Sunday, June 10, 2012

عجیب شخص تھا کہ جو قلم کی لاج رکھ گیا




عجیب شخص تھا کہ جو قلم کی لاج رکھ  گیا
مولانا نصیب خان رحمۃ اللہ علیہ
اور مولانا اسلم شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ  کی شہادت کے سانحے پر
پاکستانی عوام اور علمائے کرام کے نام
استاد احمد فاروق حفظہ اللہ کا پیغام




الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علی إمام الأنبیاء محمد المصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم، أما بعد:
میرے عزیز پاکستانی بھائیو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
‘‘ليس منا من لم يجل كبيرنا ويرحم صغيرنا ويعرف لعالمنا حقه’’۔ (صحیح وضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ)
‘‘وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے ہمارے بڑے کا احترام نہ کیا اور ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کی اور ہمارے عالم کا حق نہیں پہچانا’’۔
آج ایک بار پھر اہلِ پاکستان کی گردنوں پر مسلط حکمران طبقے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ طبقہ ’ہم میں سے نہیں‘ اور اس امت سے  اور اس کے دین سے اس کا کوئی ادنیٰ واسطہ نہیں۔ وہ علمائے دین جن کی شان اللہ جل جلالہ نے اپنی مبارک کتاب میں بیان فرمائی، جن سے رہنمائی لے کر چلنے کو ربِ کریم نے ہم پر لازم فرمایا، جن کا حق پہچاننے کو اللہ کے محبوب نبیﷺ نے ہم پر واجب ٹھہرایا……اسی مبارک گروہِ علماء کے دو مزید چمکتے ستاروں کو اس فرنگی نظام نے شہید کر ڈالا ہے۔ پہلے، شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے  اور اکوڑہ خٹک  میں درسِ حدیث کے فرائض سر انجام دینے والے نڈر مجاہد عالمِ دین، شیخ الحدیث مولانا نصیب خان رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے مدرسے کے باہر سے اغواء کر کے ان کی تشدد زدہ لاش سڑک کے کنارے پھینک دی گئی۔ اس کے بعد کراچی میں معروف عالمِ دین، مفسرِ قرآن، مولانا اسلم شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کو دورانِ  سفر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں جلیل القدر اہلِ علم کی شہادت قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، ان کے قلم کی سیاہی اور ان کے جسد کا خون، دونوں کو اعلیٰ ترین شرفِ قبولیت بخشے اور امتِ مسلمہ کو علم و عمل کے ان خزانوں کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے، آمین!
میرے محبوب و محترم پاکستانی بھائیو!
ان دونوں حضرات کا جرم بس اتنا تھا کہ یہ نبوی وراثت کا بوجھ اپنے کندھوں پر محسوس کرتے تھے ، اپنے مقام کی نزاکت پہچانتے تھے اور اسی لیے جس بات کو حق سمجھتے اسے کہہ ڈالتے تھے اور کسی کی ملامت کا خوف نہ کرتے تھے۔ یہ دونوں حضرات دنیاوی مفادات، حکومتی ایوانوں اور غیر ملکی سفارت خانوں سے قربت کی خاطر اپنے فتاویٰ نہیں بدلتے تھے اور رب کے بے سرو سامان مجاہد بندوں کی کھلی وپوشیدہ تائید کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب ہمارے کچھ مجاہد بھائی مولانا اسلم شیخو پوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں  بندۂ فقیر کا خط لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے کمال شفقت و محبت کا اظہار فرمایا، وقت کی قلت کے باوجود مختصر جوابی خط عنایت فرمایا اورمجاہدین کے موقف کی تفاصیل جان کر ذرائع ابلاغ کے منفی کردار پر کڑی تنقید  کی کہ جس نے عوام ہی نہیں بلکہ خواص کے سامنے بھی اہلِ جہاد کی حقیقی تصویر مسخ کر کے پیش کی ہے۔ اللہ رب العزت آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ سے راضی ہو جائے! رہے شیخ الحدیث مولانا نصیب خان رحمۃ اللہ علیہ تو آپ کی جرأت و بے باکی تو اس دور میں بھی علمائے اسلاف کی یاد تازہ کر دیتی تھی۔ افغانستان وقبائل میں برسرِپیکار بہت سے مجاہدین اور کئی اہم ذمہ داران  آپ کے براہِ راست شاگرد رہ چکے ہیں۔ آپ کی مجاہدین سے محبت اور افغانستان وپاکستان میں جاری جہادی تحریک کی علانیہ پشت پناہی کے سبب سب مجاہدین کے دلوں میں آپ کی خصوصی قدر ومنزلت تھی۔ آپ اپنے دروس و بیانات میں کھل کر پاکستان کے فرنگی نظام کو نشانہء تنقید بناتے اورطلباء کے سینوں میں نفاذِ شریعت کی تڑپ اور جہادوقتال کا جذبہ بیدار فرماتے تھے۔اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوں ، آپ کے پسماندگان کو اجرِ عظیم اور صبرِ جمیل نصیب فرمائیں اور مجاہدینِ اسلام کو آپ کا بہترین نعم البدل عطا فرمائیں، آمین!
میرے محترم علمائے کرام و اساتذۂ عظام!
برصغیر ایک زرخیز تاریخ کی حامل اسلامی سر زمین ہے۔اس خطے نے تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر علوم  کے میدان میں ایسی نادرِ روزگار شخصیات کو جنم دیا   جن کی تصنیفات نے پورے عالم ِ اسلام میں علم کا نور بکھیرا۔ صدیوں تک اس خطے پر اسلام کا جھنڈا لہراتا رہا۔ علمائے کرام افتاء و قضاء کے مناصب پر فائز اور معاشرے میں معزز و مکرم رہے۔ سلاطینِ دہلی بھی علماء کے فتاویٰ کے پابند رہے اور معاشرے پر قرآن و سنت کی بالادستی بحیثیتِ مجموعی قائم رہی۔ پھر رفتہ رفتہ  یورپی کافروں نے اس زمین پر اپنے قدم جمانا شروع کیے ، ہماری داخلی کمزوریوں ،عیش کوشی اوراتباعِ شریعت میں تساہل سے فائدہ اٹھایا اور سازشوں اور مکر کے  جال بن کر  بتدریج اسلامی ہند کی عظیم الشان سلطنت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ کے خانوادے نے اس علمی و عملی تنزل کو روکنے کے لیے علم و عمل کے میدانوں میں مزاحمت شروع کی۔ آپؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہند کے بیشتر علاقوں میں احکامِ شریعت کی بالادستی ختم ہونے کے سبب ہند کودارالحرب قرار دیا ، نفاذِ شریعت کی خاطر جہاد کو لازم کہا اوریوں  سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہما کی مبارک جہادی تحریک کی علمی بنا ڈالی۔ یہ تحریک جو سن  ۱۸۲۵ء کے قریب شروع ہوئی، کسی نہ کسی صورت میں قیام پاکستان تک جاری رہی اور عین قیامِ پاکستان کے وقت بھی  وزیرستان و دیگر قبائلی علاقہ جات کے پہاڑوں میں وہ مجاہدین مورچہ زن تھے جوپاکستان ہی نہیں بلکہ پورے ہند پر اسلام کی حاکمیت اور علمائے حق کی سیادت کو بحال دیکھنا چاہتے تھے۔
دوسری جانب ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی کے بعد برصغیر کے بیشتر علاقوں پر سے مسلمانوں کا رسمی اقتدار بھی ختم ہو گیا۔ انگریز نے برصغیر کے سب سے پست کردار، بودے، بے ضمیر  اور بے حمیت طبقات کی مدد سے ۱۸۵۷ء کی شکست کو فتح میں تبدیل  کیا اور دم توڑتے انگریزی اقتدار میں نئی روح پھونکی۔ یہ وہ تاریخی موڑ تھا جہاں برصغیر کا اقتدار علمائے کرام اور معززینِ معاشرہ کے ہاتھ سے چھین کر فرنگی کے ٹوڈی ،مفاد پرست، اسلام دشمن، ضمیر فروش طبقے کے حوالے کر دیا گیا جس کی رگ رگ میں پیسے کی محبت اور اہلِ دین کی نفرت بھری ہوئی تھی۔
میرے محترم علمائے کرام و اساتذۂ عظام!
آج شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے تاریخی فتوے کو صادر ہوئے لگ بھگ دو صدیاں گزر چکی ہیں…… اور تاحال وہ فتویٰ ہمیں پکار پکار کر دعوتِ عمل دے رہا ہے۔ شریعت آج تک نافذ نہیں ہو سکی ، آج بھی فرنگی اور اس کے ٹوڈی یہاں راج کر رہے ہیں اور انہی کے قوانین یہاں غالب ہیں۔
آج ۱۸۵۷ء کے تاریخی موڑ کو گزرے بھی تقریباًڈیڑھ سو سال پورے ہو چکے ہیں، لیکن برصغیر کے علمائے کرام اور اس خطے کے معززین و شرفاء کے ہاتھ سے جو اقتدار چھینا گیا تھا وہ آج بھی فرنگی کے آلہء کار اور علی گڑھ کی پروردہ نسل کے ہاتھ میں ہے۔
مولانا اسلم شیخو پوری اور مولانا نصیب خان کی شہادت اسی نفرت و حقارت کا نتیجہ ہے جو اس نظام کو چلانے والے جرنیلوں، سیاسی خاندانوں اور بیوروکریٹ افسروں کے سینوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ یہ نظام چلانے والے بد بخت ہاتھ ، اسی غلیظ طبقے کی باقیات ہیں جس کے نجس ہاتھوں نے ۱۸۵۷ء کی تحریک کو کچلنے کے بعد دہلی کی سڑکوں اور چوراہوں پر ہزار ہا علماء کی لاشیں ٹانگی تھیں۔ یہ نظام چلانے  والا غدار ٹولہ بخوبی جانتا ہے کہ علمائے کرام اس معاشرے کی اصل قیادت ہیں اور اگر انہیں ذرا بھی سر اٹھانے کا موقع دیا گیا تو اس انگریزی نظام کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔  تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران جتنے علماء پاکستان میں شہید کیے گئے اتنے کسی بھی مسلم خطے میں شہید نہیں کیے گئے۔  مولانا یوسف لدھیانوی، مولانا عبداللہ غازی، مفتی نظام الدین شامزئی، مفتی جمیل الرحمان، مولانا اعظم طارق، مولانا عبدالرشید غازی، مولانا مقصوداحمد، مولانا ولی اللہ کابل گرامی، مولانا محمد عالم، مولانا امین اورکزئی، مولانا علی شیر حیدری، مولانا محمد عارف، مولانامعراج الدین محسود، مفتی سعید احمد جلال پوری…… اور درجنوں دیگر علمائے کرام کے بہیمانہ قتل کا ذمہ دار یہی فرنگی نظام ہے جو اس ملک میں غلبہء اسلام کی راہ میں حائل ہے۔
میرے محبوب پاکستانی بھائیو!
خدارا! تھوڑی دیر کے لیے سوچیئے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کا خون اتنا سستا ہو گیا ہے؟  وہ کہ جنہیں ہمارے محبوب نبی  انبیاء کا وارث بتلاتے ہیں، جن کے فضائل کو اللہ رب العزت خود اپنی پاک کتاب میں بیان کرتے ہیں، وہ کہ جن کے وجود سے دین محفوظ ہے اور جو اٹھا لیے گئے تو دین اٹھ جانا ہے……ان عظیم ہستیوں کا، امت کے ان حقیقی قائدین کا خون کیا اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ اخبار کے کونے میں ایک چھوٹا سامذمتی بیان چھپ جانا  یا محض ایک آدھ احتجاجی مظاہرہ نکال لینا کافی سمجھا جائے؟ واللہ! یہ ان ہستیوں کے ساتھ ظلم ہے! معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ و خطرناک ہے! ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے! اگر علمائے اہلِ سنت کی لاشیں گلیوں اور چوراہوں میں ملنے لگیں تو   مزید بیٹھنے اور سوچ بچار کرنے کا وقت باقی نہیں بچتا۔ آج آگے بڑھ کر کچھ سنجیدہ اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اس حقیقت کو پہچان لیں کہ جب تک یہ غیر شرعی نظام ملک میں نافذ ہے علماء اور مدارسِ دینیہ کبھی محفوظ نہیں ہو سکتے۔جب تک امریکی سفارت  خانہ اس ملک پر حکومت  کر رہا ہے،اور امریکہ نواز حکمران وجرنیل زمامِ اقتدار سنبھالے بیٹھے ہیں تو مدارسِ دینیہ کو کلمہء حق کہنے کی آزادی کبھی نہیں حاصل ہو سکتی۔  آج مجاہدینِ اسلام نے اس ملک کے فاسد نظام کے خلاف جو معرکہ شروع کیا ہے وہ اسی فرنگی نظام کو ڈھانے اور اس خطے سے امریکی تسلط ختم کرنے کی خاطر ہے۔ جو معرکہ ۱۸۲۵ء میں شروع ہوا تھا  وہ آج بھی جاری ہے۔ ۱۸۵۷ء میں جو اقتدار اہلِ اسلام سے چھنا تھا، اس کی بحالی کی خاطر مجاہدین آج بھی مورچہ زن ہیں اور اپنے محبوب علماء و اساتذہ کے دفاع کی خاطر ، ان کی سیادت بحال کرنے اور شریعت کو حاکم و غالب بنانے کے لیے تقریبا روزانہ کی بنیادوں پر اپنے خون کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔  آج یہی معرکہ اس مقامی تناظر سے آگے بڑھتے ہوئے افغانستان کی جہادی تحریک سے بھی جڑ گیا ہے اور کابل تا بنگال امارتِ اسلامیہ کا جھنڈا لہرانا اس تحریک کا  اساسی ہدف ہے۔ پھر یہی علاقائی تحریک آج ایک عالمی جہاد سے بھی مربوط ہو چکی ہے اور امریکہ و اسرائیل  کے خلاف اس مبارک جہادی بیداریکا جزو بن چکی ہے جس کی بنیاد شہید شیخ عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ اور شہید شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ نے ڈالی تھی۔
مطلوب یہ ہے کہ علمائے کرام حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اس تحریک کی پشت پر کھڑے ہوں۔ علماءومدارِس آج عالمی و مقامی سازشوں کا ہدف ہیں۔ مغرب کو پاکستان میں مدارسِ دینیہ کا اثر و رسوخ بالکل ہضم نہیں ہوپا رہا۔ امریکہ کے تحقیقاتی ادارے رینڈ کارپوریشن نے سن ۲۰۰۳ء میں چھپنے والی اپنی معروف رپورٹ بعنوان ”مہذب جمہوری اسلام“ میں امریکی حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اسلام کا امریکی نسخہ فروغ دینے اور حقیقی اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ضروری ہے کہ :
‘اسلام کی تعبیر و تشریح متعین کرنے اور شرعی اصطلاحات کی تعریفات طے کرنے کے معاملے میں انتہا پسند و روایت پسند علماء کی اجارہ داری توڑی جائے’۔
آج مسلم معاشروں پر سے اہلِ حق علماء کی گرفت توڑنے کے لیے بعینہ یہی اسلوب اختیار کیا جا رہا ہے اور جہاں ایک طرف غامدی جیسے دین فروشوں کے گمراہ نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے وہیں اہلِ حق علماء کو شہید کر کےعلماء کے اثر و رسوخ کوبزورِ قوت بھی ختم کیاجا رہا ہے۔ پس علمائے کرام پر لازم ہے کہ اس خطرے کا ادراک کریں ، ان سازشوں کا پردہ چاک کریں، اپنے فتاویٰ و بیانات سے اپنے مجاہد فرزندوں کی نصرت کریں،نفاذِ شریعت و احیائے خلافت کی صدا بلند کریں، اس فرنگی نظام کا دجل عیاں کریں اور  اس خطے میں غلبہء اسلام کی راہ ہموار کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ طلبائے مدارسِ دینیہ کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ جس علم کو حاصل کر رہے ہیں، اس پر عمل کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ جس کتاب الجہاد و السیر کو، بغاوت و ارتداد کے ابواب کو ، امارت وسیاست کے مضامین کو انہوں نے اپنے اساتذہ سے پڑھا ہے، انہیں عالمِ واقع میں رو بہ عمل آنے کے لیے اپنی جانیں کھپائیں۔
میرے محبوب علمائے کرام و اساتذۂ عظام!
آخر میں اپنے دل کے یہ جذبات آپ تک پہنچانا چاہوں گا کہ واللہ! آپ کو پہنچنے والا ہر غم ہمارا غم ہے۔ کسی عالم کی شہادت کی خبر ہمارے لیے اپنے مجاہد بھائیوں کی شہادت کی خبر سے زیادہ بھاری ہوتی ہے۔ اپنے اساتذہ و ائمہ کو یوں شہید ہوتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، کلیجہ پھٹنے کو آجاتا ہے۔ قسم ربِ ذوالجلال کی کہ ہم آپ سے اللہ کی خاطر محبت کرتے ہیں۔ اگر فرضِ عین جہاد کی مصروفیت نہ ہوتی تو  آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے اور آپ کی مجالس سے علم کے موتی سمیٹنے بڑھ کر ہمیں کوئی شےعزیز نہ ہوتی۔ آپ ہمارے دلوں کا قرار ہیں، ہمارے سروں کا تاج ہیں، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ آپ کی کسی ایک شب کی دعا لینا ہمارے نزدیک دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے، آپ کا یک تائیدی قول، ایک حوصلہ افزائی کا جملہ ہمارے سینوں کو ثبات و سکینت سے بھر دیتا ہے۔ ان شاء اللہ آپ ہم سے بڑھ کر کسی کو اپنا محب و وفادار نہیں پائیں گے……… ہمارے سروں پر اپنا دستِ شفقت رکھیے! ہماری غلطیوں کی اصلاح فرمائیے! ہم کمزور پڑیں تو حوصلہ دیجئے! اللہ جل جلالہ کی تائید کے بعد ہمیں سب سے بڑھ کر آپ ہی کا سہارا ہے! رب آپ سے راضی ہو جائے ،ہر شریر و مفسد کی چالوں سے آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پہ تا دیر قائم رکھے، آمین!
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔