وہ شخص جو یہ
اعتقاد رکھے کہ بعض افراد محمدﷺ کی شریعت کی تابعداری سے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں جیسا
کہ خضر ؑموسیٰ ؑکی شریعت سے خروج کر لینے میں آزاد تھے، ایسا شخص بھی کافر ہے۔
شرح:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ
الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ
الْخَاسِرِينَ
(آل
عمران: 85)
”اس اسلام کے سوا
جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا
اور آخرت میں وہ ناکام ونامراد رہے گا“۔
زمین پہ بسنے والا
ہر ذی ہوش خواہ وہ جن ہے یا انسان، محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا مخاطب ہے اور اسی
کا مکلف۔ وہ کوئی حاکم ہے یا محکوم، امیر ہے یا غریب، صاحبِ کرامت ولی ہے یا کوئی
عام انسان.... ایک ایک بات میں وہ رسول اﷲ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا مطیع اور فرمانبردار
ہو کر رہنے کا پابند ہے۔ جو آدمی محمد ﷺ کی شریعت کو ہر کسی کیلئے واجب اطاعت نہیں
مانتا، کافر ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیے شریعت سے کسی کیلئے خروج یا استثنا کو کس کس
انداز سے روا کیا جاتا ہے..
بعض لوگوں نے
شریعت اور طریقت کی اپنے تئیں کوئی خاص تقسیم کر رکھی ہے۔ شریعت ان کے خیال میں ان
عام انسانوں کیلئے ہے جو ولایت کے خاص مرتبے کو نہیں پہنچ پاتے البتہ وہ ’خاص لوگ‘
جو ’معرفت‘ کی کسی ’خاص منزل‘ کو پہنچ جائیں ان کیلئے شریعت کی پیروی واجب نہیں
رہتی بلکہ ان کے خیال میں وہ اس بات سے بے نیاز ہو جاتے ہیں کہ وہ قرآنی آیات اور
نبوی احادیث میں اپنے لئے حلال وحرام اور فرائض ومحرمات کے احکام دیکھیں۔ چنانچہ
اس عقیدہ کی رو سے شریعت کے احکامات ان لوگوں کیلئے ہیں ہی نہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنے
والے دائرۂ اسلام میں نہیں رہتے۔
بہت سے بدبخت اپنے
دعوائے ولایت کے گھمنڈ میں یا لوگوں پر محض اپنی ’ولایت‘ کا رعب ڈالنے کیلئے نماز
روزہ وغیرہ ایسی عبادات کے رودار نہیں ہوتے۔ مساجد میں جانا اور پانچ وقت عاجزی کے
ساتھ پیر سے پیر ملا کر ابوبکرؓ و عمرؓ کی طرح کھڑے ہونا یہ اپنی شان کے منافی اور
اپنے رتبہ سے فروتر سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے کفر میں ذرہ بھر شک نہیں۔ کفر کے
مرتکب صرف یہی نام نہاد ولی نہیں حتی کہ ان کے وہ عقیدت مند بھی جو خود بے شک
پابند شریعت ہوں مگر کسی فقیر یا ولی یا کسی عارف کو اس مرتبہ پر سمجھیں اور اس
کیلئے اس بات کی گنجائش پائیں کہ وہ محمد ﷺ کی شریعت کی ایک ایک بات کی اطاعت کا
پابند نہیں رہا، کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ خدا کی شریعت جو کہ اس نے اپنے رسول پر
اتار رکھی ہے، کی پیروی کرنے سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں۔ یوں بھی اﷲ کا ولی وہ شخص
ہو ہی نہیں سکتا جو پرہیزگار اور شریعت کا پیروکار نہ ہو:
أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء
اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ۔ الَّذِينَ
آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ ۔ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي
الآخِرَةِ۔
(یونس: 62۔64)
”سنو جو اﷲ کے
دوست ہیں ان کیلئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ (یعنی) وہ لوگ جو ایمان لائے
اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کیلئے
بشارت ہی بشارت ہے“۔
چنانچہ وہ شخص جو
شریعت کی پابندی سے اپنے تئیں بے نیاز سمجھتا ہے وہ ولی تو کیا مسلمان بھی نہیں۔
ولی تو ہو ہی وہ شخص سکتا ہے جو عام انسانوں سے بڑھ کر خدا کی شریعت کا پابند اور
خدا سے ڈر کر اور پرہیزگار بن کر رہنے والا ہو۔ جیسا کہ اوپر کی اس آیت میں
اولیاءاﷲ کی تعریف کی گئی ہے: الَّذِينَ
آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ یعنی ولی وہ لوگ ہیں ”جو ایمان
لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا“۔
چنانچہ ’طریقت‘ کا
یہ تصور کہ کچھ خواص لوگ شریعت کی پابندی سے مستثنیٰ ہو جائیں ایک ایسا عقیدہ ہے
جسے رکھ کر آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ خود صوفیا کے بہت سے طبقے ایسا
عقیدہ رکھنے والے کو زندیق اور خارج از اسلام سمجھتے ہیں۔
*****
جہاں تک خضر ؑکے
موسی علیہ السلام کی شریعت سے خروج کر لینے کی بات ہے اور جس کو کہ بعض زندیق اپنے
تئیں بعض ’پہنچے ہوؤں‘ کیلئے محمد ﷺ کی شریعت سے خروج کر لینے کے جواز کی دلیل
بناتے ہیں تو اس کی بابت شیخ عبدالعزیز الراجحی اپنی ”شرح نواقض الاسلام“ میں کہتے
ہیں:
”محمد ﷺ کی شریعت
تمام کے تمام جن وانس اور عرب وعجم کیلئے آئی ہے۔ اور پھر یہ کہ محمد ﷺ خاتم
المرسلین ہیں تو آپ کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔ اس شریعت نے آکر سب کی سب شریعتیں
منسوخ کر دی ہیں۔ محمد ﷺ سب جہانوں کیلئے انذار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں (لیکون
للعالمین نذیراً) سب کے سب انسانوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں (وأرسلناک
للناس رسولا وکفی باﷲ شھیداً) (قل یا أیھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً)....
ایک مشہور حدیث
میں رسول اﷲ ﷺ پہلے نبیوں کی نسبت اپنے پانچ امتیاز بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں وکان
النب ¸ یبعث الی قومہ خاصۃ، وبعثت الی الناس عامۃ یعنی ”(مجھ سے پہلے) ایک نبی کو
خاص اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا مگر میں عام انسانوں کی طرف مبعوث ہوا
ہوں“۔
چنانچہ جو شخص یہ
سمجھتا ہے کہ کسی انسان کیلئے محمد ﷺ کی شریعت سے خروج کر لینے کی گنجائش ہے اور
یہ کہ وہ محمد ﷺ کی شریعت کے سوا کسی اور طریقے پر خدا کی بندگی کر لینے کا مجاز
ہے، تو ایسا اعتقاد رکھنے والا شخص کافر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ محمدﷺ کی شریعت عام
ہے۔ جن وانس، عرب وعجم سب کیلئے ہے۔ سب کی سب شریعتوں کو منسوخ کرنے آئی ہے۔ نبی ﷺ
کی بعثت ہو جانے کے بعد کرۂ ارض پر پایا جانے والا ہر شخص اس کا پابند ہے۔ برخلاف
موسی علیہ السلام کی شریعت کے جو کہ سب کیلئے نہیں بلکہ خاص بنی اسرائیل کیلئے آئی
تھی۔
خضر ؑبنی اسرائیل
سے نہ تھے۔ پس خضر ؑکیلئے گنجائش تھی کہ موسی علیہ السلام کی شریعت کی بجائے خدا
کی اتاری ہوئی کسی اور شریعت کی پابندی کریں۔
علاوہ ازیں، اہل
علم کے صحیح تر قول کی رو سے خضر ؑبذات خود نبی تھے جن پر وحی اترتی تھی۔ یہ بات
ازروئے قرآن ثابت ہے کہ خضرؑ نے جو کیا وہ ان کی اپنی جانب سے نہ تھا (بلکہ یہ خدا
کی جانب سے تھا)، فرمایا:
وما فعلتہ عن أمر ¸
(الکہف: 82) ”میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کردیا ہے“۔
یہی وجہ ہے کہ
موسی علیہ السلام نے خضرؑ سے علم سیکھنے کیلئے رخت سفر باندھا تھا۔ حدیث میں آتا
ہے کہ خضرؑ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا:
یا موسی انی علی
علم من علم اﷲ لا تعلمہ أنت، و أنت علی علم من علم اﷲ علمکہ اﷲ لا أعلمہ (رواہ
البخاری عن ابی بن کعب)
”موسیٰ! خدا کا
دیا ہوا کچھ علم میرے پاس ہے جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور تم اس سے لاعلم ہو اور
خدا کا دیا ہوا کچھ علم تمہارے پاس ہے جو خدا نے تمہیں عطا کیا ہے اور میں اس سے
لاعلم ہوں“۔
*****
علاوہ ازیں نظامِ
حکم میں بھی کسی کیلئے نبی ﷺ کی شریعت سے خروج روا کر لینے والا شخص اسلام سے خارج
ہو جاتا ہے۔
کسی ایوان کا یہ
حق تسلیم کرنا کہ وہ اکثریت کے ووٹ کی بنیاد پر، اور شریعت کا پابند ہوئے بغیر،
انسانوں کیلئے زندگی کا کوئی ضابطہ بنا سکتا ہے اور یہ کہ کسی مخلوق کے پاس کئے
ہوئے خلافِ شریعت ضابطہ کو قانون کا تقدس حاصل رہ سکتا ہے، ایک کھلا کھلا کفر ہے۔
سیکولرزم پر مبنی
یہ عقیدہ کہ کسی معاملہ میں پارلیمنٹ شریعت کو پاس کرے تب نہ کرے تب، ہر صورت میں
پارلیمنٹ سے صادر ہونے والی چیز ہی واجب اتباع قانون ہے، صریحاً ایک کفریہ نظریہ
ہے۔ بنیادی طور پر یہ رسول اﷲ ﷺ کی شریعت سے خروج کو جواز دینا ہے۔ اس کو درست
ماننے والا آدمی بھی زندیق اور خارج از اسلام ہے۔
نبی کی شریعت سے
خروج روا رکھ کر آدمی مسلمان کیسا؟؟
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔