Saturday, May 2, 2015

توحید العملی ـــــــــــــــ شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ



توحید العملی
شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ
کے بیان کا اردو ترجمہ




افغانستان میں رہتے ہوئے ، میں یہ جان پایا ہوں کہ توحید (اُس طرح) انسان کی روح پر اثر نہیں کر سکتی، نہ ہی اِسے مضبوط بناتی ہے (کہ) جیسا یہ میدانِ جہاد میں کرتی ہے۔
یہ(وہ)توحید ہے کہ جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے قیامت تک کے لیے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے …… ‘‘
کیوں؟
’’ ……یہاں تک کہ اللہ وحدہ، لاشریک کی عبادت کی جانے لگے‘‘ [1]
لہٰذا، اِس دنیا میں توحید کا نفاذ تلوار سے کیا جاتا ہے…… کتابیں پڑھنے سے نہیں، نہ عقیدے کی کتابوں کا (صرف) مطالعہ کرنے سے۔  بے شک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں توحید الوہیت(توحید العبادت) کی تعلیم دی -  کہ جس کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا، تاکہ لوگوں میں اور اِس دنیا پر توحید الوہیت کا نفاذ ہو سکے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں (یہ) تعلیم دی کہ اِس توحید کو (اِس کے)سبق پڑھنے سے نہیں سیکھا جا سکتا ……  ہر گز نہیں، بلکہ اِس (توحید) کو صرف میدانِ کارزار میں دشمن کا مقابلہ کرنے،اور طاغوت کے سامنے اپنے مؤقف پر قائم رہنے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات، (اور) وہ قربانیاں جو اِنسان پیش کرتا ہے کہ ذریعے ہی نفس میں اُبھارا اور پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔  جب بھی اِنسان دین کے لیے کچھ قربان کریگا، یہ دین اپنی پُر اسرار خوبصورتیوں کو اُس کے لیے کھول دیگا، اور اُس کے لیے اپنے خزانوں سے پردے اُٹھا لے گا۔
اور اِسے اِس گفتگو میں بیان کرنا مناسب رہے گا کہ اُن میں سے چند لوگ جو توحید کی حقیقت اور فطرت کو نہیں سمجھتے ، وہ الزام دیتے ہیں اِن لوگوں (یعنی افغان) کو کہ جن کے ذریعے اللہ نے مسلمانوں کو عزت بخشی، کہ جن کے ذریعے اللہ نے دنیا میں ہر مسلمان کی اہمیت کو اُجاگر کیا، کہ جن کے ذریعے سے اِسلام اتاہ گہرائیوں سے نکل کر بلند ہوا، اور(جنہوں نے اِسے)بین الاقوامی پلیٹ فام پرلا کھڑا کیا،(یہ) اُن طاقتوں سے مدِّمقابل ہیں کہ جنہیں لوگ آج کی دنیا میں ’سُپر پاؤر‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے اسلام کو رُعب ، دبدبہ، دہشت اور عزت لوٹا دی، جو جہاد کی عدم موجودگی سے غائب ہو گئی تھی……
’’ ……اللہ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ’’وَھن‘‘ ڈال دے گا‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’اے اللہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وَھن سے کیا مراد ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا کی محبت اور موت کی کراہت‘‘ [2]
اور یہ دہشت اور دبدبہ جو دشمنوں کو ہم میں محسوس کرنا چاہیے، ہم میں کبھی نہیں لوٹ سکتا، سوائے تلوار سے،لڑ کر اور قتال کے ذریعے۔
تو جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ کچھ لوگوں نے اِس توحید کی اصل فطرت کو نہیں سمجھا ہے - اُنہوں نے اِس سے متعلق کچھ باتیں پڑھ لی ہیں، اور اب یہ کہنا شروع کر دیا کہ: ’’افغان کے عقیدے میں شرک، بدعت اور کچھ اِس جیسی چیزیں شامل ہیں‘‘
اور ہم میں سے چند نے اُن سے یہ کہا :’’تمہارے عقیدے میں کچھ مسائل ہیں
پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ کی اِس بے بنیاد بہتان سے!
شرک کے شعلے گہرے سُرخ رنگ کی بارش[3] کے بغیر نہیں بُجھ سکتے
اور کیا توحید کو سفید تیز دھار[4] کے بغیر نافذ کیا جا سکتا ہے ؟
اے عورتوں کی طرح بیٹھ رہنے والو ! اطمینان رکھو، کیونکہ مسئلہ تو تمہاری بینائی میں ہے‘‘
وہ جو حقیقتاً یہ سمجھتے ہیں کہ توحید اصل میں کیا ہے……توحیدِ عملی کیا ہے؛ (جو کہ) توحید الوہیت……صرف اللہ پر توکّل کرنا، صرف اللہ سے ڈرنا،صرف اللہ کی عبادت کرنا (ہے)۔  اِسے محض کسی کتاب سے چند جملے پڑھ لینے سے سمجھا نہیں جا سکتا۔ ہاں!، توحید الربوبیت(کہ جسے قریش کے مشرکین بھی پہچانتے تھے [5]) کو ایک آدھ لیکچر سننے سے سمجھا جا سکتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ : بے شک اللہ کا ہاتھ ہے، جو ہمارے ہاتھوں جیسا نہیں۔ اور ہم اِسے اسماء و صفات کے اصولوں سے سمجھتے ہیں - کہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ (عز و جل) ہی کے لیے خوبصورت نام ہیں اور اعلیٰ صفات ہیں کہ جس کا اعلان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا صحیح احادیث میں اور (یہی اعلان ہے) قرآن میں بھی۔اور ہم اِس سب کا دعویٰ کرتے ہیں بغیر کسی تاویل، تحریف، تکذیب، تشبیہ اور تمثیل کے۔اور ہم کہتے ہیں:’’اللہ عرش پر مستوی ہوا‘‘، ہم یہ نہیں کہتے کہ اُس نے اِسے زیر کیا۔ اور مستوی ہونا وہ عمل ہے جو معلوم ہے، مگر ’’کس انداز میں‘‘ یہ نامعلوم ہے، اور اِسے (اِسی طرح)ماننا لازم ہے، اور اِس کے متعلق پوچھنا بدعت ہے۔
تو یہ وہ ہے جسے ہم میں سے ہر کوئی یاد رکھتا ہے، آپ نے (بھی) اِسے یاد کر رکھا ہے، صحیح! یا نہیں! یہ ایک آسان چیز ہے - پتا ہے کیوں؟کیونکہ یہ ایمان کا نظریاتی پہلو ہے(جسے عمل کی ضرورت نہیں ہوتی)……  یہ جاننے اور اُس کی توثیق کرنے کا معاملہ ہے۔ اور کبھی بھی کوئی نبی اِس مقصد کے لیے نہیں بھیجا گیا ۔  بلکہ جس واحد مقصدکے لیےاُنہیں بھیجا گیا[6] وہ توحید الوہیت کا نفاذ تھا، توحیدِ عملی کا۔ ایمان لانا اللہ پر - اور میری اِس سے مراد اللہ پر مستحکم اور مخلص اعتماد - (ایمان) کہ فی الحقیقت وہی خالق ہے، وہی رازق ہے، وہی عطا کرنے والا ہے، وہی زندگی اور موت دینے والا ہے (اور اِس ایمان و یقین کا زندگی میں اپنے عمل کے ذریعے عیاں ہونا)……یہ محض کوئی نظریاتی ایمان نہیں ہے ، وہ تو توحید الربوبیت ہے۔ بلکہ توحید الوہیت کا اِظہار تو زندگی میں عملی قدم اُٹھانے سے ہے۔۔۔ اور توحید الوہیت کے عقیدے کو اِنسان کی روح میں قائم نہیں کیا جا سکتا - خصوصاً اللہ پر توکّل کرنا رزق کے معاملے میں ، (موت کے) وقت کے تعین کے معاملے میں، رتبے اور درجات کے معاملے میں۔ انسان صرف توحید سے اس (توکّل) کو قائم نہیں کر سکتا، سوائے جب وہ اِن لمبے (جنگوں کے) احوال سے گزرے، اور اِس لمبے سفر سے گزرے، اور عظیم قربانیوں سے - صرف تب جا کر یہ روح میں رچنا شروع ہو گی، دن بہ دن، ایک اِینٹ کے بعد دوسری اِینٹ؛ اور پھر، توحید کی عمارت بندے کی رُوح میں بلند ہو پائے گی۔
میں تم سے پوچھتا ہوں: کون توحید کو بہتر سمجھتا ہے، وہ بوڑھا آدمی ……(ہمارے) ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ : ایک دن ، ہم پر طیارے بمباری کر رہے تھے، اور ہم سارے چھُپ گئے ، سوائے ایک بوڑھے آدمی کے کہ جس کا نام محمد عمر تھا، اُس نے طیارے کو دیکھا کہ جب وہ مجاہدین پر بمباری کر رہا تھا، اور اُس نے کہا، ’’ اے پروردگار! بڑا کون ہے؟ تُو یا یہ جہاز؟ کون زیادہ برتر و بالا ہے ؟ تُو یا یہ جہاز؟ کیا تُو اپنے اِن بندوں کو اِس جہاز کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے گا؟‘‘ اور اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اِس طرح آسمان کی طرف بلند کیے اور اللہ(عز و جل) کو پکارا اپنی فطرت سے۔ابھی اُس کے الفاظ ہی ختم نہیں ہوئے تھے کہ جہاز گِر گیا، حالانکہ کسی نے اُسے نشانہ بھی نہیں بنایا تھا۔ اور کابُل ریڈیو سٹیشن نے یہ خبر نشر کی کہ جو جہاز گِرا ہے اُس میں ایک رُوسی جرنیل موجود تھا۔
تو یہ (توحید)ایک عقیدہ ہے ……اِنسانی رُوح کی خوف سے آزادی.  موت کے اور منصب کے خوف سے۔
اور یہ شیخ تمیم العدنانی ہیں ہم میں سے……اور شیخ تمیم العدنانی، ۱۴۰۶ھ میں رمضان کی ۳۰ تاریخ کو ، جب رُوسیوں نے تین حصوں میں بٹ کر مشترکہ آپریشن شروع کیا -  یعنی ۳۰۰۰۰(فوجی) جنہیں ٹینکوں ،(جنگی) جہازوں اور میزائیل لانچروں کی مدد حاصل ہو……ایک لانچر میں ایک وقت میں ۱۴ میزائیل ڈالے جا سکیں اور ساروں کو ایک ہی وقت میں داغا جا سکے……(ذرا تصور کیجئے)۴۱ میزائیل آپ کی طرف آ رہے ہوں، (اور) آپ کے پیروں تلے موجود پہاڑ کو لرزہ دیں……(اور ساتھ اِن کے)مارٹر، مشین گنیں اور بھاری توپ خانہ ……( اور) پانچ رُوسی فوجی دستے ، کہ جن میں سے ایک خصوصی دستہ- جو کہ بہت پُھرتیلی پلٹن ہے - جسے ’رُوسی بجلی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اور شیخ تمیم اُس لڑائی میں(شریک) تھے……اور شیخ تمیم کا وزن ۱۴۰ کلو گرام ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب شیخ کسی پر برہم ہوتے ہیں تو کہتے ہیں :’’میں تم پر بیٹھ جاؤں گا،‘‘ اور بس یہی، اور اِس کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں مارنے والے ہیں!
تو (اُس لڑائی میں،) شیخ تمیم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے :’’ اے موت دینے والے ! رمضان کی آخری تاریخ کو شہادت نصیب کر،‘‘ اور وہ رمضان کی ۳۰ تاریخ تھی ، آخری دن(مہینے کا)……تو اُنہوں نے قرآن کی تلاوت شروع کر دی……اور اُنہوں نے پہلے جُزء کی تلاوت مکمل کر لی جبکہ گولیاں اُن کے چہرے کے سامنے اور کانوں کے نزدیک سے گزرتی رہیں؛ کوئی بھی یہ یقین نہیں کر پائے گا کہ وہ ابھی بھی درخت کے نیچے زندہ موجود تھے، جبکہ طیارے بم برسا رہے تھے، اور دشمن کے مارٹر گولے اور میزائیل اُن کی طرف داغے جا رہے تھے۔  (اور) درخت، وہ تو مکمل جل رہا تھا……آپ اپنے ساتھ بیٹھے ساتھی سے پورا جملہ بھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اگر آپ کو کہنا ہو : ’’ کیا تمہارے پاس گولیاں ہیں؟‘‘ - تو جب آپ کہہ رہے ہوں ، ’’کیاتمہارے پاس،‘‘ تو آپ راکٹ یا مارٹر یا بم کے اپنے پر برسنے کی وجہ سے اگلا لفظ ہی ادا نہیں کر پائیں گے - اور آپ کا جملہ کبھی مکمل نہیں ہو پائے گا(یہ تھی حالات کی شدّت)۔  ہر مرتبہ جب بھی شیخ تمیم کسی ایسی آیت پر پہنچتے جس میں جنت کا ذکر ہوتا جیسے:
أولئک أصحاب الجنّة ھم فیھا خالدون
’’وہی جنتی ہیں، وہ اِس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ [7]
تو آپ اُسے دُہراتے، اور پھر دُہراتے،یہ کہتے ہوئے کہ:’’شاید کوئی گولی مجھ سے جنت لیے ٹکرا جائے‘‘۔
أولئک أصحاب الجنّة ھم فیھا خالدون
’’وہی جنتی ہیں، وہ اِس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ [8]
تو اِس طرح سے اُنہوں نے اپنا پہلا جُزء ختم کیا، اور پھر دوسرا جزء……اور جب وہ کسی ایسی آیت پر پہنچتے جس میں آگ کا ذِکر ہوتا تو وہ اُس کو پڑھنے میں جلدی کرتے کہ کہیں گولی اُنہیں آگ کے متعلق اِس آیت پر نہ چُھو لے……پس(اِسی طرح)اُنہوں نے تیسرا جزء مکمل کیا، اور پھر چوتھا جزء، اور پھر پانچواں جزء……اور یہ سب کچھ ہوا اُس حواس باختہ دباؤ والے حالات و کیفیت کے دوران کہ جو آپ کو آپ کا نام ہی بھُلادے……
واللہ اے میرے بھائیو!ہمیں سب سے زیادہ مشکل استنجاء کے دوران تھی، کیونکہ کسی کے لیے بھی یہ سوچنا محال تھا کہ وہ استنجاء کے لیے جائے اور پھر بھی زندہ رہ جائے ، اُسے یہ ڈر تھا کہ وہ استنجاء کے دوران ہی شہید کر دیا جائے گا……یہ ہم پر ایک بوجھ تھا……
تو پھر، شیخ نے کہا : ’’ اے اللہ! اگر شہادت نہیں، تو کم از کم ایک زخم تو دے!‘‘ چھ منٹ گزر گئے، سات منٹ……حتیٰ کہ چار گھنٹے بیت گئے ، جبکہ وہ اُسی بمباری تلے بیٹھے رہے ، جیسے کہ کوئی بارش ہو رہی ہو……  شیخ تمیم کہتے ہیں کہ :’’اُس دن کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ کوئی موت نہیں اور نہ کوئی مَر سکتا سوائے ربّ العالمین کی طرف سے طے شدہ وقت پر۔اور نہ چونکا دینے والے جوکھم پہلے سے متعین وقت کو قریب کر سکتے ہیں اور نہ بچاؤ اور حفاظت موت کو تم سے دُور۔‘‘
یہ وہ ہے جو اُنہوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فتاویٰ میں پڑھا……اُنہوں نے یہ النّووی کے المجموع میں نہیں پڑھا، نہ ہی ابن عابدین کے حاشیہ میں اور نہ ہی ابن القیم کی کتابوں میں……اُنہوں نے یہ اُن سے( یعنی ابن تیمیہ سے)پڑھا کہ جن کی رَگیں جلتی رہِیں، کہ جن کے نفس کو ’تورپیڈو‘ تلے روندھ دیا گیا [9]…… (یہ ہے)عقیدۂ توحید ……موت اوررِزق کی بے خَوفی کا……
آپ دیکھتے ہو کہ ایک شخص معمول کی زندگی گزار رہا ہے، تو اگر اُسے یہ کہا جائے کہ :’’ اِنٹیلی جنس والے تمہارے گھر آئے تھے،‘‘ - (تو) وہ، واللہ اعلم، سکتہ میں چلا جائے گا۔ یا آپ اُسے یہ کہیں کہ:’’ میں نے(سی آئی اے کے) ایجنٹوں کو تمہارے گھر کے دروازے پر دیکھا تھا،‘‘ - بس اتنا کہنا ہی کافی ہے ……اور پورا ہفتہ نہ وہ سو پائے گا نہ آرام کر پائے گا، اگر اُس سے پورے ہفتے کی نمازِ فجر بھی چُھوٹ جائے! وہ اللہ سے اِتنا خوف نہیں کھا سکتا جتنا وہ اِس بات سے کھاتا ہے کہ ’’ میں نے ایجنٹوں کو تمہارے گھر کے دروازے پر دیکھا تھا……‘‘  تو وہ ایجنٹوں سے اِتنا خوف کیوں کھاتا ہے؟ کیونکہ اُسے اپنے رِزق کا ڈر ہے ، یا اُس کے موت کے وقت(کے آنے )کا۔ کیا اور کوئی وجہ بھی ہے؟ ہر گز نہیں……یہ یا تو موت کا خوف ہے ، یا پھر رزق کے چھِن جانے کا۔اِنسانی ذہن میں موجود یہ فکر ایک خوف سے مفلوج کر دینے والا سایہ بن گئی ہے جو اُن کے بستروں تک اُنہیں جکڑے ہوئے ہے کہ جو اُنہیں (بستروں پر) اپنی پلکیں بھی جھپکانے نہیں دیتی۔
لیکن اگر تم اپنی زندگی اور رِزق کا خوف نہ کرتے، تو تمہیں اِن دونوں کا ڈر نہ ہوتا۔ جیسے، کہ اگرتمہیں ابھی یہ کہا جاتاکہ :’’رُوسی اِنٹیلی جنس تمہارے درپے ہے‘‘ - کیا یہ تم پر اثر اندا ز ہوتا؟ یہاں تک کہ افریقی اِنٹیلی جنس تک تمہیں خوف میں مبتلا کر سکتی ہے، کیونکہ اُن کے پاس ایسے راستے موجود ہیں جن سے وہ تمہارے گھر تک پہنچ جائیں (مصر، الجیریا اور سوڈان وغیرہ میں)، تو تم پھر بھی خوف زدہ ہو گے۔ لہٰذا جہاد ہی کو ہم اِس بیماری کے واحد علاج کے طور پر دیکھتے ہیں ……(یعنی)ایجنٹوں سے خوف کی بیماری ، (موت کے)متعین وقت سے خوف کی بیماری،(اور)رِزق کے خوف کی۔
سب سے بیش قیمت شے جو انسان کے پاس ہے وہ رُوح ہے……اور جب آپ اپنی رُوح اپنی ہتھیلی پر لیے ، دن رات اللہ سے اِسے قبول کرنے کا سوال کرتے ہو ، تا کہ وہ اِسے پاک کر دے اگر وہ اِسے قبول کر لے……(اور) غمگین ہو جاتے ہو جب ربّ العالمین اِسے نہیں چُنتا : تو اِس سب کے بعد تمہیں اللہ کے علاوہ کس کا خوف رہ جاتا ہے؟
’’جب ایک جوان آدمی تباہ کُن معرکوں میں کُود پڑنے کا عادی ہوجائےتو سب سے آسان شے گزرنے کو کیچڑ ہی ہے‘‘
وہ جو روزانہ موت کا سامنا کرتا ہو - بھلا کیچڑ بھی اُس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے ؟ ! سب سے کم تکلیف اُسے اگر کہیں سے گزرنے پر اُٹھانی پڑے تو وہ کیچڑ ہی ہو گا۔ لہٰذا اب آپ جان گئے ہیں کہ توحید ،جسے انسان کی رُوح میں آباد ہونا ہے، انسان کی رُوح تک نہیں لے جائی جا سکتی - یعنی اِسے رُوح کی بنیادوں تک نہیں پہنچایا جا سکتا- ماسوائے جہاد کے ذریعے۔
اور یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ دین کے علم کو جہاد کے بغیر نہیں حاصل کیا جا سکتا، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ (عز و جل) نے فرمایا:
فلولا نفر من کلّ فرقة منھم طائفة لیتفقّھوا فی الدّین
’’ پھر ہر فرقے میں سے ایک گروہ دین میں سمجھ حاصل کرنے کے لیے کیوں نہ نکلا‘ تاکہ وہ جب اپنے قبیلے میں واپس جائیں تو انہیں خبردار کریں‘ تاکہ وہ (پیچھے والے بھی اللہ سے) ڈریں‘‘(التوبۃ: ۱۲۲)
’’ایک گروہ دین میں سمجھ حاصل کرنے کے لئے کیوں نہ نکلا، تاکہ وہ جب اپنے قبیلے میں۔۔۔ ‘‘ والے حصے میں لفظ ’’وہ‘‘ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے جانے والوں کی طرف اشارہ ہے…… کچھ علماء نے دوسری رائے اختیار کی ہے اور کہا ہے کہ :’’ بلکہ، جو پیچھے بیٹھے ہیں، وہ ہیں جو دین کا علم حاصل کرتے ہیں۔‘‘  لیکن وہ رائے جسے زیادہ صحیح قرار دیا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے ، اور الطبری نے، اور سید قطب نے- وہ یہ ہے کہ وہ گروہ جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے ، وہی ہے جو دین کا علم حاصل کرتا ہے.  اور وہی ہیں جو اِس کی پوشیدہ خوبصورتیوں کو جان پاتے ہیں، اور دین اپنے جواہرات اُن کو سامنے کھول دیتا ہے۔
سید قطب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
بلا شبہ، یہ دین اپنی پوشیدہ خوبصورتیوں کو اُس سکون میں بیٹھ رہنے والے ’فقیہ‘ پر ظاہر نہیں کرتا کہ جو اِس دین کو دنیا پر نافذ کرنے کے لیے کوشش نہیں کرتا۔ یہ دین کوئی کیک نہیں ہے کہ جسے آپ دماغ کے سرد خانے میں ٹھنڈا کر سکیں۔ بلکہ اِس دین کو حلقۂ زندگی میں واپس لانے کی جد و جہد اور اِس کے معاشرے کے قیام کی کوششوں سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
ہاں……یہ دین……تم اِسے نہیں حاصل کر سکو گے سوائے کہ تم اِس کی خاطر کچھ وقف کرو۔ اِس کی خاطر کچھ دو، تب یہ تمہیں کچھ دے گا……یہی ’’لینے دینے‘‘ کا اصول ہے……قربانی دو! پھر سارے جہانوں کا رب تمہارے لیے دروازے کھول دے گا……اِس دین کی خاطر قربانیاں دو - اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) تمہیں اپنی آیات کا علم دے گا تمہیں حدیث کا علم دے گا۔  یہ ایک عام اصول ہے کہ آپ کئی آیات کو نہیں سمجھ پائیں گے ، جب تک کہ وہ ایک حقیقت نہ ہو جس سے آپ گزر رہے ہوں- جہاد کی حقیقت۔   یقینا (ایسا ہی ہے)، مثلاً ، سورۂ التوبہ……سورۂ انفال ……سورۂ آلِ عمران……یہ سب سورتیں۔ تم کیسے اِن سورتوں کو اِس جہاد میں وقت کھپانے کے بغیر سمجھ سکتے ہو؟ تم اِنہیں کیسے سمجھو گے؟ کیا اِنہیں سمجھنا ممکن ہے؟
اور یہاں سے ہمیں حاصل ہوتا ہے جہاد کے فائدوں میں سے پہلا فائدہ: انسانی نفس کی آزادی، توحید الوہیت کا نفاذ- یعنی توحید العبادت، توحیدِ عملی…… دل اور رُوح میں اِس کا نفاذ، یہاں تک کہ آدمی اللہ کی طرف رجوع کر لے، کہ جیسے یہ اُسے دیکھ رہا ہو……اپنے رب کی غیبی صفات کو سمجھتے ہوئے، کہ وہ قریب ہے۔
(ایک قصبے)ارسلان کو ٹینکوں نے ہر سِمت سے گھیر رکھا تھا ، اور وہاں پر مجاہدین کا چھوٹا سا گروہ تھا جو سامانِ جنگ کے ذخیرے کی حفاظت کر رہا تھے جیسا کہ ٹینک نزدیک ہوتے جا رہے تھے، اور وہ (رُوسی) اُنہیں زندہ پکڑنا چاہتے تھے، اور اُن مجاہدین کے پاس کچھ نہ تھا سوائے اللہ کے ……( تو اُنہوں نے کہا :) ’’اے اللہ! ہمارے خلاف کسی ایک کافر کو بھی راستہ مت دیجیو‘‘ - پھر اچانک لڑائی نے اپنا رُخ بدل لیا ، (لڑائی) ٹینکوں کے خلاف (ہو گئی)، آوازیں سنی گئیں، مگر علاقے میں کوئی بھی نظر نہ آتا تھا، اور اُس میدان میں اُن بھائیوں کے چھوٹے سے گروہ کے علاوہ کوئی نہ تھا ……ٹینک آگ میں جل کرجھلس گئے اور رُوسی فوجیوں نے پسپائی اِختیار کر لی……(جبکہ) اُن پر ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی تھی۔ بھلا کیسے وہ جو اِن سب سے گزرے ہوں، ربّ العالمین پر یقین نہ کریں؟
واذا سألک عبادی عنّی فانّی قریب أجیب دعوة الدّاع اذا دعان
’’ اور (اے نبی!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں قریب ہوں، میں دُعا کرنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں‘ جب بھی وہ مجھ سے دُعا کرے‘‘![10] 
……شیخ جلال الدین حقانی کہتے ہیں کہ:’’ جہاد کے پہلے سال میں ، لوگ ہم تک پہنچنے کے قابل نہ تھے۔ ہم تعداد میں تھوڑے تھے، اور ہم پہاڑ کی چوٹی پر تھے؛ کوئی ہمارے قریب نہیں آ سکتا تھا ، کوئی ہمیں مدد دینے کے قابل نہ تھا……ہم چائے بنانے کے لیے آگ بھی نہیں جلا سکتے تھے ، کہ کہیں دھواں نہ بلند ہو جائے(اور دشمن کو ہماری جگہ معلوم ہو جائے)……اور یہ اِس حد تک تھا کہ حکومت تک نہیں جانتی تھی کہ ہم کہاں ہیں……اور زمین ہم پر تنگ ہوتی جا رہی تھی……راشن ختم ہو گیا تھا ……اگر آپ بیمار ہو جائیں، آپ صبر سے برداشت کر سکتے ہیں……درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے گِر جائے، آپ وہ بھی صبر سے جھیل لیں گے ……مگر بھُوک،پھر کہاں جائیں گے؟ اُس کو کیسے برداشت کریں گے؟ آپ کچھ کھائے بناءکیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ میں نے نمازِ فجر ادا کی ، اور جائے نماز پر تنگی کی حالت میں بیٹھ گیا ، اور مجھ پر سُستی اور غنودگی غالب آ رہی تھی. اور پھر اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کندھے کو جھنجوڑا، وہ جائے نماز پر جلسہ کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا ، (اور اُس نے مجھ سے کہا:) ’’ اے جلال الدین! تیرا رب تجھے ۳۰ سال تک کھاتا پلاتا رہا اور تُو نے اُس کی راہ میں جہاد نہ کیا - تو اگر وہ تجھے بُھلا دے ، تو کیا تب تُو اُس کی راہ میں جہاد کرے گا؟!‘‘
اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایک مصری بھائی جو ہمارے ساتھ تھے ، اُن سے اُن کی بیوی نے پوچھا (افغانستان میں مجاہدین سے آ ملنے سے پہلے) کہ:’’ آپ کہاں کام کرو گے؟‘‘ اُنہوں نے اُسے بتایا کہ ’’ میں براہِ راست ربّ العالمین کے ادارے میں کام کرنے جا رہا ہوں‘‘ اور اُنہوں نے کہا: ’’ فلاں شخص فلاں بزنس کمپنی کی ماتحتی میں کام کرتا ہے، اور فلاں شخص فلاں گورنر کے لیے کام کرتا ہے……اور میں براہِ راست ربّ العالمین کے لیے کام کروں گا ۔کون ہے مجھ سے بہتر !؟ کون مجھ سے اعلیٰ(مقام والا)ہے؟! کس کی زندگی اِس زندگی سے زیادہ با عزت ہے!؟‘‘
اور یہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات حقیقت میں کتنی صحیح (ثابت ہوتی)ہے، کہ جب اُنہوں نے کہا
’’ لوگوں میں سے بہترین زندگی والا شخص وہ ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام کو اللہ کی راہ میں تھامے ہوئے ہے۔ جب بھی کسی شور و شغب یا گھبراہٹ کی آواز سنتا ہے تو اس کی پیٹھ پر اڑ کر پہنچتا ہے وہ قتل اور موت کو موت کی گھاٹیوں سے تلاش کرتا ہے‘‘ [11]
لہٰذا : پہلا لازمی عمل توحید ہے- اللہ (عز و جل) کو ایک ماننا: توحید العبادت؛ اور اللہ پر ایمان لانا اُس کے نام اور صفات کی مطابقت سے؛ اللطیف پر یقین رکھنا اُس کے مطابق جیسے وہ(عز و جل) خلیق اور مہربان ہے؛ القریب پر یقین رکھنا اُس کے مطابق جیسے وہ قریب ہے؛ اور السّمیع پر یقین رکھنا اُس کے مطابق جیسے وہ سنتا ہے - وغیرہ وغیرہ
دوم، لوگوں کے دلوں میں عزت و وقار کی افزائش(یعنی عزت و وقار کو بڑھانا اور بلند کرنا)۔ اور یہ اِس لئے کہ ذلّت اور شکست خوف ہی کا نتیجہ ہیں. اور جرأت اور بہادری سے عزت اور وقار لوٹتا ہے۔ مگر مال، منصب اور اِس زندگی کا خوف - ذلت اور غلامی کا سبب بنتا ہے؛ اور اِس سب سے اپنے آپ کو آزاد کرنے سے ، عزت کا ثمر حاصل ہوتا ہے۔
عزت تو گھوڑوں کی سخت پِیٹھوں پر ہے
اور وقار تو بے آرام راتوں اور شبانہ سفر کی کوک سے جنم لیتا ہے


[1] مسند احمد :۲/۵۰ ،کتاب مسند المکثرین من الصحابة ، باب مسند عبداللّہ بن عمر.

[2] (أبوداود ، کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام، ح ۴۲۹۷)
[3] یعنی:خون
[4] یعنی:تلوار
[5] دیکھئے العنکبوت: ۶۳-۶۱، لقمان: ۲۵، الزمر:۳۸، الزخرف: ۹، ۷۸، یوسف: ۱۰۶، اور دیکھئے تفسیر الطبری: ۱۲-۱۱/۲۱، تفسیر القرطبی: ۳۱۶/۱۳، تفسیر ابن کثیر: ۳۰۱/۶
[6] حوالاجات اور تفصیل کے لیے دیکھئے محمد بن عبد الوھاب کی کتاب التوحید

[7] البقرۃ :۸۲۱
[8] البقرۃ :۸۲۱
[9] شیخ یہاں پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موازنہ اِن دیگر اِماموں سے کر رہے ہیں، کیونکہ ابن تیمیہ اُن میں موازنہ سے منفرد ہیں، اور بلاشبہ،دیگر مذکورہ اماموں سے مختلف، ابن تیمیہ اُن اِماموں میں سے ہیں جنہوں نے کفار کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا ، اور وہ دشمن کے عقوبت خانوں میں رہے اور بہت سی صعوبتیں برداشت کیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ کے الفاظ میں جو حکمت اور پوشیدہ خوبصورتی ہے وہ اُن اماموں کی باتوں میں نظر نہیں آتی جو اِس طرح کی مصیبتوں اور مشکلات سے نہیں گزرے۔ شیخ عبداللہ عزام اِس نقطے کو واضح کر رہے ہیں ، کہ کیسے اللہ کی راہ میں جہاد اور پیش آنے والی مشکلات و مصیبتیں ، دین کی حکمت اور علم کے خزانوں کو ایک مجاہد کے لیے کھول دیتی ہیں۔اور اِسی طرح شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں ’’ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ جب لوگوں کے درمیان کسی بات میں اِختلافِ رائے پیدا ہو جائے تو دیکھو کہ محاذوں والے کس طرف ہیں کیونکہ بیشک حق اُن کے ساتھ ہے، اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے :’’اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم ضرور بالضرور اُن کو اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے‘‘ العنکبوت: ۶۹۔ ‘‘ (فتاویٰ لابن تیمیہ: ۴۴۲/۲۸)
[10] البقرۃ: ۱۸۶
[11] صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب فضل الجہاد و الرباط ، ح ۱۸۸۹

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔