Tuesday, October 28, 2014

شیعہ کافر ہیں

جو شخص حضرت ابوبکر ؓ کے صحابی ہونے کا منکر ہو یا حضرت ام المومنین عائشہؓ پر معاذ اﷲ تعالیٰ قذف کرتا ہو تو وہ یقینا کافر ہے۔علامہ ابن عابدین الشامیؒ (المتوفی1250ھ فرماتے ہیں کہ )
لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشہ ؓ او انکر صحبة الصدیقؓ الخ
جس شخص نے حضرت عائشہؓ پر قذف کی یا حضرت ابوبکرؓ صدیق کے صحابی ہونے کا منکر ہو تو ا س کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے
(شامی ج4 ص294 طبع1288ھ)
اور شیعہ کا کفر ایسا اور اتنا واضح ہے کہ ان کہ کفر میں توقف کرنے والا بھی کافر ہے
چنانچہ شامی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ
و من توقف فی کفرہم فھو کافر مثلھم (عقود العلامة الشامی ؒ ج1ص92)
جوشخص شیعہ کے کفر میں توقف کرے تو وہ بھی ان جیسا کافر ہے۔
امام ابو عبداﷲ شمس الدین الذہبی ؒ (المتوفی748ھ) فرماتے ہیں کہ
فن کفرہما والعیاذ بااﷲ تعالیٰ جاز عليہ التکفیر واللعنة (تذکرة الحفاظ ج2ص304)
اگر حضرات شیخین ؓ کی کوئی تکفیر کرے العیاذ باﷲ تعالیٰ ۔تو اس کی تکفیر اوراس پر لعنت جائز ہے۔
اور موجودہ زمانے کے شیعہ یہی کرتے ہیں جس کا اظہار سر عام محرم میں نوحے پڑھ کر کرتے ہیں ، نعوذباللہ
------
مصدر: http://on.fb.me/1wDcf4e

مکمل تحریر  »

Tuesday, October 21, 2014

ووٹ کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت :


ووٹ کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت :
ووٹ کی تعریف : ووٹ جمہوری نظام کے قیام کا اہم ترین حصہ ہے،اس کے ذریعے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ میں جا کر عوامی مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں۔ نمائندگان جمہور کی حاکمیت کا نظام جب قرون اولیٰ ( اسلامی روایت اور تاریخ ) سے نہیں آیا تو ووٹ کی تعریف قرآن وحدیث سے تو نہیں ملے گی ۔ اب ایک پارلیمانی نظام میں ‘جو کہ پاکستان میں رائج ہے ، ووٹ کی حیثیت واہمیت اورجمہوری عمل میں ووٹروں کے کردار کے تعین کیلئے وہی مصادر مستند ہوسکتے ہیں جو اس نظام کو بنانے اور چلانے والوں کے ہاں معروف ہیں۔
A vote is a formal expression of an individual's choice in voting, for or against some motion (for example, a proposed resolution), for or against some ballot question, for a certain candidate, a selection of candidates, or a political party. (Reference: Wikipedia)
ووٹ کے بارے میں ہمارے بعض علما کا کہنا ہے که ووٹ کی مندرجه ذیل شرعی حیثیتیں هیں قیاس کی بنا پر
۱) گواهی (شہادت)
۲) امانت
۳) وکالت
۴) مشورہ
۵) سفارش ( شفاعت )
۶) سیاسی بیعت
اب دیکهنا یه هے که ووٹ خود مکمل هے اپنی حیثیت میں یا کسی نظام کا حصه هے . اب جب هم اس بات پر غور کرتے هیں تو معلوم هوتا هے که یه دین ِ جمہوریت کا اہم رکن هے جس کو اگر حذف کر دیا جائے تو جمہوریت کی گاڑی ایک قدم بهی آگے نہیں چل سکے گی 
اور ووٹ کا وجود تب هی ممکن هوتا هے جب امارت کی طلب کی جائے یعنی "حرص امارت" مزید یه که ووٹ کی دو اور خصوصیات هیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف هیں اور وه یه هیں ... ہر "ایک کے ووٹ کی یکساں قیمت" اور "کثرتِ رائے سے فیصلہ"
جبکه اسلام میں ان تینوں کے بارے میں واضح نصوص هیں جن کے مقابلے میں قیاس باطل قرار پاتا هے
حرصِ امارت :
جمہوریت کا ایک اور اُصول حکومت کی حرص میں مبتلا ہونا ہے کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کی چکی چل ہی نہیں سکتی، حکومت کے حریص ایک دوسرے کے مقابل میدان میں اُتریں گے تب ہی لوگ اکثریتی فیصلے سے کسی ایک کو منتخب کریں گے۔ انتخابی مہم کے دوران امیدوار انتخاب جیتنے کے لئے ہر جائز وناجائز طریقے اور ذرائع کے استعمال کو روا رکھنے پڑتے ہیں۔ دھوکہ فراڈ، دھاندلی، فریق مخالف پر جھوٹے الزامات، خلافِ حقیقت پروپیگنڈہ اور ووٹروں سے جھوٹے وعدے کرناانتخابی سیاست کالازمی حصہ ہے۔ الغرض اخلاقیات کا اس میں جنازہ نکل جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتاہے کہ آپ اقتدار کے حصول کے لئے اپنی تعریف اور کارناموں پر خود ہی قلابیں ملائیں اور اس کے پوسٹر اور بینر لگائیں اور اسے عدسی شیشوں سے بڑا کرکے دکھائیں . ۔ حکومت کی حرص میں مبتلا ہونے والے عام طور پرجذبہ ِ خدمت کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں اس کے برعکس اسلام میں ’’کسی کی طرف سے حکومت مانگنا اور اس کی حرص کرنا حرام ہے اورجس میں یہ چیز موجودہوتویہ حکومت کے لئے اُس کی نا اہلیت قرار پاتی ہے جیسا کہ نبی ﷺ کے ارشادات ہیں
صحیح مسلم: حضرت ابوموسی ؓ سے روایت ہے کہ میں اور دو آدمی میرے چچا کے بیٹوں میں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان دو آدمیوں میں سے ایک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ملک عطا کئے ہیں ان میں سے کسی ملک کے معاملات ہمارے سپرد کردیں اور دوسرے نے بھی اسی طرح کہا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم اس کام پر اس کو مامور نہیں کرتے جو اس کا سوال کرتا ہو یا اس کی حرص کرتا ہو۔ 
صحیح مسلم: حکومت مت مانگوکیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پرملی تو تم (بے یارومددگار) اسی کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اگر بغیر مانگے ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائیگی۔
صحیح مسلم: حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے عامل نہ بنائیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مار کر فرمایا اے ابوذر تو کمزور ہے اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس بارے میں جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو ادا کیا۔
جامع ترمذی: خثیمہ بصری حضرت انس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو قضاء کے عہدے پر فائز ہونا چاہتا ہے اور اس کے لئے سفارشیں کراتا ہے اسے اس کے نفس پر چھوڑ دیا جاتا ہے یعنی غیبی مدد نہیں ہوتی اور جسے زبردستی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے اللہ اس کی مدد کے لئے ایک فرشتہ اتارتا ہے۔
جامع ترمذی: محمد بن عبدالرحمن بن سعد بن زرارہ بن کعب انصاری اپنے والد سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اگر وہ بھوکے بھیڑئیے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ انتا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص انسان کے دین کو خراب کرتی ہے
 
صحیح بخاری: حضرت ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ میری قوم کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں امیر بنادیں اور دوسرے نے بھی یہی عرض کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم اس کا مالک اس کو نہیں بنائیں گے جو اس کی درخواست کرے یا جو اس کا حریص ہو
صحیح بخاری: عنقریب تم حکومت کی خواہش کرو گے اور وہ قیامت کے دن باعثِ ندامت ہوگی پس وہ اچھی دودھ پلانے والی ہے اور بری دودھ چھڑانے والی ہے۔
سنن ابوداؤد: انس بن مالک ؓ روایت سے ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے عہدہ قضاء طلب کیا اور اس پر لوگوں سے مدد چاہی تو وہ اسی کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اور جس نے اسے طلب نہیں کیا اور نہ لوگوں سے اس معاملہ پر مدد چاہی اسے عہدہ قضاء مل گیا تو ایک فرشتہ اللہ تعالیٰ نازل فرماتے ہیں جو اس کے معاملات کو درست کرتا ہے۔
 
سنن ابوداؤد: ابوموسی سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہم ہرگز عامل نہیں بنائیں گے یا فرمایا کہ اسے عامل نہیں بنائیں گے اپنے امور پر جو اسے طلب کرے گا۔
 
سنن ابوداؤد: حضرت ابوموسی سے روایت ہے کہ میں دو آدمیوں کو ساتھ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان میں سے ایک شخص نے خطبہ پڑھا۔ اس کے بعد بولا ہم آپ کے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ آپ ہمیں حکومت کا کوئی کام سونپ دیں۔ دوسرے شخص نے بھی وہی بات کی جو اس کا ساتھی کہہ چکا تھا۔ آپ نے فرمایا ہمارے نزدیک تو وہ شخص بہت بڑا خائن ہے جواز خود حکومت طلب کرے۔
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کو مخاطب فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اے عبدالرحمن بن سمرہ! منصب کا سوال مت کرو اس لیے کہ اگر طلب پر تم کو یہ دیا جائے تو تم کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا اور بلاطلب ملے تو نصرتِ الٰہی شامل حال ہوگی۔ (کنز العمال ج
۶ ح ۶۹)
امام ابو خینفه کا عہدۂ قضا سے انکار :
خطیب بغدادی نے روایت کی ہے کہ یزید بن عمر بن ہیبر، والی عراق نے امام ابو حنیفہؒ کو حکم دیا کہ کوفہ کے قاضی بن جائیں لیکن امام صاحب نے قبول نہیں کیا تو اس نے ایک سو دس کوڑے لگوائے۔ روزانہ دس کوڑے لگواتا جب بہت کوڑے لگ چکے اور امام صاحب اپنی بات یعنی قاضی نہ بننے پر اڑے رہے تو اس نے مجبور ہو کر چھوڑ دیا۔
ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب قاضی ابن لیلیٰ کا انتقال ہو گیا اور خلیفہ منصور کو اطلاع ملی تو اس نے امام صاحب کیلئے قضا کا عہدہ تجویز کیا امام صاحب نے صاف انکار کیا اور کہا کہ "میں اس کی قابلیت نہیں رکھتا" منصور نے غصہ میں آ کر کہا "تم جھوٹے ہو" امام صاحب نے کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ دعویٰ ضرور سچا ہے کہ میں عہدۂ قضاء کے قابل نہیں کیونکہ جھوٹا شخص کبھی قاضی نہیں مقرر ہو سکتا۔
طلب کرنے کی بنا پر ملنے والی حکومت کے اللہ کی مدد سے محروم رہنے کے حوالے سے نبی ﷺ کا ارشاد کتنا حقیقت پر مبنی ہے اس کا ثبوت دنیا بھر میں کلمہ پڑھنے والوں کی ہر جمہوری حکومت کی مکمل ناکامی کی صورت میں سب کے سامنے ہے اس سے آخرت کی سزا کے حوالے سے آپ ﷺکے ارشاد کی سچائی کااندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ طلب ِحکومت اگر چہ عام گنا ہ ہے لیکن جب ایسا غیر اللہ کے نظام’’جمہوریت‘‘ کی اتباع میں کیا جاتاہے تو پھر شرک کا عظیم گناہ بن جاتاہے
کثرتِ رائے :
آیئے دیکهتے هیں قرآن میں "اکثریت" کے بارے میں کیا فرمایا گیا هے
( بلکہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائیں گے ) ( سورت البقره ، آیت ۱۰۰ )
( لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ) ( سورت البقره ، آیت
۲۴۳ )
( اور اکثر ان میں نافرمان ( فاسق) ہیں ) ( سورت آل عمران ، آیت
۱۱۰ )
( اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں ) ( سورت المائده ، آیت
۴۹ )
( لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے ) ( سورت المائده ، آیت
۶۶ )
( لیکن پھر بھی اکثریت اندھی بہری ہوگئی ) ( سورت المائده ، آیت
۷۱ )
( اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں ) ( سورت المائده ، آیت
۱۰۳ )
( لیکن ان میں اکژ بےخبر ہیں ) ( سورت الانعام ، آیت
۳۷ )
( اور اگر آپ بات مان لیں ان میں سے اکثر لوگوں کی جو زمین میں ہیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے ( سورت الانعام ، آیت
۱۱۶ )
( اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے ) ( سورت ا لاعراف ، آیت
۱۷ )
( اور تمہاری جماعت خواہ کتنی ہی کثیر ہو تمہارے کچھ بھی کام نہ آئے گی۔ اور خدا تو مومنوں کے ساتھ ہے ) سورت الانفال ، آیت
۱۹ )
( اور ان کے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر ایک گمان کی، بے شک گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا ) ( سورت یونس ، آیت
۳۶ )
( اور حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتنے والے ہیں ) (سورت یونس ، آیت
۹۲ )
( اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ) ( سورت یوسف ، آیت
۱۰۳ )
( اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر اس حال میں کہ شرک کرنے والے ہیں ) ( سورت یوسف ، آیت
۱۰۶ )
( لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ) ( سورت الرعد ، آیت
۱ )
( اور اکثر لوگ تو ہیں ہی کفر (اور ناشکری) کا ارتکاب کرنے والے ) ( سورت النحل ، آیت
۸۳ )
( مگر لوگوں کی اکثریت (پھر بھی) انکار ہی پر کمربستہ رہی ) ( سورت الاسرا ، آیت
۸۹ )
( کیا ان لوگوں نے اس کے سوا معبود بنالئے ہیں آپ فرما دیجیے اپنی دلیل لاؤ، یہ ذکر ہے ان لوگوں کا جو میرے ساتھ ہیں اور جو مجھ سے پہلے تھے،بلکہ ان میں سے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے سو وہ اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں ( سورت الانبیا ، آیت
۲۴ )
( اور ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے ) ( سورت المومنون ، آیت
۷۰ )
( کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ ) ( سورت الفرقان
۴۴ )
( لیکن ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے ) ( سورت الشعراء ، آیت
۸ )
( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے جو ان کے مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور زیادہ طاقتور بھی تھے اور زمین میں آثار کے مالک تھے لیکن جو کچھ بھی کمایا تھا کچھ کام نہ آیا اور مبتلائے عذاب ہوگئے ) ( سورت غافر
۸۲ )
ہر ایک کے ووٹ کی یکساں قیمت :
اور برابری کے بارے میں قرآن کیا فرماتا هے که
سورت آل عمران ، آیت ۱۶۲ 
کیا وہ شخص جو مرضیِ الٰہی کے تابع ہو گیا ہو۔ اس کے برابر ہو سکتا ہے کہ جس نے خدا کا غصہ حاصل کیا ہو اور اس کا ٹھکانا (بھی) جہنم ہو اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے
سورت النساء ، آیت ۹۲
وہ مسلمان جو بغیر کسی (معقول) عذر کے(جہاد سے) بیٹھ رہے ہیں ان مجاہدوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کر رہے ہیں۔
سورت المائده ، آیت۱۰۰
فرما دیجیے کہ خبیث (ناپاک) اور طیب (پاک) برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ خبیث (ناپاک) کی کثرت تمہیں تعجب میں بھی ڈال دے
سورت الانعام ، آیت ۵۰ 
کیا نابینا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں؟ پھر تم لوگ کیوں نہیں سوچتے
سورت الرعد ، آیت ۱۹
پھر کیا وہ شخص جو کہ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کو برحق جانتا ہے اس کے برابر ہے جو اندھا ہے؟ سمجھتے تو عقل والے ہی ہیں
سورت السجده ، آیت ۱۸
بھلا جو صاحب ایمان ہے کیا وہ اس جیسا ہو سکتا ہے جو فاسق (نافرمان) ہے؟ ہر گز نہیں (مومن اور فاسق) برابر نہیں ہو سکتے
سورت ص ، آیت
۲۸ 
ہاں تو کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کی برابر کر دیں گے جو (کفر وغیرہ کر کے) دنیا میں فساد کرتے پھر تے ہیں یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کر دیں گے۔
سورت الزمر ، آیت ۹ 
کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہو سکتے ہیں (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں
سورت فصلت ، آیت ۳۴ 
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔
سورت محمد ، آیت ۱۴
بھلا ایک جو چلتا ہے واضح رستہ پر اپنے رب کے برابر ہے اس کے جس کو بھلا دکھایا اس کا برا کام اور چلتے ہیں اپنی خواہش پر
سورت القلم ، آیت ۳۵
کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کے برابر کردینگے ۔ تم کو کیا ہوا تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ۔

مکمل تحریر  »

نبی ﷺ اور وطنیت

نبی ﷺ اور وطنیت
وطنیت کے بُت کی محبت ابلیسی دماغوں نے دانستہ طور پر مسلمانوں کے ذہن میں داخل کی اور حق و باطل کو گڈ مڈ کرتے ہوئے  دلیل  مدینہ منورہ کی دی۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ  نے مدینہ کا دفاع کیا اور مدینہ منورہ کے فضائل بیان فرمائے، اسی طرح یہودی مکاروں نے مسلمانوں کے سامنے ہر وطن کو مدینہ منورہ ثابت کرنے کی کوشش کی، اگرچہ وہ وطن کفر کا مرکز، اللہ کے دشمنوں کی پناہ گاہ اور بے دینی کا گڑھ ہو۔ یہ صریح دھوکہ اور ایمان کے خلاف نظریہ ہے۔
اگر لوگ ذرا بھی اس بات میں غور کرتے کہ آپ ﷺ کا اصل وطن تو مکہ مکرمہ تھا، لیکن جب وطن کا مقابلہ اسلام کے ساتھ ہوا تو اللہ کے رسول ﷺ نے وطن کے مقابلے اسلام کو ترجیح دی۔ وطن چھوڑ دیا، اہلِ وطن سے اعلانِ جنگ کیا اور اسلام کو اپنا بنا لیا۔ حالانکہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ تھا، جو ساری دنیا کا مرکز تھا، اس کے باوجود اس وطن میں رہنے کو کفر کہا گیا۔ جس نے بلا عذر مکہ نہیں چھوڑا اس کے کلمہ پڑھنے کا بھی اعتبار نہیں کیا گیا اس کا وہی حکم بتایا گیا جو کافروں کا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مولانا عاصم عمر حفظہ اللہ تعالی ــــ وطنیت کا "گلوبل" بُت ـــــ حطین، شمارہ نمبر: 8



مکمل تحریر  »

Friday, October 17, 2014

**********************سوچنے کی بات **********************

**********************سوچنے کی بات **********************
.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی مرغی اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک چھری کے ذریعہ اس کے ناپاک خون کو اس کے جسم سے نہ نکال دیا جائے اور چھری چلاتے ہوئے اللہ کی عظمت کی تکبیر نہ پڑھی جائے۔ تو اتنا بڑا معاشرہ جس میں بے انتہا گند سرایت کر چکاہے۔اس وقت تک کیسے پاک ہو سکتا ہے جب تک چھری کے ذریعے سے اس گند کو باہر نہ نکال دیا جائے اور جب یہ گند نکل جائے گا اس وقت لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے۔
آج کے بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ کافر ہمارے اخلاق دیکھ کر خود مسلمان ہو جائیں گے۔ اس دور میں یہ دعوی انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اخلاق اس قوم کے دیکھے جاتے ہیں جس کی اپنی کوئی حیثیت ہو، جس کا اپنا کوئی نظام چل رہا ہو۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آزاد قوم کسی غلام قوم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی غلام بن گئی ہو۔ جس زمانے میں مسلمان فاتحین کی شکل میں ملکوں میں داخل ہوتے تھے تو لوگ ان کو دیکھتے تھے اور مسلمان ہوتے تھے مگر اس وقت تو ہم ایک قوم کی حیثیت سے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارا اسلامی نظام کہیں بھی نافذ نہیں، صرف کتابوں میں موجود ہے اور ہمیں اس کے نافذ کرنے میں دلچسپی بھی نہیں ہے بلکہ ہم تو حکومت و خلافت کے نام سے چڑتے ہیں اور کرسی کو فساق و فجار کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ہم نے چند عبادات کو اسلام سمجھ رکھا ہے اور ایک عالمگیر نظام کو رہبانیت بنا دیا ہے۔ ایسے وقت جبکہ ہمارا قومی، ملی اور دینی وجود ہی پارہ پارہ ہے۔ ہم کس منہ سے کہتے ہیں کہ لوگ ہمارے اخلاق دیکھ کر خود اسلام میں آجائیں گے اور اگر چند افراد کہیں پر اسلام میں داخل ہو بھی گئے یا ہو رہے ہیں تو اس سے اسلام کو وہ غلبہ اور عظمت تو نہیں مل سکتی جس کا ہمارے رب نے ہمیں مکلف بنایا ہے۔
ہاں اس کا الٹ ہو رہا ہے اور ہمارے مسلمان اپنے حاکم کفار کے طور طریقوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کب تک اپنے ان اخلاق کے ذریعے سے مسلمانوں کو کفر کی جہنم میں دھکیلتے رہیں گے۔ اگر ہم اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اسلام کی عظمت کی محنت کرتے تو ہمیں آج یہ پستی نہ دیکھنی پڑتی۔
مگر آج ہمیں اپنی عزت و عظمت کا دھیان تو ہے لیکن دین کی ذلت و پستی کا کوئی غم نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خود کافروں کی طرف بھیجا اور ان کو اسلام، جزیہ یا قتال کی دعوت دی اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں بھی یہ طریقہ چلتا رہا کہ اسلامی دعوت کے پیچھے تلوار ضرور ہوا کرتی تھی کہ اس دعوت کو رد کرنے والے حکومت نہ کرتے رہیں بلکہ یا تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ انہوں نے اپنے پالنے اور پیدا کرنے والے رب کی دعوت کو جھٹلایا ہے یا انہیں ذلیل و رسوا ہو کر جزیہ دینا پڑے گا۔
اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں رکھی گئی کہ اسلامی دعوت کو رد بھی کر دیں اور عزت کے ساتھ حکومتیں بھی کرتے رہیں اور مسلمانوں پر مظالم بھی ڈھاتے رہیں۔
بہرحال یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ تلوار اخلاق کا ایک اہم ترین جزو ہے اور جو اخلاق تلوار سے عاری ہو گا وہ پستی اور ذلت کا باعث ہو گا۔
Top of Form
Bottom of Form


مکمل تحریر  »

Thursday, October 16, 2014

توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد

اللہ پر توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے، اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے کا نام توکل ہے، بعض حضرات ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسباب اختیار کئے بغیر اللہ پر توکل کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں، اس قسم کے توکل کا شریعت نے حکم نہیں دیا ہے، قرآن میں ایسی تعلیم ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسی کوئی تعلیم دی ہے۔ اس بات پر قرآنی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ عظام اور سلف صالحین امت کے واقعات شاہد عدل ہیں۔ ہم پہلے قرآن کریم سے توکل کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہیں، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿ ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ﴾ (الطلاق: 3) "جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"۔ نیز اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین ﴾ (یونس: 84) "اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو"۔ نیز ارشاد الہی ہے: ﴿ وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین ﴾ (المائدہ: 23) "تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے"۔ نیز ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون ﴾ (التوبہ: 51) "مومنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے"۔ ان آیات پاک میں اللہ تعالی نے مومنوں کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا حکم اور اس کی انتہائی ترغیب دی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں اور مختلف ڈھنگ سے اللہ تعالی پر توکل وبھروسہ کی ترغیب دی ہے، چند احادیث پاک ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
1۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:{ یدخل الجنۃ من امتی سبعون الفا بغیر حساب قالوا من ہم یا رسول اللہ؟ قال ہم : الذین لا یسترقون، ولا یتطیرون، ولا یکتوون، وعلی ربہم یتوکلون } (مسلم: 321) "میری امت کے ستر ہزار آدمی بلا حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: "یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدفالی نہیں لیتے، آگ سے نہیں دغواتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں""۔
2- امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: { لو انکم کنتم توکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما یرزق الطیر، تغدو خماصا و تروح بطانا } (ترمذی: 2266) "اگر تم لوگ اللہ تعالی پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے، جیسے ایک پرندہ کو ر‌زق ملتا ہے، صبح خالی پیٹ نکلتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتا ہے"۔
اس حدیث کی وضاحت میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں علامہ مناوی کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: " کسب ومحنت سے روزی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اللہ تعالی کے رزق عطا کرنے سے ہی روزی ملتی ہے، اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ توکل بیکاری اور محنت چوری کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں سبب اختیار کرنا ضروری ہے، کیونکہ پرندوں کو طلب اور محنت کرنے سے روزی دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر امام احمد فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ کسب اور جدوجہد ترک کردیا جائے، بلکہ یہ اس امر پر دلیل ہے کی رزق کی طلب اور اس کے لئے جدوجہد کی جائے"۔ اس بات کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت والے واقعہ سے ہوتی ہے کہ آپ اسباب اختیار کرتے ہوئے غار ثور میں چھپ گئے، قریش آپ کی تلاش میں غار کے منہ پر پہنچ گئے ، گھبراکر ابو بکر رضی اللہ نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: { لو ان احدہم نظر تحت قدمیہ لابصرنا، فقال: ما ظنک یا ابا بکر باثنین اللہ ثالثہما } (بخاری: 3380، مسلم: 4389) "اگر قریش کا کوئی ایک آدمی بھی اپنا پیر ہٹاکر دیکھے تو ہمیں دیکھ لے گا، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! ان دونوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالی ہے"۔
3- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کی طرف غزوہ ذات الرقاع سے واپس آرہے تھے کہ ایک جھاڑی والی وادی میں دوپہر کو قیلولہ کے لئے اترے، جس کو جہاں جگہ ملی ادھر ادھر آرام کرنے لگے، آپ بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے سوگئے اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکادی، جب سارے لوگ سوگئے تو بے خبری میں موقع کو غنیمت جان کر ایک مشرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخت سے تلوار اتار کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوگیا ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی، اس کافر نےبڑے تکبر سے کہا:اے محمد! آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان وسکون سے جواب دیا: اللہ۔ یہ سننا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئ، آپ نے اٹھالی اور اس کافر سے فرمایا: اب بتاؤ تم کو مجھ سے کون سکتا ہے؟ اس نے کہا: کوئی نہیں! آپ نے اسے معاف کردیا اور اسے چھوڑ دیا۔ (بخاری: 3822) ۔
اللہ پر توکل کا ایک اور ثمرہ دیکھنا ہو تو ہاجرہ علیہا السلام کا درج ذیل واقعہ پڑھئے، قلب کو اطمینان نصیب ہوگا اور ایمان میں تازگی اور بشاشت پیدا ہوگی، واقعہ کچھ اس طرح ہے:
جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے شیر خوار بیٹے اسماعیل اور اس کی ماں ہاجرہ علیہما السلام کو مکہ کی غیر آباد سنسان وادی میں بیت اللہ کے پاس ایک درخت کے نیچے چھوڑ کر اور ایک مشکیزہ پانی اور کچھ دے کر واپس جانے لگے تو بے سہارا ہاجرہ نے اپنے شوہر ابراہیم سے دریافت کیا : اے ابراہیم ! آپ ہمیں اس وادی میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ جبکہ یہاں کوئی چیز ہے نہ انسان ہے؟ابراہیم علیہ السلام نے مڑکر تک نہیں دیکھا اور چلتے رہے، کئی بار دریافت کرنے پر تیسری دفعہ ہاجرہ نے پوچھا: کیا آپ کو اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا: ہاں! اللہ نے مجھے یہی حکم دیا ہے۔ یہ سن کر ہاجرہ نےجو اللہ پر توکل وبھروسہ کی بات کہی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، انہوں نے کہا: "جب یہ بات ہے تو اللہ تعالی ہم ماں بیٹے کو ہلاک وضائع نہیں کرے گا" ۔ (بخاری: 3111) ۔ پھر پانی کا ختم ہوجانا اور ہاجرہ علیہ السلام کا پانی کی تلاش میں صفا ومروہ پہاڑیوں کے مابین سات چکر لگانا اور اللہ تعالی کا ان پر رحم کھاکر جبریل علیہ السلام کو بھیجنا اور ان کا زمین پر پیر مار نا جس سے زمزم کا ابل پڑنا مشہور واقعہ ہے اور ﴿ ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ﴾ (الطلاق: 3) "جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"، کی بہترین مثال، جس کی نظیر کہیں اور کسی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اللہ پر ایسے ہی توکل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العامین۔

مکمل تحریر  »

Wednesday, October 15, 2014

کیا افواج کے افراد پر لفظ”مرتد“ کا اطلاق جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم



کیا افواج کے افراد پر لفظمرتد کا اطلاق جائز ہے؟
 اور جو ان میں سے براہ راست نہ لڑے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟


 
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم

سوال نمبر: ٣٨
تاریخ اشاعت: ٨-١٠-٢٠٠٩
موضوع: عقیدہ
جواب منجانب: منبر کی شرعی کمیٹی

سوال: محترم شیخ صاحب۔۔۔! السلام  علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ تعالی آپ کو، اسلام، مسلمانوں اور اس ویب سائٹ "منبر" کی خدمت کرنے پر جزائے خیر عطا فرمائے اور اللہ آپ کی حفاظت فرمائے۔

کیا لفظ (مرتدین) کا اطلاق (مثال کے طور پر) پاکستانی، افغانی اور عراقی فوج پر جائز ہے؟ جبکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں کہ جو (مرتد) نہ ہوں؟ اور اگر انھیں (مرتد) کہنا جائز ہے تو پھر اسکی دلیل کیا ہے؟

دوسری بات یہ کہ پاکستانی فوج کے اس افسر یا سپاہی کا شرعی حکم کیا ہے جو کہ براہ راست لڑائی میں حصہ نہیں لیتا اور لڑائی میں فوج کی مدد سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ کیا فوج میں صرف شمولیت اختیار کرنے یا صرف اس میں رہنے سے بھی دین سے (ردت) ہوتی ہے؟َ

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ۔۔۔ وبعد۔

یہ افواج کہ جنکی آپ نے مثال دی ہے یہ مرتد طاغوتی حکومتوں کی تابعدارافواج ہیں۔ انکی اصل تو (کفر) اور (ردت) ہی ہے۔ کیونکہ یہی طواغیت کی مددگار ہیں اور انکی تائید کرتی اور انکی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔ اور انسانی بنائے گئے قوانین اور کفریہ دستوروں کو لاٹھی، گولی کی طاقت سے نافذ کرتی ہیں اور مجاہدین، موحدوں اور علماء کو قتل کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے ظاہری کفریہ اعمال کی مرتکب ہوتی ہیں۔

اس بنیاد پر جو کوئی بھی ان افواج کی طرف منسوب ہوگا تو وہ (مرتد کافر) ہوگا خواہ اسکا ان میں کوئی بھی کام ہو۔

اور اس شخص پر لفظ (مرتد) کا اطلاق جائز ہے اور اس لفظ کے اطلاق کے جواز پر دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

{قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ}

ترجمہ: (اے نبی) آپ کہہ دیں، اے کافرو۔۔۔ (الکافرون 1)

تو یہاں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا ہے کہ کافروں کو ان کے اس نام سے مخاطب کریں جو اللہ تعالی نے ان کے لیئے رکھا ہے۔ جبکہ (مرتد) وہ ہوتا ہے جو اسلام لانے کے بعد کفر کرے لہذا وہ بھی اس خطاب میں شامل ہے۔

لہذا ان افواج کے ہر فرد پر یہ حکم لاگو ہوتا ہے۔ اسکا لڑائی میں شمولیت نہ کرنا اسے اصلی حکم سے خارج نہیں کرتا کیونکہ وہ ہے تو طاغوت کا فوجی۔اس لیئے علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ لڑنے والے گروہوں میں فوج کی پیچھے سے حفاظت کرنے والا بھی براہ راست لڑائی کرنے کے حکم میں آتا ہے۔اور یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے کہ ان افواج میں کوئی ایسا شخص بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت کی نہ تو مدد کرتا ہے اور نہ اسے دوست بناتا ہے اور نہ انسانی بنائے گئے قوانین کا حامی وناصر ہے یا اسی طرح کی دوسری باتیں۔تو یہ صرف ایک خیال ہے اور حقیقت حال سے بہت دور کی بات ہے اور اس پر کوئی دلیل بھی نہیں بلکہ زمینی حقائق اس کے خلاف ہیں۔ان جیسوں کے بارے میں جو کم از کم بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ طواغیت کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔اور جو کوئی جس قوم کو زیادہ کرتا ہے وہ انہی میں سے شمار ہوتا ہے۔

امام النووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جس نے کسی قوم کی تعداد میں اپنی شمولیت سے اضافہ کیا تو اس پر بھی دنیا کی ظاہری سزاؤں میں اسی قوم جیسا حکم لاگو ہوگا۔

پھر اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ ان افواج میں واقعی کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ وہ لڑائی میں براہ راست حصہ نہیں لیتا اور لڑائی میں فوج کی اعانت سے اجتناب کرتا ہے اور اسکے پاس تکفیر کے موانع میں سے کوئی مانع بھی ہے اور ہم نے اس کی تحقیق بھی کرلی تو اس وقت ہم اس سے کفر کا حکم اٹھالیں گے۔لیکن اگر وہ تکفیر کے اس مانع (وجہ) کے ختم ہونے کے بعد بھی فوج میں رہتا ہے تو اسکی بعینہ تکفیر کی جائے گی۔ اور اگر وہ فوج سے نکل جاتا ہے تو اللہ نے اسے نجات دے دی اور یہی چیز تو ہمیں زیادہ پسند ہے۔

لیکن اگر ہمیں اس کی تکفیر کے کسی مانع (وجہ) کا علم نہیں ہوتا تو وہ بھی اصل حکم کا مستحق ہوگا اس لیئے کہ وہ طواغیت کے کفر میں انکا خودمختار مددگار بنا ہوا ہے لہذا اس پر بھی طاغوت کے فوجی کا حکم لاگو ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا}
                                                                                                                                                                            
ترجمہ: "جو لوگ ایمان لائے وہ تو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ لہذا تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ بلاشبہ شیطان کی تدبیر تو کمزور ہے۔" (النساء)

اور اگر آپ کو اس پر مزید دلیلیں چاہیئں تو ہم آپ کو (الشیخ سلیمان بن عبداللہ بن الشیخ محمد بن عبدالوھاب) کی کتاب (الدلائل فی حکم موالاۃ اھل الاشراک) کے مطالعے کی نصیحت کرتے ہیں۔ کیونکہ بلاشبہ یہ کتاب آپ جیسے سوال کے جواب میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب میں مؤلف (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس شخص کے کفر کے بارے میں بے شمار دلیلیں لکھیں ہیں کہ جو شرکیہ قبوں اور انسانی قوانین کے مددگاروں کو دوست بناتا ہے اور انکے فوجیوں میں شامل ہوتا ہے۔۔۔۔

یہ تو ہماری طرف سے ہے اللہ کی توفیق سے۔

جواب منجانب: الشیخ ابو الولید المقدسی
عضو شرعی کمیٹی
منبر التوحید والجہاد ویب سائٹ

مکمل تحریر  »

تزکیہ واحسان

تزکیہ واحسان (آخری قسط )
خصائص مومن
حضرت مولانا شاہ ابرارالحق رحمۃ اللہ علیہ 

گناہوں کو چھوڑنے کا طریقہ:
اگرکسی گناہ کی عادت ہے ایک دم نہیں چھوڑ سکتے اور اس کی ہمت نہیں ہے تو رفتہ رفتہ چھوڑ دو،دس گناہ کی عادت ہے تو اس میں چند چھوڑو،ارے چار چھوڑدو،دوچھوڑ دو،یہ بھی نہ ہوتو کم از کم ایک دن ایک چھوڑ دو،پھر اسی طرح آٹھویں دن ایک ایک گناہ چھوڑتے چلے جاؤ۔
افیم چھوڑنے کا آزمودہ طریقہ :
کسی کو افیم کی عادت ہوکچھ لوگ فوراًچھوڑ دیتے ہیں،کچھ کو اس کا طریقہ بتلاتے ہیں کہ ایک دم نہیں چھوڑ سکتے تو اس کے لیے بھی طریقہ ہے اس پر عمل کیا جائے۔ ہمارے عزیزوں میں بعضے تھے ان کی اس طریقہ سے اصلاح ہوگئی جس کی صورت یہ کی گئی کہ پہلے ان سے پوچھ لیا گیا کہ کتنی افیم کھاتے ہو؟انہوں نے اس کی مقدار بتلا دی کہ روزانہ اتنی کھاتے ہیں۔تو اس لحاظ سے چالیس دن کی منگوا دی اور بوتل میں بھردی اور اس میں پانی ڈال دیا،پھر ان کو ایک ایک چمچی پینے کے لیے دیتے تھے،جتنا پانی پلاتے تھے اتنا پانی ملاتے تھے،چالیس دن بعد وہ افیم تو ختم ہوگئی بس پانی ملا ملا کر پلاتے رہے تو اس تدبیر سے ہلکے ہلکے عادت چھوٹ گئی۔اسی طرح جس گناہ کی عادت پڑی ہوئی ہے ہلکے ہلکے تھوڑا تھوڑااس کو چھوڑے ،پہلے اس کی تدبیر معلوم کرے پھر کے موافق عمل کرے تو بہت جلد گناہ چھوٹ جائیں گے۔
تہجد کے لیے اٹھنے کا نسخہ:
ایسے ہی طاعات میں بھی لگنے کا معاملہ ہے کہ ہلکے ہلکے بقدرِتحمل عادت ڈالے،اور دعا بھی کرتا رہے ،یہ بڑی خاص چیز ہے،اس سے پھر بڑی آسانی اور سہولت ہوجائے گی اور بزرگوں سے اس کی تدبیر معلوم کرے۔ان حضرات کے پاس ایسے نسخے ہوتے ہیں کہ ایک دو خوراک ہی میں بہت جلد نفع ہونے لگ جاتا ہے۔مثال کے طور پر بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ تہجد میں آنکھ کھل جائے تاکہ اس وقت نماز پڑھ لیں لیکن اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی تو اب کیا کریں؟
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ‘ نے بھی بعضوں کو فرمایا کہ اچھا بھائی!آنکھ تو کھل ہی جاتی ہے کبھی نہ کبھی ،تو جب آنکھ کھل جائے تو اسی وقت چارپائی پر بیٹھ جاؤ،چاہے ایک ہی منٹ کے لیے بیٹھو،اور بیٹھ کرسبحان اللہ سبحان اللہ پڑھ لو،پھر لیٹ جاؤ۔۔۔اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے؟کتنی آسانی دے دی اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے ہوتو پھر کم از کم کروٹ ہی بدل لو ،جس جگہ لیٹے ہو اس سے ہٹ جاؤ تاکہ تہجد پڑھنے والوں کی جو شان بیان کی گئی ہے :
تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَ مِمَّارَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ(السجدۃ:۱۶)
’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اس طور پر کہ وہ لوگ اپنے رب کو امید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ان کی تھوڑی بہت مشابہت ہوجائے۔ارے بھائی!وہ آدھ گھنٹہ اور ایک گھنٹہ کے لیے اٹھتے ہیں تو تم ایک منٹ کے لیے اٹھو تو اس اٹھنے میں ان کی مشابہت اختیار کرو تو اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ آج ایک منٹ کی توفیق ہوئی ہے تو کل ڈیڑھ منٹ کی توفیق ہوگی اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا،قطرہ قطرہ دریا ہوجاتا ہے ۔۔۔تو میرے عرض کرنے کا منشا یہ ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر رکھے،اپنی درستی کی کوشش کرتا رہے اور دوسروں کو بھی اچھائی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔
مومنین کی صفات و خصوصیات:
جو آیت میں نے پڑھی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی خصوصیات اور ان کی صفات کو بیان فرمایا ہے،وہ صفات کیا ہیں؟ ایک صفت تو یہ ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
ہمدرد اور خیر خواہ ہیں،دوسری صفت کیا ہے!
یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ
اچھی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ
وَیُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ
اورنماز کی پابندی رکھتے ہیں
وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ
اورزکوٰۃ دیتے ہیں۔

بڑی محنت سے مال کماتے ہیں ،مشقت سے پھر سال بھر تک حفاظت کرتے ہیں،پھر اس کی زکوٰۃ قاعدہ سے نکالتے ہیں۔
وَیُطِیعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ
اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا مانتے ہیں۔
کہنا ماننے کا مطلب کیا ہے؟اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم ہو جائے تو خوش دلی سے عمل کرتے ہیں،خوشی خوشی عمل کرتے ہیں،جیسے بچوں کو چھٹی ہوتی ہے تو گھر خوشی خوشی جاتے ہیں ایسے ہی انہیں کوئی حکم معلوم ہوجائے تو خوشی خوشی عمل کرتے ہیں،پھر فرمایا کہ جن لوگوں کی یہ شان او رصفات ہیں ان کے ساتھ معاملہ کیا ہوگا اور انعام کیا ملے گا؟فرمایا گیا:
أُوْلَءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ
یہ وہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ جلد رحمت خاصہ فرمائیں گے۔
کیوں؟
إِنَّ اللّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
بلاشبہ اللہ تعالیٰ قادرمطلق ہے اور حکمت والا ہے۔
جب چاہیں رحمت سے نواز سکتے ہیں،لیکن حکیم بھی ہیں جب مناسب سمجھتے ہیں دیتے ہیں
؂گڑگڑا کر جو مانگتا ہے جام
اس کو دیتا ہے ساقی گلفام
خلاصۂ کلام:
توخلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں مومن کی کچھ صفات اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ جن کے ذریعہ سے مسلمانوں کو پہچانا جاسکتا ہے جس طرح پولیس والے کو اس کی وردی سے پہچان لیتے ہو،پوسٹ مین کو اس کی وردی سے پہچان لیتے ہو،ایسے ہی مسلمان کو بھی اا ہونا چاہیے کہ اس کو دیکھ کر پہچان لیا جائے کہ یہ مسلمان ہے۔اس کے تعارف کی ضرورت نہ پڑے اس کی صورت یہی ہے کہ اپنے اندر ان صفات کو پیدا کیا جائے اور ان خصوصیات کو اختیار کیا جائے تو اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی عزت و راحت ملے گی اور آخرت میں بھی رحمتِ خاصہ سے نوازا جائے گا۔۔۔اب دعا کرلی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کو قبول فرمائے اور ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو حسن خاتمہ کی دولت سے مشرف فرمائے،آمین۔
آخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین

مکمل تحریر  »