تزکیہ واحسان (آخری قسط )
خصائص مومن
حضرت مولانا شاہ ابرارالحق رحمۃ اللہ علیہ
گناہوں کو چھوڑنے کا طریقہ:
اگرکسی گناہ کی عادت ہے ایک دم نہیں چھوڑ سکتے اور اس کی ہمت نہیں ہے تو رفتہ رفتہ چھوڑ دو،دس گناہ کی عادت ہے تو اس میں چند چھوڑو،ارے چار چھوڑدو،دوچھوڑ دو،یہ بھی نہ ہوتو کم از کم ایک دن ایک چھوڑ دو،پھر اسی طرح آٹھویں دن ایک ایک گناہ چھوڑتے چلے جاؤ۔
افیم چھوڑنے کا آزمودہ طریقہ :
کسی کو افیم کی عادت ہوکچھ لوگ فوراًچھوڑ دیتے ہیں،کچھ کو اس کا طریقہ بتلاتے ہیں کہ ایک دم نہیں چھوڑ سکتے تو اس کے لیے بھی طریقہ ہے اس پر عمل کیا جائے۔ ہمارے عزیزوں میں بعضے تھے ان کی اس طریقہ سے اصلاح ہوگئی جس کی صورت یہ کی گئی کہ پہلے ان سے پوچھ لیا گیا کہ کتنی افیم کھاتے ہو؟انہوں نے اس کی مقدار بتلا دی کہ روزانہ اتنی کھاتے ہیں۔تو اس لحاظ سے چالیس دن کی منگوا دی اور بوتل میں بھردی اور اس میں پانی ڈال دیا،پھر ان کو ایک ایک چمچی پینے کے لیے دیتے تھے،جتنا پانی پلاتے تھے اتنا پانی ملاتے تھے،چالیس دن بعد وہ افیم تو ختم ہوگئی بس پانی ملا ملا کر پلاتے رہے تو اس تدبیر سے ہلکے ہلکے عادت چھوٹ گئی۔اسی طرح جس گناہ کی عادت پڑی ہوئی ہے ہلکے ہلکے تھوڑا تھوڑااس کو چھوڑے ،پہلے اس کی تدبیر معلوم کرے پھر کے موافق عمل کرے تو بہت جلد گناہ چھوٹ جائیں گے۔
تہجد کے لیے اٹھنے کا نسخہ:
ایسے ہی طاعات میں بھی لگنے کا معاملہ ہے کہ ہلکے ہلکے بقدرِتحمل عادت ڈالے،اور دعا بھی کرتا رہے ،یہ بڑی خاص چیز ہے،اس سے پھر بڑی آسانی اور سہولت ہوجائے گی اور بزرگوں سے اس کی تدبیر معلوم کرے۔ان حضرات کے پاس ایسے نسخے ہوتے ہیں کہ ایک دو خوراک ہی میں بہت جلد نفع ہونے لگ جاتا ہے۔مثال کے طور پر بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ تہجد میں آنکھ کھل جائے تاکہ اس وقت نماز پڑھ لیں لیکن اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی تو اب کیا کریں؟
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ‘ نے بھی بعضوں کو فرمایا کہ اچھا بھائی!آنکھ تو کھل ہی جاتی ہے کبھی نہ کبھی ،تو جب آنکھ کھل جائے تو اسی وقت چارپائی پر بیٹھ جاؤ،چاہے ایک ہی منٹ کے لیے بیٹھو،اور بیٹھ کرسبحان اللہ سبحان اللہ پڑھ لو،پھر لیٹ جاؤ۔۔۔اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے؟کتنی آسانی دے دی اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے ہوتو پھر کم از کم کروٹ ہی بدل لو ،جس جگہ لیٹے ہو اس سے ہٹ جاؤ تاکہ تہجد پڑھنے والوں کی جو شان بیان کی گئی ہے :
تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَ مِمَّارَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ(السجدۃ:۱۶)
’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اس طور پر کہ وہ لوگ اپنے رب کو امید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ان کی تھوڑی بہت مشابہت ہوجائے۔ارے بھائی!وہ آدھ گھنٹہ اور ایک گھنٹہ کے لیے اٹھتے ہیں تو تم ایک منٹ کے لیے اٹھو تو اس اٹھنے میں ان کی مشابہت اختیار کرو تو اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ آج ایک منٹ کی توفیق ہوئی ہے تو کل ڈیڑھ منٹ کی توفیق ہوگی اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا،قطرہ قطرہ دریا ہوجاتا ہے ۔۔۔تو میرے عرض کرنے کا منشا یہ ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر رکھے،اپنی درستی کی کوشش کرتا رہے اور دوسروں کو بھی اچھائی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔
مومنین کی صفات و خصوصیات:
جو آیت میں نے پڑھی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی خصوصیات اور ان کی صفات کو بیان فرمایا ہے،وہ صفات کیا ہیں؟ ایک صفت تو یہ ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
ہمدرد اور خیر خواہ ہیں،دوسری صفت کیا ہے!
یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ
اچھی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ
وَیُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ
اورنماز کی پابندی رکھتے ہیں
وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ
اورزکوٰۃ دیتے ہیں۔
بڑی محنت سے مال کماتے ہیں ،مشقت سے پھر سال بھر تک حفاظت کرتے ہیں،پھر اس کی زکوٰۃ قاعدہ سے نکالتے ہیں۔
وَیُطِیعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ
اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا مانتے ہیں۔
کہنا ماننے کا مطلب کیا ہے؟اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم ہو جائے تو خوش دلی سے عمل کرتے ہیں،خوشی خوشی عمل کرتے ہیں،جیسے بچوں کو چھٹی ہوتی ہے تو گھر خوشی خوشی جاتے ہیں ایسے ہی انہیں کوئی حکم معلوم ہوجائے تو خوشی خوشی عمل کرتے ہیں،پھر فرمایا کہ جن لوگوں کی یہ شان او رصفات ہیں ان کے ساتھ معاملہ کیا ہوگا اور انعام کیا ملے گا؟فرمایا گیا:
أُوْلَءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ
یہ وہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ جلد رحمت خاصہ فرمائیں گے۔
کیوں؟
إِنَّ اللّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
بلاشبہ اللہ تعالیٰ قادرمطلق ہے اور حکمت والا ہے۔
جب چاہیں رحمت سے نواز سکتے ہیں،لیکن حکیم بھی ہیں جب مناسب سمجھتے ہیں دیتے ہیں
گڑگڑا کر جو مانگتا ہے جام
اس کو دیتا ہے ساقی گلفام
خلاصۂ کلام:
توخلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں مومن کی کچھ صفات اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ جن کے ذریعہ سے مسلمانوں کو پہچانا جاسکتا ہے جس طرح پولیس والے کو اس کی وردی سے پہچان لیتے ہو،پوسٹ مین کو اس کی وردی سے پہچان لیتے ہو،ایسے ہی مسلمان کو بھی اا ہونا چاہیے کہ اس کو دیکھ کر پہچان لیا جائے کہ یہ مسلمان ہے۔اس کے تعارف کی ضرورت نہ پڑے اس کی صورت یہی ہے کہ اپنے اندر ان صفات کو پیدا کیا جائے اور ان خصوصیات کو اختیار کیا جائے تو اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی عزت و راحت ملے گی اور آخرت میں بھی رحمتِ خاصہ سے نوازا جائے گا۔۔۔اب دعا کرلی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کو قبول فرمائے اور ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو حسن خاتمہ کی دولت سے مشرف فرمائے،آمین۔
آخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین
خصائص مومن
حضرت مولانا شاہ ابرارالحق رحمۃ اللہ علیہ
گناہوں کو چھوڑنے کا طریقہ:
اگرکسی گناہ کی عادت ہے ایک دم نہیں چھوڑ سکتے اور اس کی ہمت نہیں ہے تو رفتہ رفتہ چھوڑ دو،دس گناہ کی عادت ہے تو اس میں چند چھوڑو،ارے چار چھوڑدو،دوچھوڑ دو،یہ بھی نہ ہوتو کم از کم ایک دن ایک چھوڑ دو،پھر اسی طرح آٹھویں دن ایک ایک گناہ چھوڑتے چلے جاؤ۔
افیم چھوڑنے کا آزمودہ طریقہ :
کسی کو افیم کی عادت ہوکچھ لوگ فوراًچھوڑ دیتے ہیں،کچھ کو اس کا طریقہ بتلاتے ہیں کہ ایک دم نہیں چھوڑ سکتے تو اس کے لیے بھی طریقہ ہے اس پر عمل کیا جائے۔ ہمارے عزیزوں میں بعضے تھے ان کی اس طریقہ سے اصلاح ہوگئی جس کی صورت یہ کی گئی کہ پہلے ان سے پوچھ لیا گیا کہ کتنی افیم کھاتے ہو؟انہوں نے اس کی مقدار بتلا دی کہ روزانہ اتنی کھاتے ہیں۔تو اس لحاظ سے چالیس دن کی منگوا دی اور بوتل میں بھردی اور اس میں پانی ڈال دیا،پھر ان کو ایک ایک چمچی پینے کے لیے دیتے تھے،جتنا پانی پلاتے تھے اتنا پانی ملاتے تھے،چالیس دن بعد وہ افیم تو ختم ہوگئی بس پانی ملا ملا کر پلاتے رہے تو اس تدبیر سے ہلکے ہلکے عادت چھوٹ گئی۔اسی طرح جس گناہ کی عادت پڑی ہوئی ہے ہلکے ہلکے تھوڑا تھوڑااس کو چھوڑے ،پہلے اس کی تدبیر معلوم کرے پھر کے موافق عمل کرے تو بہت جلد گناہ چھوٹ جائیں گے۔
تہجد کے لیے اٹھنے کا نسخہ:
ایسے ہی طاعات میں بھی لگنے کا معاملہ ہے کہ ہلکے ہلکے بقدرِتحمل عادت ڈالے،اور دعا بھی کرتا رہے ،یہ بڑی خاص چیز ہے،اس سے پھر بڑی آسانی اور سہولت ہوجائے گی اور بزرگوں سے اس کی تدبیر معلوم کرے۔ان حضرات کے پاس ایسے نسخے ہوتے ہیں کہ ایک دو خوراک ہی میں بہت جلد نفع ہونے لگ جاتا ہے۔مثال کے طور پر بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ تہجد میں آنکھ کھل جائے تاکہ اس وقت نماز پڑھ لیں لیکن اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی تو اب کیا کریں؟
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ‘ نے بھی بعضوں کو فرمایا کہ اچھا بھائی!آنکھ تو کھل ہی جاتی ہے کبھی نہ کبھی ،تو جب آنکھ کھل جائے تو اسی وقت چارپائی پر بیٹھ جاؤ،چاہے ایک ہی منٹ کے لیے بیٹھو،اور بیٹھ کرسبحان اللہ سبحان اللہ پڑھ لو،پھر لیٹ جاؤ۔۔۔اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے؟کتنی آسانی دے دی اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے ہوتو پھر کم از کم کروٹ ہی بدل لو ،جس جگہ لیٹے ہو اس سے ہٹ جاؤ تاکہ تہجد پڑھنے والوں کی جو شان بیان کی گئی ہے :
تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَ مِمَّارَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ(السجدۃ:۱۶)
’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں اس طور پر کہ وہ لوگ اپنے رب کو امید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ان کی تھوڑی بہت مشابہت ہوجائے۔ارے بھائی!وہ آدھ گھنٹہ اور ایک گھنٹہ کے لیے اٹھتے ہیں تو تم ایک منٹ کے لیے اٹھو تو اس اٹھنے میں ان کی مشابہت اختیار کرو تو اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ آج ایک منٹ کی توفیق ہوئی ہے تو کل ڈیڑھ منٹ کی توفیق ہوگی اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا،قطرہ قطرہ دریا ہوجاتا ہے ۔۔۔تو میرے عرض کرنے کا منشا یہ ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر رکھے،اپنی درستی کی کوشش کرتا رہے اور دوسروں کو بھی اچھائی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔
مومنین کی صفات و خصوصیات:
جو آیت میں نے پڑھی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی خصوصیات اور ان کی صفات کو بیان فرمایا ہے،وہ صفات کیا ہیں؟ ایک صفت تو یہ ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
ہمدرد اور خیر خواہ ہیں،دوسری صفت کیا ہے!
یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ
اچھی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ
وَیُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ
اورنماز کی پابندی رکھتے ہیں
وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ
اورزکوٰۃ دیتے ہیں۔
بڑی محنت سے مال کماتے ہیں ،مشقت سے پھر سال بھر تک حفاظت کرتے ہیں،پھر اس کی زکوٰۃ قاعدہ سے نکالتے ہیں۔
وَیُطِیعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ
اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا مانتے ہیں۔
کہنا ماننے کا مطلب کیا ہے؟اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم ہو جائے تو خوش دلی سے عمل کرتے ہیں،خوشی خوشی عمل کرتے ہیں،جیسے بچوں کو چھٹی ہوتی ہے تو گھر خوشی خوشی جاتے ہیں ایسے ہی انہیں کوئی حکم معلوم ہوجائے تو خوشی خوشی عمل کرتے ہیں،پھر فرمایا کہ جن لوگوں کی یہ شان او رصفات ہیں ان کے ساتھ معاملہ کیا ہوگا اور انعام کیا ملے گا؟فرمایا گیا:
أُوْلَءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ
یہ وہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ جلد رحمت خاصہ فرمائیں گے۔
کیوں؟
إِنَّ اللّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
بلاشبہ اللہ تعالیٰ قادرمطلق ہے اور حکمت والا ہے۔
جب چاہیں رحمت سے نواز سکتے ہیں،لیکن حکیم بھی ہیں جب مناسب سمجھتے ہیں دیتے ہیں
گڑگڑا کر جو مانگتا ہے جام
اس کو دیتا ہے ساقی گلفام
خلاصۂ کلام:
توخلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں مومن کی کچھ صفات اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ جن کے ذریعہ سے مسلمانوں کو پہچانا جاسکتا ہے جس طرح پولیس والے کو اس کی وردی سے پہچان لیتے ہو،پوسٹ مین کو اس کی وردی سے پہچان لیتے ہو،ایسے ہی مسلمان کو بھی اا ہونا چاہیے کہ اس کو دیکھ کر پہچان لیا جائے کہ یہ مسلمان ہے۔اس کے تعارف کی ضرورت نہ پڑے اس کی صورت یہی ہے کہ اپنے اندر ان صفات کو پیدا کیا جائے اور ان خصوصیات کو اختیار کیا جائے تو اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی عزت و راحت ملے گی اور آخرت میں بھی رحمتِ خاصہ سے نوازا جائے گا۔۔۔اب دعا کرلی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کو قبول فرمائے اور ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو حسن خاتمہ کی دولت سے مشرف فرمائے،آمین۔
آخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین
جزاک اللہ