عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کا مکروہ کردار اور ہماری ذمہ داریا ں
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”…المراد بہ جنس الأمور التی تتعلق بالدین کالخلافةوالقضاء والافتاء ونحو ذلک“․ ”…اس سے دین سے متعلّق جملہ امور مراد ہیں، جیسے خلافت، عدالت ،افتاء اور اسی طرح کے دیگر امور“۔ اور ایسا کیوں کر ہوگا تو اس کی وجہ علامہ عینی رحمہ اللہ یوں بیان کرتے ہیں: ”وھذا انما یکون اذا غلب الجھل وضعف أھل الحق عن القیام بہ“․ ”اور ایسا تب ہوگا جب جہالت غالب آجائے اور اہلِ حق حق کو قائم کرنے سے عاجز ہوجائیں“۔ (عمدة القاری شرح صحیح البخاری؛ کتاب العلم،باب من سئل علما وھو مشتغل فی حدیثہ…) اب جب کہ یہی ذرائع ابلاغ جاننے اور دین سمجھنے کے مصادر بنتے جارہے ہیں تو انھوں نے خیر کو شر اور شر کو خیر بنا ڈالا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا گردانا جارہاہے۔آج مجاہدین امت کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے ، جب کہ امت مسلمہ کے غدار اس کے محسن بناکر پیش کیے جا رہے ہیں۔ نیز ان اداروں کے سبب مسلمانوں کے معاملات اب دین سے بری فاسق افراد کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ایسے بد کار لوگ ہی مسلمانوں کی راہ نمائی کے مناصب پر فائز ہوگئے ہیں اور ٹاک شوز میں آکر مسلمانوں کے معاملات…مذہب سے لے کر سیاست تک میں …گفتگوکرتے ہیں۔ان کی بدولت آج’جہالت و ضلالت‘…حق کا غازہ رخ پہ ملے…مسلم معاشروں میں پھیلتی چلی جارہی ہے اور اہل حق کے لیے حق کو قائم کرنا دشوار تر ہوتا چلا جارہا ہے ،والعیاذ باللہ۔ شعائرِ اسلام کا مذاق اور استہزا ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے کفار ایک خدمت یہ لے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں سرِ عام شعائرِاسلام اور حدود اللہ کا مذاق اڑایا جارہاہے اور ان کی تحقیر کی جارہی ہے۔آج یہ ادارے ’شعیب منصور‘جیسے لادینوں کی سرکردگی میں ”خدا کے لیے“جیسی فلمیں بناتے ہیں او ر پھر مسلمانوں کو دکھاتے ہیں کہ ’داڑھی میں اسلام نہیں،”جہاد تو فساد ہے اور ’موسیقی تو مسلمانوں کی تہذیب ہے، ونعوذ باللہ من ذلک۔آئے روز ایسی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے داڑھی ،جہاد اور پردے کا استہزا کیاجاتا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ سیکولر صحافی و دانش ور اور این جی اوز کے کارندے ان شعائر کو مولویوں کی تنگ نظری اور دقیانوسی سے تعبیر کرتے ہیں۔پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر حدوداللہ کی توہین کی جاتی ہے۔نشریاتی ادارے ایسی جعلی فلمیں بناکر نشر کرتے ہیں جن میں کسی لڑکی کو کوڑے مارے جارہے ہوں اور وہ چیخ و پکار کررہی ہو یا کسی کا چوری کے سبب ہاتھ کاٹا جارہا ہو۔پھر انہیں موضوع بحث بناتے ہوئے ببانگ دہل حدوداللہ اور شرعی سزاؤں کا استہزا کیاجاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ یہ سب قبیح ترین افعال مغرب میں نہیں ،بلکہ خود مسلم معاشروں میں ہو رہے ہیں تاکہ عامةالمسلمین کو شعائرِ اسلام اور حدوداللہ سے برگشتہ کیا جائے اور ان کے لیے اسلام کو اتنا پیچیدہ بنادیا جائے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کفار کی مرضی کا ’ماڈریٹ اسلام‘قبول کر لیں اور چودہ صدیوں پہلے نازل ہونے والے اسلام کو اپنے لیے عیب سمجھنے لگیں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان اداروں کے شرور سے محفوظ رکھیں، آمین! درحقیقت دین کے شعائر و شرائع کے استہزا کا معاملہ اتنا ہلکا نہیں کہ ہمارے معاشروں میں سرِعام یہ سب کچھ ہو اور ہم پروا بھی نہ کریں،بلکہ یہ معاملہ تو اتنا خطرناک ہے کہ اگر کوئی مسلمان دین کے کسی حکم کا استہزا کرے تو وہ مسلمان نہیں رہتا، بلکہ کافر ہوجاتا ہے ۔امام جصاص سورہ توبہ کی آیت ﴿وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُْنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ﴾کے ذیل میں لکھتے ہیں: ”ودل أیضا علی أن الاستھزاء بآیات اللہ وبشیء من شرائع دینہ کفر من فاعلہ“․ ”یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور دین کے کسی چھوٹے سے حکم کااستہزاء کرنے والا بھی کفر کا مرتکب ہوتا ہے“۔(أحکام القرآن لأبی بکر الجصاص) شہوات و محرمات کی تشہیر اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں شیطان لعین کی خصلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ فَإِنَّہُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنکَر﴾․ (النور :21) ”اے ایمان والو!تم شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو اور جو شخص شیطان کے قدم بہ قدم چلتا ہے تو وہ تو (ہمیشہ ہر شخص کو)بے حیائی اور برائی ہی کرنے کو کہے گا“۔ گناہوں اور محرمات کا پھیلاؤاور فحاشی و شہوات کی تشہیر شیطان کا اہم ترین حربہ ہے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج مسلم معاشروں میں یہ کام شیطان اپنے ابلاغی اداروں ہی سے کروارہاہے۔آج کسی بھی لمحے دل پر اس کے کس قدر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کوئی بھی چینل دیکھتے ہوئے بہت ہی کم لمحات ایسے ہو ں گے جن میں آپ کے کانوں میں موسیقی نہ جائے اور آپ کی آنکھیں کسی بے پردگی کا شکار نہ ہوں۔مسلم معاشروں میں گناہوں کی اتنی تشہیر کا ایک عجیب آلہ ’ذرائع ابلاغ‘کی صورت میں شیطان کے ہاتھ آگیاہے ۔افسوس کہ اس کے ذریعے آج ہر مسلم گھرانے میں گناہوں کا دروازہ کھل چکا ہے اور شیطان نے ہمارے دین دار حضرات کے گھروں تک بھی رسائی حاصل کرلی ہے۔ پھر معاشرتی سطح پراس کے اثرات بھی کسی سے مخفی نہیں ،اگر دل کی آنکھوں سے دیکھا جائے ۔سابقہ ایک دہائی میں ہمارے معاشروں میں فحاشی وعریانی حیران کن حد تک بڑھی ہے ۔نوجوان نسل میں عشق کا مرض عام ہے، عورتوں میں بے پردگی تیزی سے پھیل رہی ہے اور زنا جیسے گندے فعل کا تناسب دن بدن بڑھ رہاہے۔حتیٰ کہ اب ہمارے بعض شہر یورپ و امریکاکے شہروں سے قطعاً مختلف نظر نہیں آتے ۔اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَاتَعْلَمُونَ﴾ (النور:19) ”اور لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ،انھیں دنیاوآخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گااور(اس امر پر تعجب کا اظہار مت کرو، کیوں کہ )اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔ اور یہ ذرائع ابلاغ ہی ہیں جو مسلمانوں میں فحاشی کو عام کررہے ہیں، تاکہ انھیں اللہ،اسلام اور صراطِ مستقیم سے دور کردیں اور سبلِ شیاطین کا راہ رو بنادیں۔ شکوک وشبہات کا پھیلاؤ ذرائع ابلاغ کا ایک اہم کردار یہ ہے کہ مسلمانوں میں اسلام اوراس کے احکامات کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں اور قرآن و حدیث کے صریح و محکم احکامات کو مسلمانوں کے اذہان میں مبہم و مشتبہ بنا دیاجائے۔اس غرض سے ایسے ٹاک شوز نشر کیے جاتے ہیں جن میں مختلف احکامات قرآنی کو زیر بحث لایاجاتا ہے اور ان پر رویبضہ گفتگو کرتے ہیں۔کبھی شراب کی حرمت پر بحث کی جاتی ہے اوراس کی حرمت کومشکوک کیا جاتا ہے،کبھی ’نظریہ ارتقاء کو اسلام میں ٹھونس کر ’تخلیقِ آدم ‘ کورد کیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود تک پر گفتگو کرتے ہیں اور مسلمانوں میں واضح الحاد کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں محض خیالی نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کچھ تو ہو چکا ہے یا ہورہا ہے اور یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ڈر تو اس بات کا ہے کہ آگے چل کر نجانے یہ ابلاغی ادارے کیاکچھ مزید کریں گے؟ہمارے مسلمہ عقائد سے لے کر عبادات تک …ہرایک معاملے میں شکوک وشہبات پھیلائیں گے۔اللہ تعالیٰ ان شکوک و شہبات سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں ،آمین! ﴿وَیُجَادِلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آیَاتِیْ وَمَا أُنذِرُوا ہُزُواَ ﴾(الکھف:56) ”اورکافر لوگ باطل (بات)سے جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس سے حق کو نیچاکر دکھائیں اور انھوں نے میری آیتوں کو اور جس (عذاب) سے انھیں ڈرایا گیا تھا،دل لگی بنا رکھا ہے”۔ امام ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: ”…ثم أخبرعن الکفاربأنھم یجادلون بالباطل ﴿لِیُدْحِضُوْابِہِ﴾ أی لیضعفوا بہ ﴿الْحَقَّ﴾الذی جاء تھم بہ الرسل“․ ”پھر الله تعالیٰ نے کفار کے متعلّق خبر دی کہ وہ باطل (دلائل) کی مدد سے مجادلہ کرتے ہیں، تا کہ اس کے ذریعے اس حق کو کمزور کریں، جو پیغمبر لے کر آئے ہیں“۔ (تفسیر ابن کثیر؛سورةالکھف،آیة56) آج ذرائع ابلا غ بھی یہی کر رہے ہیں کہ حق کے روشن چہرے کو…دجل کی چادر اوڑھے ایسے باطل دلائل سے مسخ کر کے مسلمانوں کے اندر حق کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلا رہے ہیں،تاکہ حق کمزور ہوجائے اور باطل غالب آجائے۔ کفر واسلام کی حالیہ جنگ میں کفار کی چاکری عصرِحاضر میں برپا کفر و اسلام کی جنگ کا فکری محاذ بہت ہمہ پہلو ہے۔اس کا ایک پہلوحالیہ جنگ کے عسکری میدانوں کے احوال سے تعلّق رکھتاہے۔آج جہاں جہاں مسلمان مجاہدین بر سرِ پیکار ہیں،وہاں کے حالات اور صورت حال بھی جدید ذرائع ابلاغ کا ایک اہم موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے امت مسلمہ پر بے انتہا احسانات میں ایک احسانِ عظیم یہ ہے کہ غلامی کی قریباًایک صدی کے بعد آج امت کے مجاہدین دوبارہ کفار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، لمحہ بہ لمحہ اسلام کے غلبہ کی جانب گام زن ہیں ۔چاہے صومالیہ کا تذکرہ ہو یا افغانستان کا،سرزمین عراق کی بات کریں یا شیشان کی…مجاہدین اپنی محبوب امت کو فتح کی نوید سنا رہے ہیں۔حتیٰ کہ بر صغیر میں بھی ڈیڑھ سو سالہ غلامی کے بعد آج مجاہدین امریکی غلاموں کے خلاف مضبوط و مستحکم ہوگئے ہیں اور ان کی بدولت مسلمانانِ برصغیر کی امیدیں انگڑائی لے رہی ہیں کہ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب دہلی کے لال قلعے پر اسلام کا علم لہرائے گا اور پورا بر صغیر خلافت کی برکات اور شریعت کے ثمرات سمیٹے گا۔ ایسے میں یہ ذرائع ابلاغ اصل حقائق کو عامة المسلمیں کے سامنے لانے کی بجائے جھوٹ اور فریب کی داستانیں سناتے ہیں اور امت کو اپنے مجاہدین بیٹوں سے بر گشتہ کرتے ہیں، تاکہ مسلمانان امت کبھی کفر کی غلامی سے نجات اور غلبہ اسلام کا سوچ نہ سکیں۔اور در حقیقت یہ بہت بڑی خدمت ہے جویہ ادارے کفار کے لیے سرانجام دے رہے ہیں۔ سب سے پہلا کام ان اداروں نے یہ کیا ہے کہ جہاد جیسے مقدس فریضے کو ہی عام مسلمانوں کے سامنے مشتبہ بنادیا ہے۔آج امریکہ و مغرب کے خلاف جو بھی جہاد ہورہا ہے،اسے یہ ادارے ’دہشت گردی‘بناکر مسلمانوں کو دکھاتے ہیں۔امریکہ جسے ’دہشت گردی ‘کہتاہے(جو دراصل امریکہ کے خلاف ہونے والا مقدس جہاد ہے)، اسے یہ ذرائع ابلاغ بھی مسلمانوں کے سامنے ’دہشت گردی‘کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر اسے ’دہشت گردی ‘ ثابت کرنے کے لیے زہر یلا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔زیادہ دور نہ جائیے! پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے۔وہ مجاہدین جنھوں نے امریکہ کے خلاف افغانستان میں جہاد کاعلم بلند کیا ، وہ مجاہدین جنھوں نے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا جھنڈا تھاما،وہ مجاہدین جنھوں نے مسلمانان پاکستان کو امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کی غلامی سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا…انھیں ذرائع ابلاغ کبھی امریکہ و بھارت کا ایجنٹ کہتے ہیں اور اسے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہی حقیقت ہے۔حا لاں کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ایسے تو نہیں کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان وہاں کے باسیوں سے واقف نہ ہوں۔کیا یہ وہی لوگ نہیں جنھوں نے اس سے قبل برطانیہ کے خلاف سید احمد شہید کے جہاد کو کاندھا دیا،جنھوں نے اپنی فقیررحمة الله علیہ کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف جہاد کیا اور ان کے جانے کے بعد شریعت کا علم بلند کیا اور جنھوں نے کشمیر کے کچھ حصّے کو آزاد کرادیا۔آج جب یہی پاکستان میں شریعت کی با لا دستی کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے تو انھیں ذرائع ابلاغ ’دہشت گردی ‘ قراردے رہے ہیں، تاکہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو ان سے دور کردیا جائے اور ان کا پشتی بان بننے سے روک دیا جائے۔اسی غرض کی خاطر طالبان پر ڈرامے بناکر نشر کیے جارہے ہیں ،ان میں ان پا ک باز مجاہدین کو عجیب و غریب خوف ناک مخلوق بناکراہل پاکستان کو دکھایا جارہا ہے، تاکہ وہ ان کی کبھی حمایت نہ کریں اور یوں پاکستان میں نفاذِ شریعت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو۔اس کے علاوہ کبھی کوئی چینل کسی خود ساختہ ’خودکش بمبار‘کا انٹرویو نشر کردیتا ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد اور مجاہدین کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔پھر تمام نشریاتی ادارے اور اخبارات مجاہدین کے خلاف مسلمانوں کے قتلِ عام کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ جب بھی مجاہدین کی قیادت کی جانب سے کوئی پیغام آتا ہے تو یہ دانستہ طور اسے نشر ہونے سے روک لیتے ہیں یا اس میں کتر و بیونت کر کے اسے غلط سیاق وسباق میں پیش کرتے ہیں، تاکہ اصل حقائق مسلمانوں تک نہ پہنچ پائیں اور مسلمان اسی کو حقیقت سمجھیں، جسے یہ ذرائع ابلاغ حقیقت کا روپ دیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان ذہنی طور کبھی یکسو نہیں ہو پاتا ہے کہ یہ واقعی مجاہدین ہیں یا ’دہشت گرد‘؟اور کیا دنیا میں کہیں خالص جہاد ہو بھی رہاہے یا ہر جگہ ایجنٹ ہی موجود ہیں؟ وسیع تناظر میں… اب اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو ذرائع ابلاغ کی اس مکروہ مہم کا امت کو اتنا عظیم نقصان پہنچ رہا ہے کہ اسلام کی سر بلندی کی منزل بعید سے بعید تر ہوتی چلی جارہی ہے،غلامی کی ایک صدی کے بعد کفار کے خلاف اٹھنے والی جہادی بیداری رکاوٹوں کا شکار ہورہی ہے اور کفار اپنے غلبے کو مزید طول دینے میں کام یاب ہورہے ہیں۔ خلاصئہ کلام ابھی تک ہم نے عصر حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کے مکروہ کردار کی بابت جو کچھ پڑھا ہے،اسے چند مختصر نکات کی صورت میں بیان کیے دیتے ہیں ،تا کہ بات اچھی طرح خاطر نشیں ہو جائے۔ ٭...اسلام وکفر کے معر کے میں جہاں زمانہٴ قدیم میں مشرکین نے نضر بن حارث کے لھو الحدیث سے کام لیا تھا،آج کے دور میں کفار وہی کام جدید ذرائع ابلاغ سے لے رہے ہیں۔ ٭...آج کے دور میں برپااسلام اور کفر کی جنگ میں ذرائع ابلاغ کفار کا اہم ترین ہتھیار ہیں…چاہے مقامی ذرائع ابلاغ ہوں یا بین الاقوامی، الیکٹرانک میڈیاہو یاپرنٹ میڈیا،صحافتی ادارے ہوں یا ثقافتی، سرکاری ہویا غیر سرکاری ۔ان اکاہم ترین ہدف ’مسلمانوں کے دلوں میں سے اسلام کو کھرچ نکالنا اور دجل کا سہارا لیتے ہوئے دین و ثقافت اسلام ہی کو بدل ڈالناہے۔ ٭...یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں میں مغربی تہذیب و اقدار کو فروغ دے رہے ہیں اور مسلمانوں میں کفار کی مرعوبیت پیدا کر رہے ہیں۔ ٭...آج یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں میں دین کا مصدر بنتے جارہے ہیں اور انھی کو استعمال کرتے ہوئے کفار اپنے کارندوں کے ذریعے مسلمانوں میں دین کی جدید تعبیر اور ’ماڈریٹ اسلام‘متعارف کروا رہے ہیں۔ ٭...ان اداروں کے ذریعے شعائر اسلام اور حدوداللہ کا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ مسلمان اپنے دین ہی کو اپنے لیے عیب سمجھنے لگیں اور اسے چھوڑ کر ذرائع ابلاغ کا نشر کردہ ’ماڈریٹ اسلام ‘قبول کر لیں۔ ٭...یہ ابلاغی ادارے مسلم معاشروں میں گناہوں اور فحاشی کے پھیلاؤ کا اہم ترین ذریعہ ہیں اور ان کی بدولت ہمارے معاشرے بڑی حد تک مغربی معاشرے بنتے جارہے ہیں۔ ٭...ایک اہم کردار ذرائع ابلاغ یہ ادا کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے مسلمہ عقائد اور دین کے محکم احکامات میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں اور انھیں مشتبہ بنارہے ہیں۔ ٭... آج امت کو اسلام کی سر بلندی اور کفار کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے مجاہدین اسلام نے جس مقدس جہاد کا آغاز کیا ہے،یہ ذرائع ابلاغ اسے مسلمانوں کے سامنے دہشت گردی بنا کر پیش کر رہے ہیں، تاکہ مسلمانان امت کو اس جہاد کی پشتی بانی سے روک سکیں ۔اور یوں غلامی کفار کا پھندہ ہمارے گلوں میں پڑارہے اور ”غلبہٴ اسلام “ اور”قیام خلافت علی منہاج النبوة“کا خواب کبھی شرمندہ ٴ تعبیر نہ ہو سکے۔ ہماری ذمہ داریاں جدید ذرائع ابلاغ کامکروہ کردار جاننے کے بعد اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی بابت ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ہمیں کیا کرنا جاہیے تاکہ ان کے شر سے خود کو انفرادی حیثیت میں اور امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر بچایا جا سکے۔ فقہائے اسلام نے اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکامات کے پس پردہ کارفر ما کچھ مقاصد کی نشان دہی کی ہے، جنھیں”مقاصد الشریعة “کہا جاتا ہے۔ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اسلامی احکامات کا مقصد لوگوں کے مصالح کاخیال رکھنا ،انھیں نفع بہم پہنچانا اور ان سے ہر قسم کے دنیوی و اخروی ضررو فساد کو دفع کرنا ہے، تاکہ ان کی زندگیا ں تمام شرور سے محفوظ انفردی و اجتماعی سطح پر سعادت کے ساتھ گزریں۔گویا دین پر عمل ہی انسان کی دنیوی واخروی فلاح و سعادت کی واحد راہ ہے۔انھی مقاصد شریعہ کے حصول کو مد نظر رکھتے ہوئے فقہاء اور اصولیین نے چند قواعد بیان کیے ہیں، مثلاً: …الضرر یدفع بقدر الامکان․ (نقصان و ضرر کو حتی الامکان روکا جائے گا۔) …الضرر یزال (لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کو زائل کیا جائے گا۔) …درء المفاسد أولی من جلب المنافع․ (مفاسد کا خاتمہ حصولِ منافع پر مقدم ہے۔) ایک جانب ان اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے اور پھر ذرائع ابلاغ کے کردار کو دیکھا جائے تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ آج کے دور میں ہمیں ان ذرائع ابلاغ کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے ؟کس طرح ان سے پرہیز کرنا چاہیے؟ اور کیوں کر ان کے خلاف عملی میدان میں نکلنا چاہیے؟کیوں کہ ان کی وجہ سے امت کی زندگی انتہائی شرو ضرر کا شکار ہورہی ہے اور سعادت کی منزل سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔اس ضمن میں ہم یہاں انتہائی مختصر نکات کی صورت میں چند باتیں اہل ایمان کے سامنے رکھیں گے، کیوں کہ تفصیل میں جانا ہمارے لیے ممکن نہیں ۔تاہم ہر اہل ایمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ غور کرے کہ ان ذرائع ابلاغ سے امت کو پہنچنے والے شر کو کیسے روکا جائے ،وما التوفیق الا باللہ! ٭...ذرائع ابلاغ کی نشر کردہ خبروں پر قطعاً اعتبار نہ کیا جائے۔ یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں اور امت کے احوال کے متعلق جو بھی خبریں نشر کریں،ان پر مسلمانوں کو قطعاً اعتبار نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ… جیسا کہ ہم نے پڑھا…یہ ادارے اکثر و بیشتر حقیقت کو چھپالیتے ہیں اور اس کے بالعکس جھوٹ کو حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ آج کل یہ ادارے ہمیں بتاتے ہیں کہ ’نائیجیریا‘میں مسلم عیسائی فسادات ہو رہے ہیں ،اس سے آگے مزید خبر نہیں دیتے ۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں حکومتی سر پرستی میں، نائیجیریا کی فوج بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے۔انھیں گھروں سے نکال نکال کر قتل کیا جارہا ہے اوران کی نسل کشی کی جارہی ہے، وہاں کے مسلمان انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں دوسرے مسلمانوں کی راہ تک رہے ہیں مگر مسلمانوں کو خبر ہی نہیں، کیوں کہ وہ ان ذرائع ابلاغ پرتکیہ کیے بیٹھے ہیں ۔یہ صرف ایک مثال ہے، و گر نہ یہ ادارے اس سے قبل بھی اپنی نشر کردہ خبروں سے امت کو بے انتہا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ قرآنی تعلیمات یہ تو واقعاتی پہلو تھا،شریعت کی نظر سے دیکھیں تو مسلمانوں پر بدرجہ اولی لازم ہے کہ وہ ان کی خبروں پر اعتبار نہ کریں۔اس ضمن میں قرآن مجید ہمیں یہ تعلیمات دیتاہے کہ: کسی بھی فاسق کی بیان کردہ خبر کی تصدیق نہ کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْن﴾․(الحجرات :6) ”اے ایمان والو!اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو،(مبادا)کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو،پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے “۔ اس آیت کی رو سے ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ جب بھی کوئی خبر دیں تو انھیں کبھی من وعن قبول نہ کریں اور نہ ہی ان کی تصدیق کریں،کیوں کہ یہ ادارے فسق کا گڑھ ہیں اور جھوٹ ،فریب اور دجل کے اڈے ہیں۔بلکہ مسلمانوں کوچاہیے کہ ان کی نشر کردہ خبروں کی اپنیتئیں تحقیق کریں۔ان اداروں کی خبروں پر بلا تحقیق یقین کرنے کا نتیجہ ہے کہ امت آج اپنے ،محافظین کو پہچاننے سے ہی گریزاں ہے اور مجاہدین کو ہی دہشت گرد سمجھ رہی ہے۔اس آیت کے ذیل میں تفسیر کبیر میں لکھا ہے: ”(ھذا)لبیان وجوب الاحترازعن الاعتماد علی أقوالھم، فانھم یریدون القاء الفتنة بینکم“ ․ ”(یہ آیت )واضح کرتی ہے کہ ان کے اقوال پر اعتماد کرنے سے احتراز کرنا واجب ہے،کیوں کہ یہ لوگ (اے مسلمانو!)تمہارے درمیان فتنہ پھیلاناچاہتے ہیں“۔(التفسیر الکبیر ؛سورةالحجرات ،آیة6) |
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔