Wednesday, October 15, 2014

کیا افواج کے افراد پر لفظ”مرتد“ کا اطلاق جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم



کیا افواج کے افراد پر لفظمرتد کا اطلاق جائز ہے؟
 اور جو ان میں سے براہ راست نہ لڑے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟


 
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم

سوال نمبر: ٣٨
تاریخ اشاعت: ٨-١٠-٢٠٠٩
موضوع: عقیدہ
جواب منجانب: منبر کی شرعی کمیٹی

سوال: محترم شیخ صاحب۔۔۔! السلام  علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ تعالی آپ کو، اسلام، مسلمانوں اور اس ویب سائٹ "منبر" کی خدمت کرنے پر جزائے خیر عطا فرمائے اور اللہ آپ کی حفاظت فرمائے۔

کیا لفظ (مرتدین) کا اطلاق (مثال کے طور پر) پاکستانی، افغانی اور عراقی فوج پر جائز ہے؟ جبکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں کہ جو (مرتد) نہ ہوں؟ اور اگر انھیں (مرتد) کہنا جائز ہے تو پھر اسکی دلیل کیا ہے؟

دوسری بات یہ کہ پاکستانی فوج کے اس افسر یا سپاہی کا شرعی حکم کیا ہے جو کہ براہ راست لڑائی میں حصہ نہیں لیتا اور لڑائی میں فوج کی مدد سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ کیا فوج میں صرف شمولیت اختیار کرنے یا صرف اس میں رہنے سے بھی دین سے (ردت) ہوتی ہے؟َ

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ۔۔۔ وبعد۔

یہ افواج کہ جنکی آپ نے مثال دی ہے یہ مرتد طاغوتی حکومتوں کی تابعدارافواج ہیں۔ انکی اصل تو (کفر) اور (ردت) ہی ہے۔ کیونکہ یہی طواغیت کی مددگار ہیں اور انکی تائید کرتی اور انکی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔ اور انسانی بنائے گئے قوانین اور کفریہ دستوروں کو لاٹھی، گولی کی طاقت سے نافذ کرتی ہیں اور مجاہدین، موحدوں اور علماء کو قتل کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے ظاہری کفریہ اعمال کی مرتکب ہوتی ہیں۔

اس بنیاد پر جو کوئی بھی ان افواج کی طرف منسوب ہوگا تو وہ (مرتد کافر) ہوگا خواہ اسکا ان میں کوئی بھی کام ہو۔

اور اس شخص پر لفظ (مرتد) کا اطلاق جائز ہے اور اس لفظ کے اطلاق کے جواز پر دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

{قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ}

ترجمہ: (اے نبی) آپ کہہ دیں، اے کافرو۔۔۔ (الکافرون 1)

تو یہاں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا ہے کہ کافروں کو ان کے اس نام سے مخاطب کریں جو اللہ تعالی نے ان کے لیئے رکھا ہے۔ جبکہ (مرتد) وہ ہوتا ہے جو اسلام لانے کے بعد کفر کرے لہذا وہ بھی اس خطاب میں شامل ہے۔

لہذا ان افواج کے ہر فرد پر یہ حکم لاگو ہوتا ہے۔ اسکا لڑائی میں شمولیت نہ کرنا اسے اصلی حکم سے خارج نہیں کرتا کیونکہ وہ ہے تو طاغوت کا فوجی۔اس لیئے علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ لڑنے والے گروہوں میں فوج کی پیچھے سے حفاظت کرنے والا بھی براہ راست لڑائی کرنے کے حکم میں آتا ہے۔اور یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے کہ ان افواج میں کوئی ایسا شخص بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت کی نہ تو مدد کرتا ہے اور نہ اسے دوست بناتا ہے اور نہ انسانی بنائے گئے قوانین کا حامی وناصر ہے یا اسی طرح کی دوسری باتیں۔تو یہ صرف ایک خیال ہے اور حقیقت حال سے بہت دور کی بات ہے اور اس پر کوئی دلیل بھی نہیں بلکہ زمینی حقائق اس کے خلاف ہیں۔ان جیسوں کے بارے میں جو کم از کم بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ طواغیت کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔اور جو کوئی جس قوم کو زیادہ کرتا ہے وہ انہی میں سے شمار ہوتا ہے۔

امام النووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جس نے کسی قوم کی تعداد میں اپنی شمولیت سے اضافہ کیا تو اس پر بھی دنیا کی ظاہری سزاؤں میں اسی قوم جیسا حکم لاگو ہوگا۔

پھر اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ ان افواج میں واقعی کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ وہ لڑائی میں براہ راست حصہ نہیں لیتا اور لڑائی میں فوج کی اعانت سے اجتناب کرتا ہے اور اسکے پاس تکفیر کے موانع میں سے کوئی مانع بھی ہے اور ہم نے اس کی تحقیق بھی کرلی تو اس وقت ہم اس سے کفر کا حکم اٹھالیں گے۔لیکن اگر وہ تکفیر کے اس مانع (وجہ) کے ختم ہونے کے بعد بھی فوج میں رہتا ہے تو اسکی بعینہ تکفیر کی جائے گی۔ اور اگر وہ فوج سے نکل جاتا ہے تو اللہ نے اسے نجات دے دی اور یہی چیز تو ہمیں زیادہ پسند ہے۔

لیکن اگر ہمیں اس کی تکفیر کے کسی مانع (وجہ) کا علم نہیں ہوتا تو وہ بھی اصل حکم کا مستحق ہوگا اس لیئے کہ وہ طواغیت کے کفر میں انکا خودمختار مددگار بنا ہوا ہے لہذا اس پر بھی طاغوت کے فوجی کا حکم لاگو ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا}
                                                                                                                                                                            
ترجمہ: "جو لوگ ایمان لائے وہ تو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ لہذا تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ بلاشبہ شیطان کی تدبیر تو کمزور ہے۔" (النساء)

اور اگر آپ کو اس پر مزید دلیلیں چاہیئں تو ہم آپ کو (الشیخ سلیمان بن عبداللہ بن الشیخ محمد بن عبدالوھاب) کی کتاب (الدلائل فی حکم موالاۃ اھل الاشراک) کے مطالعے کی نصیحت کرتے ہیں۔ کیونکہ بلاشبہ یہ کتاب آپ جیسے سوال کے جواب میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب میں مؤلف (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس شخص کے کفر کے بارے میں بے شمار دلیلیں لکھیں ہیں کہ جو شرکیہ قبوں اور انسانی قوانین کے مددگاروں کو دوست بناتا ہے اور انکے فوجیوں میں شامل ہوتا ہے۔۔۔۔

یہ تو ہماری طرف سے ہے اللہ کی توفیق سے۔

جواب منجانب: الشیخ ابو الولید المقدسی
عضو شرعی کمیٹی
منبر التوحید والجہاد ویب سائٹ

1 comments:

  • Unknown says:
    May 17, 2020 at 8:02 PM

    pak foj zindabad

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔