آسمانی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے کا اصل مفہوم
اس مفہوم سے
روشناس ہونا اور انسانی معاشرے کے ہر خاص و عام کو آگاہ کرنا بے حد ضروری ہے
کیونکہ دین اسلام کے اصل حقائق سے ناواقفیت اور اس کے اصل مدعا سے دور ہونے کے
ساتھ ساتھ اسلام دشمن، مغرب نواز اور اسلامی لبادے میں پیش ہونے والے مستشرق
دانشوروں کی اسلام کش سازشوں کی وجہ سے اسلام کے بہت سے شعبوں، پہلوؤں اور زاویوں
کو سمجھنے میں بے اعتدالی، تذبذب اور شکوک پیدا ہو چکے ہیں۔ ان بے اعتدالیوں اور
شکوک کے نتیجے میں بہت سے مسلمان یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ’’آسمانی تعلیمات کے مطابق
حکمرانی کرنے کا اصل مفہوم‘‘ صرف مندرجہ ذیل باتوں پر منحصر ہے:
1۔ پانچ ارکانِ اسلام کو ماننا اور ان پر
عمل کرنا ہے۔
2۔ شادی بیاہ اور خاندانی تعلقات کا جوڑ توڑ۔
3۔ حکومتی سطح پر مجرموں، سفاکوں اور ملزموں کو
سزائیں دینا ہے۔
4۔ نام نہاد شریعت بل اور خود ساختہ اسلامی دستور کو
تسلیم کرنا ہے۔
چنانچہ میں نے
قرآن اور فرمانِ رسول ﷺ کی روشنی میں اس عنوان کو صاف صاف بیان کرنے کی کوشش کی
ہے۔ اس عنوان کو ٹٹولنے سے ہمارے سامنے دو طرح کی آیات اور آسمانی تعلیمات سامنے
آتی ہیں۔
1۔ ایک تو وہ آیات جو ہر فرد انسانی کو
دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے اور اپنے مسائل کو اس کی تعلیمات کی روشنی
میں حل کروانے پر زور دیتی ہیں۔ اس پہلو کی آیات ایسی جامع آیات ہیں جنہوں نے
اسلام کے تمام شعبوں کو گھیر لیا ہے خواہ وہ پہلو اسلامی عقائد ہوں یا اسلام کے
عملی پہلو کے مثبت اور منفی احکام اور حدود ہوں۔
سورۂ مائدہ آیت نمبر 44میں دین اسلام کی
حکمرانی کی جامعیت اور اکملیت کو خوب اُجاگر کیا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشادِ
گرامی ہے:
اِنَّا اَنْزَلْنَا
التَّوْرَاةَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ
اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا
اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اﷲِ وَ کَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآءَ فَلَا تَخْشَوُا
النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولَـٰٓـئِکَ
ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ
بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے،
اسی کے مطابق انبیاء جو (اللہ کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں۔
اور مشائخ اور علماء بھی کیونکہ وہ کتاب اللہ کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس
پر گواہ تھے (یعنی حُکمِ الٰہی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ
ہی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا۔ اور جو کوئی اﷲ کے
نازل کردہ احکام (وقوانین) کے مطابق فیصلہ (و حکم) نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر
ہیں۔
اس آیت میں تورات
کا ذکر کر کے تمام آسمانی کتابوں کو قانونِ اسلامی کا علمبردار ٹھہرایا گیا ہے اور
ضمناً قرآنِ کریم کو اسلامی دستور کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس دنیا میں
جہاں بھی مسلمان رہتے ہوں وہاں اسلامی طرزِ زندگی کو اپنا کر اسلامی حکمرانی کے
تقاضوں کو فروغ دیں اور اپنی زندگی کے کسی بھی گوشے کو اسلامی دستور اور اس کی
تعلیمات سے منحرف نہ کریں تب دین اسلام کی جامعیت سامنے آئے گی جس کا رب العزت نے
اس آیت کریمہ میں حکم دیا ہے۔
وَکَیْفَ
یُحَکِّمُوْنَکَ وَ عِنْدَھُمُ التَّوْرٰةُ فِیْہَا حُکْمُ اﷲِ ثُمَّ
یَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَالِکَ وَمَآ اُولٰئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (المائدہ:43)
اور یہ تم سے (اپنے مقدمات) کیونکہ فیصل کرائیں گے جبکہ خود
ان کے پاس تورات، موجود ہے جس میں اﷲ کا حکم لکھا ہوا ہے (یہ اسے جانتے ہیں) پھر
اس کے بعد اس سے پھر جاتے ہیں اور یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔
اور اسی عنوان کو
سورۂ الممتحنہ آیت نمبر10 میں دہرایا گیا
ہے:
ذَالِکُمْ حُکْمُ اﷲِ
یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ
یہی مذکورہ اُمور اﷲ تعالیٰ کی تعلیمات ہیں جن کو اے
انسانو! ہم تم پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
اور اسی عنوان کو
سورۂ انعام آیت نمبر 62 میں بیان کیا گیا ہے:
ثُمَّ رُدُّوْآ اِلَی اﷲِ مَوْلٰھُمُ
الْحَقِّ اَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَھُوَ اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ
خوب سن لو فیصلہ اﷲ ہی کا ہو گا اور وہ بہت جلد حساب لے گا۔
اس حکمرانی میں
انسانی ساخت کی طرز تعلیمات اور حکمرانی ناقابل تسلیم ہونا بتاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ
نے سورۂ کہف آیت نمبر 26 میں فرمایا ہے:
لَا یُشْرِکُ فِیْ
حُکْمِہٖٓ اَحَدًا
اﷲ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
اﷲ تعالیٰ کے
پیارے پیغمبر محمد رسول اﷲ ﷺ کی زبانی بھی واشگاف انداز میں اس عنوان کو سورۂ
انعام آیت نمبر 114 میں واضح کیا گیا ہے:
اَفَغَیْرَ اﷲِ
اَبْتَغَیْ حَکَمًا وَّ ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتَابَ
مُفَصَّلاً
اے انسانو!اور میری امت کے لوگو! کیا میں اﷲ کی حکمرانی کو
چھوڑ کر تمہارے لئے کسی اور خود ساختہ حاکم کو تلاش کر لاؤں؟
درج بالا تمام آیات میں اسلامی شریعت کی بالادست اور
حکمرانی اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسی سے رجوع کرنے کے پہلو کو عموم اور
جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہی مفہوم آسمانی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے
کا عام اور جامع مفہوم ہے۔
2۔ اور دوسری وہ آیات جن میں خاص طور پر عدل و انصاف
کے فروغ کے لئے معاشرے میں پیش آمدہ فوجداری، دیوانی، اخلاق سوز اور انصاف شکن
مقدمات میں اسلامی طرزِ حکومت کے ذریعے حل ڈھونڈنے کے لئے زور دیا گیا ہے۔
چنانچہ اﷲ تعالیٰ
سورۂ نساء آیت نمبر 58 میں فرمایا ہے:
وَاِذَا حَکَمْتُمْ
بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ
اے امت محمد (ﷺ) کے لوگو! جب تمہیں اپنے سماجی اور معاشرتی
اُمور میں آپس میں لین دین کرنے کی نوبت آئے تو ہمیشہ عدل و انصاف اور برابری کا
سلوک اپنایا کرو۔
عمومی عدل و انصاف
کی تعلیمات اُجاگر کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ سورۂ مائدہ آیت نمبر 44 میں اپنے آخری
پیغمبر ﷺ کو خصوصی تعلیم دیتا ہے کہ:
جب آپ کسی بھی نزاع میں اصلاح کرنا چاہیں تو ہمیشہ انصاف کا
دامن تھامے رکھیں۔
چنانچہ اس آیت میں اﷲ نے اپنے نبی ﷺ کو ایک قاضی، منصف اور
عدل کے علمبردار کی حیثیت سے خطاب کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ دین اسلام ایک جامد اور
خاموش دین نہیں ہے بلکہ دین اسلام ایک سرگرم، بیدار، متحرک، حساس اور ہمدردی سے
سرشار دین ہے جو افراد سے لے کر قوموں اور ملکوں کے انفرادی اور اجتماعی امن و صلح
اور سالمیت کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔
کیونکہ اﷲ تعالیٰ
نے آغازِ کائنات سے لے کر آج تک جب بھی کسی بھی معاشرے میں فسادِ عقیدہ یا معاشرتی
بے اعتدالی دیکھی تو فوراً اس کی روک تھام کے لئے اپنے پیغمبر اور نمائندے بھیجے
ہیں اور ہر ناانصافی کے پہلو اور اخلاق سوز کردار کا بائیکاٹ کیا ہے۔ قرآن مجید
ایسی تعلیمات سے بھرا پڑا ہے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات اور لائحہ عمل ہے ، اس میں
ہر لحاظ سے حکمرانی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لہٰذا (الحکم بما انزل اﷲ) کے تحت انسانی
زندگی کے تمام گوشے شامل ہیں نہ کہ چند جزئیات ہیں جس طرح بعض اسلامی حقائق سے
نابلد نام نہاد دانشور اور مغرب نواز مفکرین کا خیال ہے۔
چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے دین اسلام کی
جامعیت اور اکملیت کو بیان فرما کر (الحکم بما انزل اﷲ) کی مکمل تشریح کر
دی ہے۔ اس عنوان کے تحت اﷲ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ باقی نہیں چھوڑا
جس کی نشاندہی اپنے امر و نواہی کے حوالے سے نہ کی ہو۔
کیونکہ قرآن و سنت
نے جہاں (الحکم بما انزل اﷲ) کے حوالے سے :
1۔ عقائد کی اصلاح پر گفتگو کی ہے
2۔ تو عبادات پر بھی بات کی ہے۔
3۔ باہمی لین دین میں عدل و انصاف اور ہمدردی کی
تلقین کی ہے۔
4۔ تو تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں رواداری اور
ناانصافی کی شکلیں بھی بیان کی ہیں
5۔ عائلی، بلدیاتی، شہری، ملکی اور بین الاقوامی
تعلقات اور روابط کو استوار کرنے پر جہاں زور دیا ہے
6۔ وہاں حکومتوں کی تشکیل کا نقطہ بھی سمجھایا ہے۔
7۔ جہاں مسلم
معاشروں میں باہمی تعلقات کے اصول بتائے ہیں
8۔ وہاں کافر ریاستوں اور طاغوتی حکومتوں سے امن کے
معاہدوں کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
9۔ امن و سلامتی کے قیام کے لئے جہاں عدلیہ قائم
کرنے کی تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ نظام عدل و انصاف کے وسائل بھی بتائے ہیں۔
10۔ اور جرائم کی روک تھام کے لئے قوانین تعزیر اور
شرعی حدود بھی قائم کی ہیں۔
11۔ اسی طرح صحتمند معاشرے کے قیام کے لئے طبی
مشوروں سے بھی نوازا گیا ہے۔
12۔ بہتر اور صالح انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے
تعلیمی و بہبود کے اوپر بھی خاص توجہ دی ہے اور علم سیکھنے اور سکھانے پر بھی۔
13۔ معاشرے سے غربت و ناداری کا خاتمہ کرنے کے لئے
بہتر ضوابط بتائے ہیں۔
14۔ ماتحتوں اور کمزوروں کے ساتھ ہمدردی کے اصول
بھی بتائے گئے ہیں۔
15۔ ازدواجی اور خاندانی روابط کے اصولوں کو بھی
اجاگر کیا گیا ہے۔
16۔ نسل انسانی کی افزائش، ان کی کفالت اور زمہ
داریوں کا نظام بھی پیش کیا ہے۔
17۔ فلکیات، معدنیات
اور انجینئرنگ کے ٹیکنیکل فنوں کی تعلیم بھی پیش کی ہے
درج بالا شعبوں کا خاکہ پیش کرنے پر بخوبی آگہی مل سکتی ہے
کہ دین اسلام چند جزئیات کا نام نہیں بلکہ دین اسلام ایک عالمگیر، جامع اور ہمہ
جہت انسانی معاشرے کی رہبری کرنے والا آسمانی دین ہے جس کے تمام شعبوں پر یکساں
طور پر عمل کرنا ہی (الحکم بما انزل اﷲ) کا اصل مفہوم ہے۔
چنانچہ جو شخص خود تو نماز پڑھتا ہے مگر اپنے ماتحتوں،
ملازموں اور زیر اثر افراد کو نماز کے مواقع فراہم نہیں کرتا اور خود تو اسلامی
حدود احکام اور اوامر کی بجاآوری کرتا ہے مگر دوسروں کے لئے اﷲ کی نافرمانی، فحاشی
اخلاق سوز کردار کے دروازے کھلے رکھتا ہے خود تو اسلامی مشن کی بقا اور ترویج کے
لئے تگ و دو کرتا ہے مگر اپنے معاشرے میں رہنے والوں کو بدعات خرافات اور لادینی
نظریات کے پھیلاؤ سے نہیں روکتا، خود تو اسلام کو ہمہ گیر دین اور شریعت مانتا ہے
مگر اس کے معاشرے میں معاملات اور نزاعات کو نمٹانے کے لئے غیر اسلامی قوانین اور
لادین نظریات کو اپنایا جا رہا ہے تو اس کا مفہوم یہ نکلا کہ ایسے شخص نے سرے سے (الحکم بما
انزل اﷲ) کے تقاضوں کی کھلی نفی اور صاف تردید کی ہے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔