Friday, July 27, 2012

قتل عام بند کرو ورنہ برما کے مفادات پر حملے کریں گے۔طالبان کی دھمکی

 

پاکستانی طالبان نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری جرائم کے حوالے سے میانمار کو دھمکی دی ہے۔ پاکستانی حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ میانمار کے ساتھ تمام تعلقات فوری طور پر ختم کر دے۔روہنگیا مسلمانوں کے قتل وغارت اور ان کے خلاف جرائم کی خبروں پر پاکستانی طالبان کی طرف سےکہا گیا ہے، ’’ہم آپ کے خون کا بدلہ لیں گے۔‘‘ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے ایک بیان میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار کے ساتھ تمام تر تعلقات ختم کرتے ہوئے اسلام آباد میں میانمار کا سفارت خانہ بند کر دے، ’’ورنہ ہم نہ صرف برما کے مفادات پر حملے کریں گے بلکہ پاکستان میں برما کے ساتھیوں کو بھی ایک ایک کر کے نشانہ بنائیں گے۔ اسلام آباد میں میانمار کے سفارت خانے سے اس دھمکی پر رد عمل جاننے کے لیے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے تاہم پاکستان سے باہر حملوں کے حوالے سے اس تنظیم کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ 2010ء میں نیویارک کے ٹائم اسکوائر پر بم دھماکے کی ناکام کوشش کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ تھا۔ اس حملے کی کوشش کے جرم میں ایک امریکی شہری فیصل شہزاد عمر قید کاٹ رہا ہے۔میانمار کے مشرقی علاقے میں راکھنی بدھ کمیونٹی اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان حالیہ فسادات کے باعث درجنوں افراد ہلاک جبکہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس کے پاس روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی معتبر اطلاعات ہیں۔ ان میں خواتین کی عصمت دری، املاک کی تباہی اور ان کی غیر قانونی ہلاکتیں شامل ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق ان مظالم میں راکھنی بدھوں کے علاوہ میانمار کی سکیورٹی فورسز بھی ملوث ہیںایمنسٹی کی طرف سے مزید بتایا گیا کہ روہنگیا آبادی والے علاقوں سے سینکڑوں مردوں اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا۔ایمنسٹی کے مطابق زیادہ تر گرفتاریاں من مانے طریقے سے اور امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے کی گئیں۔روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے میانمار میں آباد ہیں تاہم انہیں وہاں کی شہریت دینے کی بجائے بے وطن گردانا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میانمار میں آباد روہنگیا مسلمانوں کو مظلوم ترین اقلیت قرار دیتی ہے۔

مکمل تحریر  »

القاعدہ اور جہادیوں کی شام میں منظم کارروائیوں سے مغربی ممالک پریشان



شام میں جہادیوں کی موجودگی کی وجہ سے عراق کی سرحد کے ساتھ فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ شام میں تشدد کے حالیہ واقعات میں اضافے کے بعد اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عالمی جنگجو تنظیم القاعدہ صدر بشار الاسد کے خلاف جاری تنازعے کی نوعیت کو تبدیل کرنے اور وہ خودکش بم دھماکوں کے ذریعے انقلاب کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق شامی حزب اختلاف تنازعے میں انتہا پسندوں کے کسی کردار سے انکار کرتی چلی آ رہی ہے لیکن امریکی انٹیلی جنس حکام اور عراقی حکام کو اس بات پر تشویش لاحق ہے کہ القاعدہ تنازعے میں پوری طرح ملوث ہے اور وہ عراق میں آزمودہ اپنے ہتھیار ۔۔۔۔۔۔ خودکش بم دھماکوں ۔۔۔۔۔ کو شام میں بھی بروئے کار لا رہی ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ ''شام سنی انتہا پسندوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے اور وہاں القاعدہ کے بینر تلے کام کرنے والے جمع ہو رہے ہیں''۔ اخبار نے ترکی کے ساتھ واقع شام کی بارڈر کراسنگ باب الہوی کی مثال پیش کی ہے جس پر باغیوں نے گذشتہ ہفتے قبضہ کیا تھا لیکن اس کے فوری بعد وہ جہادیوں کی اجتماع گاہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ''انٹرنیٹ پر ایسی ویڈیوز پوسٹ کی جا رہی ہیں جن میں نقاب پوش افراد خود کو آزاد شامی فوج کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں اور انھوں نے اے کے 47 کلاشنکوف رائفلیں اٹھا رکھی ہیں۔ ان کے پیچھے القاعدہ کے پرچم بلند ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں اور ایک ویڈیو میں ایک شخص یہ اعلان کر رہا ہے کہ ''ہم نے اب اللہ کے نام پر جہاد کے لیے خودکش سیل قائم کر دیے ہیں''۔ شام میں جہادیوں کی موجودگی کے بعد اس کی عراق کے ساتھ واقع سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد سے اس انتہا پسند گروپ نے ایسے بیانات جاری کیے ہیں جن میں اس نے عراق میں اپنی مزاحمت کو شام میں انقلاب سے جوڑا ہے اور دونوں جگہ تنازعات کو سنی بمقابلہ شیعہ قرار دیا ہے۔عراقی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں جو انتہا پسند کام کر رہے ہیں، وہی دراصل بہت سے کیسوں میں ان کے ملک میں بھی کام کر رہے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ایک خصوصی معاون عزت الشاہ بندر کا کہنا ہے کہ شام کے ساتھ سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کے بعد ہمیں سو فی صد یقین ہے کہ جو نام ہمیں مطلوب ہیں، وہی شامی حکام کو بھی مطلوب ہیں''۔ انھوں نے کہا کہ جو القاعدہ عراق میں بروئے کار ہے وہی شام میں بھی کام کر رہی ہے۔عراق میں سوموار کو گذشتہ دو سال میں سب سے تباہ کن بم دھماکے ہوئے تھے۔ دارالحکومت بغداد اور شمالی شہر کرکوک سمیت سترہ شہروں اور قصبوں میں بم دھماکوں میں ایک سو گیارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔دوسری جانب شام میں گذشتہ دسمبر میں اسی نوعیت کے خودکش بم دھماکوں کا آغاز ہوا تھا اور تب سے اب تک پینتیس کار بم دھماکے اور دس خودکش بم دھماکے کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار کی القاعدہ کے اتحادی ایک گروپ النصر محاذ نے ذمے داری قبول کرنے کا دعوی کیا تھا۔ تاہم شامی حزب اختلاف اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک میں القاعدہ کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ شامی قومی کونسل کے ایگزیکٹو بیورو کے ایک رکن سمیر ناشر کا کہنا ہے کہ ''ہم ہر کہیں سے شام میں القاعدہ کی موجودگی کی خبریں سن رہے ہیں لیکن اس جنگجو تنظیم کی شام میں موجودگی کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا''۔نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں آزاد شامی فوج کے ایک کمانڈر سید کا انٹرویو بھی شامل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ انھوں نے بھی شام میں القاعدہ کے جنگجووں کے موجود ہونے کے بارے میں سنا بہت کچھ ہے لیکن حقیقی طور پر کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ ''اگر القاعدہ صدر بشار الاسد کے خاتمے کے لیے آتی ہے تو وہ اس مقصد کے لیے ضرور آئے لیکن ذاتی طور میں نے ان میں سے کسی کو نہیں دیکھا''۔ شامی حزب اختلاف کے لیڈروں کے ان بیانات کے باوجود مغربی میڈیا نے اب یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ شام میں القاعدہ کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور مغربی ممالک اس کو جواز بنا کر شام میں فوجی مداخلت کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مکمل تحریر  »

Thursday, May 27, 2010

TTP Ka Hamla

مکمل تحریر  »