Saturday, May 2, 2015

جہاد امت کی بقاء اور عظمت کا ضامن

اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد اسلامی احکام کی اساس اور بنیاد ہے یعنی جہاد مسلم امہ کی بقاء،عظمت اور دنیا میں ایک خود مختار زندگی گذارنے کا ایک بہترین راستہ ہے،
اگر جہاد نہ ہو تو نماز، روزہ، حج ، تلاوت اور دوسری عبادات میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، بہت سے اسلامی ممالک کی حالت ہمارے سامنے ہے،مصر،اور   بنگلہ دیش جیسے اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی ذلت آمیز زندگی ہمارے لئے عبرت کی ایک اچھی مثال ہے، غیر مسلم دنیا کی حالت تو اس سے بھی بڑھ کر ہے ، فرانس، برطانیہ، امریکا ، اسرائیل اور کچھ دوسرے ممالک میں تو مسلمان شدید مشکلات کا شکار ہیں ، وہاں کے مسلمان تو مجبور ہیں کہ کفار کے وضع کردہ غیر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گذاریں، گذشتہ دنوں یہ بھی سننے میں آیا کہ ایران کے   شہر زاہدان میں ایرانی انٹیلی جنس کے اہلکار   اہل سنت مسلمانوں کے گھروں   کی بلا وجہ تلاشی کے نام پر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں، مساجد میں لاوّڈ سپیکر کے استعمال کیلئے بھی حکومت کی اجازت طلب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ دوسری طرف مصر میں سینکڑوں مساجد کو مختلف بہانوں کے تحت تالے لگا دئیے گئے ہیں ، بھارت کے گجرات میں تو مسلمانوں کا قتل عام روز کا معمول بن چکا ہے۔
مختصریکہ جن علاقوں میں جہاد نہیں وہاں مسلمانوں کو کفار کی طرف سے اذیتیں دی جاتی ہیں جنہیں سن کر ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں   وہ علاقے جہاں مجاہدین   اور جہاد کی   صدائیں بلند ہوتی ہیں ان علاقوں کے مسلمان ایک آزاد زندگی   گذارتے ہیں، ان ممالک میں کفار کی نیندیں حرام ہوتی ہیں،افغانستان، فلپائن اور نائیجیریا اس کی اچھی مثالیں ہیں، نائیجیریا میں عیسائی طلباء کا اغوا   نہ صرف یہ کہ مناسب اقدام تھا بلکہ یہ ایک ضرورت   تھا، انہی طلباء کے اغوا سے پوری عیسائی کمیونٹی   ایک خوف میں مبتلا ہوگئی ہے، بوکوحرام کے مجاہدین امریکا اور نائیجیرین حکومت کے خلاف مزاحمت میں مصروف ہیں ، برما اور مصر میں اٹھنے والی جہادی تحریکوں نے   امریکا اور اسرائیل سمیت پوری   دنیائے کفر کے ایوانوں میں کھلبلی مچادی ہے۔
جہاد کے فضائل اور فوائد   کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، قرآن کریم میں سینکڑوں آیات   اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث میں جہاد کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان   امریکی ڈالرز پر ناچنے والے ایسے بہت سے افراد موجود ہیں   جو ملّا اور مفتی کے   نام پر عوام الناس   کو جہاد سے دور لے جانے کی تگ و دو میں ہیں ۔
افغانستان میں بھی امریکی جارحیت کے   ساتھ ہی   امریکی ڈالرز پر پلنے   والے نام نہاد علماء ، اینکرز اور بعض قلم فروشوں نے جہاد اور مجاہدین کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کیا، یہ وہ لوگ ہیں جو اس صلیبی جارحیت سے قبل امریکا کے نائٹ کلبز، ہوٹلوں اور برگر شاپس میں کا م کرتے تھے، لیکن آج یہاں تک پہنچے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث نبوی   کے مقابلے میں میدان میں کود پڑے ہیں ، دن رات کفار کی چاپلوسی میں مصروف ہیں، وہ   جو اپنے آپکو علماء و مفتیان گردانتے ہیں ،سیاف ، کشاف ، مجددی اور وقاد وغیرہ انہیں تو اللہ نے اس دنیا میں ہی ذلت سے دو چار کیا، کیونکہ ان لوگوں کا سابقہ جہاد بھی اللہ کی رضا کیلئے نہیں   بلکہ ذاتی مفاد   اور منصب کے حصول کیلئے تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری کردی [منصب کے حصول کی] لیکن اب کفار کی غلامی   نے ان کی زندگیوں کا آرام و سکون چھین لیا ہے ، لوگوں میں اپنا   مقام کھو بیٹھے اور ان کی طعن و تشنیع کا نشانہ بنے، آج اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ان لوگوں نے بھی تو روس کے خلاف جہاد کیا تھا   لیکن امریکا کے خلاف جہاد کو دہشت گردی اور اور انتہا پسندی قرار دیتے ہیں آخر کیوں؟ سب سے بڑی وجہ اس کی یہی ہے کہ ان لوگوں کا جہاد   دنیاوی مناصب کے حصول کیلئے کیا تھا نہ کہ   اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے اسی لئے اللہ نے انہیں   ذلت اور غلامی کے یہ مناصب عطا کر دئیے ، باقی انہی آقاوّں کے ہاتھوں ان کے گھروں پر چھاپے اور بے عزتی تو ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں۔
جہاد اللہ تعالیٰ کی رضا، مسلمانوں کی عزت اور عظمت،   دین اسلام کے پھیلنے، کفار کی ذلت و شکست اور دنیا میں کفار کے ہر قسم کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا ایک روشن اور منفرد راستہ ہے، اس جہاد ہی کی برکت سے دنیاکی فرعونی قوتیں منہ کے بل گری ہیں ، اور اس جہاد ہی برکت سے اسلام کا مبارک دین دنیا کے کونے کونے تک   پہنچا ہے ، آج جب ہم اس مبارک دین کے پیروکار ہیں یہ ہمارا کارنامہ نہیں بلکہ یہ اعزاز اور کارنامہ ان مجاہدین   صحابہ کرام کا ہے جنہوں نے مکہ اور مدینہ کے تپتے صحراوّں کے سفر کرکے     بے شمار مشکلات سہہ کر اپنی جانوں   کی   قربانیاں دے کر یہ دین ہم تک پہنچا یا ہے، انہیں اللہ نے ان قربانیوں کے بدلے دنیا میں ہی اپنی رضا کی خوشخبری سنا دی،   ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اس مبارک دین کے احکام   سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں عمل تو دور کی بات ہے،آج ہم مسلمان ہونے کے باوجود کفار کے سامنے بے بس ہیں ،{مٹھی بھر مجاہدین کے علاوہ}، کیونکہ ہم نے اسلام کو مسجد اور مدرسے تک محدود کر لیا ہے، یہاں تک کہ ہمارے ملک میں حالیہ دنوں میں تو جمہوری گائے نے ایسے بچے بھی جنے جو علماء اور مدارس کے پیچھے پڑ گئے ہیں،لیکن بد قسمتی   کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے ملک میں آزادطور پر گھوم رہے ہیں   لیکن ان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والا کوئی نہیں اسی وجہ سے ہم اتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔
جہاد سے انکار کفر، اس میں سستی کرنے والا گنہگار اور منافق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا     اپنے مبارک کلام میں یہ فرمان ہے:

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ۔{البقرۃ ۲۱۶}
ترجمہ: اور تم پر جنگ {جہاد} فرض کیا گیا ہے اور حال یہ   ہے کہ یہ جنگ تمھیں ناگوار لگتی ہے اور جو بات تمھیں ناگوار لگے شاید اسی میں تمھاری بھلائی ہو اور جو بات   تمھیں   اچھی لگے شاید   اس میں تیرے لئے   فساد ہو، اور اللہ عالم ہے{تیری بھلائی کے بارے میں} اور تم نہیں جانتے{اپنی بھلائی کے بارے میں}۔
مذکورہ آیت سے جہاد کی فرضیت اور فضیلت دونوں ظاہر ہوتے ہیں، اگر آج پوری دنیا کے مسلمان   متحد اور ایک آواز ہو کر عالم کفر کے خلاف   علم جہاد بلند کرتے اور کفار کے خلاف جہادی محاذوں کا رخ کرتے تو مسلمانوں کی ذلت کا یہ   حال   کبھی نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ   ہر شخص سے عدل کا معاملہ فرماتے ہیں، ہم خود ہی اللہ کے احکامات کو پاوّں تلے روند کر اللہ کے قہر و غضب کو دعوت دیتے ہیں ۔
لوگوں کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود جہاد جیسے مقدس فریضے سے دور بھاگتی ہے،   اور پھر ایسے بے جا اور شیطانی دلائل بیان کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ، جیسا کہ آج کل کے کچھ نام نہاد مسلمان جو میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ آئیں تعلیم حاصل کریں ، تاکہ ہم ٹینک اور میزائل خود ہی بنائیں اور پھر کفار کے   ساتھ ان کی اپنی   بنائی ہوئی ٹیکنالوجی سے جہاد کریں ، حقیقت میں یہ لوگ اپنے   فرار کو جواز کی سند فراہم کرنے کیلئے نت نئے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے   ہیں کہ عالم اسلام میں ایسے بہت سے کم ممالک ہوں گے جہاں کفار کی موجودگی یا کسی حد تک حاکمیت نہ ہو،ان کی موجودگی مستقل ہو یا عارضی   وہ کیسے مسلمانوں کے اسلحہ اور بم بنانے پر خاموش رہیں گے ، مختصریکہ اپنے ملک کے تعلیمی نصاب پر ایک نظر ڈالیں، کفار نے اس نصاب سے جہاد اور ہجرت کے تمام مضامین حذف کرلئے ہیں، فرض کریں ہم ان لوگوں کی بات مان لیتے ہیں جو تعلیم کی بات کرتے ہیں جو ٹینک اور طیارہ خود ہی بنانے کی فکر میں ہیں ۔ تو کیا ملک کا موجودہ تعلیمی نصاب اس قابل ہے کہ اس کی بنیاد پر آگے چل کر ہماری یہ نئی نسل ٹینک اور میزائل بنانے کے قابل ہوجائے گی اور پھر کفار کے خلاف   ان ہی اسلحوں سے لڑے گی؟نہیں بالکل نہیں ، موجودہ نصاب میں کھیل کود، میوزک، تفریح اور ہر شخص کے سامنے نرمی اختیار کرنے جیسے موضوعات کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس نصاب میں عورتوں کے حقوق، ہمسایہ ممالک،اور منشیات جیسے موضاعات شامل ہیں، دل تھام کر بتائیں کہ اس نصاب سے   ٹینک اور میزائل بنانے کی توقع کی جاسکتی ہے یا   اس نصاب سے میوزک، کھیل کود اور زندگی سے گہری محبت کا محبت کا درس ملتا ہے۔
دوسری جانب   ان اسلامی ممالک کی حالت بھی ہمارے سامنے ہے جہاں حکومتیں بلا شرکتِ غیرے قائم ہیں وہاں بھی کوئی شخص تعلیم کی بنیاد پر   جدید جنگی ہتھیار نہ بنا سکا، کیا آج پوری دنیا کے یہ نہاد اسلامی افواج تقریبا اپنے تمام جنگی وسائل کفاار سے درآمد نہیں کر رہے، یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ   بندوق کا نہیں قلم کا زمانہ ہے پتہ نہیں وہ کس قسم کا نظام چاہتے ہیں؟؟ کیا عالم اسلام کی دل دہلا دینے والی حالت انہیں نظر نہیں آرہی، جو منظم حکومت ، مضبوط معیشت اور بڑی تعداد میں فوج رکھنے کے باوجود جنگی ہتھیاروں کیلئے کفار کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں؟   ایک اہم بات جو ان پروپیگنڈہ کرنے والوں کو نظر نہیں آرہی یا جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں وہ ہے آزادی،   عالم اسلام کو جب تک آزادی نصیب نہیں ہوتی اس وقت   وہ فوجی اور معاشی میدان میں کفار کی مدد کے محتاج ہونگے، ہم نے   امت مسلمہ کو ان حالات سے نجات دینے کیلئے عَلم جہاد بلند کیا ہے اور تمام مسلمانوں کو اس کی بھر پور دعوت دیتے ہیں۔
ایک خوبصورت مثال ملاحظہ فرمائیں، فلسطین میں دو   بڑی جماعتیں موجود ہیں حماس اور الفتح، یہ دونوں جماعتیں ساٹھ سال کی تاریخ رکھتی ہیں الفتح کی ساری توجہ قلم اور تعلیم پر مرکوز ہے، جبکہ حماس کا موّقف یہ ہے   کہ ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے ہاتھ میں تلوار ہو، یاد رہے کہ الفتح کی جماعت شروع میں اسرائیل کے خلاف مسلح جہاد میں حصہ لیتی تھی لیکن آہستہ آہستہ   ان کی یہ جدوجہد امن مذاکرات اور جھوٹے وعدوں کی بھینٹ چڑھ گئی [یہاں تک کہ ایک بڑے عرصے تک حماس کے ساتھ بھی دست و گریبان رہے]،یہ بھی تعلیمی میدان میں آگئے اور آج تک پھر انہیں اسرائیل کے خلاف اسلحہ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی، اور آج تک   اپنی تعلیم   کی بنیاد پر نہ کوئی بندوق تیار کرسکے اورنہ کوئی چھوٹا سا جنگی ہتھیار،اور   نہ عالمی سطح پر ایک مضبوط معیشت کے طور پر ابھرے حالانکہ   ان پر پاندیاں ہیں نہ کوئی دوسری مشکلات، لیکن اس کے مقابلے میں حماس کی جہادی تحریک   جو ہمیشہ مسلح جدوجہد میں مصروف عمل ہےآج دیکھیں کہ ان سخت اور نا مساعد حالات کے باوجود جنگی میدان میں شاندار کامیابیوں کے ساتھ تعلیمی میدان میں بھی کافی پیشرفت کر چکے ہیں، وہ اپنے میزائل خود ہی بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میزائلوں نے   اسرائیل کے   تل ابیب میں آگ لگا رکھی ہے اور حماس   ڈرون طیارہ   بنانے میں بھی کامیاب ہوئی ہے، ان کی یہ پیشرفت تعلیم کا راگ الاپنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےفقتلو أولیاءَ الشّیطن اِنّ کید الشیطن کان ضعیــفا[ النساء ۷۶]
ترجمہ:شیطان کے دوستوں [کفار اور منافقین] کو قتل کرو، بے شک شیطان کا دجل وفریب   کمزور ہے۔
یہاں کفار کے اسلحوں اور ان کے   ایجنسیوں کو شیطان   کے دجل اور فریب سے تعبیر کیا گیا ہے، سیاسی، معاشی اور ثقافتی جارحیت بھی شیطان کی چالوں میں سے ایک چال ہے، لیکن اللہ تعالیّ کا فرمان ہے کہ ان کی تمام   سازشیں اور فریب کاریاں نہایت ہی کمزور ہیں۔
بہت سے لوگوں کے نظریات مغربی میڈیا کی وجہ سے تبدیل ہوئے ہیں اور جہاد کے فلسفے اور اہمیت سے انکار کر بیٹھے ہیں ان لوگوں کے بارے میں قرآن پاک اپنے پیروں کاروں کو یہ پیغام دیتا ہے:
: ولو لا دفع اللهِ الناس بعضهم ببعضٍ لهدّمت صوامعُ و صلواتٌ و مسجد یذکر فیها اسم الله کثیرا ( الحج ۴۰]
ترجمہ: اگر اللہ پاک بعض لوگوں کو دسرے لوگوں سے دفع نہ کرتا، تو ضرور عبادت خانے، مدارس اور مساجد شہید کر دئیے جاتے ، جہاں کثرت سے اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔
یہاں ان لوگوں کیلئے واضح جواب موجود ہے جو کہتے ہیں جہاد کس   مقصد کیلئے کیا جارہا ہے، مسلح جدوجہد کی بجائے   قلم کے ذریعے جہاد کیا جا ئے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جہاد کو آپ کیلئے نجات اور کامیابی کا ایک ذریعہ بنایا ہے، آج   مسلمان دنیا کے کسی حصے میں   بھی اگر آرام اور سکون سے اپنی عبادات میں مصروف ہیں تو یہ اس جہاد ہی برکت ہے، اگر جہاد نہ ہو تو مساجد شہید کر دئیے جاتے، مصر کی حالت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، جہاں مساجد کو تالے لگا دئیے گئے ہیں اور ان کی شہادت کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، بنگلہ دیش میں بھی حالات اس سے کم نہیں، لوگو ں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے، فرانس میں مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر مکمل پابندی ہےبرطانیہ میں خواتین کا گھر سے اسلامی لباس میں باہر نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، چین میں روزہ رکھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، کیوں؟؟ کیوں کہ ان ممالک میں جہاد نہیں ہے۔
ایک آخری بات عرض ہے کہ:
عالم اسلام کا موجودہ دگرگوں حالت سے نجات کا   واحد ذریعہ مسلح جہاد ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں،جب تک امتِ مسلمہ کے نوجوان جہادی محاذوں کا رخ نہیں کرتے، اس وقت تک کفار   کے مظالم   اور وحشتیں سہتے رہیں گے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔