوی کرتا ہم اس کے ساتھ چل پڑتے اور جو کچھ وہ بتاتااسے ہی حق سمجھنے لگتے۔ ہم نے کبھی یہ کوشش ہی نہیں کی کہ ہم حق کو پہچانے اور پھراس کے بعداس کے ماننے والوں کو تلاش کرکے ان کے ساتھ چلیں اوران کا ساتھ دیں۔ہم پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت حق کو شخصیات ،مغربی زدہ کفری میڈیا،تنظیموں اورپارٹیوں کی بنیاد پر سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ہم پاکستانیوں کی حالت یہ ہے کہ ہمارے رہنما ولیڈرنے جو کہہ دیا،بس وہ حرف آخر ہے۔انہوں نے جس کام کوحلال اور واجب قراردیدیا، ہم اس کام کو واجب اورنیکی سمجھتے ہوئے اس کوبجالانے میں لگ جاتے ہیں۔ اور جس کام کوانہوں نے ممنوع اور حرام قراردیدیا،ہم اس کو گناہ سمجھ کر چھوڑدیتے ہیں۔افسوس کہ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ہم سے جو کچھ کہا جاتاہے اورجوکچھ کرنے کا حکم دیاجاتاہے آیا وہ حق ہے کہ بھی نہیں؟ہم جس کام کو اپنے قائدین کے کہنے پر حق اوراسلام کی خدمت سمجھ کرکررہے ہیں،کبھی اس کے بارے میں ہم نے یہ سوچا ہے کہ اس سے حق کوکیافائدہ پہنچ رہاہے یاپھرباطل کواس سے مزیدتقویت مل رہی ہے۔ہماری تنظیمی ودینی سرگرمیوں سےاہل حق کوکس قدر فائدہ اورکس قدرنقصان پہنچ رہا ہے ؟
ہمیں کبھی اس کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔بلکہ ہم نے کبھی اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ کیونکہ ہم نے حق کوپہچاناہی نہیں ہے اورہم حق کو اپنی شخصیات وتنظیموں کی بنیادپرپہچانتے ہوئے اسے اپنے لئے کافی سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہی وہ بنیادی اور مرکزی غلطی ہے جس کا ارتکاب ہم پاکستانی مسلمانوں نے کیا اور آج ہم اس کاخمیازہ بھگت رہے ہیں۔اس غلطی کی وجہ سے ہمیں اب تک یہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ اہل حق کون ہیں؟
اس غلطی کو فروغ دینے میں تنظیموں اور ان کے قائدین کا مرکزی کردار ہے جوکسی بھی قسم کا معاملے پیش آنے کی صورت میں سڑکوں پرچندللکارشدہ دھمکیوں اور نعرے بازی والے مظاہرے اورریلیاں نکالتے ہیں اوراسٹیجوں پر بڑھکیں مارکراپنے گھروں میں جاکرائیرکنڈیشنڈروم میں بکرے کھاکرسوجاتے ہیں۔انہیں دعووٴں کی بجائے عملی اقدام کرنے اورحق واسلام کاساتھ دینے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ان کے مطمع نظرصرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اپنا کیرئیراورمقام ومرتبہ جوانہوں نے لوگوں کے سامنے بنارکھا ہے، اسے برقرار رکھاجائے اورمقامی اہل باطل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسلم عوام میں ایسی سرگرمیوں کوانجام دیاجائے جن سے انہیں تقویت پہنچے اوروہ مزیدمضبوط ترہو۔یہ سب کچھ ایسے ڈرامائی انداز میں کیاجاتاہے کہ عام مسلمان ان کے فریب میں آکر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ دین کاکام کررہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ دین کی بجائے مقامی کفری ایجنسیوں کے ایجنڈوں کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سرگرم ہوتےہیں۔مسلمانوں کو بیوقوف بنانے اوران کی حمایت حاصل کرنےکے لئے وہ دعووٴں کے ساتھ چندایسے امورسرانجام دیتے ہوئے نظرآئیں گے جن سے بسااوقات جزوی طورپرمقامی مسلمانوں کوچندفوائدحاصل ہوجاتے ہیں لیکن اسلام کواکثراوقات ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔اگر ان جماعتوں وتنظیموں کی سرگرمیوں سے اسلام کو کوئی جزوی فائدہ پہنچ بھی جائے تووہ فائدہ ایساہوتاہے کہ اس سے مقامی کفری ایجنسیاں اوران کے آقاوٴں پر کوئی ضرب کاری نہیں لگتی اورنہ ہی ان کے مفادات کو کوئی ٹھیس پہنچتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم ان تنظیموں کے رہنماوٴں کواسٹیجوں پرامریکی ڈرون طیاروں کوگرانے اورامریکہ کوتباہ وبرباد کرنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے توسنتے ہیں لیکن عملی طور پران لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ جہادکرنا تودور کی بات علی الاعلان امریکیوں کوقتل کرنے والے جہادکے فرض عین کا فتوی دینے اورامریکہ کیخلاف جہاد کرنے والے اہل حق کا ساتھ دینے کی دعوت دیتے ہو ئےنظر نہیں آئیں گے۔بلکہ ذرائع ابلاغ پر تویہ لوگ اہل حق (القاعدہ وطالبان) سے دستبردارہونے کااعلان کرنے ، مقامی باطل ایجنسیوں کی چاپلوسیاں کرنےاوراقوام متحدہ کے قوانین وپاکستان کے انگریزی ملکی آئین کے احترام کا عہد کرنے میں لگے ہوئے دکھائی دیں گے ۔ اس کے علاوہ غلبہ اسلام اورخلافت اسلامیہ کے قیام کے لئے جدوجہدکرنے والے مجاہدین پرمن گھڑت جھوٹے الزامات لگانے اورناپاک فوج اوراس کی ایجنسیوں کے ہاتھوں اسلام ومسلمانوں کیخلاف ہونے والے مظالم وجرائم کی پردہ پوشی کرنے میں مصروف عمل ہونگے۔اسی طرح پاکستان میں رائج انگریزی نظام اوراس کی محافظ ناپاک فوج کیخلاف پاکستانی عوام میں پیدا ہونے والی نفرت کو ختم کرنے کے لئے مختلف حیلے وبہانے سے سرگرم نظرآئیں گے۔ ایسے لوگوں کا کوئی باضابطہ طریقہ کارنہیں ہے اوران کی تمام سرگرمیوں کا مقصددنیا میں بالعموم اورپاکستان میں بالخصوص رونماہونے والے حالات وواقعات سے اپنےاور ناپاک فوج کے مفادات ومقاصدکوفائدہ پہنچانے کے لئے سرگرم ہوناہے۔یہ سرگرمی اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وہ ایشوزمیڈیاپر زندہ ہوتے ہیں جیسے ہی وہ ایشوز میڈیا سے اوجھل ہوجاتے ہیں تو وہ ان ایشوز کو چھوڑدیتے ہیں اوران پراپنے آپ کواوراپنی تنظیم کو چمکانے کا عمل ترک کردیتے ہیں۔پھراس کے بعدوہ میڈیاپر آنے والے نئے ایشوزپرپینترے بدل کر کام کرنا شروع کردیتے ہیں ۔یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے اورہم پاکستانی مسلمان اب تک ان لیڈران وقائدین کے ہاتھوں بیوقوف بن کر حق اور اہل حق کاساتھ دینے میں تذبذب اورتشویش کاشکارہے۔یہ گھبراہٹ اورتذبذب اس وجہ سے ہے کہ ان رہنماوٴں اوران کی تنظیموں نے مکروفریب کا ایساجال بچھارکھا ہے کہ جس سے یہ سمجھنا مشکل اوردشوارہوگیاہے کہ اصلی اہل حق اوراہل باطل کون ہیں؟کون اسلام کے غلبہ کے لئے کام کررہاہے اورکون باطل کو تقویت پہنچانے کے لئے سرگرم ہے؟
ان لیڈران وقائدین اوران کی تنظیموں میں سے ہرایک یہ دعوی کرتاہوانظرآئے گاکہ وہ اہل حق ہیں اوران کاموقف وپالیسی درست ہے جبکہ دوسرے تمام اہل باطل اوران کاموقف وپالیسی غلط ہے۔ہم جوکہہ رہے ہیں اورجس کی تائیدوحمایت کررہے ہیں ، بس وہی حق اورصحیح ہے اورجس کی ہم مخالفت ومذمت کررہے ہیں، وہی باطل اورغلط ہے۔وہ کسی سے حق کی بات سننا گوارا نہیں کرتے اور نہ اپنی صفوں میں کسی ایسے شخص کو برداشت کرتے ہیں جوان کےموقف سے ٹکرانے والی ذراسی حق کی بات بیان کریں۔
ان لیڈروں ورہنماوٴ ں اوران کی تنظیموں کاحال وہی ہے جواللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرعون کاحال بیان کیا ہےکہ فرعون بھی اپنے آپ کوحق پرسمجھتاتھااور یہ دعوی کرتاتھاکہ وہ جوکہتااور کرتا ہے وہی درست اورٹھیک ہے۔اس لئے فرعون بھی یہ چیز برداشت نہیں کرتاتھاکہ اس کے سامنے کوئی حق کی بات کہے اوراس کی صفوں میں کوئی ایساشخص موجود ہو جو اس کے موقف کے مخالف ذراسی حق کی بات کہے۔چنانچہ سورہ مومن میں ہے کہ فرعون اوراس کے حواریوں کوجب ایک مومن شخص نے حق کی دعوت دینے کی کوشش کی توفرعون نے اس کو برداشت نہیں کیااورحق کی بات بے اثراوربیکاربنانے اورلوگوں کواس سے متنفرکرنےکے لئےاپنے حواریوں سےیہ کہا
قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ) المؤمن40: 29)
فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی بات سُجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے اور اور میں تمہیں بھلائی کی راہ کے سوا )اور کوئی راستہ( نہیں دکھاتا۔
اس آیت کریمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرعون بھی یہی کہتاتھا کہ میں حق پر ہواورمیں تمہیں جوراہ دکھارہاہو وہی صحیح اورکامیابی کی راہ ہے۔
آج ان لیڈروں اورتنظیموں کے سربراہوں نے اسی روش کو اختیارکرکےاس قدر عصبیت اورتنگ نظری کوفروغ دیا ہے کہ ان کے کارکن وحامی افراد حق کی بات سننا تک گوارانہیں کرتے اورجوکوئی انہیں صحیح بات کی طرف نشاندہی کریں تواس پرغوروفکرکرنے کی بجائے اس سے اعراض اور پیٹھ پھیرنے والابرتاوٴ کرتے ہیں۔ایساوہ اس وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ ان کی سوچ وفکریہ بن چکی ہے کہ حق بس وہی ہے جوان کے رہنمااورتنظیم کے سربراہان بتاتے ہیں،اس کے سوا جو کچھ ہیں وہ تمام باطل ہیں۔
اس سوچ اورذہنیت کاشاخسانہ ہے کہ ہرتنظیم اور اس کےلیڈرحضرات اپنے نقطہٴ نظر کوصحیح اورحق پرسمجھنے کی وجہ سے یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ وہ حق کوپہچان کراس پر چلیں اوردنیامیں رونماہونے والے حالات وواقعات میں حق پر ثابت قدمی کو اپناتے ہو ئے اس کے تقاضوں کو پوراکریں ۔اسی وجہ سے اگرآپ اپنے اردگردنظردوڑائے گے توآپ کو پتہ چلے گا کہ ہرتنظیم اوراس کے رہنماوکارکنان کی اپنی الگ سوچ وفکرہے اور وہ سب اپنی تنظیم وجماعت کے طریقہ کارپرخوش ہیں اوراسے ہی حق سمجھ کراپنے لئے کافی سمجھتے ہیں۔اللہ تعالی نے ایسی ہی جماعتوں اورتنظیموں کی حالت کی عکاسی کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا:
كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ )الروم۳۰: ۳۲(
ہر جماعت کے پاس جو کچھ ہے وہ اس پر نازاں و فرحاں ہے۔
آج آپ دیکھ لیں کہ کتنے ہی لیڈرحضرات اورجماعتیں ایسی ہیں جو اعلانیہ طورپرباطل کا ساتھ دیں رہی ہوتی ہیں مگران کے معتقدوپیروکارحق کے عیاں ہونے کے باوجودان کا ساتھ دیتے ہیں اورانہیں تقویت پہنچانے سے بازنہیں آتے۔ایسااس لئے ہوتا ہے کہ ہم ان رہنماوٴں اوران کی جماعتوں کے ذریعے سے حق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم اس خام خیالی میں مبتلاہوتے ہیں کہ ان لیڈران اوران کی تنظیموں کی باتوں کو اپنی عقل پر پرکھتے ہیں اوران میں سے جس کی بات ہم کواچھی لگتی ہے،اسے حق سمجھ کراختیارکرلیتے ہیں اوراس پر عمل کرنے کواپنے لئے کا فی سمجھتے ہیں۔
یہی وہ ایک سنگین غلطی ہے جس کی وجہ سے ہم پر حق وباطل خلط ملط ہواہے اور ہمیں حالات کی تیزی سے رونمااورتبدیل ہونے کی وجہ سے حق کوپہچان کراس کےموجودہ تقاضوں کوجاننااورپھران کوپوراکرتے ہوئے اہل حق کا ساتھ دینامشکل اورناممکن ہوگیاہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ حق کسی شخص اورتنظیم کی وراثت اورملکیت نہیں ہے جوجائیدادکی طرح نسل درنسل تقسیم ہوتاپھرے۔بلکہ حق ایک نظریہ اورعقیدہ ہے۔جوشخص بھی اس کوپہچان کراس کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے اس پرعمل کرے گا وہ اہل حق کہلانے کا مستحق ہوگا۔لیکن اس کا شمارہمیشہ اہل حق میں اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک وہ حق کوپہچان کراس کے تقاضوں پرعمل کرتے ہوئے اپنی ساری زندگی اس کے مطابق نہ گزاردیں یہاں تک کہ وہ اپنی جان اپنے خالق حقیقی کے حوالے کرکے اس فانی دنیاکو خیرآبادنہیں کہہ جاتا۔اسی طرح ایسے لوگوں کا شماراہل حق میں نہیں ہوتا جنہوں نے حق کو پہچانا اور وقتی طور پر اس پرعمل کرکے پھراس کو چھوڑدیااوراس کے بعداپنی زندگی کو رائیگاں وبے مقصدگزارناشروع کردیا۔
بہرحال حق کیا ہے اورحق کا ساتھ کیوں اور کس وجہ سے دیں؟اہل حق کی نشانیاں وعلامات کیا ہیں؟حق کا ساتھ دینے سے کیافوائدملتے ہیں اورحق کوچھوڑنے کی صورت میں کن نقصانات کاسامنا کرناپڑتاہے؟اہل حق اوراہل باطل کی پہچان کس طرح کی جاسکتی ہے اورلوگوں کوکس طرح پہچاناجاسکتاہے کہ کون حق کا ساتھ دے رہاہے اور کون باطل کی پشت پناہی کررہا ہے؟
اس طرح کے تمام سوالات کاجوابات اگلے کسی مضمون میں تفصیل کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکرکیاجائے گا ۔ان شاء اللہ
لیکن جوبات سب سے پہلے ذہن نشین کرلینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ان سوالات کے جوابات ہمیں اس وقت تک سمجھ نہیں آجاسکتے جب تک ہم اس بھیانک غلطی کا ازالہ نہیں کردیتے جس کاذکرمندرجہ بالاسطورمیں گزرچکا ہے۔وہ غلطی یہ ہے کہ حق کوشخصیات اورتنظیموں وجماعتوں کے ذریعہ سمجھنا۔
یہ غلطی ایسی ہے کہ جو شخص اس کا مرتکب ہو،اسے حق سمجھ آنا ناممکن ہے۔وہ کبھی بھی حق کی بات کواس وقت تک نہیں قبول کرسکتا جب تک اپنے دلوں کوتعصب،اپنی شخصیات وتنظیموں پراندھااعتماد کرنا،ان کی ہربات کوحرف آخرسمجھنا،وہ جس کوحلال کہہ دیں اسے حلال سمجھنااورجس کو حرام کہہ دیں اسے حرام سمجھنا،جس کی حمایت وتائیدکریں اس کی حمایت وتائیدکرنا،جس کی مخالفت کریں اس کی مخالفت کرنا،جس کو اہل حق قرارددیدیں صرف اسے اہل حق قراردینا،جس کواہل باطل قراردیدیں اس کو اہل باطل قراردینا،جس چیزکوحق کہہ کراپنانے کی دعوت دیں اس چیزکوحق سمجھ کراپنانااورجس چیزکوباطل قراردیکرچھوڑنے کا حکم دیں اس کام کو باطل سمجھ کرچھوڑدینے والا رویہ اپنانا نہ چھوڑدیں۔
جو شخص ایسانہیں کرتاوہ حق کو نہ پہچان سکتاہے اورنہ ہی سمجھ کراس پرعمل پیراں ہوسکتاہے کیونکہ حق کبھی شخصیات اورتنظیموں کے ذریعہ سے پہچانااورسمجھا نہیں جاسکتااور نہ ہی حق وباطل کوان کے مقررکردہ معیاراورترازوسے سمجھا جاسکتاہے۔یہ ایک اصول وقاعدہ ہے،جسے سمجھناانتہائی ضروری ہے۔
ایک شخص جس کا نام حارث بن حوط تھا۔وہ امیرالموٴمنین سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے پاس جنگ جمل کے موقع پر آیا اوروہ تذبذب کا شکارتھا کہ جنگ کے دونوں فریقین میں سے اہل حق کون ہے اوراسے کس کاساتھ دیناچاہئے؟اس نے علی رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں استفسارکیاتوآپ نے اسے جو جواب دیاوہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔وہ جواب یہ تھا:
»إنّك لملبوسٌ عليك ، إن الحق والباطل لا يعرفان بأقدار الرجال، وبإعمال الظن، اعرف الحقّ تعرف أهله ، واعرف الباطل تعرف أهله«
یقیناتجھ پرمعاملہ خلط ملط ہے۔بلاشبہ حق اورباطل شخصیات کی حیثیت ورتبوں اورگمان کے اندازوں سے نہیں معلوم کیا جاسکتا۔حق کی پہچان کروتمہیں خود ہی اہل حق کا علم ہوجائے گااورباطل کی پہچان کروتمہیں خودہی اہل باطل کا علم ہوجائے گا۔
اسی طرح ایک اور شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے حق کی بابت پوچھنے آیا توآپ نے اسے جواب دیا:
«إنّما يُعرفُ الرجالُ بالحقّ ولا يُعرفُ بالرجال«
بیشک شخصیات حق کے ساتھ پہچانی جاتی ہیں اورحق شخصیات کے ساتھ نہیں پہچانا جاتا۔
(فیض القدیر 1/17، الإحياء 1/53، صيد الخاطر 36، تلبيس إبليس 77، الجامع لأحكام القرآن 1/380،اورأقاويل الثقات 222 )
آج ہماراسب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم لوگوں اورتنظیموں کے قائم کردہ تولنے کے ترازواورناپنے کے معیار پرحق کوپرکھنے اورسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے بنائے ہوئے اصولوں وقواعدپراہل حق اوراہل باطل کی پہچان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دلوں کوہرقسم کے تعصب اورشخصیات،میڈیا وتنظیموں کی من مانی سے پاک کرکے اپنے آپ کوحق کے حوالے کردیں۔پھر ہمیں حق کی پہچان ہوجائے گی اورہمیں بآسانی پتہ چل جائے گا کہ کون اہل حق ہے اور کون حق کے نام پرذاتی مفادات کوحاصل کرنے اورلوگوں کوگمراہ کرکے اہل باطل کی مددکرنے میں لگا ہواہے۔اسی طرح ہمارے اوپر یہ بھی واجب ہے کہ جب ہم حق کو پہچاننے لگ جائیں گے تواس کی کسوٹی ومعیارپراورترازومیں لوگوں اور تنظیموں کوپرکھے گے توجن کے بارے ہمیں پتہ چلتا جائے گا کہ یہ اہل حق میں سے ہیں توپھرہم پر ان کا ساتھ دینااور ان کی مددونصرت کرناواجب ہیں۔اور جن کے بارے میں یہ حقیقیت عیاں ہوجائے کہ وہ اہل باطل میں سے ہیں توہم پر لازم ہیں کہ ہم ایسی شخصیات اورتنظیموں کابائیکاٹ کریں اوراگرہم ان پر حجت کا اتمام کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں توہمیں انہیں احسن طریقے سے دعوت دینی چاہئے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمیں حق کوسمجھ کراس کی روشنی میں چلنا چاہئے اور میڈیا،تنظیموں اورشخصیات کے خیالات اورآراء کو ہرگزحق نہیں سمجھنا چاہئے۔یہ حق کی پہچان حا صل کرنے کے لئے سب سے پہلااوّلین فرض ہے۔جب ہم اس فرض کی پابندی کریں گے تو ہمیں خودبخوداہل حق واہل باطل میں تمییز کرنے کا ملکہ حاصل ہوجائے گا۔پھرہم کسی کے خوشنماومزین کردہ پروپیگنڈوں کا شکارہوئے بغیربآسانی اہل حق واسلام کاساتھ دینےاوراپنے اعمال کوبربادوارائیگاں ہونے سے بچانے کے قابل ہو جائیں گے۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی سمجھ عطافرمااوراس کی ہدایات واحکامات پر عمل پیراں ہوکران مجاہدینِ اسلام کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرما جوخلافت اسلامیہ کے قیام کے لئے اورحق کوغالب کرنے کے لئے اپنی جانوں کو ہتھلیوں پر رکھ کراہل باطل وکفرکیخلاف ہر میدان میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹے ہوئے ہیں ۔انہیں دنیا کاکوئی مفادعزیز نہیں اورنہ ہی وہ کسی حکومت یا ایجنسیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔بلکہ انہیں رب کی رضااور اس کی خوشنودی چاہئے۔اسی مقصد کی خاطر انہوں نے پوری دنیا سے ٹکر لی اور کسی ملک ونظام کے کفری آئین اورباطل قانون کا احترام کرکے چندعارضی سہولیات اورفانی آسائشوں ولذتوں کوحاصل کرکے زندگی بسرکرنے کی بجائے گولے وبارود کی بارش میں قانونِ اسلام ونظامِ الہی کے ساتھ زندگی بسرکرنے کو قبول کیا۔یہی لوگ واقعی مجاہدین اوراہل حق کہلانے کے قابل ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں انہی لوگوں میں سے بنااور ان کے ساتھ ہرقسم کی جانی ومالی تعاون کرنے کی توفیق عطافرما۔اللہ تعالی اہل حق کے دشمنوں کوقتل وغارت کریں اوراہل حق سے ذاتی مفادات کی خاطردشمنیاں مول لینے والوں کو ذلیل ورسواکریں۔اللہ تعالی حق اور اسلام کا جھنڈابلندکریں اورکفروباطل کونیست ونابودفرمائیں ۔اللہ تعالی ہم سب کو حق کی دولت نصیب فرما کر اس پر عمل کرنے والوں میں سے بنائے اورباطل کی پہچان عطاکرکے اس سے اجتناب کرنے والوں میں سے بنائے۔
آمین یارب العالمین
وما علینا إلا البلاغ المبین
انصار اللہ اردو ویب سائٹ
جزاک اللہ
بہت مفید مضمون شئیر کیا ہے آپ نے۔