یہ
حسد کی بیماری )مرض(ہے۔
حسد کے کیا معنی ہیں ؟
امام نووی رحمہ اللہ نےاپنی کتاب ریاض
الصالحین میں ذکر کیا ہے کہ )حسد کا معنی ( نعمت کے زائل
ہوجانے کی تمنا کرنا یعنی آپ یہ تمنا کریں کہ میں کہ آپ کے مسلمان بھائی سے کوئی
نعمت زائل ہوجائے چاہے وہ دنیوی ہو یا دینی نعمت ہو۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب میں
یہود کی صفت ذکر کی ہے کہ وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنہیں اللہ نے اپنے فضل سے
نوازا ہو۔
چونکہ یہ یہودیوں کی صفت ہے اس لئے ہمیں اس
ہوشیار ہنا چاہیے سب سے پہلا گنا ہ جس سے اللہ تعالی کی نافرمانی کی گئی وہ حسد ہے
کہ جب ابلیس نے آدم علیہ
السلام سے حسد کیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وصیت کی ہے
کہ:
لا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تقاطعوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله
إخوانًا
ترجمہ
: ایک دوسرے سے حسد اور بغض نہ رکھو نہ ایک دوسرے سے تعلق منقطع کرو
اور ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو اللہ کے بندے اورآپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔
اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مومنوں کی
یہ صفت بیان کی ہے:
وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِينَ آمَنُوا
ترجمہ:
ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے غل نہ چھوڑ ۔
یعنی مومنوں سے حسد و نفرت نہ چھوڑ حسد کے
کئی نقصانات ہیں عزیز دوستوں اسکا پہلایہ نقصان ہے کہ حسد اللہ کی تقدیر پر اعتراض
ہے کیا آپ کے علم میں ہے کہ حسد کرنے والا اللہ کی تقدیر پر اعتراض کرتاہے گویا کہ
وہ اللہ کے فیصلے میں اس پر تہمت لگا تاہے کہ ائے رب تو نے فلاں انسان کوہی اپنی
نعمت سے کیوں نوازا ہے مجھے کیوں اپنی نعمت سے نہیں نوازا فلاں کو کیسے عطا کردیا
مجھے عطا کیو ں نہ کیا۔
چنانچہ یہ اللہ تعالی کے عدل وقضاء پر تہمت
لگانا ہے حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی عدل کرنے والوں میں
سب سے بڑا عدل کرنے والا ہے سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے اور سب رحم کرنے والوں سے
زیادہ رحیم ہے اللہ تعالی معاملات کو انکی صحیح جگہوں پر رکھتاہے اللہ تعالی کے
ناموں میں سے ایک نام الحکیم ہے الحکیم اس ذات
کو کہتے ہیں جو معاملات کو انکی مناسب جگہوں پر رکھے ۔
اسی طرح حسد کا نقصان یہ بھی ہے کہ حسد
کرنے والا ہمیشہ ہم وغم اور پریشانی میں مبتلا رہتاہے جب بھی وہ کسی ایسے شخص کو
دیکھتاہے جسے اللہ تعالی نے دینی یا دنیوی نعمت سے نوازا ہو آپ اسے دیکھیں گے کہ
ذہنی طور پرپریشان ہوجا تاہے اور تھکنےلگتاہے حتی کہ آپ بعض حاسدین کے چہرے پر حسد
کے آثار دیکھیں گے۔
مثال کے طور پر اگر اس کے پاس کسی شخص کے
متعلق خبر آجائے کہ فلاں شخص کافی دولت سے نوازا گیا ہے یا فلاں کو گفٹ میں گاڑی
ملی ہے فلاں شخص نے نیک اور خوبصور ت عورت سے شادی کرلی ہے تو آپ اس حاسد شخص جو
اللہ کی مخلوق پر اللہ کی نعمتوں کی بارش کو ناپسند کرتاہے آپ اسے دیکھیں گے کہ
اسکے چہرے کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہوجاتاہے آپ دیکھیں گے کہ حسد اسکی آنکھوں اور
اسکے چہرے سےظاہر ہورہا ہوتا ہے یہ اپنے بھائیوں کی خوشی پر خوش نہیں ہوتا نہ ان
کے غم میں غمزدہ ہوتاہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شے کو مومن کامل کی
صفات میں شمار کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحبه لنفسه
ترجمہ:
تم لوگوں میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ
اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے ۔
آپ جتنے بھی بڑے عالم فقیہ عبادت واطاعت
گذار اور حافظ قرآن بن جائیں قیام اللیل وصیام النھار )دن کے روزوں( کے جتنے بھی
چاہیں ڈھیر لگالیں لیکن اگر آپ اپنے)مسلمان( بھائی کے لئے
وہ شے پسند نہیں کرتے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتے ہوں یا ا ن کے لئے خیر کی تمنا
نہیں رکھتے تو ابھی تک آپ کا مل مومن نہیں ہوئے ابھی آپکا ایمان ناقص ہے ۔
لہذا اگر آپ اپنے نفس کو بڑا تہجد گزار
روزے دار حافظ قرآن حافظ احادیث مشہور امام وخطیب گردانتےہوں یا کتنے ہی اعمال
صالحہ سر انجام دیتے ہوں اگر آپ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے وہ پسند نہیں کرتے جو
خود اپنے لئے پسند کرتےہیں اور اپنے مسلمان بھائی کے لئے اسے ناپسند نہیں کرتے
جوخود آپکو ناپسند ہو توہمارے نزدیک آپ شریعت کے ترازو میں ناقص ایمان والے ہوں
گے۔
اسی لئے میرےعزیز دوستوں آپکو اپنے نفس کے
خلاف جہاد کرنا چاہیے مثال کے طور پر اگر ابھی تک آپکے دل میں اپنے کسی بھی بھائی
سے اللہ کی نعمت زائل ہوجانے کی ہلکی سے بھی تمنا ہےچاہے وہ دینی نعمت ہو یا دنیوی
تو آپکو چاہیے کہ آپ اپنے نفس کے خلاف جہاد کریں یعنی اگر کسی مسلمان بھائی کے
متعلق یہ بات سنیں کہ اللہ تعالی نےاسے گھر سے نوازاہے اسے بیوی عطاکی ہے اسکی
اچھی تنخواہ کا بندوست کروادیا ہے اور اسکے پاس بہت سا مال آگیاہے اور وہ حافظ
قرآن بن گیا ہے تو آپ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ ائے رب اسے مزید توفیق دے اسکے
رزق میں برکت عطاکر یہاں آپکے اور شیطان نفس امارہ (یعنی
برائی پر اکسانے والے نفس) کے درمیان معرکہ شروع ہوجائے گا حتی کہ اللہ
تعالی آپکو آپکا نفس دکھادے اور آپ کہیں کہ ائے میرے رب میں اپنےنفس کے خلا ف جہاد
کرتا رہوں گا حتی کہ میں قلب سلیم کا مالک بن جاؤ ہر انسان کا دل دنیا سے لگا ہے(ذرا اس سنہرے اصول پر غور کریں) آپ اسے دینا کے لئے
پریشان اور غمزدہ ہوتا پائیں گے،البتہ وہ انسان جو دنیا سے بے پرواہ ہو اور اس میں
زہد اختیار کرے اور آخرت سےلگاؤ رکھتاہووہ ان امور(احمقانہ
امور) کی طرف نہیں دیکھتا یہی زہد ہے بقول ابن قیم رحمہ اللہ :
انّ الزهد راحة القلب والبدن
ترجمہ:
زہد دل وجان کاسکون ہے۔
بلکہ وہ لوگو ں کے لئے برکت کی دعائیں
کرتاہےفلاں کی تجارت میں برکت ہوفلاں کو اعلی شہادت سے نوازا جائے اللہ تعالی اسے
توفیق دے اللہ آپ میں برکت دے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ لہذا آپکو چاہیے کہ آپ دعا کریں
اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے کی کوشش کریں یہ جہاد اس وقت تک ضروری ہے جب تک آپ
اللہ کو اپنا نفس نہ دکھا دیں کہ ائے میرے رب میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کررہا
ہوں۔
عزیز دوستو ! میں کہتا ہوں کہ
یہ مرض حسد(یعنی حسد کی بیماری) پھیل چکا ہے
جیسا کہ امام ان تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما خلا جسدٌ من حسد ولكن الكريم يخفيه واللئيم يُبديه
ترجمہ:
کوئی جسم حسد سے خالی نہیں لیکن کریم انسان اسے چھپاتا
ہےخسیس (گھٹیا) انسان اسے ظاہر کرتاہے۔
حسد کی بہت سی صورتیں ہیں مثال کے طور پر
یہ مرض عورتوں میں بہت زیادہ پھیلاہوا ہے اگر کوئی عورت کسی دوسری عورت سےملنے
جاتی ہے اور اس عورت کا گھر ماشاءاللہ خوبصورت بنا ہوا فرنیچر سے آراستہ ہو پھر
کچھ دنوں بعد جب وہ یہ خبر سنے کہ یہ گھر جل گیا تواپنےدل میں سکون وراحت محسوس
کرتی ہے یہی حسد ہے جب آپ اپنے مسلمان بھائیوں کےمتعلق سنیں کہ وہ مصیبتوں،
پریشانیوں،بیماریوں اور سختیوں میں مبتلا ہیں تو آپ اپنے اندر راحت محسوس کریں اور
جب آپ اپنے مسلمان ہمسایوں کے بارے میں سنیں کہ اللہ تعالی نے ان پر اپنا انعام
کیاہےان کے دینی دنیوں معاملات میں برکت دی ہےتوآپ پریشان اور غمزدہ ہوجائیں یہی
حسد ہے چنانچہ ہمیں اپنے دلوں کاشدت کے ساتھ محاسبہ کرنا چاہیے آپ اپنے دل میں
جھانک کردیکھیں کہیں اس میں حسد تو نہیں اور ہمیشہ اللہ سے دعاکریں کہ ائے اللہ
میرے دل کو ان امراض سے بچامیرے دل کو حسد وکینہ اور نفرت سے بچا۔
عورتوں میں حسد کی بیماری کی ایک مثال یہ
بھی ہے کہ جب عورت دوسری عورت کے متعلق یہ سنے کہ ماشاءاللہ اسکی ازدواجی زندگی
بڑی بابرکت ہے وہ اپنے شوہر کے ساتھ بڑی خوش ہے تو یہ عورت غم کا شکارہوجاتی پھر
اگر کسی دن وہ اس کی طرف شکوہ لے کرآجائے کہ اس کے اور اسکے شوہر کے درمیان رنجش
پید ا ہوگئی ہے تو یہ عورت سکون محسوس کرتی ہے حتی کہ آپ اسکے چہرے کو دیکھیں گے
کہ وہ خوشی سے بدل گیا۔
لہذا ہمیں بچنا چاہیے اوراپنے دلوں کے
متعلق باریک بینی سے کام لینا چاہیے چونکہ حسد کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اللہ
تعالی کی قضاء وتقدیر پر اعتراض شمار ہوتاہے ۔
آپ کے پاس دل کو حسد سے پاک رکھنے کا ایک
ہی ذریعہ ہے کہ آپ اپنے نفس کے خلاد جہاد کریں اور ہمیشہ اللہ تعالی سے دعا کریں
کہ وہ آپ کے دل کو حسد سے پاک رکھے۔
أقول قولي هذا،وأستغفر الله لي ولكم, وصلى الله
وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم۔۔۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔