Monday, December 30, 2013

اسلامی حکومت کو چھوڑ کر غیر اسلامی حکومت چلانے والوں کے کافر ہونے پر عصر قدیم و جدید کے علما کے فتوے

اسلامی حکومت کو چھوڑ کر غیر اسلامی حکومت چلانے والوں کے کافر ہونے پر عصر قدیم و جدید کے علما کے فتوے
اس عنوان کو ثابت کرنے کے حوالے سے جن علماء عصر قدیم و جدید کے خیالات کو پیش کیا گیا ہے وہ محض ان کے فقہی استنباط نہیں اور نہ ہی مجتہدین کے علمی اجتہاد و قیاس آرائیاں ہیں بلکہ یہ ان اسلامی معلومات کا اظہار ہے جو کتاب و سنت کی روشنی میں عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے نزدیک طے شدہ ہیں جن کو علماء عصرِ قدیم و جدید کا متفقہ اجماع حاصل ہے۔
     چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ اس عنوان کے ثبوت میں اجماعِ علماءِ اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے (البدایہ والنہایۃ 13/128) کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ جس کسی نے محمد ﷺ پر نازل شدہ شریعت کو چھوڑ کر سابقہ منسوخ شریعتوں میں سے کسی شریعت سے رجوع کیا تو ایسے شخص نے اسلامی شریعت کا انکار کیا ہے۔ بھلا کوئی یہ تو بتائے کہ اس شخص کے بارے میں کیا نظریہ رکھا جائے جو سابقہ شریعت سے رجوع تو نہیں کرتا بلکہ خود ساختہ یا مثال کے طور پر چنگیز خان (اور امریکہ روس، برطانیہ وغیرہ) کے نظامِ حکومت کو اپنے نزاعات کا حل سمجھ لے؟ ہر انصاف پسند شخص کا یہی جواب ہو گا کہ ایسے شخص کو بھی باتفاق علماء اسلام کافر جانا جائے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ کے استاذ محترم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کے ملفوظات بھی اس بارے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنی کتاب مجموع الفتاویٰ 28/524 میں فرماتے ہیں کہ چاروناچار کسی حالت میں بھی جس نے شریعت محمدیہ کی اتباع چھوڑ کر کسی اور دین یا طریقے کی اتباع کو روا جانا اس نے دین اسلام کا انکار کیا ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اﷲ نے اس عنوان کی بالفاظِ دیگر یوں تشریح کی ہے کہ جس کسی نے کسی متفقہ حرام کو حلال جانا یا حلال کو حرام جانا یا کسی قسم کی تحریف، تبدیلی یا ردّ و بدل کرنے کا ارتکاب کیا تو علماء اسلام کی نظر میں ایسا کرنے والا مرتد اور کافر ہے جس کا دینِ اسلام سے تعلق نہ رہا۔
شیخ الاسلام اس بات کی تصدیق کے لئے سورۂ مائدہ کی آیت 44 :
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُُوْنَ
اور جو کوئی اﷲ کے نازل کردہ (قوانین) کے مطابق فیصلہ (و حکم) نہ کرے پس ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔
کا حوالہ دیا کرتے تھے۔
دورِ جدید کے علماء اسلام کا بھی اس سلسلے میں یہی اجماع مشہور ہے جن میں سے ہم یہاں پر صرف دو علماءِ حق کے ملفوظات ذکر کر رہے ہیں۔
چنانچہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اﷲ کا بیان ہے کہ جس کسی نے بھی شریعت محمدیہ ﷺ کے ابدی اور حتمی ممنوعات میں سے کسی بھی ممنوع عمل (مثلاً زنا، شراب نوشی، سود خوری، چوری، رہزنی، ڈکیتی، قتل و غارتگری، جھوٹ، بددیانتی، وعدہ خلافی، گالم گلوچ، تہمت تراشی، والدین کی نافرمانی، جھوٹی قسم، مجاہد یا فوجی کا (کفار کے مقابلے میں) میدانِ جہاد سے بزدلی دکھا کر بھاگنا، غیر اﷲ کے نام نیاز دینا اور اﷲ کی یکتانیت میں کسی کو شریک جاننا) کو حلال اور روا جان کر خود کیا یا کسی سے کروایا یا دوسروں کو کرنے کی دعوت دی تو ایسا شخص باتفاق علماءِ اسلام دین اسلام سے قطعی طور پر خارج ہے۔ (مجموع الفتاوی 1/137)۔
الشیخ عمر الاشقر دیارِ سعودیہ کے سابق مفتی الشیخ محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف آل شیخ کے ملفوظات کے حوالے سے اس اجماع سے متعلق فرماتے ہیں کہ انسانوں کے دو گروپوں کے یقینی طور پر کفر میں داخل ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ہے:
1۔            ایک گروہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شریعت ِ اسلامیہ کے بالمقابل غیر شرعی نظام گھڑ کر اﷲ کی شریعت کا مقابلہ کیا جو اس نظام کو لوگوںپر ٹھونس کر اصل شریعت سے لوگوں کو ناآشنا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس قسم کے لوگوں کے کافر ہونے پر تمام علماء اسلام کا اجماع یقینی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس قسم کے لوگوں کے کرتوت کی سخت مذمت فرمائی ہے۔
چنانچہ سورۂ شوری آیت نمبر 21
اَمْ لَھُمْ شُرَکٰؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ۔
میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے سفارشی قسم کے جھوٹے لوگوں نے دین اسلام کے نام سے کچھ قوانین گھڑ لئے ہیں جن کو گھڑنے اور ان پر عمل کرنے پر اﷲ تعالیٰ نے کبھی بھی حکم نہیں دیا ہے ۔
اس وعید میں سر فہرست علماء یہود اور صوفیائے نصاریٰ شامل ہیں جنہوں نے واقعتاً تورات انجیل زبور اورقرآن کے برخلاف قانونی دفعات بنا لئے تھے جن کے مطابق اپنے معاشرے میں (رنگ و نسل کی برتری کو سامنے رکھ کر) لوگوں کے معاملات نزاعات ، جھگڑے اور مقدمات فوجداری ودیوانی اور حدود کو نمٹاتے تھے جن کی بیخ کنی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے سورۂ توبہ آیت نمبر31
اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَہُمْ اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔
اتاری ہے ۔
اس قسم کا کردار امت محمدیہ کے علماء مشائخ یا مذہبی سیاسی ، پیشواؤں میں موجود ہوتو سب کے سب اس مصداق کے مطابق بلاشبہ کافر ہیں ۔
دوسراگروہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے قوانین و ضوابط نظاموں اور فیصلوں کو (خلاف شریعت اسلامیہ ہونے کو جانتے ہوئے ) قبول کیا۔

مکمل تحریر  »

آسمانی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے کا اصل مفہوم

آسمانی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے کا اصل مفہوم
اس مفہوم سے روشناس ہونا اور انسانی معاشرے کے ہر خاص و عام کو آگاہ کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ دین اسلام کے اصل حقائق سے ناواقفیت اور اس کے اصل مدعا سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن، مغرب نواز اور اسلامی لبادے میں پیش ہونے والے مستشرق دانشوروں کی اسلام کش سازشوں کی وجہ سے اسلام کے بہت سے شعبوں، پہلوؤں اور زاویوں کو سمجھنے میں بے اعتدالی، تذبذب اور شکوک پیدا ہو چکے ہیں۔ ان بے اعتدالیوں اور شکوک کے نتیجے میں بہت سے مسلمان یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ’’آسمانی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے کا اصل مفہوم‘‘ صرف مندرجہ ذیل باتوں پر منحصر ہے:
1۔            پانچ ارکانِ اسلام کو ماننا اور ان پر عمل کرنا ہے۔
2۔ شادی بیاہ اور خاندانی تعلقات کا جوڑ توڑ۔
3۔ حکومتی سطح پر مجرموں، سفاکوں اور ملزموں کو سزائیں دینا ہے۔
4۔ نام نہاد شریعت بل اور خود ساختہ اسلامی دستور کو تسلیم کرنا ہے۔
     چنانچہ میں نے قرآن اور فرمانِ رسول ﷺ کی روشنی میں اس عنوان کو صاف صاف بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس عنوان کو ٹٹولنے سے ہمارے سامنے دو طرح کی آیات اور آسمانی تعلیمات سامنے آتی ہیں۔
1۔            ایک تو وہ آیات جو ہر فرد انسانی کو دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے اور اپنے مسائل کو اس کی تعلیمات کی روشنی میں حل کروانے پر زور دیتی ہیں۔ اس پہلو کی آیات ایسی جامع آیات ہیں جنہوں نے اسلام کے تمام شعبوں کو گھیر لیا ہے خواہ وہ پہلو اسلامی عقائد ہوں یا اسلام کے عملی پہلو کے مثبت اور منفی احکام اور حدود ہوں۔
     سورۂ مائدہ آیت نمبر 44میں دین اسلام کی حکمرانی کی جامعیت اور اکملیت کو خوب اُجاگر کیا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اﷲِ وَ کَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولَـٰٓـئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ
بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے، اسی کے مطابق انبیاء جو (اللہ کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں۔ اور مشائخ اور علماء بھی کیونکہ وہ کتاب اللہ کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حُکمِ الٰہی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا۔ اور جو کوئی اﷲ کے نازل کردہ احکام (وقوانین) کے مطابق فیصلہ (و حکم) نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔
اس آیت میں تورات کا ذکر کر کے تمام آسمانی کتابوں کو قانونِ اسلامی کا علمبردار ٹھہرایا گیا ہے اور ضمناً قرآنِ کریم کو اسلامی دستور کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس دنیا میں جہاں بھی مسلمان رہتے ہوں وہاں اسلامی طرزِ زندگی کو اپنا کر اسلامی حکمرانی کے تقاضوں کو فروغ دیں اور اپنی زندگی کے کسی بھی گوشے کو اسلامی دستور اور اس کی تعلیمات سے منحرف نہ کریں تب دین اسلام کی جامعیت سامنے آئے گی جس کا رب العزت نے اس آیت کریمہ میں حکم دیا ہے۔
وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَ عِنْدَھُمُ التَّوْرٰةُ فِیْہَا حُکْمُ اﷲِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَالِکَ وَمَآ اُولٰئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (المائدہ:43)
اور یہ تم سے (اپنے مقدمات) کیونکہ فیصل کرائیں گے جبکہ خود ان کے پاس تورات، موجود ہے جس میں اﷲ کا حکم لکھا ہوا ہے (یہ اسے جانتے ہیں) پھر اس کے بعد اس سے پھر جاتے ہیں اور یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔
اور اسی عنوان کو سورۂ الممتحنہ آیت نمبر10 میں دہرایا گیا ہے:
ذَالِکُمْ حُکْمُ اﷲِ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ
یہی مذکورہ اُمور اﷲ تعالیٰ کی تعلیمات ہیں جن کو اے انسانو! ہم تم پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
اور اسی عنوان کو سورۂ انعام آیت نمبر 62 میں بیان کیا گیا ہے:
ثُمَّ رُدُّوْآ  اِلَی اﷲِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ اَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَھُوَ اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ
خوب سن لو فیصلہ اﷲ ہی کا ہو گا اور وہ بہت جلد حساب لے گا۔
اس حکمرانی میں انسانی ساخت کی طرز تعلیمات اور حکمرانی ناقابل تسلیم ہونا بتاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے سورۂ کہف آیت نمبر 26 میں فرمایا ہے:
لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا
اﷲ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
اﷲ تعالیٰ کے پیارے پیغمبر محمد رسول اﷲ ﷺ کی زبانی بھی واشگاف انداز میں اس عنوان کو سورۂ انعام آیت نمبر 114 میں واضح کیا گیا ہے:
اَفَغَیْرَ اﷲِ اَبْتَغَیْ حَکَمًا وَّ ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً 
اے انسانو!اور میری امت کے لوگو! کیا میں اﷲ کی حکمرانی کو چھوڑ کر تمہارے لئے کسی اور خود ساختہ حاکم کو تلاش کر لاؤں؟
درج بالا تمام آیات میں اسلامی شریعت کی بالادست اور حکمرانی اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسی سے رجوع کرنے کے پہلو کو عموم اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہی مفہوم آسمانی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے کا عام اور جامع مفہوم ہے۔
2۔ اور دوسری وہ آیات جن میں خاص طور پر عدل و انصاف کے فروغ کے لئے معاشرے میں پیش آمدہ فوجداری، دیوانی، اخلاق سوز اور انصاف شکن مقدمات میں اسلامی طرزِ حکومت کے ذریعے حل ڈھونڈنے کے لئے زور دیا گیا ہے۔
چنانچہ اﷲ تعالیٰ سورۂ نساء آیت نمبر 58 میں فرمایا ہے:
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ
اے امت محمد (ﷺ) کے لوگو! جب تمہیں اپنے سماجی اور معاشرتی اُمور میں آپس میں لین دین کرنے کی نوبت آئے تو ہمیشہ عدل و انصاف اور برابری کا سلوک اپنایا کرو۔
عمومی عدل و انصاف کی تعلیمات اُجاگر کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ سورۂ مائدہ آیت نمبر 44 میں اپنے آخری پیغمبر ﷺ کو خصوصی تعلیم دیتا ہے کہ:
جب آپ کسی بھی نزاع میں اصلاح کرنا چاہیں تو ہمیشہ انصاف کا دامن تھامے رکھیں۔
چنانچہ اس آیت میں اﷲ نے اپنے نبی ﷺ کو ایک قاضی، منصف اور عدل کے علمبردار کی حیثیت سے خطاب کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ دین اسلام ایک جامد اور خاموش دین نہیں ہے بلکہ دین اسلام ایک سرگرم، بیدار، متحرک، حساس اور ہمدردی سے سرشار دین ہے جو افراد سے لے کر قوموں اور ملکوں کے انفرادی اور اجتماعی امن و صلح اور سالمیت کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔
کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے آغازِ کائنات سے لے کر آج تک جب بھی کسی بھی معاشرے میں فسادِ عقیدہ یا معاشرتی بے اعتدالی دیکھی تو فوراً اس کی روک تھام کے لئے اپنے پیغمبر اور نمائندے بھیجے ہیں اور ہر ناانصافی کے پہلو اور اخلاق سوز کردار کا بائیکاٹ کیا ہے۔ قرآن مجید ایسی تعلیمات سے بھرا پڑا ہے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات اور لائحہ عمل ہے ، اس میں ہر لحاظ سے حکمرانی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لہٰذا (الحکم بما انزل اﷲ) کے تحت انسانی زندگی کے تمام گوشے شامل ہیں نہ کہ چند جزئیات ہیں جس طرح بعض اسلامی حقائق سے نابلد نام نہاد دانشور اور مغرب نواز مفکرین کا خیال ہے۔
چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے دین اسلام کی جامعیت اور اکملیت کو بیان فرما کر (الحکم بما انزل اﷲ) کی مکمل تشریح کر دی ہے۔ اس عنوان کے تحت اﷲ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ باقی نہیں چھوڑا جس کی نشاندہی اپنے امر و نواہی کے حوالے سے نہ کی ہو۔
کیونکہ قرآن و سنت نے جہاں (الحکم بما انزل اﷲ) کے حوالے سے :
1۔  عقائد کی اصلاح پر گفتگو کی ہے
2۔  تو عبادات پر بھی بات کی ہے۔
3۔  باہمی لین دین میں عدل و انصاف اور ہمدردی کی تلقین کی ہے۔
4۔  تو تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں رواداری اور ناانصافی کی شکلیں بھی بیان کی ہیں
5۔  عائلی، بلدیاتی، شہری، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات اور روابط کو استوار کرنے پر جہاں زور دیا ہے
6۔  وہاں حکومتوں کی تشکیل کا نقطہ بھی سمجھایا ہے۔
7۔ جہاں مسلم معاشروں میں باہمی تعلقات کے اصول بتائے ہیں
8۔ وہاں کافر ریاستوں اور طاغوتی حکومتوں سے امن کے معاہدوں کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
9۔  امن و سلامتی کے قیام کے لئے جہاں عدلیہ قائم کرنے کی تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ نظام عدل و انصاف کے وسائل بھی بتائے ہیں۔
10۔  اور جرائم کی روک تھام کے لئے قوانین تعزیر اور شرعی حدود بھی قائم کی ہیں۔
11۔  اسی طرح صحتمند معاشرے کے قیام کے لئے طبی مشوروں سے بھی نوازا گیا ہے۔
12۔  بہتر اور صالح انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے تعلیمی و بہبود کے اوپر بھی خاص توجہ دی ہے اور علم سیکھنے اور سکھانے پر بھی۔
13۔  معاشرے سے غربت و ناداری کا خاتمہ کرنے کے لئے بہتر ضوابط بتائے ہیں۔
14۔  ماتحتوں اور کمزوروں کے ساتھ ہمدردی کے اصول بھی بتائے گئے ہیں۔
15۔  ازدواجی اور خاندانی روابط کے اصولوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
16۔  نسل انسانی کی افزائش، ان کی کفالت اور زمہ داریوں کا نظام بھی پیش کیا ہے۔
17۔  فلکیات، معدنیات اور انجینئرنگ کے ٹیکنیکل فنوں کی تعلیم بھی پیش کی ہے
درج بالا شعبوں کا خاکہ پیش کرنے پر بخوبی آگہی مل سکتی ہے کہ دین اسلام چند جزئیات کا نام نہیں بلکہ دین اسلام ایک عالمگیر، جامع اور ہمہ جہت انسانی معاشرے کی رہبری کرنے والا آسمانی دین ہے جس کے تمام شعبوں پر یکساں طور پر عمل کرنا ہی (الحکم بما انزل اﷲ) کا اصل مفہوم ہے۔
چنانچہ جو شخص خود تو نماز پڑھتا ہے مگر اپنے ماتحتوں، ملازموں اور زیر اثر افراد کو نماز کے مواقع فراہم نہیں کرتا اور خود تو اسلامی حدود احکام اور اوامر کی بجاآوری کرتا ہے مگر دوسروں کے لئے اﷲ کی نافرمانی، فحاشی اخلاق سوز کردار کے دروازے کھلے رکھتا ہے خود تو اسلامی مشن کی بقا اور ترویج کے لئے تگ و دو کرتا ہے مگر اپنے معاشرے میں رہنے والوں کو بدعات خرافات اور لادینی نظریات کے پھیلاؤ سے نہیں روکتا، خود تو اسلام کو ہمہ گیر دین اور شریعت مانتا ہے مگر اس کے معاشرے میں معاملات اور نزاعات کو نمٹانے کے لئے غیر اسلامی قوانین اور لادین نظریات کو اپنایا جا رہا ہے تو اس کا مفہوم یہ نکلا کہ ایسے شخص نے سرے سے (الحکم بما انزل اﷲ) کے تقاضوں کی کھلی نفی اور صاف تردید کی ہے۔

مکمل تحریر  »

Thursday, December 12, 2013

ووٹ کو مشورہ پر قیاس کرنا



ووٹ کو مشورہ پر قیاس کرنا 
اسی طرح جمہوریت کے شیدائیوں کا یہ مؤقف ہے کہ مشورہ اور ووٹ ایک ہی چیز ہے اور ووٹ مشورہ لینا کا ایک جدید طریقہ ہے۔اس بات کی وضاحت تو اوپر خلیفہ کے انتخاب کے عنوان کے ضمن میں واضح ہوچکی ہے مگر اس سلسلہ میں چند مزید چند اہم امور سامنے رہیں۔سب سے پہلے اصولی بات یہ ہے کہ مشاورت وہاں کی جاتی ہے جہاں نص موجود نہ ہو اور جب نص موجود ہوتو شوریٰ کی کوئی حیثیت نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لاَ مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ ٓاَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا﴾
’’کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کے لئے جائز نہیں جب اللہ اور اس کا رسول ایک بات کا فیصلہ کردیں کہ انہیں اپنے معاملے میں اختیار مل جائے‘‘۔
 (الاحزاب:۳۶)
دوسرا یہ کہ مشورہ اور ووٹ دو الگ الگ نظاموں پر مبنی ہیں اور انہی کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ مشورہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ،رسول اللہ ﷺکی سنت اور حضراتِ صحابہ ﷡کا فعل ہے۔اس کے برعکس ووٹ کا ذکر نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی احادیث میں کہیں ملتا ہے اورامت کی ۱۴ سو سالہ تاریخ یعنی 1924ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک ووٹ کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
مشورہ کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ﴾ 
’’’اورآپ معاملے میں ان سے مشورہ لیں پھر جب آپ فیصلہ کرلیں تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتاہے‘‘۔
(آل عمران:۱۵۹)
یہاں فرمایا ’’جب آپ فیصلہ کرلیں ‘‘، یہ نہیں فرمایا کہ ان سے مشورہ لیں اور ان کی رائے کے مطابق فیصلہ کرلیں۔یہ بھی نہیں فرمایا کہ ان سے مشورہ لیں اور اکثریت کے مطابق فیصلہ کرلیں۔اسلام کا مزاج یہ ہے کہ مشورہ لینے والا ہی فیصلہ کرے ،مشورہ دینے والے نہیں۔
چنانچہ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ’’مشورہ ‘‘الگ چیز ہے اور قصد یا فیصلہ کرنا الگ چیز ہے۔اگر مشورہ دینا فیصلہ قرار پاتا تو بات یوں کی جاتی کہ اکثریت کے فیصلہ کے مطابق ہی فیصلہ کیا کریں چنانچہ پھر مشورہ کو ووٹ قرار دیا جاسکتا تھا۔
 اسی طرح سورۃ الشوریٰ کی آیت۳۸میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ﴿وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ﴾ ’’وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں ‘‘۔یہ نہیں فرمایا کہ ’’وہ اپنے معاملات اکثریت کے مشورہ کے مطابق کرتے ہیں‘‘۔اگر اللہ تعالیٰ اس طرح فرمادیتے تو قیامت تک کے لئے اکثریت کے مشورے اور رائے فیصلہ بن جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے مشور ہ کو فیصلہ نہیں بنایا۔
اس کے برعکس جمہوریت میں حاکمیت ہی افراد کی ہوتی ہے اس لئے ہر انسان کاووٹ اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔اگر ووٹ عوام کا فیصلہ نہیں اور صرف مشورہ ہے تو پھر ان کی حا کمیت بنتی ہی نہیں ۔حاکم حکم دیتے ہیں چنانچہ مشورہ دینے والے حاکم نہیں ہوسکتے۔چونکہ جمہوریت میں اکثریت حاکم ہے اس لئے اگر ہم ووٹ کو مشورہ اور رائے بنادیں گے تو ہمیں لوگوں کی حاکمیت کے جمہوری تصور اور نظریہ سے انکار کرنا پڑے گااور پھر جمہوریت کی تعریف ہی غلط ہوجاتی ہے۔اس لئے ووٹ نہ تو رائے ہے نہ مشورہ۔اسی طرح مشورہ عاقل اور عابد سے لیا جاتا ہے جبکہ ووٹ ہر جاہل و عالم دیتا ہے ۔مشورے میں بعض اوقات ایک آدمی کی رائے سو آدمیوں کی رائے پر بھاری ہوجاتی ہے۔جبکہ جمہوریت میں بقول علامہ اقبال   کہ:
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں
بندوں کو  گنا  کرتے  ہیں  تولا  نہیں  کرتے
اس حوالے سے آخر میں ایک حدیث بات کو بالکل واضح کردیتی ہے۔مجمع الزوائد حضرت ابن عباس﷛سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
((قلت یارسول اللّٰہ ﷺ!أرأیت ان عرض لناامر لم ینزل فیہ القرآن ولم تمض فیہ سنة منک قال تجعلونہ شوریٰ بین العابدین من المؤ منین ولا تفضونہ برأی خاصة))
’’میں نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ!اگر پیش آئے ہمیں کوئی ایسا امر جس کو ہم قرآن میں نازل نہ پائیں اور نہ آپ کی سنت میں ؟آپﷺنے فرمایا:’’اہل ایمان میں سے نیک لوگوں کی شوریٰ بناؤاور کسی اکے دکے کی رائے پر فیصلہ نہ کرو‘‘۔
 (الطبرانی فی الکبیر بحوالہ مجمع الزوائدج:۱ص:۱۷۸)
حضرت علی ﷛سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
((قال شاوروافیہ الفقھاء والعابدین ولا تضوا فیہ رأی خاصة))
’’آپﷺنے فرمایا:مشاورت کرواس میں فقہاء اور نیک لوگوں سے اور نہ چلو کسی اکے دکے کی رائے پر‘‘۔
(الطبرانی فی الاوسط واسنادہ ،مجمع الزوائد ج:۱ص:۱۷۸)

مکمل تحریر  »

Wednesday, December 11, 2013

صرف مجاہدین اسلام ہی امید کی روشن کرن ہیں :



صرف مجاہدین اسلام ہی امید کی روشن کرن ہیں :
اللہ رب العزت کابھی یہ اٹل فیصلہ ہے کہ جن ناگفتہ بہ اوربدترین حالات سے آج بے چارے مسلمان دوچار ہیں اس ذلت ورسوائی کو عزت وفلاح میں وہی لوگ تبدیل کریں گے جو اللہ رب العالمین کے لیے ’’الولاء والبراء‘‘پر پختہ یقین رکھتے ہیں ۔یعنی ان کی دوستیاں بھی اللہ کے لیے ہیں اور اُن کی دشمنیاں بھی اللہ کے لیے ہیں ،قادر وقدیر اللہ رب العالمین سے مدد طلب کرتے ہوئے وہ میدانوں میں کھڑے ہوتے ہیں،اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں ،کافروں اور ان کا تعاون کرنے والے مجرم اور ایجنٹوں سے جنگ کرتے ہیں ۔میدانوں میں ایک دوسرے کو تھامے رکھتے ہیں ۔قربانیاں پیش کرتے ہوئے دنیا کا کوئی مفاد ان کے پیش نظر نہیں ہوتا ۔بلکہ صرف اللہ ہی سے اجر وثواب کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔اُس وقت تک میدانوں میں ڈٹے رہتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل وکرم اور اذن واجازت کے پسندیدہ اور محبوب دین ’’دین اسلام ‘‘کو دنیا کے تمام باطل ومنسوخ دینوں پر غالب کردیں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًايَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ)النور: (55
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اورجنہوں نے نیک اعمال کیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا ۔جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا ،جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لیے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا ،جسے وہ ان لوگوں کے لیے پسند کرچکا ہے اور ان کے خوف وہراس کو وہ امن امان میں بدل دے گا ۔وہ لوگ میری عبادت کریں گے ۔میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے ۔اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں تو وہ لوگ فاسق ہیں ۔‘‘

مکمل تحریر  »