Monday, July 30, 2012

رمضان ہم پیکر قرآن بن جائیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ابو سعد العاملی

ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم


الحمد لله وكفى والصلاة والسلام على عبده المصطفى وعلى آله وصحبه الذين اصطفى وعلى من سار على هديه وسنته واكتفى، وبعد

ہم ماہ رمضان کی آمد پر ہیں یہ ہراُس شخص کے لئے توبہ ومغفرت کا مہینہ ہے جو اسکا ارادہ کرے اور سب ہی چاہتے ہیں کہ توبہ کریں اور خود کو جہنم سے آزاد کروائیں اگر نفس وشیطان کی بندشیں نہ ہوں جو ارادوں کو قید کر لیتی ہیں عزائم کو کمزور اور حوصلوں کو پست کردیتی ہیں تاکہ انسان اپنی خواہشات کا اسیر بن کر رہ جائے ماہ رمضان اس شخص کے لئے مکمل طور پر شروع ہوچکا ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنا اسے گناہوں سے بچانا چاہتا ہو اور اپنے دل سے ہر اس مصیبت کو دور کرنا چاہتا ہو جس مصیبت میں وہ پورے سال پھنسا رہا حتی کہ وہ خشوع الہی سے دور اور اپنے رب کے احکامات ونواہی کو بجالانے میں سست ہوچکا ہو یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے روزے دار بندوں کو مخصوص کر دیا ہے کہ دیگر اعمال کے برعکس انہیں اسکا خاص بدلہ دیا جائیگا۔

كل عمل ابن آدم له كفارة والصوم لي وأنا أجزي به (رواه البخاري)

ترجمہ: آدمی کے ہر عمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

گویا کہ اللہ تعالی نے روزے کو ایک ایسی عبادت بنا یا ہے جو اس کے اور اس کے روزے دار بندے کے درمیان ایک راز ہے۔

ہر سال یہ مبارک مہمان ہم پر آتا ہے اور ہم میں بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو اسے مناسب اہمیت دیتے ہوں یہ ہلکا سا مہمان ہے جو اپنے مہمان نواز کو بے انتہا خصوصیات وعطیات سے نوازتا ہے ہم میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پورے شوق سے اس ماہ کے رخصت ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ مادیت پر مبنی اپنی مقررہ زندگی کی جانب پھر سے لوٹ آئیں ماہ رمضان انسان کے دل میں روحانی پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور نفس کے اندر مذہبی مانع (رکاوٹ) کو تقویت پہنچانے کا ایک موقع ہے تاکہ اسے مادی (دنیوی) رجحان سے پاک اور دور کیا جائے ا ور یا د رکھیں کہ اللہ تعالی نے اسے (نفس کو) ایک عظیم فریضہ کے لئے پیدا کیا ہے جس میں بلند روح،عالی ہمت اور ہر قسم کی قید سے آزاد ہونا لازمی ہے اور سال کے باقی مہینوں کے برعکس ماہ رمضان میں اسکا حصول زیادہ ممکن ہے۔

یہ مہینہ ماہ قرآن ہونے کی حیثیت سے سب سے ممتاز ہے اللہ تعالی نےاسے اسی طرح اہمیت دی ہے چنانچہ اسی ماہ میں اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی تاکہ یہ ہمارا دستور حیات ہو۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ

ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح آیات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی ہیں اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔

اور وہ نو ر ہے جو ہمار ے لئے راہ روشن کرے جس شخص نے بھی اس سے غفلت برتی تو اس نے واضح گمراہی اور گہرے اندھیرے کو خود پر مسلط کرلیا۔

غلط مفہوم

لوگوں میں یہ عادت عام ہوچکی ہے کہ وہ رمضان میں لطف اندوز ہونے اور بہت سی شرعی ذمہ داریوں سے آزاد ہونے کےلئے وقت نکالتے ہیں خاص طور پر رات کے دوران جیسا کہ رمضان کی راتیں (چاہے گھروں کے اندر ہو یا گھروں سے باہر) موج مستی کرنے اور مردو خواتین کے درمیان بیہودہ اختلاط میں جشن منانے کی نظر ہوجاتی ہیں گویا لوگ اس چیز کا عوض لے رہے ہوں جس سے وہ دن کے وقت محروم کردئیے گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ليس الصيام عن الأكل والشرب وإنما الصيام من اللغووالرفث (صحيح ابن خزيمة)

ترجمہ: کھانے پینے سے بچنا روزہ نہیں بلکہ بے ہودہ اور فحش کاموں سے بچنا روزہ ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اذا صمت فليصم سمعك وبصرك ولسانك عن الكذب والمحارم

ترجمہ: جب تو روزہ رکھے تو تیری سماعت وبصارت اور زبان بھی جھوٹ اور محرمات سے رک جائے۔
ہم رمضان کا استقبال کس طرح کریں؟

1
) اطاعت وفرمانبرداری کے ساتھ

رمضان اللہ کے اس حکم میں داخل رہے (یعنی رمضان میں اللہ کے اس حکم پر مسلسل عمل رہے) جو کھبی رد نہیں ہوتا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(٢:١٨٣)

ترجمہ: اے ایمان والوں تم پر وزے فرض کردئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیا ر کرو۔

چنانچہ یہ اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری ہے جس طرح ایک مومن کو بقیہ احکامات بھی سر انجام دینے چاہیے ہیں ایسا کرنا عین اسی وقت میں اللہ تعالی کی اس دعوت پر لبیک کہنا بھی ہے۔

ا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ (٨:٢٤)

ترجمہ: اے ایما ن والوں اللہ اور اسکے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی جانب بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔

رمضان میں نفوس وارواح کے لئے حیات ہے اور حوصلوں وعزائم کے لئے پختگی ہے تاکہ اللہ کی اطاعت میں آگے بڑھ جانے اور اسکی نافرمان مصیبت سے احتراز کی جائے۔

2) زہد و اطاعت میں مشغولیت

روزے کی اس عبادت سے ہمارا ہدف اس فرمان الہی (
لعلکم تتقون) ”تاکہ تم متقی بن جاؤ“ کا حصول ہے عین اسی وقت تقوی مقصد وذریعہ ہے تقوی مومن کو دنیا کی لذتوں سے بے رغبت کردیتا ہے کیونکہ یہ روزہ اسے پورا دن ان لذتوں سے روکے رکھتا ہے اور اس فضیلت والے مہینے کے دوران اسکی تربیت کرتا ہے

اور مومن کو چاہیے کہ وہ اس مبارک مہینے میں اپنے نفس کی تربیت کرے اور اسے ہر اس کام سے اجتناب کر نے کی عادت ڈالے جو اسے اپنے رب سے دور اور اس کے عزم کو کمزور اور دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سست کرتی ہو۔

بلا شبہ روحانی اور مادی ماحول اور فضائیں رمضان میں زیادہ موزوں ہوتی ہے جسکی بناء پر مومن احکام الہی کی بجا آوری اور اسکی منع کردہ اشیاء سے رک جانے کے ذریعے عبادت الہی کے مطلوب عناصر کے حصول سے زیادہ قریب ہوتا ہے

چنانچہ یہ مسئلہ دن ورات مسلسل کار گزاری کا محتاج ہے اسی سے اللہ تعالی نے ہمیں یہ فضیلت والا مہینہ خاص توبہ پر عطاء کیا ہے تاکہ یہ عمل کی تیاری کا آسان مرحلہ ثابت ہو جس عمل کے لئے اللہ تعالی نے ہمیں پیدا کیا ہے۔

3
) ہم مجسمہ قرآن بن جائیں

یہ دعو ی کرنا تو بہت ہی آسان ہے کہ قرآن ہمار ا دستور حیات ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہمارا ماخذ ہے ایک ایسے وقت کے دوران جس میں ہم قرآن کی محکم آیات سے دور ہیں متشابہات تو دور کی بات ہے اسی طرح اس کے مکی ومدنی اور اسکے ناسخ ومنسوخ سے لاعلم ہیں ایسے ہی اس کے شان نزول اور آیا ت کو واقعات کے ساتھ مربوط کرنے کی کیفیت سے ناواقف ہیں آپ خود ہی سوچیں ہم کس طرح اپنے آپکو اہل قرآن سمجھتے ہیں بلکہ ہم میں سے بعض تو ایسے ہی جو خود کو داعی اور مربی (تربیت کرنے والے) گردانتے ہیں اور دعوت کے میدان سے تجاوز کرکے خود کو مجاہدین میں سے شمار کرتے ہیں۔

بلاشبہ اس دعوے کو عملی صورتحال جھوٹا ثابت کرتی ہے اور یہ محتاج دلیل ہے اور کئی مسلمان تو ایسے ہیں جو ابتدائی امتحان میں ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور معمولی سی آزمائش کے سامنے ہار مان جاتے ہیں اس ذلت پر مبنی صورتحال جسے امت جھیل رہی ہے حقیقی طور پر اسکا سامنا کرنے کےلئے ابتداء میں ہی اپنی کمزوری اور اپنی حقیقت ظاہر کردیتے ہیں لہذا ہم سب پر لازم ہے کہ کتاب اللہ کی جانب رجوع کریں تاکہ ہم اس سے اسی طرح سیراب ہوں جس طرح صحابہ کی پہلی جماعت سیراب ہوئی عملی جامہ پہنانے اور سرگرم ہونے کی نیت سے نہ کہ ایک دوسرے پر فخر کرنے کی نیت سے تاکہ اس صورتحال کو بدلا جائے جسے ہم جھیل رہے ہیں اور بیرونی طور پر اس تبدیلی کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن ہے حتی کہ ہمارے اندورنی حالات تبدیل ہوجائیں پس ہم اپنے معاملے کتاب اللہ کے ذریعے طے کریں اور اسکے احکامات ونواہی پر بجاآوری کریں اور محکم کی اتباع کریں اسکے متشابہ سے دور رہیں اور قرآن کے حقیقی مقاصد کو سمجھیں۔

امت کی بدحالی ہماری اپنے رب کی کتاب سے دوری اور اسے مغز سے خالی شعار(خول) قرار دینے کا حتمی نتیجہ ہے اور اس صورتحال کو بدلنے کی ہر کوشش ناکام ہے جب تک ہم اللہ کی کتاب سے دورر ہیں گے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آتے رہیں گے جس کا ذکرکہ ہم نے گذشتہ سطور میں کیا ہے اسے بالکل ہی چھوڑ دینا اور اس کی ذرا بھی پرواہ نہ کرنا حتی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کے درمیان اجنبی بن کررہ گیا جس طرح اسلام مسلمانوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے۔

بدأ الإسلام غريباً وسيعود غريباً كما بدأ، فطوبى للغرباء

ترجمہ: اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی اور عنقریب یہ اسی طرح اجنبی ہو کر رہ جائے گا جس طرح اس کی ابتداء ہوئی پس خوشخبری ہے ان اجنبیوں کے لئے۔

ماہ رمضان میں تلاوت قرآن کریم سے متعلق اجتہاد سلف کے بعض پہلو

ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ: اسود ماہ رمضان کی ہر دوراتوں میں قرآن کریم کا ختم فرمایا کرتے تھے چنانچہ وہ مغرب و عشاء کے درمیان سو جایا کرتے جبکہ غیر رمضان میں آپ ہر چھ راتوں میں قرآن ختم کرتے تھے

سلام بن ابی مطیع فرماتے ہیں کہ: قتادہ ہر سات راتوں میں قرآن کا ختم کرلیا کرتے تھے اور جب رمضان کی آمد ہوجاتی تو ہر تین راتوں میں پھر جب آخری عشرہ آجاتا تو ہر ایک رات میں ختم کرلیا کرتے تھے۔

ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ: امام شافعی ماہ رمضان میں 60 مرتبہ قرآن ختم کیا کرتے تھے۔

موسی بن معاویہ کہتے ہیں کہ: میں نے قیروان سے رحلت کی اور میرا گمان نہیں تھا کہ بہلول بن ارشد سے زیادہ کوئی خشوع والا (عبادت گذار) ہو یہاں تک کہ میری ملاقات وکیع سے ہوئی وہ رمضان کی رات میں قرآن پڑھا کرتے تھے اور اسے تین بار ختم کرتے تھے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ظہر سے عصر تک نماز پڑھتے تھے

محمد بن زہیر بن محمد فرماتے ہیں کہ: میرے والد ہمیں ماہ رمضان میں روزانہ 3 مرتبہ قرآن ختم کرنے کے بعد جمع کرتے تھے اور رمضان میں 90 دفعہ قرآن ختم کرتے۔

مسبح بن سعید بھی کہتے ہیں کہ: محمد بن اسماعیل (یعنی امام بخاری) ماہ رمضان میں دن کے وقت ہر روز ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے اور تراویح کے بعد ہر تین راتوں میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے

ابو بکر الحداد فرماتے ہیں: میں نے خود کو اس عمل کا پابند بنایا جو ربیع نے امام شافعی کے متعلق روایت کیا ہے کہ وہ ماہ رمضان میں نماز کی قرات کے علاوہ ساٹھ قرآن ختم کیا کرتے تھے میں زیادہ سے زیادہ انسٹھ (59) پر اکتفا کرتا اور غیر رمضان میں تیس قرآن ختم کیا کرتا۔

رمضان اور غیر رمضان میں قرآن کے ساتھ تابعین کے تعلق کے بعض پہلوؤں میں آپ غور کریں کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا کیا حال ہوگا بلاشبہ انکے حالات ہمارے پیش کردہ ان پہلوؤں سے زیادہ اعلی اور زیادہ اہم ہیں۔

جہاں تک ا جنبیت اور فتنوں کے دور میں رہنے والے ہم مسلمانوں کا تعلق ہے جو ایک اسے دور میں رہ رہے ہیں جس میں کئی جگہوں پر باطل کا غلبہ ہے جیسا کہ اہل حق ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں اور کوئی راہ تلاش کر رہے ہیں تاکہ شریعت کے سائے تلے رہ سکیں اور اپنے اردگرد موجود کفر وارتداد کے پنجوں سے چھٹکار ا حاصل کرلیں بلاشبہ یہ (مسلمان) زیادہ محتاج ہیں کہ اس ماہ کریم میں اپنے رب کی کتاب کی تلاوت کرنے اس میں غور وفکر کرنے اور اسکے ساتھ قیام کرنے میں مشغول رہیں اور اللہ تعالی سے قرآن کی جانب اخلاص کے ساتھ کامل طور پر متوجہ ہونے کا عہد کریں اور اپنی اس انقلابی تحریک میں قرآن سے فیضاب ہوں جس کے یہ محتاج ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس طرح وہ بہت سے معرکو ں میں شامل ہو کر اپنے دین کی فتح یابی اور غلبہ حاصل کرنے کے تمام ضروری عناصر اور مناسب ہتیھار حاصل کرلیں گے۔

چنانچہ ماہ رمضان بلا نزاع ماہ قرآن ہے ہمیں چاہیے کہ ہم خشیت الہی سے معمور دلوں اور سمجھدار عقلوں اور اپنے دین اور اپنی عزتوں کے دفاع سے متعلق اپنے رب کے احکامات کو نافذ کرنے والے مضبوط بازوؤں کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

پہلا معرکہ ان کم ہمت نفوس(جانوں) کے ساتھ جس میں ہم انکی ہمتوں کو تیز کردیں اور انہیں آنے والے معرکوں کے لئے تیار کردیں اور آنے والا معرکہ زیادہ کھٹن اور کمزور جانوں پر زیادہ سخت ثابت ہوگا اگر اس میں انہیں انکے رب کی رحمت گھیرے میں نہ لے اور ہمیں اللہ کی رحمت کے اس ربانی چشمہ کی جانب متوجہ ہونا چاہیے جو اخلاص اور اس دین کے لئے عمل کرنے، قربنی دینے اور اس پر فداء ہونے کی نیت کے ساتھ متوجہ ہونے والوں پر نہ کھبی خشک ہوگا نہ ان پر اس کے خزانے کبھی بند ہوں گے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رمضان سے قیام وصیام کی توفیق دے اور اسے تمام صادقین کے لئے وسیلہ بنا دیں تاکہ اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوجائے۔

والله الموفق وهو يهدي السبيل

کاتب: ابو سعد العاملی

اوائل رمضان-1430ھ



پی ڈی ایف
،یونی کوڈ
Zip Format
http://www.box.com/s/6d41dd16d9dad6b06f2e
http://www.mediafire.com/?pieq7qra6mpqq3n


پی ڈی ایف
http://www.box.com/s/9d74c221644dfefebadc

یونی کوڈ (ورڈ)
http://www.box.com/s/5db9863e690cd6536c20

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔