Monday, June 25, 2012

گیارہ ستمبر کے مبارک حملوں میں شامل انیس جانبازوں میں سے ایک نوجوان کی وصیت ابومصعب ولید الشہری شہید رحمہ اللہ


تقدیم شیخ اسامہ بن محمد بن لادن حفظہ اللہ
شعبان ۱۴۲۸ہجری

اے اللہ کتاب کو نازل کرنے والے
جلد حساب کو چکانے والے
بادلوں کو چلانے والے
ان لشکروں کو شکست دے!
اے اللہ!انہیں ہزیمت دے اور متزلزل کردے !
”جولوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اُن کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں)بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور اُن کو رزق مل رہا ہے۔ جو کچھ اللہ نے اُن کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اُس میں خوش ہیں اور جو لوگ اُن کے پیچھے رہ گئے اور)شہید ہوکر)شامل نہیں ہوسکے اُن کی نسبت خوشیاں منارہے ہیں کہ (قیامت کے دن )اُن کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔اور اللہ کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں اور اس سے اللہ تعالیٰ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا“)آل عمران:۱۷۹،۱۶۹)
الشیخ اسامہ بن لادن )حفظہ اللہ(: یقیناً تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں ،ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں ، اور اسی سےمدد طلب کرتے ہیں ،اور اسی سے استغفار کرتے ہیں،ہم اپنے نفس کے شرور سے اور اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطاکردے اسے کوئی گمراہ کرنے والانہیں،اور جسے اللہ ہی گمراہ کردے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ،اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا کوئی معبود برحق نہیں ۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔امابعد!
میری اس وقت کی گفتگوگیارہ ستمبر کے انیس جانبازوں میں سے ایک جانباز نوجوان کی وصیت سے متعلق ہے جو حد درجہ خطرات میں جاکودا۔ایسا نادر روزگار نوجوان جس کی مثال انسانوں میں کم ہی ملتی ہے۔)اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم فرمائے )۔ بطور تمہید میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگرچہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا،اور قرونِ اولیٰ کو گزرے ہوئے بھی عرصہ دراز بیت گیا ،تاہم آج بھی انسانیت ایسے عظیم اورنادر لوگوں کا مشاہدہ کرتی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد زریں کی یادتازہ کرتے ہیں ۔اور بے شک ابومصعب الشہری ایک ایسے ہی کردار کازندہ نمونہ تھے ۔وہ اپنی ذات سے ہٹ کر سوچنے کے عادی تھے ۔ان کی سوچ کا محور نصرت دین اور رضائے الٰہی کا حصول اور ان کی مساعی کا ہدف امت کا دفاع اور صراط مستقیم کی جانب اس کی راہنمائی تھا۔تاکہ دنیا وآخرت کی کامیابی اس کا مقدر بن سکے ۔ابو مصعب الشھری ان عظیم لوگوں میں سے ایک تھے جن پر قرآنی آیات اس طور سے اثرانداز ہوتی ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے لوگوں پر ہوا کرتی تھیں ۔ان آیات نے انہیں علائق دنیا کی پستیوں سے نکال کر دنیا وآخرت کی وسعتوں تک پہنچادیا۔یہی آیات ان کے لئے تزکیہ نفس،ثبات قلب ،نور نظر اور باطنی بصیرت کے حصول کا ذریعہ بنیں۔پھر جب انہوں نے زندگی کو قرآن کے نور سے دیکھا تو ایمان کی ایسی مٹھاس پائی کہ اس کے بعد ہر مٹھاس ان کے  لئے بےوقعت اورہر طرح کی ظاہری آب وتاب حقیر ٹھہری ۔انہوں نے حریت حقیقی کا اصل لطف پالیا،اوراسی کے سامنے عجزوانکساری اختیار کی اور اسی کے تقویٰ کو اپنا شعار بنایا،اسی پر توکل کیا اور اس کے ماسوا کسی اور کے سامنے جھکنے کو تیار نہ ہوئے۔اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے ،(ہم ان کے بارے میں اچھی امید رکھتے ہیں تاہم حساب کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیارمیں ہے)آپ نے حق کو پہچانا اور اس کی پیروی کی  اور باطل کی ظاہری سج دھج کے باوجود اس سے اجتناب کیا ۔طاغوت صفت حکام کی ظاہری سطوت ان کے مکر وفریب اور علماء سوء کی جانب سے ان حکمرانوں کی خوشامد ان کو متأثر نہ کرسکی ۔یہ ان کا مقدرتھا کہ انہوں نے ایک ایسے دور میں آںکھ کھولی جس میں ہر جانب یہود ونصاریٰ کی شوکت وعظمت اور مسلمانوں کی پست ہمتی اور رعوبیت کا دور دورہ ہے۔انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی حالت میں پایا جس کا بہترین نقشہ ہمارے ایک مجاہد بھائی محفوظ ولدالوالدنے اپنے اشعار میں شیر دل مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے کھینچا ہے کہ:
تم ایسے دور میں آئے جس میں ہماری تاریخ جمود کا شکارہے
اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہر جانب سے ٹھوکریں ہمارا مقدر ہیں

ہماری   پہچان    ہمارے      اوطان     ہماری    ہر   شے
حتیٰ کہ ہمارے ٹھکانے اور نام تک بدلے جاچلے جاتے ہیں

تم آئے تو ایسے وقت میں جب مسلمان اقتدار کھوچکے ہیں
اور  ان    کا   خلیفہ    نصرانیت     اختیار     کرچکا    ہے

سو دیکھو کہ میرے وطن میں نصرانی کیسے دندناتے پھر تے ہیں
رہ گئے  ہمارے نوجوان تو وہ  بھی یہودیوں کے ذہنی غلام  ہیں

برکت   والی مسجد  اقصیٰ  سے  لے کر
  عظمت       والے         کعبہ      تک

مسجد اقصیٰ سے لے کر ہر ایک مسجد تک
 ہر   جانب   جنود   کفر   کا   حکم  نافذ ہے

پھر ایسے میں وہ شخص کیوں مجرم ٹھہرے
جو ان  حکومتوں  اور  حکمرانوں  کا  باغی ہے

ابو مصعب الشہری نے بھی ایسے ہی تنگ وتاریک حالات میں آنکھ کھولی حالانکہ کل تک یہ امت مسلمہ ہی تھی جو تمام اقوام سے آگے کھڑی تھی۔تمام عالم کی سیادت وقیادت کا علم اسی کے ہاتھ میں تھا۔اسی نے لوگوں کو حقیقی آزادی سے روشناس کرایا اور انہیں انسانوں کی عبادت سے نکال کر ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کا عبادت گزار بنایا۔نصرانی طواغیت میں سے کسی میں بھی اس پر حکم چلانے روکنے ٹوکنے یا اس کی اہانت کرنے کی جراء ت نہ تھی ۔یہاں تک کہ عظمت اسلام کے ان دنوں میں جب ان میں سے ایک بیوقوف نے ایسی جسارت کرنے کی غلطی کی اور دور کی ایک زمین سے ہماری ایک بہن کی فریاد عراق میں خلیفۃ المسلمین تک پہنچی کہ :ہائے معتصم !تو وہ بذات خود ایک لشکر جرار کی قیادت کرتا ہوا اس کا بدلہ لینے جاپہنچا۔اس ان کے دونوں برج گرادیے اور انقرہ شہر فتح کرلیا۔پھر ہم کیسے سکون سے بیٹھ رہیں جب کہ آج ہماری پاکدامن بہنیں عراق، فلسطین اور افغانستان میں یہود ونصاریٰ کی قید میں ہیں۔ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ!
آج ہم پر بھی ان مسلمان بہنوں کا آزاد کرانا ویسے ہی فرض ہے جس طرح معتصم نے یہ فرض ادا کر دیکھایا ۔اس کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے ان کے دشمن سے دفاع، ان کے مصائب کا حل اور ان کے لئے مسرت وفرحت کا باعث بنا۔اسی پر ابوتمام نے یہ مشہور قصیدہ کہا تھا کہ :
تلوار کی  زبان  کتابوں  کی  زبان  سے  زیادہ  سچی  ثابت  ہوتی  ہے
اور اس کی دھار عزت اور رسوائی کے مابین حد فاصل کا کام کرتی ہے

علم اپنی اصل چمک تو بوقت معرکہ نیزوں کی دھار پر ہی دکھلاتا ہے
تاکہ     آسمان      پر        چمکنے        والے         ستاروں      میں

معتصم نے تو مسلمانوں کے سروں کو فخر سے اونچا کر دکھایا
اور شرک   اور   دار    شرک    کو    ذلیل   و   رسوا   کردیا

اللہ نے تجھے ان پر مسلط کردیا اور ان کے دونوں  برج  گرادیے
اور اگر اللہ کے علاوہ کوئی تجھے ان پر مسلط کرتا تو کوئی کامیابی نہ ہوتی

تو نے   ایک   مسلمان   عورت   کی   پکار  پر   لبیک   کہا
اوراس مقصدکی خاطر ہر طرح کی راحت کو ترک کر چھوڑا

تو     نے     اسے       بے      نیام     تلوار      سے      جواب      دیا
اور اگر تو تلوار کے علاوہ کوئی اور زبان استعمال کرتا تو کچھ حاصل نہ ہوتا

تو نے زرد چہرے والی قوم کو ان کے نام کی مانند واقعی زرد کر چھوڑا
اور  تیرے  اس  اقدام   سے   اہل عرب   کے   چہرےتمتما  اٹھے

ابو مصعب رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں طرف کے حالات کا گہرا موازنہ کیا تو انہیں اپنے اور دشمن کے مابین قابل ذکر فرق نظر آیا ۔ہمارا حال اس وقت یہ ہے کہ ہم تمام اقوام سے پیچھے کھڑے ہیں اور ہمارے حکام یہود ونصاری ٰ کی کٹھ پتلیاں ہیں اور پھر بھی ان میں سے ہر ایک اپنے متعلق بڑے بڑے دعوے کرتا تھکتا نہیں ،گویا کہ یہ تمام انسانیت میں سے بہترین لوگ ہوں۔اسی طرح انہوں نے دیکھا کہ ذرائع ابلاغ سے متعلق لوگ اور علماء کی اکثریت محض ان حکمرانوں کی مدح وخوشامد کرنے اور ان کے ہر جھوٹ پر آمین کہنے میں مگن ہے ۔ان علماء کی جانب سے ان جھوٹی گواہیوں کے باعث جو یہ لوگ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ان حکام کے حسن سیرت سے متعلق دیتے ہیں ابومصعب شدید صدمے سے دوچار ہوئے ۔آپ نے جب حق پہچانا تو حق والوں کو بھی پہچان لیا ۔لہٰذاآپ نے ان زعماء اور قائدین کو اہل حق میں شمار نہ کیا جن کے ہاں عدل وقسط کے تمام معیارات الٹ چکے ہیں اور تمام مفاہیم اپنی اصل سے ہٹ چکے ہیں ۔ان کے ہاں تقویٰ اور دین داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ جاہ وہشم کی بنیاد پر قدرومنزلت پاتے ہیں ۔پس مال وجاہ کی زیادتی سے ان کے ہاں لوگوں کے مراتب  بڑھتے اور کمی کے باعث کم ہوجاتے ہیں ۔ان لوگوں نے نقل پر مبنی معیارات کو ترک کردیا ہے اورتمام عقلی پیمانوں کو باطل کردکھایا ہے ۔سوحق ان کے ہاں تلتا اور بکتا ہے جسے مال وجاہ کے حامل یہ طواغیت اپنی مرضی سے خریدتے ہیں۔ باطل اصل دین کی جگہ لے چکا ہے اور لوگوں کی اکثریت اسی باطل دین کو اپنائے بیٹھی ہے۔ جب کہ اصل حق کے تو یہ لوگ قریب آنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ابومصعب رحمۃ اللہ علیہ نے اس ساری صورت حال کو گہرائی سے سمجھا اور یہ جان لیا کہ یہ لوگ دراصل علماء کے لباس میں شیاطین کے چیلے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے والے لوگ ہیں ، جو حقیردنیوی مفاد کی خاطر دن رات لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مکر وفریب کے جال بننے میں مصروف رہتے ہیں،تاکہ ان کو ایک اللہ کی عبادت سے نکال کر ان طواغیت اور بادشاہوں کا عبادت گزار بناسکیں ۔سو وہ انہیں اور ان کی حقیراور بے وقعت زندگی کو چھوڑتے ہوئے اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے اور دنیا ان کو دوسرے لوگوں کی طرح دھوکہ نہ دے سکی ،حالانکہ یہ ان کے سامنے بغیر کسی تکلیف وپریشانی اور بغیر کسی سخت کوشش کے بقدرِ وافر موجود تھی ۔انہوں اپنے لئے حصول عظمت اور رفع شان کا وہ معیار پسند نہ کیا جوان لوگوں نے کیا۔درہم ودینار کے بندوں کےلئے یہ معیار محض مال وجاہ کا حصول ہے ،جبکہ آزاد صفت لوگوں کے لئے یہ معیار صرف اور صرف اخلاق کریمانہ ہیں ،کیونکہ  نفس انسانی کی اصل قدر کو درہم ودینار کے پیمانوں سے نہیں تولاجاسکتا ۔دنیاان کے سامنے آئی مگر انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا ،باقی رہ جانے والی چیز کو فنا ہونے والی پر ترجیح دی اور ان ساری ظاہری آسائشوں کو یہ جانتے ہوئے چھوڑ دیا کہ یہ توایک زائل ہوجانے والاسایہ ہے ،تاکہ انہیں قیامت کے دن اللہ رب العزت کے عرش کا وہ سایہنصیب ہوجائے کہ جس دن کے اس کے سائے کے ماسوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اورنہ بیٹے ۔ہاں جو شخص اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا )(الشعراءء:۸۹،۸۸)
انہوں نے اس راہ کی صعوبتیں اورکٹھن مسافتیں جانتے ہوئے بھی نصرت دین اور مجاہدین کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کے راستے کا انتخاب کیا ،صرف اور صرف اس جنت طلب میں جس کا عرض زمین وآسمان کے برابر ہے۔ابومصعب حق کی حقانیت کے اثبات اور باطل کی نفی کی خاطر نکل کھڑے ہوئے تاکہ اہل کفر ونفاق اورمرتدین کویہ پیغام دے سکیں کہ ہم تم سے کسی دنیوی منفعت کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ محض تمہارے کفر ونفاق اور ظلم کی وجہ سے مصروف جنگ ہیں اور ہمارا اصل غم تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے کلمہ کی سربلندی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیں ۔اور ہمارا مفاد تو اس دنیا ہے ہی نہیں اور نہ ہی اس دنیا کے حوالہ سے ہمارا تم سے کوئی مقابلہ ہے کیونکہ یہ ساری دنیا تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں مچھر کے پر کی سی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ سو تم دیکھ لو یہ کہ سب کچھ جو تم نے اس دنیا میں سے اپنے لئے جاہ ومنصب ، شہوات کی تسکین اور لذات کے سامان کی صورت میں اکٹھا کررکھا ہے وہ اس مچھر کے پر میں سے کتنا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ یہ نوجوان عمر میں چھوٹا سہی مگراس کے دل میں پایا جانے والا ایمان بہت بڑاتھا۔سویہ ان علماء کی نسبت زیادہ علم والا اور زیادہ فقاہت کا حامل تھا جن کی داڑھیاں محض سلاطین کے محلات میں لوگوں کو دھوکہ دینے کے کام آتی ہیں ،تاکہ لوگ بادشاہ کے کفر کے باوجود اس کے سامنے سجدہ واطاعت بجالاتے رہیں ۔یہ نوجوان ان کی ملمع کاریوں سے دھوکہ میں نہ آیا۔بلکہ وہ اس بات پر ثابت قدم رہا کہ حکم چاہے بادشاہ کا ہو یا کسی اور کا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بڑھ کر واجب الاطاعت نہیں ،بلکہ یہ تو اصلاً کھلی گمراہی اور قیامت کے دن بہت بڑی ندامت کا باعث ہے ۔جس دن کہنے والے کہیں گے کہ:
 ”اور کہیں گے اے ہمارے رب !ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کو کہامانا تو اُنہوں نے ہم کو رستے سے گمراہ کردیا“)الاحزاب:۶۷)
یہ نوجوان ان لوگوں سے زیادہ عظمت کا حامل تھا…………کیونکہ انسان التزام حق سے عظمت پاتا ہے اوراتباع باطل کے سبب حقیر ہوجاتا ہے ۔یہ ان سے زیادہ بڑا عالم تھا………کیونکہ علم تو کل کا کل ہی اللہ تعالیٰ کی خشیت کا نام ہے ۔یہ ان سے زیادہ بڑا فقیہ تھا…………کیونکہ اصل فقاہت بھی یہی ہے کہ حکم چاہے زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کا ہو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم پر مقدم نہ رکھا جائے ۔سو کیسا واضح فرق ہے ان بادشاہوں ،ان رؤسا ،ان منافق صفت علماء کی روش باطل اور ان نوجوانوں کے اختیار کردہ راستے میں۔ ان لوگوں کی زندگی کا کل مقصددنیوی عیش وعشرت کا حصول اور ان نوجوانوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کےلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہے ۔ان لوگوں کا مقصد کفار کو راضی کرنا اور ان نوجوانوں کا مقصد اللہ عزیز وغفار کی رضا کا حصول ہے۔ گویا ان میں سے ہر ایک اپنی زبان سے یہ اعلان کررہا ہو کہ:

لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ کفار ان سے راضی ہوجائیں
مگرمیری مراد تو صرف ایک اللہ کو راضی  کرنا  ہے

آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بے شک ابومصعب ولید الصقلی الشھری اور ان کے بھائیوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے دین کی نصرت کا جو وعدہ کیا تھا وہ انہوں نے سچ کردکھایا ،اور جو نذر انہوں نے مانی تھی وہ بے کم وکاست پوری کردکھائی۔ ہمارا یہی گمان ہے تاہم اصل اختیار تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ ان کے بعد اسی راستہ سے اسلام کے بہت سے سرفروش گزرگئے ، جن میں خصوصاً قابل ذکر اسی قافلہ کے ایک شہسوار اور سالار”احمد فضیل نزال الخلایلہ ابومصعب الزرقاوی“ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی رحمت واسعہ میں سے وافر حصہ عطافرمائے ۔
البتہ ابھی ہماری باری باقی ہے۔ اس لئے میں امت مسلمہ کے ہر نوجوان سے یہی کہوں گا کہ تمہارے لئے لازم ہے کہ تم بھی قدسیوں کے اس قافلہ میں شامل ہوجاؤ یہاں تک کہ کفایت مکمل ہوجائے اور اللہ برتر وقادر کی نصرت کا یہ کارواں اپنی منزل تک جاپہنچے۔ کہ بے شک بڑے بڑے قائدین اور راہنما تو غائب ہوگئے سواے شرارہ نور آگے بڑھ !اور کفر کے ان اندھیروں کو زائل کردے۔ آئیے اب وصیت سنئے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بلاشبہ تمام تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جس نے جنت فردوس کو اپنے مومن بندوں کے لئے مہمان نوازی کا ذریعہ بنایا،اوران اعمال کو آسان فرمادیا جو اس جنت کے حصول کا ذریعہ بن سکیں ،تاکہ وہ اس کے ماسوا کسی اور چیز کو اپنا مقصود نہ بنائیں ۔اور تمام تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئےہے جس نے زمین وآسمان کو پیدا فرمایا ،فرشتوں کو پیغامبر اور رسولوں کو بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر مبعوث فرمایا تاکہ ان کے بعد لوگوں کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔ کیونکہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بے کارپیدا فرمایا ،نہ بے مہارچھوڑدیا ،اور نہ ہی وہ ان سے بے پرواہ ہوا،بلکہ انہیں ایک عظیم مقصد کی خاطر پیدا فرمایا اور ایک بھاری ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے تیار فرمایا اور ان کے لئے وہ ٹھکانے تیار کئے ایک اس کے لئےجس نے عمل کیا اورحق کو قبول کیا اور دوسرا اس کے لئے جس نے بے عملی اختیار کی اور اعراض کیا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں،ایک ایسےشخص کی گواہی جو اس کا بندہ ہے ،اس کےبندے کی اولاد ہے ،اس کی ایک کنیز کی اولاد ہے ،جو اس کے فضل ورحمت سے لمحہ بھر کے لئے بھی بے نیاز نہیں ہوسکتا اور اس سے جنت میں داخلے اور آگ سے چھٹکارے کی امید بھی صرف اور صرف اس کی رحمت اور عفو ودرگزر کے باعث رکھتا ہے ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اس کی وحی پر امین اور اس کی مخلوق میں سب سے افضل ہیں ،جنہیں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے تلوار کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ وہ انسانوں کو انسانوں کی عبادت سے نکال کر انسانوں کے رب کا عبادت گزار بنائیں ۔اورجن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے  اتمام حجت فرمادیا تاکہ جو مرے تو واضح دلیل پر مرے اور زندہ رہے تو واضح دلیل پر زندہ رہے۔ اورتمام اہل ایمان کی جانب سے کہ انہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کی توحید کا اثبا ت کیا ،خالص اسی کی عبادت کی ہمیں اس کی معرفت عطاء کی اور اس کی جانب دعوت کا حق ادا کردیا۔امابعد!
بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے کار پیدا نہیں فرمایا اور نہ ہی ہمیں بے مہار چھوڑ دیا ،بلکہ ایک ایسی عظیم ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے پیدا فرمایاجسے جب زمین وآسمان اور پہاڑوں پرپیش کیا گیا تو وہ بھی اس کی ادائیگی کے خوف اور گھبراہٹ سےلرزنے لگے اور انہوں نے اس سے انکار کردیا مگر انسان نے اپنی عجز اور کمزوری کے باوجود اسے اٹھانے کی حامی بھرلی اور اپنے ظلم وجہل کے باوجود اس کا ارادہ کرلیا لیکن پھر اکثریت نے ا سکے تقاضوں کی شدت کے باعث اس بوجھ کو اتار پھینکا ،البتہ قلیل ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس بوجھ کو اٹھائے رکھا۔ جان لیجئے کہ یہ بھاری ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے ،اور وہ بھی اس دین کےمطابق جسے اس نے پسند فرمایا اورجس پر عمل فرض کیا اور جس کے ساتھ مضبوط تعلق کے بغیر نجات ممکن نہیں ،اور جان لیجئے کہ یہ دین دینِ اسلام ہے ۔جبکہ اس وقت اس دین کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، اور ذلت،رسوائی ،ضعف اور غلامی کےباعث اس امت کے زخم رس رہے ہیں ، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کے عائد کردہ فرائض کو ترک کردیا ،محرمات  کو اپنالیا اور جہاد کو چھوڑ دیا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ذلت ورسوائی کی شکل کی پوری پوری سزا دی۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
 ”جب تم سودی تجارت کرنے لگوگے اوربیلوں کی دمیں تھام لوگے تو اللہ تعالیٰ بھی تم پر ذلت مسلط کردے گا اور اسے تم سے تب تک نہ ہٹائے گا جب تک تم دوبارہ اپنے دین کی جانب نہ لوٹ آؤ“)ابوداؤد)
امت کی موجودہ حالت زار کا نقشہ کسی شاعر نے کیا خوب کھینچا ہے کہ :
اہل عرب کی مصیبت یہ ہے کہ ان کا حاکم معبود بن بیٹھا ہے
جبکہ  عام  لوگ   پابندیوں  کے   باعث    سہمے   بیٹھے   ہیں

امت    کے   پاس    خزانوں    کی    کوئی     کمی    نہیں
لیکن جہل ،مایوسی اور جمود نے اسے غیر فعال کررکھا ہے

ذلت       و    مسکنت     اس     پر     چھاچکی
مگریہ اسی ہلاکت آفریں راگ میں مست ہے

اس   قوم  کی  پستیوں  کا  کیا  شمار
جو روز بروز بڑھتی  ہی چلی جاتی ہیں

اندیشوں  اور  خطاؤں  نے  ہمیں  مارڈالا
دھوکے اور دربدری نے ہمیں غرق کردیا

بظاہر ہمارا بڑا شور وغل ہے مگر حقیقت میں رسوا ہیں
پھر  رسوائی  بھی  ایسی  جو  انتہا کو   جا پہنچی   ہے

صہیونیوں کی بیٹی مساجد میں دوڑتی پھرتی ہے
اس حال میں کہ اس کا لباس بھی مکمل نہیں

اس کا خواب سچ ہوگیا سواب وہ گنگناتی پھرتی ہے
ترنم  اور  اطمینان  سے  اپنی  مرضی  کے  گیت

صہیونیوں      کی      بیٹی     شہروں      میں      گھومتی      پھرتی       ہے
اوریہودی مساجد کے گنبدوں پر اپنی عمارتیں تعمیر کرنے میں مصروف ہیں

رقص کر!اے یہودی کی بیٹی اور جہاں چاہے گھوم
ہمارے جسموں پر ہماری لاشوں پر کہ ہم تو غلام ہیں

خوف ہم پر کچھ ایسا طاری ہوا کہ اب ہمارا سب کچھ دوسروں کے لئے حلال ہے
اور  جب  ہم  سے  کلام  بھی    کیا  جاتا  ہے  تو  سختی  اور   بدتمیزی   کے  ساتھ

پھر ایسے حالات میں یہ  غلام میدان  میں کیسے  اتریں
جبکہ مظالم اور قیودسے ان کے قدم بوجھل ہوچکے ہیں

امت   ہے   کہ   اس   کے   سجدے   طویل   ہوئے   جاتے   ہیں
بس فرق یہ ہے کہ یہ سجدے اللہ کے لئے نہیں بلکہ کسی اور کے لئے ہیں

اس امت کے لئے لازم ہے کہ اب یہ اس مدہوشی اور خواب غفلت سے جاگ جائے اور عزت وسربلندی اور دنیا پر حکمرانی کے اصل سبب کی جانب لوٹے ۔اور جان لیجئے کہ یہ سبب صرف اور صرف جہاد فی سبیل اللہ ہے ،جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
)مسلمانوں )تم پر (اللہ کے رستے میں )لڑنا فرض کردیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناگوار ہے مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگی اور وہ تمہارے لئے مضر ہو اور (ان باتوں کو )اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“ )البقرہ:۲۱۶)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اور)مسلمانو!)اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ اللہ (سب کچھ )سنتا اور جانتا ہے“ (البقرہ:۲۴۴)
اور فرمایا کہ :”اور اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا توزمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ اہل عالم پر بڑا مہربان ہے“ (البقرہ:۲۵۱)
اور فرمایا کہ :”جو لوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں )اور نہ اُن چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی ہیں اور نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں اُن سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں “(التوبہ:۲۹)
اورفرمایا کہ:”مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو اور پکڑ لو اور گھیر لو اور ہر گھات کی جگہ پر اُن کی تاک میں بیٹھے رہو“۔(التوبہ:۵)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اور اگراللہ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے )خلوت خانے اور (عیسائیوں کے )گرجے اور(یہودیوں کے)عبادت خانے اور (مسلمانوں کی )مسجدیں جن میں اللہ کا بہت ذکرکیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اُس کی ضرور مدد کرتا ہے بے شک اللہ زبردست ہے ،غالب ہے“ (الحج:۴۰)
امام ابوعبداللہ الحلیمی شعب الایمان میں رقمطراز ہیں کہ :”اگر اللہ تعالیٰ مومنین کےذریعہ مشرکین کو دفع نہ کرے اور اگر اہل ایمان کا ان پر تسط نہ ہو اور وہ اسلام کی عظمت وشوکت اور جمعیت کی حفاظت نہ کریں تو زمین پر شرک غالب آجائے گا اور دیانت اس سے اٹھ جائے گی ،لہٰذااس سے ثابت ہوا کہ اس دین کی بقا اور اس کے پھیلاؤ کا واحد ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔اور جو شے اس درجہ اہمیت کی حامل ہو وہ اس بات کی سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اسے ایمان کے ارکان میں شامل کیاجائے اور اہل ایمان اس عمل کے سب سے زیادہ حریص ہوں “)شیخ عبداللہ حلیمی رحمہ اللہ کاکلام ختم ہوا)
اسی طرح صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالٰہ الااللہ کی شہادت نہ دے دیں ۔پھر وہ ایسا کرلیں تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اورمال بچالیا مگر جس پر اس کلمےکاحق ثابت ہوجائے اوران کا حساب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔“
اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں جہاد کا ذکر فرمایا اور اس پر کسی عمل کو فضیلت نہ دی سوائے پانچ وقت کی فرض نماز کے ۔اور پھر یہ تو اس وقت کی بات ہے جب جہاد فرض کفایہ ہو لیکن جب جہاد فرض عین ہوجائے تو ایمان کے بعدسب سے زیادہ اہمیت کا حامل فرض ہوجاتا ہے۔
جہاد اور ایمان جدا نہیں ہوسکتے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:”مجھے قیامت تک کے لئے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے یہاں تک کہ صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ہونے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھا گیا ہے اور جس نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی اس کا مقدر ذلت اور رسوائی ہے اورجس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے “
سو بیماری بھی معلوم ہوگئی یعنی ذلت اورکمزوری اور اس کی دوا بھی یعنی جہاد فی سبیل اللہ ۔بھلا ایک ایسے وقت میں جب ہمارے رب کا گھر ،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد ،ہماراقبلہ اور ہمارے مقدسات کفار کے قبضے میں ہوں اور ہمارے علاقوں پریہود ونصاریٰ کا تسلط قائم ہو تو ا س فریضہ سے فرار کیسےممکن ہے ؟اور بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت پر ٹوٹنے والی یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔پھر جو چیز اس مصیبت میں اضافے کا باعث ہے وہ یہ کہ کفار کا یہ تسلط خود مسلمانوں میں سے مرتد حکام کے پورے تعاون کے ساتھ قائم ہوا۔جب سے اللہ تعالیٰ نے جزیرۃ العرب کے صحراء اور سمندر کو پیدا فرمایا ہے اس نے ایسی بڑی آفت نہیں دیکھی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جزیرۃ العرب پر یہود ونصاریٰ کا یہ قبضہ ان کی سازشوں کا نتیجہ ہے جن سر فہرست امریکہ ہے۔اللہ اسے غارت کرے!امت پرنازل ہونے والی ہر مصیبت کے پیچھے اصل سبب اور کارفرما ہاتھ یہی ہوتا ہے ۔ارض حرمین جو کہ تمام امت کے لئے شرف کا باعث ہے اور جس میں اس کے مقدسات موجود ہیں یہ آل سعود کی کوئی جاگیر نہیں ۔اور یہاں سے امریکیوں کو نکالنا ایمان کے بعد اہم ترین فریضہ ہے اور کوئی دوسری شے اس سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں جیسا کہ اہل علم کی تصریحات سے واضح ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ج”ہاں تک دفاعی جہاد کا تعلق ہے تو یہ سب سے زیادہ اہمیت کاحامل جہاد ہے ،حملہ آور دشمن جو حرمت اوردین پر حملہ کرے اس سے دفاع بالاجماع واجب ہے ۔لہٰذا ایمان کے بعد دنیا کی بربادی کا سبب بننے والے حملہ آور دشمن سے دفاع اہم ترین فرض ہے اورنہ اس کے لئے کسی قسم کی شرط کی قید ہے بلکہ امکانی حد تک یہ دفاع کرنا لازم ہے اور اس میں نیک اور بد سب کو شامل کیا جائے گا “۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے سب سے افضل ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی زبان سے ایک لفظ بھی خواہش نفس کی اتباع میں نہیں نکل سکتا اپنے بستر وفات پر یہ فرمایاتھا کہ :”یہود ونصاریٰ کو جزیرۃالعرب سے نکال دو ۔“)رواہ البخاری)
ان حالات میں ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اس حملہ آور دشمن اور کفر اکبر کے خلاف امت کو ابھارنے پر صرف کرے جو سرزمین حرمین میں امریکی صلیبی صہیونی اتحاد کی شکل میں براجمان ہے اور لوگوں پر یہ واضح کرے حرمین میں موجود اس نظام حکومت نے عدل وانصاف کے تمام پیمانے الٹاوے دئیے ہیں اور تمام مفاہیم بدل ڈالے ہیں ۔اس نے امت کو ذلیل کر چھوڑا ہے اور ملت کےسا تھ غداری کا ثبوت دیا ہے اور ایک ایسے وقت میں جبکہ ابھی ہم قبلہ اول اور مقام معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی واپس نہیں لے سکے اس سعودی حکومت نے مسجد اقصیٰ کے بعد مسلمانوں کے باقی ماندہ مقدسات مکہ اور مدینہ کوبھی یہودی اور نصرانی فوجیوں اور ان کی بدکردار عورتوں کے حوالہ کردیا ہے ۔اور وہ بھی اس بہانہ سے کہ یہ مسلمانوں کی عزت وآبرو کی حفاظت کریں گے ۔بھلا کبھی بھیڑئیے کو بھی بکریاں چرانے پر معمور کیا گیا ہے ۔لیکن اس بات میں اس وقت کوئی تعجب نہیں رہتا جب آپ کا اپنا بادشاہ ہی برطانیہ جاکر گلے میں صلیب پہن لے اور ملک کو ان کے لئے کھول دے اور ساراملک امریکی اور برطانوی فوجی ٹھکانوں سے بھرجائے اورآپ انہیں نکالنے کے قابل بھی نہ رہیں ۔سو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان حکمرانوں نے امت کے ساتھ بددیانتی کی اور کفار سے دوستیاں بڑھائیں اور مسلمانوں کےمقابلے پر کفار کا ساتھ دیا ۔اور ان کا یہ عمل اسلام سے خارج کردینے والے دس نواقض اسلام میں سے ہے اسی طرح ان حکمرانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت کی بھی مخالفت کی جس میں آپ نے فرمایا کہ :
”:یہود ونصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دو ۔“)رواہ البخاری)
اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے میں زندہ رہا تو لازماً جزیرۃ العرب سے یہود ونصاریٰ کو نکال دوں گا۔“
لیکن اس وقت بیت اللہ اور مسجد نبوی کی زمین میں پینتالیس ہزار امریکی فوجی اور عسکری ماہرین ،ایک سو تیس جنگی جہاز ، اور دمام جدہ اور ابہا میں بے شمار جنگی ٹھکانے اور فوجی بستیاں موجودہیں ۔جو شخص بھی ارض اسلام میں موجود ہے جو اللہ کے ان دشمنوں کی تعداد پر غور کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان کا ارض حرمین سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔
اوراب تو عراق کی جنگ کا وہ ڈرامہ بھی  ختم ہوئے بھی گیارہ سال کا عرصہ بیت چکا جس کا بہانہ کرکے یہ یہاں آئے تھے ،لیکن ابھی تک یہاں سے نکلنے کا نام نہیں لیتے ۔حالانکہ عراق اور اہل عراق تو تباہ وبرباد ہوچکے ۔اور ابھی تک ان ائمۃ الکفر کےایسے بیانات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔
مثال کے طور پر ان کے سابق وزیر دفاع ولیم پیری کا بیان جو اس نے الخبر کے دھماکوں کےبعد امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے جاری کیا:”اس خطہ میں امریکی فوج کا رہنا امریکی مفادات کے لئے ضروری ہے۔“اور اس نے خود یہ کہاکہ :”میں ریاض اور الخبر کے ان دھماکوں سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یہاں سے انخلاء کا ارادہ ترک کردیا جائے ۔“
اس موقع پر میں امریکہ کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ اللہ کی قسم جس کے ماسوا کوئی معبود نہیں تم لازماً یہاں سے ذلیل ورسوا ہوکر اور اپنے پیچھے لاشوں کے انبار اور ہزیمت کی داستانیں چھوڑتے ہوئے بھاگوگے ۔اور ویسے بھی ہم تمہارے لئے قتل کے سوا اور کیا چیز پسند کریں جبکہ ہمارے رب نے حکم ہی اسی کا دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں عجب نہیں کہ اپنی حرکات سے باز آجائیں)التوبہ ۱۲)
اور فرمایا کہ :”ان مشرکین کو جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کردو اور پکڑو انہیں اور گھیراؤ کرو ان کا اور ہر گھاٹ لگانے کی جگہ ان کےلئے گھات لگاؤ۔“(التوبہ:۵)
اور ہم تم پر آگے پیچھے دائیں بائیں اوپر نیچے ہر جانب سے حملے کریں گے ۔اور اب ہماری جانب سے جواب تم سنو گے نہیں بلکہ دیکھو گے ۔
اور اے بزدلو!ہمارے اور تمہارے درمیان اتنا واضح فرق ہے کہ جس موت سے تم ڈرتے اور بھاگتے ہو اسی موت کی ہم تمنا کرتے ہیں اور جب تم مرتے ہو تو جہنم کا ایندھن بنتے ہو جبکہ ہمیں موت آجائے تو ہمیشہ ہمیش کی جنتیں ہماری منتظر ہوتی ہیں ،اور ہم تمہیں قتل کرکے آگ سے نجات پاتے ہیں ،کیونکہ کافر اور اس کاقاتل آگ میں جمع نہیں ہوسکتے ۔ہم اپنے رب تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتے ہیں کہ :قتال کرو ان سے اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب سے دوچار کرے گا اورانہیں رسوا کردے گا اور مومنین کے سینوں کو ٹھنڈا کرے گا“۔(التوبہ:۱۴)
یہاںمیں اس شاعر کا مقولہ دہراؤں گا جس نے کہا تھا کہ :
میرے اور تیرے جھگڑے کا اورکوئی نتیجہ نہیں
سوائے  قطع  تعلق  اور   گردن   کے   اڑانے  کے
میں اپنے اور افغانستان میں موجود اپنے بھائیوں کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم اپنے کندھوں پرہتھیار اٹھائے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اس کی راہ میں اپنی ہر عزیز اور محبوب شے کھپادیں گے یہاں تک کہ سوویت اتحاد کی طرح تم بھی ٹکڑے ٹکڑے نہ جاؤ اورصومالیہ کی طرح یہاں سے بھی شکست خوردہ ،،ملامت زدہ اور ناکام اور نامراد ہوکرنکل نہ بھاگو ۔اور ہم ہرحال میں اپنایہ عہد پورا کرکےرہیں گے جب تک ہماری رگوں میں خون کا آخری قطرہ بھی موجود ہے ،اوراللہ تعالیٰ ہمارے اس عہد کا نگہبان ہے ۔بعض فتنہ انگیز اور شکست خوردہ ذہنیت کے حامل لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم ان کے ساتھ کیسے مقابلہ کرسکتے ہو جبکہ وہ عدد اور قوت میں تم سے بہت زیادہ ہیں ۔پوری دنیا کا نظام ان کےہاتھ میں ہے اور تمام حکام ان کے تابع ہیں جبکہ تم گنتی کے چند لوگ ،تمہارے پاس نہ تو کوئی زمین ہے جو تمہیں پناہ دے اور نہ کوئی ملک تمہاری پشت پناہی کے لئے تیار ہے ۔ایسے لوگوں کے رد کے لئے میرے رب کا یہ فرمان کافی ہے کہ :
”کتنی ہی مرتبہ ایک چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے ایک بڑی جماعت پر غالب آگئی اور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کےساتھ ہے“ (التوبہ:۲۴۹)
اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا ان کی مخالفت کرنےوالا ان کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکے گا ،اور وہ اسی حال میں ہوں گے یہاں تک کہ اللہ کاحکم آجائے ۔“
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے ساتھ صرف قتال کا حکم دیا ہے جبکہ باقی سارا کام اپنے ذمہ رکھا ہے ۔اور مومنین کو اس جانب ترغیب دیتے ہوئے اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:”قتال کرو ان سے اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا “(التوبہ:۱۴)
يعنى ان کے قتل کے ذریعہ”اور انہیں رسوا کرے گا “(التوبہ:۱۴)
يعنى ان کے مقابلہ پر تمہاری نصرت سے اور تمہاری مدد فرمائے گا ۔اور یہ وہ وعدہ ہے جسےا للہ تعالیٰ لازماًپورا فرمائے گا ۔اب چونکہ میں عدد اور قوت میں ان سے کمزور ہوں اور آمنےسامنے کے مقابلہ کی استعداد نہیں رکھتا ،جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ” جنگ تو دھوکے کانام ہے“تو ایسے حالات میں آج بھی ان کے ساتھ قتال کے ایسے آزمودہ اور مناسب طریقے موجود ہیں جو ان اللہ کے دشمنوں کے لئے شدید ترین نقصان اور ان کے دلوں میں ہیبت بٹھانے کا باعث بنتے ہیں ۔اوران میں ایک انتہائی مؤثر ذریعہ شہیدی حملے ہیں جنہوں نے ان کے ہوش وحواس اڑارکھے ہیں یہ ایک ایسی کاروائی ہوتی ہے جس میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد پہلے سے یہ جانتے ہوئے کہ ان کے اس عمل کا نتیجہ موت ہے اپنے سے زیادہ طاقتوردشمن کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔عہد حاضر میں اکثر اس کا یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے کہ جسم کے ساتھ یا گاڑی یا بیگ میں بارود بھر کر دشمن کےاہم جنگی مراکز اور تنصیبات میں گھس کر مناسب وقت اور مقام پر اس کو اڑادیا جائے ۔اس طرح اس اچانک حملے کی اثر پذیری کے باعث دشمن کو شدید ترین جانی ومالی خسائر کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس دور میں ایسے شہیدی حملے دشمن کو نقصان پہنچانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کا ملعون وزیر اعظم بھی فلسطین میں شیردل مجاہدین کی طرف سے کئے جانے والے شہیدی حملے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ”میں ساری دنیا کے ممالک کون یہ چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ان حملوں کے خلاف کچھ کرکے دکھائیں ۔بھلا ہم ایسے شخص کا کیسے مقابلہ کریں جو خود موت کا عاشق ہو۔“اسی طرح امریکی وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے امریکی بحری بیڑے پر کئے جانے والے شہیدی حملے کے بعد یہ کہا تھا کہ :
”ہم مستقبل میں ہونے والے ایسے کسی حملے کا کوئی توڑ نہیں کرسکتے ۔“
جاہل لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو خودکشی ہے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔حالانکہ حقیقت واقعہ یوں نہیں ،کیونکہ خودکشی کرنے والا شخص یہ عمل مایوسی ،غضب،بے صبری اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار کی وجہ سے کرتا ہے ۔اور اس امر میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ یہ عمل صریح حرام ہے اور ایسا کرنےوالا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب اور جہنم کا مستحق ہے ۔جبکہ شہیدی حملہ کرنے والا غلبہ دین کے اعلیٰ مقصد کا حامل ہوتا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بادشاہ ، راہب اور لڑکے کے قصے میں وارد ہونے والی صحیح مسلم کی حدیث کے بارے میں فرمایا کہ:”اس نے اپنا قتل غلبہ دین کی خاطر کیا اسی لئے ائمہ اربعہ کااس بات پر اتفاق ہے کہ اگرکوئی شخص مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر کفار کی صفوں میں جاگھسے چاہے اسے یقین ہو کہ وہ قتل ہوجائے گا تو یہ جائز ہے۔“
اسی لئے شہیدی حملہ کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے شہید ہوتا ہے ۔چاہے وہ اپنے ہاتھوں شہید ہو یا دشمن کے ہاتھ سےاور اس بات پر جمہور علماء کا اتفاق ہے ماسوا احناف کے ۔اور ان کے شبہ کا ازالہ اس حدیث سے ہوجاتا ہے جو صحیحین میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی جانب نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چرواہا یہ حدی خوان کون ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض  کیا کہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بھائی عامربن اکوع رضی اللہ عنہ ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اس پر رحم فرمائے ۔ان کی قوم میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ یہ درست ہے کہ ان پر جنت واجب ہوگئی ،تاہم کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ آپ ہمیں ابھی ان سے مستفید ہونے دیتے ۔پھر جب صفیں آمنے سامنے آئیں تو عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے جو لمبائی میں چھوٹی تھی ایک یہودی کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار خود انہیں کی طرف لوٹ آئی اوران کے دونوں گٹھنوں پر آلگی جس سے وہ وفات پاگئے ۔جب ہم واپس لوٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اداس دیکھا تو میرے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے دریافت فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا؟ تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہوگئے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کس نے کہا تو میں کہا کہ فلاں فلاں نے اور اسید بن الخضیر الانصاری نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :”جس نے کہا جھوٹ کہا “اور اپنی دونوں انگلیاں جمع کرتے ہوئے فرمایا :”بلکہ اس کے لئے تو دہراجر ہے اس نے جہاد کیا اور وہ مجاہد ہے ۔“
اس روایت سے یہ معلوم ہواکہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ مومن دشمن ہی کے ہاتھوں قتل ہو توشہید کہلائے گا ۔شہید تو وہ شخص ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے جہاد کیا ۔ایک شخص نے اللہ تعالیٰ  کے کلمہ کی سربلندی اور دشمن کو نقصان پہنچانے اور دہشت زدہ کرنے کےلئے اپنی جان نچھاور کردی اس کی اس عظیم قربانی کو خوکشی کہا جائے بھلا یہ بھی کوئی انصاف ہے ؟سبحان اللہ !یہ تو ایک بہتان عظیم ہے ۔امت مسلمہ جس کے خیرالامم ہونے کی گواہی اللہ عزیز،جبار اور متکبر نے دی ہے ،یہ وہ عظیم امت ہے جو امر بالمعروف ،نہی عن المنکر اور ایمان باللہ کی صفات سے موصوف کی گئی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کو ایمان سے پہلے اس لئے بیان کیا گیا کیونکہ اس کے قیام کی اساس ،اورترقی ،عزت اور فضیلت کا سبب ہے۔
لہٰذا جو شخص بھی اس امت کے ساتھ نسبت کا دعویٰ کرتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ اس عظیم امانت کی ادائیگی کی فکر کرے اور اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کا دین اس کے لئے ہر شے سے زیادہ محبوب ہو۔اس کی دوستی ،دشمنی ،محبت ،اطاعت ہر چیز اللہ تعالیٰ کےلئے ہو تاکہ نوکری ،تنخواہ او ر منصب کے لئے ۔مسلمانوں کے لئے ان عرب حکام کے ساتھ عدم مداہنت ،ان کے خلاف خروج اور ان کی تکفیر فرض ہے ۔کیونکہ یہ ارکان ایمان میں سے ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :”سو جس نے طاغوت کے ساتھ کفر کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جس سے اب چھوٹنا نہیں اوراللہ تعالیٰ سننے والا علم رکھنے والا ہے “۔(البقرہ:۲۵۶)
اور یہ تمام حکومتیں طاغوت ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر عبادت کی جارہی ہے ۔اگرچہ ان کے اسلام سے خارج ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم میں وضاحت کے لئے ان میں سے چند ایک کا اختصار کے ساتھ ذکر کروں گا۔اولاً:اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے ہٹ کر فیصلے اوراللہ تعالیٰ کے مقابلہ پر قانون سازی کرنا ۔اور اس مسئلے میں قرآن وسنت اور علماء کے اقوال کی صورت میں دلائل تواتر کے ساتھ موجود ہیں ،کہ جس شخص نے اپنے لئے یا کسی اور کے لئے وضع کردہ شریعت اور قانون کی پیروی کو مباح قرار دیا تو ایسا شخص کافر اورملت اسلامیہ سے خارج ہے ۔ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”کیا آپ نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا جویہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جو آپ سے پہلے نازل ہوا اور پھر بھی چاہتے  یہ ہیں کہ اپنے فیصلوں کے لئے طاغوت سے رجوع کریں،حالانکہ انہیں تو اس کے ساتھ کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں جاپھینکے “۔(النساء۶۰)
شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں :جس شخص نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی جانب  فیصلے لوٹانے کی دعوت دی تو اس نے وہ سب ترک کردیا جسے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور اس شخص نے سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا رخ موڑ لیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اس کےساتھ شریک ٹھہرایا ،اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی مخالفت کی جس کی پیروی کا حکم اللہ تعالیٰ نے یہ فرماتے ہوئے دیا:”(ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ)جو (حکم)اللہ نے نازل فرمایا ہے اُسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اوران سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔“(المائدہ:۴۹)اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”تمہارے رب کی قسم !یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اُس سے اپنے دل تنگ نہ ہوں بلکہ اُس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے ۔“(النساء:۶۵)لہٰذا جس کسی نے بھی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئےیہ چاہا کہ لوگوں کے مابین فیصلے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق نہ ہو تو اس نے اپنی گردن سے اسلام کا قلادہ اتار پھینکا ،چاہے وہ اپنے آپ کو کتنا ہی مومن کیوں نہ سمجھتا رہے اور نمازیں پڑھتا رہے اور روزے رکھتا رہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس زعم کا انکار کیا ہے کہ وہ مومن ہیں کیونکہ زعم کے لفظ کے اندر غالب یہی ہوتا ہے کہ دعویٰ کرنے والا اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اور اس کا عمل ا سکے قول کی تردید کرتا ہے۔
اس بات کو اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی سچ ثابت کرتا ہے کہ :”ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اس طاغوت کا کفر کریں “۔(النساء:۶۰)کیونکہ کفر بالطاغوت ایمان کے ارکان میں سے ہے اوراگریہ رکن مفقود ہو تو انسان مؤحد نہیں ہوسکتا ،یہی ایمان کی اساس اور اعمال کی درستگی کا سبب  ہے ۔جبکہ عدم توحید اعمال کے فاسد ہونے کا باعث ہے اور طاغوت کی طرف فیصلوں کا لوٹانا اس پرایمان لاناہی تو ہے (شیخ کاکلام ختم ہوا)۔
اور یہی معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو سمجھایا جس کا ذکر ترمذی اور دوسری کتابوں میں وارد شدہ اس حسن حدیث میں آیا ہے کہ :حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جو پہلے نصرانی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کی تلاوت کرنے ہوئے سنا کہ:انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی جگہ رب بنارکھا ہے“توانہوں نے عرض کیا کہ :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تو کبھی ان کی عبادت نہیں کی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا بھلا اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ جس چیز کووہ حرام قرار دیں کیا تم اسے حرام نہیں ٹھہراتے ؟اور اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی جس شے کو وہ حلال قرار دیں کیا تم اس کو حلال نہیں سمجھتے ؟“توانہوں نے عرض کیا کہ :جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :”یہی تو ان کی عبادت ہے “
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےاس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:”جان رکھو کہ ان لوگوں نے ان کے لئے نمازیں نہیں پڑھیں اور اگر وہ ایسا تقاضا کرتے تو بھی لوگ ایسا کبھی نہ کرتے لیکن ان علماء اور درویشوں نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرلیا صرف اسی میں ان کی اطاعت کی سویہی عبادت ہے “۔
اسی حدیث سے متعلق شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :جس شخص نےحلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرانے میں اپنے علماء کی اطاعت کی تو اس نے انہیں اللہ تعالیٰ کی جگہ رب بنالیا ۔“
عرب کی یہ ریاستیں اور یہ حکام جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ ہوائے نفس اور خودساختہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں ماسوائے افغانستان میں طالبان حکومت کے۔ان  کافر حکام کی ایک مثال جزیرۃ العرب کے حکمران ہیں جن میں سرفہرست ان کا بادشاہ فہد بن عبدالعزیز ہے جس کا نظام حکومت اللہ کے تعالیٰ کے مقابلے میں خود قانون سازی کرتا ہے ۔مثال کے طو رپر اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کیا اور اس کے کھانے والے کے خلاف اعلان جنگ کیا،جبکہ اس کا نظام اپنے ملکی قوانین میں  اسے حلا ل ٹھہراتا ہے ۔ان کے تجارتی اداروں اور اسٹاک ایکسچینج میں رائج قوانین اللہ تعالیٰ کی شریعت کوحکم نہیں ٹھہراتے ۔حالانکہ یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے تاہم یہی اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لئے کافی ہے۔
ثانیاً:کفار سے دوستی اورمسلمانوں سے دشمنی۔اور یہ  تو انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا ایک واضح ترین عمل ہے ۔ان عرب حکام کا حال یہ ہے کہ آج تک کبھی کسی بات پر متفق نہیں ہوئے سوائے اس مبینہ” دہشت گردی “اور مجاہدین کے خلاف کئے جانے والے معاہدے پر۔
لہٰذا یہ خائن حکومتیں اگر جمع ہوئیں بھی تو صرف اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،اس کے اولیاء اور نیک بندوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے ۔ارض کنانہ مصر میں ساٹھ ہزار باعمل نوجوان اس دین پر عمل کرنے کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ۔اور کتنے ہی صالحین کو وہاں سے سرے سے غائب ہی کردیا گیا۔اور ارض اسلام سرزمین حرمین جزیرۃ العرب میں ”حائل“اور” الرویس “کی جیلیں جہاں ہمارے مجاہد بھائیوں کو شدید ترین تعذیب اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے حق کو ببانگ دہل بیان کرنے والے سچے اللہ والوں ہی سے بھری پڑیں ہیں تاکہ سلاطین کے وفاداران درباری علماء سوء سے ۔
ان اہل حق علماء اور طلباء دین الشیخ سلمان العودۃ، سفر الحوالی ٭بشر بن بشر البشر ،ثنیان الثیان ،ابراہیم الدیان ،سعید الزعیر ،ناصر العمراور عبدالوہاب الطراوی اور دیگر بہت شامل ہیں۔تاہم عامۃ الناس کے سامنے جزیرۃ العرب کے ان حکام کا اصل چہرہ واضح نہیں ۔خصوصاً جبکہ یہ لوگ دین داری ،تطبیق شریعت اور خدمت حرمین جیسے کاموں سے نیکی کا روپ دھارے ہوئے ہیں ۔لیکن حقیقت کے اعتبار سے یہ ان نیک کاموں سے اتنےہی دور ہیں جتنے یہ ہوسکتے ہیں اور اعمال صالح سے ایسے بری ہیں جیسے بھیڑیا یوسف علیہ السلام کے خون سے ۔
اس حکومت کےشرمناک اور کافرانہ اعمال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے ۱۹۹۰ میں روس کو جس کے ہاتھ ابھی افغانستان میں مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں چار ارب ڈالر بطور امداد کے دئے۔
پھر اسی حکومت نے ۱۹۸۲ میں کروڑوں ڈالر شام میں نصیریوں کی حمایت میں انہیں اہل ایمان کو ذبح کرنے کے انعام میں دیے جو کہ اصل میں مسلمانوں کا حق تھے ۔اسی طرح یہ لوگ ابھی تک فلسطین میں مسلمانوں کے خلاف حزب الکتائب اللبنانی کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔
اسی حکومت نے مصر اور الجزائر میں طاغوتی حکومتوں کو اربوں ڈالر کی امداد دی جو کہ  پوری شدت سے اسلام اور اہل اسلام کو پیسنے میں مصروف ہیں۔
انہیں نے جنوبی سوڈان میں عیسائی باغیوں کو مال اور اسلحہ سے امداد دی ۔
اور ابھی بالکل ماضی قریب میں ۱۹۹۴ میں یمن میں پیش آنے والے واقعات میں مسلمانوں کے خلاف کمیونسٹوں کی امداد نے تو اس کفریہ نظام کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی ہےاور اسے ایک واضح تناقض میں مبتلاکردیا ہے ۔
اوران کے اس اقدام سے یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی ہے کہ جہاد افغانستان میں کمیونسٹوں کے خلاف ان کی امداد اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ محبت کے باعث نہیں بلکہ اہل مغرب کے مفادات کی وجہ سے تھی ۔اور اگر ایسا نہیں تو پھر بھلا افغانستان میں پائے جانے والے کمیونسٹوں اور یمن میں پائے جانے والے کمیونسٹوں میں کیا فرق ہے؟اس تناقض کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جسے یہ معلوم ہو کہ ان کی سیاست  باہر سے آنے والی مغربی صلیبی قوتوں کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق چلتی ہے البتہ بعض اوقات ان قوتوں کے مقاصد اسلامی مصالح کے ساتھ مل جاتے ہیں جیسا کہ افغانستان میں دیکھنے میں آیا ۔اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی بھی اسلامی تقاضوں اور مغربی مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہوا تو یہ حکومتیں ہمیشہ ان کے حق میں کھڑی ہوئیں۔جیسےصومالیہ اور فلسطین کے معاملہ میں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ ہے کہ :”اے ایمان والویہود ونصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ یہ تو ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔اور تم میں سے جس نے ان کے ساتھ دوستی کی وہ انہی میں سے ہے ۔اوربے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا“(المائدہ:۵۱)
اے فرزندان امت !اسے مسلمانو!کفارتمہارے سیاہ وسفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں ۔اب اپنے اوپر سے ان حکومتوں کے خوف کی چادر اتار پھینکو اور سوائے ایک اللہ وحدہ لاشریک کے کسی  اور سے مت ڈرو ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”یہ تو شیطان ہی ہے جوتمہیں اپنےساتھیوں سے ڈراتا ہےسو ان سےمت ڈرو بلکہ صرف مجھ ہی ڈرو اگر تم واقعی مومن ہو“(آل عمران:۱۷۵)
میں اپنی اس وصیت میں خصوصاً نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہوں گا کہ اسے سعد رضی اللہ عنہ اور خالد رضی اللہ عنہ کے بیٹو!کیا ذلت اور پستی کی کوئی انتہاتمہارے لئے ابھی باقی ہے ؟کیا ابھی تک تمہارے اندرحقیقی شجاعت اور میدان معرکہ کی تڑپ پیدا نہیں ہوسکی؟کیا تمہیں اپنےاسلاف کی طرح اپنے خون سے تاریخ رقم کرنے کا کوئی شوق نہیں ؟کیا تم حوران جنت کےمشتاق نہیں ؟کیا تم نہیں چاہتے کہ جب تم اپنے رب سے ملو تو اس حال میں ملو کہ وہ تم سے راضی ہو ؟اگر تم یہ سب کچھ چاہتے ہو تو پھر تمہارےلئے ہجرت اور جہاد لازم ہے ۔تم بھی ویسے بن جاؤ جیسے اصحاب نبی تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر حج کرنے والے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جبکہ ان میں سے مدینہ منورہ میں دفن ہونے والے دس ہزار سے زیادہ نہیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ باقی سب کہاں گئے ؟ان میں سے اکثر کی  توقبریں تک معلوم نہیں یہ سب لوگ دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے تاکہ ہمارے لئے ایک ایسی تاریخ رقم کرسکیں جو اس سے پہلے کسی امت کو نصیب نہ  ہوئی۔پس نکلو اللہ کی راہ میں !تاکہ اپنی امت کا کھویا ہوا وقار دوبارہ سے لوٹا سکو اور اپنے مقدس مقامات اور کھوئی ہوئی زمینیں دوبارہ حاصل کرسکو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”نکلو چاہے ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اورجانوں کے ساتھ اور اگر سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے “(التوبہ:۴۱)
سو کیا چیز تمہیں گھروں سے نکلنے اور ہجرت اور جہاد سے روکےہوئے ہے ؟کیا تم جہاد سے پیچھے بیٹھ رہنے والے ان علماء کی طرف سے فتووں کے منتظر ہو؟تو جان لو کہ یہ لوگ ہرگز ہرگز فتوے نہیں دیں گے سوائے اس کے کہ اگر اللہ چاہے ۔یا تم ان درباری علماء سوء کی جانب سے فتوے کے انتظار میں بیٹھے ہو جو دین ودنیا دونوں کے فساد کا اصل سبب ہیں ۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہی ان سے بدلہ لے۔ویسے بھی تم لوگ فتووں کے پیچھے کیوں پڑے ہو ؟حالانکہ خود اللہ تعالیٰ ہمیں جہاد کا حکم اور اس کی جانب ترغیب دیتا ہے ۔یا یہ کہ تمہارے اس بیٹھ رہنے اور اس فرض سے فرار کی اصل وجہ یہ دنیاہے ؟اگر ایسا ہے تو میں تم سے کہوں گا کہ کیا ہی گھٹیا چیز ہے جو تم نے اپنے لئے پسندکی ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
”اے ایمان والوتمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں تو تم زمین پر بھاری ہوئے جاتے ہوکیا تم آخرت کے مقابلہ پر دنیوی زندگی پر راضی ہوبیٹھے ہو؟سو دنیا کا یہ  سازوسامان آخرت کے مقابلہ پر تو بہت ہی تھوڑا ہے ۔اگر تم نہ نکلے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ تمہارے علاوہ ایک قوم لے آئے گا ۔اور ایسا کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرر نہیں پہنچاسکتے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔ (التوبہ:۳۹،۳۸)
البتہ جسے اللہ تعالیٰ کا کلام بھی قائل نہ کرسکے اور وہ  اس کےبعد بھی ماننے پر آمادہ نہ ہو تو پھر ایسے شخص کو سمجھانے والا کوئی نہیں ۔اے اللہ میں تیرے سامنے ان کافر حکام اور طواغیت اور ان کے طرز عمل سے اعلان براء ت کرتا ہوں ۔اور ان علماء کے عمل سے جنہوں نے امانت کا حق ادا نہ کیا اپنی معذرت پیش کرتا ہوں۔
یااللہ کیا میں نے اپنی طرف سے پہنچا نہ دیا ؟یا اللہ تو ا سپر گواہ رہنا ۔اے اللہ ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس سبب سے کہ ہم یہ  گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ایک اکیلا واحد ہر ایک سے بے نیاز معبود ہے  جس کی نہ کوئی اولاد ہے  اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور جس کا کوئی ہمسرنہیں۔اے حّی ! اے قیوم !اے صاحب  جلالت واکرام !اے کہ جس نے عاد کو ہلاک کیا اور ثمود کو بھی کہ اس کا کچھ بچاہی نہیں اور ان بستیوں کو کہ جنہیں الٹادیا گیا۔اے اللہ ان امریکی اور صہیونی یہود ونصاریٰ کو تباہ  وبرباد کردے !اے اللہ ہمیں ا ن کے اوپر اپنی تلواروں میں سے ایک تلوار بناکر مسلط فرمادے!اے اللہ انہیں ہمارے ہاتھوں قتل فرما!او ر ہمیں ان کی تباہی کا باعث بنادے! اے اللہ تو ہمارے خون کو اپنے دین کی نصرت کے لئے قبول فرمالے!اور اسے اہل ایمان کے سینوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنادے ! اے ہمارے رب تو ہم سے قبول فرمالے !بے شک تو سننے والا علم رکھنے والا ہے  ۔اور رحمت اورسلامتی ہو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اور ہر اس شخص پر جس نے ان کی پیروی کی ۔اور ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہیں۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوجاؤ
من صالح دعائکم
ادارہ السحاب برائے نشر واشاعت
۱۴۲۸ہجری



٭           ‫‏ہمارے مجاہد بھائی نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب الشیخ سلمان العودۃ، سفر الحوالی نےاپنے آراء کو تبدیل نہیں کیا تھا اور انکا نیا کردار واضح نہیں ہوا تھا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔