Tuesday, October 14, 2014

مجاہدین کے لئے ہدایات

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمانِ مبارک ہے:
’’
شیطان ابن آدم کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف راستوں میں بیٹھا ہوتا ہے ، پہلے اسلام کے راستے میں بیٹھتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ کیا تواسلام قبول کر کے اپنا اور اپنے آباؤاجداد کا دین ترک کردے گا وہ اس کی نافرمانی کر کے اسلام قبول کر لیتا ہے۔تو شیطان ہجرت کے راستے میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تو ہجرت کر کے اپنے زمین اور آسمان کو چھوڑ کر چلا جائے گا مہاجر کی مثال تولمبائی میں گھوڑے جیسی ہے وہ پھر اس کی نافرمانی کر کے ہجرت کر جاتا ہے۔پھر شیطان جہاد کے راستے میں بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اس سے جان و مال دونوں کو خطرہ ہے تو لڑائی میں شرکت کرتا ہے اور مارا جائے گا تیری بیوی سے کوئی اور نکاح کر لے گااور تیرے مال کا بٹوارہ ہو جائے گا لیکن وہ اس کی نافرمانی کر کے جہاد کے لیے چلا جاتا ہے‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزیدفرمایا:
’’
جو شخص یہ کام کر کے فوت ہو جائے تو اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے اگروہ شہید ہو جائے یا سمندر میں ڈوب جائے یا جانور سے گر کر فوت ہو جائے تب بھی اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے‘‘۔(احمد،نسائی )
اس کاسبب جیسے میں نے پہلے بیان کیا تفقہ فی الدین کی قلت ہے ،چنانچہ علاج بھی تفقہ الدین ،صحیح اسلامی علوم کے حصول اور تربیت اور تزکیہ نفس کا اہتمام ہے ، اس کے ساتھ ایسے امین و صالح،اہلِ ورع امرا کاتقرر جو معتدل مزاج و اخلاق کے حامل ہوں،صبر و درگزر اور قربانی کے ایسے پیکر کہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کریں اور کسی اور سے کسی جزایا بدلے کے طلب گار نہ ہوں،اپنے لوگوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ رکھنے والے جو مخلوق پر اس لیے رحم کرتے ہیں کہ الرحمن ان پر رحم فرمائے گا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَ جَاہَدُوا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ أُوْلَءِکَ ہُمُ الصَّادِقُونOقُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّہَ بِدِیْنِکُمْ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ O یَمُنُّونَ عَلَیْْکَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَیَّ إِسْلَامَکُم بَلِ اللَّہُ یَمُنُّ عَلَیْْکُمْ أَنْ ہَدَاکُمْ لِلْإِیْمَانِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ Oإِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّہُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحجرات:۱۵۔۱۸) 
’’مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑے یہی لوگ (ایمان کے)سچے ہیں۔ان سے کہو کیا تم اللہ کو اپنی دین داری جتلاتے ہو؟ اور اللہ تو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں سے واقف ہے اور اللہ ہر شے کو جانتا ہے ۔یہ لوگ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں ،کہہ دو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم سچے (مسلمان)ہو ۔بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے ‘‘۔
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لیے اس صفت کو مختص فرمایا ہے کہ وہ ایمان لا کر اس کے بارے میں کسی شک میں نہیں پڑتے اور اپنے اموال اور جانوں کی قربانی سے اللہ وحدہ لاشریک کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔پھر اعراب کے اس گروہ کو مخاطب کر کے تنبیہ و سرزنش فرمائی ہے جو ایمان کے دعوے دار تھے اور ایمان لا کر جتلا رہے تھے جب کہ مندرجہ بالا ایمانی صفات سے متصف بھی نہیں تھے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان جتلانے پر ان کی سرزنش فرمائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ انہیں کہیں کہ اپنے اسلام کا احسان نہ جتلائیں اور انہیں خبردار کریں کہ ہدایت کا مل جانا صرف اللہ وحدہ لاشریک کا فضل و احسان ہے ۔سچے اہلِ ایمان کی صفات بیان کرنے کے بعد ایمان کے دعوے اور اس پر گھمنڈ کے عیب پر سرزنش فرمانا، اہلِ ایمان کو اس بیماری کے خطرے سے خبردار کرنا ہے ۔(واللہ اعلم)۔۔۔اسی طرح مجاہدین کی قیادت کو چاہیے کہ وہ قول و فعل کے تمام دستیاب شرعی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مجاہدین کی صفوں کو مضبوط کرنے اور ان کے مابین محبت و عاطفت کو بڑھانے کے لیے بھرپور محنت کریں ۔مجاہدین کے باہمی تعلق کو ایسا بنا دیں جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’
مسلمان آپس میں پیار ومحبت ،رحم وشفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
اسی طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِہِ صَفّاً کَأَنَّہُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف:۴)
’’اللہ محبت کرتا ہے ان لوگوں کو جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں قطار باندھ کر گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔
یہ بات اللہ سبحانہ تعالیٰ کو محبوب اور اس کی رضا کا باعث ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کریں۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے درمیان محبت کو بڑھانے والے اسباب کی بھرپور ترویج کی جائے اور اس کے برعکس باہم اختلاف،دوری و رنجش یا بغض و عداوت پیدا کرنے والے امور کا تدارک کیا جائے ۔شریعتِ مطہرہ نے بہت تفصیل کے ساتھ باہم محبت کے اسباب ، ان کے فضائل اور آپس میں دوری و رنجش اور بغض و عداوت کے اسباب کے خطرات کو بیان کیا ہے ۔۔۔یہ پاکیزہ ربانی شریعتِ اسلامیہ کے محاسن میں سے ہے ۔اس کی تفصیل بہت طویل ہے ،اس کے لیے سلوک واخلاق اور فضائل پر اہلِ علم کی کتب ، کتبِ احادیث اور ان کی شروحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’
بدگمانی سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ بدگمانی بڑی جھوٹی بات ہے اور دوسرے کے عیوب کی تلاش میں نہ رہا کرواور جاسوسی نہ کیا کرواور نہ دوسروں سے بڑھنے چڑھنے کی ہوس کیا کرو۔نہ باہم حسد کیا کرو ، نہ بغض رکھا کرو ، نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر کر چلو ، بلکہ سب ایک اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بنے رہو جیسا کہ اس نے حکم فرمایا ہے ،ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے ،نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑے ، نہ اس کو حقیر سمجھے ۔ پھر سینہ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے تھے :تقویٰ اس جگہ ہے ، تقویٰ اس جگہ ہے۔۔۔برائی کے لیے انسان کو اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ،مسلمان کاسب کا سب دوسرے مسلمان پر حرام ہے ،خون ہو یا آبرو یا مال‘‘۔ (مالک ،بخاری ،مسلم ابوداود،ترمذی )۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ یہ ان اہم ترین امور میں سے ایک ہے جس کا مجاہدین کی قیادت کو بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے ۔میرے خیال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر میں یہاں اس حوالے سے مجاہدین میں پائی جانے والی چند خطاوں کا تذکرہ کردوں جن کا میں نے خود مشاہدہ کیا ، تاکہ تنبیہ کا صحیح حق ادا ہوجائے اور ہمارے عمل میں بہتری آجائے کیوں کہ علم تو عمل کی خاطر ہی حاصل کیا جاتا ہے ۔
بعض امرااپنے ماتحتوں یا ساتھیوں کو دوسرے امرایا مجاہدین کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن انہیں منع نہیں کرتے بلکہ کئی دفعہ دوسرے امیر سے کسی رنجش یا اس سے مسابقت کی خاطر اپنے ساتھیوں کو اور تھپکی دے دیتے ہیں ۔یہ انسان کی ایسی بیماری ہے کہ اس کا علاج اس کا اپنا نفس ہی کر سکتا ہے ۔بڑے امرا کو چاہیے کہ اس معاملے میں اپنے نائبین اور ساتھیوں کی نگرانی کریں اور ان کے علاج و اصلاح اور تادیب کا انتظام کریں ۔امیرکے لیے واجب ہے کہ جب وہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو دوسرے مجاہدین یا امراکے بارے میں بات کرتے ہوئے سنے تو فوراً اس کو منع کرے ،ساتھیوں کو غیبت ،چغلی یا کسی مسلمان کی آبرو پر انگلی اٹھانے سمیت زبان کی تمام آفات اور ان کے مضرات سے خبردار کرے اور کوئی امیر اس وقت تک یہ کام نہیں کرسکتا جب تک اسے دین میں تفقہ حاصل نہ ہو اور وہ عارف باللہ ،متقی اور مخلص نہ ہو۔
مجاہدین کے مجموعات اور گروپوں میں یہ مرض بہت کثرت سے پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مجموعے ، امرا اور کارروائیوں کی مدح میں مصروف رہتے ہیں اور اس پر فخر کرتے رہتے ہیں اور دوسرے گروپوں پر یوں طعن کرتے ہیں:وہ تو بالکل فارغ ہیں ،ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور ہم بہت مصروف ہیں اور ہم نے فلاں فلاں بڑی کارروائیاں کی ہیں۔ یہ رویہ بہت سی قلبی بیماریوں کی گواہی دیتا ہے ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں سلامتی و عافیت عطا کرے ،ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ تواضع ، اخلاص اور سوئے خاتمہ کے خوف جیسے اخلاق کی تعلیم و تذکیر کے ذریعے اپنے ساتھیوں کی اصلاح کی کوشش کریں۔حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔
بدگمانی ، آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ مرض مجاہدین کے مابین کس قدر کثرت سے پایا جاتا ہے ۔ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانا اور تہمت لگانا ، فلاں یہ کرنا چاہتا ہے ،فلاں نے یہ کام دنیاوی شہرت ،غلبے یا جاہ کے لیے کیا ہے یا کوئی کسی پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ایجنسی کا ایجنٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔یہ بہت خطرناک روش ہے ۔ امرا کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے کے معاملے میں اپنے ساتھیوں کے لیے نمونہ بنیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اس عالی اسلامی اخلاق کی تعلیم دیں۔
ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو ایمانِ کامل اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ہماری ہجرت و جہاد کی حفاظت فرمائے اور اپنے فضل و کرم اور احسان سے انہیں تکمیل تک پہنچائے ۔بے شک وہ فضل و کرم کرنے والا ولی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ اور رب نہیں ہے ۔
والحمد للہ رب العالمین ، وصلی اللہ علی محمدٍ وآلہ وصحبہ أجمعین.
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شیخ عطیۃ اللہ شہید رحمہ اللہ
ذو الحجۃ ۱۴۳۱ہ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔