جہاد قیامت تک جاری رہے گا
یہ نظم ان مرتدین اور جہاد کے انکاریوںکےلیے جو مجاہدین اسلام پر خوارج کا فتوی لگاتےہیں
چودہ سو سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ عرب کے ریگزاروں سے نکلتے ان قافلوں کی یاد میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن قافلوں کے شتر سواروں نے ہمیں خورداری ، غیرت و حمیت اور شجاعت و بسالت کی تابندہ تاریخ دی ۔
آج انہی اپنے اسلاف سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے دنیا بھر کے مجاہدان صف شکن کے قافلے اپنے جہادی محاذوں کی طرف رواں دواں ہیں۔
یہ نظم اپنے اسی تابناک ماضی کی یاد میں ہے ؛
نکلا تھا جب عرب سے یہ کارواں ہمارا
تھا بس الٰہ اللہ ورد زباں ہمارا
صحرا و بحر و بر تھے زیر قدم ہمارے
ہر سمت موجزن تھا سیل رواں ہمارا
رستہ نہ روکتے تھے صحرا و دشت و دریا
ہوتا نہ تھا مزاحم کوہ گراں ہمارا
خاک وطن کی نسبت ارض حجاز سے ہے
جا ہے یہاں ہماری دل ہے وہاں ہمارا
کشمیر بھی ہے اپنا ، اپنا ہے القدس بھی
یہ ہے زمیں ہماری وہ آسماں ہمارا
مکہ مکرمہ ہے جائے اماں ہماری
اللہ کا وہ گھر ہے آرام جاں ہمارا
پھیلی ہوئی ہے ہرسو اس کے گلوں کی خوشبو
شاداب ر ہے ہمیشہ وہ گلستاں ہمارا
آنکھوں کا نور ہے وہ اور نخل طور ہے وہ
دارالسرور ہے وہ دارالاماں ہمارا
جھکتی ہے ہر قدم پر اس میں جبیں ہماری
خوب آشنا ہے ہم سے وہ آستاں ہمارا
دھڑکن ہمارے دل کی ہے شہر پاک طیبہ
ہم جاں نثار اس کے وہ دل ستاں ہمارا
اس کی گلی گلی ہے پامال پائے احمد
اک اک نقش جا ہے گنج گراں ہمارا
بدر و احد کے دامن ہمتوں کے یہ امیں ہیں
سر سبز ان کے دم سے ہے گلستاں ہمارا
ہم کو ہے ان سے الفت ان کو ہے الفت ہم سے
ارشاد مصطفٰی کا ہے حرز جاں ہمارا
لہرا رہے ہیں ہرسو دین ھدیٰ کے پر چم
پہچانتی ہے دنیا قومی نشاں ہمارا
نکلا تھا جب عرب سے یہ کارواں ہمارا
تھا بس الٰہ اللہ ورد زباں ہمارا
نکلا تھا جب عرب سے یہ کارواں ہمارا
تھا بس الٰہ اللہ ورد زباں ہمارا
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔