بے شک اسلام اخلاق سے پھیلا ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ تلوار اخلاق کی ضد ہے۔ یہ شبہ اس وقت پیدا ہوا جب حضرات علمائے کرام سے پوچھا گیا کہ اسلام کی اشاعت کس طرح ہوئی۔ انہوں نے ایک جامع لفظ ’’اخلاق‘‘ کو استعمال فرمایا اور جواب دیا کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے۔
لیکن علماء کرام کے اس قول سے یہ ثابت کرنا کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ تلوار تو اخلاق کی ضد ہے۔ دین کو بگاڑنے اور مسلمانوں کو نہتا کرکے اپنے دشمن کے لیے ترنوالہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
اس مسئلے پر مفصل بحث کرنے سے قبل ایک بات کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ آخر اس سوال کی کیا ضرورت پیش آئی کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے یا تلوار سے؟ اور ایک خاص دور میں خاص لوگوں کی طرف سے یہ سوال کیوں اس شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا؟
اصل بات یہ تھی کہ مسلمانوں کی بہادری، جوانمردی، تلوار بازی اور شوق شہادت کے سامنے پوری دنیا کا کفر بے بس ہو چکا تھا اور حالت یہ تھی کہ کافر کے لیے اسلام، موت یا غلامی کے علاوہ چوتھا اورکوئی راستہ باقی نہیں تھا۔ اطراف عالم میں مسلمان فاتحین پہنچ چکے تھے اور لاکھوں انسان جوق درجوق اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ علاقوں کے علاقے ان کے سامنے سرنگوں ہو رہے تھے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کے دشمن منافقین اور یہودیوں نے یہی سوچا کہ مسلمانوں کو میدان میں شکست دینا اور طاقت کے زور پر ان کی یلغارکو روکنا بالکل ناممکن ہے۔ اب کسی طرح سے اس بہادر قوم کو بزدل بنایا جائے۔ تیر و تلوار کے ان شیدائیوں کو اسلحے سے متنفر کیا جائے، عیش و عشرت کی زندگی کو شہادت کی موت کے بھلانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اسلام تو طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں مسلط ہوا ہے۔ اس نے تلوار کی نوک گلے پر رکھ کر لوگوں کو کلمہ پڑھایا ہے۔ اس نے جبر و استبداد اور استحصال کے ذریعے ملکوں پر حکمرانی حاصل کی ہے۔ کافروں کے اس خطرناک اورزہریلے پروپیگنڈے کے جواب میں وقت کے علماء نے ان قرآنی احکامات کی وضاحت فرمائی کہ اسلام کسی کو زبردستی مسلمان ہونے کا حکم نہیں دیتا، اسلام کا نظام، نظام جبر نہیں بلکہ نظام اخلاق ہے۔ علماء کرام کی یہ تصریح بالکل درست تھی کہ دین اسلام کے قبول کرنے کے سلسلے میں ہمارے مذہب میں کوئی جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ جس کا دل چاہے مسلمان ہو جائے اور جس کا دل چاہے وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی غلامی میں رہے اور مسلمان اس کی جان و مال کا دفاع کریں گے اور اسلام کا نظام، نظام اخلاق ہے کہ اس میں ہر معاملے میں اخلاق کو مدنظر رکھا جاتا ہے (اخلاق کی تشریح آگے آرہی ہے) مگر سازشیوں نے علمائے کرام کی اس تصریح کا غلط مفہوم دنیا کو سمجھایا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ علماء نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے۔ اس میں تلوار کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کوئی دخل۔
چنانچہ اس بات کو اتنے زور و شور سے بیان کیا گیا کہ مسلمان واقعی تلوار اور اخلاق کو دو متضاد چیزیں تصور کرنے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ ہمارے مذہب میں اسلحہ تو ایک جرم ہے۔ ہمارامذہب اخلاق کا درس دیتا ہے اوراخلاق کا تقاضہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، وطن چھن جائے، غلامی کرنی پڑے، جان دینی پڑے، عزت کو برباد کرنا پڑے مگر اسلحے کو ہاتھ نہیں لگانا۔ چنانچہ کافروں کے اس پروپیگنڈے کی بناء پر آج کا مسلمان اسلحے کے زیور سے محروم ہو چکا ہے۔ آج کی سوسائٹی میں علماء، مشائخ اور دیندار طبقے کے لیے اسلحہ رکھنا اور اسے سیکھنا کسی فحش گناہ کی طرح معیوب بن گیا ہے۔ تیر اندازی کی وہ محفلیں جو دور نبوت میں سجا کرتی تھی ویران ہو چکی ہیں۔ تلوار بازی کی بناء پر بارگاہ نبوت سے جو اعزازی کلمات ملتے تھے آج کا مسلمان ان سے محروم ہو چکا ہے۔ چنانچہ مسلمان تو اسلحے سے دور ہو کر فاختہ کی طرح امن پسند، کمزور اور نہتا ہو چکا جب کہ اسے اسلحے کے خلاف اکسانے والی قوموں نے اسے تباہ کرنے اور حرف غلط کی طرح مٹانے کے لیے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تیار کر لیے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے جس خطے کو یا جس فرد کو چاہتے ہیں منٹوں میں مٹا دیتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی مزاحمت یا دفاع کا سامنا تک نہیں کرنا پڑتا۔ یہ نتیجہ ہے اس اخلاق پر عمل پیرا ہونے کا، جس اخلاق کو ہم نے تلوار کی ضد سمجھا اور جس اخلاق کو ہم نے بزدلی سستی، کاہلی اور اپاہجی سمجھا، حالانکہ ایسے اخلاق کی تعلیم نہ قرآن نے دی ہے نہ حدیث نے فقہا نے یہ سمجھایا ہے اور نہ مشائخ اسلاف نے۔
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اصل مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔
(1 ) اخلاق کی تشریح
(2) اسلام قبول کرنے اور اس کے نافذ ہونے کا فرق۔
پہلا اہم مسئلہ اخلاق کی تشریح کا ہے تو خوب سمجھنا چاہیے کہ اخلاق مسکرانے، ہنسنے، ظلم سہنے کا نام نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر حال کے مطابق ایسا کام کرنا جو اس حال اور وقت کے مناسب ہو اور اس کے بگاڑ کا ذریعہ نہ ہو یہ اخلاق ہے۔ پیار کے وقت نرمی اور سختی کی جگہ پر سختی اخلاق کہلاتی ہے۔ کوئی آدمی کسی خطرناک سانپ کو دودھ پلا کر پال رہا ہو، تا کہ یہ سانپ انسانوں کو نقصان پہنچائے تو اس کا سانپ کو دودھ پلانا بظاہر اخلاق ہے، مگر حقیقت میں ظلم ہے۔ اب کوئی مفکر بھی اس آدمی کو اخلاق کا تاج پہنانے کی لیے تیار نہ ہو گا۔
اخلاق کے اس معنی کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے، ایک آدمی نے کسی کتے کو پیاسا مرتے دیکھا اور اس نے اسے پانی پلا دیا اس کا یہ فعل یقیناً اخلاق ہے۔ لیکن اس نے جیسے ہی اس کتے کو پانی پلایا کتا کسی مسلمان عورت کو کاٹنے کے لیے لپکا۔ اب اس نے لاٹھی کے ذریعے سے کتے کا علاج کیا تو اس کا یہ مارنا بھی اخلاق ہی ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو کسی برائی یا مضر چیز سے روکنے کے لیے مارتا ہے، اس کا مارنا یقینا اخلاق کے زمرے میں شامل ہو گا لیکن ایک باپ اپنے بیٹے کو فحش کاری میں مبتلا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتا اور اس پر اپنے احسانات کو جاری رکھتا ہے تو یہ باپ اخلاق کا خوگر نہیں ظلم کا پجاری ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں دی ہے۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo (القلم:4)
اس گواہی کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجسم اخلاق تھے لیکن ہم سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے میں جہاں آپ کی رحم دلی، غربا پروری، بیکسوں کی یاوری جیسی عظیم صفات کو دیکھتے ہیں وہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ستائیس مرتبہ تلوار اٹھا کر کفر کے مقابلے میں نکلے اور آپ نے پچھتّر مرتبہ اپنے صحابہ کرام کو مختلف جنگی مہموں پر روانہ فرمایا۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے ابی بن خلف جیسے خبیث النفس کافر کو قتل فرمایا اور کعب بن اشرف، حی بن اخطب، رافع بن خدیج، عصما، زید بن سفیان جیسے کافروں کے قتل کا حکم دیا اور ان کے قتل کرنے والوں کو بڑی بڑی بشارتوں سے نوازا۔ بنی قریظہ کے سات سو سے زائد یہودیوں کے ذبح کا حکم جاری فرمایا۔ بدر میں ستر کفار کے مرنے کی جگہیں جنگ سے قبل بتلا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تلوار رکھنے کے فضائل بیان فرمائے، اس کے سیکھنے اور تیر اندازی ترک نہ کرنے کے احکامات جاری فرمائے، ظالم کافروں کے قتل کرنے کی فضیلت بیان فرمای۔ کیا خدا نخواستہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان افعال و اقوال کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ بد اخلاقی کہنے کی جرات کر سکتے ہیں؟
کیونکہ اگر اخلاق اور تلوار آپس میں متضاد چیزیں ہیں تو پھر یقینا تلوار اٹھانا بد اخلاقی ہی کہلائے گا۔
مگر تاریخ گواہ ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی اور اٹھوائی اور کفر کے کینسر کو سرزمین حجاز سے کاٹ پھینکا تو پورا معاشرہ صحت مند ہو گیا اور اسلام اور ایمان کی ہوائیں قیصرو کسری کے کفر کو ہچکولے دینے لگیں۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا کہ ’’آپ کا اخلاق قرآن مجید تھا‘‘۔ اس روایت میں صدیقہ کائنات نے قرآن مجید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرار دیا ہے۔ اب قرآن مجید کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید تو مسلمانوں کو نماز، روزہ حج اور زکوۃ کے ساتھ جہاد اور قتال کا حکم بھی دے رہا ہے اور قتال کی فرضیت کا اعلان فرما رہا ہے۔
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ۔ (البقرہ: 215)
ترجمہ: ’’تم پر قتال فرض کیا گیا۔‘‘
بلکہ قرآن مجید کی محکم آیات سے جس طرح جہاد کا حکم، اس کی فرضیت، اس کی فضیلت، اس کی جزئیات کی تشریح، اس کے مقاصد اور اس کی حدود معلوم ہوتی ہیں کسی اور حکم کے متعلق ایسی تشریح قرآن مجید میں موجود نہیں ہے، چالیس سے زائد مقامات پر تو قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ شہداء کی ایسی فضیلتیں قرآن نے بتائی ہیں کہ اگر ان کا تذکرہ کیا جائے تو شوق شہادت سے دل پھٹنے لگ جائے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نعوذ باللہ بد اخلاقی کی دعوت دے رہا ہے یا صرف قتال جیسی مجبوری کے وقت کی چیز (جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے) پر اس قدر زور لگا رہا ہے اور قتال چھوڑنے پر طرح طرح کی وعیدیں سنا رہا ہے۔
بہرحال یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اخلاق کسی کے نہیں اور قرآن مجید مکمل طور پر درس اخلاق ہے اور ہمیں ان دونوں میں تلوار، جہاد اور قتال جیسی چیزیں وافر مقدار میں نظر آ رہی ہے۔ چنانچہ ہم دعوے کی ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے اور اخلاق اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں تلوار نہ ہو۔
اس کی عقلی حیثیت بھی مخفی نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر مریض کے جسم کے کینسر کاٹنے کا حکم دیتا ہے مگر اسے کوئی بھی نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہے آپ کس طرح کاٹنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کو تو اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ کینسر کو تیز دھار نشتر کے ذریعے کاٹنے پر ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور انہیں فیس بھی دی جاتی ہے۔
لیکن اگر معاشرے سے کفر کے کینسر کو کاٹنے کی بات کی جائے تو یہ بد اخلاقی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے دشمن اور انسانیت کے دشمن کافروں کا وجود اس معاشرے کے لیے کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ آج اس چیز کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ کفر کے کینسر کے غلیظ اثرات کس طرح سے اہل ایمان کے گھروں اور دلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ فحاشی اور عریانی جیسی غلاظتیں اب عیب نہیں رہیں۔
سوچنے کی بات
پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی مرغی اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک چھری کے ذریعہ اس کے ناپاک خون کو اس کے جسم سے نہ نکال دیا جائے اور چھری چلاتے ہوئے اللہ کی عظمت کی تکبیر نہ پڑھی جائے۔ تو اتنا بڑا معاشرہ جس میں بے انتہا گند سرایت کر چکاہے۔اس وقت تک کیسے پاک ہو سکتا ہے جب تک چھری کے ذریعے سے اس گند کو باہر نہ نکال دیا جائے اور جب یہ گند نکل جائے گا اس وقت لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے۔
آج کے بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ کافر ہمارے اخلاق دیکھ کر خود مسلمان ہو جائیں گے۔ اس دور میں یہ دعوی انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اخلاق اس قوم کے دیکھے جاتے ہیں جس کی اپنی کوئی حیثیت ہو، جس کا اپنا کوئی نظام چل رہا ہو۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آزاد قوم کسی غلام قوم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی غلام بن گئی ہو۔ جس زمانے میں مسلمان فاتحین کی شکل میں ملکوں میں داخل ہوتے تھے تو لوگ ان کو دیکھتے تھے اور مسلمان ہوتے تھے مگر اس وقت تو ہم ایک قوم کی حیثیت سے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارا اسلامی نظام کہیں بھی نافذ نہیں، صرف کتابوں میں موجود ہے اور ہمیں اس کے نافذ کرنے میں دلچسپی بھی نہیں ہے بلکہ ہم تو حکومت و خلافت کے نام سے چڑتے ہیں اور کرسی کو فساق و فجار کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ہم نے چند عبادات کو اسلام سمجھ رکھا ہے اور ایک عالمگیر نظام کو رہبانیت بنا دیا ہے۔ ایسے وقت جبکہ ہمارا قومی، ملی اور دینی وجود ہی پارہ پارہ ہے۔ ہم کس منہ سے کہتے ہیں کہ لوگ ہمارے اخلاق دیکھ کر خود اسلام میں آجائیں گے اور اگر چند افراد کہیں پر اسلام میںداخل ہو بھی گئے یا ہو رہے ہیں تو اس سے اسلام کو وہ غلبہ اور عظمت تو نہیں مل سکتی جس کا ہمارے رب نے ہمیں مکلف بنایا ہے۔
ہاں اس کا الٹ ہو رہا ہے اور ہمارے مسلمان اپنے حاکم کفار کے طور طریقوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کب تک اپنے ان اخلاق کے ذریعے سے مسلمانوں کو کفر کی جہنم میں دھکیلتے رہیں گے۔ اگر ہم اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اسلام کی عظمت کی محنت کرتے تو ہمیں آج یہ پستی نہ دیکھنی پڑتی۔
مگر آج ہمیں اپنی عزت و عظمت کا دھیان تو ہے لیکن دین کی ذلت و پستی کا کوئی غم نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خود کافروں کی طرف بھیجا اور ان کو اسلام، جزیہ یا قتال کی دعوت دی اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں بھی یہ طریقہ چلتا رہا کہ اسلامی دعوت کے پیچھے تلوار ضرور ہوا کرتی تھی کہ اس دعوت کو رد کرنے والے حکومت نہ کرتے رہیں بلکہ یا تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ انہوں نے اپنے پالنے اور پیدا کرنے والے رب کی دعوت کو جھٹلایا ہے یا انہیں ذلیل و رسوا ہو کر جزیہ دینا پڑے گا۔
اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں رکھی گئی کہ اسلامی دعوت کو رد بھی کر دیں اور عزت کے ساتھ حکومتیں بھی کرتے رہیں اور مسلمانوں پر مظالم بھی ڈھاتے رہیں۔
بہرحال یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ تلوار اخلاق کا ایک اہم ترین جزو ہے اور جو اخلاق تلوار سے عاری ہو گا وہ پستی اور ذلت کا باعث ہو گا۔
ایک اہم نکتہ
اس وقت تو اسلام کے پھیلنے کا نہیں بلکہ دفاع کا مسئلہ درپیش ہے۔ اخلاق کی غلط تشریح کرنے والے اگر اب بھی مسلمانوں کو تلوار اٹھا کر اپنے جان، مال، عزت و عصمت اور وطن کی حفاظت کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس وقت بھی تلوار اٹھانے کو اخلاق کے خلاف سمجھتے ہیں۔ تو پھر ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر عار نہیں ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن ہے۔ یہ قرآن و سنت میں تحریف کرنے والے ملحدین ہیں، یہ مستشرقین کا وہ ٹولہ ہے جو مسلمانوں کو مٹانے کے لیے ان کی صفوں میں گھسا ہوا ہے۔ ان ظالموں کا بس چلتا تو یہ قرآن مجید سے جہاد اور قتال کی آیات کو کھرچ دیتے مگر اس سے عاجز ہونے کی وجہ سے یہ فضول تاویلوں کا سہارا لے رہے ہیں حالانکہ مسلمان باپ کے سامنے بیٹی کو ننگا کیا جا رہا، بھائی کو باندھ کر اس کے سامنے اس کی بہن کی چادر عصمت تار تار کی جا رہی ہے مگر میر جعفر و میر صادق کے ان زندہ کرداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ الحمد للہ مسلمانوں کے مقتداء علماء اور مشائخ جہاد کا فتوی دے چکے ہیں اور ان کے فتووں نے ان ملحدوں کے مکر کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اب مسلمان اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ اٹھا چکے ہیں۔ کاش وہ کچھ پہلے اس زیور کو تھام لیتے تو آج یہ ویرانی اور بربادی اسلام کو نصیب نہ ہوتی۔
دوسرا اہم مسئلہ اسلام کے قبول کرنے اور نافذ کرنے کے درمیان فرق کا ہے
جہاں تک اسلام کے قبول کرنے کا مسئلہ ہے تو اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ کسی سے بھی جبرو کراہ کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ یعنی کس کے گلے پر تلوار کی نوک رکھ کر کلمہ پڑھنے کی تلقین نہیں کی جائے گی اور یہی مفہوم ہے قرآن مجید کی اس آیت کا
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ (البقرہ:256)
مگر جہاں تک اسلام کے نافذ کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا تو سختی کے ساتھ اس رکاوٹ کو دور کیا جائے گا۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صرف زکوۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے ساتھ قتال فرما کر اس مسئلے کو قیامت تک کے لیے واضح فرما دیا ہے کہ نظام اسلام میں کسی قسم کی رخنہ اندازی اور کتر و بیونیت کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے ان دونوں مسئلوں کو خلط ملط کرنے کی بجائے مکمل تفصیل کے ساتھ سمجھنا چاہیے کیونکہ اسلام کے مزاج میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ہم اس کے پھیلنے میں تلوار کو نظر انداز کر دیں گے تو نعوذ باللہ صحابہ کرام کی قربانیاں فضول قرار دی جائیں گی کہ اسلام کی ترویج و اشاعت میں تو تلوار کی اجازت نہیں تھی جب کہ ان حضرات نے تلوار کو استعمال کیا اور اکثر علاقے تلوار کی نوک پر فتح کئے اور تلوار ہی کے ذریعے سے گندے مواد کو صاف فرمایا۔ جب مطلع صاف ہو جاتا ہے اور مسلمان ایک با عزت حیثیت کے ساتھ کسی ملک میں داخل ہوتے تو اب لوگوں کو ان کے اخلاق دیکھنے کا موقع ملتا اور وہ گروہ در گروہ دین میں داخل ہوتے۔
اور حالات نے واضح کر دیا ہے کہ وہ داعی زیادہ کامیاب رہے جن کی دعوت کے پیچھے تلوار ہوا کرتی تھی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (آل عمران آیت 110)
’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے تم نیکیوں کا حکم کرتے ہو اور برائیوں سے روکنے ہو‘‘۔
امت محمدیہ کے خیر امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دعوت کوکوئی ٹھکرا نہیں سکے گا کیونکہ ان کی دعوت کے پیچھے جہاد کا عمل موجود ہے جو ان کی دعوت کو نہیں مانے گا۔ جہاد کے ذریعہ اس کا خاتمہ کیا جائے گا جب کہ پہلی امتوں میں دعوت کا عمل تو موجود تھا مگر ان کی دعوت کے پیچھے جہاد کی پاور نہیں تھی (یہ خلاصہ ہے جو اس تقریر کا جو معارف القرآن میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے آیت کریمہ کے ذیل میں فرمائی ہے)۔
آخری گزارش
بہت ساری احادیث کریمہ میں اسلحے کی مختلف فضیلتیں آئی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ رب العزت تلوار اٹھانے والے پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر فرماتے ہیں (اوکما قال)
ایک حدیث شریف میں فرمایا تلوار اٹھا کر نماز پڑھنے والے کی نماز دوسرے لوگوں کی نماز سے ستر گنا زیادہ افضل ہے۔ (اوکما قال) بعض احادیث میں دشمن کو تیر مارنے کی فضیلت آئی ہے۔ بہرحال اس قسم کی احادیث بہت زیادہ ہیں تو اخلاق کے وہ شارحین جو اخلاق کو تلوار کی ضد بتاتے ہیں۔ ان احادیث کریمہ کے متعلق کیا کہیں گے؟ کیا یہ بد اخلاقی کی دعوت ہیں؟ ہر گز نہیں، ہر گز نہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود نبی السیف (تلوار والے نبی) تھے۔ آپ خود نبی الملاحم (جنگوں والے نبی) تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجسم اخلاق تھے۔
اللہ رب العزت امت محمدیہ کو جناب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے، آمین
لیکن علماء کرام کے اس قول سے یہ ثابت کرنا کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ تلوار تو اخلاق کی ضد ہے۔ دین کو بگاڑنے اور مسلمانوں کو نہتا کرکے اپنے دشمن کے لیے ترنوالہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
اس مسئلے پر مفصل بحث کرنے سے قبل ایک بات کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ آخر اس سوال کی کیا ضرورت پیش آئی کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے یا تلوار سے؟ اور ایک خاص دور میں خاص لوگوں کی طرف سے یہ سوال کیوں اس شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا؟
اصل بات یہ تھی کہ مسلمانوں کی بہادری، جوانمردی، تلوار بازی اور شوق شہادت کے سامنے پوری دنیا کا کفر بے بس ہو چکا تھا اور حالت یہ تھی کہ کافر کے لیے اسلام، موت یا غلامی کے علاوہ چوتھا اورکوئی راستہ باقی نہیں تھا۔ اطراف عالم میں مسلمان فاتحین پہنچ چکے تھے اور لاکھوں انسان جوق درجوق اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ علاقوں کے علاقے ان کے سامنے سرنگوں ہو رہے تھے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کے دشمن منافقین اور یہودیوں نے یہی سوچا کہ مسلمانوں کو میدان میں شکست دینا اور طاقت کے زور پر ان کی یلغارکو روکنا بالکل ناممکن ہے۔ اب کسی طرح سے اس بہادر قوم کو بزدل بنایا جائے۔ تیر و تلوار کے ان شیدائیوں کو اسلحے سے متنفر کیا جائے، عیش و عشرت کی زندگی کو شہادت کی موت کے بھلانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اسلام تو طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں مسلط ہوا ہے۔ اس نے تلوار کی نوک گلے پر رکھ کر لوگوں کو کلمہ پڑھایا ہے۔ اس نے جبر و استبداد اور استحصال کے ذریعے ملکوں پر حکمرانی حاصل کی ہے۔ کافروں کے اس خطرناک اورزہریلے پروپیگنڈے کے جواب میں وقت کے علماء نے ان قرآنی احکامات کی وضاحت فرمائی کہ اسلام کسی کو زبردستی مسلمان ہونے کا حکم نہیں دیتا، اسلام کا نظام، نظام جبر نہیں بلکہ نظام اخلاق ہے۔ علماء کرام کی یہ تصریح بالکل درست تھی کہ دین اسلام کے قبول کرنے کے سلسلے میں ہمارے مذہب میں کوئی جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ جس کا دل چاہے مسلمان ہو جائے اور جس کا دل چاہے وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی غلامی میں رہے اور مسلمان اس کی جان و مال کا دفاع کریں گے اور اسلام کا نظام، نظام اخلاق ہے کہ اس میں ہر معاملے میں اخلاق کو مدنظر رکھا جاتا ہے (اخلاق کی تشریح آگے آرہی ہے) مگر سازشیوں نے علمائے کرام کی اس تصریح کا غلط مفہوم دنیا کو سمجھایا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ علماء نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے۔ اس میں تلوار کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ کوئی دخل۔
چنانچہ اس بات کو اتنے زور و شور سے بیان کیا گیا کہ مسلمان واقعی تلوار اور اخلاق کو دو متضاد چیزیں تصور کرنے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ ہمارے مذہب میں اسلحہ تو ایک جرم ہے۔ ہمارامذہب اخلاق کا درس دیتا ہے اوراخلاق کا تقاضہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، وطن چھن جائے، غلامی کرنی پڑے، جان دینی پڑے، عزت کو برباد کرنا پڑے مگر اسلحے کو ہاتھ نہیں لگانا۔ چنانچہ کافروں کے اس پروپیگنڈے کی بناء پر آج کا مسلمان اسلحے کے زیور سے محروم ہو چکا ہے۔ آج کی سوسائٹی میں علماء، مشائخ اور دیندار طبقے کے لیے اسلحہ رکھنا اور اسے سیکھنا کسی فحش گناہ کی طرح معیوب بن گیا ہے۔ تیر اندازی کی وہ محفلیں جو دور نبوت میں سجا کرتی تھی ویران ہو چکی ہیں۔ تلوار بازی کی بناء پر بارگاہ نبوت سے جو اعزازی کلمات ملتے تھے آج کا مسلمان ان سے محروم ہو چکا ہے۔ چنانچہ مسلمان تو اسلحے سے دور ہو کر فاختہ کی طرح امن پسند، کمزور اور نہتا ہو چکا جب کہ اسے اسلحے کے خلاف اکسانے والی قوموں نے اسے تباہ کرنے اور حرف غلط کی طرح مٹانے کے لیے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تیار کر لیے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے جس خطے کو یا جس فرد کو چاہتے ہیں منٹوں میں مٹا دیتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی مزاحمت یا دفاع کا سامنا تک نہیں کرنا پڑتا۔ یہ نتیجہ ہے اس اخلاق پر عمل پیرا ہونے کا، جس اخلاق کو ہم نے تلوار کی ضد سمجھا اور جس اخلاق کو ہم نے بزدلی سستی، کاہلی اور اپاہجی سمجھا، حالانکہ ایسے اخلاق کی تعلیم نہ قرآن نے دی ہے نہ حدیث نے فقہا نے یہ سمجھایا ہے اور نہ مشائخ اسلاف نے۔
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اصل مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔
(1 ) اخلاق کی تشریح
(2) اسلام قبول کرنے اور اس کے نافذ ہونے کا فرق۔
پہلا اہم مسئلہ اخلاق کی تشریح کا ہے تو خوب سمجھنا چاہیے کہ اخلاق مسکرانے، ہنسنے، ظلم سہنے کا نام نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر حال کے مطابق ایسا کام کرنا جو اس حال اور وقت کے مناسب ہو اور اس کے بگاڑ کا ذریعہ نہ ہو یہ اخلاق ہے۔ پیار کے وقت نرمی اور سختی کی جگہ پر سختی اخلاق کہلاتی ہے۔ کوئی آدمی کسی خطرناک سانپ کو دودھ پلا کر پال رہا ہو، تا کہ یہ سانپ انسانوں کو نقصان پہنچائے تو اس کا سانپ کو دودھ پلانا بظاہر اخلاق ہے، مگر حقیقت میں ظلم ہے۔ اب کوئی مفکر بھی اس آدمی کو اخلاق کا تاج پہنانے کی لیے تیار نہ ہو گا۔
اخلاق کے اس معنی کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے، ایک آدمی نے کسی کتے کو پیاسا مرتے دیکھا اور اس نے اسے پانی پلا دیا اس کا یہ فعل یقیناً اخلاق ہے۔ لیکن اس نے جیسے ہی اس کتے کو پانی پلایا کتا کسی مسلمان عورت کو کاٹنے کے لیے لپکا۔ اب اس نے لاٹھی کے ذریعے سے کتے کا علاج کیا تو اس کا یہ مارنا بھی اخلاق ہی ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو کسی برائی یا مضر چیز سے روکنے کے لیے مارتا ہے، اس کا مارنا یقینا اخلاق کے زمرے میں شامل ہو گا لیکن ایک باپ اپنے بیٹے کو فحش کاری میں مبتلا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتا اور اس پر اپنے احسانات کو جاری رکھتا ہے تو یہ باپ اخلاق کا خوگر نہیں ظلم کا پجاری ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں دی ہے۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo (القلم:4)
اس گواہی کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجسم اخلاق تھے لیکن ہم سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے میں جہاں آپ کی رحم دلی، غربا پروری، بیکسوں کی یاوری جیسی عظیم صفات کو دیکھتے ہیں وہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ستائیس مرتبہ تلوار اٹھا کر کفر کے مقابلے میں نکلے اور آپ نے پچھتّر مرتبہ اپنے صحابہ کرام کو مختلف جنگی مہموں پر روانہ فرمایا۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے ابی بن خلف جیسے خبیث النفس کافر کو قتل فرمایا اور کعب بن اشرف، حی بن اخطب، رافع بن خدیج، عصما، زید بن سفیان جیسے کافروں کے قتل کا حکم دیا اور ان کے قتل کرنے والوں کو بڑی بڑی بشارتوں سے نوازا۔ بنی قریظہ کے سات سو سے زائد یہودیوں کے ذبح کا حکم جاری فرمایا۔ بدر میں ستر کفار کے مرنے کی جگہیں جنگ سے قبل بتلا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تلوار رکھنے کے فضائل بیان فرمائے، اس کے سیکھنے اور تیر اندازی ترک نہ کرنے کے احکامات جاری فرمائے، ظالم کافروں کے قتل کرنے کی فضیلت بیان فرمای۔ کیا خدا نخواستہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان افعال و اقوال کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ بد اخلاقی کہنے کی جرات کر سکتے ہیں؟
کیونکہ اگر اخلاق اور تلوار آپس میں متضاد چیزیں ہیں تو پھر یقینا تلوار اٹھانا بد اخلاقی ہی کہلائے گا۔
مگر تاریخ گواہ ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی اور اٹھوائی اور کفر کے کینسر کو سرزمین حجاز سے کاٹ پھینکا تو پورا معاشرہ صحت مند ہو گیا اور اسلام اور ایمان کی ہوائیں قیصرو کسری کے کفر کو ہچکولے دینے لگیں۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا کہ ’’آپ کا اخلاق قرآن مجید تھا‘‘۔ اس روایت میں صدیقہ کائنات نے قرآن مجید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرار دیا ہے۔ اب قرآن مجید کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید تو مسلمانوں کو نماز، روزہ حج اور زکوۃ کے ساتھ جہاد اور قتال کا حکم بھی دے رہا ہے اور قتال کی فرضیت کا اعلان فرما رہا ہے۔
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ۔ (البقرہ: 215)
ترجمہ: ’’تم پر قتال فرض کیا گیا۔‘‘
بلکہ قرآن مجید کی محکم آیات سے جس طرح جہاد کا حکم، اس کی فرضیت، اس کی فضیلت، اس کی جزئیات کی تشریح، اس کے مقاصد اور اس کی حدود معلوم ہوتی ہیں کسی اور حکم کے متعلق ایسی تشریح قرآن مجید میں موجود نہیں ہے، چالیس سے زائد مقامات پر تو قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ شہداء کی ایسی فضیلتیں قرآن نے بتائی ہیں کہ اگر ان کا تذکرہ کیا جائے تو شوق شہادت سے دل پھٹنے لگ جائے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نعوذ باللہ بد اخلاقی کی دعوت دے رہا ہے یا صرف قتال جیسی مجبوری کے وقت کی چیز (جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے) پر اس قدر زور لگا رہا ہے اور قتال چھوڑنے پر طرح طرح کی وعیدیں سنا رہا ہے۔
بہرحال یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اخلاق کسی کے نہیں اور قرآن مجید مکمل طور پر درس اخلاق ہے اور ہمیں ان دونوں میں تلوار، جہاد اور قتال جیسی چیزیں وافر مقدار میں نظر آ رہی ہے۔ چنانچہ ہم دعوے کی ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام اخلاق سے پھیلا ہے اور اخلاق اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں تلوار نہ ہو۔
اس کی عقلی حیثیت بھی مخفی نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر مریض کے جسم کے کینسر کاٹنے کا حکم دیتا ہے مگر اسے کوئی بھی نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہے آپ کس طرح کاٹنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کو تو اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ کینسر کو تیز دھار نشتر کے ذریعے کاٹنے پر ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور انہیں فیس بھی دی جاتی ہے۔
لیکن اگر معاشرے سے کفر کے کینسر کو کاٹنے کی بات کی جائے تو یہ بد اخلاقی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے دشمن اور انسانیت کے دشمن کافروں کا وجود اس معاشرے کے لیے کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ آج اس چیز کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ کفر کے کینسر کے غلیظ اثرات کس طرح سے اہل ایمان کے گھروں اور دلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ فحاشی اور عریانی جیسی غلاظتیں اب عیب نہیں رہیں۔
سوچنے کی بات
پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی مرغی اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک چھری کے ذریعہ اس کے ناپاک خون کو اس کے جسم سے نہ نکال دیا جائے اور چھری چلاتے ہوئے اللہ کی عظمت کی تکبیر نہ پڑھی جائے۔ تو اتنا بڑا معاشرہ جس میں بے انتہا گند سرایت کر چکاہے۔اس وقت تک کیسے پاک ہو سکتا ہے جب تک چھری کے ذریعے سے اس گند کو باہر نہ نکال دیا جائے اور جب یہ گند نکل جائے گا اس وقت لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے۔
آج کے بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ کافر ہمارے اخلاق دیکھ کر خود مسلمان ہو جائیں گے۔ اس دور میں یہ دعوی انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اخلاق اس قوم کے دیکھے جاتے ہیں جس کی اپنی کوئی حیثیت ہو، جس کا اپنا کوئی نظام چل رہا ہو۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آزاد قوم کسی غلام قوم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی غلام بن گئی ہو۔ جس زمانے میں مسلمان فاتحین کی شکل میں ملکوں میں داخل ہوتے تھے تو لوگ ان کو دیکھتے تھے اور مسلمان ہوتے تھے مگر اس وقت تو ہم ایک قوم کی حیثیت سے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارا اسلامی نظام کہیں بھی نافذ نہیں، صرف کتابوں میں موجود ہے اور ہمیں اس کے نافذ کرنے میں دلچسپی بھی نہیں ہے بلکہ ہم تو حکومت و خلافت کے نام سے چڑتے ہیں اور کرسی کو فساق و فجار کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ہم نے چند عبادات کو اسلام سمجھ رکھا ہے اور ایک عالمگیر نظام کو رہبانیت بنا دیا ہے۔ ایسے وقت جبکہ ہمارا قومی، ملی اور دینی وجود ہی پارہ پارہ ہے۔ ہم کس منہ سے کہتے ہیں کہ لوگ ہمارے اخلاق دیکھ کر خود اسلام میں آجائیں گے اور اگر چند افراد کہیں پر اسلام میںداخل ہو بھی گئے یا ہو رہے ہیں تو اس سے اسلام کو وہ غلبہ اور عظمت تو نہیں مل سکتی جس کا ہمارے رب نے ہمیں مکلف بنایا ہے۔
ہاں اس کا الٹ ہو رہا ہے اور ہمارے مسلمان اپنے حاکم کفار کے طور طریقوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کب تک اپنے ان اخلاق کے ذریعے سے مسلمانوں کو کفر کی جہنم میں دھکیلتے رہیں گے۔ اگر ہم اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اسلام کی عظمت کی محنت کرتے تو ہمیں آج یہ پستی نہ دیکھنی پڑتی۔
مگر آج ہمیں اپنی عزت و عظمت کا دھیان تو ہے لیکن دین کی ذلت و پستی کا کوئی غم نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خود کافروں کی طرف بھیجا اور ان کو اسلام، جزیہ یا قتال کی دعوت دی اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں بھی یہ طریقہ چلتا رہا کہ اسلامی دعوت کے پیچھے تلوار ضرور ہوا کرتی تھی کہ اس دعوت کو رد کرنے والے حکومت نہ کرتے رہیں بلکہ یا تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ انہوں نے اپنے پالنے اور پیدا کرنے والے رب کی دعوت کو جھٹلایا ہے یا انہیں ذلیل و رسوا ہو کر جزیہ دینا پڑے گا۔
اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں رکھی گئی کہ اسلامی دعوت کو رد بھی کر دیں اور عزت کے ساتھ حکومتیں بھی کرتے رہیں اور مسلمانوں پر مظالم بھی ڈھاتے رہیں۔
بہرحال یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ تلوار اخلاق کا ایک اہم ترین جزو ہے اور جو اخلاق تلوار سے عاری ہو گا وہ پستی اور ذلت کا باعث ہو گا۔
ایک اہم نکتہ
اس وقت تو اسلام کے پھیلنے کا نہیں بلکہ دفاع کا مسئلہ درپیش ہے۔ اخلاق کی غلط تشریح کرنے والے اگر اب بھی مسلمانوں کو تلوار اٹھا کر اپنے جان، مال، عزت و عصمت اور وطن کی حفاظت کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس وقت بھی تلوار اٹھانے کو اخلاق کے خلاف سمجھتے ہیں۔ تو پھر ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر عار نہیں ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن ہے۔ یہ قرآن و سنت میں تحریف کرنے والے ملحدین ہیں، یہ مستشرقین کا وہ ٹولہ ہے جو مسلمانوں کو مٹانے کے لیے ان کی صفوں میں گھسا ہوا ہے۔ ان ظالموں کا بس چلتا تو یہ قرآن مجید سے جہاد اور قتال کی آیات کو کھرچ دیتے مگر اس سے عاجز ہونے کی وجہ سے یہ فضول تاویلوں کا سہارا لے رہے ہیں حالانکہ مسلمان باپ کے سامنے بیٹی کو ننگا کیا جا رہا، بھائی کو باندھ کر اس کے سامنے اس کی بہن کی چادر عصمت تار تار کی جا رہی ہے مگر میر جعفر و میر صادق کے ان زندہ کرداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ الحمد للہ مسلمانوں کے مقتداء علماء اور مشائخ جہاد کا فتوی دے چکے ہیں اور ان کے فتووں نے ان ملحدوں کے مکر کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اب مسلمان اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ اٹھا چکے ہیں۔ کاش وہ کچھ پہلے اس زیور کو تھام لیتے تو آج یہ ویرانی اور بربادی اسلام کو نصیب نہ ہوتی۔
دوسرا اہم مسئلہ اسلام کے قبول کرنے اور نافذ کرنے کے درمیان فرق کا ہے
جہاں تک اسلام کے قبول کرنے کا مسئلہ ہے تو اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ کسی سے بھی جبرو کراہ کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ یعنی کس کے گلے پر تلوار کی نوک رکھ کر کلمہ پڑھنے کی تلقین نہیں کی جائے گی اور یہی مفہوم ہے قرآن مجید کی اس آیت کا
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ (البقرہ:256)
مگر جہاں تک اسلام کے نافذ کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا تو سختی کے ساتھ اس رکاوٹ کو دور کیا جائے گا۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صرف زکوۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے ساتھ قتال فرما کر اس مسئلے کو قیامت تک کے لیے واضح فرما دیا ہے کہ نظام اسلام میں کسی قسم کی رخنہ اندازی اور کتر و بیونیت کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے ان دونوں مسئلوں کو خلط ملط کرنے کی بجائے مکمل تفصیل کے ساتھ سمجھنا چاہیے کیونکہ اسلام کے مزاج میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ہم اس کے پھیلنے میں تلوار کو نظر انداز کر دیں گے تو نعوذ باللہ صحابہ کرام کی قربانیاں فضول قرار دی جائیں گی کہ اسلام کی ترویج و اشاعت میں تو تلوار کی اجازت نہیں تھی جب کہ ان حضرات نے تلوار کو استعمال کیا اور اکثر علاقے تلوار کی نوک پر فتح کئے اور تلوار ہی کے ذریعے سے گندے مواد کو صاف فرمایا۔ جب مطلع صاف ہو جاتا ہے اور مسلمان ایک با عزت حیثیت کے ساتھ کسی ملک میں داخل ہوتے تو اب لوگوں کو ان کے اخلاق دیکھنے کا موقع ملتا اور وہ گروہ در گروہ دین میں داخل ہوتے۔
اور حالات نے واضح کر دیا ہے کہ وہ داعی زیادہ کامیاب رہے جن کی دعوت کے پیچھے تلوار ہوا کرتی تھی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (آل عمران آیت 110)
’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے تم نیکیوں کا حکم کرتے ہو اور برائیوں سے روکنے ہو‘‘۔
امت محمدیہ کے خیر امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دعوت کوکوئی ٹھکرا نہیں سکے گا کیونکہ ان کی دعوت کے پیچھے جہاد کا عمل موجود ہے جو ان کی دعوت کو نہیں مانے گا۔ جہاد کے ذریعہ اس کا خاتمہ کیا جائے گا جب کہ پہلی امتوں میں دعوت کا عمل تو موجود تھا مگر ان کی دعوت کے پیچھے جہاد کی پاور نہیں تھی (یہ خلاصہ ہے جو اس تقریر کا جو معارف القرآن میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے آیت کریمہ کے ذیل میں فرمائی ہے)۔
آخری گزارش
بہت ساری احادیث کریمہ میں اسلحے کی مختلف فضیلتیں آئی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ رب العزت تلوار اٹھانے والے پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر فرماتے ہیں (اوکما قال)
ایک حدیث شریف میں فرمایا تلوار اٹھا کر نماز پڑھنے والے کی نماز دوسرے لوگوں کی نماز سے ستر گنا زیادہ افضل ہے۔ (اوکما قال) بعض احادیث میں دشمن کو تیر مارنے کی فضیلت آئی ہے۔ بہرحال اس قسم کی احادیث بہت زیادہ ہیں تو اخلاق کے وہ شارحین جو اخلاق کو تلوار کی ضد بتاتے ہیں۔ ان احادیث کریمہ کے متعلق کیا کہیں گے؟ کیا یہ بد اخلاقی کی دعوت ہیں؟ ہر گز نہیں، ہر گز نہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود نبی السیف (تلوار والے نبی) تھے۔ آپ خود نبی الملاحم (جنگوں والے نبی) تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجسم اخلاق تھے۔
اللہ رب العزت امت محمدیہ کو جناب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے، آمین
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔