Saturday, May 24, 2014

عرب کی ایک مشہور عالم ،ادیبہ کی دس وصیتیں

عرب کی ایک مشہور عالم ،ادیبہ کی دس وصیتیں، جو حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف رحمتہ اللہ علیہ لدھیا نوی صاحب کی کتاب تحفہ دلہن میں لکھی ہیں۔
١- ”میری پیاری بیٹی ،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ، جو روکھی سوکھی شوہر کی خوشی کے ساتھ مل جا ئے وہ اس مرغ پلا ﺅ سے بہتر ہے جو تمہارے اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو ۔
٢- میری پیاری بیٹی ، اس با ت کا خیال رکھنا کہ اپنے شوہر کی با ت کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اسکو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا اسطرح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیونکہ اصل آدمی نہیں آدمی کا کام پیارا ہو تا ہے ۔
٣- میری پیاری بیٹی اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خوش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی بھی استطاعت ہو خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور یا د رکھنا کہ تیرے جسم ولباس کی کوئی بو یا کوئی بری ہیت اسے نفرت و کراہت نہ دلائے ۔
٤- میری پیاری بیٹی اپنی شوہر کی نگاہ میں بھلی معلوم ہونے کے لیے اپنی آنکھوں کو سرمے اور کاجل سے حسن دینا کیونکہ پرکشش آنکھیں پورے وجود کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جچا دیتی ہیں ۔ غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ ہے ۔
٥- میری پیاری بیٹی ان کا کھانا وقت سے پہلے ہی اہتمام سے تیار رکھنا کیونکہ دیر تک برداشت کی جانی والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند ہو جاتی ہے اور ان کے آرام کرنے اور نیند پوری کرنے کے اوقات میں سکون کا ماحول بنانا کیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہو جا تا ہے ۔
٦- میری پیاری بیٹی ان کے گھر اور انکے مال کی نگرانی یعنی ان کے بغیر اجازت کوئی گھر میں نہ آئے اور ان کا مال لغویات ، نما ئش و فیشن میں برباد نہ کرنا کیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہوتی ہے اور اہل عیال کی بہتر حفاظت حسن تدبر سے ۔
٧- میری پیاری بیٹی ان کی رازدار رہنا ،ان کی نا فرمانی نہ کرنا کیونکہ ان جیسے بارعب شخص کی نا فرمانی جلتی پر تیل کا کام کریگی اور تم اگر اسکا رازدوسروں سے چھپا کر نہ رکھ سکیں تو اسکا اعتما د تم پر سے ہٹ جائیگا اور پھر تم بھی اسکے دو رخے پن سے محفوظ نہیں رہ سکو گی ۔
٨- میری پیاری بیٹی جب وہ کسی با ت پر غمگین ہوں تو اپنی کسی خوشی کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا یعنی ان کے غم میں برابر کی شریک رہنا۔ شوہر کی کسی خوشی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لانا اورنہ ہی شوہر سے ان کے کسی رویے کی شکایت کرنا ۔ ان کی خوشی میں خوش رہنا۔ ورنہ تم ان کے قلب کے مکدر کرنے والی شما ر ہو گی۔
٩- میری پیاری بیٹی اگر تم ان کی نگاہوں میں قابل تکریم بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور اسکی مرضیا ت کے مطابق چلنا تو اس کو بھی ہمیشہ ہمیشہ اپنی زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اپنا بہترین رفیق پاﺅ گی۔
١٠- میری پیاری بیٹی میری اس نصیحت کو پلو سے باندھ لو اور اس پر گرہ لگا لو کہ جب تک تم ان کی خوشی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل نہیں مارو گی اور انکی بات اوپر رکھنے کے لیے خواہ تمہیں پسندہو یا ناپسند، زندگی کے کئی مرحلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشو ں کو دفن نہیں کرو گی اس وقت تک تمہاری زندگی میں بھی خوشیو ں کے پھول نہیں کھلیں گے ۔
اے میری پیاری اور لاڈلی بیٹی ان نصیحتو ں کے ساتھ میں تمہیں اللہ کے حوالہ کرتی ہوں- اللہ تعالیٰ زندگی کے تمام مرحلوں میں تمہارے لیے خیر مقدر فرمائے اور ہر برائی سے تم کو بچائے ”۔

مکمل تحریر  »

عبید اللہ عثمانی

عبید اللہ عثمانی

اللہ کے آخری پیغمبر کی آخری شریعت اور اللہ کے پاک پیغمبر پر نازل ہونے والی لاریب کتاب کے بعد ہمارے لئے اسوہ حسنہ قرآن کاوہ عنوان ہے جو اس وقت کے لوگ تھے، بے شک ان کے اعمال جو بھی تھے اس پر بحث کرنے کی بجائے دیکھا جائے کہ وہ کتنی عظمت والے لوگ تھے جن کی اصلاح کے لئے پاک پیغمبر خود موجود تھے، کوئی غلطی سرزد ہوئی فوری پیارے آقا کے قدموں میں پہنچ گئے، دین کا کوئی مسلہ سمجھ نہ آیا تو جھٹ سے پیغمبر کے در اقدس پر حاضری دے دی، اللہ اللہ کیا لوگ تھے وہ، کیا نصیب تھے ان کے، خدارا ان کے ایمان پر بحث کر کے اپنا ایمان غارت نہ کرو۔ یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ ذکر کرتا ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں منافقین ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کی بجائے آپ کے بہت زیادہ قرب رکھنے والے اصحاب پر زبان درازی کیا کرتے تھے۔ اس کا جواب اللہ نے سورۃ اعراف میں کس خوبصورت انداز میں دیا ہے وہ آپ خود پڑہیں تو زیادہ مزہ آئے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اصحاب رسول کی عظمت پر انگلی جب بھی اٹھائی جائے گی تو سمجھ لیں یہ وہی طبقہ ہے جو کلمہ تو یپارے آقا مدنی کے دور میں بھی پڑھتا تھا لیکن اس کو منافقت کی سزا یوں ملی کہ اللہ نے منافقین کی نشان دہی کے لئے پوری ایک سورت المنافقون نازل فرمادی۔ اگر ہم قرآن کی طرف لوٹ آئیں تو اللہ کی قسم بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے مومن منافق اور کافر کی پہچان ہم قرآن کی کسوٹی پر کرنے کے قابل ہوجائیں گے اور ساتھ ساتھ فتوے باز بازاری ملاوں سے بھی نجات حاصل کر لیں گے۔

مکمل تحریر  »

اسلام ایک آفاقی مذھب ہے

تحریر: مولانا رعایت اللہ فاروقی
.
.


اسلام ایک آفاقی مذھب ہے، یہ مذھب ایک ایسے پیغمبر کے ذریعے بھیجا گیا جس سے بڑا تو درکنار ہمسر پیغمبر بھی کوئی نہیں ہوا یہ صرف اور صرف آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے نسبت کا شرف ہے کہ اصحاب محمد سے بڑے تو درکنار انکے ہمسر رفقاء بھی انسانی تاریخ میں کسی پیغمبر کو نصیب نہیں ہوئے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان صحابہ پر بڑے ہی خاص کرم کئے، انکے قدموں کی چاپ اپنے محبوب کو جنت میں سنادی، قرآن مجید میں ان کے پیار بھرے تذکرے فرما دیئے، پھر خاص طور پر حضرت زید کا تو نام بھی قرآن کا حصہ بنا دیا، حضرت عمر کی منشاء کے حق میں بائیس مرتبہ وحی نازل ہوگئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان صحابہ کو ان کی زندگی میں ہی اپنی رضا کی سند تھمادی، اسقدر احسانات فرمانے والا اللہ اس جماعت کو معصوم عن الخطاء بھی بنا سکتا تھا لیکن نہیں بنایا، اس کی بہت سی وجوھات ہو سکتی ہیں مگر ایک سیدھی سی عقلی وجہ سمجھ لیجئے، اگر صحابہ بھی معصوم عن الخطاء ہو جاتے تو کیا اسلام پریکٹیکل شکل میں امت کے سامنے آ پاتا ؟ ہرگز نہیں بلکہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرح صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بھی صرف ہر عیب سے پاک سیرتیں ہی سامنے آ تیں، یہ انکے معصوم عن الخطاء نہ ہونے کا ہی تو فائدہ ہے کہ ہم نے اسی جماعت میں اسلامی احکام نافذ ہوتے دیکھے، آج ہم کہتے ہیں حضرت عمر کو گیارہ مرتبہ عدالت نے طلب کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سربراہ مملکت کے لئے کوئی عدالتی استثناء نہیں، غور کیجئے اگر حضرت عمر معصوم عن الخظاء ہوتے تو کیا عدالت طلب کر سکتی تھی ؟ کبھی نہیں بلکہ صحابہ کے پورے دور میں عدالت کا وجود ہی نہ ملتا کیونکہ جس معاشرے میں خطائیں ہی سرزد نہ ہوتیں وھاں عدالت کا کیا کام ؟ یہ آنے والی امت پر اللہ نے احسان فرمایا کہ صحابہ کو معصوم عن الخطاء نہیں بنایا تاکہ دین کی صرف لفظی ہی نہیں بلکہ عملی شکل بھی اعلیٰ ترین درجے کی نظر آجائے اور کوئی ابہام نہ رہے، اس دور کے وہ واقعات جو عدالتی گرفت میں آئے ان پر بحث صرف نیک اور خدا ترس اھل علم کا کام ہے کیونکہ جب وہ اس پر بحث کرتے ہیں تو مقصود علمی نکات کی دریافت ہوتا ہے نہ کہ صحابہ کی کردار کشی، میں اور آپ اپنی پوری زندگی کا ہر منٹ اور ہر سیکنڈ ہی اللہ کی مقبول عبادت میں کیوں نہ گزار لیں تب بھی ہم ان صحابہ کے ایک ناخن کے برابر بھی نہیں ہو سکتے جنہیں سزائیں ملیں، ہماری اوقات ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور جو اپنی اوقات میں نہیں رہتا وہ پھر کہیں کا نہیں رہتا.  

مکمل تحریر  »