Tuesday, October 21, 2014

ووٹ کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت :


ووٹ کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت :
ووٹ کی تعریف : ووٹ جمہوری نظام کے قیام کا اہم ترین حصہ ہے،اس کے ذریعے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو پارلیمنٹ میں جا کر عوامی مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں۔ نمائندگان جمہور کی حاکمیت کا نظام جب قرون اولیٰ ( اسلامی روایت اور تاریخ ) سے نہیں آیا تو ووٹ کی تعریف قرآن وحدیث سے تو نہیں ملے گی ۔ اب ایک پارلیمانی نظام میں ‘جو کہ پاکستان میں رائج ہے ، ووٹ کی حیثیت واہمیت اورجمہوری عمل میں ووٹروں کے کردار کے تعین کیلئے وہی مصادر مستند ہوسکتے ہیں جو اس نظام کو بنانے اور چلانے والوں کے ہاں معروف ہیں۔
A vote is a formal expression of an individual's choice in voting, for or against some motion (for example, a proposed resolution), for or against some ballot question, for a certain candidate, a selection of candidates, or a political party. (Reference: Wikipedia)
ووٹ کے بارے میں ہمارے بعض علما کا کہنا ہے که ووٹ کی مندرجه ذیل شرعی حیثیتیں هیں قیاس کی بنا پر
۱) گواهی (شہادت)
۲) امانت
۳) وکالت
۴) مشورہ
۵) سفارش ( شفاعت )
۶) سیاسی بیعت
اب دیکهنا یه هے که ووٹ خود مکمل هے اپنی حیثیت میں یا کسی نظام کا حصه هے . اب جب هم اس بات پر غور کرتے هیں تو معلوم هوتا هے که یه دین ِ جمہوریت کا اہم رکن هے جس کو اگر حذف کر دیا جائے تو جمہوریت کی گاڑی ایک قدم بهی آگے نہیں چل سکے گی 
اور ووٹ کا وجود تب هی ممکن هوتا هے جب امارت کی طلب کی جائے یعنی "حرص امارت" مزید یه که ووٹ کی دو اور خصوصیات هیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف هیں اور وه یه هیں ... ہر "ایک کے ووٹ کی یکساں قیمت" اور "کثرتِ رائے سے فیصلہ"
جبکه اسلام میں ان تینوں کے بارے میں واضح نصوص هیں جن کے مقابلے میں قیاس باطل قرار پاتا هے
حرصِ امارت :
جمہوریت کا ایک اور اُصول حکومت کی حرص میں مبتلا ہونا ہے کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کی چکی چل ہی نہیں سکتی، حکومت کے حریص ایک دوسرے کے مقابل میدان میں اُتریں گے تب ہی لوگ اکثریتی فیصلے سے کسی ایک کو منتخب کریں گے۔ انتخابی مہم کے دوران امیدوار انتخاب جیتنے کے لئے ہر جائز وناجائز طریقے اور ذرائع کے استعمال کو روا رکھنے پڑتے ہیں۔ دھوکہ فراڈ، دھاندلی، فریق مخالف پر جھوٹے الزامات، خلافِ حقیقت پروپیگنڈہ اور ووٹروں سے جھوٹے وعدے کرناانتخابی سیاست کالازمی حصہ ہے۔ الغرض اخلاقیات کا اس میں جنازہ نکل جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتاہے کہ آپ اقتدار کے حصول کے لئے اپنی تعریف اور کارناموں پر خود ہی قلابیں ملائیں اور اس کے پوسٹر اور بینر لگائیں اور اسے عدسی شیشوں سے بڑا کرکے دکھائیں . ۔ حکومت کی حرص میں مبتلا ہونے والے عام طور پرجذبہ ِ خدمت کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں اس کے برعکس اسلام میں ’’کسی کی طرف سے حکومت مانگنا اور اس کی حرص کرنا حرام ہے اورجس میں یہ چیز موجودہوتویہ حکومت کے لئے اُس کی نا اہلیت قرار پاتی ہے جیسا کہ نبی ﷺ کے ارشادات ہیں
صحیح مسلم: حضرت ابوموسی ؓ سے روایت ہے کہ میں اور دو آدمی میرے چچا کے بیٹوں میں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان دو آدمیوں میں سے ایک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ملک عطا کئے ہیں ان میں سے کسی ملک کے معاملات ہمارے سپرد کردیں اور دوسرے نے بھی اسی طرح کہا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم اس کام پر اس کو مامور نہیں کرتے جو اس کا سوال کرتا ہو یا اس کی حرص کرتا ہو۔ 
صحیح مسلم: حکومت مت مانگوکیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پرملی تو تم (بے یارومددگار) اسی کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اگر بغیر مانگے ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائیگی۔
صحیح مسلم: حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے عامل نہ بنائیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مار کر فرمایا اے ابوذر تو کمزور ہے اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس بارے میں جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو ادا کیا۔
جامع ترمذی: خثیمہ بصری حضرت انس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو قضاء کے عہدے پر فائز ہونا چاہتا ہے اور اس کے لئے سفارشیں کراتا ہے اسے اس کے نفس پر چھوڑ دیا جاتا ہے یعنی غیبی مدد نہیں ہوتی اور جسے زبردستی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے اللہ اس کی مدد کے لئے ایک فرشتہ اتارتا ہے۔
جامع ترمذی: محمد بن عبدالرحمن بن سعد بن زرارہ بن کعب انصاری اپنے والد سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اگر وہ بھوکے بھیڑئیے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ انتا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص انسان کے دین کو خراب کرتی ہے
 
صحیح بخاری: حضرت ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ میری قوم کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں امیر بنادیں اور دوسرے نے بھی یہی عرض کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم اس کا مالک اس کو نہیں بنائیں گے جو اس کی درخواست کرے یا جو اس کا حریص ہو
صحیح بخاری: عنقریب تم حکومت کی خواہش کرو گے اور وہ قیامت کے دن باعثِ ندامت ہوگی پس وہ اچھی دودھ پلانے والی ہے اور بری دودھ چھڑانے والی ہے۔
سنن ابوداؤد: انس بن مالک ؓ روایت سے ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے عہدہ قضاء طلب کیا اور اس پر لوگوں سے مدد چاہی تو وہ اسی کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اور جس نے اسے طلب نہیں کیا اور نہ لوگوں سے اس معاملہ پر مدد چاہی اسے عہدہ قضاء مل گیا تو ایک فرشتہ اللہ تعالیٰ نازل فرماتے ہیں جو اس کے معاملات کو درست کرتا ہے۔
 
سنن ابوداؤد: ابوموسی سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہم ہرگز عامل نہیں بنائیں گے یا فرمایا کہ اسے عامل نہیں بنائیں گے اپنے امور پر جو اسے طلب کرے گا۔
 
سنن ابوداؤد: حضرت ابوموسی سے روایت ہے کہ میں دو آدمیوں کو ساتھ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان میں سے ایک شخص نے خطبہ پڑھا۔ اس کے بعد بولا ہم آپ کے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ آپ ہمیں حکومت کا کوئی کام سونپ دیں۔ دوسرے شخص نے بھی وہی بات کی جو اس کا ساتھی کہہ چکا تھا۔ آپ نے فرمایا ہمارے نزدیک تو وہ شخص بہت بڑا خائن ہے جواز خود حکومت طلب کرے۔
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کو مخاطب فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اے عبدالرحمن بن سمرہ! منصب کا سوال مت کرو اس لیے کہ اگر طلب پر تم کو یہ دیا جائے تو تم کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا اور بلاطلب ملے تو نصرتِ الٰہی شامل حال ہوگی۔ (کنز العمال ج
۶ ح ۶۹)
امام ابو خینفه کا عہدۂ قضا سے انکار :
خطیب بغدادی نے روایت کی ہے کہ یزید بن عمر بن ہیبر، والی عراق نے امام ابو حنیفہؒ کو حکم دیا کہ کوفہ کے قاضی بن جائیں لیکن امام صاحب نے قبول نہیں کیا تو اس نے ایک سو دس کوڑے لگوائے۔ روزانہ دس کوڑے لگواتا جب بہت کوڑے لگ چکے اور امام صاحب اپنی بات یعنی قاضی نہ بننے پر اڑے رہے تو اس نے مجبور ہو کر چھوڑ دیا۔
ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب قاضی ابن لیلیٰ کا انتقال ہو گیا اور خلیفہ منصور کو اطلاع ملی تو اس نے امام صاحب کیلئے قضا کا عہدہ تجویز کیا امام صاحب نے صاف انکار کیا اور کہا کہ "میں اس کی قابلیت نہیں رکھتا" منصور نے غصہ میں آ کر کہا "تم جھوٹے ہو" امام صاحب نے کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ دعویٰ ضرور سچا ہے کہ میں عہدۂ قضاء کے قابل نہیں کیونکہ جھوٹا شخص کبھی قاضی نہیں مقرر ہو سکتا۔
طلب کرنے کی بنا پر ملنے والی حکومت کے اللہ کی مدد سے محروم رہنے کے حوالے سے نبی ﷺ کا ارشاد کتنا حقیقت پر مبنی ہے اس کا ثبوت دنیا بھر میں کلمہ پڑھنے والوں کی ہر جمہوری حکومت کی مکمل ناکامی کی صورت میں سب کے سامنے ہے اس سے آخرت کی سزا کے حوالے سے آپ ﷺکے ارشاد کی سچائی کااندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ طلب ِحکومت اگر چہ عام گنا ہ ہے لیکن جب ایسا غیر اللہ کے نظام’’جمہوریت‘‘ کی اتباع میں کیا جاتاہے تو پھر شرک کا عظیم گناہ بن جاتاہے
کثرتِ رائے :
آیئے دیکهتے هیں قرآن میں "اکثریت" کے بارے میں کیا فرمایا گیا هے
( بلکہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائیں گے ) ( سورت البقره ، آیت ۱۰۰ )
( لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ) ( سورت البقره ، آیت
۲۴۳ )
( اور اکثر ان میں نافرمان ( فاسق) ہیں ) ( سورت آل عمران ، آیت
۱۱۰ )
( اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں ) ( سورت المائده ، آیت
۴۹ )
( لیکن ان کی اکثریت سخت بد عمل ہے ) ( سورت المائده ، آیت
۶۶ )
( لیکن پھر بھی اکثریت اندھی بہری ہوگئی ) ( سورت المائده ، آیت
۷۱ )
( اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں ) ( سورت المائده ، آیت
۱۰۳ )
( لیکن ان میں اکژ بےخبر ہیں ) ( سورت الانعام ، آیت
۳۷ )
( اور اگر آپ بات مان لیں ان میں سے اکثر لوگوں کی جو زمین میں ہیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے ( سورت الانعام ، آیت
۱۱۶ )
( اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے ) ( سورت ا لاعراف ، آیت
۱۷ )
( اور تمہاری جماعت خواہ کتنی ہی کثیر ہو تمہارے کچھ بھی کام نہ آئے گی۔ اور خدا تو مومنوں کے ساتھ ہے ) سورت الانفال ، آیت
۱۹ )
( اور ان کے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر ایک گمان کی، بے شک گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا ) ( سورت یونس ، آیت
۳۶ )
( اور حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتنے والے ہیں ) (سورت یونس ، آیت
۹۲ )
( اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ) ( سورت یوسف ، آیت
۱۰۳ )
( اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر اس حال میں کہ شرک کرنے والے ہیں ) ( سورت یوسف ، آیت
۱۰۶ )
( لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ) ( سورت الرعد ، آیت
۱ )
( اور اکثر لوگ تو ہیں ہی کفر (اور ناشکری) کا ارتکاب کرنے والے ) ( سورت النحل ، آیت
۸۳ )
( مگر لوگوں کی اکثریت (پھر بھی) انکار ہی پر کمربستہ رہی ) ( سورت الاسرا ، آیت
۸۹ )
( کیا ان لوگوں نے اس کے سوا معبود بنالئے ہیں آپ فرما دیجیے اپنی دلیل لاؤ، یہ ذکر ہے ان لوگوں کا جو میرے ساتھ ہیں اور جو مجھ سے پہلے تھے،بلکہ ان میں سے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے سو وہ اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں ( سورت الانبیا ، آیت
۲۴ )
( اور ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے ) ( سورت المومنون ، آیت
۷۰ )
( کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ ) ( سورت الفرقان
۴۴ )
( لیکن ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے ) ( سورت الشعراء ، آیت
۸ )
( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے جو ان کے مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور زیادہ طاقتور بھی تھے اور زمین میں آثار کے مالک تھے لیکن جو کچھ بھی کمایا تھا کچھ کام نہ آیا اور مبتلائے عذاب ہوگئے ) ( سورت غافر
۸۲ )
ہر ایک کے ووٹ کی یکساں قیمت :
اور برابری کے بارے میں قرآن کیا فرماتا هے که
سورت آل عمران ، آیت ۱۶۲ 
کیا وہ شخص جو مرضیِ الٰہی کے تابع ہو گیا ہو۔ اس کے برابر ہو سکتا ہے کہ جس نے خدا کا غصہ حاصل کیا ہو اور اس کا ٹھکانا (بھی) جہنم ہو اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے
سورت النساء ، آیت ۹۲
وہ مسلمان جو بغیر کسی (معقول) عذر کے(جہاد سے) بیٹھ رہے ہیں ان مجاہدوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کر رہے ہیں۔
سورت المائده ، آیت۱۰۰
فرما دیجیے کہ خبیث (ناپاک) اور طیب (پاک) برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ خبیث (ناپاک) کی کثرت تمہیں تعجب میں بھی ڈال دے
سورت الانعام ، آیت ۵۰ 
کیا نابینا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں؟ پھر تم لوگ کیوں نہیں سوچتے
سورت الرعد ، آیت ۱۹
پھر کیا وہ شخص جو کہ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کو برحق جانتا ہے اس کے برابر ہے جو اندھا ہے؟ سمجھتے تو عقل والے ہی ہیں
سورت السجده ، آیت ۱۸
بھلا جو صاحب ایمان ہے کیا وہ اس جیسا ہو سکتا ہے جو فاسق (نافرمان) ہے؟ ہر گز نہیں (مومن اور فاسق) برابر نہیں ہو سکتے
سورت ص ، آیت
۲۸ 
ہاں تو کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کی برابر کر دیں گے جو (کفر وغیرہ کر کے) دنیا میں فساد کرتے پھر تے ہیں یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کر دیں گے۔
سورت الزمر ، آیت ۹ 
کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہو سکتے ہیں (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں
سورت فصلت ، آیت ۳۴ 
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔
سورت محمد ، آیت ۱۴
بھلا ایک جو چلتا ہے واضح رستہ پر اپنے رب کے برابر ہے اس کے جس کو بھلا دکھایا اس کا برا کام اور چلتے ہیں اپنی خواہش پر
سورت القلم ، آیت ۳۵
کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کے برابر کردینگے ۔ تم کو کیا ہوا تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔