اسلامی تحریک کے صدر اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن کا دنیا بھر میں کفر کے سرغنہ (پوپ) کا استقبال کرنے کے بارے میں شرعی حکم
ترجمہ: انصار اللہ اردو بلاگ
رقم السوال:۶۷
تاریخ النشر:۱/۷/۲۰۱۰
سیکشن:العقیدہ
جواب منجانب: منبر کی شرعی کمیٹی
سوال: اسلام علیکم و رحمہ اﷲ و بر کاتہ
یہ سوال اسرائیل میں مسلمان عربوں کے لئے اسلامی تحریک کے صدر (یہودی پارلیمنٹ میں اخوان المسلمین کا رکن – ابراہیم صرصور) کے اس استقبال کے بارے میں ہے جو اس نے دنیا بھر میں کفر کے سرغنہ اس لاوارث کا کیا جس نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے، یعنی ویٹیکان کا پوپ۔ اس نے الناصرہ شہر میں پوپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر اس کا استقبال کیا اور جب اس سے بحث کی گئی تو یہ راہ سے بھٹکا ہوا کہتا ہے کہ اسے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ اس نے جو کام کیا ہے وہ ادنی درجے کا بھی حرام ہو اور یہ بھٹکا ہوا اس کافر اکبر کے استقبال کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا وفود نصارٰی کا استقبال کرنے سے لیتا ہے۔ اور اس فتنہ زدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ہر اس شخص سے تعلق توڑا جائے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے کیونکہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔
تو آپ بتائیں کہ ایسے مجرم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا اس کے پیچھے نماز جائز ہے کہ نہیں؟
سائل: ابو عبیدہ
جواب: وعلیکم اسلام و رحمتہ وبرکاتہ
بسم اﷲ و الحمداﷲ والصلاة والسلام علی رسول اﷲ، اما بعد،
اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ اس رکن (ابراہیم) کا دنیا میں کفر کے سرغنہ، اس لا وارث (پوپ) کا استقبال کرنا ان امور میں شامل ہے، جو کہ اس لال بیگ (نوٹ: ‘صرصور‘ عربی زبان میں لال بیگ کو کہتے ہیں جبکہ یہ اس رکن کے اصل نام کا حصہ بھی ہے) کی ذلت اورحقارت پر دلالت کرتے ہیں، اور جہاں تک اس رکن کا اس لاوارث کے استقبال کرنے کے فعل کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فعل پر قیاس کرنا ہے کہ جس طرح انہوں نے نصارٰی کے وفود کا استقبال کیا تھا تو یہ بات اس کی جہالت کی دلیل اور اس کی گمراہی، ذلت اور حقارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو ان نصارٰی کے وفود کا استقبال کیا تھا جو حق کی تلاش میں آئے تھے، وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی خبر کے متلاشی تھے، کہ آیا یہ سچے نبی ہیں یا نہیں، اور انہوں نے نبی کریم صلی علیہ وسلم پر طعن و تشنیع کی اور نہ ان کے خلاف گستاخی کی، جیسے کہ اس لاوارث نے کیا کہ جس نے ہمارے نبی اور ہمارے دین پر زبان درازی کی، اور ہمارے ملک میں صرف اور صرف اس لئے آیا ہے کہ یہاں عیسائی مبلغین کے کاموں کی دیکھ بھال کر سکے، اور نصرانیت کی اشاعت اور اسلام سے جنگ کی ان کی کوششوں کو دیکھے، اور یہودیوں کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائے ۔
اور پھر اس سب سے بڑھ کر یہ کہ اس رکن نے اس کے ساتھ ایسا کام نہیں کیا جو کہ اسلام کی رو سے واجب اور اس سے مطلوب تھا، اور وہ یہ کہ اسے توحید کی طرف دعوت دیتا اور کفر اور نصرانیت ترک کرنے کی طرف بلاتا، جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان وفود کے ساتھ کیا تھا۔
اور میں اس میں مزید اضافہ کرتا ہوں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم چاہیں تو اپنے حق سے دستبردار ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق سے منہ پھیریں بلکہ ہم پر تو واجب ہے کہ ان کا بدلہ لیں، اور ان کی شان میں گستاخی کرنے والوں اور ان پر اور ان کے دین پر بد زبانی کرنے والوں سے ان کا پورا پورا بدلہ لیں
پس اس لا وارث کے بارے میں واجب تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ کعب بن اشرف والا معاملہ کیا جائے، نہ کہ اس کے ساتھ نجران کے وفد نصارٰی والا معاملہ کیا جائے۔
اور جہاں تک اس کا یہ کہنا ہے کہ ہر اس آدمی سے تعلق نہیں توڑا جا سکتا جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے، کیونکہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، تو یہ بالکل باطل قول ہے، فضول دعویٰ اور کھلی گمراہی ہے۔ بلکہ اصل تو یہ ہے کہ جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے وہ مسلمان ہی نہیں رہتا، اور اس سے صرف تعلق ہی نہیں توڑا جائے گا بلکہ اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اس کا قتل واجب ہوجاتا ہے بیشک وہ توبہ بھی کرلے تو، اور اس (رکن) کی یہ بات ایسی ہے کہ اس سے کفر میں تسلسل پیدا ہوتا ہے اور یہ مرتدین کو ان کے ارتداد پر انعام دینے والی بات ہے۔
لیکن اس کے باوجود اس رکن کا کفر کے اس سرغنہ کا استقبال کرنا اور اس سے ہاتھ ملانا اور اس کے ساتھ بیٹھنا اور اس کی چاپلوسی کرنا نہ صرف کفار کے ساتھ دوستی لگانے میں شمار ہوتا ہے بلکہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
اور جہاں تک اس کے کفر کی بات ہے تو اس کی دوسری وجہ ہے، اور وہ یہ کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا رکن ہے تو ایسے انسان سے کیا خیر کی امید کی جا سکتی ہے جو ان لوگوں کے افکار کی گندگی پر راضی ہو گیا جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہے، اور ان کے قوانین کو حکم تسلیم کرلیا، اور اﷲ اور اس کے رسول اور مومنین کے دشمنوں کے دستور کو شریعت اور منہج کے طور پر مان لیا، پس کتنے ہی ذرائع سے آڑ لی جائے اور کتنی ہی تاویلات کی جائیں مگر یہ بات ثابت ہے کہ اس کا ان کی شرکیہ امور کا ارتکاب کرنا کوئی عذر نہیں رکھتا، سوائے اس مجبوری کی حالت میں کہ جس میں کوئی ایسے امور کو برا جان کر کرے، مگر یہ بات اس اور اس جیسوں سے کوسوں دور ہے۔
پس کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس کے یا اس جیسے کسی اور کے پیچھے نماز پڑھے جو اسرائیلی پارلیمینٹ کا رکن ہو، اور ان کے لئے کوئی عزت و اکرام نہیں ہے۔ اور ہماری نصیحت ہے کہ ان جیسوں کے ساتھ بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے اور نہ ان کے ساتھ بیٹھا جائے اور نہ ہی بات کی جائے۔
اور تمام توفیق اللہ کی جانب سے ہے۔
جواب منجانب: الشیخ ابو الولید المقدسی
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد
ڈاؤن لوڈ کریں:
http://www.mediafire.com/?ut5ucx27ekndgzl
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔