Friday, October 7, 2011

Innal quwwat al rammi


مکمل تحریر  »

’’ معصوم افراد‘‘ سے کیا مراد ہے؟
’’ معصوم افراد‘‘ سے کیا مراد ہے؟’’معصوم ‘‘سے لازماً ان تینوں معانی میں سے کوئی ایک مراد ہو گا:
۱۔ وہ لوگ جنہوں نے نہ تو اپنی ریاست کے ساتھ مل کر قتال کیا،نہ ہی بدن،مال رائے ، مشورے یا کسی اورذریعے سے قتال میں معاونت کی:
یہ لوگ اگر دیگر افراد سے علیحدہ اور قابلِ تمیز رہیں تو ان کا قتل جائز نہیں،البتہ اگر یہ دوسرے لوگوں میں گھل مل جائیں تو محاربین کو نشانہ بناتے ہوئے ان کا ضمناً مارا جانا جائز ہے؛مثلاًبوڑھے، عورتیں، بچے، مریض، معذور، اور تارک ِدنیا راہب۔ابنِ قدامہ فرماتے ہیں:
’’عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر نشانہ نہ بنایا جائے،لیکن اگر رات کے حملے میں یا محاربین میں گھلے ملے ہونے کی وجہ سے وہ مارے جائیں تو جائزہے ۔ اسی طرح دشمن کو قتل کرنے یا پچھاڑنے کی غرض سے ان کے جانوروں )اونٹ، گھوڑے وغیرہ( کا قتل جائز ہے۔اس رائے سے کسی کو اختلاف نہیں ۔‘‘ )المغنی و الشرح:10۔ (503
آپ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ
’’شب خون مارنا جائز ہے۔‘‘
امام احمد بن حنبلکی رائے بھی یہی ہے کہ
’’ شب خون مارنے میں کوئی حرج نہیں اور غزوۂ روم بھی تو شب خون ہی تھا۔‘‘
آپنے یہ بھی فرمایا ہے کہ
’’ہمارے علم میں نہیں کہ کسی نے شب خون کو ناپسند کیا ہو۔‘‘)المغنی و الشرح:10۔ (503
۲۔وہ لوگ جنہوں نے اپنی محارب ریاستوں کی جانب سے جنگ میں عملاً شرکت تو نہیں کی ،لیکن اپنے مال اور مشوروں سے جنگ میں معاونت کی:
یہ لوگ ’’معصوم ‘‘اور’’بے گناہ‘‘ شہری نہیں،بلکہ محاربین ہی میں سے ہیں اور فوج کی پچھلی صفوں اور کمک فراہم کرنے والے مددگار و معاونین میں شمار کئے جائیں گے۔
ابنِ عبدالبر) الا ستذکار میں( لکھتے ہیں :
’’اس بات پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو عورتیں اور بوڑھے جنگ میں شریک ہوں ان کا قتل مباح ہے، نیز جو بچے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور پھر عملاً لڑیں بھی ،تو ان کا قتل بھی جائز ہے۔‘‘ )الاستذکار: 14۔ (74
ابنِ قدامہنے ان عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کے قتل کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے جو جنگ میں اپنی قوم کی مدد کریں۔ابنِ عبدالبرکا قول ہے کہ
’’اس بات پر اجماع ہے کہ حنین کے دن رسول نے درید بن الصمۃ کو اس لیے قتل کروایا کہ وہ صاحبِ رائے تھا اور اپنے مشوروں اورجنگی چالوں کے ذریعے فوج کی مدد کرتا تھا۔لہٰذا جو بوڑھا بھی اس طرح جنگ میں شریک ہو،سب علماء کے نزدیک اس کا قتل جائز ہے۔‘‘)التمھید: 16۔ (142
امام نووینے شرحِ مسلمکے باب الجہاد میں صاحبِ رائے بوڑھوں کو قتل کرنے پر اجماع نقل کیا ہے۔ابنِ قاسمنے ’الحاشیۃ‘ میں نقل کیا ہے کہ
’’اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جنگ میں بذاتِ خودبلاواسطہ شریک ہونے والے اور پچھلی صفوں میں رہتے ہوئے بالواسطہ شریک ہونے والے کا شرعی حکم ایک ہے۔‘‘
یہ اجماع امام ابنِ تیمیہنے بھی نقل کیا ہے ۔نیزامام ابنِ تیمیہ کی یہ رائے بھی منقول ہے کہ
’’دشمن فوج کے ساتھی و معاونین بھی حقوق اور ذمہ داریوں میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔‘‘
۳۔وہ لوگ جو مسلمان ہوں:
ان کا قتل صرف اس وقت جائز ہے جب وہ دشمن کے ساتھ یوں گھل مل جائیں کہ انہیں مارے بغیر دشمن کو مارنا ممکن نہ ہو۔اس موضوع پر تفصیلی گفتگو مسلمان قیدیوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کے مسئلے میں گزر چکی ہے۔
لہٰذا وہ لوگ جو بلا سوچے سمجھے’’ معصوم‘‘ اور ’’بے گناہ افراد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور ایسے سب لوگوں پر حملہ کرنے کو ہر حال میں ناجائز قرار دیتے ہیں،دراصل مغربی میڈیا کی عطا کردہ اصطلاحات کو بلا تنقید من وعن قبول کر کے دہرا رہے ہیں،حالانکہ یہ شرعی اصطلاحات نہیں اور بعض اوقات یہ شریعت سے متصادم بھی ہوتی ہیں۔
ایسے لوگوں کے لئے ایک جواب یہ بھی ہے کہ شریعتِ اسلامی ہمیں کفار کے ساتھ وہی معاملہ کرنے کی اجازت دیتی ہے جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا ہو)معاملۃ بالمثل(۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ )النحل: (126
)اور اگر تم بدلہ لو ،تو اتنا ہی لینا جتنی زیادتی تم پر کی گئی تھی(
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا)الشوریٰ: (40
) اور برائی کا بدلہ اسی کے برابر کی برائی ہے(
انتقام با لمثل کے جواز پر علماء کی آراء:
ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں:
’’زیادتی کے برابر انتقام لینا مجاہدین کا حق ہے۔چنانچہ وہ چاہیں تو بطور بدلہ انتقام لیں اور چاہیں تو بخش دیں۔جہاں بدلہ لینے سے جہاد کے مقاصد کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور نہ ہی کفار کے لیے باعثِ عبرت بن سکے، وہاں صبر کرنا ہی افضل ہے۔البتہ اگر بدلہ لینا کفار کو دعوتِ ایمان دینے یا ان کی سرکشی توڑنے کا باعث بنے تو ایسے میں انتقامی کاروائی حدود اللہ کے قیام اور جہادِ اسلامی کا تقاضا ہے۔یہ رائے ابنِ مفلح نے ’الفروع‘ میں نقل کی ہے۔‘‘6)۔ (218
’’معصوم‘‘ اور ’’بے گناہ‘‘ کی اصطلاح کو بلا قید و تخصیص استعمال کرنے کا لازمی نتیجہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺکے صحابہپر)نعوذ باللہ( معصومین کے قاتل ہونے کی تہمت لگانا ہے،کیونکہ آپ ﷺنے اہلِ طائف پر حملے کے لئے منجنیق نصب کی، حالانکہ منجینق اپنی ماہیت کے اعتبار سے ایک ایسا ہتھیار ہے جو’’ معصوم‘‘ اور ’’غیر معصوم‘‘ میں تمیز نہیں کر سکتا۔اسی طرح آپ ﷺنے’’ معصوم‘‘ اور’’ غیر معصوم‘‘ کی مغربی تقسیم کے برعکس بنوقریظہ کے تمام بالغ مردوں کو قتل کروایا۔
ابنِ حزم’المحلی‘ میں درج ذیل حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حدیث:
عُرِضْتُ یَوْمَ قُرَیْظَة عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَکَانَ مَنْ اَنْبَتَ قُتِلَ
)مجھے )بھی( قریظہ والے دن رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش کیا گیا، پس )اس دن بنو قریظہ کا( ہر بالغ مرد قتل کر دیا گیا(
تشریح:
’’ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل ہمیں ایک عمومی اصول عطا کرتا ہے جس کی لپیٹ سے کوئی مزدور، تاجر، کسان یامعمر فرد محفوظ نہیں رہ سکتا۔اور اسی پر علماء کا اجماع بھی ہے۔‘‘)المحلی7۔(299
ابنِ قیم(رح) زادالمعاد میں لکھتے ہیں:
’’نبی ٔ کریم ﷺکا طریقہ یہی رہا ہے کہ جب آپ کسی قوم سے صلح یا معاہدہ کرتے اور وہ قوم یا اس کے کچھ لوگ معاہدہ توڑ ڈالتے اور قوم کے باقی افراد اس نقضِ عہد کی تصدیق کرتے اور اس پر راضی رہتے تو آپ ﷺان سب کو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا شمار کر کے سب کے خلاف جنگ کرتے، جیسا کہ آپ ﷺنے بنی قریظہ،بنی نضیر، بنی قینقاع اور اہلِ مکہ کے خلاف غزوات میں کیا۔عہد شکنی کرنے والوں کے بارے میں یہی آپ ﷺکی سنت ہے۔‘‘
آپنے یہ بھی لکھا ہے کہ
’’ابنِ تیمیہنے مشرق کے عیسائیوں کے خلاف جنگ کرنے کا فتویٰ دیا، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے دشمنوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مال اور اسلحہ فراہم کیاتھا۔ ابنِ تیمیہنے عیسائیوں کے اس فعل کو عہد شکنی گردانا، حالانکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ جنگ نہیں لڑی تھی ، کیونکہ نبی ﷺنے بھی قریش کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا تھا جب انہوں نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے کے خلاف بنی بکر بن وائل کی مدد کی تھی۔‘‘
|||

مکمل تحریر  »

Thursday, October 6, 2011

بنیان منصوص

مکمل تحریر  »

اللہ کی راہ میں


مکمل تحریر  »

Tuesday, September 20, 2011

بسم الله الرحمن الرحيم

تحریکِ طالبان پاکستان کفر کے ایک سرغنہ کے خلاف شہیدی کاروائی

{الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا} [النساء : 76]

"جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، و ہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں"

الحمد للہ رب العالمین. والصلاة والسلام علی نبیہ الکریم، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین. أما بعد:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے تحریکِ طالبان پاکستان کے شیروں میں سے ایک شیر نے اپنی جان اللہ کےہاتھ بیچ دی،اس چیز کے عوض جو اللہ کے پاس ہے.....دھماکہ خیز مواد سے بھری اپنی گاڑی، دنیا میں اللہ کی غلیظ ترین مخلوقات میں سے ایک مخلوق کے گھر سے ٹکرا دی - مرتد چودھری اسلم خان - سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اور کراچی میں کریمینل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) میں اینٹی ٹیررازم (انسدادِدہشت گردی ) یونٹ کا سربراہ۔
یہ خبیث مرتد ، مجاہدین کے اہم ترین اہداف میں سے ایک تھا...... اللہ کے ان دوستوں کے خلاف اپنے گھناؤنے جرائم کی وجہ سے جو صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے سوا کچھ نہیں چاہتے تھے۔
ہم اس نجس مرتد مخلوق سے کہتے ہیں:

تمہارے گھر پر تمہارے اہلِ خانہ کے درمیان تمہاری موجودگی کے دوران تم پر حملہ کرنے پرتم نے ہمیں بزدل کہا ہے ، کیا یہ خودتم نہیں ہو جو مجاہدین پر رات کی تاریکی میں ان کے گھروں پر حملہ کر کے ان کے اہل و عیال کے درمیان سے انہیں اچک لیتے ہو اور پھر انہیں اپنے عقوبت خانوں کے اندھیروں میں اپنے خدا فراموش سخت اور تند خوجلادوں کے تشدد کے تحت رکھتے ہو؟

تم نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم ہندووں سے بھی بڑھ کر کافر ہیں، تو تمہارے بارے میں کیا حکم لاگو ہوتا ہے جبکہ تم طاغوت کے پجاری ہو اور اس کی راہ میں لڑ رہے ہو؟
یقیناً اب تمہیں جان لینا چاہیئے کہ جب مجاہدین کوئی دھمکی دیتے ہیں تو ہم اس پر آخر تک عمل درآمد کرتے ہیں۔ اور جان لو کہ ہم تم جیسوں سے لڑتے تھکتے نہیں اور نہ ہی ہم تمہارے سروں کو تن سے جدا کرنے کے لئے ایسی کاروائیوں کو بار بار دہراتے ہوئے مایوس ہوتے ہیں، اگر تم اس مرتبہ بچ گئے ہوتو جان لے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ تو محض معرکے کا ایک دورہ تھا، کہ یقیناًاللہ ظالم کو مہلت دیتا ہے تا کہ وہ اور گناہ اکٹھے کر لے، پس رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (یعنی دنیا میں اس کی عمر دراز کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ظلم کا پیمانہ لبریزکرے اور آخرت میں سخت عذاب میں گرفتار ہو) یہاں تک کہ جب اس کو پکڑے گا تو چھوڑے گا نہیں (اور وہ ظالم اس کے عذاب سے بچ کر نکل نہیں پائے گا)۔‘‘ اور جان لے اے اللہ کے دشمن کہ جو لوگ اپنی جانیں اللہ کی خاطر لٹانا چاہتے ہیں اور اللہ کے دشمنوں کی کھوپڑیوں کو کچل ڈالنا چاہتے ہیں ، اللہ کے فضل سے تعداد میں بہت ہیں، پس تم مزید کاروائی کے لئے خبردار ہو جاؤ جو ان شاء اللہ تمہیں تباہ و بربادکر کے رکھ دے گی۔
اللہ کی قسم، اے اللہ کے دشمن ہمیں اس وقت تک قرار نہیں آئے گا اور نہ ہی ہمیں ذہنی سکون حاصل ہو گا جب تک ہم اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کا بدلہ نہ لے لیں جنہیں تم نے ان کے گھروں سے نکالا اور ان کی عزتوں کو پامال کیا اور انہیں بے پردہ کیا۔

وہ سب جو طواغیت کی حمایت کرتے ہیں، ہم ان سب سے کہتے ہیں: یقیناً تم اللہ کے عذاب کا مزہ چکھو گے، چاہے مجاہدین کے ہاتھوں یا اللہ کی طرف سے۔ پس اپنے کفراور ارتداد سے توبہ کرلو قبل اس کے کہ موت تم کواچانک آ پکڑے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ کفار اور مرتدین کے لئے اپنی حمایت ترک کر دو اور اللہ اور اس کی شریعت کے مددگار بن جاؤ۔
ہم مسلمانانِ پاکستان کو کہتے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے مجاہدین پولیس، فوج، اور سیکیورٹی ایجنسیز کو ہدف بناتے رہیں گے ،اور ان کے علاوہ ان سب کو بھی جو اسلام کے خلاف جنگ میں صلیبیوں اور مرتدین کے مددگارہیں۔ بلا شبہ یہ خبیث، اللہ کے نیک بندوں سے لڑتے ہیں اور کفار اور ان کے دوستوں کی مدد کرتے جو مسلمانوں کے اموال کی لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں اور ان کی عزتیں پامال کر رہے ہیں۔ یہ کفر اور اہلِ کفر کی حمایت کے لئے اور اسلام اور اہلِ اسلام سے لڑنے کے لئے نصب کیے گئے ہیں، اور یہ طواغیت کے سپاہی ہیں جو عوام پر دباؤ ڈالتے ہیں، اور ان کو ذلت اور جبر کا شکار بناتے ہیں ، اورجبکہ قاتل،آبرو ریز، اور لٹیرے پاکستان کی سڑکوں پر بدمعاشی سے دندناتے پھرتے ہیں تا کہ زمین میں فساد پھیلائیں۔

یقیناً یہ تمہارے حقیقی دشمن ہیں، نہ کہ تمہارے مجاہدین بھائی، جنہوں نے اپنے گھروں کے آرام کو، اپنی دولت کو، اپنے امن کو، اور اپنی جانوں کو اسلام اور مسلمانوں کے دفاع پر قربان کر رکھا ہے۔ پس اپنے دوستوں کو جانیں اور اپنے دشمنوں کو پہچانیں، اور مجاہدین کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں اور اللہ کے مقصد کی تکمیل میں اپنا حصہ شامل کریں۔
اور جو لوگ مسلمان عوام میں سے قتل ہوئے تو ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ انہیں شہداء میں قبول فرمائے، اور ہم مسلمانوں پر یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ طواغیت ان بے گناہوں کے قتل میں سب سے پہلے ذمہ دار ہیں کیونکہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور یہ نشانہ بنائے جا رہےہیں ، پھر بھی یہ جان بوجھ کر عوام کے درمیان رہائش اختیار کرتے ہیں تا کہ معصوم مسلمانوں کو مجاہدین کے حملوں کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کریں۔
لہٰذا ہم تمام مسلمانوں کو تاکید کرتے ہیں کہ دشمن کے گرد ونواح سے حتی الامکان اجتناب کریں تا کہ مجاہدین کے حملوں سے محفوظ رہیں۔

ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ(اے اللہ!) اس با شرف شہسوار کو قبول فرمائیں، کہ جس نے اپنی جان آپ کے آگے ، آپ کی خاطر اور آپ کے مقصد کی تکمیل کے لئے بیچ دی، اسے شہداء میں اٹھائیں اور اس کا خون اپنے نقشِ قدم پر پیچھے آنے والوں کے لئے روشنی اور کفار اور مرتدین کے لئے آگ بنا دیں۔

الحمد لله رب العالمین وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.


﴿وَ لِلّه العِزَّةُ وَ لِرَسُوله وَ لِلمؤُمِنِینَ وَلکِنَّ المُنَفِقِینَ لَایَعلَمُونَ﴾

سنو! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمانداروں کے لئے ہے لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔ (المنافقون: ۶٣)

مرکزی اِدارہ برائے نشرواِشاعت
تحریکِ طالبان پاکستان
۲١/١۰/١۴۳۲

-------------------
إنجليزي

بسم الله الرحمن الرحيم



Tehrik-e-Taliban Pakistan Martyrdom Operation
against a Leader of Kufr



الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَان إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ﴾

Those who believe fight in the cause of Allah, and those disbelieve fight in the cause of Taghoot: So fight ye against the friends of Satan: feeble indeed
is the cunning of Satan.

All Praise be to Allah, and may peace and blessings be upon the final Prophet, Muhammad, and all his family and companions. To proceed:
By the Guidance and Grace of Allah, a lion from the lions of Tehrik-Taliban Paki-stan sold his soul to Allah in hopes of Paradise, slamming his explosive-laden vehicle into the house of one of the filthiest creatures in the world, the apostate Chaudhry Aslam Khan, Senior Superintendent of Police (SSP) and the head of the Anti Terrorism Unit of the Criminal Investigation Department (CID) of Kara-chi.

This filthy apostate was one the most wanted targets of the Mujahideen, due to his atrocities against the beloved slaves of Allah who sought nothing other than to raise His Word.
We say to this filthy apostate creature: You call us cowards for attacking you in your home with your family…aren’t you the one who snatches the Mujahideen from their families from their homes in the midst of night, locking them in your dungeons with your godless executioners?
You call us worse than Hindus… while it is you who are a worshipper of Satan and his army, fighting for him and his cause.

Indeed now you should know that when the Mujahideen make a threat, they fol-low it through. Know that we are a people who never tire from killing your likes, and we do not despair from repeating the likes of this operation to pluck your rotten head. If you were spared this time, know that the war has not ended, and indeed the Allah grants respite to the oppressor, as the Prophet () said, “Indeed Allah grants respite to the oppressors until the time comes for Him to take him, and when He does, He does so ever-so severely.”

Know, O enemy of Allah, that there are many who wish to sacrifice themselves and tear apart their bodies in your pursuit, so beware of more operations to come which will do away with you for good, Allah willing!
Know, you enemy of Allah, that we will never rest nor find peace of mind until we exact retribution for your crimes against our brothers and sisters who you steal from their homes and make naked.
We say to all those who support the Tawagheet: Indeed you will taste the wrath of Allah, whether at the hands of the Mujahideen or at the Hands of Allah. Repent from your infidelity before death strikes you suddenly, and stop your support the infidels and the Tawagheet and become supporters of Allah and His Shariah.

We say to the Muslims of Pakistan, that the Mujahideen of Tehrik-e-Taliban Pakistan will continue to target the police, the army the security agencies, and all others who are allied with the West in their Crusades against Islam. Indeed these filthy creatures fight the beloved slaves of Allah, while the infidel West and their slaves plunder Muslim life, land and wealth. Their only job is to guard the West and their interests and to fight Islam and Muslims. They are the soldiers of the Tawagheet who suppress, subjugate and humiliate the Muslims of Pakistan, while killers, rapists and robbers are left to run amok and wreak havoc in the streets of Pakistan.
Indeed these are your true enemies, not your brother Mujahideen, who have sacrificed the comfort of their homes, their wealth, their security and their lives in defense of Islam and Muslims. Know your friends and know your foes, and join hands with the Mujahideen and aid the Cause of Allah.
As for those who were killed of the general Muslim public in this operation, we ask Allah to raise them amongst the martyrs, while we emphasize that these Tawagheet are the first and foremost to be held responsible for their death, as they intentionally choose to live amongst the general masses, while they know that they have received threats and are being targeted, only to use innocent Muslims as human shields from the attacks of the Mujahideen.

Thus, we advise all Muslims to stay clear from all areas of enemy presence, so that they do not become collateral damage in the attacks of the Mujahideen.

We ask Allah to accept this noble lion, who sold his soul to You in Your defense and cause. Raise him from the martyrs, and make his blood a source of guidance for those after him, and fire for the infidels and apostates.

May peace and blessings be upon his Prophet Muhammad, and all praise be to Allah, the Lord of all that exists


﴿وَ لِلّه العِزَّةُ وَ لِرَسُوله وَ لِلمؤُمِنِینَ وَلکِنَّ المُنَفِقِینَ لَایَعلَمُونَ﴾

”And all honor, power and glory belong to Allah, to His Messenger, and to the believers, but the hypocrites know not.”


The Media Department - Central
Tehrik-e-Taliban Pakistan
21/10/1432


-------------------

البيان بالعربية و الأرودية و الإنجليزية

للتحميل


الروابط
winrar
1.5 MB

http://mir.cr/AGRJ34YS
http://mir.cr/0WXOGSHY
http://mir.cr/P5TBBBVB
http://www.multiupload.com/CPD81KFWZ3

-----------------------

المصدر : (مركز صدى الجهاد للإعلام)
الجبهة الإعلامية الإسلامية العالمية

رَصدٌ لأخبَار المُجَاهدِين وَ تَحرِيضٌ للمُؤمِنين

مکمل تحریر  »

Monday, August 15, 2011

مدینہ کی معصوم شہزادی---

مدینہ کی معصوم شہزادی---
از طاہر نقاش
کیا دور آ گیا ہے، جسے دیکھو وہی سر ، سرگم اور سنگیت کا متوالا ہے، کانوں میں ہیڈ فون پھنسائے اپنی ہی ترنگ میں مگن جھوم رہا ہے۔ گھر سے دفتر روانہ ہوتے ہوئے میں نے بھی دیکھا دیکھی اپنے موبائل کے ساتھ ہینڈ فری لگائی، کانوں میں ہیڈ فون کے سپیکر ایڈجسٹ کئے اور پلے کرنے کے بعد اپنی بائیک کے گھوڑے کو ایڑ لگا کر ہواں کے دوش پر محو سفر ہو گیا.... دفعتاً کانوں میں ایک مانوس و معروف ترانے کی آواز گونجی....

میرے زندان کے ساتھی کہیں تم بھول نہ جانا اذیت کے کٹہروں میں جو ہم نے دن گزارے تھے
جوں جوں ترانے پر غور کرتا گیا.... بائیک کی رفتار کم ہوتی گئی اور صرف 20 کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی.... اب موٹرسائیکل رینگ رہی تھی جبکہ میری آنکھوں نے.... تیز رفتاری کے عالم میں.... گرم گرم آنسوں کی.... رم جھم رم جھم بارش برسانا شروع کر دی تھی....آنسو پلکوں کا مضبوط حصار توڑ کر شبنم کے چمکتے دمکتے موتیوں کی مانند، مگر تندو تیز سیلاب کی طرح.... موسلا دھار بارش بن کر برس رہے تھے، میرے دل کے آسمان کا موسم یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔ دریائے راوی کے پل پر پہنچنے پر میں نے بائیک ایک سائیڈ پر کھڑی کی، ترانہ بند کیا، چہرے کو رومال سے صاف کیااور کچھ دیر اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کے بعد دوبارہ چل پڑا۔ ایسا کیوں ہوا؟ آج وہ راز میں آپ کو بتا دوں جو مجھے صداقتوں کے پاسبان، عزیمتوں کے نگہبان اور اخوتوں کے ترجمان ایک غازی و مجاہد نے سونپا تھا۔ ٹھہریے! ابھی گوش گزار کرتا ہوں آپ کی خدمت میں وہ راز.... لیکن.... کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس وقت کافروں کی قید میں امت مسلمہ کے کیسے کیسے قیمتی ہیرے اور گوہر پارے، اذیتوں کی داستان اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں اور عقوبت خانوں میں کفار کی سفاکیت، ظلم و جبر، درندگی اور ہولناکی کا شکار ہو کر بے یارومددگار گمنامی میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، ان کی اذیتوں و تکلیفوں کا ہمیں کچھ علم بھی نہیں اور فکر بھی نہیں کہ کون کہاں سے آیا.... کہاں پکڑا گیا.... کہاں لے جایا گیا، اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا.... آخر اس کا کیا بنا.... اور اب وہ کہاں ہے....؟ ایسی ہی ایک شام تھی، افغانستان کی ایک سنسان سڑک پر ڈاٹسن گاڑی اندھیرے کا سینہ چیر کر آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اس میں دو ایسے مسافر بھی تھے کہ جنہیں امت محمدﷺ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ وہ سلطان مدینہ، سرور قلب و سینہ، آقائے دو جہاں کے شہر مدینہ کے رہنے والے تھے۔ لیکن پھر بھی کوئی ان کو اپنانے، اپنے پاس بٹھانے یا ان کی بات سننے کے لئے تیار نہ تھا.... شہر مدینہ کے دونوں باسی 17 اور 16 سالہ بھائی بہن انجانی منزلوں کی جانب رواں دواں تھے گاڑی کی ایک سائیڈ میں سہمے سہمے، ڈرے ڈرے خوف زدہ بیٹھے تھے۔ اس لئے کہ ان کا عظیم باپ ایک مجاہد تھا.... کہ جس نے نہتے افغانی مسلمانوں پر امریکی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا ”جرم“ کیا تھا، کافروں سے ڈرنے والی امت ان دومدنی مہمانوں کو اپنے ہاں رکھنے سے انکاری تھی.... اور وہ جائے پناہ کے لئے انجانی منزلوں کی تلاش میں سرگرداں، اس گاڑی میں سوار روشن منزل کی امید میں آگے بڑھ رہے تھے۔ اچانک ایک دوراہے پر فوجی کھڑے نظر آئے، انہوں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی روکی گئی.... ”ہمیں مخبری ہوئی ہے کہ اس گاڑی میں عربی موجود ہیں“ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے سب کو نیچے اتار دیا، پروقار چمکتے دمکتے روشن چہرے والے سرخ و سفید رنگت کے حامل اس موٹی آنکھوں والے 17 سالہ جوان نے اپنی بہن کو نیچے اتارا اور مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ سب کی تلاشی لی جانے لگی، تلاشی لینے والوں کے سروں پر امریکی فوجی سایہ بنکر کھڑے سب کو غور سے کھا جانے والے انداز میں دیکھ رہے تھے۔ سب کی تلاشی مکمل ہو گئی تو انہوں نے 16 سالہ عرب شہزادی کو علیحدہ کرنے کا اشارہ کیا۔ ایک فوجی اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف لے جانے لگا۔ بہن پکاری: اخی عبدالعزیز .... بھائی عبدالعزیز یہ کیاہے.... مجھے بچا.... بھائی نے بہن کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور.... فوجی کے ہاتھ سے اس کا ہاتھ چھڑا کر دریافت کرنے لگا: کیا بات ہے؟ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ اسے باقی لوگوں کی طرح کیوں نہیں چھوڑ رہے؟ اسے کیمپ کی طرف کس جرم میں لے جایا جا رہا ہے.... فوجیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ اس کو زور لگا کر کھینچنے لگے لیکن عبدالعزیز چھوڑ نہ رہا تھا اور ہر طرح سے پردہ میں ملبوس بہن بھی بھائی کی طرف لپک رہی تھی، فوجی زور لگا رہے تھے لیکن دونوں کے مضبوطی سے پکڑے ہاتھ نہ چھڑا سکے۔ اوپر کھڑے امریکی ظالم کی غصے بھری ہدایت کی آواز گونجی تو دو فوجیوں نے عبدالعزیز کے بازو پر زور دار قوت سے گن کے بٹ مارے.... اب وہ درد سے کراہتے ہوئے بہن کی طرف بڑھ رہا تھا.... اور پکار رہا تھا.... فاطمہ، فاطمہ، فاطمہ.... تو پتہ چلا کہ مدینہ کی شہزادی، جو ضمیر فروشوں کے ہاتھ آن پھنسی تھی، اس کانام فاطمہ تھا۔ ہاں ہمارے آقا محمد عربیﷺ کی بیٹی کا نام بھی فاطمہ ہی تھا.... ہم سپین میں عیسائیوں کی بیٹی کی عزت بچانے کے لئے اپنی جانوں پر کھیل گئے تھے۔ لیکن یہاں کوئی آگے نہ بڑھا جو فاطمہ کو ان ظالم امریکیوں سے بچاتا، سب دم سادھے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے.... جبکہ فاطمہ چیخ رہی تھی، اخی الکریم.... اخی الکریم!.... میرے عظیم بھائیو!.... اپنی کمزور و ناتواں بہن کو بچالو.... اگلی بات بتانے سے پہلے ایک اور بات بتا دوں کہ محمد عربیﷺ کے دیس کی رہنے والی اس امت مسلمہ کی بیٹی فاطمہ کی شان دوسرے لوگوں سے نرالی تھی۔ کیوں؟ 16سال کی بالڑی عمر میں اکثر لڑکیاں رنگین گلابی نیلے پیلے سپنوں کے تانے بانے بنتی ہیں.... آئیڈیل کے حسین خواب دیکھتی ہیں.... اپنے روشن مستقبل کے سہانے محل تعمیر کرتی ہیں ....اور کچے گھروندوں کی طرح مسمار کر کے نت نئے تخیلات پر مبنی نئے گلشن آباد کرتی ہیں.... ان کے سینے سلگتے، ارمانوں مچلتی امنگوں آرزوں، خواہشوں اور فرمائشوں کا گہوارہ ہوتے ہیں لیکن اس معصوم فاطمہ کا سینہ بھی معمور تھا، بھرپور تھا، دل بھی مسرور تھا، کس چیز سے!!؟ آج تک تو سنتے آئے ہیں کہ فلاں کے سینے میں قرآن جیسی عظیم الشان کتاب محفوظ ہے.... لیکن آپ یہ سن کر خوشگوار حیرت میں موجزن ہو جائیں گے کہ اس کے سینے میں قرآن کے بعد دوسری اہم صحیح مقدس کتاب بخاری شریف بھی محفوظ تھی۔ اسے بخاری شریف کی حافظہ ہونے کا اعزاز حاصل تھا.... یعنی اس کے سینے میں قال قال رسول اللہ(ﷺ) کے خزانوں کا بے پایاں سمندر موجزن تھا.... اس کا پاکیزہ سینہ احادیث رسول کے انمول مجموعے (بخاری شریف) کے انوار سے منور تھا.... جب اس سے فرمائش کی جاتی وہ قرآن سنانے لگتی اور جب کہا جاتا وہ بیٹھے ہی بیٹھے جونہی احادیث کا مطالبہ ہوتا وہ پڑھنا شروع کر دیتی.... لیکن بیٹی تھی امت محمد کی.... کتنی چھوٹی عمر میں اللہ نے اس پاکیزہ بندی کو کتنا بڑا رتبہ عطا کر دیا تھا....کیا قابل عمل نمونہ تھا، اس کی زندگی کا.... ہر وقت اس کی زبان قرآن اور احادیث کے انوار سے رطب اللسان رہتی۔ یہ عظیم بیٹی.... معصوم بہن.... پکار رہی تھی.... اخی الکریم.... اخی الکریم.... بھائیو! مجھے بچا.... امت محمد کے غیور فرزندو! مجھے بچا لو، لیکن نہ صرف وہاں موجود گاڑی کے مسافر بے حس تھے بلکہ ....پوری امت مسلمہ بھی گونگی بہری اور اپاہج ہو چکی تھی.... کوئی نہ تھا جو درندوں کے دست و بازو کاٹ کر اس کو آزاد کراتا۔ آگے بڑھتے عبدالعزیز کو امریکی درندوں نے .... بہن کے سامنے .... سر میں بٹ مار مار کر لہو لہان کر دیا اور بیہوش کر کے زمین پر گرا دیا تھا ....جبکہ فاطمہ یہ جانکاہ منظر دیکھتے ہی بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی اور صلیبی درندے اسے اٹھا کر لے گئے۔ پھر انہوں نے آرڈر کیا کہ سب لوگ بھاگ جائیں لہٰذا ڈاٹسن کا انجن سٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور گاڑی فرائے بھرتی ہوئی تاریکیوں میں غائب ہو گئی۔ فاطمہ بہن امت کی بیٹی کہ چشم فلک نے ایسی عظیم پاکباز پاکیزہ بیٹی کا مشاہدہ کبھی نہ کیا ہو گا۔ آج اس عظیم بہن کی یاد اس ترانے کی وجہ سے ایک بار پھر میرے دل کے نہاں خانوں میں چلی آئی تھی.... میں سوچ رہا ہوں، کیا بنا ہو گا، ہماری اس بیٹی کا.... اس بہن کا، کیا سلوک کیا ہو گا، اس کے ساتھ صلیبی درندوں نے، کیا کیا ظلم و جبر کے چرکے لگائے ہوں گے، کیا اسے ابو غریب یا، افغانستان کی کال کوٹھڑیوں میں، یا پھر گوانتانامو کے اذیت خانوں میں پہنچا دیا گیا ہے.... کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا قرآن و حدیث کے انوار سے منور اس کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ....میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو ایک فاطمہ ہے کتنی ہی امت مظلومہ کے عبدالعزیز اور فاطمائیں، عافیہ صدیقی جیسی بہنیں سسک سسک کر بے نام موت مر رہی ہیں جبکہ ہمیں نہ علم.... نہ احساس اور نہ ہی ان کی رہائی کی پریشانی مدد کے اپنے فریضے کا ادراک ہے.... کیا ایسے لوگوں میں ....محمد بن قاسم اور ....طارق دوبارہ جنم لے سکتے ہیں؟

مکمل تحریر  »

ایک انصاری ماں کے آنسو



مکمل تحریر  »

Thursday, August 11, 2011

عصر حاضر کے 20 گمراہ کن ترین فتوے

عصر حاضر کے 20 گمراہ کن ترین فتوے

شیخ حامد العلی

1) دورِ حاضر کے اندر جہاد کو معطل ٹھہرا دینے کا فتویٰ؛ اِس بنیاد پر کہ امت اب اِس پوزیشن میں نہیں رہی کہ جہاد کرے! اِس مضمون کے فتووں کی بھرمار آپ کو خاص اُس وقت نظر آئے گی جس وقت بیرونی استعمار عالم اسلام پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہا ہو! تاکہ اُس کا کام ہمارے اِن ملکوں کے اندر آسان ہو سکے! سب سے پہلے جس ہستی کو عالم اسلام میں یہ فتویٰ دینے کی 'سعادت' حاصل ہوئی ہے وہ ہے بدنامِ زمانہ مرزا غلام احمد قادیانی۔ اور دور تھا: برطانوی استعمار، جوکہ اُس وقت مسلم ہند کے اندر اپنے پیر مضبوط کر رہا تھا۔ اسلام کے نامور علماءنے اللہ کے فضل سے عین اُسی وقت مرزا قادیانی کے اِس فتویٰ کے بخیے ادھیڑے تھے اور امت کے حق میں اس فتویٰ کی خباثت اور سنگینی واضح کی تھی۔

2) یہ فتویٰ کہ مسلم سرزمینوں پر کافر قوتوں کا اپنا تیر وتفنگ لا کر دھر دینا ایک جائز و شرعی امر ہے! بلادِ اسلام میں کفار کیلئے فوجی اڈے بنانے کو جائز قرار دینا، اِس بنیاد پر کہ وہ مُعَاہَد کی صنف میں آتے ہیں! اسلام میں تو اس بات کی اجازت نہیں کہ کافر اسلحہ سے لیس ہو کر سرزمین ِ اسلام کے اندر مسلمانوں پر رعب ڈالیں۔ تو پھر اُن فوجی اڈوں کی گنجائش کہاں سے نکل آئی جو کافر قوتوں کو مسلم سرزمینوں پر اسٹرٹیجک کنٹرول دلوانے کیلئے قائم کروائے جاتے ہیں؟ کفار کو مسلمانوں پر اِس انداز کی برتری دلوانا تو اصلاً نواقض ِ اسلام میں آتا ہے۔

3) یہ فتویٰ کہ مسلم سرزمینوں پر قابض استعماری افواجِ کے ہاں نوکری کرنا جائز ہے، بس شرط یہ ہے کہ نوکری کے اندر لڑاکا کارروائیوں میں شرکت کرنا نہ آتا ہو! مراد یہ کہ جس دوران وہ اہل اسلام کا قتل کر رہے ہوں اور مسلم سرزمینوں پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہے ہوں، اُس دوران اُن کی خاطر تواضع کرنے یا ان کے لئے ترجمہ وغیرہ ایسی خدمات ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں!

4) 2001ءمیں افغانستان پر امریکی حملہ کے وقت سامنے آنے والا فتویٰ، جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان پر چڑھ آنے والی فوجوں کے خلاف جو جہاد ہو رہا ہے وہ قتالِ فتنہ ہے نہ کہ جہاد! بعد ازاں ایسا ہی فتویٰ عراق پر امریکی قبضہ ہونے کے وقت سامنے آیا تھا!

5) 2003ءمیں عراق کے اندر امریکی فاتحین کے ہاتھوں قائم ہونے والی وزارتوں میں شمولیت کو جائز قرار دینے والا فتویٰ۔ یا اسی جیسی کسی حکومت میں شمولیت کو جائز قرار دینے والے فتاویٰ۔ اس سے بڑھ کر حماقت پر مبنی فتویٰ البتہ یہ تھا کہ وہ شخص جس کو کافر فاتحین ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد ہمارے اوپر حاکم مقرر کر دیں وہ ہمارا شرعی ولی الامر ہو جاتا ہے اور اس کی اطاعت ہم پر ازروئے شریعت واجب!

6) صیہونیوں کے ساتھ کسی بھی ایسی صلح کو جائز قرار دینے والا فتویٰ جس میں ارضِ فلسطین کے اندر کسی بھی اسلامی حق سے دستبرداری کی گئی ہو۔

7) یہ فتویٰ کہ مکالمۂ ادیان میں __ اُس کی حالیہ رائج شکل کے ساتھ __ شریک ہونا جائز ہے۔

8) وہ فتاویٰ جو وطنیت کو __ اُس کی حالیہ رائج شکل کے ساتھ، جوکہ درحقیقت مغرب کے اندر پروان چڑھی ہے __ جائز قرار دیتے ہیں۔ اور اُن لکیروں کا پابند رہنے کو جو استعمار ہمارے لئے کھینچ گیا ہے، شریعت ِ اسلام کا تقاضا قرار دیتے ہیں!

9) یہ فتویٰ کہ بر سر اقتدار طبقوں پر علی الاعلان نکیر کرنا حرام ہے۔ اور یہ کہ جو آدمی برسراقتدار طبقوں کی خالی مخالفت ہی کر لیتا ہے تو وہ "خروج" میں آ جاتا ہے۔ اور یہ کہ ولی الامر ہر ہر معاملے میں خاص اپنی صوابدید کے مطابق مصلحت کا تعین کرنے کا مجاز ہے؛ امت کے آگے نہ تو اُس کی کوئی جوابدہی ہے اور نہ کوئی احتساب۔ یہاں تک کہ اگر بچہ بچہ یہ جانتا ہو کہ حاکم مسلمانوں کے سب کے سب مصالح اور سب کے سب مفادات کو داؤ پر لگا چکا ہے، تو بھی اُس کے معاملے میں خاموش رہنا ہی دین کا حکم ہے، اور گونگا بنا رہنا ہی ایک صحیح شرعی منہج!

10) یہ فتویٰ کہ مجلس ِ اقوام متحدہ یا سیکورٹی کونسل کے صادر کردہ فیصلوں کو جائز و صحیح مانا جائے، جن کے ذریعہ سے (سبھی کو معلوم ہے) ہمیشہ مسلم ایشوز کے خلاف ریشہ دوانی ہوتی ہے.... اِس بنیاد پر کہ یہ وہ معاہدات ہیں جن کے اب ہم شرعاً پابند ہیں!

11) یہ فتویٰ کہ جو شخص کھلم کھلا کفر ِ اکبر کا ارتکاب کرے، اُس پر __ ظاہری معاملے تک میں __ ارتداد کا حکم لگانا جائز نہیں.... خواہ وہ شخص شرعِ خداوندی کو کسی اور شرع سے کیوں نہ بدل دے، خواہ وہ (اسلام کے خلاف) دشمنانِ دین کے ساتھ مل کر بلاک بندی کیوں نہ کرتا پھرے، حتیٰ کہ صلیب کو سجدہ ہی کیوں نہ کر آئے، مصحف ِ قرآنی کو پھاڑ کر کیوں نہ پھینک دے، اسلام کی دعوت کے خلاف برسرجنگ کیوں نہ ہو، مسلم معاشرے کے اندر تعلیم سے لے کر قضاءتک لادینیت کے ادارے کیوں نہ بیج دے، وغیرہ وغیرہ (یعنی عمل کی بنا پر اُس کو کافر نہیں کہا جائے گا، چاہے وہ کتنا ہی کھلا کفریہ 'عمل' کیوں نہ ہو).... تا آنکہ وہ شخص آپ اپنی زبان سے ہی بول کر نہ کہہ دے کہ وہ تو اسلام کو مانتا ہی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اسلام کو ایک نرا جھوٹا مذہب جانتا ہے!

آپ جانتے ہیں یہ فتویٰ (کہ عمل کی بنا پر آدمی کی تکفیر بہرصورت نہ ہو گی، خواہ وہ کتنا ہی برہنہ کفر کیوں نہ ہو).... پورے کے پورے اسلامی عقیدہ کی بساط لپیٹ دینے کے مترادف ہے۔ یہ فتویٰ پورے کے پورے اسلام کو ہی ختم کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ جو زمانۂ حاضر کے مرجئہ کا مذہب ہے، ماضی کے غالی مرجئہ تک اس سے پناہ مانگتے ہوں گے۔

12) یہ فتویٰ کہ زمین پر رہنے والے کسی بنی آدم کو نبوتِ محمد ﷺ پر ایمان لانے سے چھوٹ حاصل ہے۔ چنانچہ کوئی شخص نبوتِ محمد ﷺ کی تکذیب کر کے بھی، یا محمد ﷺ کے سچا ہونے کے اندر شک کر لینے کے بعد بھی، یا آپ ﷺ کے خاتم المرسلین ہونے کو محل نظر جان کر بھی، تکفیر سے بچ سکتا ہے۔ اِس فتویٰ کی رو سے محمد ﷺ پر ایمان نہ لانے والی اِس خلقت کی تکفیر نہ ہو گی، اس لئے کہ یہ اہل کتاب ہیں، اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہونے والی کسی کتاب کو ماننے والے ہیں!

یہ فتویٰ کچھ نہایت پر اَسرار انداز میں عام کروایا گیا ہے۔ عصر حاضر کی نام نہاد تحریک 'مکالمۂ ادیان' کے میدان میں آنے سے پہلے اس فتویٰ کی ایک خاص پزیرائی کرائی گئی اور پھر اِس فتویٰ کے جلو میں یہ تحریک عالم اسلام کے اندر دھیرے دھیرے جلوہ افروز ہوتی چلی گئی۔ یہ فتویٰ دینا اور نشر کرنا جملہ علمائے اسلام کے اجماع کی رو سے ارتداد ہے۔ کیونکہ اِس فتویٰ کی رو سے ایک ایسے شخص کا ایمان صحیح قرار پاتا ہے جو محمد ﷺ کی رسالت کی تکذیب کرتا ہو۔ علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہود اور نصاریٰ دُہرے کفر کے مرتکب ہیں: ایک ان کا اس دین پر باقی نہ رہنا جس پر انبیائے کرام رہے تھے، یعنی انبیاءکے دین کو بدل دینا۔ دوسرا، ان کا نبوتِ محمدﷺ کی تکذیب کرنا، بعد اس کے کہ محمد ﷺ کو جملہ انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ہے۔ ہاں بعثتِ محمدی سے پہلے ضرور ایسا تھا کہ جو شخص اپنے زمانے کے نبی کی اتباع کر رہا ہو وہ (اپنے وقت کا) مسلم ہے۔ اِس معنیٰ میں اسلام یقینا سب کے سب انبیاءکا دین ہے۔

13) بعض 'علماء' کی جانب سے یہ فتویٰ آنا کہ ایک عیسائی عورت کو، مسلمان ہو جانے کے بعد، عیسائی ہوجانے کا مشورہ دینا جائز ہے۔ جملہ مسلمانوں کے اتفاق کی رو سے ایسا فتویٰ دینا ارتداد ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر واضح ہے کہ گمراہ فرقے تک اس چیز کو ارتداد کہیں گے۔ ایسا مشورہ دینے والا مرتد ہو جاتا ہے، کجا یہ کہ کوئی اسکا باقاعدہ فتویٰ دے!

14) یہ فتویٰ کہ کفار کے اُن تمام منصوبوں کا حصہ بننا جنہیں وہ مسلم سرزمینوں پر اپنا قبضہ قائم کرنے کیلئے لانچ کرتے ہیں.. اور اُن تمام پروگراموں کا ایک فعال ترین کردار بننا جو وہ اسلام کی تباہی کیلئے عسکری، ثقافتی، سیاسی اور معاشی سطح پر جاری رکھے ہوئے ہیں.... یہ فتویٰ دینا کہ یہ تمام تر عمل، صحابی ِ جلیل حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے قصے پر ہی قیاس ہوتا رہے گا! حق یہ ہے کہ ایسا بیہودہ فتویٰ مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی نہ دیا گیا ہوگا۔

یہ فتویٰ کہ مسلمانوں کے ممالک پر قبضہ کروانے میں کفار کی اعانت کرنا، اور مسلم دنیا کو صیہونی صلیبی اتحاد کا دم چھلا بنانے کے عمل کو تمام تر مطلوبہ آسائشیں بہم پہنچا کر ر کھنا شریعت کی رو سے بالکل صحیح ہے.... اِس بنا پر کہ مسلمانوں میں سے کسی گروہ نے اُن کفار کے ساتھ کوئی ایگریمنٹ سائن کر رکھا ہے! لہٰذا (قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم سرزمین کے اندر کیا کیا کچھ کر رہے ہیں) اُن کے ساتھ وہ ایگریمنٹ (عہد) نبھانا ہر حال میں شریعت کا تقاضا ہے! اور تو اور، اِس 'دلیل' کی رو سے کفار کو ایسے مسلمانوں تک کے خلاف مدد دینا جائز کر لیا جاتا ہے جن کا ان کفار کے ساتھ سرے سے کوئی ایگریمنٹ (عہد) نہیں!

(مثلاً ملا عمر حفظہ اللہ کا ان کفار کے ساتھ کونسا عہد تھا؟ کافر ملکوں مانند نیٹو ممالک، اور کافر اداروں مانند اقوام متحدہ وغیرہ، کے ساتھ ملا عمر اور ان کی دولت اسلامی اور ان کے پیروکار مجاہدین آخر کونسے معاہدے کے پابند ہیں کہ اُن کے خلاف کفار کو مدد دینے کیلئے ہمارے یہ مفتیانِ دین 'بین الاقوامی معاہدوں' کے احترام پر مبنی 'دلائل' نکال نکال کر ہم کو دکھاتے پھریں؟ .... ازمترجم)

15) یہ فتویٰ کہ وہ مجاہدین جو اس وقت ملت اور دین کے دفاع کیلئے لڑ رہے ہیں، وہ صلیبی اور صیہونی دشمن سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے.... اِس بنا پر کہ خوارج کا خطرہ ہر خطرے سے بڑھ کر ہے!

16) سودی بینکاری کو جائز قرار دینے کا فتویٰ

17) بالغ مرد کو رضاعت کروانے کا فتویٰ!

18) یہ فتویٰ کہ نقاب، اسلام کے اندر ایک بدعت ہے!

19) دین ِ رافضہ کو ایک معتبر اسلامی مذہب قرار دینے کا فتویٰ۔ اور یہ کہ کوئی شخص اگر دین ِ روافض پر چلتے ہوئے اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ بھی ٹھیک ہی ہے۔ حالانکہ وہ دین اسلام سے صاف طور پر متصادم ہے۔ البتہ بعد ازاں جب کچھ سیاسی اختلافات نے تقاضا کیا، تو اِس فتویٰ کا سر تا پیر بدل جانا ٹھہر گیا!

20) ایسے لٹریچر کو حرام قرار دینے کا فتویٰ جس میں مسلمانوں کو اسلام کی عزت و بالاتری کے اسباق دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ مشکوک قسم کے فتاویٰ جو دشمنانِ دین کے اغراض کو پورا کرانے کیلئے سامنے آتے ہیں، مثلاً وہ فتاویٰ جو معروف مسلم داعیوں کے 'شر' سے خبردار کرنے کیلئے آتے ہیں! وہ فتاویٰ جو مسلمانوں کو اسلامی تحریکوں اور جہادی جماعتوں سے 'متنبہ' رہنے کی مکرر تلقین و یاددہانی کراتے ہیں! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری ان تحریکوں اور جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ بابرکت کرے، اِن سے امت کی اصلاح کا کام لے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اُن سب طبقوں سے نجات دے جو خراب کار ہیں۔ مفسد ہیں۔ جہاد سے روکنے اور بد دل کرنے والے ہیں۔ اور امت کے اندر شکست خوردگی پھیلانے والے ہیں۔ آمین

اردو استفادہ: ابن علی

اصل مضمون کا لنک:

http://www.h-alali.cc/m_open.php?id=3653bcd2-ca68-102c-909e-00e04d932bf7

مکمل تحریر  »