Tuesday, April 12, 2011

بڑی غلط فہمی

آدمی شرک کرے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے اس سے بڑی غلط فہمی کوئی نہیں ہو سکتی۔ جتنے بھی رسول آئے سب نے لوگوں کو شرک سے ہی تو خبردار کیا تھا۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آدمی شرک کرتے ہوئے اپنے آپ کو رسولوں کے دین پر سمجھے۔ اسلام وہی رسولوں کا دین ہی تو ہے جس کی ملت شرک سے کھلی دشمنی ہے۔ خاتم المرسلین کی ساری زندگی اس شرک کے خلاف جہاد کرتے ہی تو گزری ہے

ہمارے یہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے مگر جب اس کو کافر کہنے کا سوال آئے تو تب لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کیلئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔

یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی احتیاط یا کسی توقف کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ’مشرک‘ کو ’کافر‘ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس سے شرک کا کوئی فعل سرزد ہو اس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔

کسی کے شرکیہ فعل کی بنا پر اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں۔ وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہو سکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت کی جانی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ کسی شخص کو مشرک ہی کہنے لگ جاتے ہیں تو اس کے بعد پھر اس کو ہنوز مسلمان ماننا البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔

اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے۔ گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر!

اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ’مشرک‘ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرہء اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔ ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔