عوامی انقلاب
بدعنوان عرب حکومتوں کا سقوط
استحکام کے بت کی تباہی
اور ایک نئی شروعات
شیخ عطیۃ اللہ
ربیع الاول ١٣، ١٤٣٢ھ
١۶-٠٢-٢٠١١ ء
بِسْمِ اللَّہ ِالرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ
ہم، عرب اور دنیا کی باقی عوام کے ساتھ تیونس اور مصر میں رونما ہوتے انقلاب کے واقعات کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے چشم تصور میں ایسے لگا گویا میں مصر کے بوڑھے اور شکستہ حال فرعون، حسنی مبارک، کی حکومت کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز سن رہا ہوں اور اس کے ساتھ ہی - ڈھول کی تھاپ کی مانند- یہود کے دلوں کی دھڑکنوں کی آواز بھی نہایت قریب سے سن رہا ہوں، جو اس خوف اور ہیبت کی وجہ سے بری طرح سے بے قابو ہیں جو ان عظیم واقعات کے ذریعے اللہ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا ہے۔
ہم کئی دنوں سے خبریں سن رہے ہیں اور مسلمانوں کے لئے اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان کے معاملات کو بہتری کی جانب لے جائے، اور یہ کہ اللہ تیونس کے عوام کو ان کے بزدل طاغوت سے خلاصی دے، اور اللہ مصر اور اس کے مسلمان عوام کو اس طاغوت اور اس کی خبیث، فاسد، ظالم و جابر حکومت سےنجات دے اور وہ مصر کے مسلمانوں کے معاملات کو سدھار دے اور ان بغاوتوں کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتر بنادے۔ یہ سچ ہے کہ یہ وہ بہترین چیز نہیں ہے جس کی ہم امید کرتے تھے مگر کچھ یا بہت زیادہ شر انگیزی سے جان چھوٹ جانا ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو خوش کردیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم اس اقدام سے یہ امید کرتے ہیں کہ یہ آنے والے خیر کا آغاز ہے اور باذن اللہ کامیابی کے مزید در کھولنے والا ہے۔
چنانچہ، تیونس مصر الجیریا لیبیا اردن یمن اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو کسی ایسے فرد کی ضرورت ہے جو ان دنوں میں انہیں اللہ کی جانب متوجہ کرے، اور ساتھ ہی تاریخ اور (مخلوقات کے بارے میں) اللہ کی سنتوں کی یاد لائے، اسی طرح ان آفاقی تعلیمات سے نکلنے والے عبرت اور حکمت کے اسباق سے بھی اچھے طریقے سے متعارف کرائے۔ اور یہ ایک بہت اہم کردار ہے جو داعیان الی اللہ، طلبائے علم، اور اسلامی تحریکوں کو ادا کرنا چاہئے-
یہ بغاوتیں، اور خاص طور پر مصر میں ھونے والی بغاوت، محض مصری اور عرب فاسد اور خبیث حکومتوں کے خلاف نہیں تھیں، بلکہ ان کے وسیع اور گہرے' کئی پہلو ہیں، پس یہ اس خطے کی تاریخ اور معاشرتی تعلقات میں ایک واضح موڑ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور مصری انقلاب میں یہ صرف حسنی مبارک اور اس کا اقتدار ہی نہیں جو ختم ہوا ہے، بلکہ "استحکام" کے اس تصور کی بھی موت ہے جسے انہوں نے ایسا معبود باطل بنا رکھا تھا جس کی پرستش رذیل طواغیت نہ صرف خود کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی پرستش پر مجبور کرتے، "خطے کا استحکام"، جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ حمکرانوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے اور انہیں ہر اس رکاوٹ سے محفوظ رکھا جائے جو ان کی بگڑی ہوئی عیاشانہ زندگیوں کی راہ میں آڑے آئے یا ان کی مسندوں اور ملک اور ملکی وسائل پر ان کے مطلق اختیار میں خلل ڈالے اور ان کا اپنے آپ اور اپنے خاندانوں کے لئے ملکی وسائل اور نعمتوں میں سے بڑے حصے مختص کرنے کو خطرے سے دوچار کرے، اور اس کے نتیجے میں وہ ویران اسرائیلی ریاست کی سرحدوں کی نگہبانی کا مکروہ کام جاری رکھتے ہوئے اس کو کسی بھی جہادی پیش قدمی سے محفوظ رکھنے اور بچانے کی ضمانت بنے رہیں!
مصری حکومت کو رخصت کردیا گیا، اور اس سے پہلے تیونسی حکومت کو بھی، اور ہو سکتا ہے کہ ان کے بعد یمنی، اردنی، اور شاید لیبیائی، الجزائری اور مراکشی حکومتوں کی بھی باری آنے والی ہو، باذن اللہ تعالی۔
جب میں اس مضمون کو شائع ہونے کے لئے بھیجنے لگا تو لیبیا سے خبریں آنے لگیں کہ ہمارے مسلمان بھائیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے لیبیا کے احمق اور شریر طاغوت اور اس کے خاندان کے خلاف بغاوت کر دی ہے، کہ جنہوں ملک میں گناہ اور نافرمانی پھیلا رکھی تھی اور اس میں خوب فساد مچایا ہوا تھا، اور اسے اپنی اور اپنے کتوں کی ذاتی ملکیت بنا رکھا تھا، پس ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان ظالموں سے لوگوں کی جان خلاصی کرائے، اور لیبیا کے مسلمانوں کے معاملات کو بہتری کی جانب پھیر دے جس میں وہ اپنی پاک و برتر ذات کے فرمانبرداروں کو عزت عطا فرمائے اور نافرمانوں کو ذلیل و خوار کرے۔
اس طرح اللہ لوگوں کے لئے مثالیں ظاہر فرماتا ہے، نوجوان نسل نے جدید دنیا کے سامنے ثابت کر دکھایا کہ وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں، باوجود فاسد عرب حکومت کی تمام تر کوششوں کے کہ نوجوانوں کو ہر سطح پر خرابی اور بے حسی کا شکار رکھا جائے، مگر یہ حکومت بیوقوف اور حقائق سے نابلد تھی جو محض شہوت پرستی ہی کی مثال تھی۔ یہ انقلاب ناگزیر تھا اس بات سے قطع نظر کہ یہ کب وقوع پزیر ہوتا۔ یہ مستقل آفاقی حقیقتیں ہیں جو ہم تاریخ، تجربات، انسانوں کے بارے میں اپنی معلومات اور انسانی نفسیات اور معاشرتی رویوں کے معمولی مطالعے سے سمجھ لیتے ہیں۔ ہماری امت اور ہمارے عرب اور اسلامی معاشروں میں بدعنوانی اور بد انتظامی کی قسموں او سطحوں کا جو انبار لگ گیا ہے وہ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا، اس کی برائی اور خباثت ضرور بالضرور اس کے ہاتھوں شعلوں کی نظر ہو جائے گی جس کو اللہ پسند فرمائے اور اس کو یہ کام سونپ دے۔ بارود چاہے کتنا ہی جمع ہو جائے مگر وہ اس جمع شدہ بدعنوانی اور برائی کے برابر تباہ کن اور ہلاکت خیز نہیں ہو سکتا۔ اس میں سے کچھ ایسا ہے جو آتشیں ہے اور کچھ ایسا جو اپنی عمر پوری کر چکا ہے۔ اللہ اس بات کو بہتر جانتا ہے کہ کون کیا سوچتا اور کیا نیت رکھتا ہے، ان میں سے کچھ تو وہ ہوں گے جو آخرت میں کامیاب ہوں گے اور کچھ وہ جو آخرت میں نقصان کے سواء کچھ نہ پا سکیں گے، ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، بہرحال یہ تمام کوششیں ایک غاصب حکومت سے مقابلہ کرنے کے لئے مجتمع کی گئی ہیں۔ یہ صورتحال مجھے شاعر احمد مطر کے اشعار یاد دلا رہی ہے:
میں جانتا ہوں کہ محض اشعار کے قافیے
طاغوت کے عرش کو نہیں گرا سکتے
لیکن میں اس سے اس کی چمڑی کو ایسے داغتا ہوں
جیسے مویشیوں کے چمڑے داغے جاتے ہیں
یہاں تک کہ اس کا وقت آپہنچے اور قضا اس پر غالب آ جائے
اور میں اسے ننگے پاؤں چلنے والے ہجوم کے ہاتھوں سے لے لوں
اور اس وقت یہ ایک تیار چمڑا ہو جس سے جوتے بنائے جا سکیں
تاہم، میں ان بہت سے لوگوں کی طرح نہیں تھا جو سمجھتے تھے کہ یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا، جس طرح سرسبز اور غیرت مند تیونس میں ہوا، اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں کہ دشمن اس کے اتنی جلدی ہو جانے کی توقع رکھتے تھے۔ اور یہ بات بے وقوف اور کمزور فرانس کے ردعمل سے ظاہر تھی، اور حتی کہ امریکہ کے رد عمل سے بھی، گو کہ امریکی رد عمل فرانس سے قدرے بہتر تھا خاص طور پر مصر کے حوالے سے، کیونکہ وہ تجربے سے یہ سیکھ چکے تھے اور سمجھ گئے تھے کہ اب تبدیلی ہو کر ہی رہے گی!
ہم بھی دوسروں کی طرح سوچتے تھے کہ مجرم طواغیت عوام کے ساتھ جو کچھ کر چکے ہیں اس کے سبب عوام یا تو مر چکی ہے یا آنے والے ایک طویل عرصے کے لئے گہری بے حسی کا شکار ہے، مگر تیونسی انقلاب اور اس کے بعد رونما ہونے والے حالات نے ثابت کر دکھایا کہ عوام ایک ایسے وقت میں اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ دیکھنے والا انہیں مردہ یا بے حس خیال کررہا ہو!
لیکن یہاں میں دو بہت اہم نکات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
١) تیونس میں انقلاب شروع ہونے سے کچھ عرصۂ قبل، طاغوت ابن علی کے دور میں ہم نے انٹرنیٹ پر موجود ایک مضمون پڑھا جو ہمارے خیال میں ہمارے بھائی شیخ ابو مسلم الجزائری کا لکھا ہوا تھا، جس میں انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا تھا تیونسی حکومت جلد گر جائے گی اور اس کو بغاوت وغیرہ کا سامنا ہوگا۔ یہ ایک بہت دلچسپ بات تھی، مجھے جب یہ بات یاد آئی تو میں نے اللہ کی حمد بیان کی کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن میں تجزیہ کرنے، سیکھنے، اور متوقع احوال کو جانچنے کی عمدہ صلاحیت موجود ہے-ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ان صلاحیتوں میں برکت فرمائے، آمین۔
٢) انٹرنیٹ پر ایک خط جو کہ ایک تیونسی بہن کی جانب سے بھیجا گیا تھا، جس میں انہوں نے القاعدہ اور اس کے رہنماء شیخ اسامہ بن لادن حفظہ اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی تھی که وہ تیونس میں مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کریں جہاں اسلام اور مسلمان مصائب سے دو چار ہیں۔ اس خط کی صحت اور حقیقت کی حتمی توثیق سے قطع نظر یہ خط دل کو چھو لینے والا اور بہت افسردہ کردینے والا تھا، اور طواغیت کے بارے میں مزید غصہ اور اشتعال پیدا کرنے کا سبب تھا جو اللہ، اسلام، فضائل اور پاکیزگی کے دشمن ہیں، اور جو خرابی انہوں نے اور ان کے ماننے والوں اور ان کی حکومت نے زمین میں پھیلائی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس بارے میں کوئی بھی بہت زیادہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، اگر اللہ ان کو صبر کی توفیق نہ دیتا تو لوگ ایسی حالت میں تھے کہ پھٹ پڑتے۔ اس وقت میں اپنے بھائیوں سے کہا کرتا کہ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور ظلم کا شکار کمزور مسلمان بہن بھائیوں کے ہمراہ اللہ سے دعا کریں اور مدد کی درخواست کریں اور اپنے عقیدے پر مضبوط رہتے ہوئے جہاد سے وابستہ رہیں۔ جہاد پر استقامت اور اس کا تسلسل ہمارے لئے اللہ کی جانب سے دین، امت اور مظلوم مسلمان بھائی بہنوں کی خدمت کے لئے ایک بہترین موقع ہے۔ اس موقع پر میں - مسلمانوں کے دلوں میں ہمارے لئے جو اعتبار اور محبت ہے اس کی کما حقہ قدر کرتے ہوئے - اپنے بھائی بہنوں کے لئے ایک وضاحت پیش کرنا چاہوں گا کہ القاعدہ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اور اے میرے محترم اور پیارے بھائیو اور بہنو، نہ ہی یہ قصہ "المعتصم اور عموریہ" جیسا کوئی قصہ ہے، اور نہ ہی ایک ایسا بڑا لشکر روانہ کرنے کا معاملہ ہے جس لشکر کا شروع اور آخر کا حصہ ایک ساتھ نظر میں نہ سما سکے۔ القاعدہ اس مجاہد امت کا محض ایک چھوٹا سا گروہ ہے، اس کو بہت بڑا نہ سمجھیں۔ ہم سب کو اپنی قابلیتیں معلوم ہونی چاہئیں۔ آئیے ہم سب بھلائی، نیکی اور جہاد فی سبیل اللہ میں ایک دوسرے کی مدد کریں، ہر ایک اپنی جگہ اور کردار کے مطابق اپنا حصہ ڈالے، جو کچھ بھی وہ کر سکے اور جو بھی اس کے لئے مناسب ہو، اللہ سچوں کی سچائی، مخلص کے اخلاص اور کمزور اور ہارے ہوؤں کی دعاؤں کی وجہ سے فتح عطا فرماتا ہے۔ ایسا لگا کہ جیسے تیونس سے ہماری بہن کی جانب سے یہ خط حقیقتا بن علی کی طاغوتی حکومت کے خاتمے اور اللہ کے فضل و احسان سے ہماری مشکلات دور ہونے کی طرف اشارہ تھا۔ غور کرنے والوں کے لئے اس میں سبق ہے۔ میری خواہش ہے کہ بہن کو اب ایک اور خط موجودہ حالات کے بارے میں لکھنا چاہئے، گو کہ یہ حالات وہ کچھ نہیں ہیں جس کا ہم نے سوچا اور امید کی تھی مگر اس میں شبہ نہیں کہ یہ بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کے خاتمے کا سبب ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ان شاء اللہ یہ مزید بھلائی اور رحمت کی وجہ بنیں گے۔
اور اس امّت کے اصلاح کاروں، مجاہدین اور داعیان الی اللہ کو انقلاب کے بعد کی آزادی اور مواقع سے، جبکہ بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات دور ہوچکی ہیں، بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس تاریخی موقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، اور اصلاح و احیائے نو کی کوششوں میں مصروف عمل ہو جانا چاہئے اور ان میں اضافہ کرنا چاہئے۔ خلاصے کے طور پر ہم نوجوانان کو مخاطب کرتے ہیں کہ وہ معاملات کو پوری طرح سے سمجھیں، اور تنگ نظری کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی مفلوج ہو جائیں اور نہ ہی جلد بازی کا مظاہرہ کریں۔ مختلف اسلامی تحریکات سے اپنے اختلافات میں الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جیسے کہ تیونس میں نھضہ جماعت کے بھائی وغیرہ ہیں۔ اس کے بجائے آپ کی توجہ تعمیر اور آگے کی تیاری کی جانب ہونی چاہئے۔ یہی بات مصر، سیناء اور رفح وغیرہ میں ہمارے بھائیوں کے لئے ہے۔ اچھے اخلاق اور مہربانی و شفقت اور سمجھ کے مختلف معیار کے حامل لوگوں سے روادری کے برتاؤ کے رویوں کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ان کو اس بات کا احساس دلائیں کہ ہماری امت اس وقت ایک بہت سخت وقت سے گزر رہی ہے اور اب جاکر اس نے دہائیوں کی نہیں بلکہ صدیوں سے چھائی تاریکیوں اور مشکلات سے نکلنے کی کوشش شروع کی ہے۔ نوجوانوں کو باخبری کے ایک مطلوبہ درجے اور معیار تک پہنچنا چاہئے۔ یہ سب باتیں دین کی خدمت کرنے کی خواہش، غیرت، اور اس کے لئے حفاظت کے احساس کے بیچ رکاوٹ نہیں بنتیں، اور نہ ہی حق بات کہنے اور صحیح منہج واضح کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، بلکہ وہ سب اوصاف جو ہم نے ذکر کیے اپنی ذات میں پیدا کریں جیسا کہ نرمی، اچھے اخلاق، رحم دلی، سخاوت، اور تمام مسلمانوں سے، بلکہ تمام انسانوں سے، معاملات میں بھلائی۔ آپ کا بنیادی اصول یہ ہونا چاہئے کہ میں اچھائی کروں گا اور حق بات کہوں گا مگر ہر طرح کی بھلائی اور حکمت کے ساتھ اور ہر طرح کی ایسی مشکلات سے بچتے ہوئے جو آگے جا کر رکاوٹوں کی صورت اختیار کرسکتی ہوں۔ اس بات کو سمجھیں، اللہ آپ پر رحمت فرمائے، کہ سچائی کے مختلف درجات ہوتے ہیں، کچھ اقسام ایسی ہیں جو قول و عمل میں کسی صورت بھی چھوڑی نہیں جاسکتیں، اور کچھ اقسام کسی صورتحال سے اعراض کرنے یا عذر کی وجہ سے چھوڑی جا سکتی ہیں، اس چیز کآ مطالعہ کریں اور اس کو اچھی طرح سے سمجھیں، اور اپنے دلوں کو معلومات اور علم نافع کے لئے کھولیں اور اپنے آپ کو شعور اور آگہی میں گہرائی تک لے جائیں۔
تیونس مصر اور جلد ہی دیگر جگہوں میں ہونے والی عرب بغاوتوں نے بہت سے حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس میں اللہ کی جانب سے مسلمانوں پر بے پناہ رحمت اور مہربانی شامل ہے۔ لوگ لامحالہ ان معاملات پر لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اور وہ اس پر ژوید اور مزید لکھتے رہیں گے، کہ ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے۔
میں اس معاملے کے کچھ پہلوؤں پر بات کرنا چاہتا ہوں:
١)طاغوتی غاصب ریاستوں کی خستہ حالی، باوجود اس کے کہ یہ اس کے الٹ دکھائی دیتی ہیں۔ اصل میں تو یہ ایک غبارے کی مانند ہیں جس میں صرف گرم ہوا بھری ہوتی ہے، اندر سے یہ کھوکھلی اور تباہی کے قریب۔ جیسے ہی عوام حرکت میں آئے اور بغاوت شروع ہوئی یہ گر جائیں گی، اور ان کے رہنماء دوسرے ممالک فرار ہو جائیں گے، اور ان کو پناہ کے لئے اپنی زمین پر تو کسی گوہ کا سوراخ تک نصیب نہ ہو سکے گا! اکثر لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان حکمرانوں کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے، نہ ان سے کسی خیر یا بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے، البتہ ان کی جو اہمیت ہے وہ ان کے پاس طاقت، ان کے اختیار میں پولیس، فوج، اور ان کی مدد کے لئے تیار حمایتیوں کی وجہ سے ہے، اور معاشرے کے اس حصے کی وجہ سے جو ان سے فوائد حاصل کرتا ہے، اور جن کا انجام بھی انہی طواغیت کے ساتھ ہوگا-
٢) لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ کافر مغرب کے نزدیک ہماری مسلمانوں عوام کے مفادات کی قطعا کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور جب یہ روتے ہیں تو یہ صرف مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ یہ صرف اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بھاگتے اور دم ہلاتے ہیں، جس کے لئے ان کو خطے میں استحکام اور اپنی غلام حکومتوں کے تسلسل کی ضرورت ہے، جبکہ ان حکومتوں کے ظلم و ستم، جبر اور لوگوں کی آزادی ضبط کرلینے کی مغرب کو کوئی فکر نہیں، نہ ہی مغرب کو ان حکومتوں کی بدعنوانیوں سے کوئی سروکار ہے جس سے مغرب اچھی طرح واقف ہے، اور نہ ہی مغرب کو اس بات کی پرواہ ہے کہ یہ حکومتیں لوگوں کو بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام ظلم و جبر اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی بد عنوانیاں، جو ہمارے لوگوں کے ساتھ روا رکھی جارہی ہیں، اور ان سے بھی بڑھ کر مظالم جن سے مغرب بخوبی واقف ہے، ان سب کے باوجود مغرب کو اگر دلچسپی ہے تو صرف اس بات سے کہ موجودہ حالات اس کے مفادات کے حق میں رہیں اور وہ مسلمانوں کے ذرائع سے اپنے خزانے بھرتے رہیں اپنی صنعتوں اور اپنی منڈیوں کو آباد کرتے رہیں۔ یہ سب تیونسی بغاوت کے حوالے سے فرانس امریکہ وغیرہ کے موقف سے لوگوں پر خوب واضح ہو گیا۔ اور جو کوئی اب بھی ان حقائق کو نہ سمجھ سکے تو پھر وہ کبھی بھی کچھ سمجھنے کے قابل نہیں!
٣) سب سے اہم پہلو ان مرتد عرب حکومتوں کا یہود (اسرائیل) سے مضبوط تعلق ہے، اور جس طرح حسنی مبارک کا مصر یہودیوں کے چوکس اور ایماندار محافظ کا کردار ادا کرتا رہا۔ لوگوں نے واضح طور پر دیکھ لیا کہ کس طرح یہودی آخر تک حسنی اور اس کی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے، اور ان کو اس کی حکومت گرنے کا کس قدر خوف لاحق تھا۔ آج بہت سے لوگوں نے یہ دیکھ لیا کہ اگر یہ غدار مرتد حکومتیں (مصر، اردن، شام اور باقی ناکارہ عرب حکومتیں) نہ ہوتیں تو ناکارہ اسرائیلی ریاست کبھی باقی نہ رہتی، کیونکہ اس کی ہماری امّت سے فوری طور پر لڑائی شروع ہو جاتی جس میں ہم فتحیاب ہوتے، اللہ اکبر۔ یہ کام ویسے بھی اب جلد ہی ہونے والا ہے ، ان شاء اللہ۔
٤) جہاں تک سعودیہ کی منافق حکومت کا تعلق ہے، دو مقدس مقامات کی سرزمین کے غدار، شاہ عبداللہ آل سعود نے اپنی محدود اور کمزور حیثیت میں جو کچھ وہ حسنی مبارک کی امداد میں کر سکتا تھا کیا، جبکہ وہ خود قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے، یہاں تک کہ اس نے اس بارے میں امریکہ کے موقف کی بھی مخالفت کی۔ اور غالبا یہ پہلی ہی بار ہوگا کہ اس نے کسی بھی معاملے میں امریکہ کی ہاں میں ہاں نہ ملائی۔ جزیرۃالعرب اور ہر جگہ کے لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح شاہ عبداللہ آل سعود حسنی کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا اور اس کو گرنے سے بچانے کی حتی الامکان تدابیر کرتا رہا اور مصری عوام کے مطالبات، خواہشات اور ان کی طاقت ور بغاوت سے جہالت اور لاعلمی کی ادارکاری کرتا رہا اور حکومت کی مکروہ پالیسیوں بدعنوانی اور ظلم سے صرف نظر کرتا رہا۔ ہم "سعودیہ عرب" کے سمجھداروں سے کچھ آسان سوالات پوچھتے ہیں، کہ اس میں شک نہیں کہ عقل والوں کے لئے ان باتوں میں نشانیاں ہیں۔ عبداللہ آل سعود سیکولر اور لادین حسنی کی حمایت کیوں کرتا رہا جو اسرائیل کا ایجنٹ، امریکہ کا حلیف، یہود کا حبیب ہے؟ کیا عبداللہ آل سعود حسنی اور اس کی حکومت کی اسلام کے خلاف جنگ میں حالت زار نہیں جانتا تھا، یہ موٹے تازے بدمعاش جن کی توندیں حرام کھا کھا کر پھولی ہوئی ہیں؟ کیا عبداللہ آل سعود کی رائے اس کے مذہبی ہونے اور رواداری پر یقین کا نتیجہ ہیں؟اور کیا یہ امت کے مفادات کے لئے اس کے فکر مند ہونے کی نشانی ہے؟کیا عبداللہ نے حسنی کی حمایت اللہ اور اس کے دین کی خاطر کی تھی؟ کیا عبداللہ آل سعود دین و آخرت کی جانب کوئی توجہ دیتا بھی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ایسے آزاد لوگوں کے دل میں رہتے ہیں، جو اپنے آپ کو اللہ کے نزدیک جلد حساب دینے والا جانتے ہیں اور اس بات سے پناہ چاہتے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
[مومنو! خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے۔ اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حامل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے] (سورہ انفال: 24)
…اور طوفان سے بھی پہلے، اور اس سے بھی پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
اور جہاں تک سوال ہے یمن میں ہمارے مجاہد بھائیوں کا، میں ان کو یاد کرانا چاہتا ہوں کہ اس وقت علی عبد اللہ صالح کی حکومت اپنی کمزور ترین حالت میں ہے اور بغاوت ہونا نا گزیر ہے اور پھر وہ لامحالہ گر جائے گا۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ ان کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک بہت بڑا موقع ہے - سیاسی، سیکیورٹی اور معاشرتی طور پر۔ اور جنگ اور تبدیلی کے اوقات میں ایسے لوگوں کے لئے نیکی کے کام کرنے کے کتنے ہی مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جنہیں اللہ نے توفیق، ہدایت اور تقویٰ سے نوازا ہوتا ہے؟
انشاء اللہ، اب اگلی بار ہم اپنے مسلمان ساتھیوں سے بات کریں گے، ہمارے عوام جو آزادی کے نئے احساس سے روشناس ہوچکے ہوں گے، اور ان مسلمان عامۃ الناس سے بھی جو اسلام، اللہ سبحانہ و تعالی کے دین، کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے کوشاں ہیں، جس کی ہدایت میں دنیا و آخرت کی خیر، امن، عزت، کرامت، اطمینان اور خوشی ہے۔
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾
[جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے] (سورہ النحل: ۹۷)
﴿ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ | وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾
[.....پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا (۱۲۳) اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے (۱۲۴)] (سورة طٰه)
*******
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔