Friday, October 7, 2011

’’ معصوم افراد‘‘ سے کیا مراد ہے؟
’’ معصوم افراد‘‘ سے کیا مراد ہے؟’’معصوم ‘‘سے لازماً ان تینوں معانی میں سے کوئی ایک مراد ہو گا:
۱۔ وہ لوگ جنہوں نے نہ تو اپنی ریاست کے ساتھ مل کر قتال کیا،نہ ہی بدن،مال رائے ، مشورے یا کسی اورذریعے سے قتال میں معاونت کی:
یہ لوگ اگر دیگر افراد سے علیحدہ اور قابلِ تمیز رہیں تو ان کا قتل جائز نہیں،البتہ اگر یہ دوسرے لوگوں میں گھل مل جائیں تو محاربین کو نشانہ بناتے ہوئے ان کا ضمناً مارا جانا جائز ہے؛مثلاًبوڑھے، عورتیں، بچے، مریض، معذور، اور تارک ِدنیا راہب۔ابنِ قدامہ فرماتے ہیں:
’’عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر نشانہ نہ بنایا جائے،لیکن اگر رات کے حملے میں یا محاربین میں گھلے ملے ہونے کی وجہ سے وہ مارے جائیں تو جائزہے ۔ اسی طرح دشمن کو قتل کرنے یا پچھاڑنے کی غرض سے ان کے جانوروں )اونٹ، گھوڑے وغیرہ( کا قتل جائز ہے۔اس رائے سے کسی کو اختلاف نہیں ۔‘‘ )المغنی و الشرح:10۔ (503
آپ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ
’’شب خون مارنا جائز ہے۔‘‘
امام احمد بن حنبلکی رائے بھی یہی ہے کہ
’’ شب خون مارنے میں کوئی حرج نہیں اور غزوۂ روم بھی تو شب خون ہی تھا۔‘‘
آپنے یہ بھی فرمایا ہے کہ
’’ہمارے علم میں نہیں کہ کسی نے شب خون کو ناپسند کیا ہو۔‘‘)المغنی و الشرح:10۔ (503
۲۔وہ لوگ جنہوں نے اپنی محارب ریاستوں کی جانب سے جنگ میں عملاً شرکت تو نہیں کی ،لیکن اپنے مال اور مشوروں سے جنگ میں معاونت کی:
یہ لوگ ’’معصوم ‘‘اور’’بے گناہ‘‘ شہری نہیں،بلکہ محاربین ہی میں سے ہیں اور فوج کی پچھلی صفوں اور کمک فراہم کرنے والے مددگار و معاونین میں شمار کئے جائیں گے۔
ابنِ عبدالبر) الا ستذکار میں( لکھتے ہیں :
’’اس بات پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو عورتیں اور بوڑھے جنگ میں شریک ہوں ان کا قتل مباح ہے، نیز جو بچے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور پھر عملاً لڑیں بھی ،تو ان کا قتل بھی جائز ہے۔‘‘ )الاستذکار: 14۔ (74
ابنِ قدامہنے ان عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کے قتل کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے جو جنگ میں اپنی قوم کی مدد کریں۔ابنِ عبدالبرکا قول ہے کہ
’’اس بات پر اجماع ہے کہ حنین کے دن رسول نے درید بن الصمۃ کو اس لیے قتل کروایا کہ وہ صاحبِ رائے تھا اور اپنے مشوروں اورجنگی چالوں کے ذریعے فوج کی مدد کرتا تھا۔لہٰذا جو بوڑھا بھی اس طرح جنگ میں شریک ہو،سب علماء کے نزدیک اس کا قتل جائز ہے۔‘‘)التمھید: 16۔ (142
امام نووینے شرحِ مسلمکے باب الجہاد میں صاحبِ رائے بوڑھوں کو قتل کرنے پر اجماع نقل کیا ہے۔ابنِ قاسمنے ’الحاشیۃ‘ میں نقل کیا ہے کہ
’’اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جنگ میں بذاتِ خودبلاواسطہ شریک ہونے والے اور پچھلی صفوں میں رہتے ہوئے بالواسطہ شریک ہونے والے کا شرعی حکم ایک ہے۔‘‘
یہ اجماع امام ابنِ تیمیہنے بھی نقل کیا ہے ۔نیزامام ابنِ تیمیہ کی یہ رائے بھی منقول ہے کہ
’’دشمن فوج کے ساتھی و معاونین بھی حقوق اور ذمہ داریوں میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔‘‘
۳۔وہ لوگ جو مسلمان ہوں:
ان کا قتل صرف اس وقت جائز ہے جب وہ دشمن کے ساتھ یوں گھل مل جائیں کہ انہیں مارے بغیر دشمن کو مارنا ممکن نہ ہو۔اس موضوع پر تفصیلی گفتگو مسلمان قیدیوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کے مسئلے میں گزر چکی ہے۔
لہٰذا وہ لوگ جو بلا سوچے سمجھے’’ معصوم‘‘ اور ’’بے گناہ افراد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور ایسے سب لوگوں پر حملہ کرنے کو ہر حال میں ناجائز قرار دیتے ہیں،دراصل مغربی میڈیا کی عطا کردہ اصطلاحات کو بلا تنقید من وعن قبول کر کے دہرا رہے ہیں،حالانکہ یہ شرعی اصطلاحات نہیں اور بعض اوقات یہ شریعت سے متصادم بھی ہوتی ہیں۔
ایسے لوگوں کے لئے ایک جواب یہ بھی ہے کہ شریعتِ اسلامی ہمیں کفار کے ساتھ وہی معاملہ کرنے کی اجازت دیتی ہے جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا ہو)معاملۃ بالمثل(۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ )النحل: (126
)اور اگر تم بدلہ لو ،تو اتنا ہی لینا جتنی زیادتی تم پر کی گئی تھی(
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا)الشوریٰ: (40
) اور برائی کا بدلہ اسی کے برابر کی برائی ہے(
انتقام با لمثل کے جواز پر علماء کی آراء:
ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں:
’’زیادتی کے برابر انتقام لینا مجاہدین کا حق ہے۔چنانچہ وہ چاہیں تو بطور بدلہ انتقام لیں اور چاہیں تو بخش دیں۔جہاں بدلہ لینے سے جہاد کے مقاصد کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور نہ ہی کفار کے لیے باعثِ عبرت بن سکے، وہاں صبر کرنا ہی افضل ہے۔البتہ اگر بدلہ لینا کفار کو دعوتِ ایمان دینے یا ان کی سرکشی توڑنے کا باعث بنے تو ایسے میں انتقامی کاروائی حدود اللہ کے قیام اور جہادِ اسلامی کا تقاضا ہے۔یہ رائے ابنِ مفلح نے ’الفروع‘ میں نقل کی ہے۔‘‘6)۔ (218
’’معصوم‘‘ اور ’’بے گناہ‘‘ کی اصطلاح کو بلا قید و تخصیص استعمال کرنے کا لازمی نتیجہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺکے صحابہپر)نعوذ باللہ( معصومین کے قاتل ہونے کی تہمت لگانا ہے،کیونکہ آپ ﷺنے اہلِ طائف پر حملے کے لئے منجنیق نصب کی، حالانکہ منجینق اپنی ماہیت کے اعتبار سے ایک ایسا ہتھیار ہے جو’’ معصوم‘‘ اور ’’غیر معصوم‘‘ میں تمیز نہیں کر سکتا۔اسی طرح آپ ﷺنے’’ معصوم‘‘ اور’’ غیر معصوم‘‘ کی مغربی تقسیم کے برعکس بنوقریظہ کے تمام بالغ مردوں کو قتل کروایا۔
ابنِ حزم’المحلی‘ میں درج ذیل حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حدیث:
عُرِضْتُ یَوْمَ قُرَیْظَة عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَکَانَ مَنْ اَنْبَتَ قُتِلَ
)مجھے )بھی( قریظہ والے دن رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش کیا گیا، پس )اس دن بنو قریظہ کا( ہر بالغ مرد قتل کر دیا گیا(
تشریح:
’’ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل ہمیں ایک عمومی اصول عطا کرتا ہے جس کی لپیٹ سے کوئی مزدور، تاجر، کسان یامعمر فرد محفوظ نہیں رہ سکتا۔اور اسی پر علماء کا اجماع بھی ہے۔‘‘)المحلی7۔(299
ابنِ قیم(رح) زادالمعاد میں لکھتے ہیں:
’’نبی ٔ کریم ﷺکا طریقہ یہی رہا ہے کہ جب آپ کسی قوم سے صلح یا معاہدہ کرتے اور وہ قوم یا اس کے کچھ لوگ معاہدہ توڑ ڈالتے اور قوم کے باقی افراد اس نقضِ عہد کی تصدیق کرتے اور اس پر راضی رہتے تو آپ ﷺان سب کو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا شمار کر کے سب کے خلاف جنگ کرتے، جیسا کہ آپ ﷺنے بنی قریظہ،بنی نضیر، بنی قینقاع اور اہلِ مکہ کے خلاف غزوات میں کیا۔عہد شکنی کرنے والوں کے بارے میں یہی آپ ﷺکی سنت ہے۔‘‘
آپنے یہ بھی لکھا ہے کہ
’’ابنِ تیمیہنے مشرق کے عیسائیوں کے خلاف جنگ کرنے کا فتویٰ دیا، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے دشمنوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مال اور اسلحہ فراہم کیاتھا۔ ابنِ تیمیہنے عیسائیوں کے اس فعل کو عہد شکنی گردانا، حالانکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ جنگ نہیں لڑی تھی ، کیونکہ نبی ﷺنے بھی قریش کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا تھا جب انہوں نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے کے خلاف بنی بکر بن وائل کی مدد کی تھی۔‘‘
|||

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔