Tuesday, July 31, 2012

نوائے افغان جہاد

نوائے افغان جہاد
رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ اگست 2012ء

عصرحاضر کی سب سے بڑی صیلبی جنگ جاری ہے اس میں ابلاغ کی تمام سہولیات اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے تمام ذرائع ،نظامِ کفر اور اس کے پیرؤں کے زیر تسلط ہیں ۔ ان کے تجزیوں اور تبصروں سے اکثر اوقات مخلص مسلمانوں میں مایوسی اور ابہام پھیلتا ہے اس کا سدِ باب کرنے کی ایک کوشش کا نام 'نوائے افغان جہاد'ہے .اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفر سے معرکہ آراء مجاہدین فی سبیل اللہ کا مؤقف مخلصین اور محبینِ مجاہدین تک پہنچانا ہے۔افغان جہاد کی تفصیلات ،خبریں اور محاذوں کی صورتحال آپ تک پہنچانے کی کوشش ہے ۔امریکہ اور اس کے حواریوں کے منصوبوں کو طشت ازبام کرنے ،ان کی شکست کے احوال بیان کرنے اور اُن کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی ایک سعی ہے۔



Download Links:..
Link 1
Link 2
Link 3
Link 4


All brothers and sisters are requested to send their comments,suggestions and write on related topics ..........



Email
nawaiafghan@gmail.com



web
nawaiafghan.blogspot.com

مکمل تحریر  »

Monday, July 30, 2012

رمضان ماہ صبروثبات


بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان ماہ صبروثبات
ابو محمد المقدسی
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم



ہم پر ماہ صیام اور ماہ ثبات گزر رہا ہے اور غزہ میں اور مسجد ابن تیمیہ میں کچھ دن پہلے ہی ہمارے بھائیوں پر مظالم توڑے گئے ایسے ہی ان کے اور بہت سے مظلوم بھائی زمین کے مختلف حصوں میں موجود ہیں جن پر ہر قریب (علاقائی حکام) اور بعید (بیرونی آقا) مسلط ہیں اور ساری ہی اقوام ایک دوسرے کو انکے خلاف متحد ہوجانے کی دعوت جبکہ دشمنوں کے ساتھ ملکر انکے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
عراق میں، افغانستان میں، صومالیہ میں اور قفقاز میں ہر جگہ مشرق اور مغرب کے طواغیت کی جانب سے ہمارے بھائیوں کی بوئی ہوئی جہادی جڑوں کو اکھیڑنے کے لئے کھلی جنگ، چالیں اور باہمی تعاون جاری ہے۔
ایک ایسی جنگ جس میں سارے دشمن اور جتھے متحد ہو کر ایک دوسرے کو ہمارے بھائیوں کے خلاف متوجہ کررہے ہیں۔
ایک ایسی جنگ جس میں سارے دشمنوں اور جتھوں نے متحد ہوکر ایک دوسرے کوہمارے بھائیوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور قابض کی توپوں کے بل بوتے پر قائم بے ہودہ حکومتوں کی مدد کے لئے انہوں نے اپنے تمام جنگی وسائل، حکمت عملیاں اور تیاریا ں جھونک ڈالیں۔
مسلمانوں کے خلاف ہر طرف کی جانے والی یہ سازشیں اور گروہ بندیاں ہمیں اس دن کی یاد دلارہی ہیں جب تمام کفار جماعتوں نے اہل ایمان پر ملکر حملہ کیا لیکن اہل ایمان نے صبر کیا اور ثابت قدم رہے۔


اللہ تعالی نے انکے متعلق فرمایا:
وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (٣٣:٢٣)
ترجمہ: جب اہل ایما ن نے احزاب (کفار کے بہت سے گروہوں) کو دیکھا تو کہا ہم سے اللہ اور اسکے رسول نے اسی کا وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اسکے رسول نے سچ کر دکھایا اس شے نے انہیں ایمان اور اطاعت اور بڑھا دیا مردوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ اپنا عہد سچ کر دکھایا ان میں سے کچھ نے اپنا کا م پورا کرلیا اور کچھ منتظر ہیں اور وہ تبدیل نہ ہوئے۔
آج ہر جگہ ہمارے مجاہد بھائی بھی یہی کہہ رہے ہیں ان میں سے غزہ وغیرہ میں زخمی ہونے والو ں کو برتری حاصل ہے جن کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ (٣:١٧٢)الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (٣:١٧٣)فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (٣:١٧٤)
ترجمہ: وہ لوگ جنہوں نے زخم لگنےکے باوجود اللہ اور اسکے رسول کا کہا مانا ان میں احسان کرنے والوں اور تقوی اختیار کرنے والوں کے لئے بڑا اجر ہے جن سے جب لوگوں نے کہا کہ لوگ تمہارے مقابلے میں جمع ہوگئے ہیں سو ان سے ڈر جاؤ تو انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کا ر سازہے چنانچہ وہ اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ اس حال میں واپس ہوئے کہ انہیں برائی نے چھوا تک نہیں اور انہوں نے اللہ کی رضا کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
انہیں چاہیے کہ وہ زخموں اور مصائب سے صرف نظر کرتے ہوئے اس مبارک موسم (یعنی ماہ رمضان) کے ذریعے نئی چستی، مضوط ارادے اور پختہ ایمان کے ساتھ آگے بڑھیں اور اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوط تھام کر اور اسکے دین کے تابع ہوکر اللہ کی پکار پر لبیک کہیں۔
ہم پر خیر وبرکت کا مہینہ سایہ فگن ہوا ہے قرآن وفرقان کا مہینہ، کامیابیوں اور فتوحات کا مہینہ، صبر وثواب اور استقامت کا مہینہ رمضان کا وہ مہینہ جس میں رونما ہونے والے حادثات وواقعات نے تاریخ کا چہرہ بدل ڈالا۔
بدر کا وہ پہلا معرکہ بھی اسی ماہ میں ہوا جو مومنوں کی عزت کی ابتداء بن گیا اور جو یوم الفرقان المبین (حق وباطل کے مابین فیصلہ کن دن) کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں اللہ نے اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین فرق کردیا۔
اور 8ھ ماہ رمضان میں ہی وہ عظیم فتح ملی جسکے ذریعے اللہ نے اپنے دین کی عزت کو مکمل اور اپنے لشکر کی کامیابی کو تمام اور اپنے حرمت والے گھر کی بتوں اور مشرکوں کی نجاست سے طہارت کو کامل ومکمل کردیا اور پھر لوگ دین میں جوق در جوق داخل ہونے لگے۔
پھر اس فتح کے بعد غزوہ تبوک پیش آیا جو رجب تا رمضان جاری رہا یہی غزوہ عسرت (تنگی) اور احتساب(حصول ثواب) کا غزوہ ہے صادقین کا غزوہ اور منافقین کو رسوا کردینے والا غزوہ۔
اگر ہم تاریخ میں اس ماہ کریم میں مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات کو ڈھونڈنا شروع کردیں تو مقام دراز ہوجائے۔
اس ماہ کریم کی آمد پر ان عظیم ایام کی یاد دلا کر ہم زمین کے مشرق ومغرب میں بسنے والے مسلمانوں کی مشکلات کو کم کرنا چاہتے ہیں جن میں کچھ قید ہیں کچھ مطلوب ہیں اور کچھ زخمی ہیں ہم امت کو اسکی عظمتوں اور فتوحات کی یا د دلانا چاہتے ہیں تاکہ و ہ پھر سے لوٹ آنے کے لئے تیا ر ومستعد ہوجائے اور مایوس نہ ہو۔
ہمارے مجاہد بھائیوں اور ہمارے زخمی اور قید عزیزوں کے لئے یہ نصیحت اور یاد دہانی ہے
رمضان میں نصیحت ویاد ہانی کی ضرورت کچھ اور لوگوں کو بھی ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من لم يدع قول الزور والعمل به، فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه أخرجه البخاري
ترجمہ: جو جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑے تو اللہ کو چنداں حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پینا چھوڑے۔
یہ نصیحت ویاد دہانی ہر اس عالم سوء کے لئے ہے جو حق کو باطل سے کفر کو اسلام سے شرک کو توحید سے بدلتا ہو اور شریعت کے نصوص کو غلط رنگ میں پیش کرتا ہو اور ان سے کھیلتا ہو اس سے کہا جاتاہے:
اگر تم یہ سب نہ چھوڑو تو اللہ کو ضرورت نہیں کہ تم اپنا کھانا پینا چھوڑو
یہ نصیحت و یاد دہانی ہر اس شخص کے لئے ہے جو حقائق کو مسخ کر دیتا ہو موحدین مجاہدین کو خارجی اور تکفیری کہتا ہو طواغیت کو ولی الامر قرار دیتا ہو اور دشمنا ن ملت کو مومنوں کا بھائی اور ہمدرد باور کراتا ہو اور اللہ اور اسکے رسول کی مخالفین کو امن دیتا ہو اور دین کے مددگاروں کی مدد کے بجائے انہیں قتل کرتا ہو
یہ تمام اعمال اس جھوٹی بات سے ہیں جسے چھوڑے بغیر آدمی کا کھانا پینا چھوڑنا بے سود رہتا ہے
رمضان میں ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنا جائزہ لے اور قرآن کو ترک کر دینے سے متعلق اپنا محاسبہ کرے
رمضان ماہ قرآن ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ (٢:١٨٥)
ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت کے واضح دلائل اور حق اور باطل کے مابین فرق کردینے والا ہے
اللہ تعالی نے قرآن کو چھوڑ دینے والوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (٢٥:٣٠)
ترجمہ: اور رسول کہے گا اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
اور قرآن کو چھوڑ دینے کی سب سے بڑی صورت اسکے نفاذ اور اسکی حاکمیت اور اسکے قوانین وحدود کی بالادستی کو مسلمانوں کی زندگیوں، انکی عدالتوں، سیاستوں، تعلقات سے نکال باہر کرنا اور حدود مطہرہ کو حقیر اور معمولی وضعی قوانین سے بدل دینا ہے
رمضان میں اس شخص کے لئے بھی نصیحت ہے جو گناہو ں اور برائیوں کو ترک کرنے کے پختہ ارادے کے ساتھ سچی توبہ کی تجدید کرنا چاہتا ہو دین کی مد د چھوڑنے اور مجرمین کی مدد کرنے سے توبہ کرنا چاہتا ہو اور اس سے باز آکر دوبارہ نہ کرنا چاہتا ہو۔
یہ توبہ کا مہینہ ہے جس نے اس میں توبہ نہ کی پھر وہ کب توبہ کرے گا ؟ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٢٤:٣١)
ترجمہ: ائے مومنوں سب اللہ کی جانب توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔
اقدام اور تسلسل (دیمہ) کے لئے توبہ ایک اچھی ابتداء ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی تسلسل کے ساتھ ہوتا تھا جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی الہ عنہا سے پوچھا گیا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دن کومخصوص کیاِ تو انہوں نے جواب دیا نہیں آپکا عمل دیمہ (یعنی مسلسل) ہوتا تھا (بخاری ومسلم)
دیمة اس بارش کو کہتے ہیں جو سکون کے ساتھ مسلسل برستی رہے چنانچہ انہوں نے عمل کے مسلسل جاری رہنے، برقرار رہنے، منقطع نہ ہونے اور اعتدا ل پر برقرار رہنے کو مسلسل ہونے والی بارش کے ساتھ تشبیہ دی۔
اس لئے بعض اہل علم نے کہا کہ: ربانی (رب والے) بنونہ کہ رمضانی یہ مناسب نہیں کہ آپ رمضان میں اللہ کی جانب متوجہ ہوجائیں اور بقیہ سال اسے بھلائے رکھیں رمضان میں تو آپ کے آنسو جاری ہوں جبکہ بقیہ سال قحط پڑا رہے
بشرا لحافی سے کہا گیا: کچھ لوگ صرف رمضان میں ہی عبادت و ریاضت کرتے ہیں
تو انہوں نے جو اب دیا: بد ترین لوگ ہیں اللہ کو حقیقی معنوں میں رمضان میں پہچانتے ہیں اسکے علاوہ نہیں صالح وہ ہے جو پورا سال اللہ کی عبادت کرے اور محنت کرتا رہے۔
اللہ تعالی نے ان لوگوں کی صفت میں فرمایا جن لوگوں کی طرح صبر کرنے کا حکم اس نے اپنے نبی کو دیا فرمایا:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ( ٨:٢٨)
ترجمہ : اور آپ ان لوگو ں کے ساتھ صبر کیجیئے جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں وہ اسکی رضاچاہتے ہیں اور ان سے اپنی نگاہیں نہ پھیرئیے۔
ان لوگو ں کا مستقل ارادہ اللہ کا دین ہوتا ہے خواہ رات ہو یا دین، صبح ہو یا شام، رمضان ہو یا وغیر رمضان اور جو انکی جانب منسوب ہونا اور ان جیسا بننا ا ور انہی میں سے ہو نا چاہتا ہے اسکے لئے انجام بد اور آزمائشوں کے سامنے پسپائی اختیار کرنا یا راستے کو مشکل یا طویل سمجھنا مناسب نہیں
وہ بہت سے شکست خوردہ اور پلٹ جانے والوں سے دھوکہ نہ کھائے نہ ہی سینہ تان کر ثابت قدم رہنے والوں کی قلت سے گھبرائے اس راہ کی یہی شان اور اسکے یہی امتیازات ہیں
یہ ناپسند یدہ امور(کانٹوں) سے لبریز ہے نہ کہ پھولو ں سے
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (٣:١٤٦) وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (٣:١٤٧) فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (٣:١٤٨)
ترجمہ: کتنے ہی نبی ہیں جنکے ساتھ ملکر بہت سے رب والوں نے قتال کیا اللہ کی راہ میں ان پر جو مصائب آئے ان سے وہ نہ تو پسپا ہوئے، نہ کمزور پڑے نہ ہی عاجز آئے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ان کا کہنا یہی تھا کہ ائے ہمارے رب ہمارے گناہ اور ہمارے معاملے میں ہماری زیادتیاں بخش دے اور ہمار ے قدم ثابت رکھ اور کافروں پر ہماری مدد کرتا رہ چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا کا حصہ عنایت فرمادیا اور آخرت کا بہترین حصہ عطاء کردے گا اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
ماہ رمضان جہاں تجدید توبہ، سچی توجہ ولگن، صیا م وقیا م کے ثواب کے حصول کا مہینہ ہے تو دوسری جانب یہ بلاشبہ قبولیت دعا کا بھی موسم ہے اللہ تعالی نے آیا ت صیام کے آخر میں فرمایا:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (٢:١٨٦)
ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو (آپ بتائیں کہ) میں قریب ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں جواب دیتا ہوں چنانچہ انہیں بھی مجھے جواب دینا اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تاکہ وہ راہ پا جائیں
لہذا اس ماہ عظیم میں جب آپ اپنے لئے اور اپنے گھر بار والوں کے لئے دعا کریں تو ہر جگہ پھیلے ہوئے اپنے مجاہد اور داعی بھائیوں کو ہرگز نہ بھولیں اور ہمیشہ کوشش کریں کہ اسلا م کی کامیابی اور مسلمانوں کے غلبے اور شرک کی پسپائی اور مشرکین کی رسوائی اور کمزوروں کی خلاصی اور قیدیوں کی رہائی کی دعا مانگیں یہ آپکے بھائیوں کا آپکے ذمے سب سے چھوٹا حق ہے مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے نہ اسکی مدد چھوڑتا ہے نہ اسے دشمن کے حوالے کرکے چھوڑتا ہے آپکے لئے دعا کے ہتھیار کو معمولی سمجھنا مناسب نہیں یہ بڑا عظیم اسلحہ ہے اگر آپ قوت واسلحہ کے ذریعہ انکی مدد نہیں کرسکتے تو اس اسلحہ کے ذریعہ اپنے بھائیوں کی مدد ضرور کریں۔
یا اللہ اس امت کے لئے ہدایت کا سلسلہ مسلسل جاری رکھ جس میں تیرے دوستوں کو عز ت اور تیرے دشمنوں کو ذلت اور تیری کتاب کو حکومت ملے۔
یا اللہ ہمارے مجاہد بھائیوں کی مدد فرما فلسطین میں، عراق میں، صومال میں، افغانستان میں، قفقاز میں اور ہر جگہ یا اللہ اپنے کمزور بندوں کو نجات دے قیدیوں کو رہائی دے مشکلوں میں پھنسے ہوؤں کو نکال دے اور توحید، حق اور دین کے پرچم کو بلند کردے
وصلى اللهم على نبيك محمد وعلى اله واصحابه اجمعين





مکمل تحریر  »

رمضان ہم پیکر قرآن بن جائیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ابو سعد العاملی

ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم


الحمد لله وكفى والصلاة والسلام على عبده المصطفى وعلى آله وصحبه الذين اصطفى وعلى من سار على هديه وسنته واكتفى، وبعد

ہم ماہ رمضان کی آمد پر ہیں یہ ہراُس شخص کے لئے توبہ ومغفرت کا مہینہ ہے جو اسکا ارادہ کرے اور سب ہی چاہتے ہیں کہ توبہ کریں اور خود کو جہنم سے آزاد کروائیں اگر نفس وشیطان کی بندشیں نہ ہوں جو ارادوں کو قید کر لیتی ہیں عزائم کو کمزور اور حوصلوں کو پست کردیتی ہیں تاکہ انسان اپنی خواہشات کا اسیر بن کر رہ جائے ماہ رمضان اس شخص کے لئے مکمل طور پر شروع ہوچکا ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنا اسے گناہوں سے بچانا چاہتا ہو اور اپنے دل سے ہر اس مصیبت کو دور کرنا چاہتا ہو جس مصیبت میں وہ پورے سال پھنسا رہا حتی کہ وہ خشوع الہی سے دور اور اپنے رب کے احکامات ونواہی کو بجالانے میں سست ہوچکا ہو یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے روزے دار بندوں کو مخصوص کر دیا ہے کہ دیگر اعمال کے برعکس انہیں اسکا خاص بدلہ دیا جائیگا۔

كل عمل ابن آدم له كفارة والصوم لي وأنا أجزي به (رواه البخاري)

ترجمہ: آدمی کے ہر عمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

گویا کہ اللہ تعالی نے روزے کو ایک ایسی عبادت بنا یا ہے جو اس کے اور اس کے روزے دار بندے کے درمیان ایک راز ہے۔

ہر سال یہ مبارک مہمان ہم پر آتا ہے اور ہم میں بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو اسے مناسب اہمیت دیتے ہوں یہ ہلکا سا مہمان ہے جو اپنے مہمان نواز کو بے انتہا خصوصیات وعطیات سے نوازتا ہے ہم میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پورے شوق سے اس ماہ کے رخصت ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ مادیت پر مبنی اپنی مقررہ زندگی کی جانب پھر سے لوٹ آئیں ماہ رمضان انسان کے دل میں روحانی پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور نفس کے اندر مذہبی مانع (رکاوٹ) کو تقویت پہنچانے کا ایک موقع ہے تاکہ اسے مادی (دنیوی) رجحان سے پاک اور دور کیا جائے ا ور یا د رکھیں کہ اللہ تعالی نے اسے (نفس کو) ایک عظیم فریضہ کے لئے پیدا کیا ہے جس میں بلند روح،عالی ہمت اور ہر قسم کی قید سے آزاد ہونا لازمی ہے اور سال کے باقی مہینوں کے برعکس ماہ رمضان میں اسکا حصول زیادہ ممکن ہے۔

یہ مہینہ ماہ قرآن ہونے کی حیثیت سے سب سے ممتاز ہے اللہ تعالی نےاسے اسی طرح اہمیت دی ہے چنانچہ اسی ماہ میں اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی تاکہ یہ ہمارا دستور حیات ہو۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ

ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح آیات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی ہیں اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔

اور وہ نو ر ہے جو ہمار ے لئے راہ روشن کرے جس شخص نے بھی اس سے غفلت برتی تو اس نے واضح گمراہی اور گہرے اندھیرے کو خود پر مسلط کرلیا۔

غلط مفہوم

لوگوں میں یہ عادت عام ہوچکی ہے کہ وہ رمضان میں لطف اندوز ہونے اور بہت سی شرعی ذمہ داریوں سے آزاد ہونے کےلئے وقت نکالتے ہیں خاص طور پر رات کے دوران جیسا کہ رمضان کی راتیں (چاہے گھروں کے اندر ہو یا گھروں سے باہر) موج مستی کرنے اور مردو خواتین کے درمیان بیہودہ اختلاط میں جشن منانے کی نظر ہوجاتی ہیں گویا لوگ اس چیز کا عوض لے رہے ہوں جس سے وہ دن کے وقت محروم کردئیے گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ليس الصيام عن الأكل والشرب وإنما الصيام من اللغووالرفث (صحيح ابن خزيمة)

ترجمہ: کھانے پینے سے بچنا روزہ نہیں بلکہ بے ہودہ اور فحش کاموں سے بچنا روزہ ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اذا صمت فليصم سمعك وبصرك ولسانك عن الكذب والمحارم

ترجمہ: جب تو روزہ رکھے تو تیری سماعت وبصارت اور زبان بھی جھوٹ اور محرمات سے رک جائے۔
ہم رمضان کا استقبال کس طرح کریں؟

1
) اطاعت وفرمانبرداری کے ساتھ

رمضان اللہ کے اس حکم میں داخل رہے (یعنی رمضان میں اللہ کے اس حکم پر مسلسل عمل رہے) جو کھبی رد نہیں ہوتا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(٢:١٨٣)

ترجمہ: اے ایمان والوں تم پر وزے فرض کردئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیا ر کرو۔

چنانچہ یہ اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری ہے جس طرح ایک مومن کو بقیہ احکامات بھی سر انجام دینے چاہیے ہیں ایسا کرنا عین اسی وقت میں اللہ تعالی کی اس دعوت پر لبیک کہنا بھی ہے۔

ا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ (٨:٢٤)

ترجمہ: اے ایما ن والوں اللہ اور اسکے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی جانب بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔

رمضان میں نفوس وارواح کے لئے حیات ہے اور حوصلوں وعزائم کے لئے پختگی ہے تاکہ اللہ کی اطاعت میں آگے بڑھ جانے اور اسکی نافرمان مصیبت سے احتراز کی جائے۔

2) زہد و اطاعت میں مشغولیت

روزے کی اس عبادت سے ہمارا ہدف اس فرمان الہی (
لعلکم تتقون) ”تاکہ تم متقی بن جاؤ“ کا حصول ہے عین اسی وقت تقوی مقصد وذریعہ ہے تقوی مومن کو دنیا کی لذتوں سے بے رغبت کردیتا ہے کیونکہ یہ روزہ اسے پورا دن ان لذتوں سے روکے رکھتا ہے اور اس فضیلت والے مہینے کے دوران اسکی تربیت کرتا ہے

اور مومن کو چاہیے کہ وہ اس مبارک مہینے میں اپنے نفس کی تربیت کرے اور اسے ہر اس کام سے اجتناب کر نے کی عادت ڈالے جو اسے اپنے رب سے دور اور اس کے عزم کو کمزور اور دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سست کرتی ہو۔

بلا شبہ روحانی اور مادی ماحول اور فضائیں رمضان میں زیادہ موزوں ہوتی ہے جسکی بناء پر مومن احکام الہی کی بجا آوری اور اسکی منع کردہ اشیاء سے رک جانے کے ذریعے عبادت الہی کے مطلوب عناصر کے حصول سے زیادہ قریب ہوتا ہے

چنانچہ یہ مسئلہ دن ورات مسلسل کار گزاری کا محتاج ہے اسی سے اللہ تعالی نے ہمیں یہ فضیلت والا مہینہ خاص توبہ پر عطاء کیا ہے تاکہ یہ عمل کی تیاری کا آسان مرحلہ ثابت ہو جس عمل کے لئے اللہ تعالی نے ہمیں پیدا کیا ہے۔

3
) ہم مجسمہ قرآن بن جائیں

یہ دعو ی کرنا تو بہت ہی آسان ہے کہ قرآن ہمار ا دستور حیات ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہمارا ماخذ ہے ایک ایسے وقت کے دوران جس میں ہم قرآن کی محکم آیات سے دور ہیں متشابہات تو دور کی بات ہے اسی طرح اس کے مکی ومدنی اور اسکے ناسخ ومنسوخ سے لاعلم ہیں ایسے ہی اس کے شان نزول اور آیا ت کو واقعات کے ساتھ مربوط کرنے کی کیفیت سے ناواقف ہیں آپ خود ہی سوچیں ہم کس طرح اپنے آپکو اہل قرآن سمجھتے ہیں بلکہ ہم میں سے بعض تو ایسے ہی جو خود کو داعی اور مربی (تربیت کرنے والے) گردانتے ہیں اور دعوت کے میدان سے تجاوز کرکے خود کو مجاہدین میں سے شمار کرتے ہیں۔

بلاشبہ اس دعوے کو عملی صورتحال جھوٹا ثابت کرتی ہے اور یہ محتاج دلیل ہے اور کئی مسلمان تو ایسے ہیں جو ابتدائی امتحان میں ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور معمولی سی آزمائش کے سامنے ہار مان جاتے ہیں اس ذلت پر مبنی صورتحال جسے امت جھیل رہی ہے حقیقی طور پر اسکا سامنا کرنے کےلئے ابتداء میں ہی اپنی کمزوری اور اپنی حقیقت ظاہر کردیتے ہیں لہذا ہم سب پر لازم ہے کہ کتاب اللہ کی جانب رجوع کریں تاکہ ہم اس سے اسی طرح سیراب ہوں جس طرح صحابہ کی پہلی جماعت سیراب ہوئی عملی جامہ پہنانے اور سرگرم ہونے کی نیت سے نہ کہ ایک دوسرے پر فخر کرنے کی نیت سے تاکہ اس صورتحال کو بدلا جائے جسے ہم جھیل رہے ہیں اور بیرونی طور پر اس تبدیلی کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن ہے حتی کہ ہمارے اندورنی حالات تبدیل ہوجائیں پس ہم اپنے معاملے کتاب اللہ کے ذریعے طے کریں اور اسکے احکامات ونواہی پر بجاآوری کریں اور محکم کی اتباع کریں اسکے متشابہ سے دور رہیں اور قرآن کے حقیقی مقاصد کو سمجھیں۔

امت کی بدحالی ہماری اپنے رب کی کتاب سے دوری اور اسے مغز سے خالی شعار(خول) قرار دینے کا حتمی نتیجہ ہے اور اس صورتحال کو بدلنے کی ہر کوشش ناکام ہے جب تک ہم اللہ کی کتاب سے دورر ہیں گے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آتے رہیں گے جس کا ذکرکہ ہم نے گذشتہ سطور میں کیا ہے اسے بالکل ہی چھوڑ دینا اور اس کی ذرا بھی پرواہ نہ کرنا حتی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کے درمیان اجنبی بن کررہ گیا جس طرح اسلام مسلمانوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے۔

بدأ الإسلام غريباً وسيعود غريباً كما بدأ، فطوبى للغرباء

ترجمہ: اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی اور عنقریب یہ اسی طرح اجنبی ہو کر رہ جائے گا جس طرح اس کی ابتداء ہوئی پس خوشخبری ہے ان اجنبیوں کے لئے۔

ماہ رمضان میں تلاوت قرآن کریم سے متعلق اجتہاد سلف کے بعض پہلو

ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ: اسود ماہ رمضان کی ہر دوراتوں میں قرآن کریم کا ختم فرمایا کرتے تھے چنانچہ وہ مغرب و عشاء کے درمیان سو جایا کرتے جبکہ غیر رمضان میں آپ ہر چھ راتوں میں قرآن ختم کرتے تھے

سلام بن ابی مطیع فرماتے ہیں کہ: قتادہ ہر سات راتوں میں قرآن کا ختم کرلیا کرتے تھے اور جب رمضان کی آمد ہوجاتی تو ہر تین راتوں میں پھر جب آخری عشرہ آجاتا تو ہر ایک رات میں ختم کرلیا کرتے تھے۔

ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ: امام شافعی ماہ رمضان میں 60 مرتبہ قرآن ختم کیا کرتے تھے۔

موسی بن معاویہ کہتے ہیں کہ: میں نے قیروان سے رحلت کی اور میرا گمان نہیں تھا کہ بہلول بن ارشد سے زیادہ کوئی خشوع والا (عبادت گذار) ہو یہاں تک کہ میری ملاقات وکیع سے ہوئی وہ رمضان کی رات میں قرآن پڑھا کرتے تھے اور اسے تین بار ختم کرتے تھے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ظہر سے عصر تک نماز پڑھتے تھے

محمد بن زہیر بن محمد فرماتے ہیں کہ: میرے والد ہمیں ماہ رمضان میں روزانہ 3 مرتبہ قرآن ختم کرنے کے بعد جمع کرتے تھے اور رمضان میں 90 دفعہ قرآن ختم کرتے۔

مسبح بن سعید بھی کہتے ہیں کہ: محمد بن اسماعیل (یعنی امام بخاری) ماہ رمضان میں دن کے وقت ہر روز ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے اور تراویح کے بعد ہر تین راتوں میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے

ابو بکر الحداد فرماتے ہیں: میں نے خود کو اس عمل کا پابند بنایا جو ربیع نے امام شافعی کے متعلق روایت کیا ہے کہ وہ ماہ رمضان میں نماز کی قرات کے علاوہ ساٹھ قرآن ختم کیا کرتے تھے میں زیادہ سے زیادہ انسٹھ (59) پر اکتفا کرتا اور غیر رمضان میں تیس قرآن ختم کیا کرتا۔

رمضان اور غیر رمضان میں قرآن کے ساتھ تابعین کے تعلق کے بعض پہلوؤں میں آپ غور کریں کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا کیا حال ہوگا بلاشبہ انکے حالات ہمارے پیش کردہ ان پہلوؤں سے زیادہ اعلی اور زیادہ اہم ہیں۔

جہاں تک ا جنبیت اور فتنوں کے دور میں رہنے والے ہم مسلمانوں کا تعلق ہے جو ایک اسے دور میں رہ رہے ہیں جس میں کئی جگہوں پر باطل کا غلبہ ہے جیسا کہ اہل حق ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں اور کوئی راہ تلاش کر رہے ہیں تاکہ شریعت کے سائے تلے رہ سکیں اور اپنے اردگرد موجود کفر وارتداد کے پنجوں سے چھٹکار ا حاصل کرلیں بلاشبہ یہ (مسلمان) زیادہ محتاج ہیں کہ اس ماہ کریم میں اپنے رب کی کتاب کی تلاوت کرنے اس میں غور وفکر کرنے اور اسکے ساتھ قیام کرنے میں مشغول رہیں اور اللہ تعالی سے قرآن کی جانب اخلاص کے ساتھ کامل طور پر متوجہ ہونے کا عہد کریں اور اپنی اس انقلابی تحریک میں قرآن سے فیضاب ہوں جس کے یہ محتاج ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس طرح وہ بہت سے معرکو ں میں شامل ہو کر اپنے دین کی فتح یابی اور غلبہ حاصل کرنے کے تمام ضروری عناصر اور مناسب ہتیھار حاصل کرلیں گے۔

چنانچہ ماہ رمضان بلا نزاع ماہ قرآن ہے ہمیں چاہیے کہ ہم خشیت الہی سے معمور دلوں اور سمجھدار عقلوں اور اپنے دین اور اپنی عزتوں کے دفاع سے متعلق اپنے رب کے احکامات کو نافذ کرنے والے مضبوط بازوؤں کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

پہلا معرکہ ان کم ہمت نفوس(جانوں) کے ساتھ جس میں ہم انکی ہمتوں کو تیز کردیں اور انہیں آنے والے معرکوں کے لئے تیار کردیں اور آنے والا معرکہ زیادہ کھٹن اور کمزور جانوں پر زیادہ سخت ثابت ہوگا اگر اس میں انہیں انکے رب کی رحمت گھیرے میں نہ لے اور ہمیں اللہ کی رحمت کے اس ربانی چشمہ کی جانب متوجہ ہونا چاہیے جو اخلاص اور اس دین کے لئے عمل کرنے، قربنی دینے اور اس پر فداء ہونے کی نیت کے ساتھ متوجہ ہونے والوں پر نہ کھبی خشک ہوگا نہ ان پر اس کے خزانے کبھی بند ہوں گے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رمضان سے قیام وصیام کی توفیق دے اور اسے تمام صادقین کے لئے وسیلہ بنا دیں تاکہ اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوجائے۔

والله الموفق وهو يهدي السبيل

کاتب: ابو سعد العاملی

اوائل رمضان-1430ھ



پی ڈی ایف
،یونی کوڈ
Zip Format
http://www.box.com/s/6d41dd16d9dad6b06f2e
http://www.mediafire.com/?pieq7qra6mpqq3n


پی ڈی ایف
http://www.box.com/s/9d74c221644dfefebadc

یونی کوڈ (ورڈ)
http://www.box.com/s/5db9863e690cd6536c20

مکمل تحریر  »

Friday, July 27, 2012

قتل عام بند کرو ورنہ برما کے مفادات پر حملے کریں گے۔طالبان کی دھمکی

 

پاکستانی طالبان نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری جرائم کے حوالے سے میانمار کو دھمکی دی ہے۔ پاکستانی حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ میانمار کے ساتھ تمام تعلقات فوری طور پر ختم کر دے۔روہنگیا مسلمانوں کے قتل وغارت اور ان کے خلاف جرائم کی خبروں پر پاکستانی طالبان کی طرف سےکہا گیا ہے، ’’ہم آپ کے خون کا بدلہ لیں گے۔‘‘ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے ایک بیان میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار کے ساتھ تمام تر تعلقات ختم کرتے ہوئے اسلام آباد میں میانمار کا سفارت خانہ بند کر دے، ’’ورنہ ہم نہ صرف برما کے مفادات پر حملے کریں گے بلکہ پاکستان میں برما کے ساتھیوں کو بھی ایک ایک کر کے نشانہ بنائیں گے۔ اسلام آباد میں میانمار کے سفارت خانے سے اس دھمکی پر رد عمل جاننے کے لیے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے تاہم پاکستان سے باہر حملوں کے حوالے سے اس تنظیم کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ 2010ء میں نیویارک کے ٹائم اسکوائر پر بم دھماکے کی ناکام کوشش کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ تھا۔ اس حملے کی کوشش کے جرم میں ایک امریکی شہری فیصل شہزاد عمر قید کاٹ رہا ہے۔میانمار کے مشرقی علاقے میں راکھنی بدھ کمیونٹی اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان حالیہ فسادات کے باعث درجنوں افراد ہلاک جبکہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس کے پاس روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی معتبر اطلاعات ہیں۔ ان میں خواتین کی عصمت دری، املاک کی تباہی اور ان کی غیر قانونی ہلاکتیں شامل ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق ان مظالم میں راکھنی بدھوں کے علاوہ میانمار کی سکیورٹی فورسز بھی ملوث ہیںایمنسٹی کی طرف سے مزید بتایا گیا کہ روہنگیا آبادی والے علاقوں سے سینکڑوں مردوں اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا۔ایمنسٹی کے مطابق زیادہ تر گرفتاریاں من مانے طریقے سے اور امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے کی گئیں۔روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے میانمار میں آباد ہیں تاہم انہیں وہاں کی شہریت دینے کی بجائے بے وطن گردانا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میانمار میں آباد روہنگیا مسلمانوں کو مظلوم ترین اقلیت قرار دیتی ہے۔

مکمل تحریر  »

القاعدہ اور جہادیوں کی شام میں منظم کارروائیوں سے مغربی ممالک پریشان



شام میں جہادیوں کی موجودگی کی وجہ سے عراق کی سرحد کے ساتھ فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ شام میں تشدد کے حالیہ واقعات میں اضافے کے بعد اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عالمی جنگجو تنظیم القاعدہ صدر بشار الاسد کے خلاف جاری تنازعے کی نوعیت کو تبدیل کرنے اور وہ خودکش بم دھماکوں کے ذریعے انقلاب کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق شامی حزب اختلاف تنازعے میں انتہا پسندوں کے کسی کردار سے انکار کرتی چلی آ رہی ہے لیکن امریکی انٹیلی جنس حکام اور عراقی حکام کو اس بات پر تشویش لاحق ہے کہ القاعدہ تنازعے میں پوری طرح ملوث ہے اور وہ عراق میں آزمودہ اپنے ہتھیار ۔۔۔۔۔۔ خودکش بم دھماکوں ۔۔۔۔۔ کو شام میں بھی بروئے کار لا رہی ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ ''شام سنی انتہا پسندوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے اور وہاں القاعدہ کے بینر تلے کام کرنے والے جمع ہو رہے ہیں''۔ اخبار نے ترکی کے ساتھ واقع شام کی بارڈر کراسنگ باب الہوی کی مثال پیش کی ہے جس پر باغیوں نے گذشتہ ہفتے قبضہ کیا تھا لیکن اس کے فوری بعد وہ جہادیوں کی اجتماع گاہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ''انٹرنیٹ پر ایسی ویڈیوز پوسٹ کی جا رہی ہیں جن میں نقاب پوش افراد خود کو آزاد شامی فوج کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں اور انھوں نے اے کے 47 کلاشنکوف رائفلیں اٹھا رکھی ہیں۔ ان کے پیچھے القاعدہ کے پرچم بلند ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں اور ایک ویڈیو میں ایک شخص یہ اعلان کر رہا ہے کہ ''ہم نے اب اللہ کے نام پر جہاد کے لیے خودکش سیل قائم کر دیے ہیں''۔ شام میں جہادیوں کی موجودگی کے بعد اس کی عراق کے ساتھ واقع سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد سے اس انتہا پسند گروپ نے ایسے بیانات جاری کیے ہیں جن میں اس نے عراق میں اپنی مزاحمت کو شام میں انقلاب سے جوڑا ہے اور دونوں جگہ تنازعات کو سنی بمقابلہ شیعہ قرار دیا ہے۔عراقی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں جو انتہا پسند کام کر رہے ہیں، وہی دراصل بہت سے کیسوں میں ان کے ملک میں بھی کام کر رہے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ایک خصوصی معاون عزت الشاہ بندر کا کہنا ہے کہ شام کے ساتھ سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کے بعد ہمیں سو فی صد یقین ہے کہ جو نام ہمیں مطلوب ہیں، وہی شامی حکام کو بھی مطلوب ہیں''۔ انھوں نے کہا کہ جو القاعدہ عراق میں بروئے کار ہے وہی شام میں بھی کام کر رہی ہے۔عراق میں سوموار کو گذشتہ دو سال میں سب سے تباہ کن بم دھماکے ہوئے تھے۔ دارالحکومت بغداد اور شمالی شہر کرکوک سمیت سترہ شہروں اور قصبوں میں بم دھماکوں میں ایک سو گیارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔دوسری جانب شام میں گذشتہ دسمبر میں اسی نوعیت کے خودکش بم دھماکوں کا آغاز ہوا تھا اور تب سے اب تک پینتیس کار بم دھماکے اور دس خودکش بم دھماکے کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار کی القاعدہ کے اتحادی ایک گروپ النصر محاذ نے ذمے داری قبول کرنے کا دعوی کیا تھا۔ تاہم شامی حزب اختلاف اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک میں القاعدہ کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ شامی قومی کونسل کے ایگزیکٹو بیورو کے ایک رکن سمیر ناشر کا کہنا ہے کہ ''ہم ہر کہیں سے شام میں القاعدہ کی موجودگی کی خبریں سن رہے ہیں لیکن اس جنگجو تنظیم کی شام میں موجودگی کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا''۔نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں آزاد شامی فوج کے ایک کمانڈر سید کا انٹرویو بھی شامل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ انھوں نے بھی شام میں القاعدہ کے جنگجووں کے موجود ہونے کے بارے میں سنا بہت کچھ ہے لیکن حقیقی طور پر کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ ''اگر القاعدہ صدر بشار الاسد کے خاتمے کے لیے آتی ہے تو وہ اس مقصد کے لیے ضرور آئے لیکن ذاتی طور میں نے ان میں سے کسی کو نہیں دیکھا''۔ شامی حزب اختلاف کے لیڈروں کے ان بیانات کے باوجود مغربی میڈیا نے اب یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ شام میں القاعدہ کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور مغربی ممالک اس کو جواز بنا کر شام میں فوجی مداخلت کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مکمل تحریر  »

Wednesday, July 18, 2012

عزت وذلت کااصل معیار

حضرت عمر نے صلح حدیبیہ کے وقت حضرت ابوجندل کو جب ان کے باپ ان کوقید کرکے واپس مکہ لے جارہے تھے تو ان کی طرف تلوار کا دستہ کرکے ارشاد فرمایا تھا:((أَنَّ دَمَ الْکَافِرِ عِنْدَ اللَّہِ کَدَمِ الْکَلْبِ))’’اور بے شک کافر کا خون اللہ کے نزدیک کتے کے خون جیساہے (کہ جس کے مارنے میں کوئی حرج نہیں)‘‘۔اس دنیامیں اُس انسان کو جینے کا حق حاصل ہے جوکہ کلمہ توحیدیعنی اللہ کی واحدانیت اور اس کے رسولوں کی رسالت کااقرار کرتے ہوئے اسلام کے دائرے کے اندر آجائے،تو جس نے یہ اقرار کیا تو اس کا مال وجان اور عزت محفوظ ومامون ہوگئی اور جس نے ایسا نہ کیا تو اس کے مال وجان اورعزت کی کوئی حیثیت اورحرمت نہیں ۔یہی وہ حقیقت تھی جس کو سمجھانے کے لئے انبیاء ورسل آتے رہے اور یہی وہ منہج تھا جس پر رسول اللہﷺبھی کاربند ہوئے۔
’’الحکم الاصلی حول الاموال والاعراض ودماء الکافرین فی الشریعة‘‘
شریعت میں کفار کے جان ومال اور عزت کے حوالے سے ’’حکم اصلی‘‘
عزت وذلت کااصل معیار
ترتیب و تدوین:شیخ ابو محمد الیاس المہاجر﷾

مکمل تحریر  »

Monday, July 9, 2012

مسلمانوں کے تین طبقات:

مسلمانوں کے تین طبقات:
اس سے پہلے کہ ہم ان گمراہ کرنے والے قائدین کے اوصاف کو جاننے کی کوشش کریں ،اس بات کوبھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ:
مسلمانوں کے معاشرے میں لوگوں کی دین کے حوالے سے کیا عمومی سوچ وفکر ہے اور وہ دین حوالے سے کیا طرزِ عمل اختیار کئے ہوئے ہیں ؟تاکہ ان’’آئمة المضلّین‘‘کے طریقہ کار اور ان کے کام کرنے کے عملی میدان کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں ۔ دین کے حوالے سے عمومی سوچ اور طرزِ عمل کے لحاظ سے عوام الناس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
 پہلا طبقہ: وہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے جن کی عظیم اکثریت مغربی تہذیب و تمدن ،ان کے اقدار اور اُن کے نظام سیاست ،نظام معیشت اور نظام معاشرت سے بے حد متاثر ہے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کرنا چاہتاہے مگر اس راہ میں مسلمانوں کی وہ باقی ماندہ اسلامی اقدار اور حمیت ِدینی رکاوٹ ہے جو اب بھی کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں میں موجود ہے۔
 دوسرا طبقہ: مسلمانوں کا وہ ہے جو کہ دین کا درد اور اس سے ہمدرد ی رکھنے والا ہے ۔لیکن عامۃ الناس کی حیثیت سے کسی نہ کسی مذہبی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے اور اس مکتبہ فکر کے رہنما اور قائدین کی پیروی کرنے والا اور اُن کی بتائی ہوئی ہر بات پر بلا چوں چراں عمل کرنے والاہے۔
 تیسرا طبقہ :مسلمانو ں کا وہ ہے جوکہ اسلام کا ہمہ گیر اور جامع تصور رکھتے ہوئے اس کو ایک مکمل نظامِ حیا ت ہی نہیں سمجھتا بلکہ اُ س کے معاشرے میں عملی نفاذ کو اپنا ایک ’’فریضہ ٔدینی ‘‘سمجھتا ہے اور اس کام کے لئے وہ دین کے نفاذ کا دعویٰ کرنے والی کسی نہ کسی جماعت سے منسلک ہے۔

(عصرِحاضر میں آئمۃالمضلّین کی گمراہیاں اور سلف کا منہج جمع وترتیب:عبد الفرقان رحمانی  ﷾۔ ص: 9-10)

مکمل تحریر  »

Monday, July 2, 2012

نوائے افغان جہاد شعبان 1433ھ جولائی 2012ء

نوائے افغان جہاد
شعبان 1433ھ جولائی 2012ء


عصرحاضر کی سب سے بڑی صیلبی جنگ جاری ہے اس میں ابلاغ کی تمام سہولیات اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے تمام ذرائع ،نظامِ کفر اور اس کے پیرؤں کے زیر تسلط ہیں ۔ ان کے تجزیوں اور تبصروں سے اکثر اوقات مخلص مسلمانوں میں مایوسی اور ابہام پھیلتا ہے اس کا سدِ باب کرنے کی ایک کوشش کا نام 'نوائے افغان جہاد'ہے .اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفر سے معرکہ آراء مجاہدین فی سبیل اللہ کا مؤقف مخلصین اور محبینِ مجاہدین تک پہنچانا ہے۔افغان جہاد کی تفصیلات ،خبریں اور محاذوں کی صورتحال آپ تک پہنچانے کی کوشش ہے ۔امریکہ اور اس کے حواریوں کے منصوبوں کو طشت ازبام کرنے ،ان کی شکست کے احوال بیان کرنے اور اُن کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی ایک سعی ہے۔




Download Links:..
Link 2

All brothers and sisters are requested to send their comments,suggestions and write on related topics ..........



Email
nawaiafghan@gmail.com



web
nawaiafghan.blogspot.com

مکمل تحریر  »