Monday, December 30, 2013

اسلامی حکومت کو چھوڑ کر غیر اسلامی حکومت چلانے والوں کے کافر ہونے پر عصر قدیم و جدید کے علما کے فتوے

اسلامی حکومت کو چھوڑ کر غیر اسلامی حکومت چلانے والوں کے کافر ہونے پر عصر قدیم و جدید کے علما کے فتوے
اس عنوان کو ثابت کرنے کے حوالے سے جن علماء عصر قدیم و جدید کے خیالات کو پیش کیا گیا ہے وہ محض ان کے فقہی استنباط نہیں اور نہ ہی مجتہدین کے علمی اجتہاد و قیاس آرائیاں ہیں بلکہ یہ ان اسلامی معلومات کا اظہار ہے جو کتاب و سنت کی روشنی میں عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے نزدیک طے شدہ ہیں جن کو علماء عصرِ قدیم و جدید کا متفقہ اجماع حاصل ہے۔
     چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ اس عنوان کے ثبوت میں اجماعِ علماءِ اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے (البدایہ والنہایۃ 13/128) کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ جس کسی نے محمد ﷺ پر نازل شدہ شریعت کو چھوڑ کر سابقہ منسوخ شریعتوں میں سے کسی شریعت سے رجوع کیا تو ایسے شخص نے اسلامی شریعت کا انکار کیا ہے۔ بھلا کوئی یہ تو بتائے کہ اس شخص کے بارے میں کیا نظریہ رکھا جائے جو سابقہ شریعت سے رجوع تو نہیں کرتا بلکہ خود ساختہ یا مثال کے طور پر چنگیز خان (اور امریکہ روس، برطانیہ وغیرہ) کے نظامِ حکومت کو اپنے نزاعات کا حل سمجھ لے؟ ہر انصاف پسند شخص کا یہی جواب ہو گا کہ ایسے شخص کو بھی باتفاق علماء اسلام کافر جانا جائے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ کے استاذ محترم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کے ملفوظات بھی اس بارے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنی کتاب مجموع الفتاویٰ 28/524 میں فرماتے ہیں کہ چاروناچار کسی حالت میں بھی جس نے شریعت محمدیہ کی اتباع چھوڑ کر کسی اور دین یا طریقے کی اتباع کو روا جانا اس نے دین اسلام کا انکار کیا ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اﷲ نے اس عنوان کی بالفاظِ دیگر یوں تشریح کی ہے کہ جس کسی نے کسی متفقہ حرام کو حلال جانا یا حلال کو حرام جانا یا کسی قسم کی تحریف، تبدیلی یا ردّ و بدل کرنے کا ارتکاب کیا تو علماء اسلام کی نظر میں ایسا کرنے والا مرتد اور کافر ہے جس کا دینِ اسلام سے تعلق نہ رہا۔
شیخ الاسلام اس بات کی تصدیق کے لئے سورۂ مائدہ کی آیت 44 :
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُُوْنَ
اور جو کوئی اﷲ کے نازل کردہ (قوانین) کے مطابق فیصلہ (و حکم) نہ کرے پس ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔
کا حوالہ دیا کرتے تھے۔
دورِ جدید کے علماء اسلام کا بھی اس سلسلے میں یہی اجماع مشہور ہے جن میں سے ہم یہاں پر صرف دو علماءِ حق کے ملفوظات ذکر کر رہے ہیں۔
چنانچہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اﷲ کا بیان ہے کہ جس کسی نے بھی شریعت محمدیہ ﷺ کے ابدی اور حتمی ممنوعات میں سے کسی بھی ممنوع عمل (مثلاً زنا، شراب نوشی، سود خوری، چوری، رہزنی، ڈکیتی، قتل و غارتگری، جھوٹ، بددیانتی، وعدہ خلافی، گالم گلوچ، تہمت تراشی، والدین کی نافرمانی، جھوٹی قسم، مجاہد یا فوجی کا (کفار کے مقابلے میں) میدانِ جہاد سے بزدلی دکھا کر بھاگنا، غیر اﷲ کے نام نیاز دینا اور اﷲ کی یکتانیت میں کسی کو شریک جاننا) کو حلال اور روا جان کر خود کیا یا کسی سے کروایا یا دوسروں کو کرنے کی دعوت دی تو ایسا شخص باتفاق علماءِ اسلام دین اسلام سے قطعی طور پر خارج ہے۔ (مجموع الفتاوی 1/137)۔
الشیخ عمر الاشقر دیارِ سعودیہ کے سابق مفتی الشیخ محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف آل شیخ کے ملفوظات کے حوالے سے اس اجماع سے متعلق فرماتے ہیں کہ انسانوں کے دو گروپوں کے یقینی طور پر کفر میں داخل ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ہے:
1۔            ایک گروہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شریعت ِ اسلامیہ کے بالمقابل غیر شرعی نظام گھڑ کر اﷲ کی شریعت کا مقابلہ کیا جو اس نظام کو لوگوںپر ٹھونس کر اصل شریعت سے لوگوں کو ناآشنا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس قسم کے لوگوں کے کافر ہونے پر تمام علماء اسلام کا اجماع یقینی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس قسم کے لوگوں کے کرتوت کی سخت مذمت فرمائی ہے۔
چنانچہ سورۂ شوری آیت نمبر 21
اَمْ لَھُمْ شُرَکٰؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ۔
میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے سفارشی قسم کے جھوٹے لوگوں نے دین اسلام کے نام سے کچھ قوانین گھڑ لئے ہیں جن کو گھڑنے اور ان پر عمل کرنے پر اﷲ تعالیٰ نے کبھی بھی حکم نہیں دیا ہے ۔
اس وعید میں سر فہرست علماء یہود اور صوفیائے نصاریٰ شامل ہیں جنہوں نے واقعتاً تورات انجیل زبور اورقرآن کے برخلاف قانونی دفعات بنا لئے تھے جن کے مطابق اپنے معاشرے میں (رنگ و نسل کی برتری کو سامنے رکھ کر) لوگوں کے معاملات نزاعات ، جھگڑے اور مقدمات فوجداری ودیوانی اور حدود کو نمٹاتے تھے جن کی بیخ کنی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے سورۂ توبہ آیت نمبر31
اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَہُمْ اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔
اتاری ہے ۔
اس قسم کا کردار امت محمدیہ کے علماء مشائخ یا مذہبی سیاسی ، پیشواؤں میں موجود ہوتو سب کے سب اس مصداق کے مطابق بلاشبہ کافر ہیں ۔
دوسراگروہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے قوانین و ضوابط نظاموں اور فیصلوں کو (خلاف شریعت اسلامیہ ہونے کو جانتے ہوئے ) قبول کیا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔