Sunday, April 17, 2011

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عالمی اسلامی میڈیا محاذ

اسرار المجاہدین اینکرپشن پروگرام کے نقلی نسخوں اور نئے روابط کے بارے میں انتباہ

انتباہ: اس پیغام کی تصدیق کرنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔ ان معلومات پر کبھی بھی یقین مت کیجیے سوائے اس کے کہ آپ کو یہ ایسی سائٹس پر ملیں جہاں عالمی اسلامی میڈيا محاذ کا باضابطہ نمائندہ موجود ہو۔

الحمدُ لله ربّ العالمين والصّلاة والسّلام على نبيّنا محمّد و على آله وصحبه أجمعين أما بعد:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور رحمتیں اور سلامتی ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے سب آل و اصحاب پر، امّا بعد:

ہم تمام بھائیوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ‘اسرار المجاہدین’ پروگرام کی دوسری ریلیز کا نسخہ کسی بھی غیر مصدقہ اور غیر معتبر مصدر سے ہر گز ڈاؤن لوڈ نہ کریں۔ اور ہم ان نسخوں کے بارے میں بھی متنبہ کرتے ہیں جو ای میل کے ذریعے ارسال کیے جا رہے ہیں یا جن کی تشہیر مختلف ویب سائٹس اور فورمز پر ہو رہی ہے یا جن کو عربی ورژن میں ڈھالا گیا ہے، اور ہر وہ ورژن جسے عالمی اسلامی میڈیا محاذ یا الفجر میڈیا نے ریلیز نہیں کیا۔

ہم تمام بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کے لئے درج ذیل روابط پر جو نسخے محفوظ کیے ہیں انہیں ڈاؤن لوڈ کیجیے۔ کوئی بھائی ذیل میں دیے گئے روابط کے لئے مزید نئے روابط تیار نہ کرے۔

پاسورڈ:

Asrar@_EkLaAs.TsG@[$^/!p@]z-2008

الاخلاص فورم پر دیے جانے والے پرانے روابط جو ابھی تک فعال ہیں:

http://www.megaupload.com/?d=P7T686P0

http://www.megaupload.com/?d=N6ZOI1BY

http://www.megaupload.com/?d=42UPKE2U

اسرار المجاہدین کی دوسری ریلیز کے نئے روابط:

http://depositfiles.com/files/pyx4t7feh

http://depositfiles.com/en/files/uk6252n05

http://www.megashare.com/3032868

http://www.badongo.com/file/25128186

http://www.megaupload.com/?d=TAT4TF60

http://www.megaupload.com/?d=0VTK6Y2G

http://www.zshare.net/download/86963442231db91c/

http://rapidshare.com/files/449385323/new_asr_v2_4.rar

http://uploading.com/files/312c9d83/new_asr_v2_4.rar/

http://rapidshare.com/files/449385321/new_asr_v2_4.rar

http://www.filefactory.com/file/caaa910/n/new_asr_v2_4.rar

http://hotfile.com/dl/106870210/0338da6/new_asr_v2_4.rar.html

http://hotfile.com/dl/106870197/5ffd802/new_asr_v2_4.rar.html

http://ia700402.us.archive.org/2/ite…gimf/asrar.rar

http://ia700400.us.archive.org/34/it…laas/asrar.rar

http://ia600403.us.archive.org/33/it…w_asr_v2_4.rar

Winrar کے لئے Hash

MD5 File rar : 21ec5aa8743c5c68002a72e6fde4673f

اسرار المجاہدین کی دوسری ریلیز کے لئے Hash

MD5 Program Asrar Mujahideen:b9a1bf137aecbd36e234fa08bb4ac69b

اسرار المجاہدین کا Fingerprint

15738D22AC6EACF1F54CC155BDE72D368F81AB2525DD2F6473 3A36E31D8B137E

——————————–

لا تنسونا من صالح دعائكم

ہمیں اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھیے

إخوانكم في

آپ کے بھائی

الجبهة الإعلامية الإسلامية العالمية

عالمی اسلامی میڈیا محاذ

رَصدٌ لأَخبَار المُجاهِدين وَ تَحريضٌ للمُؤمِنين

مجاہدین کے حالات سے باخبر، مؤمنین کے لئے تحریص

مکمل تحریر  »

Friday, April 15, 2011

''اشتہاری مجرموں'' کی فہرستیں مرتب کیجئے!

اس تحریر پر عمل اس وقت کی بڑی ضرورت ہے

یہ تحریر حطین کے پانچویں شمارے میں شائع ہوچکی ہے ۔

اس قیمتی تحریر کے لیے ہم ادارہ حطین کے مشکور ہیں۔

''اشتہاری مجرموں'' کی فہرستیں مرتب کیجئے!

شیخ عبداللّٰہ عزام شہید رحمہ اللّٰہ

ترجمہ و ترتیب : قاری عبدالہادی

چند سال قبل تک ''اشتہاری مجرم'' کی اصطلاح سن کر ذہن میں کسی چور، ڈاکو یا بدمعاش کا نقشہ ابھرتا تھا ۔ گیارہ ستمبر کے بعد جہاں دنیا میں دیگر بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں ''اصطلاحات'' کی دنیا میں بھی ایک انقلاب برپا ہوا ہے۔۔۔ بہت سی جدید اصطلاحات میدان میں اتاری گئی ہیں اور بہت سی قدیم اصطلاحات کے معنی یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ ''اشتہاری مجرم '' کی اصطلاح بھی گیارہ ستمبر کے بعد اپنا پرانا معنی کھو بیٹھی ہے۔ آج اگر کسی اشتہاری مجرم کی گرفتاری کا ذکر آئے، کسی اشتہاری مجرم کے مارے جانے کی سرخی چھپے تو دل کے اندر سے ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ آج بالعموم وہی شخص اشتہاری مجرم کہلاتا ہے جو '' رَبُّنَا اللّٰہ'' کہے اور اس پر جم جائے، جو ''اَحَد اَحَد'' پکارے اور اس پر ڈٹ جائے، جو ہر غیر اللہ کی حاکمیت ماننے سے انکاری ہو۔ آج اگر سر کی قیمت لگتی ہے تو انہی کی، عقوبت خانے آباد ہیں تو انہی سے! حق گو علماء ہوں یا غیرت مند داعیانِ دین، مجاہدین فی سبیل اللہ ہوں یا پابندِ شرع عامۃ المسلمین…سب ہی آج ''اشتہاری مجرم'' ہیں!

زیرِ نظر تحریر امت ِ مسلمہ کے خلاف منصوبہ بندی میں مصروف اور امت سے خیانت کے مرتکب اصل ''اشتہاری مجرموں'' کی سمت ہماری تو جہ مبذول کراتی ہے اور ان کی فہرستیں مرتب کرنے اور انہیں چن چن کر نشانہ بنانے پر ابھارتی ہے۔ کفر کا نظام، خواہ وہ عالمی ہو یا مقامی، منصوبہ سازی اور قیادت کے لئے کچھ ''افراد'' ہی کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ افراد ہی وہ آئمہ ء کفر ہیں جو کفر کے نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کفر کے ان اماموں میں کفریہ ممالک کے سربراہ ، نظامِ کفر کے اساسی بین الاقوامی اداروں مثلاًاقوامِ متحدہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قائدین، یورپی ممالک کے سفراء، یہود و نصاریٰ کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اہم عہدیدار، کفار و مرتدین کی اعلیٰ فوجی قیادت، خفیہ اداروں کے سربراہ اور کلیدی افسران، اعلیٰ سطحی حکومتی عہدیداران، سیکولر سیاسی جماعتوں کے نمایاں قائدین، بیوروکریسی کے اہم مناصب پر فائز ذمہ داران، پولیس و دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہم افراد، ذرائع ابلاغ کے ذریعے کفر و الحاد اور بے حیائی و فحاشی کو فروغ دینے اور جہاد و اہلِ جہادکو نقصان پہنچانے کی منظم مہم کے سرغنہ صحافی، جیل خانوں میں مجاہدین کو اذیت دینے والے تفتیش کاراور ایسے ہی دیگر موذی طبقات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ان تمام شخصیات کا احاطہ کرنا شاید کسی ایک مجموعے یا جہادی جماعت کی استطاعت سے باہر ہو، لہٰذا زیادہ مؤثر صورت یہی ہے کہ امرائے جہاد سے رہنمائی اور علمائے کرام سے فتاویٰ لینے کے بعد ایسے افراد کی فہرست مرتب کر لی جائے اور اسے تمام ممکنہ ذرائع سے نشر کیا جائے تاکہ امت نہ صرف اپنے اکابر مجرمین کو پہچان لے بلکہ مجاہدین کے مختلف مجموعات کے لئے بھی اپنی کارروائیوں کی ترجیحات متعین کرنا آسان ہو جائے۔

اس تحریر کے مصنف کا نام کسی تفصیلی تعارف کا محتاج نہیں۔ شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ فلسطین سے تعلق رکھنے والے وہ مجاہد عالمِ دین تھے جن سے اللہ رب العزت نے عصرِ حاضر میں فریضہ ء جہاد کی تجدید کی خدمت لی۔ آپ کی تحریرات اور خطبات نے لاکھوں نوجوانانِ امت کے سینوں میں حبِ جہاد کا شعلہ بھڑکایا اور ان کے ذہنوں میں فرضیت ِ جہاد کا شرعی حکم راسخ کیا۔ زیرِ نظر تحریر میں آپ نے امت ِ مسلمہ کو صحابی ٔ رسول حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی ایک گمشدہ سنت یاد دلائی ہے۔ '' قوائم محمد بن مسلمۃ''کے عنوان سے لکھی گئی یہ تحریر ہمیں آئمہء کفر وفساد کو نشانہ بنانے کا وہ قیمتی درس یاد دلاتی ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خودمحمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو دیا تھا۔ اللہ رب العزت ہمیں اس سنت کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
(مدیر حطین )

الحمد للّٰہ وحدہ، والصلٰوة والسلام علٰی من لا نب بعدہ، وبعد:

یہودی سردار ابو رافع کا قتل

صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ یہ حدیث منقول ہے کہ:

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند انصاری صحابہ کو ابو رافع کے طرف بھیجا تاکہ وہ اس کو قتل کردیں۔ چنانچہ ایک انصاری اس کے قلعے میں داخل ہوگئے اور آپ بیان کرتے ہیں کہ میں گھوڑوں کے اصطبل میں چھپ گیا اور قلعے کا دروازہ بند ہوگیا۔ اس کے بعد ایک چوکیدار اپنا گدھا تلاش کرنے باہر نکلا، میں بھی ان لوگوں کے ساتھ باہر نکل آیا اور میں یہ دِکھلا رہا تھا کہ میں بھی ان کے ساتھ گدھا تلاش کر رہا ہوں۔ جب ان کو گدھا مل گیا تو میں ان کے ساتھ قلعے میں چلا آیا اور انھوں نے قلعے کا دروازہ بند کرکے اس کی کنجیاں سوراخ میں رکھ دیں جسے میں دیکھ رہا تھا۔ اور جب وہ سب سوگئے تو میں نے کنجیاں لے کر قلعے کا دروازہ کھولا، ابو رافع کی طرف گیا اور اسے آواز دی: اے ابو رافع! اس نے مجھے جواب دیا تو میں آواز کی طرف لپکااور اس پر وار کیا۔ وہ چیخنے لگا تو میں باہر نکل آیا۔ اس کے بعد میں پھر اسی طرف گیا گویا میں فریاد رس ہوں اور میں نے آواز بدل کر کہا: اے ابورافع! اس نے کہا: تو کون ہے؟ تیری ماں کی خرابی ہو۔ میں نے کہا: کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا: مجھے اور کچھ معلوم نہیں، بس اس آدمی نے مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے۔ (اتنا سن کر) میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ دی اور اس پر اتنا زور دیا کہ وہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی اور اس کے بعد میں باہر نکل آیا۔ میں خوفزدہ تھا، جوں توں کرکے اترنے کے لئے سیڑھیوں کے پاس پہنچا مگر گرپڑا اور میرا پیر ٹوٹ گیا، اور پھر میں نے اس حالت میں اپنے دوستوں کے پاس پہنچ کر کہا: میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک (ابو رافع کے مرنے پر)رونے والوں کی آواز نہ سن لوں۔ چنانچہ میں اس وقت تک باہر نہیں گیا جب تک میں نے اہلِ حجاز کے تاجر ابورافع پر رونے والیوں کی آواز نہ سن لی۔ یہ آواز سننے کے بعدمیں کھڑا ہو گیا مگر مجھ میں چلنے کی قوت باقی نہ رہی تھی۔(بہر حال میں نے کسی نہ کسی طرح ہمت جمع کی اور) آخر کارہم سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچ کر پورا واقعہ بیان کیا''۔

(فتح البار، کتاب الجہاد والسیر، باب قتل المشرک النائم)

ایک دوسری روایت کے مطابق ابو رافع کو قتل کرنے والے صحابی حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ تھے۔ یاد رہے کہ ابو رافع رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا سخت دشمن تھااور لوگوں کو آپ ﷺ کے خلاف ابھارا کرتا تھا۔

''طاغوتِ یہود'' کعب بن اشرف کا قتل

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

''کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے گا؟… کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! انھوں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں (آپ کے متعلق) جو (چاہوں) کہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہہ لو۔ چنانچہ وہ کعب بن اشرف کے پاس گئے اور اپنے اور حضور ﷺ کے درمیان ایک فرضی معاملہ بیان کرتے ہوئے کہا : یہ آدمی ہم سے صدقہ وصول کرتا ہے اور ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے۔ کعب نے یہ سنا تو کہنے لگا: اللہ کی قسم! ابھی اور لوگ بھی اس سے تنگ ہوں گے۔ محمدبن مسلمہ نے کہا: اب تو ہم اس کی اتباع کرچکے ہیں اور ہم اسے اس کے معاملے کا انجام دیکھے بغیر چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ مزید کہا: مہربانی کر کے مجھے کچھ قرض دے دو۔ کعب نے کہا: تم میرے پاس کیا چیز گروی رکھواؤ گے؟ ابن مسلمہ نے کہا: جو تم چاہو! کعب نے کہا: تم اپنی عورتیں میرے پاس گروی رکھوا دو۔ ابن مسلمہ نے کہا: تم تو عرب کے خوبصورت ترین آدمی ہو، کیا ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں گروی رکھیں؟ کعب نے کہا: اچھا پھر اپنی اولاد گروی رکھوا دو۔ ابن مسلمہ نے کہا: (یہ بھی نہیں قبول کیونکہ کل) ہمارے بیٹوں کو طعنہ دیا جائے گاکہ وہ دو وسق کھجور کے بدلے گروی رکھے گئے تھے، البتہ ہم اپنا اسلحہ تیرے پاس گروی رکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ابن مسلمہ نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے پاس حارث، ابی عبس بن جبر اور عباد بن بشر کو لے کر دوبارہ آئیں گے۔ پس یہ لوگ اس کے پاس گئے اور رات کے وقت اسے (گھر سے) باہربلایا۔ وہ باہر نکلنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا: مجھے تو یہ آواز خون کی آوازمحسوس ہو تی ہے۔ کعب نے کہا: (فکر نہ کرو)یہ محمد بن مسلمہ ، اس کا رضاعی بھائی اور ابونائلہ ہیں۔ معزز آدمی کواگر رات کے وقت بھی نیزہ بازی کی طرف بلایا جائے تو وہ یہ دعوت قبول کرلیتا ہے۔ محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں سے کہہ رکھا تھاکہ جب وہ آئے گا تو میں (کسی بہانے سے)اس کے سر کی طرف ہاتھ بڑھاؤں گا۔ پس جب میں اسے اچھی طرح اپنے قبضے میں لے لوں تو تم حملہ کر دینا۔ کعب جب ان کے پاس پہنچا تو اس نے چادر اوڑھ رکھی تھی۔ ان حضرات نے کہا: ہم تجھ سے خوشبو کی مہک محسوس کر رہے ہیں۔ اس نے کہا: ہاں! میری بیوی فلاں ہے جو کہ عرب کی عورتوں میں سب سے زیادہ معطر عورت ہے۔ ابن مسلمہ نے کہا: تم مجھے یہ خوشبو سونگھنے کی اجازت دو گے؟ اس نے کہا: سونگھو! پھر دوبارہ کہا کہ کیا تم مجھے دوبارہ سونگھنے کی اجازت دو گے؟ اس مرتبہ انھوں نے (خوشبو سونگھنے کے بہانے)اس کے سر کو قابو میں لے لیا اور (اپنے ساتھیوں سے) کہا کہ حملہ کر دو۔ چنانچہ انھوں نے اسے قتل کر ڈالا''۔

(صحیح المسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب قتل کعب بن أشرف طاغوت الیھود)

آئمہء کفر کا قتل تعلیمِ نبوی ﷺ ہے

صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی یہ دونوں روایات اس بات کی واضح اور قطعی دلیل ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعوتِ دین کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے قوت استعمال کی اور کفر کی نمائندہ دو چوٹی کی شخصیات کو ''اِغتِیَال''(یعنی ''ٹارگٹ کلنگ'') کے ذریعے مروایا۔ اہلِ دین کی پیش قدمی روکنے اور دینِ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے کفر مستقل منصوبہ بندی میں مصروف رہتا ہے۔ اس منصوبہ سازی کے پیچھے لا محالہ کچھ موذی ذہن کارفرما ہوتے ہیں، پھر انہی منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے کے لئے بھی کچھ شریر ہاتھ میسر وسائل کو حرکت میں لاتے ہیں۔ یہی وہ قائدینِ کفرہیں جن کا علاج تلوار کے بغیر ممکن نہیں۔ کعب بن اشر ف اور ابو رافع یہود کے دو نمایاں سردار تھے اور ان کا شمار بھی ان آئمہ ء کفر میں ہوتا تھا جو اسلام و مسلمانوں کے خلاف منصوبہ سازی میں پیش پیش تھے۔

امام ابنِ حجر رحمہ اللہ''فتح البار'' میں ابو رافع کے قتل کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

''وفیه جواز التجسس علی المشرکین وطلب غرتهم وجواز غتیال ذو الأذیة البالغة منهم''۔

''یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرکین کی جاسوسی کرنا اور اس بات کی ٹوہ لگانا کہ وہ کب غافل ہوتے ہیں،جائز ہے۔ نیز یہ بھی جائز ہے کہ ان کے زیادہ موذی افراد کو 'اِغتِیَال' کے ذریعے قتل کیا جائے ''۔

(فتح البار، کتاب الجہاد والسیر، باب قتل المشرک النائم)

ان کی تاک میں بیٹھو!

یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ فرمانِ مبارک بھی نگاہوں میں رہے کہ:

(وَاقْعُدُوْا لَهُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ) (التوبة: ٥)

''اور ان (مشرکین کو مارنے) کے لئے ہر گھات میں بیٹھو''۔

امام ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ''احکام القرآن'' میں لکھتے ہیں کہ:

''قال علماؤنا: هذا دلیل علی جواز غتیالهم قبل الدعوة…''

''ہمارے علماء نے لکھا ہے کہ :یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مشرکین کو دعوت پہنچائے بغیر بھی 'اِغتِیَال' کے ذریعے قتل کرڈالنا جائز ہے''۔

یہاں دعوت پہنچانے سے مراد ہے ''خبردار کرنا''۔ گویا یہ بات بالکل جائز ہے کہ ایک کافر کو پہلے سے خبردار کئے بغیر اچانک حملہ کر کے قتل کر دیا جائے (اور اسی کو عربی میں ''اِغتِیَال'' کہتے ہیں)۔

جان، مال اور عزت کا دفاع… ایک شرعی فریضہ

اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

( فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ) (البقرة:١٩٤)

''پس جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر ویسی ہی زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر کی''۔

امام ابوبکر بن العربی رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:

''قال علماؤنا: هذا دلیل علی أن لک أن تبیح دم من أباح دمک، وتحل مال من استحل مالک''۔

''ہمارے علماء نے لکھا ہے کہ: یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص تمہارے خون کو مباح جانے تم بھی اس کے خون کو مباح جانو اور جو کوئی تمہارے مال کو حلال سمجھے تم بھی اس کے مال کو حلال سمجھو''۔

اس بات پر تو علمائے امت کا اجماع ہے کہ جان، مال یا عزت پر حملہ آور دشمن کے خلاف اپنادفاع کرنا جائز ہے۔ جہاں تک اپنی عزت کے دفاع کا معاملہ ہے، تو اس کے نہ صرف ''جواز ''بلکہ ''وجوب'' پر بھی علماء کا اجماع ہے۔ یعنی اگر کسی مسلمان کی عفت پامال کرنے کی کوشش کی جائے تواس پرواجب ہے کہ وہ یہ جسارت کرنے والے کو پہلے زبان سے، پھر ہاتھ سے پھر لاٹھی وغیرہ سے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ اس کے بعدبھی نہ رکے اور اسلحہ استعمال کئے بغیر کوئی چارہ نہ رہے تو اسے اسلحے سے روکنا، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر قتل تک کر دینا لازم ہے، خواہ وہ حملہ آور شخص کتنا ہی پابندِ صوم و صلوٰة کیوں نہ ہو!

رہا جان اور مال کے دفاع کا شرعی حکم، تو جمہور علماء کے نزدیک یہ بھی واجب ہے، جبکہ اس کے جواز پر تو سبھی علماء کا اجماع ہے۔ یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ جان و مال پر حملہ آور ہونے والے لوگ اگر امت کے بہترین، صالح، خداترس اور عبادت گزار افراد ہوں، تب بھی اپنا دفاع کرنے کا یہ حکم تبدیل نہیں ہوتا۔ (اگر صالحین کے معاملے میں بھی شریعت یہ تعلیم دیتی ہے تو پھر آئمۂ کفر و ضلالت اور پیشوایانِ فسق وفجور کے خلاف یہ شرعی حق استعمال کرنے میں کیا شے مانع ہے جبکہ نہ صرف یہ مسلمانوں کی جانوں، مالوں اور عزتوں کے درپے ہیں، بلکہ ان کی قیمتی ترین متاع، متاعِ ایمان بھی ان سے چھیننے اور انہیں دین پر عمل سے روکنے کے لئے مستقل کوشاں ہیں۔)

کیا دعوت کی راہ میں حائل رکاوٹیں قوت استعمال کئے بغیر بھی ہٹ سکتی ہیں؟

اللہ کا دین انسانیت کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر تنہا اللہ رب العالمین کی غلامی میں دینے آیا ہے، لیکن بنی نوع انسان پر اپنی حاکمیت مسلط کرنے والا کوئی طاغوت بھی اس آسمانی دعوت کوٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کرتا، نہ ہی اپنی حاکمیت سے دستبردار ہونے پر بہ آسانی تیارہوتا ہے۔ ہر ایسا طاغوت، کفر کا ہر ہرامام اپنے تمام تر وسائل جھونک کر یہ کوشش کرتا ہے کہ انسانیت ظلماتِ کفر و شرک میں بھٹکتی رہے اور دعوتِ دین کی نورانی کرنیں اس تک کسی طور پہنچنے نہ پائیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کی ایک ایسی نسل وجود میں آئے جسے اپنی خواہشات کی تکمیل اور شہوات کی تسکین کے سوا کوئی غم نہ ہو اور وہ اسی سب میں غرق رہے تاکہ اسے غیر اللہ کی غلامی میں جکڑے رکھنا آسان ہو جائے۔ عیسائی مبلغین کے مشہور رہنما ''زویمر'' کے الفاظ میں:

''ہم نے انسانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی ہے جنہیں اپنی خواہشات کی تسکین کے سوا کسی شے کاغم نہیں۔ ان کا جینا مرنا، سب اپنی خواہشات ہی کی خاطر ہے اور ان خواہشات کی تکمیل کے لئے یہ اپنی قیمتی ترین متاع بھی لٹانے کو تیار رہتے ہیں''۔

پس ا نسانیت کواس دینِ قویم کی روشن تعلیمات سے دور رکھنے والے ہر طاغوت کو راہ سے ہٹانا اور دعوتِ دین کے پھیلائو میں حائل ہر بڑی رکاوٹ کو بزور دفع کرنا عین تقاضائے شریعت ہے۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علی و سلم کے اس فرمانِ مبارک سے آخر اور کیا مقصود ہے کہ:

''بُعثت بین ید الساعة بالسیف حتٰی یُعبد اللّٰه وحدہ لا شریک له ''۔

''مجھے قیامت سے قبل تلوار دے کر مبعوث کیا گیا ہے تاکہ تنہااس اللہ کی عبادت بجا لائی جائے جس کا کوئی شریک نہیں''۔

(مسند أحمد، والحدیث ف صحیح الجامع، برقم:٢٨٣١)

سنت ِ ''اِغتِیَال'' پر اعتراض کرنے والوں سے صحابہ کا تعامل

قائدینِ کفر اور آئمہء فتن کو رستے سے ہٹاناایک شرعی حکم، ایک منطقی ضرورت اورایک فطری حق ہے۔ اسی لئے جب ابن یامین نامی ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں یہ الفاظ کہے کہ :

''اللہ کی قسم! کعب بن اشرف کو تو دھوکے اور خیانت سے قتل کیا گیاتھا''۔

تو کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا:

''اے معاویہ! آپ کی مجلس میں ایسی گستاخانہ بات کی جائے اور آپ خاموش رہیں؟ اللہ کی قسم میں تو اس مجلس میں مزید نہیں بیٹھ سکتا… اگر مجھے یہ شخص کہیں تنہائی میں مل گیا تو میں تو اسے ضرور قتل کروں گا''۔

(الصارم المسلول علی شاتم الرسول ﷺ ، امام ابن تیمیہ؛ ص٩٠)

حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ ایک جملہ کہنے کی پاداش میں ابن یامین کا خون بہانا جائز ہو گیا، حالانکہ وہ اصلاً ایک مسلمان تھا۔ اسی سے اس معاملے کی نزاکت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ابن یامین نے کعب بن اشرف کے قتل کوخیانت اور اس دین کی فطرت سے متصادم قرار دیا، جبکہ اس قتل کا حکم اور اس سنت کا اجراء تو خود رسولِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا۔ گویا اس شخص نے ایک حکمِ شرعی اور اس سے بھی بڑھ کر ،براہِ راست ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتراض کرنے کی جسارت کی۔ اور بلاشبہ ''خیانت'' جیسے گھنائونے فعل کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنے سے انسان دین سے خارج اور قتل کا مستحق ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس سنت ِ نبوی ﷺ کے بارے میں بہت سنبھل کر بات کرنی چاہیے… کہیں اپنا ایمان ہی نہ جاتا رہے!

علمائے حق سے فتویٰ اور امرائے جہاد سے اجازت لینالازم ہے!

یہاں یہ بات ذہن نشین رہنا بھی نہایت اہم ہے کہ آئمہء کفر کا قتل و ''اِغتِیَال''(ٹارگٹ کلنگ) علمائے حق کی رہنمائی لئے بغیر کرنا کسی طور درست نہیں۔ بلاشبہ اس سنت کا احیاء نہایت اہم ہے، لیکن چونکہ یہ معاملہ خون بہانے جیسے بھاری امر سے متعلق ہے اور اس کے نتائج بھی جہاد کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، لہٰذا اس حوالے سے کوئی اہم فیصلہ بھی کسی عام فرد پر نہیں چھوڑاجا سکتا۔ اس کے لئے تو ان علماء کی طرف رجوع لازم ہے جو مجاہدین کی شرعی رہنمائی کے ذمہ دار ہیں اور ان امرائے جہاد سے اجازت لینا بھی ضروری ہے جو جہاد کی مصلحت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔

محمد بن مسلمہ کی سنت ترک کرنے کا انجام

آئمہ ء کفر کا قتل ایک مبارک سنت ہے، جسے ترک کرنے کی بھاری قیمت آج اس امت کو چکانی پڑ رہی ہے۔ آج اگر امت پر ہر قسم کے (خارجی و داخلی) د شمن ہر سمت سے مسلط ہیں اور پوری دلیری سے مسلمانوں کا خون بہانے، عصمتیں پامال کرنے اور وسائل لوٹنے میں مصروف ہیں تو اس کا بہت بڑا سبب اس سنت کا مفقود ہونا ہے۔ اللہ کی کروڑوں رحمتیں ہو ان بندگانِ خدا مست پر جو پستی و ذلت کے ان ادوار میں بھی اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے میدانِ عمل میں نکلتے رہے اور امت کو کفر کی غلامی سے آزاد کرانے اور اگلی نسلوں کو نئے حوصلے بخشنے کے لئے وقتاً فوقتاً اس سنت کو زندہ کرتے رہے، وگرنہ مسلمان بحیثیت مجموعی یہ سنت آج چھوڑ بیٹھے ہیں۔

خلاصۂ کلام:

١۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ عقیدۂ ولاء و براء (یعنی اللہ کے دوستوں سے دوستی اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی ) کے تقاضے پورے کریں اور پوری استقامت کے ساتھ دشمنانِ دین کے مقابل ڈٹ جائیں۔ اس عقیدے کا کم سے کم تقاضہ بھی یہ ہے کہ ہم روسی، یہودی اور امریکی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں۔ امریکی مصنوعات کے ترک پر میں اس لئے بھی خصوصی زور دوں گا کہ امریکہ ہی یہود کا اصل پشت پناہ اور حامی وناصر ہے۔

( زیرِ نظر تحریر اس دور میں لکھی گئی جب مجاہدین روس کے خلاف جہاد میں مصروف تھے۔ نیز یہ تحریر کسی عام فرد نہیں، بلکہ شیخ عبداللہ عزام کے قلم سے نکلی جو اس دور میں عرب مجاہدین کی نمایاں ترین شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ درج بالا جملوں سے یہ بات واضح ہے کہ آپ اس دور میں بھی امریکہ کو امت کے اساسی دشمنوں میں شامل سمجھتے تھے، جس سے ان کور چشم مبصرین کے تجزیوں کا رد ہوتا ہے جو تاریخی حقائق کو مسخ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مجاہدین نے روس کے خلاف جنگ امریکی مفادات کی خاطر لڑی، و لا حول ولا قوة الا باللہ! مترجم)

٢۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی سنت زندہ کرنے کے لئے آئمہ ء شرک ، قائدینِ کفر و الحاد اور ان نمایاں طواغیت کی فہرستیں ترتیب دی جائیں جو زمین میں اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور انسانیت کو کفریہ نظاموں میں جکڑا رکھنا چاہتے ہیں۔ ''اشتہاری مجرموں'' کی اس فہرست میں جن لوگوں کے نام ہونا لازم ہیں ان کی طرف مختصراً اشارہ یہاں کیا جا رہا ہے:

١۔ دنیا بھر میں پائی جانے والی ہر وہ نمایاں یہودی شخصیت جو کسی طور بھی اسرائیل کی معاونت میں ملوث ہو (خواہ وہ عسکری معاونت ہو یا مالی معاونت یا زبان و قلم اور جدیدذرائع ابلاغ کے ذریعے معاونت )۔

٢۔ روسی اورغیر روسی کمیونسٹوں کے اہم قائدین۔ (اسی پر قیاس کرتے ہوئے آج امریکہ، یورپ اورنام نہاد ''دہشت گردی کے خلاف اتحاد''میں شامل' مسلم 'حکومتوں اور افواج کے اہم قائدین کے نام بھی شامل کئے جائیں۔)

٣۔ (طاغوت کے خفیہ و علانیہ) قید خانوں میں انسانیت کی تذلیل اور مسلمانوں کی تعذیب پر مامور تفتیشی افسران۔

٤۔ سیکولر اور ملحدانہ نظریات کی حامل ان سیاسی جماعتوں کے قائدین جو نہ تو اپنی اسلام دشمنی پر پردہ ڈالتی ہیں، نہ ہی اپنے ملحدانہ عقائد کسی سے چھپاتی ہیں۔

٥۔ یہود( و نصاریٰ) کا اعلانیہ ساتھ دینے والے اکابرمجرمین، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں پائے جائیں۔

پس اے شہسوارانِ اسلام…اٹھو! اے اللہ کے لشکرو… آگے بڑھو! اے دین کی تلوارو… چمکو! اور بجلی کی کڑک بن کر دشمنانِ دین پر ٹوٹ پڑو!

وسبحانک اللّٰهم وبحمدک وأشهد أن لا له لا أنت، أستغفرک وأتوب الیک۔

نوٹ
اس تحریر کو بلاگ پر نشر کرنے کا مقصد واضح ہے

ہم اس کے ذریعے عامۃ المسلمین کو اور خصوصاً مجاہدین سے تعلق و ہمدردی رکھنے والوں کو

اشتہاری مجرمین کی فہرستیں ترتیب دینے کی تحریض دلانا چاہتے ہیں

اس سلسلے میں پیش رفت کیسے کی جائے

کسے اور کہاں معلومات ارسال کی جائیں

کیا فہرستیں اور مجرمین کے متعلق معلومات اعلانیہ ہوں گی یا خفیہ

؟؟؟؟؟

یہ اور بہت سے سوالات

اور اس سلسلے میں آپ کی تجاویز کا انتظار رہے گا

اور اسی کی روشنی میں اسی عنوان کے تحت بلاگ پر پوسٹ نشر کی جائے گی

ان شاء اللہ

واللہ غالب علیٰ امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون

عرفان بلوچ بلاگ

http://irfanbalooch.blogspot.com/2011/04/blog-post_15.html

مکمل تحریر  »

Thursday, April 14, 2011

حرکت الشباب المجاہدین: ایک اہم پل کی تعمیر نو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرکت الشباب المجاہدین کی طرف سے ایک اہم پل کی تعمیر نو جو صوبہ ہیران کو دیگر صوبوں سے متصل کرتا ہے-

اسلامی صوبے ہیران کے مجاہدین نے اس پل کی تعمیر نو شروع کر دی ہے جو بیلیدوین شہر سے گزرتا ہے، کیونکہ یہ نا پائیدار تھا لہذا مسلمانوں کے لئے خطرے کا سبب بنا ہوا تھا۔

یہ منصوبہ گذشتہ کل شروع ہوا اور مقامی مسلم عوام نے اس جدوجہد پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ پل بہت سے دیگر صوبوں سے اتصال کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے اور مجاہدین کو مقامی تاجروں اور کاروباری حضرات کی طرف سے بھی بے پناہ مدد اور حمایت ملی ہے۔

تعمیر کے جاری کام کی تصاویر ملاحظہ فرمائیے








مکمل تحریر  »

Wednesday, April 13, 2011

Modern Co-Education System of Pakistan or Sex Nurseries.mp4


مکمل تحریر  »

بدعنوان عرب حکومتوں کا سقوط

عوامی انقلاب

بدعنوان عرب حکومتوں کا سقوط

استحکام کے بت کی تباہی

اور ایک نئی شروعات

شیخ عطیۃ اللہ

ربیع الاول ١٣، ١٤٣٢ھ

١۶-٠٢-٢٠١١ ء

بِسْمِ اللَّہ ِالرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ

ہم، عرب اور دنیا کی باقی عوام کے ساتھ تیونس اور مصر میں رونما ہوتے انقلاب کے واقعات کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے چشم تصور میں ایسے لگا گویا میں مصر کے بوڑھے اور شکستہ حال فرعون، حسنی مبارک، کی حکومت کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز سن رہا ہوں اور اس کے ساتھ ہی - ڈھول کی تھاپ کی مانند- یہود کے دلوں کی دھڑکنوں کی آواز بھی نہایت قریب سے سن رہا ہوں، جو اس خوف اور ہیبت کی وجہ سے بری طرح سے بے قابو ہیں جو ان عظیم واقعات کے ذریعے اللہ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا ہے۔

ہم کئی دنوں سے خبریں سن رہے ہیں اور مسلمانوں کے لئے اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان کے معاملات کو بہتری کی جانب لے جائے، اور یہ کہ اللہ تیونس کے عوام کو ان کے بزدل طاغوت سے خلاصی دے، اور اللہ مصر اور اس کے مسلمان عوام کو اس طاغوت اور اس کی خبیث، فاسد، ظالم و جابر حکومت سےنجات دے اور وہ مصر کے مسلمانوں کے معاملات کو سدھار دے اور ان بغاوتوں کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتر بنادے۔ یہ سچ ہے کہ یہ وہ بہترین چیز نہیں ہے جس کی ہم امید کرتے تھے مگر کچھ یا بہت زیادہ شر انگیزی سے جان چھوٹ جانا ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو خوش کردیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم اس اقدام سے یہ امید کرتے ہیں کہ یہ آنے والے خیر کا آغاز ہے اور باذن اللہ کامیابی کے مزید در کھولنے والا ہے۔

چنانچہ، تیونس مصر الجیریا لیبیا اردن یمن اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو کسی ایسے فرد کی ضرورت ہے جو ان دنوں میں انہیں اللہ کی جانب متوجہ کرے، اور ساتھ ہی تاریخ اور (مخلوقات کے بارے میں) اللہ کی سنتوں کی یاد لائے، اسی طرح ان آفاقی تعلیمات سے نکلنے والے عبرت اور حکمت کے اسباق سے بھی اچھے طریقے سے متعارف کرائے۔ اور یہ ایک بہت اہم کردار ہے جو داعیان الی اللہ، طلبائے علم، اور اسلامی تحریکوں کو ادا کرنا چاہئے-

یہ بغاوتیں، اور خاص طور پر مصر میں ھونے والی بغاوت، محض مصری اور عرب فاسد اور خبیث حکومتوں کے خلاف نہیں تھیں، بلکہ ان کے وسیع اور گہرے' کئی پہلو ہیں، پس یہ اس خطے کی تاریخ اور معاشرتی تعلقات میں ایک واضح موڑ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور مصری انقلاب میں یہ صرف حسنی مبارک اور اس کا اقتدار ہی نہیں جو ختم ہوا ہے، بلکہ "استحکام" کے اس تصور کی بھی موت ہے جسے انہوں نے ایسا معبود باطل بنا رکھا تھا جس کی پرستش رذیل طواغیت نہ صرف خود کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی پرستش پر مجبور کرتے، "خطے کا استحکام"، جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ حمکرانوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے اور انہیں ہر اس رکاوٹ سے محفوظ رکھا جائے جو ان کی بگڑی ہوئی عیاشانہ زندگیوں کی راہ میں آڑے آئے یا ان کی مسندوں اور ملک اور ملکی وسائل پر ان کے مطلق اختیار میں خلل ڈالے اور ان کا اپنے آپ اور اپنے خاندانوں کے لئے ملکی وسائل اور نعمتوں میں سے بڑے حصے مختص کرنے کو خطرے سے دوچار کرے، اور اس کے نتیجے میں وہ ویران اسرائیلی ریاست کی سرحدوں کی نگہبانی کا مکروہ کام جاری رکھتے ہوئے اس کو کسی بھی جہادی پیش قدمی سے محفوظ رکھنے اور بچانے کی ضمانت بنے رہیں!

مصری حکومت کو رخصت کردیا گیا، اور اس سے پہلے تیونسی حکومت کو بھی، اور ہو سکتا ہے کہ ان کے بعد یمنی، اردنی، اور شاید لیبیائی، الجزائری اور مراکشی حکومتوں کی بھی باری آنے والی ہو، باذن اللہ تعالی۔

جب میں اس مضمون کو شائع ہونے کے لئے بھیجنے لگا تو لیبیا سے خبریں آنے لگیں کہ ہمارے مسلمان بھائیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے لیبیا کے احمق اور شریر طاغوت اور اس کے خاندان کے خلاف بغاوت کر دی ہے، کہ جنہوں ملک میں گناہ اور نافرمانی پھیلا رکھی تھی اور اس میں خوب فساد مچایا ہوا تھا، اور اسے اپنی اور اپنے کتوں کی ذاتی ملکیت بنا رکھا تھا، پس ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان ظالموں سے لوگوں کی جان خلاصی کرائے، اور لیبیا کے مسلمانوں کے معاملات کو بہتری کی جانب پھیر دے جس میں وہ اپنی پاک و برتر ذات کے فرمانبرداروں کو عزت عطا فرمائے اور نافرمانوں کو ذلیل و خوار کرے۔

اس طرح اللہ لوگوں کے لئے مثالیں ظاہر فرماتا ہے، نوجوان نسل نے جدید دنیا کے سامنے ثابت کر دکھایا کہ وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں، باوجود فاسد عرب حکومت کی تمام تر کوششوں کے کہ نوجوانوں کو ہر سطح پر خرابی اور بے حسی کا شکار رکھا جائے، مگر یہ حکومت بیوقوف اور حقائق سے نابلد تھی جو محض شہوت پرستی ہی کی مثال تھی۔ یہ انقلاب ناگزیر تھا اس بات سے قطع نظر کہ یہ کب وقوع پزیر ہوتا۔ یہ مستقل آفاقی حقیقتیں ہیں جو ہم تاریخ، تجربات، انسانوں کے بارے میں اپنی معلومات اور انسانی نفسیات اور معاشرتی رویوں کے معمولی مطالعے سے سمجھ لیتے ہیں۔ ہماری امت اور ہمارے عرب اور اسلامی معاشروں میں بدعنوانی اور بد انتظامی کی قسموں او سطحوں کا جو انبار لگ گیا ہے وہ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا، اس کی برائی اور خباثت ضرور بالضرور اس کے ہاتھوں شعلوں کی نظر ہو جائے گی جس کو اللہ پسند فرمائے اور اس کو یہ کام سونپ دے۔ بارود چاہے کتنا ہی جمع ہو جائے مگر وہ اس جمع شدہ بدعنوانی اور برائی کے برابر تباہ کن اور ہلاکت خیز نہیں ہو سکتا۔ اس میں سے کچھ ایسا ہے جو آتشیں ہے اور کچھ ایسا جو اپنی عمر پوری کر چکا ہے۔ اللہ اس بات کو بہتر جانتا ہے کہ کون کیا سوچتا اور کیا نیت رکھتا ہے، ان میں سے کچھ تو وہ ہوں گے جو آخرت میں کامیاب ہوں گے اور کچھ وہ جو آخرت میں نقصان کے سواء کچھ نہ پا سکیں گے، ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، بہرحال یہ تمام کوششیں ایک غاصب حکومت سے مقابلہ کرنے کے لئے مجتمع کی گئی ہیں۔ یہ صورتحال مجھے شاعر احمد مطر کے اشعار یاد دلا رہی ہے:

میں جانتا ہوں کہ محض اشعار کے قافیے

طاغوت کے عرش کو نہیں گرا سکتے

لیکن میں اس سے اس کی چمڑی کو ایسے داغتا ہوں

جیسے مویشیوں کے چمڑے داغے جاتے ہیں

یہاں تک کہ اس کا وقت آپہنچے اور قضا اس پر غالب آ جائے

اور میں اسے ننگے پاؤں چلنے والے ہجوم کے ہاتھوں سے لے لوں

اور اس وقت یہ ایک تیار چمڑا ہو جس سے جوتے بنائے جا سکیں

تاہم، میں ان بہت سے لوگوں کی طرح نہیں تھا جو سمجھتے تھے کہ یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا، جس طرح سرسبز اور غیرت مند تیونس میں ہوا، اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں کہ دشمن اس کے اتنی جلدی ہو جانے کی توقع رکھتے تھے۔ اور یہ بات بے وقوف اور کمزور فرانس کے ردعمل سے ظاہر تھی، اور حتی کہ امریکہ کے رد عمل سے بھی، گو کہ امریکی رد عمل فرانس سے قدرے بہتر تھا خاص طور پر مصر کے حوالے سے، کیونکہ وہ تجربے سے یہ سیکھ چکے تھے اور سمجھ گئے تھے کہ اب تبدیلی ہو کر ہی رہے گی!

ہم بھی دوسروں کی طرح سوچتے تھے کہ مجرم طواغیت عوام کے ساتھ جو کچھ کر چکے ہیں اس کے سبب عوام یا تو مر چکی ہے یا آنے والے ایک طویل عرصے کے لئے گہری بے حسی کا شکار ہے، مگر تیونسی انقلاب اور اس کے بعد رونما ہونے والے حالات نے ثابت کر دکھایا کہ عوام ایک ایسے وقت میں اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ دیکھنے والا انہیں مردہ یا بے حس خیال کررہا ہو!

لیکن یہاں میں دو بہت اہم نکات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں:

١) تیونس میں انقلاب شروع ہونے سے کچھ عرصۂ قبل، طاغوت ابن علی کے دور میں ہم نے انٹرنیٹ پر موجود ایک مضمون پڑھا جو ہمارے خیال میں ہمارے بھائی شیخ ابو مسلم الجزائری کا لکھا ہوا تھا، جس میں انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا تھا تیونسی حکومت جلد گر جائے گی اور اس کو بغاوت وغیرہ کا سامنا ہوگا۔ یہ ایک بہت دلچسپ بات تھی، مجھے جب یہ بات یاد آئی تو میں نے اللہ کی حمد بیان کی کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن میں تجزیہ کرنے، سیکھنے، اور متوقع احوال کو جانچنے کی عمدہ صلاحیت موجود ہے-ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ان صلاحیتوں میں برکت فرمائے، آمین۔

٢) انٹرنیٹ پر ایک خط جو کہ ایک تیونسی بہن کی جانب سے بھیجا گیا تھا، جس میں انہوں نے القاعدہ اور اس کے رہنماء شیخ اسامہ بن لادن حفظہ اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی تھی که وہ تیونس میں مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کریں جہاں اسلام اور مسلمان مصائب سے دو چار ہیں۔ اس خط کی صحت اور حقیقت کی حتمی توثیق سے قطع نظر یہ خط دل کو چھو لینے والا اور بہت افسردہ کردینے والا تھا، اور طواغیت کے بارے میں مزید غصہ اور اشتعال پیدا کرنے کا سبب تھا جو اللہ، اسلام، فضائل اور پاکیزگی کے دشمن ہیں، اور جو خرابی انہوں نے اور ان کے ماننے والوں اور ان کی حکومت نے زمین میں پھیلائی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس بارے میں کوئی بھی بہت زیادہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، اگر اللہ ان کو صبر کی توفیق نہ دیتا تو لوگ ایسی حالت میں تھے کہ پھٹ پڑتے۔ اس وقت میں اپنے بھائیوں سے کہا کرتا کہ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور ظلم کا شکار کمزور مسلمان بہن بھائیوں کے ہمراہ اللہ سے دعا کریں اور مدد کی درخواست کریں اور اپنے عقیدے پر مضبوط رہتے ہوئے جہاد سے وابستہ رہیں۔ جہاد پر استقامت اور اس کا تسلسل ہمارے لئے اللہ کی جانب سے دین، امت اور مظلوم مسلمان بھائی بہنوں کی خدمت کے لئے ایک بہترین موقع ہے۔ اس موقع پر میں - مسلمانوں کے دلوں میں ہمارے لئے جو اعتبار اور محبت ہے اس کی کما حقہ قدر کرتے ہوئے - اپنے بھائی بہنوں کے لئے ایک وضاحت پیش کرنا چاہوں گا کہ القاعدہ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اور اے میرے محترم اور پیارے بھائیو اور بہنو، نہ ہی یہ قصہ "المعتصم اور عموریہ" جیسا کوئی قصہ ہے، اور نہ ہی ایک ایسا بڑا لشکر روانہ کرنے کا معاملہ ہے جس لشکر کا شروع اور آخر کا حصہ ایک ساتھ نظر میں نہ سما سکے۔ القاعدہ اس مجاہد امت کا محض ایک چھوٹا سا گروہ ہے، اس کو بہت بڑا نہ سمجھیں۔ ہم سب کو اپنی قابلیتیں معلوم ہونی چاہئیں۔ آئیے ہم سب بھلائی، نیکی اور جہاد فی سبیل اللہ میں ایک دوسرے کی مدد کریں، ہر ایک اپنی جگہ اور کردار کے مطابق اپنا حصہ ڈالے، جو کچھ بھی وہ کر سکے اور جو بھی اس کے لئے مناسب ہو، اللہ سچوں کی سچائی، مخلص کے اخلاص اور کمزور اور ہارے ہوؤں کی دعاؤں کی وجہ سے فتح عطا فرماتا ہے۔ ایسا لگا کہ جیسے تیونس سے ہماری بہن کی جانب سے یہ خط حقیقتا بن علی کی طاغوتی حکومت کے خاتمے اور اللہ کے فضل و احسان سے ہماری مشکلات دور ہونے کی طرف اشارہ تھا۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں سبق ہے۔ میری خواہش ہے کہ بہن کو اب ایک اور خط موجودہ حالات کے بارے میں لکھنا چاہئے، گو کہ یہ حالات وہ کچھ نہیں ہیں جس کا ہم نے سوچا اور امید کی تھی مگر اس میں شبہ نہیں کہ یہ بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کے خاتمے کا سبب ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ان شاء اللہ یہ مزید بھلائی اور رحمت کی وجہ بنیں گے۔

اور اس امّت کے اصلاح کاروں، مجاہدین اور داعیان الی اللہ کو انقلاب کے بعد کی آزادی اور مواقع سے، جبکہ بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات دور ہوچکی ہیں، بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس تاریخی موقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، اور اصلاح و احیائے نو کی کوششوں میں مصروف عمل ہو جانا چاہئے اور ان میں اضافہ کرنا چاہئے۔ خلاصے کے طور پر ہم نوجوانان کو مخاطب کرتے ہیں کہ وہ معاملات کو پوری طرح سے سمجھیں، اور تنگ نظری کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی مفلوج ہو جائیں اور نہ ہی جلد بازی کا مظاہرہ کریں۔ مختلف اسلامی تحریکات سے اپنے اختلافات میں الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جیسے کہ تیونس میں نھضہ جماعت کے بھائی وغیرہ ہیں۔ اس کے بجائے آپ کی توجہ تعمیر اور آگے کی تیاری کی جانب ہونی چاہئے۔ یہی بات مصر، سیناء اور رفح وغیرہ میں ہمارے بھائیوں کے لئے ہے۔ اچھے اخلاق اور مہربانی و شفقت اور سمجھ کے مختلف معیار کے حامل لوگوں سے روادری کے برتاؤ کے رویوں کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ان کو اس بات کا احساس دلائیں کہ ہماری امت اس وقت ایک بہت سخت وقت سے گزر رہی ہے اور اب جاکر اس نے دہائیوں کی نہیں بلکہ صدیوں سے چھائی تاریکیوں اور مشکلات سے نکلنے کی کوشش شروع کی ہے۔ نوجوانوں کو باخبری کے ایک مطلوبہ درجے اور معیار تک پہنچنا چاہئے۔ یہ سب باتیں دین کی خدمت کرنے کی خواہش، غیرت، اور اس کے لئے حفاظت کے احساس کے بیچ رکاوٹ نہیں بنتیں، اور نہ ہی حق بات کہنے اور صحیح منہج واضح کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، بلکہ وہ سب اوصاف جو ہم نے ذکر کیے اپنی ذات میں پیدا کریں جیسا کہ نرمی، اچھے اخلاق، رحم دلی، سخاوت، اور تمام مسلمانوں سے، بلکہ تمام انسانوں سے، معاملات میں بھلائی۔ آپ کا بنیادی اصول یہ ہونا چاہئے کہ میں اچھائی کروں گا اور حق بات کہوں گا مگر ہر طرح کی بھلائی اور حکمت کے ساتھ اور ہر طرح کی ایسی مشکلات سے بچتے ہوئے جو آگے جا کر رکاوٹوں کی صورت اختیار کرسکتی ہوں۔ اس بات کو سمجھیں، اللہ آپ پر رحمت فرمائے، کہ سچائی کے مختلف درجات ہوتے ہیں، کچھ اقسام ایسی ہیں جو قول و عمل میں کسی صورت بھی چھوڑی نہیں جاسکتیں، اور کچھ اقسام کسی صورتحال سے اعراض کرنے یا عذر کی وجہ سے چھوڑی جا سکتی ہیں، اس چیز کآ مطالعہ کریں اور اس کو اچھی طرح سے سمجھیں، اور اپنے دلوں کو معلومات اور علم نافع کے لئے کھولیں اور اپنے آپ کو شعور اور آگہی میں گہرائی تک لے جائیں۔

تیونس مصر اور جلد ہی دیگر جگہوں میں ہونے والی عرب بغاوتوں نے بہت سے حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس میں اللہ کی جانب سے مسلمانوں پر بے پناہ رحمت اور مہربانی شامل ہے۔ لوگ لامحالہ ان معاملات پر لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اور وہ اس پر ژوید اور مزید لکھتے رہیں گے، کہ ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے۔

میں اس معاملے کے کچھ پہلوؤں پر بات کرنا چاہتا ہوں:

١)طاغوتی غاصب ریاستوں کی خستہ حالی، باوجود اس کے کہ یہ اس کے الٹ دکھائی دیتی ہیں۔ اصل میں تو یہ ایک غبارے کی مانند ہیں جس میں صرف گرم ہوا بھری ہوتی ہے، اندر سے یہ کھوکھلی اور تباہی کے قریب۔ جیسے ہی عوام حرکت میں آئے اور بغاوت شروع ہوئی یہ گر جائیں گی، اور ان کے رہنماء دوسرے ممالک فرار ہو جائیں گے، اور ان کو پناہ کے لئے اپنی زمین پر تو کسی گوہ کا سوراخ تک نصیب نہ ہو سکے گا! اکثر لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان حکمرانوں کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے، نہ ان سے کسی خیر یا بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے، البتہ ان کی جو اہمیت ہے وہ ان کے پاس طاقت، ان کے اختیار میں پولیس، فوج، اور ان کی مدد کے لئے تیار حمایتیوں کی وجہ سے ہے، اور معاشرے کے اس حصے کی وجہ سے جو ان سے فوائد حاصل کرتا ہے، اور جن کا انجام بھی انہی طواغیت کے ساتھ ہوگا-

٢) لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ کافر مغرب کے نزدیک ہماری مسلمانوں عوام کے مفادات کی قطعا کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور جب یہ روتے ہیں تو یہ صرف مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ یہ صرف اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بھاگتے اور دم ہلاتے ہیں، جس کے لئے ان کو خطے میں استحکام اور اپنی غلام حکومتوں کے تسلسل کی ضرورت ہے، جبکہ ان حکومتوں کے ظلم و ستم، جبر اور لوگوں کی آزادی ضبط کرلینے کی مغرب کو کوئی فکر نہیں، نہ ہی مغرب کو ان حکومتوں کی بدعنوانیوں سے کوئی سروکار ہے جس سے مغرب اچھی طرح واقف ہے، اور نہ ہی مغرب کو اس بات کی پرواہ ہے کہ یہ حکومتیں لوگوں کو بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام ظلم و جبر اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی بد عنوانیاں، جو ہمارے لوگوں کے ساتھ روا رکھی جارہی ہیں، اور ان سے بھی بڑھ کر مظالم جن سے مغرب بخوبی واقف ہے، ان سب کے باوجود مغرب کو اگر دلچسپی ہے تو صرف اس بات سے کہ موجودہ حالات اس کے مفادات کے حق میں رہیں اور وہ مسلمانوں کے ذرائع سے اپنے خزانے بھرتے رہیں اپنی صنعتوں اور اپنی منڈیوں کو آباد کرتے رہیں۔ یہ سب تیونسی بغاوت کے حوالے سے فرانس امریکہ وغیرہ کے موقف سے لوگوں پر خوب واضح ہو گیا۔ اور جو کوئی اب بھی ان حقائق کو نہ سمجھ سکے تو پھر وہ کبھی بھی کچھ سمجھنے کے قابل نہیں!

٣) سب سے اہم پہلو ان مرتد عرب حکومتوں کا یہود (اسرائیل) سے مضبوط تعلق ہے، اور جس طرح حسنی مبارک کا مصر یہودیوں کے چوکس اور ایماندار محافظ کا کردار ادا کرتا رہا۔ لوگوں نے واضح طور پر دیکھ لیا کہ کس طرح یہودی آخر تک حسنی اور اس کی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے، اور ان کو اس کی حکومت گرنے کا کس قدر خوف لاحق تھا۔ آج بہت سے لوگوں نے یہ دیکھ لیا کہ اگر یہ غدار مرتد حکومتیں (مصر، اردن، شام اور باقی ناکارہ عرب حکومتیں) نہ ہوتیں تو ناکارہ اسرائیلی ریاست کبھی باقی نہ رہتی، کیونکہ اس کی ہماری امّت سے فوری طور پر لڑائی شروع ہو جاتی جس میں ہم فتحیاب ہوتے، اللہ اکبر۔ یہ کام ویسے بھی اب جلد ہی ہونے والا ہے ، ان شاء اللہ۔

٤) جہاں تک سعودیہ کی منافق حکومت کا تعلق ہے، دو مقدس مقامات کی سرزمین کے غدار، شاہ عبداللہ آل سعود نے اپنی محدود اور کمزور حیثیت میں جو کچھ وہ حسنی مبارک کی امداد میں کر سکتا تھا کیا، جبکہ وہ خود قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے، یہاں تک کہ اس نے اس بارے میں امریکہ کے موقف کی بھی مخالفت کی۔ اور غالبا یہ پہلی ہی بار ہوگا کہ اس نے کسی بھی معاملے میں امریکہ کی ہاں میں ہاں نہ ملائی۔ جزیرۃالعرب اور ہر جگہ کے لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح شاہ عبداللہ آل سعود حسنی کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا اور اس کو گرنے سے بچانے کی حتی الامکان تدابیر کرتا رہا اور مصری عوام کے مطالبات، خواہشات اور ان کی طاقت ور بغاوت سے جہالت اور لاعلمی کی ادارکاری کرتا رہا اور حکومت کی مکروہ پالیسیوں بدعنوانی اور ظلم سے صرف نظر کرتا رہا۔ ہم "سعودیہ عرب" کے سمجھداروں سے کچھ آسان سوالات پوچھتے ہیں، کہ اس میں شک نہیں کہ عقل والوں کے لئے ان باتوں میں نشانیاں ہیں۔ عبداللہ آل سعود سیکولر اور لادین حسنی کی حمایت کیوں کرتا رہا جو اسرائیل کا ایجنٹ، امریکہ کا حلیف، یہود کا حبیب ہے؟ کیا عبداللہ آل سعود حسنی اور اس کی حکومت کی اسلام کے خلاف جنگ میں حالت زار نہیں جانتا تھا، یہ موٹے تازے بدمعاش جن کی توندیں حرام کھا کھا کر پھولی ہوئی ہیں؟ کیا عبداللہ آل سعود کی رائے اس کے مذہبی ہونے اور رواداری پر یقین کا نتیجہ ہیں؟اور کیا یہ امت کے مفادات کے لئے اس کے فکر مند ہونے کی نشانی ہے؟کیا عبداللہ نے حسنی کی حمایت اللہ اور اس کے دین کی خاطر کی تھی؟ کیا عبداللہ آل سعود دین و آخرت کی جانب کوئی توجہ دیتا بھی ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو ایسے آزاد لوگوں کے دل میں رہتے ہیں، جو اپنے آپ کو اللہ کے نزدیک جلد حساب دینے والا جانتے ہیں اور اس بات سے پناہ چاہتے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾

[مومنو! خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے۔ اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حامل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے] (سورہ انفال: 24)

اور طوفان سے بھی پہلے، اور اس سے بھی پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

اور جہاں تک سوال ہے یمن میں ہمارے مجاہد بھائیوں کا، میں ان کو یاد کرانا چاہتا ہوں کہ اس وقت علی عبد اللہ صالح کی حکومت اپنی کمزور ترین حالت میں ہے اور بغاوت ہونا نا گزیر ہے اور پھر وہ لامحالہ گر جائے گا۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ ان کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک بہت بڑا موقع ہے - سیاسی، سیکیورٹی اور معاشرتی طور پر۔ اور جنگ اور تبدیلی کے اوقات میں ایسے لوگوں کے لئے نیکی کے کام کرنے کے کتنے ہی مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جنہیں اللہ نے توفیق، ہدایت اور تقویٰ سے نوازا ہوتا ہے؟

انشاء اللہ، اب اگلی بار ہم اپنے مسلمان ساتھیوں سے بات کریں گے، ہمارے عوام جو آزادی کے نئے احساس سے روشناس ہوچکے ہوں گے، اور ان مسلمان عامۃ الناس سے بھی جو اسلام، اللہ سبحانہ و تعالی کے دین، کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے کوشاں ہیں، جس کی ہدایت میں دنیا و آخرت کی خیر، امن، عزت، کرامت، اطمینان اور خوشی ہے۔

﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾

[جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے] (سورہ النحل: ۹۷)

﴿ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ | وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾

[.....پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا (۱۲۳) اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے (۱۲۴)] (سورة طٰه)

*******


مکمل تحریر  »