Thursday, December 12, 2013

ووٹ کو مشورہ پر قیاس کرنا



ووٹ کو مشورہ پر قیاس کرنا 
اسی طرح جمہوریت کے شیدائیوں کا یہ مؤقف ہے کہ مشورہ اور ووٹ ایک ہی چیز ہے اور ووٹ مشورہ لینا کا ایک جدید طریقہ ہے۔اس بات کی وضاحت تو اوپر خلیفہ کے انتخاب کے عنوان کے ضمن میں واضح ہوچکی ہے مگر اس سلسلہ میں چند مزید چند اہم امور سامنے رہیں۔سب سے پہلے اصولی بات یہ ہے کہ مشاورت وہاں کی جاتی ہے جہاں نص موجود نہ ہو اور جب نص موجود ہوتو شوریٰ کی کوئی حیثیت نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لاَ مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ ٓاَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا﴾
’’کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کے لئے جائز نہیں جب اللہ اور اس کا رسول ایک بات کا فیصلہ کردیں کہ انہیں اپنے معاملے میں اختیار مل جائے‘‘۔
 (الاحزاب:۳۶)
دوسرا یہ کہ مشورہ اور ووٹ دو الگ الگ نظاموں پر مبنی ہیں اور انہی کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ مشورہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ،رسول اللہ ﷺکی سنت اور حضراتِ صحابہ ﷡کا فعل ہے۔اس کے برعکس ووٹ کا ذکر نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی احادیث میں کہیں ملتا ہے اورامت کی ۱۴ سو سالہ تاریخ یعنی 1924ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک ووٹ کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
مشورہ کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ﴾ 
’’’اورآپ معاملے میں ان سے مشورہ لیں پھر جب آپ فیصلہ کرلیں تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتاہے‘‘۔
(آل عمران:۱۵۹)
یہاں فرمایا ’’جب آپ فیصلہ کرلیں ‘‘، یہ نہیں فرمایا کہ ان سے مشورہ لیں اور ان کی رائے کے مطابق فیصلہ کرلیں۔یہ بھی نہیں فرمایا کہ ان سے مشورہ لیں اور اکثریت کے مطابق فیصلہ کرلیں۔اسلام کا مزاج یہ ہے کہ مشورہ لینے والا ہی فیصلہ کرے ،مشورہ دینے والے نہیں۔
چنانچہ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ’’مشورہ ‘‘الگ چیز ہے اور قصد یا فیصلہ کرنا الگ چیز ہے۔اگر مشورہ دینا فیصلہ قرار پاتا تو بات یوں کی جاتی کہ اکثریت کے فیصلہ کے مطابق ہی فیصلہ کیا کریں چنانچہ پھر مشورہ کو ووٹ قرار دیا جاسکتا تھا۔
 اسی طرح سورۃ الشوریٰ کی آیت۳۸میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ﴿وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ﴾ ’’وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں ‘‘۔یہ نہیں فرمایا کہ ’’وہ اپنے معاملات اکثریت کے مشورہ کے مطابق کرتے ہیں‘‘۔اگر اللہ تعالیٰ اس طرح فرمادیتے تو قیامت تک کے لئے اکثریت کے مشورے اور رائے فیصلہ بن جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے مشور ہ کو فیصلہ نہیں بنایا۔
اس کے برعکس جمہوریت میں حاکمیت ہی افراد کی ہوتی ہے اس لئے ہر انسان کاووٹ اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔اگر ووٹ عوام کا فیصلہ نہیں اور صرف مشورہ ہے تو پھر ان کی حا کمیت بنتی ہی نہیں ۔حاکم حکم دیتے ہیں چنانچہ مشورہ دینے والے حاکم نہیں ہوسکتے۔چونکہ جمہوریت میں اکثریت حاکم ہے اس لئے اگر ہم ووٹ کو مشورہ اور رائے بنادیں گے تو ہمیں لوگوں کی حاکمیت کے جمہوری تصور اور نظریہ سے انکار کرنا پڑے گااور پھر جمہوریت کی تعریف ہی غلط ہوجاتی ہے۔اس لئے ووٹ نہ تو رائے ہے نہ مشورہ۔اسی طرح مشورہ عاقل اور عابد سے لیا جاتا ہے جبکہ ووٹ ہر جاہل و عالم دیتا ہے ۔مشورے میں بعض اوقات ایک آدمی کی رائے سو آدمیوں کی رائے پر بھاری ہوجاتی ہے۔جبکہ جمہوریت میں بقول علامہ اقبال   کہ:
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں
بندوں کو  گنا  کرتے  ہیں  تولا  نہیں  کرتے
اس حوالے سے آخر میں ایک حدیث بات کو بالکل واضح کردیتی ہے۔مجمع الزوائد حضرت ابن عباس﷛سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
((قلت یارسول اللّٰہ ﷺ!أرأیت ان عرض لناامر لم ینزل فیہ القرآن ولم تمض فیہ سنة منک قال تجعلونہ شوریٰ بین العابدین من المؤ منین ولا تفضونہ برأی خاصة))
’’میں نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ!اگر پیش آئے ہمیں کوئی ایسا امر جس کو ہم قرآن میں نازل نہ پائیں اور نہ آپ کی سنت میں ؟آپﷺنے فرمایا:’’اہل ایمان میں سے نیک لوگوں کی شوریٰ بناؤاور کسی اکے دکے کی رائے پر فیصلہ نہ کرو‘‘۔
 (الطبرانی فی الکبیر بحوالہ مجمع الزوائدج:۱ص:۱۷۸)
حضرت علی ﷛سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
((قال شاوروافیہ الفقھاء والعابدین ولا تضوا فیہ رأی خاصة))
’’آپﷺنے فرمایا:مشاورت کرواس میں فقہاء اور نیک لوگوں سے اور نہ چلو کسی اکے دکے کی رائے پر‘‘۔
(الطبرانی فی الاوسط واسنادہ ،مجمع الزوائد ج:۱ص:۱۷۸)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔