Friday, October 17, 2014

**********************سوچنے کی بات **********************

**********************سوچنے کی بات **********************
.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی مرغی اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک چھری کے ذریعہ اس کے ناپاک خون کو اس کے جسم سے نہ نکال دیا جائے اور چھری چلاتے ہوئے اللہ کی عظمت کی تکبیر نہ پڑھی جائے۔ تو اتنا بڑا معاشرہ جس میں بے انتہا گند سرایت کر چکاہے۔اس وقت تک کیسے پاک ہو سکتا ہے جب تک چھری کے ذریعے سے اس گند کو باہر نہ نکال دیا جائے اور جب یہ گند نکل جائے گا اس وقت لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے۔
آج کے بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ کافر ہمارے اخلاق دیکھ کر خود مسلمان ہو جائیں گے۔ اس دور میں یہ دعوی انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اخلاق اس قوم کے دیکھے جاتے ہیں جس کی اپنی کوئی حیثیت ہو، جس کا اپنا کوئی نظام چل رہا ہو۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آزاد قوم کسی غلام قوم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی غلام بن گئی ہو۔ جس زمانے میں مسلمان فاتحین کی شکل میں ملکوں میں داخل ہوتے تھے تو لوگ ان کو دیکھتے تھے اور مسلمان ہوتے تھے مگر اس وقت تو ہم ایک قوم کی حیثیت سے کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارا اسلامی نظام کہیں بھی نافذ نہیں، صرف کتابوں میں موجود ہے اور ہمیں اس کے نافذ کرنے میں دلچسپی بھی نہیں ہے بلکہ ہم تو حکومت و خلافت کے نام سے چڑتے ہیں اور کرسی کو فساق و فجار کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ہم نے چند عبادات کو اسلام سمجھ رکھا ہے اور ایک عالمگیر نظام کو رہبانیت بنا دیا ہے۔ ایسے وقت جبکہ ہمارا قومی، ملی اور دینی وجود ہی پارہ پارہ ہے۔ ہم کس منہ سے کہتے ہیں کہ لوگ ہمارے اخلاق دیکھ کر خود اسلام میں آجائیں گے اور اگر چند افراد کہیں پر اسلام میں داخل ہو بھی گئے یا ہو رہے ہیں تو اس سے اسلام کو وہ غلبہ اور عظمت تو نہیں مل سکتی جس کا ہمارے رب نے ہمیں مکلف بنایا ہے۔
ہاں اس کا الٹ ہو رہا ہے اور ہمارے مسلمان اپنے حاکم کفار کے طور طریقوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کب تک اپنے ان اخلاق کے ذریعے سے مسلمانوں کو کفر کی جہنم میں دھکیلتے رہیں گے۔ اگر ہم اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اسلام کی عظمت کی محنت کرتے تو ہمیں آج یہ پستی نہ دیکھنی پڑتی۔
مگر آج ہمیں اپنی عزت و عظمت کا دھیان تو ہے لیکن دین کی ذلت و پستی کا کوئی غم نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خود کافروں کی طرف بھیجا اور ان کو اسلام، جزیہ یا قتال کی دعوت دی اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں بھی یہ طریقہ چلتا رہا کہ اسلامی دعوت کے پیچھے تلوار ضرور ہوا کرتی تھی کہ اس دعوت کو رد کرنے والے حکومت نہ کرتے رہیں بلکہ یا تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ انہوں نے اپنے پالنے اور پیدا کرنے والے رب کی دعوت کو جھٹلایا ہے یا انہیں ذلیل و رسوا ہو کر جزیہ دینا پڑے گا۔
اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں رکھی گئی کہ اسلامی دعوت کو رد بھی کر دیں اور عزت کے ساتھ حکومتیں بھی کرتے رہیں اور مسلمانوں پر مظالم بھی ڈھاتے رہیں۔
بہرحال یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ تلوار اخلاق کا ایک اہم ترین جزو ہے اور جو اخلاق تلوار سے عاری ہو گا وہ پستی اور ذلت کا باعث ہو گا۔
Top of Form
Bottom of Form


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔