کیا جمہوریت سے اسلام غالب آسکتا ہے؟

(نوائے افغان جہاد،جون2012سے ماخوذ)

آج مجھے جو بات آپ سے عرض کرنی ہے وہ یہ کہ اب بھی اگر دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین غالب ہوگاتووہ ووٹ کے ذریعے سے نہیں ہوسکتا۔۔۔۔کہ آپ سیاسی جماعت بنا کر مغربی جمہوریت کے ذریعے سے آپ اللہ کے دین کوبڑھانا چاہیں۔۔۔اللہ کے دین کو غالب کرنا چاہیں۔۔۔تو کبھی بھی دنیا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین ووٹ کے ذریعے سے۔۔۔مغربی جمہوریت کے ذریعے سے غالب نہیں ہوگا۔اس لیے کہ اس دنیا کے اندر اللہ کے دشمنوں کی اکژیت ہے۔۔۔۔فساق اورفجار کی اکثریت ہے۔۔۔اورجمہوریت جو ہے وہ بندوں کو گننے کا نام ہے،بندوں کو تولنے کا نام نہیں ہے۔اقبال نے کہا تھا کہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

وہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں کہ کتنے سر ہیں۔۔۔لہٰذا مغربی جمہوریت کے ذریعے کبھی اسلام نہیں آسکتا ہے۔۔۔جیسا کہ پیشاب کے ذریعے کبھی وضو نہیں ہو سکتا اور جیسا کہ نجاست کے ذریعے سے کبھی طہارت اور پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔اسی طرح سے لادینی اورمغربی جمہوریت کے ذریعے سے کبھی اسلام غالب نہیں آسکتا۔۔۔۔دنیا میں جب بھی اسلام غالب ہو گا تو اس کاواحد راستہ وہی ہے۔۔۔جو راستہ اللہ کے نبیﷺ نے اختیار کیا تھا۔۔۔۔اور وہ جہاد کا رستہ ہے کہ جس کے ذریعےسے اس دنیا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین غالب ہوگا۔
آج آپ نے سنا۔۔۔۔ہمارے ہاں پاکستان میں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ شریعت بل کے ذریعے سے اسلام لائیں گے۔۔۔لیکن جو شریعت بل اسلام کے لیے پیش کیا تو اس کا حاصل کیا ہوا؟کل ہی کے اخبار میں آپ نے وزیر اعظم کا بیان پڑھا ہوگا۔۔۔اخبار کی شہہ سرخی تھی۔۔۔کہ ہم عورتوں کو پردہ نہیں کروائیں گے اور انہیں گھر سےباہر نکلنے سے نہیں روکیں گے۔اسی اخبار میں خبر ہے کہ پاکستان کے تین وزیر۔۔مشاہدحسین(وزیر اطلاعات)،خالدانور(وزیرقانو ن) اور صدیق کانجو(نائب وزیرخارجہ)۔۔یہ تینوں آدمی مغربی ممالک کے سفیروں کے سامنے پیش ہوئے۔۔۔انہیں بریفنگ دی اور انہیں بتلایا کہ’’بھائی تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہو۔۔۔ہم جو اسلام لائیں گے اُس اسلام میں کسی کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔۔۔ہم جو اسلام لائیں گے اس اسلام میں شراب پر پابندی نہیں ہو گی۔۔۔۔ہم جو اسلام لائیں گےاُس اسلام میں کسی کو سنگسار نہیں کیا جائے گازنا پر۔۔‘‘
یہ باتیں پریس کے اندر موجود ہیں کہ مغربی سفیروں کے سامنے انہوں نے کہا کہ’’ہم ماڈرن اسلام چاہتے ہیں۔۔۔آپ خواہ مخواہ پر یشان ہو رہے ہیں‘‘اصل بات کیا ہے؟قرآن مجید کا حکم ہے کہ
وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى(سورۃ الاحزاب:۲۳)

قرآن مجید کا یہ بھی حکم ہے کہ عورتوں کو کہہ دیں
يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ(سورۃ الاحزاب:۵۹)


جس اسلام کے اندر پردہ نہیں ہوگا۔۔۔جس اسلام کے اندر شراب پر پابندی نہیں ہوگی۔۔۔جس اسلام کے اندر چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔۔۔۔جس اسلام کے اندر زانی کو سنگسار نہیں کیا جائے گا۔۔۔وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے محمدﷺپر نازل کردہ اسلام نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نےمحمدﷺپر جو اسلام اتارا تھا۔۔۔اس میں عورت کو پردے کا حکم ہے۔۔۔اس میں تو زانی کو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔۔۔۔اس اسلام کے اندر شراب کو حرام کیا گیا ہے۔۔۔اس اسلام کے اندر چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔۔
اب یہ سب کچھ نہیں ہوگا تو معلوم نہیں وہ کون سا اسلام ہوگا جو وزیراعظم اس ملک میں نافذ کرے گا۔وہ کون سا اسلام ہوگا۔۔۔محمدﷺکا اسلام تو وہ نہیں ہے۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی پارٹیاں۔۔۔۔چاہے وہ مسلم لیگ ہو،چاہے پیپلز پارٹی ہو۔۔چاہے کوئی بھی ہو۔۔ہم لوگ ان سے خیر کی توقع نہیں رکھتے ہیں۔۔۔یہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں،اس کی مثال ایسی ہے جیسے دورنگ کے خنزیر ہوں اور دو آدمی اس بات پر لڑیں کہ نہیں وہ سفید خنزیر اچھا ہے اور دوسرا کہے نہیں وہ کالا خنزیر اچھا ہے۔تقسیم ہند سے پہلے برطانیہ میں دو سیاسی پارٹیاں تھیں،ایک کو لیبر پارٹی کہا جاتا تھا جب کہ دوسری کو ٹوری پارٹی کہتے تھے۔۔۔۔مولانا ظفر علی خان صاحب،اس وقت کے بڑے صحافی اور شاعر تھے۔۔انہوں نے شعر کہا تھا کہ
توقع خیر کی رکھیو نہ لیبر سے نہ ٹوری سے

نکل سکتا نہیں آٹا کبھی چونے کی بوری سے

چونے کی بوری سے کبھی آٹا نہیں نکل سکتا۔مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے کبھی اسلام نکلے گا؟وہ کفر ہوگا۔۔۔اسلام کبھی نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ہم لوگوں کی بیوقوفی ہے۔۔۔۔اسلام اگر آئے گا تو انقلاب کے ذریعے سے آئے گا۔۔۔
اسلام اگر آئے گا تو جہاد کے ذریعے سے آئے گا۔۔۔اور اس دنیا میں جہاں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین غالب ہو گا تو وہ جہاد کے ذریعے سے ہوگا۔۔ووٹ کے ذریعے یا مغربی جمہوریت کےذریعے سے کبھی بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین دنیا میں غالب نہیں ہو سکتا نہ ہی اس کے ذریعے سے کبھی اسلام آسکتا ہے۔
ابھی’’شریعت بل‘‘کے نام سے جو دستاویزانہوں نے پیش کی ہے۔۔۔اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شریعت کی تعریف ہی موجود نہیں ہے۔شریعت کسے کہتے ہیں؟جواب آتا ہے کہ’’قرآن و سنت کا جس فرقے کے نزدیک جو مطلب ہے وہی شریعت ہے‘‘۔۔۔۔یہ شریعت ہے یا مذاق ہے؟جس فرقے کے نزدیک قرآن و سنت کی جو تشریح ہے کہتے ہیں وہی قرآن و سنت ہے۔۔۔قرآن و سنت تو ایک ہے،قرآن کہتے ہیں اللہ کی نازل کردہ کتاب کو۔۔۔۔اور سنت کہتے ہیں نبی کریمﷺکے قول اور فعل کو۔۔۔اس کا فرقے کے ساتھ کیا تعلق ہے کہ جو فرقہ جو مرضی تشریح کرے۔۔۔یہ دین کو متنازعہ بنانے والی بات ہے،فرقہ پرستی کو ہوا دینے والی بات ہے اور فرقہ پرستی کو رواج دینے والی بات ہے۔اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو ضیا الحق کے زکوۃ آرڈنینس کا تھا،اس نے شیعوں کو زکوۃ دینے سے مستثنی کیا۔۔۔جو مسلمان تھے۔۔۔اہل سنت و الجماعت۔۔۔ان میں جو فاسق و فاجر تھے اور زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے تھے،وہ بنک میں اپنے آپ لکھوا دیتے کہ ہم شیعہ ہیں۔۔۔۔

اب یہاں یہ ہوگا کہ اگر کوئی آدمی مسلمان ہے۔۔۔مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔۔۔اس کو نظر آیا کہ حنفی مذہب میں یا شافعی یا مالکی مذہب میں میرے لیے سزا ہے اور شیعوں کے ہاں میرے لیے سزا نہیں ہے۔۔۔تو وہ کہہ دے گا کہ میں شیعہ ہوں،میرے نزدیک قرآن و سنت کی وہی تشریح معتبر ہے جو شیعوں کے ہاں ہے۔تو کیا کریں گےآپ؟قرآن و سنت کو مذاق بنانے والی بات ہے،قرآن و سنت کو مذاق بنایا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس آرڈنینس کے اندر یہ لکھا ہے کہ وزیر اعظم جوآرڈر اسلام اورشریعت کے حوالے سے جاری کرے گا۔۔جو بھی اسے نہیں مانے گا وہ سزا کا مستحق ہوگا،سرکاری ملازم ہوا تو برطرف کیا جائے گا۔اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ مقام ہے اور اللہ کے رسول ﷺکا یہ مقام ہے کہ وہ جو حکم کریں بلا چون وچرا تسلیم کیا جائے گالیکن ان کے علاوہ جتنے لوگ ہیں۔۔۔۔ان کے حوالے سے قاعدہ اور قانون قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر ان کا حکم اور ان کی بات قرآن وسنت کے مطابق ہو تو ہم مانیں گے اور اگر قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو تو ہم نہیں مانیں گے۔
کل ایک نشست میں لوگ برملا کہہ رہے تھے کہ اس بل کے پاس ہونے سے تو وزیراعظم مجتہد مطلق بن جائے گا۔میں نے کہا کہ مجتہد مطلق نہیں وہ’’قادر مطلق‘‘بن جائے گا،پھر ظاہر ہے قرآن و سنت کی تشریح پاکستان کی کابینہ کرے گی۔۔۔جیسے بھٹو کے دور میں قومی اتحاد بنا تھا تو پیپلزپارٹی والے اس وقت نعرے لگاتے تھے کہ ’’نو ستارے بلے بلے۔۔۔آدھے کنجر،آدھے دلے‘‘وہ تو غلط تھا لیکن یہاں پر جو کابینہ ہے وہ واقعتاً آدھے کنجر،آدھے دلے ہیں۔تو یہ قرآن و سنت کی تشریح کریں گے؟یا قرآن وسنت کی تشریح یہ پارلیمنٹ،سینٹ اور قومی اسمبلی سے کرائیں گے۔قومی اسمبلی اور سینٹ کی حالت یہ ہےکہ آپ نے علامہ اقبال کا نام سنا ہو گا۔۔۔اس کا بیٹا جاوید اقبال ہے۔۔۔جو پہلے چیف جسٹس تھا لاہور ہائی کورٹ کا۔۔۔اور اب سینیٹر ہے مسلم لیگ کا،اس کا بیان چھپا نوائے وقت اخبار میں اور اس پر اداریہ بھی لکھا گیا کہ
جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا ہے تو اسلام آباد میں شراب مہنگی ہو جاتی ہے۔کیا مطلب؟مطب یہ کہ یہی اسمبلی کے ممبران۔۔۔سب شرابی ہیں۔یہ لوگ اسلام کی تشریح کریں گے؟اور یہ لوگ قرآن و سنت کی تشریح کریں گے؟

تیسرے نمبر پر یہ ہے کہ عدالتیں تشریح کریں گی،عدالتوں کے اندر جو جج بٹھائے ہوئے ہیں۔۔۔اب اگر میں کچھ کہوں گا تو توہین عدالت ہوگی۔۔۔وہ بے چارے کس حیثیت کے لوگ ہیں۔۔۔لہذا شریعت بل کا سارا چکر ویسے ہی ہے جیسے نوازشریف نے کالا باغ ڈیم کے مسئلہ کو سر پر اُٹھا کر اسےمتنازعہ بنا دیا۔۔۔اسی طریقے سے اب اسلام کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ میرے بھائیوں!کہ اس دنیا میں جہاں بھی اسلام آئے گا۔۔۔۔اسلام غالب ہوگا۔۔۔وہ جہاد کے ذریعے سے ہو گا،اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔۔
میں جو آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حالات کو دیکھ دیکھ کر الحمد للہ اب پاکستانی ملت میں بیداری پیدا ہو رہی ہے۔۔۔خصوصاً نوجوان طبقے میں اللہ تعالیٰ نے ایک بیداری پیدا کی ہے۔۔۔۔ان کے ذہنوں میں انقلاب کا جذبہ پیدا ہوا اوروہ یہ سوچنے لگے کہ افغانستان میں اگردین دار نوجوان اور دینی مدارس کے طلبہ اٹھ کر انقلاب لا سکتے ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟وہاں پر اگر دینی مدارس کے لوگ حکومت چلا سکتے ہیں۔۔۔امن و امان۔۔۔۔امریکہ سے،برطانیہ سے،جرمنی سے،جاپان سے۔۔۔سب سے بہتر ہے وہاں۔۔۔تو اس سے لوگوں کے اندر ایک جذبہ پیدا ہوا ہے۔افغانستان میں جب انقلاب نہیں آیا تھا تو پاکستان میں کسی پر ظلم ہوتا تو وہ کہتا کہ’’یہاں خمینی آنا چاہیےجوسب کو ختم کر دے‘‘یہ وہ مجبوراً اس لیے کہتے تھے کہ کوئی اور مثال سامنے موجود نہ تھی۔اب الحمد اللہ ایک مثال سامنے موجود ہے۔۔۔۔اب جس کسی پر بھی ظلم ہوتا ہے وہ کہتا ہے’’یہاں طالبان آنے چاہیے‘‘لیکن بھائی بات یہ ہے کہ افغانستان کے اندر طالبان کی حکومت آئی اور اسلامی شریعت آئی۔۔۔۔کب آئی۔۔۔۔جب سولہ لاکھ انسان شہید ہوئے۔۔۔۔۔دس لاکھ آدمی معذور ہوئے۔۔۔۔کسی کا ہاتھ نہیں،کسی کی آنکھ نہیں،کسی کا کان نہیں،کسی کی ٹانگ نہیں۔۔۔اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ انعام کیا یہ احسان کیا کہ افغانستان کو اسلامی حکومت ملی۔۔۔۔۔
علماء اور دینی مدارس کے طلبا کی حکومت ملی اور اسلامی نظام ملا۔یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا انعام ہے،احسان ہے۔۔۔۔اللہ تعالیٰ مفت میں کسی کو نہیں دیتے۔جب تک کہ قربانیاں نہ ہوں۔تو پاکستان میں لوگ یہ تو تمنا کرتے ہیں کہ طالبان کی حکومت ہو یا طالبان جیسی حکومت ہو لیکن اس کے لیے جس قربانی کی ضرورت ہے اس قربانی کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ رات کو ہم سوئیں اور صبح جب ہم اٹھیں تو طالبان کی حکومت ہو،ایسا تو نہیں ہوتا۔۔۔۔اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ سنت اور طریقہ نہیں ہے۔۔۔۔اللہ تبارک و تعالیٰ تو آزماتے ہیں اور آزمائش پر پورا اترنے کے بعد پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ہدایت کے انعامات کے دروازے کھو لتے ہیں۔