بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
ایک اور ’اسامہ‘ کی ضرورت
بشکریہ: ماخذ مجلۂ حطین، شمارہ ۷
ایک اور ’اسامہ‘ کی ضرورت
بشکریہ: ماخذ مجلۂ حطین، شمارہ ۷
مغرب
اور اسلام کے درمیان آج جو معرکہ بپا ہے وہ
حقیقتاً ہمہ جہت ہے۔ کفر اپنے تمام عسکری، مالی، مادی
وسائل سمیت امتِ مسلمہ اور اسکے
دین پر حملہ آور ہے اور موجودہ حالات و واقعات میں یہ
معرکہ ایک عظیم رخ اختیار کر گیا ہے۔
نوعِ انسانی کی تاریخ میں باطل نے بے شمار دلائل گھڑے ہیں اور کثیر الجہتی فکر کو نشوو نما دیا ہے لیکن شاید تاریخ میں یہ اس سے پہلے نہیں ہوا کہ باطل نے اتنی کثیر تعداد میں دنیا کے افکار واذہان کو متاثر کیا ہو کہ لوگوں نے اسے ایک طرزِ زندگی کے طور پہ اپنا لیا ہو اور انفرادی رویے سے لے کر اجتماعی فیصلوں تک سارے معیارات اس کے مطابق بدل دیے ہوں۔
یہ اس طرح ہوا کہ کفر کے قائم کردہ باطل نظام نے نہ صرف کفر کو ترویج دی بلکہ کفر کی قباحت کے احساس کو ختم کرنے کے لیے چند مستقل معیارات بھی تشکیل دیے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ ان معیارات کی روشنی میں کچھ لوگوں کو ہیرو کا درجہ دے کر انکی تعریف میں زمین وآسمان کےقلابے ملا دیے۔ چنانچہ موسیقی کو نہ صرف ترویج دی گئی بلکہ زمانۂ قدیم وجدید سے اس کے حق میں دلائل ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے گئے اور ’ایلوس پریسلے‘ اور ’مائیکل جیکسن‘ جیسے موسیقاروں کو اس میدان کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ آذادی اظہار کو نہ صرف ایک فلسفے کے طور پر زندہ رکھا گیا بلکہ اس مادر پدر آذاد ’آذادی‘ کو سرکاری سر پرستی بھی فراہم کی گئی، لوگوں کو خود اکسایا گیا۔ سلمان رشدی، گستاخانہ خاکے بنانے والا ملعون مصور اور امریکہ میں قرآن جلانے والا بد بخت پادری اس کی زندہ و جاوید مثالیں ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب ملعون ہی کیوں نہ ہوں لیکن مغرب تو انہیں آزادیٔ اظہار کی علامت اور اس میدان کے ہیرو کے طور پر ہی جانتا ہے۔ جمہوری نظام وضع کیا گیا تو اس کے حق میں دلائل لانے اور اس کے نفاذ کی خاطر عملی جدوجہد کرنے والے ہر شخص کو ہیرو قرار دیا گیا۔ چنانچہ ’ابراہم لنکن‘ سے لے کر’ گاندھی‘ تک اور ’جارج واشنگٹن‘ سے لے کے ’نیلسن منڈیلا‘ تک سب ہی ہیرو قرار پائے۔ قلوب واذہان کو دنیا میں مگن رکھنے کے لیے کھیل کو جب ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا گیا، تو ہر کھیل کے لیے کچھ ہیرو بھی تراشے گئے جن کی پیروی کو نوجوان نسلیں خود کے لیے سرمایہ ٔ افتخار جانیں۔ پس ’میرا ڈونا‘ سے لے کر ’ڈان بریڈمین‘ تک اور ’ محمد علی کلے‘ سے لے کر ’جہانگیر خان‘ تک سب ہی ہیرو ٹھہرے۔ مدعا واضح کرنے کے لیے تو اتنی مثالیں بہت ہیں۔
پس ایک طرف جہاں مغرب کی عسکری یلغار نے انسانیت کے جسد پر چرکے لگائے تو دوسری جانب اِس فکری یلغار نے اس کے قلب وذہن کو پراگندہ کر دیا۔ رفتہ رفتہ تمام الہامی مذاہب اس حملے کے سامنے دم توڑ گئے اور صرف اسلام ہی اس خالی میدان میں پوری آن بان شان کے ساتھ مقابلے کے لیے کھڑا رہا؛ اور یہ سعادت بہر حال اسی دین کو ہونی چاہیے تھی جو اللہ کا آخری پیغام ہو اور وہ بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ۔
خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد قائم ہو نے والے عالمی نظام کفر کے کرتا دھرتا بھی یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس کے مضبوط وقطعی دلائل اس باطل نظام کی نظریاتی بنیادوں پر کاری وار کرسکتے ہیں اور اسی دین کی کوکھ سے ایسی قد آور شخصیات جنم لے سکتی ہیں جو ان کے خلاف عملی مزاحمت کا نشاں بن جائیں۔ پس ایک طرف تو امت کو عقائدی و فکری محاذ پر گمراہ کرنے کے لیے دانشوروں کی ایک پوری فوج کھڑی کی گئی جو امت کو دینِ اسلام کا ایک مسخ شدہ تعارف کر وائے اور نسلِ نو کے ذہنوں میں تشکیک والحاد کے بیج بوئے۔ دوسری طرف اس بات کا بھی پورا اہتمام کیا گیا کہ نوجوانانِ امت کی نگاہوں میں یا تو مذکورہ بالا موسیقاروں، کھلاڑیوں، سیاسی مداریوں وغیرہ کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے یا زیادہ سے زیادہ کچھ ایسے کرداروں کو جو محض فکر و تخیل کی دنیا کے شہسوار ہوں۔ نیز ایسے ہر فرد کو ان کی نگاہوں سے گرانے اور اس کی سیرت کو مشکوک ومطعون بنانے کی سعی کی جائے جس کا کردار امت کو غلامی کی زنجیریں توڑنے اور باطل کو للکارنے کا سبق دیتا ہو۔
لیکن یہ آخری تھا بہت سخت جان۔ اْدھر سے نظریاتی حملے شروع ہوئے۔ اِدھر سے فکری مزاحمت وجود میں آگئی۔ ہر خطے کے اہلِ حق علماء وداعی حضرات نے باطل افکار کی تلبیس واضح کی، الحاد و زندقے کا مقابلہ کیا، اشتراکی افکار اور مغربی ثقافت کی در اندازی روکی، حق و باطل کو جدا کر کے پیش کیا اور امت کی نظریاتی سرحدات کا تحفظ کیا۔ لیکن ابھی قوت کا مقابلہ قوت سے کر نے کا مرحلہ باقی تھا اور اس مرحلے کے لیے درکار تیاری کے لیے بھی کسی میدان کی تلاش تھی۔ پس اس ذات پاک نے اپنی بے مثل تدبیر کے ذریعے دین سے چمٹے ہوئے انھی بیدار مغزنوجوانوں کے سامنے جہادِ افغانستان کا دروازہ کھول دیا۔ یہ عظیم الشان معرکہ مسلم تا ریخ کا ایک روشن باب بن گیا لیکن اس کی کوکھ سے بھی اس بطلِ جلیل کی پیدائش ممکن نہ ہوئی جو کہ کفر کے خلاف مزاحمت کی علامت ہو، اگرچہ اس کے ظہور کی ابتدائی علامت خاک نشینوں پر ظاہر تھیں۔ اس جنگ کا خاتمہ ہوا اور اقتدار کی چھین جھپٹ نے اس کے روشن چہرے کو دھندلا کر دیا۔ بت شکنوں نے معاملے کا یہ رخ دیکھا تو اپنے اپنے وطن کو سدھارے لیکن بہت سوں پر کفر کے ہتھکنڈے کھل چکے تھے۔ مالِ غنیمت سے حصہ لینے کی بجائے مالک کی رضامندی کے واسطے اپنے صلے کو بھی بھول گئے۔
نوعِ انسانی کی تاریخ میں باطل نے بے شمار دلائل گھڑے ہیں اور کثیر الجہتی فکر کو نشوو نما دیا ہے لیکن شاید تاریخ میں یہ اس سے پہلے نہیں ہوا کہ باطل نے اتنی کثیر تعداد میں دنیا کے افکار واذہان کو متاثر کیا ہو کہ لوگوں نے اسے ایک طرزِ زندگی کے طور پہ اپنا لیا ہو اور انفرادی رویے سے لے کر اجتماعی فیصلوں تک سارے معیارات اس کے مطابق بدل دیے ہوں۔
یہ اس طرح ہوا کہ کفر کے قائم کردہ باطل نظام نے نہ صرف کفر کو ترویج دی بلکہ کفر کی قباحت کے احساس کو ختم کرنے کے لیے چند مستقل معیارات بھی تشکیل دیے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ ان معیارات کی روشنی میں کچھ لوگوں کو ہیرو کا درجہ دے کر انکی تعریف میں زمین وآسمان کےقلابے ملا دیے۔ چنانچہ موسیقی کو نہ صرف ترویج دی گئی بلکہ زمانۂ قدیم وجدید سے اس کے حق میں دلائل ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے گئے اور ’ایلوس پریسلے‘ اور ’مائیکل جیکسن‘ جیسے موسیقاروں کو اس میدان کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ آذادی اظہار کو نہ صرف ایک فلسفے کے طور پر زندہ رکھا گیا بلکہ اس مادر پدر آذاد ’آذادی‘ کو سرکاری سر پرستی بھی فراہم کی گئی، لوگوں کو خود اکسایا گیا۔ سلمان رشدی، گستاخانہ خاکے بنانے والا ملعون مصور اور امریکہ میں قرآن جلانے والا بد بخت پادری اس کی زندہ و جاوید مثالیں ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب ملعون ہی کیوں نہ ہوں لیکن مغرب تو انہیں آزادیٔ اظہار کی علامت اور اس میدان کے ہیرو کے طور پر ہی جانتا ہے۔ جمہوری نظام وضع کیا گیا تو اس کے حق میں دلائل لانے اور اس کے نفاذ کی خاطر عملی جدوجہد کرنے والے ہر شخص کو ہیرو قرار دیا گیا۔ چنانچہ ’ابراہم لنکن‘ سے لے کر’ گاندھی‘ تک اور ’جارج واشنگٹن‘ سے لے کے ’نیلسن منڈیلا‘ تک سب ہی ہیرو قرار پائے۔ قلوب واذہان کو دنیا میں مگن رکھنے کے لیے کھیل کو جب ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا گیا، تو ہر کھیل کے لیے کچھ ہیرو بھی تراشے گئے جن کی پیروی کو نوجوان نسلیں خود کے لیے سرمایہ ٔ افتخار جانیں۔ پس ’میرا ڈونا‘ سے لے کر ’ڈان بریڈمین‘ تک اور ’ محمد علی کلے‘ سے لے کر ’جہانگیر خان‘ تک سب ہی ہیرو ٹھہرے۔ مدعا واضح کرنے کے لیے تو اتنی مثالیں بہت ہیں۔
پس ایک طرف جہاں مغرب کی عسکری یلغار نے انسانیت کے جسد پر چرکے لگائے تو دوسری جانب اِس فکری یلغار نے اس کے قلب وذہن کو پراگندہ کر دیا۔ رفتہ رفتہ تمام الہامی مذاہب اس حملے کے سامنے دم توڑ گئے اور صرف اسلام ہی اس خالی میدان میں پوری آن بان شان کے ساتھ مقابلے کے لیے کھڑا رہا؛ اور یہ سعادت بہر حال اسی دین کو ہونی چاہیے تھی جو اللہ کا آخری پیغام ہو اور وہ بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ۔
خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد قائم ہو نے والے عالمی نظام کفر کے کرتا دھرتا بھی یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس کے مضبوط وقطعی دلائل اس باطل نظام کی نظریاتی بنیادوں پر کاری وار کرسکتے ہیں اور اسی دین کی کوکھ سے ایسی قد آور شخصیات جنم لے سکتی ہیں جو ان کے خلاف عملی مزاحمت کا نشاں بن جائیں۔ پس ایک طرف تو امت کو عقائدی و فکری محاذ پر گمراہ کرنے کے لیے دانشوروں کی ایک پوری فوج کھڑی کی گئی جو امت کو دینِ اسلام کا ایک مسخ شدہ تعارف کر وائے اور نسلِ نو کے ذہنوں میں تشکیک والحاد کے بیج بوئے۔ دوسری طرف اس بات کا بھی پورا اہتمام کیا گیا کہ نوجوانانِ امت کی نگاہوں میں یا تو مذکورہ بالا موسیقاروں، کھلاڑیوں، سیاسی مداریوں وغیرہ کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے یا زیادہ سے زیادہ کچھ ایسے کرداروں کو جو محض فکر و تخیل کی دنیا کے شہسوار ہوں۔ نیز ایسے ہر فرد کو ان کی نگاہوں سے گرانے اور اس کی سیرت کو مشکوک ومطعون بنانے کی سعی کی جائے جس کا کردار امت کو غلامی کی زنجیریں توڑنے اور باطل کو للکارنے کا سبق دیتا ہو۔
لیکن یہ آخری تھا بہت سخت جان۔ اْدھر سے نظریاتی حملے شروع ہوئے۔ اِدھر سے فکری مزاحمت وجود میں آگئی۔ ہر خطے کے اہلِ حق علماء وداعی حضرات نے باطل افکار کی تلبیس واضح کی، الحاد و زندقے کا مقابلہ کیا، اشتراکی افکار اور مغربی ثقافت کی در اندازی روکی، حق و باطل کو جدا کر کے پیش کیا اور امت کی نظریاتی سرحدات کا تحفظ کیا۔ لیکن ابھی قوت کا مقابلہ قوت سے کر نے کا مرحلہ باقی تھا اور اس مرحلے کے لیے درکار تیاری کے لیے بھی کسی میدان کی تلاش تھی۔ پس اس ذات پاک نے اپنی بے مثل تدبیر کے ذریعے دین سے چمٹے ہوئے انھی بیدار مغزنوجوانوں کے سامنے جہادِ افغانستان کا دروازہ کھول دیا۔ یہ عظیم الشان معرکہ مسلم تا ریخ کا ایک روشن باب بن گیا لیکن اس کی کوکھ سے بھی اس بطلِ جلیل کی پیدائش ممکن نہ ہوئی جو کہ کفر کے خلاف مزاحمت کی علامت ہو، اگرچہ اس کے ظہور کی ابتدائی علامت خاک نشینوں پر ظاہر تھیں۔ اس جنگ کا خاتمہ ہوا اور اقتدار کی چھین جھپٹ نے اس کے روشن چہرے کو دھندلا کر دیا۔ بت شکنوں نے معاملے کا یہ رخ دیکھا تو اپنے اپنے وطن کو سدھارے لیکن بہت سوں پر کفر کے ہتھکنڈے کھل چکے تھے۔ مالِ غنیمت سے حصہ لینے کی بجائے مالک کی رضامندی کے واسطے اپنے صلے کو بھی بھول گئے۔
شہادت ہے مقصود و مطلوبِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشو رکشائی
نہ مالِ غنیمت، نہ کشو رکشائی
وقت دبے پاؤں آگے چلتا گیا۔ یہاں تک کفر نے حجاز کی مقدس سر زمین پر اپنے پنجے گاڑے۔ وقت آ گیا تھا کہ قدرتِ الہی وہ معجزہ دکھادے جو اسلام کے شایانِ شان ہو۔ مالک ارض وسماء کو اپنی مقدس زمین کی یوں پامالی پسند نہ آئی۔ بت شکنوں کے دل سے پہلے آہیں نکلیں، پھر سرگوشیوں کا روپ دھارا اور پھر صدائے احتجاج بلند ہوئی جو بالآخر للکار کو صورت اختیار کر گئی۔ اس للکار نے ایوانوں میں لرزہ پیدا کر دیا۔
اُدھر جہاد کی سر زمین پر بھی کچھ بوریا نشینوں نے سر اٹھایا۔ ایک ہاتھ میں گن اور دوسرے ہاتھ میں قرآن،دیکھتے ہی دیکھتے کفر کے بت سڑکوں پر لٹکائے گئے اور اقتدار کے بھوکوں نے بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی۔
حجاز کے مقدس شاہینوں پر زمین تنگ ہوئی تو خراسان کے بوریا نشینوں نے بازو واکر دیے۔ یوں دو عظیم الشان قوتوں کا ملاپ ہو گیا۔
دونوں نے ایک مقصد کے لیے حلف اٹھایا کہ رب کی دھرتی پر رب کا نظام۔ اس باہمی اختلاط نے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا ماحول بنا جس میں خدائی قانون روح رواں تھا۔ ایک گروہ اگر مال لایا تو دوسرے نے خلوصِ دل سے وفاداری وحفاظت کا حلف اٹھایا۔ امت کا یہی وہ دور ہے جو چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، مسلکی اختلاف کے باوجود ایک ساتھ رہنے کا مظہر ہے۔
امت کی پچھلی سو سالہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی ایک گروہ نے مسلکی اختلاف کے باوجود دوسرے کی قیادت قبول کی ہو اور دوسرے نے پہلے کی عزت کی ہو، اور ہر دو نے ایک دوسرے کے لیے دل کھول کر رکھ دیے ہوں۔ یقیناً یہ عقیدۂ توحید ہی تھا اور رب کی طرف سے ڈالی گئی باہمی الفت تھی۔ پھر علم وعمل کا تبادلہ بھی معرضِ وجود میں آنے لگا۔ صدیوں سے چھایا چلا آنے والا جمود بھی ٹوٹا اور تعصب بھی۔ امت کے فقہاء ان کا مرجع تھے تو کتاب وسنت کی جانب رجوع ان کا دستور۔
یہ کوئی جامد معاشرہ نہ تھا۔ اس میں باہمی ادب و احترام اور رواداری کی وہ فضا تھی جس کی بنیاد قانونِ الٰہی پر تھی۔ یہ معاشرہ جہاں امر بالمعروف کے آداب سے واقف تھا وہیں نہی عن المنکر کے لیے بے چین۔ یہ دو معاشروں کا ملاپ بھی تھا۔ عرب کے شعلہ نوا جھلسے بدنوں کو کوہِ ہندو کش کے چٹان صفت شہسواروں کے ساتھ شیر و شکر ہونے کا موقع ملا تھا۔ ایک گروہ اگر مانندِ مہاجرین تھا تو دوسرامانندِ انصار۔ اخوت و ایثار کے شاندار مظاہرے وجود میں آئے۔
اس اتحاد و اشتراک کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ دنیا بھر کے صالح ذہنوں کے لیے افغانستان ایک مقناطیس کی حیثیت اختیار کر گیا۔ چہار عالم سے ہزاروں لوگ ہجرت کر کے یہا ں آباد ہوئے۔ بےعمل اور کمزور مسلمان جن کے دلوں میں ایمان کی کچھ رمق ابھی باقی تھی، اس سرزمین کو اسلام کے نشان کے طور پر دیکھنے لگے۔ کوئی ملا عمر کی صداقت وجاں نثاری کے گن گاتا تھا تو کو ئی شیخ اسامہ کی بہادری کا معترف۔ کسی کی زبان پر قندھار کے لنگڑے گورنر کی کہانیاں تھیں تو کوئی کابل میں بے مثال امن کےقصیدے پڑھ رہا تھا۔
صورتحال کا مشاہدہ کرتے کفر کب سے دانت دبائے بیٹھا تھا۔ اس کا شیطانی وجدان اسے کب سے خبردار کر رہا تھا کہ یہ صرف خالی خولی نظام نہیں اور نہ کچھ جزوی اسلامی قوانین کا مرقع، بلکہ اس کی کوکھ سے وہ کردار اور واقعات جنم لے رہے ہیں جو عنقریب اس کے مقرر کردہ پیمانوں کو بدل کر رکھ دیں گے، اچھائی اور برائی کو پرکھنے کے لیے ’الٰہی قانون‘ پھر پیمانہ بن جائے گا۔ لہٰذا اس نے موقع غنیمت جان کر اپنی پوری قوت سے اس پر یلغار کر دی۔ ایمان والوں نے ایک لحظہ ضائع کیے بغیر فیصلہ سنا دیا:
’’یہ وہ ہی تو ہے جس کا تمہارے رب اور اس کے رسول ﷺ نے تم سے وعدہ فرمایا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا تھا‘‘۔
جن کے دلوں میں نفاق تھا وہ اور بڑھ کر کفر میں داخل ہوئے، اور جنھوں نے اپنا آپ اللہ کو پیش کردیا تھا، یہ معرکہ ان کے بلندی درجات کا ذریعہ بن گیا۔
ایمان اور وفا داری کے حیران کن واقعات پیش آئے۔ قلعہ جنگی کے کنٹینروں اور بیرکوں سے بہتا خون بہت سارے جذبات کو مہمیز دے گیا۔ عقل نے گنگ ہو کر یہ منظر دیکھا کہ ہزار لالچ، دھمکی، تحریص کے جواب میں امیر المومنین صرف ایک فرمانِ رسول بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مسلمان اپنے بھائی کو کافر کے حوالے نہیں کرتا۔
تورا بورا کے پہاڑ جہاں شہیدوں کے خون سے تر ہوئے، وہاں کئی منافقوں کے چہرے بھی دنیا کے سامنے کھل گئے۔ غلاموں نے ڈالروں کے بدلے مجاہدوں کے جسم تو کفار کے حوالے کر دیے لیکن ان کی روح امت میں دوڑنے لگی۔ کہیں پر لاشوں سے خوشبو آتی تھی اور کہیں کو ئی ظلم رسیدہ قیدی ظلم کے کوڑے کھا کر بھی احد احد کا نعرۂ مستانہ بلند کرتا تھا۔
نشہ اور بردہ فروشی جس قبیلے کی پہچان تھی، وہ اچانک ایک انگڑائی لے کر بیدار ہوا اور ان ستم رسیدوں کا میزبان بن گیا۔ طاغوت کے کروز اور ڈیزی کٹر اپنی ہی گھن گھرج میں ڈوب گئے جو اعلان کر رہی تھی کہ: بے کار ہے، ہم سیمنٹ اور پتھر کے بنکر میں تو سوراخ کر سکتے ہیں لیکن ان چٹان صفتوں کے ایمان میں نہیں۔ غلا م آقا کو بچانے نکلے، سازشوں کا جال بنا۔ شہادتوں پر شہادتیں ہوئیں لیکن ہر گرنے والا لاشہ کئی زندگیوں کو جنم دے جاتا۔
کفر جھنجلا سا گیا۔ میڈیا کو حکم ہوا کہ ناکامی کو کامیابی سے بدل دو۔ شور مچنے لگا۔ دشمن اسامہ، طالبان دہشت گرد، ملا عمر تخریب کار، رٹے رٹائے طوطے کی طرح کا شور۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ سپرنگ کو جتنا دبایا وہ اتنا ہی باہر آیا۔ شیخ اسامہ شجاعت و بسالت کے آئینہ دار ٹھہرے تو ملا عمر جرأت و وفاداری کے۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام خود کفر ہی کرنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قرآن سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بن گئی۔ قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں پھر بلند ہونے لگیں۔ دین بیٹھک اور چوپالوں کے بحث و مباحثے سے نکل کر ایک زندہ وجاوید اور سنجیدہ مسئلے کا رخ اختیار کر گیا۔ عالمِ افق پر توحید کی کرنیں پھر جلوہ گر ہو ئیں۔ قدامت پسندی اور بنیاد پرستی کے طعنوں سے اس کا تو کچھ نہ بگڑا مگر یہ سنت اور بدعت میں تفریق ضرور کر گیا۔ وہ نظریات اور تصورات جو پچھلے ڈیڑھ سو سال میں صرف کتابوں اور درسوں کی زینت بنے ہوئے تھے، وہ یک بیک حقیقت کا روپ دھار گئے۔ افسانوی کردار زندہ وجاوید پیکر میں ڈھل گئے۔ اعلیٰ نسبی، بلند کر داری، شجاعت وبہادری، اطاعتِ رسول، حق کے راستے میں ثابت قدمی اور پامردی جیسے مظاہر، جن کو سید قطب کے الفاظ میں ’سیاست کی منافقت‘ نے تقریباً دھندلا دیا تھا، وہ شیخ اسامہ و دیگر کے روپ میں جلوہ گر ہو گئے۔
اگر ان واقعات کا معروضی جائزہ لیا جائے تو شاید ہی کسی تحریک نے کم از کم پچھلے پانچ سو سال میں رائے عامہ کو اِس طرح متاثر کیا ہو، اور شاید ہی کسی دوسری تحریک کو ہم ’عالمی تحریک‘ کا نام دے سکیں جو صرف ایک خطۂ زمین کا قبضہ چھڑانے کے لیے یا مسلمانوں کے کچھ جزوی مسائل کا حل کرنے کے لیے نہ بپا ہو ئی ہو، بلکہ عالمی سطح پر عالمِ کفر کے خلاف دین وامت کی مکمل ترجمانی کرتی ہو اور اس کے راستے میں ہر مشکل برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ مزید براں وہ شیخ اسامہ جیسے کرداروں کو بھی جنم دے جو ایک طرف جہاد کا ایک حوالہ ہوں، اور دوسر ی طرف ایمان اور کردار کی ایک سادہ ہ بے ساختہ تصویر پیش کریں۔
انھوں نے اس گئے گزرے دور میں بھی ایمان کا ایک معیار قائم کر دیا۔ لمبے درسوں، فکری و نظری مباحث، دینی اصطلاحات کی تشریح سے ہٹ کر ایک سادہ اور غیر مبہم تصور سے امت کو روشناس کرایا۔ اور وہ یہ تھا کہ ’اللہ کے دین کے علاوہ کوئی اور بات قابلِ قبول نہیں‘۔ یہ تصور عوام المسلمین میں بہت مقبول ہوا اور یوں وہ اس مقصد میں مکمل کامیاب ہوئے کہ دین کو معاشرے کا مسئلہ بنا دیا۔ (آج کہیں دین کی مخالفت بھی ہو رہی ہے تو وہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ دین معاشرے کا موضوع بنا ہے۔
؎تندیٔ بادِ مخالف سے
نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
عوام کے لیے کسی دور افتادہ پہاڑ کی غار میں بیٹھے ایک بوریا نشین کا مقام، کسی ریاستی ملا سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ہزاروں اور لا کھوں کے چہرے سنتِ رسول سے مزین ہوئے۔ دروس میں شرکت کر نے والوں کی تعداد اچانک درجنوں سے سینکڑوں اور ہزاروں میں جا پہنچی۔ اپنی بنیاد جاننے کے شوق میں لاکھوں دماغوں نے لائبریریوں اور علماء سے رابطہ کیا۔ ملاحمِ کبریٰ، ظہورِ مہدی، علامتِ قیامت کے متعلق لو گوں کے اندر کبھی اتنا شوق نہ جاگتا، اگر شیخ اسامہ جیسے کردار پردۂ سکرین پر نمودار نہ ہوتے۔
حق کا ایک اور مر حلہ باطل کا پردہ انتہائی حد تک چاک کر دینے سے تعلق رکھتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ باطل ہمیشہ ایمان کے ساتھ سیدھی ٹکر لینے سے بچتا ہے۔ وہ دھوکے اور جھوٹ کی آڑ میں کام کر تا ہے۔ اسے معلوم ہو تا ہے کہ جیسے ہی ’آمنا سامنا‘ ہوا وہ بے نقاب ہو جائے گا۔ اسی مقصد کے لیے حق باری تعالیٰ نے یہ گروہِ مومنین کی ذمہ داری رکھی ہے کہ وہ باطل کو للکاریں، اسے مقابلے پر مجبور کریں تاکہ وہ بے نقاب ہو جائے اور اس کے دجل و فریب کا پردہ چاک ہو سکے۔ پس اس گروہِ مومنین کا بپا ہونا تھا کہ کفر اپنے دجل و فریب کے پردے چاک کر کے باہر آ گیا۔
وہ جو ’انسانی رواداری‘، ’دوسروں کی مذہبی روایات کا احترام‘ کا پر چار کرتا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کے کارٹون بنا کر اپنے اس دجل کا پردہ خود ہی چاک کر ڈالا۔ جن صلیبی جنگوں کے تصور سے ہی وہ کانپ اٹھتا تھا، اس کا اظہار ’بش‘ نے خود ہی کر ڈالا۔ انسانی جان کے تحفظ کا سب سے بڑا علمبردار افغانستان، عراق اور وزیرستان میں سب سے بڑے قتلِ عام کا مجرم ٹھہرا۔ مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر ہر انسان کو مساوی مواقع فراہم کر نے کا داعی ہر داڑھی والے سے ایسے خوفزدہ ہوا کہ اسے بنیاد پرست قرار دے کر زندگی کے ہر معاملے سے ہٹانے لگا۔ قانون کی بالا دستی کو سب سے اہم ماننے والا گوانتاموبے کے قیدیوں کو قانونی تقاضوں سے آخری حد تک دور رکھنے کا مجرم پایا گیا۔ پھانسی اور اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی قرار دینے والے نے ابو غریب کی جیل میں ظلم وستم کی وہ داستان رقم کی کہ اس کے اپنے انصاف پسند چیخ اٹھے۔
اپنی عزت کے تحفظ میں امریکی فوجی پر گولی چلانے والی عافیہ صدیقی کو جہاں ۸۶ سال کی قید کی سزا دی، وہاں اپنی فوجی’جنسی مریضہ‘ اور اس کے بوائے فرینڈ۔۔۔۔۔ جنھوں نے ابو غریب جیل میں انسانیت سے گرے ہوئے جرائم کا ارتکاب کیا۔۔۔۔ انھیں صرف ڈھائی ماہ ’ذہنی معالج‘ کی کنسلٹینسی (consultancy) میں دیا۔
اسی طرح شاتمِ رسول ’رشدی‘ کو اگر برطانیہ نے ’سر‘ کے لقب سے نوازا تو جرمنی کی چانسلر ’ملعون کارٹونسٹ‘ کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئی۔ ٹونی بلیئر نے پرائم منسٹری سے فراغت کے بعد ’پوپ کی نوکری‘ اختیار کی اور بش نے اپنے آپ کو خدا کی طرف سے مامور بتلایا۔ اوبامہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ امریکہ جو چاہے کر سکتا ہے۔
زرداری کہنے لگا کہ یہ لوگ ہمارا لائف اسٹائل بدلنا چاہتے ہیں۔ گویا خود اقرار کیا کہ اس کا ’لائف اسٹائل‘ اسلام کے علاوہ کچھ اور ہے۔ مشرف کو مجبوراً ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگانا پڑا جو نیشنلزم کے کفر کے علاوہ کچھ نہیں۔ بزِبان قرآن:
’’ان کی اصل حقیقت تو ان کی باتوں سے ظاہر ہو چکی، اور جو کچھ یہ سینوں میں چھپاتے ہیں وہ اس سے بڑھ کر ہے‘‘۔
شکر صد شکر کہ شیخ اسامہ و دیگر کی دولت ان کے سینوں کا عناد بھی ہم پر کھل گیا۔ وہ کفر کے خلاف دین وامت کے دفاع کی علامت ہیں۔ انہوں نے اپنے کردار اور قربانیوں سے اسلامی معیارات اور کفریہ معیارات کے درمیان ایک حدِ فاصل قائم کردی ہے۔ ان سے محبت اللہ کی طرف سے عطا کردہ تحفہ ہے، جس کی بنیاد بنا کر امتِ مسلمہ اپنے حالات و واقعات میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے وہ صرف ایک مجاہد نہ تھے بلکہ مسلسل قربانیوں نے انہیں ایمان کے اس درجے پر فائز کر دیا تھا جس کی فراست سے شیطان بھی اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ اس پر آشوب دور میں شاید ان تمام اثرات کا احاطہ ممکن نہ ہو جو آپ کی جدوجہد اور شہادت نے امت پر چھوڑے ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ امت کی بیداری خونِ شہیدان مشروط ہے۔
مغرب کا ڈر ٹھیک تھا، اگر وہ شیخ اسامہ کی لاش امت کے حوالے کر دیتا تو اس بد ترین فتنے کے دور میں بھی یہ امت دعویٰ کرتی کہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے۔ شیخ اسامہ پہلے تھے مگر آخری نہیں۔ امت کو اگر اپنا وجود باقی رکھنا ہے تو ایک اور ’اسامہ‘ کی ضرورت ہے جو کفر کےخلاف ہر محاذ پر کھڑا رہے۔
اور الحمد اللہ مسلمان ماؤں کی کودوں میں پھر ایمان کے پھول کھلنے لگے ہیں۔
پی ڈی ایف،یونی کوڈ
Zip Format
http://www.box.com/s/47bdfcd9cb1728ed7352
پی ڈی ایف
http://www.box.com/s/1604364b62d97352707c
یونی کوڈ (ورڈ)
http://www.box.com/s/5649948f64924528fbc6
----------------------------------
اخوانکم فی الاسلام
انصار اللہ ویب سائٹ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔