Wednesday, May 20, 2015

دارالاسلام و دارالکفر

                                                                    

دارالاسلام و دارالکفر
اور
عصر حاضر میں اس کی تطبیق
از: (مولانا) حذیفہ وستانوی ، استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم

دور نبوی علی صاحبہا الف الف تحیة و سلاماً جو وجہ ارض کا سب سے مسعود ترین دور او رعہد گذرا ہے، اس لیے کہ اسی دور میں خاتم الانبیاء و المرسلین سید ولد آدم محمد عربی صلى الله عليه وسلم زمین پر موجود تھے، اُم الکتب قرآن کریم کا نزول بھی اسی دور میں ہوا، لہٰذا اس دور کو یہ حق بنتا ہے کہ سید الادوار، سید العہود کہا جائے، اس دور کو یہ شرف حاصل ہے کہ اسلام جیسا آسمانی مذہب اور دین اسی دور میں مکمل اور تام ہوا، اور قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کے حل کے خطوط و نشانات دے کر گیا، ہم اس پر اللہ کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے، اللہ ہمیں اسلام کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جہاں دورِ حاضر میں بہت سے نئے مسائل پیش آئے اور آرہے ہیں وہیں ایک مسئلہ ”دارالاسلام اور دارالکفر“ کی تعیین کا بھی ہے، اس لیے کے بہت سے احکام کا تعین اس تعین پر موقوف ہے۔ کیوں کہ اب حالات عجیب طرح کے ہوگئے ہیں، حکومتیں ایک طرف ”آزادی“ ”مساوات“ ”جمہوریت“ کے گیت گاتے نہیں تھکتیں اور دوسری جانب ہر طرف مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ امتیازی برتاوٴ کیا جارہا ہے، اور اس باب میں غیر تو غیر، مسلمان حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ”دار الاسلام اور دار الکفر“ کا تطابق کیسے ہو؟ تو آئیے! ہم اس مضمون میں اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
دار کی تعریف:
 دار اس ملک کو کہتے ہیں، جو تین چیزوں کو شامل ہو:
(۱)    اِقلیم (Country):
یعنی محدود جغرافیائی مقام۔
(۲)   سکان (Population):
یعنی اس علاقہ کے آباد لوگ۔
(۳)   سلطنت(Kingdom):
 وہ قیادت جو اس منطقہ میں قائم ہو، امام ابن العابدین تحریر فرماتے ہیں: المراد بالدار الاقلیم المختص بقہر ملک اسلام وکفر۔ عمار بن عامر، اس کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں: یظہر من التعریف انہ شرط فی الدار. الاقلیم والسکان و السلطة. (الہجرة إِلی بلاد غیر المسلمین: ص ۷۹)
دار کی تقسیم:
نفاذ قوانین کے اعتبار سے حکومت کی دو قسمیں ہیں: (۱) دار الاسلام (۲) دار الکفر
پھر دارالاسلام کی بھی دو قسمیں ہیں: (۱) دار الاسلام حقیقی (۲) دار الاسلام حکمی
دار الاسلام حقیقی کی تعریف:
اس ملک کو کہتے ہیں جہاں دستوری طور پر اسلامی قوانین اور اسلامی احکام نافذ ہوں، اور اس ملک کے قائدین وحکام مسلمان ہوں۔ امام ابن القیم الجوزی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: دارالاسلام ہی التی نزلہا المسلمون وجرت علیہا احکام الاسلام. (احکام اہل الذمہ:ج۲،ص ۷۲۸) اور امام ابو یوسف رحمة الله عليه فرماتے ہیں: تعبر الدار دارالاسلام بظہور احکام الاسلام فیہا وان کان جل اہلھا من الکفار. (المبسوط:ج۱۰، ص ۱۴۴)
دار الاسلام حکمی:
اس ملک کو کہتے ہیں جہاں مسلمانوں کو، اپنے بعض شعائر پر عمل کی اجازت ہو، مثلاً :نماز، اذان، جمعہ وغیرہ، اگرچہ وہاں عالمی وضعی (خود ساختہ یعنی انسان کے بنائے ہوئے نہ کہ اللہ کے نازل کردہ) قانون نافذ ہو، البتہ وہاں کے قائدین اورحکومتی کارندے مسلمان ہوں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک اسی حکم میں ہیں، کوئی ملک حقیقی دار الاسلام کا مصداق ومجاز نہیں ہے۔ ابن العابدین تحریر فرماتے ہیں: لو اجریت احکام المسلمین فی بلد واحکام اھل الشرک فلاتکون دار حرب ما دامت تحت سلطة ولاتنا. (شامی:ج۴،ص۱۷۵) ان دارالفسق ہی دار الاسلام. ( نیل الاوطار:ج۸، ص ۲۷)
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ جب اسلامی قوانین کا نفاذ، ان ممالک میں نہیں ہے، تو پھر ان ممالک کو دار الاسلام کیوں کہا جاتا ہے؟ تو اس کا یہ جواب دیا جاتاہے کہ اس میں حرج لازم آتا ہے، کیوں کہ اگر باوجود کثرت و اغلبیت مسلمین کے، اس کو”دارالکفر“ کہا جائے، تو یہ خرابی لازم آئے گی،کہ دشمن آسانی سے اسلامی ممالک پر قابض ہو جائے گا، کیوں کہ”دارالکفر“ ہونے کی وجہ سے ،مسلمانوں کے لیے اگر کوئی باطل طاقت حملہ آور ہو، تو دفاع لازم نہ ہوگا، اور یوں ایک ایک کرکے، تمام اسلامی ریاستیں دشمنوں کے ہاتھ چلی جائے گی۔ ہاں البتہ اس کو ”دارالاسلام الفاسقہ“ کہا جائے، تو کوئی حرج نہیں،یا صرف ”دارالفسق“ کہا جائے، لواعتبرنا ہذہ الدیار من دارالکفر او الحرب فہذا یعنی ان المسلمین علی کثرتہم سیغدون من غیر اوطان ولا دیار وفی ہذا تمکین لاعداء اللہ منا اضافة الی ا نہ لایجب علی المسلمین الدفاع عنہا فی حال الاعتداء علیہا من الکفار. (فقہ الاقلیات:ص۹۷)
دارالکفر کی بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) دارالکفر حقیقی ۔ (۲) دارالکفر حکمی۔
داراالکفر حقیقی:
اس ملک کو کہا جاتا ہے، جہاں پر زمام حکومت غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہو، اور وہاں کا دستورِ اساسی بھی انہیں کا ہو، اور مسلمانوں کو شعائر اسلام بجالانے کا قطعاً حق نہ ہو، بل کہ حکومت مسلمانوں کو ہلاک کرنے اورنقصان پہنچانے کے درپے ہو، مثلاً :رشیا جو ۱۹۹۲ء سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کا کٹر دشمن رہا ، اور اس وقت اسر ائیل ۔
دارالکفر حقیقةً: وہی التی قصدہا الفقہاء فی تعریفہم لدار الکفر وہی التی تظہر فیہا احکام الکفر و یحکمہا الکفار و انعدمت فیہا مظاہر الدین تمامًا بحیث لم یعد لہا وجود متمیز و لا یوجد فیہا مسلمون یوٴدون واجبا تہم الدینیة. (تقسیم العالم:ص۲۵)
دارالکفر حکمی: اس مملکت کو کہا جاتا ہے، جہاں حکومت تو غیرمسلموں کی ہو، دستور بھی ان کا ہو، مگر مسلمانوں کو اپنے شعائر کے بجا لانے کی اجازت ہو، مثلاً :بعض یوروپی ممالک، بعض ایشیائی ممالک ، بعض افریقی ممالک ، جہاں مذکورہ صورت حال ہو، اس کو دارالاسلام اور دارالعہد بھی کہا جاتا ہے۔ والعلة فی الذہاب الی الحبثة ان ہناک ملکا لا یظلم عندہ احد و کان العدل فی ذاتہ وسامًا لذالک الملک و سماہا المسلمون دار امن و ان لم تکن دار ایمان. (تفسیر الشعراوی: ۴/۲۵۸)
دارکی ایک تقسیم وجود امن اور عدم امن کے اعتبار سے بھی ہے، جس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں، حالت جنگ اور حالت امن کے اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) دارالحرب:
جہاں حکومت مسلمانوں کے ساتھ برسرِپیکار ہو، ان کے مال ان کے املاک ، اور ان کی جان کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے کے درپے ہو، اور وہاں اسلامی دعوت کو ممنوع قرار دیا گیا ہو، اس کوملک کو ”دارالحرب“ کہا جائے گا، اور اس کو ”دارالکفر، دارالشرک، دارالمخالفین“ بھی کہا جاسکتا ہے ۔
(۲) دارالامن والعہد:
جہاں حکومت تو اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہو، مگر وہ مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کر چکی ہو، تو پھر اسے ”دارالامن یا دارالکفر الآمنہ یا دارالعہد یا دار الکفر المعہودة“ کہا جائیگا۔
بعض حضرات ”دار حیاد“ بھی ایک قسم قرار دیتے ہیں، ”دار حیاد“ اس ملک کو کہتے ہیں، جومسلمانوں کے ساتھ مصالحت کرے، کہ نہ وہ ان سے قتال کریں گے ۔ نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کا تعاون کریں گے۔ ابوزہرہ رضی اللہ عنہ اور وہبہ زحیلی نے یہ قسم الگ شمار کی ہے۔ (العلاقات الدولیة فی الاسلام: ص۸۴ ، آثار الحرب :ص۱۹۷)
یہ تھا مختصراً دار کا بیان، اخیر میں ہم اللہ سے دست بدعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو کوئی دارالاسلام عطا فرمائے، یا قیام خلافت کی کوئی سبیل اللہ رب العزت ہمارے نکالے۔ آمین یارب العالمین!
یہاں ایک وضاحت کردینا مناسب ہوگا کہ دارالاسلام اور دارالکفر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں، لہٰذا ”دار“ کی یہ تقسیم توقیفی نہیں، یعنی منصوص نہیں ہے، بل کہ مجتہد فیہ، لہٰذا اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، جیسے فقہاء متقدمین تقسیم ثنائی کے قائل تھے، اور ان میں بھی امام شافعی رحمة الله عليه ثلاثی کے قائل تھے، یعنی ان کے یہاں دار کی تین قسمیں ہیں: (۱) دارالاسلام (۲) دارالکفر، اور (۳)العہد یا دارالہدنة یا دارالصلح، جیسا کہ امام نووی رحمة الله عليه نے روضة الطالبین ج:۵، ص۴۳۲۔ پر ذکر کیا ہے، جیسے جیسے زمانہ کے احوال بدلتے گئے، اس کی تقسیم میں بھی اضافہ یا ردّ وبدل ہوتا گیا، مثلاً :امام ابن تیمیہ نے ایک اور قسم ”دارالفسق“ کو ذکر کیا ہے ، جیسا کہ ان کی کتاب مجموع الفتاوی ج: ۱۸ص: ۲۸۲۔پر اس کا ذکر ملتا ہے، دورِ حاضر میں حالات کے بدلنے سے فقہاء نے ”دارحیاد“ کی اصطلاح وضع کی ،جیسا کہ ابوزہرہ رضي الله تعالى عنه اور علامہ وہبہ زحیلی کے حوالے سے اوپر ذکر کیا گیا۔ غرضیکہ ”دار“ کے منصوص نہ ہونے کی وجہ سے ابھی اس میں اجتہاد و مزید تقسیم کی گنجائش ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں، کہ ہر کوئی تقسیم کے لیے قلم ٹوڑنا شروع کردے، جو لوگ علومِ شرعیہ، قرآن، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور قواعد فقہ وغیرہ پر کڑی اور گہری نظر رکھتے ہوں، وہی یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
اب اختتام پر ایک تنبیہ بھی ضروری ہے، کہ بعض لوگوں نے دارکی اس تقسیم کو سرے سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، یہ بھی درست نہیں، اُن کا کہنا یہ ہے کہ یہ فقہاء کی اصطلاحات ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں، تب تو مسائل کھڑے ہو جائیں گے، اس لیے کہ واجب، فرض، سنت ، مستحب، مکروہ، مباح وغیرہ بھی ہمارے فقہاء کرام ہی کی وضع کردہ اصطلاحات ہیں،اس کا مطلب تم اس کی تردید کروگے؟ فقہاء نے دراصل جو اصطلاحات وضع کیں، وہ ان کے اپنے فائدے کے لیے تو نہ تھیں، وہ امت کو سمجھانے کے لیے اور مسائل میں فرق مراتب کے لیے تھیں، تاکہ امت کو سہولت ہو جائے، کہ کونسا عمل کس حد تک مطلوب و مقصود ہے، لہٰذا ہمارے ان فقہاء کا ہمیں احسان مند ہونا چاہیے، جنہوں نے ہمیں شریعت کی روٹی پکی پکائی کھلا دے۔
 اللہ ہمارے ان تمام فقہاء کی قبروں کو نور سے بھر دے، اور ہمیں ان کے خون پیسنے سے تیار کردہ، فقہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرمادے۔ آمین یارب العالمین!
________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر - نومبر 2008ء

مکمل تحریر  »

Tuesday, May 19, 2015

شوہر کا کفر


مکمل تحریر  »

والد کی قدر کرو


مکمل تحریر  »

Saturday, May 2, 2015

میاں بیوی میں سے کسی ایک کی بے وفائی

میاں بیوی میں سے کسی ایک کی بے وفائی دوسرے کے لیے زندگی کا سب سے دردناک تجربہ ثابت ہوتی ہے ۔ یہ متاثرہ فرد کی ساری زندگی تباہ کردیتی ہے ۔ اس کا اپنے آپ پر ، انسانی رشتوں اور زندگی پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے ۔ وہ دنیا میں تماشا بن کررہ جاتا ہے ۔

فرانسیسی ادیبہ ، سمون دی بوار نے ، جس کو ہمارے ہاں زیادہ تر سارتر کی زندگی بھر کی دوست کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ اس موضوع پر ایک ناولٹ لکھا ہے ۔ لگ بھگ سو صفحات میں اس نے درمیانی عمر کے ایک جوڑے کی کہانی بیان کی ہے جس میں شوہر بیوی سے دور ہٹتا جاتا ہے اور بالاخر اس کی زندگی سے نکل جاتا ہے ۔ بیوی پر جو گزرتی ہے ، سمون نے اس کو بے مثال موثر انداز میں بیان کیا ہے ۔ اس ناولٹ کے انگریزی ترجمے کا عنوان ’’اے وومن ڈسٹرائیڈ ‘‘ ہے ۔

مغربی دنیا میں ازدواجی بے وفائی کے واقعات دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں ۔ اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے کا مسئلہ نہیں ۔ ہماری ازدواجی زندگیاں محفوظ اور مضبوط ہیں ۔ مگر یہ محض وہم ہے ۔ ازدواجی زندگی جس قدر ہمارے ہاں بے لطف اور کمزور ہوئی ہے ، اس قدر کہیں اور نہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عورتوں کی معاشی مجبوریوں اور سماجی دباؤ کے باعث ہمارے ہاں طلاق کی شرح کئی ملکوں سے کم ہے ۔ مگر مجبوری اور دباؤ نے جس ازدواجی زندگی کو سنبھال رکھا ہو ، وہ بھی بھلا کوئی زندگی ہے ۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اگر ہم آنکھیں کھول کر گردوپیش دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ازدواجی بے وفائی کے واقعات ہمارے معاشرے میں بھی بڑی تعدادمیں پیش آتے ہیں ۔ ان کا اندازہ میڈیا کی رپورٹس سے بھی کیا جاسکتا ہے ۔ یہ واقعات افراد کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے بھی پریشان کن ہیں ۔


دانیال جے ڈویش اور شیرلن لہمان نام کے ازدواجی امور کے دو ماہرین نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’ مجھے چاہو نہ چاہو‘‘ میں بحث کی ہے ۔ اپنے پیشہ ورانہ طویل تجربے کی بنیاد پر ان کا کہنا ہے کہ اگر ازدواجی بے وفائی سے دوچار ہونے والے افراد خطرے کی علامتوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں تو وہ اس روگ سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ انہوں نے شادی شدہ افراد کے غیر ازدواجی معاشقوں کے تین بنیادی اسباب کی نشاندہی کی ہے ۔ ان میں کوئی ایک یا زیادہ علامتیں آپ کی ازدواجی زندگی میں ظاہر ہونے لگیں تو اس کو خطرے کی گھنٹی سمجھیں اور جان جائیں کہ آپ کا تعلق ٹوٹ پھوٹ رہا ہے ۔ چاہے آپ کا شریک حیات واقعی کسی معاشقے میں ملوث ہو یا نہ ہو۔

تنہائی
شبانہ نے یہ قصہ مجھے خود سنایا تھا
’’میرا شوہر جب بھی گھر میں ہوتا ہے ، اس کا ساراوقت اپنے کمپیوٹر کے ساتھ گزرتا ہے ۔ لگتا ہے کہ اس واہیات مشین کے علاوہ گھر میں کسی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کو کسی میں دلچسپی ہے ۔ ایک دن میں کتابوں کی دکان میں گئی ۔ میرے ہاتھ میں کئی کتابیں اور پرس تھا ۔ کپڑوں کا ایک بنڈل بھی میں پکڑرکھا تھا ۔ میں نے دوپٹہ سنبھالنے کی کوشش کی تو ساری چیزیں ہاتھ سے گر گئیں ۔ نوجوان دکاندار فوراً میری مدد کو لپکا ۔ اس نے چیزیں اٹھانے میں میری مدد کی ۔ جب میں نے ایک ناول منتخب کرکے خریدنا چاہا تو وہ کہنے لگا ، اچھا تو آپ انیس ناگی کو پڑھتی ہیں !تقریباً ایک ہفتے بعد میں دوبارہ اسی دکان پر گئی ۔ وہ کافی دیر تک باتیں کرتارہا۔ دوسرے روز نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم بک سٹور کی بڑھنے لگے ۔ میں وہاں بیٹھ گئی اور ہم دونوں تین گھنٹوں تک باتیں کرتے رہے ۔ یوں بات آہستہ آہستہ آگے بڑھتی گئی ۔ یقین کریں کہ یہ صرف سیکس کا معاملہ نہ تھا ۔ بات اصل میں یہ تھی کہ میں اور وہ باتیں کرسکتے تھے ۔ رؤف (شبانہ کا شوہر )تو مجھے صرف بچے پیدا کرنے اور گھر کے کام کاج کرنے والی مشین سمجھتا ہے ۔ اس نے کبھی مجھے گوشت پوست کے انسان کے طور پر قبول نہیں کیا ۔ ہماری کوئی مشترکہ دلچسپیاں نہیں ہیں ۔ تنہائی کا زہر میری رگوں میں اترنے لگا تھا ۔

‘‘
شبانہ کا یہ قصہ ہمیں بہت کچھ بتاتا ہے ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کریں کہ شادی شدہ افراد کے معاشقوں کی بڑی وجہ تنہائی کا اذیت ناک احساس ہوتا ہے ۔ تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ دانیال جے ڈویش اور شیرلن لہمان کا طویل تجربہ اور مطالعہ بھی اس امر کی توثیق کرتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی شدہ افراد میں یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کی زندگی قربت سے محروم ہوجاتی ہے اور ان کے درمیان ابلاغ ٹوٹ جاتا ہے ۔ لوگ تنہائی کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب کوئی ان کے دکھ سکھ بانٹنے والا نہیں ہوتا۔

یکسانیت
’’ دس گیارہ برسوں سے میں تخیل اور خوابوں کی دنیا میں غیر عورتوں کے ساتھ معاشقے کھیلتا رہاہوں ۔ لیکن کسی عورت سے راہ ورسم بڑھانے کا ٰخیال مجھے کبھی نہ آیا تھا۔ میں نے اس معاملے پر کبھی توجہ ہی نہ دی تھی ۔‘‘ یہ میرے ایک دوست کی کہانی ہے وہ کہتا ہے کہ ’’ پھر ایک شام عجیب سی بات ہوئی ۔ میں اکیلا تھا ۔ میری بیوی دوسرے شہر گئی ہوئی تھی ۔ شام کو میں اکیلا ہی ایک پارٹی میں چلا گیا ۔ وہاں ایک عورت میرے پاس آکربیٹھ گئی ۔ اس کے ساتھ بہت جان پہچان تو تھی مگر بے تکلفی نہ تھی ۔ اس نے مجھے گھر ساتھ چلنے کی دعوت دی ۔ پہلے تو میں گھبراہی گیا۔ میرے ماتھے پر پسینہ رینگنے لگا اور میں نے انکار کردیا۔ مگر اس دعوت نے میرے دل میں ہلچل سی مچادی ۔ دوروز بعد میں نے اس عورت کو فون کیا ۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس طرح میرا افیئر شروع ہوگیا‘‘۔

اس قسم کی ترغیبات ازدواجی بے وفائی کا دوسرا بڑا سبب سمجھی جاتی ہیں ۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ شادی کے پانچ چھ سال بعد جذبات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں اور بہت سے میاں بیوی ایک دوسرے سے بور ہونے لگتے ہیں ۔ کیوں ؟ یہ تبدیلی کیوں آتی ہے ؟ یہ تبدیلی اس لیے آتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تخلیقی رویے اختیار نہیں کرتے ۔ وہ روٹین کی زد میں آجاتے ہیں اور روٹین زندگی کا سارا لطف برباد کردیتی ہے ۔ اس کے برخلاف معاشقے میں نیاپن ہوتا ہے ، مہم جوئی اورچیلنج ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ پرکشش ہوتا ہے ۔ روٹین اور یکسانیت کا مارا ہوا فرد فوراً اس کے سحر میں الجھ جاتا ہے ۔

ابلاغ میں ناکامی
انجیلا کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ شادی شدہ جوڑوں میں جب ابلاغ ختم ہوجاتا ہے تو کیسے غلط راہیں کشادہ ہوجاتی ہیں ۔ انجیلا نے اپنی کہانی ایک گروپ سیشن میں سنائی تھی ۔ وہ کہتی ہے’’ مجھے اپنے شوہر داؤد پر زیادہ تر غصہ اس لیے آتا تھا کہ وہ بچوں کے معاملے میں کبھی میرا ہاتھ نہیں بٹاتا تھا ۔ میں ملازمت کرتی تھی اور گھر کا سارا کام کاج بھی میرے ذمے تھا۔ یہ بے انصافی تھی ۔ میں چاہتی تھی کہ داؤد گھریلو ذمہ داریوں میں شریک ہو۔ میرا بوجھ بانٹے ۔ لیکن وہ کوئی پرواہ ہی نہ کرتا تھا ۔ ایک جمعے کو اس نے مجھ سے پوچھا کہ شام کے کھانے کے لیے میں کیا بناؤں گی ۔ میں پہلے ہی جلی بھنی بیٹھی تھی ۔ یہ سوال سن کر آگ بگولہ ہوگئی اور صاف صاف کہہ دیا کہ میں شام کو کچھ بھی پکاؤں گی ۔

’’ داؤد کو اس جواب کی شاید توقع نہ تھی ۔ وہ غصے میں آگیا لیکن میں اس سے زیادہ غصے میں تھی ۔ وہ یہ چلاتا ہوا گھر سے نکل گیا کہ ، یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہے ۔ بعد میں اس نے بتایا کہ اس رات اس نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ پہلی بار ہم بستری کی تھی ۔

‘‘
اکثر جوڑے ابلا غ کے منفی طریقوں سے پہنچنے والے نقصان سے آگاہ نہیں ہوتے ۔ وہ ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں ۔ غصے اور مایوسی کا زہر ان کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں اور خصوصاً جنسی پہلو میں اترتا چلا جاتا ہے ۔ تعلق ناطہ ابلاغ سے بنتا ہے اور ابلاغ ہی اس کو قائم رکھتا ہے اور جہاں تک جنس کا تعلق ہے وہ بھی ابلاغ کی ایک گہری صورت ہے ۔

میاں بیوی کے درمیان جب ابلاغ کا ربط ٹوٹ جائے تو پھر وہ دونوں اپنی اپنی جگہ خود کو مسترد شدہ خیال کرنے لگتے ہیں ۔ اس لیے تعجب کی کوئی بات نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ، ایک دوسرے کو رنج دینے ، غصہ دلانے اور اپنی برتری ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں ۔ یہ انداز گھر کو جہنم بنادیتا ہے اور ازدواجی زندگی بگڑنے لگتی ہے ۔ لہذا اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ جب گھر کے اندر اس قسم کی صورت حال پیدا ہوجائے تو میاں یا بیوی یا پھر وہ دونوں اپنی چاردیواری سے باہر محبت اور سیکس کے لیے کوئی ساتھی تلاش کرنے لگیں ۔ وہ سوچ سمجھ کر تلاش نہ کریں تو بھی انجانے میں کوئی موقع مل جائے تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ترجیحات بنائیں
ایک یونیورسٹی پروفیسر کا قصہ ہے کہ وہ مسلسل گیارہ مہینوں تک اپنی پسند کے ایک پراجیکٹ پر کام کرتی رہی ۔ وہ مقررہ وقت میں کتاب ختم کرنا چاہتی تھی اور یہ دھن اس کے سر پر بری طرح سوار ہوگئی ۔ اس نے باقی تمام کام چھوڑ دیئے اور دن رات اس منصوبے میں مگن ہوگئی ۔ یونیورسٹی سے واپس آکر شام کے وقت وہ گھر میں بھی یہی کام کرتی تھی ، اس کے لیے اس نے گھر والوں کو اپنے کمرے میں داخل ہونے سے سختی سے منع کررکھا تھا۔ اس کا شوہر اس صورتحال سے بے زار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بیوی اس کو اور گھر کے تقاضوں کو نظرانداز کررہی ہے ۔ ایک رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب جب وہ دن بھر کے کام کے بعد بستر پر دراز ہوئی تو اس کا شوہر پھٹ پڑا ۔’’یہ کیا طریقہ ہے !‘‘ وہ چیخا ’’ بس بس بہت ہوچکا ۔ تمہیں صرف اپنے کام سے تعلق ہے ، کسی اور کی پرواہ نہیں ۔

‘‘
وہ بے چارا ٹھیک کہہ رہا تھا ۔ اس کو احتجاج کرنا ہی چاہیے تھا ۔ بات یہ ہے کہ کام کاج زندگی میں اہم ہوتے ہیں اور جب کوئی اپنی مرضی کاکام مل جائے تو وہ زیادہ ہی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے ۔ یہ بالکل قدرتی بات ہے ۔ مگر یہ کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ میاں بیوی کا رشتہ دوسرے تمام کاموں سے اور دوسرے تمام تعلق ناطوں سے زیادہ اہم ہے ۔ اس رشتے کو بہرطور اولیت دی جانی چاہیے ۔ اس کو وقت دینا چاہیے اور توجہ بھی ۔ اس کے بعد ہی زندگی کے دوسرے معاملات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔ اس انداز سے ترجیحات کا تعین نہ کیاجائے تو ازدواجی زندگی زیادہ عرصے تک خوش گوار نہیں رہتی ۔ اس میں خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں ۔

مقاصد کو حقیقت پسندانہ رکھیے
شادی کے ابتدائی ہفتوں کی گرم جوشی کو دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر مایوسی سے پالا پڑے گا ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ پرانا رومان ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا ہے یا یہ کہ جنسی سرمستیاں پہلے جیسی نہیں رہیں ۔ بلکہ بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں آپ جس تجربے سے گزرے تھے اس کو تعلق کی موجودہ کیفیت کا تعین کرنے کے لیے معیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ دونوں بدل گئے ہیں ۔ گزرے ہوئے ماہ وسال اپنی مہریں ثبت کرگئے ہیں اور اب آپ کا تعلق وہ نہیں رہا جو کہ دس بارہ یا آٹھ دس سال پہلے تھا ۔ ان برسوں کے بعد آپ کے تعلق میں زیادہ گہرائی اور زیادہ وسعت ہونی چاہیے ۔

تبدیلی پر آمادہ رہا کریں
درمیانی عمر کے آخری برسوں میں گزرتے ہوئے اکثر شوہر گلہ کرتے ہیں کہ’’میں اپنی بیوی سے کہتا رہتا ہوں کہ وہ مجھے زیادہ توجہ اور محبت دیا کرے ۔ مگر اس پر اثر ہی نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی مصروفیات میں کھوئی رہتی ہے ۔ ‘‘ اچھا ، اسی طرح یہ شکایت بیویوں کو بھی ہوتی ہے ۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ توجہ اور چاہت کی طلب گار ہوتی ہے ۔ مگر میاں صاحب کی مصروفیات اور دلچسپیاں وقت کے ساتھ ساتھ پہلے سے بہت بڑھ چکی ہوتی ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے بھی کم دلچسپی اور چاہت کا اظہار کرتے ہیں ۔
خوش گوار تعلق ناطے میں میاں بیوی دونوں کو تبدیلی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ انہیں ایک دوسرے کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے ۔ محبت کے اظہار میں زیادہ سرگرمی دکھانی چاہیے اور پہلے سے زیادہ احترام سے پیش آنا چاہیے ۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ گھر میں جب یہ کیفیت پیدا کی جائے توقربت بے مزہ اور پھیکی ہونے کے بجائے زیادہ پرلطف ہوجاتی ہے ۔ مگر یاد رکھیں کہ کسی بحران کے بعد تعلق کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔ مثالی میاں بیوی آپ کو بتائیں گے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی مسلسل توجہ ، دلچسپی اور کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ وہ یونہی ہاتھ نہیں آتی ۔

جھگڑا مت بڑھائیں
ابلا غ منفی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی ۔ منفی ابلاغ ایک دوسرے کی عزت نفس کو دھچکا پہنچاتا ہے اور تعلق ناطے کو تباہ کردیتا ہے ۔ اس کے برخلاف مثبت ابلاغ ایک دوسرے کو سمجھنے ، ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کا سبب بنتا ہے ۔ اس طرح وہ زندگی کی تھکن کم کرکے اسے تخلیقی اور مسرت انگیز بناتا ہے ۔
پال کی مثال پر غور کریں ۔ وہ درمیانے درجے کا لندن کا شہری ہے اور اس کی زندگی برے شہروں کے متوسط طبقے کا نمونہ ہے ۔ اپنی گھریلو الجھنوں کے بارے میں اس نے لکھا ہے ’’ جب ہم دونوں لڑتے ہیں تو انداز کم وبیش ہمیشہ ایک سا ہی ہوتا ہے ۔ وہ کسی بات پر ناراض ہوجاتی ہے ۔ اس کا پارہ چڑھنے لگتا ہے ۔ پھر وہ گھر سے نکل جاتی ہے اور بہت سی شاپنگ کرکے واپس آجاتی ہے ۔ یہ دیکھ کر میرا خون کھولنے لگتا ہے اور ہم دونوں روپے پیسے کے مسئلے پر جھگڑنے لگتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا سارا غصہ پیسے میں ڈھل جاتا ہے ۔ ہماری لڑائی کے لیے وہ آسانی سے ہاتھ آجانے والا موضوع ہے‘‘ ۔

لوگ عموماً اس قسم کے چکر میں پھنس جاتے ہیں ۔ اس سے بچیں اور ان موضوعات کو اٹھانے سے گریز کریں جو آپ کے شریک حیات کے شدید ناراضی کا سبب بنتے ہیں ۔ آپ کی زندگی میں ایسا کوئی مسئلہ ہے تو آرام سے بیٹھ کر افہام وتفہیم سے کام لیں اور اس کو حل کریں ۔ اس پر چیخنے چلانے سے معاملات درست نہیں ہوتے ، بلکہ مزید بگڑ جاتے ہیں ۔
یادرکھیں کہ عام طور پر میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنے بندھن کی بے حرمتی پسند نہیں کرتے ۔ حالات ہی انہیں بے وفائی کی ترغیب دیتے ہیں یا پھر مجبور کردیتے ہیں ۔ اس قسم کے حالات اچانک پیدا نہیں ہوتے ۔ وہ رفتہ رفتہ نمایاں ہوتے ہیں ۔ لہذا ابتدائی مراحل پہ ان پر قابو پانا دشوار نہیں ہوتا۔ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے آپ کو اس قسم کے حالات پر نظررکھنی چاہیے ۔

مکمل تحریر  »

٭٭٭ ہر مرد عورت کے لیے جو نیٹ استعمال کرتے ہیں٭٭٭

٭٭٭ ہر مرد عورت کے لیے جو نیٹ استعمال کرتے ہیں٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی بهی شادی شدہ مرد کا اور کسی شادی شدہ عورت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے جیون ساتهی کو دهوکا دیں
بہت سے دین دار بهی اس بیماری میں مبتلا ہیں وہ اس بات کو عیب نہیں سمجهتے
آپ کی روز کی غیر محرم سے بات چیت (چاہے موبائل پر یو یا اسکائپ ،واٹس اپ یا فیسبك پر ) یہ بات آپ کو تباہی تک لے جائے گی کیونکہ بات شروع میں سلام سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں زنا تک لے جاتی ہے
مرد وعورت نیٹ چیٹ کے ذریعہ کیا کرتے ہیں اور انہیں اس سے بچائيں ، کیونکہ اس میں فتنے کا ثبوت ملتا ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے اور پھر اس کے بعد ملاقاتیں اورٹیلی فون کالیں وغیرہ بھی اور بعد میں کیا نہیں ہوتا ؟
اپنے ساتهی پر سب سے بڑا ظلم شوہر یا بیوی کا کہ کسی غیر محرم سے تعلقات استوار کر نا ہے۔ نکا ح کے بغیر کسی سے تعلقات قائم کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ بعض لوگ اپنے ضمیر کو مطمئن کر نے کے لئے یا غیر محرم سے تعلقات قائم کر نے کے اپنے قبیح فعل کی طرفداری میں جھو ٹے بہانے گھڑ لیتے ہیں ۔ مثلاً بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑ تی رہتی ہے۔ وہ کاہل اور سست الوجود ہے ۔ بن سنور کر نہیں رہتی ۔ نا فرمانبردار ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ان بہا نوں کا کسی غیر عورت کے ساتھ نا تعلقات قائم کر نے کا کوئی جواز نہیں۔
یا شوہر توجہ نہیں ديتا، میں سارا دن کام میں لگی رہتی ہوں اور اس طرح کی بہت سی باتیں
مردوں کو یہ جان لینا چاہئيے کہ اگر چہ ان کی بیویاں مکمل طور پر نافرنبردار ہی کیوں نہ ہوں یہ امر انہیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ خود کو حرام کا ری میں الجھائیں ۔ غیر مرد و زن کا با ہمی اختلاط کسی طور جائز نہیں ۔ ایسے مغربی افکا ر کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
اگر خاوند یا بیوی کو اپنی بیوی یا شوہر کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات کا علم ہو جائے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی ؟
ایک مسلمان (مرد عورت)جو خود کو ایسی حرام کاری میں ملوث کرتا ہے وہ اپنی بیوی(شوہر) ، اولاد اور اپنے دین سے غداری کا مر تکب ہوتا ہے۔ 
وہ اپنے ذہن میں تصور کرے بیوی گھر کی چار دیواری میں مقید اپنے ذہن میں شوہر کی محبت بسائے گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے۔ ہر وقت اس کے آرام کے لئے متفکر رہتی ہے اور اشتیاق بھری نگا ہوں سے اس کی گھر میں واپسی کی منتظر رہتی ہے ۔
عورت کے لئے اس کا شوہر دنیا کے تمام مردوں سے بڑھ ہونا چاہیے۔ 
ایک وفادار بیوی بیماری کی حالت میں اتنی لگن سے تیماداری اور خدمت کر تی ہے کہ اسے اپنی سدھ بدھ بھی نہیں رہتی ۔ وہ اپنے آرام اور خوشی کو تیاگ کر اس کو زیادہ سے زیادہ آرام وسکون پہنچانے کی کو شش کرتی ہے ۔ اس کی خوراک اور لباس کا خاص خیال رکھتی ہے ۔ بیوی کی ان بے لوث خدمات کے بعد اگر شوہر غیر محرم عورت سے تعلقات بڑھاتا ہے تو اس سے بڑھ کر نا شکر گزار اور کون ہوگا ؟ وہ ایسی حما قت کر کے اپنی بیوی کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے
اسی طرح شوہر سارا دن رزق کے لیے بهاگ دوڈ لگا رہتا ہے تاکہ اپنے بیوی بچوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کر سکے اور اگر اتنی محنت کے بعد بیوی ایسے کام کرئے تو کیا یہ ٹهیک ہے۔ 
کیا یہ ایک مومن کے طور طریقے ہو سکتے ہیں؟ کیا ایسی حرکتیں ایک پاکباز شوہر یا بیوی کو زیب دیتی ہیں ؟
ایسے میاں بیوی اپنے اس قبیح فعل کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ابدہ ہے ۔ بے وفائی کا ارتکاب کر کے وہ اپنے ساتهی کے سامنے بھی جو ابدہ ہے۔ غلط مثال قائم کر کے وہ اپنے اس ظلم کے لئے اپنے بچوں کے سامنے بھی جوابدہ ہے۔ اسے چاہئے کہ غیر محرم کے چنگل سے خود کو آزاد کر ائے اور اس کے لئے ہر تدبیر اختیا ر کرے ۔ اگر وہ واقعی پشیمان اور برائی سے بچنے کی خواہش میں مخلص ہے ۔ اللہ سے خلوص دل سے مدد چاہے ۔ یقینا اس دلدل سے باہر نکل آئے گا ۔
”اِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوا اِذَا مَسَّھُم طَائِف مِّنَ الشَّیطَانِ تَذَکَّرُوا فَاِذَا ھُم مُبصِرُونَ (اعراف201)
”بے شک جو لوگ الله سے ڈرتے ہیں جب انہیں شیطان چھوتا ہے وہ چونک جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔“.

مکمل تحریر  »

عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کا مکروہ کردار اور ہماری ذمہ داریا ں

عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کا مکروہ کردار اور ہماری ذمہ داریا ں
محترم محمد مثنی حسّان


علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”…المراد بہ جنس الأمور التی تتعلق بالدین کالخلافةوالقضاء والافتاء ونحو ذلک“․
”…اس سے دین سے متعلّق جملہ امور مراد ہیں، جیسے خلافت، عدالت ،افتاء اور اسی طرح کے دیگر امور“۔
اور ایسا کیوں کر ہوگا تو اس کی وجہ علامہ عینی رحمہ اللہ یوں بیان کرتے ہیں: ”وھذا انما یکون اذا غلب الجھل وضعف أھل الحق عن القیام بہ“․
”اور ایسا تب ہوگا جب جہالت غالب آجائے اور اہلِ حق حق کو قائم کرنے سے عاجز ہوجائیں“۔
(عمدة القاری شرح صحیح البخاری؛ کتاب العلم،باب من سئل علما وھو مشتغل فی حدیثہ…)

اب جب کہ یہی ذرائع ابلاغ جاننے اور دین سمجھنے کے مصادر بنتے جارہے ہیں تو انھوں نے خیر کو شر اور شر کو خیر بنا ڈالا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا گردانا جارہاہے۔آج مجاہدین امت کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے ، جب کہ امت مسلمہ کے غدار اس کے محسن بناکر پیش کیے جا رہے ہیں۔

نیز ان اداروں کے سبب مسلمانوں کے معاملات اب دین سے بری فاسق افراد کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ایسے بد کار لوگ ہی مسلمانوں کی راہ نمائی کے مناصب پر فائز ہوگئے ہیں اور ٹاک شوز میں آکر مسلمانوں کے معاملات…مذہب سے لے کر سیاست تک میں …گفتگوکرتے ہیں۔ان کی بدولت آج’جہالت و ضلالت‘…حق کا غازہ رخ پہ ملے…مسلم معاشروں میں پھیلتی چلی جارہی ہے اور اہل حق کے لیے حق کو قائم کرنا دشوار تر ہوتا چلا جارہا ہے ،والعیاذ باللہ۔

شعائرِ اسلام کا مذاق اور استہزا
ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے کفار ایک خدمت یہ لے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں سرِ عام شعائرِاسلام اور حدود اللہ کا مذاق اڑایا جارہاہے اور ان کی تحقیر کی جارہی ہے۔آج یہ ادارے ’شعیب منصور‘جیسے لادینوں کی سرکردگی میں ”خدا کے لیے“جیسی فلمیں بناتے ہیں او ر پھر مسلمانوں کو دکھاتے ہیں کہ ’داڑھی میں اسلام نہیں،”جہاد تو فساد ہے اور ’موسیقی تو مسلمانوں کی تہذیب ہے، ونعوذ باللہ من ذلک۔آئے روز ایسی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے داڑھی ،جہاد اور پردے کا استہزا کیاجاتا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ سیکولر صحافی و دانش ور اور این جی اوز کے کارندے ان شعائر کو مولویوں کی تنگ نظری اور دقیانوسی سے تعبیر کرتے ہیں۔پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر حدوداللہ کی توہین کی جاتی ہے۔نشریاتی ادارے ایسی جعلی فلمیں بناکر نشر کرتے ہیں جن میں کسی لڑکی کو کوڑے مارے جارہے ہوں اور وہ چیخ و پکار کررہی ہو یا کسی کا چوری کے سبب ہاتھ کاٹا جارہا ہو۔پھر انہیں موضوع بحث بناتے ہوئے ببانگ دہل حدوداللہ اور شرعی سزاؤں کا استہزا کیاجاتا ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ یہ سب قبیح ترین افعال مغرب میں نہیں ،بلکہ خود مسلم معاشروں میں ہو رہے ہیں تاکہ عامةالمسلمین کو شعائرِ اسلام اور حدوداللہ سے برگشتہ کیا جائے اور ان کے لیے اسلام کو اتنا پیچیدہ بنادیا جائے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کفار کی مرضی کا ’ماڈریٹ اسلام‘قبول کر لیں اور چودہ صدیوں پہلے نازل ہونے والے اسلام کو اپنے لیے عیب سمجھنے لگیں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان اداروں کے شرور سے محفوظ رکھیں، آمین!

درحقیقت دین کے شعائر و شرائع کے استہزا کا معاملہ اتنا ہلکا نہیں کہ ہمارے معاشروں میں سرِعام یہ سب کچھ ہو اور ہم پروا بھی نہ کریں،بلکہ یہ معاملہ تو اتنا خطرناک ہے کہ اگر کوئی مسلمان دین کے کسی حکم کا استہزا کرے تو وہ مسلمان نہیں رہتا، بلکہ کافر ہوجاتا ہے ۔امام جصاص  سورہ توبہ کی آیت ﴿وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُْنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ﴾کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”ودل أیضا علی أن الاستھزاء بآیات اللہ وبشیء من شرائع دینہ کفر من فاعلہ“․
”یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور دین کے کسی چھوٹے سے حکم کااستہزاء کرنے والا بھی کفر کا مرتکب ہوتا ہے“۔(أحکام القرآن لأبی بکر الجصاص)

شہوات و محرمات کی تشہیر
اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں شیطان لعین کی خصلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ فَإِنَّہُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنکَر﴾․ (النور :21)
”اے ایمان والو!تم شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو اور جو شخص شیطان کے قدم بہ قدم چلتا ہے تو وہ تو (ہمیشہ ہر شخص کو)بے حیائی اور برائی ہی کرنے کو کہے گا“۔

گناہوں اور محرمات کا پھیلاؤاور فحاشی و شہوات کی تشہیر شیطان کا اہم ترین حربہ ہے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج مسلم معاشروں میں یہ کام شیطان اپنے ابلاغی اداروں ہی سے کروارہاہے۔آج کسی بھی لمحے دل پر اس کے کس قدر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کوئی بھی چینل دیکھتے ہوئے بہت ہی کم لمحات ایسے ہو ں گے جن میں آپ کے کانوں میں موسیقی نہ جائے اور آپ کی آنکھیں کسی بے پردگی کا شکار نہ ہوں۔مسلم معاشروں میں گناہوں کی اتنی تشہیر کا ایک عجیب آلہ ’ذرائع ابلاغ‘کی صورت میں شیطان کے ہاتھ آگیاہے ۔افسوس کہ اس کے ذریعے آج ہر مسلم گھرانے میں گناہوں کا دروازہ کھل چکا ہے اور شیطان نے ہمارے دین دار حضرات کے گھروں تک بھی رسائی حاصل کرلی ہے۔

پھر معاشرتی سطح پراس کے اثرات بھی کسی سے مخفی نہیں ،اگر دل کی آنکھوں سے دیکھا جائے ۔سابقہ ایک دہائی میں ہمارے معاشروں میں فحاشی وعریانی حیران کن حد تک بڑھی ہے ۔نوجوان نسل میں عشق کا مرض عام ہے، عورتوں میں بے پردگی تیزی سے پھیل رہی ہے اور زنا جیسے گندے فعل کا تناسب دن بدن بڑھ رہاہے۔حتیٰ کہ اب ہمارے بعض شہر یورپ و امریکاکے شہروں سے قطعاً مختلف نظر نہیں آتے ۔اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَاتَعْلَمُونَ﴾ (النور:19)
”اور لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ،انھیں دنیاوآخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گااور(اس امر پر تعجب کا اظہار مت کرو، کیوں کہ )اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔

اور یہ ذرائع ابلاغ ہی ہیں جو مسلمانوں میں فحاشی کو عام کررہے ہیں، تاکہ انھیں اللہ،اسلام اور صراطِ مستقیم سے دور کردیں اور سبلِ شیاطین کا راہ رو بنادیں۔

شکوک وشبہات کا پھیلاؤ 
ذرائع ابلاغ کا ایک اہم کردار یہ ہے کہ مسلمانوں میں اسلام اوراس کے احکامات کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں اور قرآن و حدیث کے صریح و محکم احکامات کو مسلمانوں کے اذہان میں مبہم و مشتبہ بنا دیاجائے۔اس غرض سے ایسے ٹاک شوز نشر کیے جاتے ہیں جن میں مختلف احکامات قرآنی کو زیر بحث لایاجاتا ہے اور ان پر رویبضہ گفتگو کرتے ہیں۔کبھی شراب کی حرمت پر بحث کی جاتی ہے اوراس کی حرمت کومشکوک کیا جاتا ہے،کبھی ’نظریہ ارتقاء کو اسلام میں ٹھونس کر ’تخلیقِ آدم ‘ کورد کیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود تک پر گفتگو کرتے ہیں اور مسلمانوں میں واضح الحاد کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ تمام باتیں محض خیالی نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کچھ تو ہو چکا ہے یا ہورہا ہے اور یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ڈر تو اس بات کا ہے کہ آگے چل کر نجانے یہ ابلاغی ادارے کیاکچھ مزید کریں گے؟ہمارے مسلمہ عقائد سے لے کر عبادات تک …ہرایک معاملے میں شکوک وشہبات پھیلائیں گے۔اللہ تعالیٰ ان شکوک و شہبات سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں ،آمین!

﴿وَیُجَادِلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آیَاتِیْ وَمَا أُنذِرُوا ہُزُواَ ﴾(الکھف:56)
”اورکافر لوگ باطل (بات)سے جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس سے حق کو نیچاکر دکھائیں اور انھوں نے میری آیتوں کو اور جس (عذاب) سے انھیں ڈرایا گیا تھا،دل لگی بنا رکھا ہے”۔

امام ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”…ثم أخبرعن الکفاربأنھم یجادلون بالباطل ﴿لِیُدْحِضُوْابِہِ﴾ أی لیضعفوا بہ ﴿الْحَقَّ﴾الذی جاء تھم بہ الرسل“․
”پھر الله تعالیٰ نے کفار کے متعلّق خبر دی کہ وہ باطل (دلائل) کی مدد سے مجادلہ کرتے ہیں، تا کہ اس کے ذریعے اس حق کو کمزور کریں، جو پیغمبر لے کر آئے ہیں“۔ (تفسیر ابن کثیر؛سورةالکھف،آیة56)

آج ذرائع ابلا غ بھی یہی کر رہے ہیں کہ حق کے روشن چہرے کو…دجل کی چادر اوڑھے ایسے باطل دلائل سے مسخ کر کے مسلمانوں کے اندر حق کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلا رہے ہیں،تاکہ حق کمزور ہوجائے اور باطل غالب آجائے۔

کفر واسلام کی حالیہ جنگ میں کفار کی چاکری
عصرِحاضر میں برپا کفر و اسلام کی جنگ کا فکری محاذ بہت ہمہ پہلو ہے۔اس کا ایک پہلوحالیہ جنگ کے عسکری میدانوں کے احوال سے تعلّق رکھتاہے۔آج جہاں جہاں مسلمان مجاہدین بر سرِ پیکار ہیں،وہاں کے حالات اور صورت حال بھی جدید ذرائع ابلاغ کا ایک اہم موضوع ہے۔

اللہ تعالیٰ کے امت مسلمہ پر بے انتہا احسانات میں ایک احسانِ عظیم یہ ہے کہ غلامی کی قریباًایک صدی کے بعد آج امت کے مجاہدین دوبارہ کفار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، لمحہ بہ لمحہ اسلام کے غلبہ کی جانب گام زن ہیں ۔چاہے صومالیہ کا تذکرہ ہو یا افغانستان کا،سرزمین عراق کی بات کریں یا شیشان کی…مجاہدین اپنی محبوب امت کو فتح کی نوید سنا رہے ہیں۔حتیٰ کہ بر صغیر میں بھی ڈیڑھ سو سالہ غلامی کے بعد آج مجاہدین امریکی غلاموں کے خلاف مضبوط و مستحکم ہوگئے ہیں اور ان کی بدولت مسلمانانِ برصغیر کی امیدیں انگڑائی لے رہی ہیں کہ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب دہلی کے لال قلعے پر اسلام کا علم لہرائے گا اور پورا بر صغیر خلافت کی برکات اور شریعت کے ثمرات سمیٹے گا۔

ایسے میں یہ ذرائع ابلاغ اصل حقائق کو عامة المسلمیں کے سامنے لانے کی بجائے جھوٹ اور فریب کی داستانیں سناتے ہیں اور امت کو اپنے مجاہدین بیٹوں سے بر گشتہ کرتے ہیں، تاکہ مسلمانان امت کبھی کفر کی غلامی سے نجات اور غلبہ اسلام کا سوچ نہ سکیں۔اور در حقیقت یہ بہت بڑی خدمت ہے جویہ ادارے کفار کے لیے سرانجام دے رہے ہیں۔

سب سے پہلا کام ان اداروں نے یہ کیا ہے کہ جہاد جیسے مقدس فریضے کو ہی عام مسلمانوں کے سامنے مشتبہ بنادیا ہے۔آج امریکہ و مغرب کے خلاف جو بھی جہاد ہورہا ہے،اسے یہ ادارے ’دہشت گردی‘بناکر مسلمانوں کو دکھاتے ہیں۔امریکہ جسے ’دہشت گردی ‘کہتاہے(جو دراصل امریکہ کے خلاف ہونے والا مقدس جہاد ہے)، اسے یہ ذرائع ابلاغ بھی مسلمانوں کے سامنے ’دہشت گردی‘کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر اسے ’دہشت گردی ‘ ثابت کرنے کے لیے زہر یلا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔زیادہ دور نہ جائیے! پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے۔وہ مجاہدین جنھوں نے امریکہ کے خلاف افغانستان میں جہاد کاعلم بلند کیا ، وہ مجاہدین جنھوں نے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا جھنڈا تھاما،وہ مجاہدین جنھوں نے مسلمانان پاکستان کو امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کی غلامی سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا…انھیں ذرائع ابلاغ کبھی امریکہ و بھارت کا ایجنٹ کہتے ہیں اور اسے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہی حقیقت ہے۔حا لاں کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ایسے تو نہیں کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان وہاں کے باسیوں سے واقف نہ ہوں۔کیا یہ وہی لوگ نہیں جنھوں نے اس سے قبل برطانیہ کے خلاف سید احمد شہید کے جہاد کو کاندھا دیا،جنھوں نے اپنی فقیررحمة الله علیہ کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف جہاد کیا اور ان کے جانے کے بعد شریعت کا علم بلند کیا اور جنھوں نے کشمیر کے کچھ حصّے کو آزاد کرادیا۔آج جب یہی پاکستان میں شریعت کی با لا دستی کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے تو انھیں ذرائع ابلاغ ’دہشت گردی ‘ قراردے رہے ہیں، تاکہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو ان سے دور کردیا جائے اور ان کا پشتی بان بننے سے روک دیا جائے۔اسی غرض کی خاطر طالبان پر ڈرامے بناکر نشر کیے جارہے ہیں ،ان میں ان پا ک باز مجاہدین کو عجیب و غریب خوف ناک مخلوق بناکراہل پاکستان کو دکھایا جارہا ہے، تاکہ وہ ان کی کبھی حمایت نہ کریں اور یوں پاکستان میں نفاذِ شریعت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو۔اس کے علاوہ کبھی کوئی چینل کسی خود ساختہ ’خودکش بمبار‘کا انٹرویو نشر کردیتا ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد اور مجاہدین کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔پھر تمام نشریاتی ادارے اور اخبارات مجاہدین کے خلاف مسلمانوں کے قتلِ عام کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ جب بھی مجاہدین کی قیادت کی جانب سے کوئی پیغام آتا ہے تو یہ دانستہ طور اسے نشر ہونے سے روک لیتے ہیں یا اس میں کتر و بیونت کر کے اسے غلط سیاق وسباق میں پیش کرتے ہیں، تاکہ اصل حقائق مسلمانوں تک نہ پہنچ پائیں اور مسلمان اسی کو حقیقت سمجھیں، جسے یہ ذرائع ابلاغ حقیقت کا روپ دیں۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان ذہنی طور کبھی یکسو نہیں ہو پاتا ہے کہ یہ واقعی مجاہدین ہیں یا ’دہشت گرد‘؟اور کیا دنیا میں کہیں خالص جہاد ہو بھی رہاہے یا ہر جگہ ایجنٹ ہی موجود ہیں؟

وسیع تناظر میں…
اب اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو ذرائع ابلاغ کی اس مکروہ مہم کا امت کو اتنا عظیم نقصان پہنچ رہا ہے کہ اسلام کی سر بلندی کی منزل بعید سے بعید تر ہوتی چلی جارہی ہے،غلامی کی ایک صدی کے بعد کفار کے خلاف اٹھنے والی جہادی بیداری رکاوٹوں کا شکار ہورہی ہے اور کفار اپنے غلبے کو مزید طول دینے میں کام یاب ہورہے ہیں۔

خلاصئہ کلام 
ابھی تک ہم نے عصر حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کے مکروہ کردار کی بابت جو کچھ پڑھا ہے،اسے چند مختصر نکات کی صورت میں بیان کیے دیتے ہیں ،تا کہ بات اچھی طرح خاطر نشیں ہو جائے۔

٭...اسلام وکفر کے معر کے میں جہاں زمانہٴ قدیم میں مشرکین نے نضر بن حارث کے لھو الحدیث سے کام لیا تھا،آج کے دور میں کفار وہی کام جدید ذرائع ابلاغ سے لے رہے ہیں۔
٭...آج کے دور میں برپااسلام اور کفر کی جنگ میں ذرائع ابلاغ کفار کا اہم ترین ہتھیار ہیں…چاہے مقامی ذرائع ابلاغ ہوں یا بین الاقوامی، الیکٹرانک میڈیاہو یاپرنٹ میڈیا،صحافتی ادارے ہوں یا ثقافتی، سرکاری ہویا غیر سرکاری ۔ان اکاہم ترین ہدف ’مسلمانوں کے دلوں میں سے اسلام کو کھرچ نکالنا اور دجل کا سہارا لیتے ہوئے دین و ثقافت اسلام ہی کو بدل ڈالناہے۔
٭...یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں میں مغربی تہذیب و اقدار کو فروغ دے رہے ہیں اور مسلمانوں میں کفار کی مرعوبیت پیدا کر رہے ہیں۔
٭...آج یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں میں دین کا مصدر بنتے جارہے ہیں اور انھی کو استعمال کرتے ہوئے کفار اپنے کارندوں کے ذریعے مسلمانوں میں دین کی جدید تعبیر اور ’ماڈریٹ اسلام‘متعارف کروا رہے ہیں۔
٭...ان اداروں کے ذریعے شعائر اسلام اور حدوداللہ کا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ مسلمان اپنے دین ہی کو اپنے لیے عیب سمجھنے لگیں اور اسے چھوڑ کر ذرائع ابلاغ کا نشر کردہ ’ماڈریٹ اسلام ‘قبول کر لیں۔
٭...یہ ابلاغی ادارے مسلم معاشروں میں گناہوں اور فحاشی کے پھیلاؤ کا اہم ترین ذریعہ ہیں اور ان کی بدولت ہمارے معاشرے بڑی حد تک مغربی معاشرے بنتے جارہے ہیں۔
٭...ایک اہم کردار ذرائع ابلاغ یہ ادا کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے مسلمہ عقائد اور دین کے محکم احکامات میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں اور انھیں مشتبہ بنارہے ہیں۔
٭... آج امت کو اسلام کی سر بلندی اور کفار کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے مجاہدین اسلام نے جس مقدس جہاد کا آغاز کیا ہے،یہ ذرائع ابلاغ اسے مسلمانوں کے سامنے دہشت گردی بنا کر پیش کر رہے ہیں، تاکہ مسلمانان امت کو اس جہاد کی پشتی بانی سے روک سکیں ۔اور یوں غلامی کفار کا پھندہ ہمارے گلوں میں پڑارہے اور ”غلبہٴ اسلام “ اور”قیام خلافت علی منہاج النبوة“کا خواب کبھی شرمندہ ٴ تعبیر نہ ہو سکے۔

ہماری ذمہ داریاں 
جدید ذرائع ابلاغ کامکروہ کردار جاننے کے بعد اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی بابت ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ہمیں کیا کرنا جاہیے تاکہ ان کے شر سے خود کو انفرادی حیثیت میں اور امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر بچایا جا سکے۔

فقہائے اسلام نے اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکامات کے پس پردہ کارفر ما کچھ مقاصد کی نشان دہی کی ہے، جنھیں”مقاصد الشریعة “کہا جاتا ہے۔ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اسلامی احکامات کا مقصد لوگوں کے مصالح کاخیال رکھنا ،انھیں نفع بہم پہنچانا اور ان سے ہر قسم کے دنیوی و اخروی ضررو فساد کو دفع کرنا ہے، تاکہ ان کی زندگیا ں تمام شرور سے محفوظ انفردی و اجتماعی سطح پر سعادت کے ساتھ گزریں۔گویا دین پر عمل ہی انسان کی دنیوی واخروی فلاح و سعادت کی واحد راہ ہے۔انھی مقاصد شریعہ کے حصول کو مد نظر رکھتے ہوئے فقہاء اور اصولیین نے چند قواعد بیان کیے ہیں، مثلاً:
…الضرر یدفع بقدر الامکان․ (نقصان و ضرر کو حتی الامکان روکا جائے گا۔)
…الضرر یزال (لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کو زائل کیا جائے گا۔)
…درء المفاسد أولی من جلب المنافع․ (مفاسد کا خاتمہ حصولِ منافع پر مقدم ہے۔)

ایک جانب ان اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے اور پھر ذرائع ابلاغ کے کردار کو دیکھا جائے تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ آج کے دور میں ہمیں ان ذرائع ابلاغ کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے ؟کس طرح ان سے پرہیز کرنا چاہیے؟ اور کیوں کر ان کے خلاف عملی میدان میں نکلنا چاہیے؟کیوں کہ ان کی وجہ سے امت کی زندگی انتہائی شرو ضرر کا شکار ہورہی ہے اور سعادت کی منزل سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔اس ضمن میں ہم یہاں انتہائی مختصر نکات کی صورت میں چند باتیں اہل ایمان کے سامنے رکھیں گے، کیوں کہ تفصیل میں جانا ہمارے لیے ممکن نہیں ۔تاہم ہر اہل ایمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ غور کرے کہ ان ذرائع ابلاغ سے امت کو پہنچنے والے شر کو کیسے روکا جائے ،وما التوفیق الا باللہ!

٭...ذرائع ابلاغ کی نشر کردہ خبروں پر قطعاً اعتبار نہ کیا جائے۔
یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں اور امت کے احوال کے متعلق جو بھی خبریں نشر کریں،ان پر مسلمانوں کو قطعاً اعتبار نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ… جیسا کہ ہم نے پڑھا…یہ ادارے اکثر و بیشتر حقیقت کو چھپالیتے ہیں اور اس کے بالعکس جھوٹ کو حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ آج کل یہ ادارے ہمیں بتاتے ہیں کہ ’نائیجیریا‘میں مسلم عیسائی فسادات ہو رہے ہیں ،اس سے آگے مزید خبر نہیں دیتے ۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں حکومتی سر پرستی میں، نائیجیریا کی فوج بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے۔انھیں گھروں سے نکال نکال کر قتل کیا جارہا ہے اوران کی نسل کشی کی جارہی ہے، وہاں کے مسلمان انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں دوسرے مسلمانوں کی راہ تک رہے ہیں مگر مسلمانوں کو خبر ہی نہیں، کیوں کہ وہ ان ذرائع ابلاغ پرتکیہ کیے بیٹھے ہیں ۔یہ صرف ایک مثال ہے، و گر نہ یہ ادارے اس سے قبل بھی اپنی نشر کردہ خبروں سے امت کو بے انتہا نقصان پہنچا چکے ہیں۔

قرآنی تعلیمات
یہ تو واقعاتی پہلو تھا،شریعت کی نظر سے دیکھیں تو مسلمانوں پر بدرجہ اولی لازم ہے کہ وہ ان کی خبروں پر اعتبار نہ کریں۔اس ضمن میں قرآن مجید ہمیں یہ تعلیمات دیتاہے کہ:
کسی بھی فاسق کی بیان کردہ خبر کی تصدیق نہ کی جائے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْن﴾․(الحجرات :6)
”اے ایمان والو!اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو،(مبادا)کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو،پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے “۔

اس آیت کی رو سے ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ جب بھی کوئی خبر دیں تو انھیں کبھی من وعن قبول نہ کریں اور نہ ہی ان کی تصدیق کریں،کیوں کہ یہ ادارے فسق کا گڑھ ہیں اور جھوٹ ،فریب اور دجل کے اڈے ہیں۔بلکہ مسلمانوں کوچاہیے کہ ان کی نشر کردہ خبروں کی اپنیتئیں تحقیق کریں۔ان اداروں کی خبروں پر بلا تحقیق یقین کرنے کا نتیجہ ہے کہ امت آج اپنے ،محافظین کو پہچاننے سے ہی گریزاں ہے اور مجاہدین کو ہی دہشت گرد سمجھ رہی ہے۔اس آیت کے ذیل میں تفسیر کبیر میں لکھا ہے:
”(ھذا)لبیان وجوب الاحترازعن الاعتماد علی أقوالھم، فانھم یریدون القاء الفتنة بینکم“ ․
”(یہ آیت )واضح کرتی ہے کہ ان کے اقوال پر اعتماد کرنے سے احتراز کرنا واجب ہے،کیوں کہ یہ لوگ (اے مسلمانو!)تمہارے درمیان فتنہ پھیلاناچاہتے ہیں“۔(التفسیر الکبیر ؛سورةالحجرات ،آیة6)


مکمل تحریر  »