بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان ماہ
صبروثبات
ابو محمد
المقدسی
ترجمہ: انصار
اللہ اردو ٹیم
ہم پر ماہ صیام اور ماہ ثبات گزر رہا ہے اور غزہ میں اور مسجد ابن
تیمیہ میں کچھ دن پہلے ہی ہمارے بھائیوں پر مظالم توڑے گئے ایسے ہی ان کے اور بہت
سے مظلوم بھائی زمین کے مختلف حصوں میں موجود ہیں جن پر ہر قریب (علاقائی حکام)
اور بعید (بیرونی آقا) مسلط ہیں اور ساری ہی اقوام ایک دوسرے کو انکے خلاف متحد
ہوجانے کی دعوت جبکہ دشمنوں کے ساتھ ملکر انکے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
عراق
میں، افغانستان میں، صومالیہ میں اور قفقاز میں ہر جگہ مشرق اور مغرب کے طواغیت کی
جانب سے ہمارے بھائیوں کی بوئی ہوئی جہادی جڑوں کو اکھیڑنے کے لئے کھلی جنگ، چالیں
اور باہمی تعاون جاری ہے۔
ایک
ایسی جنگ جس میں سارے دشمن اور جتھے متحد ہو کر ایک دوسرے کو ہمارے بھائیوں کے
خلاف متوجہ کررہے ہیں۔
ایک
ایسی جنگ جس میں سارے دشمنوں اور جتھوں نے متحد ہوکر ایک دوسرے کوہمارے بھائیوں پر
حملہ کرنے کی ترغیب دی اور قابض کی توپوں کے بل بوتے پر قائم بے ہودہ حکومتوں کی
مدد کے لئے انہوں نے اپنے تمام جنگی وسائل، حکمت عملیاں اور تیاریا ں جھونک ڈالیں۔
مسلمانوں
کے خلاف ہر طرف کی جانے والی یہ سازشیں اور گروہ بندیاں ہمیں اس دن کی یاد دلارہی
ہیں جب تمام کفار جماعتوں نے اہل ایمان پر ملکر حملہ کیا لیکن اہل ایمان نے صبر
کیا اور ثابت قدم رہے۔
اللہ
تعالی نے انکے متعلق فرمایا:
وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَٰذَا مَا وَعَدَنَا
اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا
إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا
اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ
وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (٣٣:٢٣)
ترجمہ:
جب اہل ایما ن نے احزاب (کفار کے بہت سے گروہوں) کو
دیکھا تو کہا ہم سے اللہ اور اسکے رسول نے اسی کا وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اسکے
رسول نے سچ کر دکھایا اس شے نے انہیں ایمان اور اطاعت اور بڑھا دیا مردوں نے اللہ
سے کیا ہوا وعدہ اپنا عہد سچ کر دکھایا ان میں سے کچھ نے اپنا کا م پورا کرلیا اور
کچھ منتظر ہیں اور وہ تبدیل نہ ہوئے۔
آج ہر
جگہ ہمارے مجاہد بھائی بھی یہی کہہ رہے ہیں ان میں سے غزہ وغیرہ میں زخمی ہونے
والو ں کو برتری حاصل ہے جن کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا
أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ
عَظِيمٌ
(٣:١٧٢)الَّذِينَ
قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ
فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (٣:١٧٣)فَانقَلَبُوا
بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا
رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (٣:١٧٤)
ترجمہ:
وہ لوگ جنہوں نے زخم لگنےکے باوجود اللہ اور اسکے رسول
کا کہا مانا ان میں احسان کرنے والوں اور تقوی اختیار کرنے والوں کے لئے بڑا اجر
ہے جن سے جب لوگوں نے کہا کہ لوگ تمہارے مقابلے میں جمع ہوگئے ہیں سو ان سے ڈر جاؤ
تو انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کا ر سازہے چنانچہ وہ اللہ کے
انعام اور فضل کے ساتھ اس حال میں واپس ہوئے کہ انہیں برائی نے چھوا تک نہیں اور
انہوں نے اللہ کی رضا کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
انہیں
چاہیے کہ وہ زخموں اور مصائب سے صرف نظر کرتے ہوئے اس مبارک موسم (یعنی ماہ رمضان) کے ذریعے نئی چستی، مضوط ارادے اور
پختہ ایمان کے ساتھ آگے بڑھیں اور اللہ کی رسی (قرآن)
کو مضبوط تھام کر اور اسکے دین کے تابع ہوکر اللہ کی پکار پر لبیک کہیں۔
ہم پر خیر وبرکت کا مہینہ سایہ فگن ہوا ہے قرآن وفرقان کا مہینہ،
کامیابیوں اور فتوحات
کا مہینہ، صبر وثواب
اور استقامت
کا مہینہ رمضان کا
وہ مہینہ جس میں رونما ہونے والے حادثات وواقعات نے تاریخ کا چہرہ بدل ڈالا۔
بدر کا
وہ پہلا معرکہ بھی اسی ماہ میں ہوا جو مومنوں کی عزت کی ابتداء بن گیا اور جو یوم
الفرقان المبین (حق وباطل کے مابین فیصلہ کن دن)
کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں اللہ نے اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے مابین
فرق کردیا۔
اور 8ھ
ماہ رمضان میں ہی وہ عظیم فتح ملی جسکے ذریعے اللہ نے اپنے دین کی عزت کو مکمل اور
اپنے لشکر کی کامیابی کو تمام اور اپنے حرمت والے گھر کی بتوں اور مشرکوں کی نجاست
سے طہارت کو کامل ومکمل کردیا اور پھر لوگ دین میں جوق در جوق داخل ہونے لگے۔
پھر اس
فتح کے بعد غزوہ تبوک پیش آیا جو رجب تا رمضان جاری رہا یہی غزوہ عسرت (تنگی) اور
احتساب(حصول ثواب) کا غزوہ ہے صادقین کا غزوہ اور منافقین کو رسوا کردینے والا
غزوہ۔
اگر ہم
تاریخ میں اس ماہ کریم میں مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات کو ڈھونڈنا شروع کردیں تو
مقام دراز ہوجائے۔
اس ماہ
کریم کی آمد پر ان عظیم ایام کی یاد دلا کر ہم زمین کے مشرق ومغرب میں بسنے والے
مسلمانوں کی مشکلات کو کم کرنا چاہتے ہیں جن میں کچھ قید ہیں کچھ مطلوب ہیں اور
کچھ زخمی ہیں ہم امت کو اسکی عظمتوں اور فتوحات کی یا د دلانا چاہتے ہیں تاکہ و ہ
پھر سے لوٹ آنے کے لئے تیا ر ومستعد ہوجائے اور مایوس نہ ہو۔
ہمارے مجاہد بھائیوں اور ہمارے زخمی اور قید عزیزوں کے لئے یہ نصیحت
اور یاد دہانی ہے
رمضان میں نصیحت ویاد ہانی کی ضرورت کچھ اور لوگوں کو بھی ہے
ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من لم يدع قول الزور والعمل به، فليس
لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه أخرجه البخاري
ترجمہ:
جو جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑے تو اللہ کو چنداں
حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پینا چھوڑے۔
یہ
نصیحت ویاد دہانی ہر اس عالم سوء کے لئے ہے جو حق کو باطل سے کفر کو اسلام سے شرک
کو توحید سے بدلتا ہو اور شریعت کے نصوص کو غلط رنگ میں پیش کرتا ہو اور ان سے
کھیلتا ہو اس سے کہا جاتاہے:
اگر تم یہ سب نہ چھوڑو تو اللہ کو ضرورت نہیں کہ تم اپنا کھانا پینا
چھوڑو
یہ
نصیحت و یاد دہانی ہر اس شخص کے لئے ہے جو حقائق کو مسخ کر دیتا ہو موحدین مجاہدین
کو خارجی اور تکفیری کہتا ہو طواغیت کو ولی الامر قرار دیتا ہو اور دشمنا ن ملت کو
مومنوں کا بھائی اور ہمدرد باور کراتا ہو اور اللہ اور اسکے رسول کی مخالفین کو
امن دیتا ہو اور دین کے مددگاروں کی مدد کے بجائے انہیں قتل کرتا ہو
یہ تمام اعمال اس جھوٹی بات سے ہیں جسے چھوڑے بغیر آدمی کا کھانا
پینا چھوڑنا بے سود رہتا ہے
رمضان
میں ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنا جائزہ لے اور قرآن کو ترک کر دینے سے
متعلق اپنا محاسبہ کرے
رمضان ماہ قرآن ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ
وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ (٢:١٨٥)
ترجمہ:
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں
کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت کے واضح دلائل اور حق اور باطل کے مابین فرق کردینے
والا ہے
اللہ
تعالی نے قرآن کو چھوڑ دینے والوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا
الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (٢٥:٣٠)
ترجمہ:
اور رسول کہے گا اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن
کو چھوڑ رکھا تھا۔
اور
قرآن کو چھوڑ دینے کی سب سے بڑی صورت اسکے نفاذ اور اسکی حاکمیت اور اسکے قوانین
وحدود کی بالادستی کو مسلمانوں کی زندگیوں، انکی عدالتوں، سیاستوں، تعلقات سے نکال
باہر کرنا اور حدود مطہرہ کو حقیر اور معمولی وضعی قوانین سے بدل دینا ہے
رمضان
میں اس شخص کے لئے بھی نصیحت ہے جو گناہو ں اور برائیوں کو ترک کرنے کے پختہ ارادے
کے ساتھ سچی توبہ کی تجدید کرنا چاہتا ہو دین کی مد د چھوڑنے اور مجرمین کی مدد
کرنے سے توبہ کرنا چاہتا ہو اور اس سے باز آکر دوبارہ نہ کرنا چاہتا ہو۔
یہ
توبہ کا مہینہ ہے جس نے اس میں توبہ نہ کی پھر وہ کب توبہ کرے گا ؟ اللہ تعالی نے
فرمایا:
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٢٤:٣١)
ترجمہ:
ائے مومنوں سب اللہ کی جانب توبہ کرو تاکہ تم فلاح
پاجاؤ۔
اقدام
اور تسلسل (دیمہ) کے لئے توبہ ایک اچھی ابتداء ہے۔
نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی تسلسل کے ساتھ ہوتا تھا جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی الہ
عنہا سے پوچھا گیا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی
دن کومخصوص کیاِ تو انہوں نے جواب دیا نہیں آپکا عمل دیمہ (یعنی مسلسل) ہوتا تھا
(بخاری ومسلم)
دیمة
اس بارش کو کہتے ہیں جو سکون کے ساتھ مسلسل برستی رہے چنانچہ انہوں نے عمل کے
مسلسل جاری رہنے، برقرار رہنے، منقطع نہ ہونے اور اعتدا ل پر برقرار رہنے کو مسلسل
ہونے والی بارش کے ساتھ تشبیہ دی۔
اس لئے
بعض اہل علم نے کہا کہ: ربانی (رب والے) بنونہ کہ رمضانی یہ مناسب نہیں کہ آپ
رمضان میں اللہ کی جانب متوجہ ہوجائیں اور بقیہ سال اسے بھلائے رکھیں رمضان میں تو
آپ کے آنسو جاری ہوں جبکہ بقیہ سال قحط پڑا رہے
بشرا لحافی سے کہا گیا: کچھ لوگ صرف رمضان میں ہی عبادت و
ریاضت کرتے ہیں
تو انہوں نے جو اب دیا: بد ترین لوگ ہیں اللہ کو حقیقی
معنوں میں رمضان میں پہچانتے ہیں اسکے علاوہ نہیں صالح وہ ہے جو پورا سال اللہ کی
عبادت کرے اور محنت کرتا رہے۔
اللہ
تعالی نے ان لوگوں کی صفت میں فرمایا جن لوگوں کی طرح صبر کرنے کا حکم اس نے اپنے
نبی کو دیا فرمایا:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ
وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ (
٨:٢٨)
ترجمہ
: اور آپ ان لوگو ں کے ساتھ صبر کیجیئے جو صبح وشام
اپنے رب کو پکارتے ہیں وہ اسکی رضاچاہتے ہیں اور ان سے اپنی نگاہیں نہ پھیرئیے۔
ان
لوگو ں کا مستقل ارادہ اللہ کا دین ہوتا ہے خواہ رات ہو یا دین، صبح ہو یا شام،
رمضان ہو یا وغیر رمضان
اور
جو انکی جانب منسوب ہونا اور ان جیسا بننا ا ور انہی میں سے ہو نا چاہتا ہے اسکے
لئے انجام بد اور آزمائشوں کے سامنے پسپائی اختیار کرنا یا راستے کو مشکل یا طویل
سمجھنا مناسب نہیں
وہ بہت
سے شکست خوردہ اور پلٹ جانے والوں سے دھوکہ نہ کھائے نہ ہی سینہ تان کر ثابت قدم
رہنے والوں کی قلت سے گھبرائے اس راہ کی یہی شان اور اسکے یہی امتیازات ہیں
یہ
ناپسند یدہ امور(کانٹوں) سے لبریز ہے نہ کہ
پھولو ں سے
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا
وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا
اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (٣:١٤٦)
وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا
وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ
الْكَافِرِينَ
(٣:١٤٧) فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ
الْآخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (٣:١٤٨)
ترجمہ:
کتنے ہی نبی ہیں جنکے ساتھ ملکر بہت سے رب والوں نے
قتال کیا اللہ کی راہ میں ان پر جو مصائب آئے ان سے وہ نہ تو پسپا ہوئے، نہ کمزور
پڑے نہ ہی عاجز آئے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ان کا کہنا یہی تھا
کہ ائے ہمارے رب ہمارے گناہ اور ہمارے معاملے میں ہماری زیادتیاں بخش دے اور ہمار
ے قدم ثابت رکھ اور کافروں پر ہماری مدد کرتا رہ چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا کا حصہ
عنایت فرمادیا اور آخرت کا بہترین حصہ عطاء کردے گا اور اللہ احسان کرنے والوں سے
محبت کرتا ہے۔
ماہ
رمضان جہاں تجدید توبہ، سچی توجہ ولگن، صیا م وقیا م کے ثواب کے حصول کا مہینہ ہے
تو دوسری جانب یہ بلاشبہ قبولیت دعا کا بھی موسم ہے اللہ تعالی نے آیا ت صیام کے
آخر میں فرمایا:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ
دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي
لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (٢:١٨٦)
ترجمہ:
اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو (آپ
بتائیں کہ) میں قریب ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں جواب دیتا ہوں چنانچہ
انہیں بھی مجھے جواب دینا اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تاکہ وہ راہ پا جائیں
لہذا
اس ماہ عظیم میں جب آپ اپنے لئے اور اپنے گھر بار والوں کے لئے دعا کریں تو ہر جگہ
پھیلے ہوئے اپنے مجاہد اور داعی بھائیوں کو ہرگز نہ بھولیں اور ہمیشہ کوشش کریں کہ
اسلا م کی کامیابی اور مسلمانوں کے غلبے اور شرک کی پسپائی اور مشرکین کی رسوائی
اور کمزوروں کی خلاصی اور قیدیوں کی رہائی کی دعا مانگیں یہ آپکے بھائیوں کا آپکے
ذمے سب سے چھوٹا حق ہے مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے نہ اسکی مدد چھوڑتا ہے نہ
اسے دشمن کے حوالے کرکے چھوڑتا ہے آپکے لئے دعا کے ہتھیار کو معمولی سمجھنا مناسب
نہیں یہ بڑا عظیم اسلحہ ہے اگر آپ قوت واسلحہ کے ذریعہ انکی مدد نہیں کرسکتے تو اس
اسلحہ کے ذریعہ اپنے بھائیوں کی مدد ضرور کریں۔
یا
اللہ اس امت کے لئے ہدایت کا سلسلہ مسلسل جاری رکھ جس میں تیرے دوستوں کو عز ت اور
تیرے دشمنوں کو ذلت اور تیری کتاب کو حکومت ملے۔
یا
اللہ ہمارے مجاہد بھائیوں کی مدد فرما فلسطین میں، عراق میں، صومال میں، افغانستان
میں، قفقاز میں اور ہر جگہ یا اللہ اپنے کمزور بندوں کو نجات دے قیدیوں کو رہائی
دے مشکلوں میں پھنسے ہوؤں کو نکال دے اور توحید، حق اور دین کے پرچم کو بلند کردے
وصلى اللهم على
نبيك محمد وعلى اله واصحابه اجمعين