Tuesday, April 5, 2011

جہادی میڈیا کی حقیقت اور کردار

الموحدین ویب سائٹ ٹیم پیش کرتے ہیں

المأسد ۃ میڈیاکی پیشکش

قیمتی مطالعہ

جہادی میڈیا

کی حقیقت اور کردار

شیخ أبي سعد العاملي

کی عربی تحریر’’واقع و دور الاعلام الجہادي‘‘ کا اردو ترجمہ

ربیع الاول1432ھ/فروری2011ء


تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ، جو مظلوم موحدین کا رب اور ان کا مددگار ہے اور جو جابروں اور ظالموں کو کچلنے والا اور انہیں شکست دینے والا ہے، اور رحمتیں اور سلامتی ہو ں خاتم الانبیاء اور ان کے سرداراور مجاہدین کے امام اور ان کے لئے مثالی نمونے پر ‘اور ان کے آل و اصحاب پر‘ اورتا قیامت ان کی لائی ہوئی ہدایت سے ہدایت پانے والوں اور ان کی سنت کا احیاء کرنے والوں پر۔ امّا بعد:

میڈیا کے متعلق عمومی گفتگو ہمیں لازماً اس میدان کی جانب گفتگو اورتوجہ کرنے پر لے جاتی ہے جو میدان اب ’جہادی میڈیا‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، یا جسے دشمن دہشت گردی کی مددگار انتہاء پسند ویب سائٹس کا نام دیتا ہے۔اور یہ امر ہمارے لئے بحیثیت موحد مسلمان باعثِ شرف ہے کہ ہم اللہ کے دشمنوں کو دہشت زدہ کریں اور ان سے دلائل، بیانات اورشمشیروں کی مدد سے لڑیں تا کہ ہم اللہ کے اس وعدے کو پالیں کہ اُن کو شکست ہوگی اور اللہ کا دین ان کے تمام باطل ادیان اور ظالم قوانین پر حاوی ہو جائے گا۔

اور ہم اپنے آپ کو حق کی افواج اور اس کے لشکروں کا جزء لا ینفک سمجھتے ہیں جو)افواج( صرف جہادد فع پر ہی عمل نہیں کر رہیں بلکہ جہاد طلب کی احیاء کرتے ہوئے دشمن کی جانب پیش قدمی بھی کر رہی ہیں ۔ چنانچہ ہم دفاع کے مرحلے سے آگے بڑھ چکے ہیں اورہمارے دشمن کی طرف سے اس )دفاعی جہاد( کے گرد گھومتی تمام تر مسلط کردہ بحث و تمحیص اس لئے ہے کہ ہم جہاد طلب کو معطل کر دیں جو ہم مسلمانوں کے معاشرے کے لئے تیز دھار ترین فیصلہ کن ہتھیار ہے۔

جہادی سفر میں میڈیا منبروں کا کردار

یہ با برکت میڈیا منبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مجاہد بندوں کے لئے نعمت ہیں اور اسی طرح ان کے انصار اور مددگاروں کے لئے بھی ‘تا کہ وہ اللہ عزّ و جل کے دین کی نصرت کے لئے باہم متصل و مربوط رہ سکیں۔

پس ہم سب جانتے ہیں کہ مجاہدین کو باہم رابطے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا . خواہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ یا اپنے انصار )مددگاروں ( کے ساتھ . چنانچہ اب اللہ نے انہیں ان میڈیا منبروں سے نواز دیا ہے تا کہ یہ اس حق کے منہج کی نشر و اشاعت کا وسیلہ بن جائیں جس کے لئے یہ مجاہدین لڑ رہے ہیں، اور پھران کے جہاد کی خبروں اوراس جہاد کی حقیقی تصویر کوبھی نشر کریں ۔ اسی طرح یہ)میڈیامنبر( جہادی عمل کے لئے میڈیا کی منظم، باضابطہ اور محفوظ کوششوں کے ذریعے نئے سپاہیوں کو تیار کرنے اور انہیں اکٹھا کرنے کا وسیلہ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔

اور اُنہوں )دشمنوں( نے تو میڈیا کے جادوگرں کی قطاریں بھرتی کر رکھی ہیں تا کہ وہ مجاہدین کی ساکھ اور ان کے جہاد کے اعلیٰ و ارفع مقاصد پر کیچڑ اچھالیں۔ اور اس چیز نے اس بابرکت جہاد کو بہت متاثر کیا اور یہ بات بہت سے جہادی منصوبوں کے تعطل اور تاخیر کا سبب بنی ………… اور اس کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے ………… اورپھر آخرکار اللہ نے چاہا کہ اس منافق اور خبیث میڈیا کا پھیلایا ہوا غبار چھٹ جائے اور اس کا قبیح چہرہ اِن بابرکت منبروں کے توسط سے امت کے سامنے کھل کر آجائے، چنانچہ اب دشمنوں کے لئے ممکن نہ رہا کہ اپنے گمراہ کن ابلاغ عامہ کے وسائل کے ساتھ اس میدان میں اکیلے کھڑے رہیں کیونکہ مجاہدین اور ان کے انصاران منبروں کے ذریعے جنگ کے میدان میں بہت سے دروازوں سے داخل ہوگئے ہیں جن کو مکمل طور پر بند کرنا دشمن کے لئے ممکن نہیں ہے، اور ایسے چھید ہمیشہ موجود رہتے ہیں جن کے ذریعے حق کی بات آگے پہنچتی ہے اور باطل کے جعلی پن کا پردہ چاک ہوتا ہے اور میدان جنگ کی مکمل صورتحال نشر ہوتی ہے اور دشمن کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے،اور یہ چیز اِس با برکت جہادی لہر کا سامنا کرنے میں دشمن کی گھبراہٹ اور پریشان خیالی میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔

پس یہ جہادی میڈیا منبر اورمراکزجہاد اور مجاہدین کے لئے زبردست منافع بخش تصور کیے جاتے ہیں، اوریہ اُن کے ہاتھوں میں ایک بیج کی مانند ہیں جسے پانی اور مستقل حفاظت کی ضرورت ہے تا کہ اس کی نشونما ہو اور یہ بڑا ہو کر اپنے رب کے اِذن سے متوقع ثمرات دے۔ اسی طرح اسے ترقی یافتہ کرنے اوراس میں مزیدبہتری لانے کے لئے ہمارے سرگرم اور منہمک ماہر ین کی مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے.اور وہ تعداد میں بہت ہوتے جا رہے ہیں، تمام تعریف اللہ کے لئے ہے اور اسی کا فضل ہے۔ ان میں اِس کے سوا اور کوئی کسر باقی نہیں کہ ہم آہنگی کے ساتھ ربط و ضبط میں مزید اضافہ ہو اورایک ہدایت یافتہ اور ہوشمند قیادت کے ما تحت منظم میڈیا کاوشوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے یقینی طریقے دریافت کیے جائیں، جیسا کہ جہادی میدانوں میں بھی جہادی پیشرفت کا معاملہ ہے۔

اور فطری طور پراس کا کردار لڑنے والے سپاہیوں کو اخلاقی، دعوتی اور انتظامی و انصرامی حمایت فراہم کرنا ہے۔اور اس کے ساتھ ہی دعوت وتبلیغ اور تیاری اور دشمن کو پریشانی کا شکار کرنے کی کاوشوں میں بھی اس کی زبردست شراکت ہے ،بلکہ ایک مسلسل نفسیاتی میڈیا جنگ کے ذریعے دشمنوں کے اندردہشت ڈالنے کی کاوشوں میں بھی )اس کا حصہ ہے (جواُن کوششوں کے متوازی ہوتی ہیں جو لڑائی کے محاذوں پر مجاہدین بھائی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔

اور ہم نے دیکھا ہے………… اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے………… کہ یہ جہادی میڈیا منبرکس قدرموثر اور فائدہ مند ہیں ، اور ہم ان کے موثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دشمن ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کر رہے ہیں، کہ وہ ہر ممکن طریقے سے ان منبروں کو بند کرنے اور امت کی اکثریت تک ، اوربالخصوص اپنے لوگوں تک، ان کی رسائی کو روکنے کے لئے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

یہ تو جہادی میڈیا منبروں اور فورمزکے کردار سے متعلق تھا ، جبکہ ان کے منتظمین کے لئے میری نصیحت یہ ہے:

اوّل: اپنے اِس کام کو اتم اخلاص اور ثابت قدمی کے ساتھ جاری رکھیں اور اس بات کو اچھی طرح اورپورے یقین کے ساتھ سمجھ لیں کہ اِن کی میڈیا سرگرمیاں ایک طاقتور سند کا درجہ رکھتی ہیں اور جہادی سرگرمیوں کے سکّے کا دوسرا رُخ ہیں۔ یہ سرگرمیاں سرحدوں پر لڑائی کے متوازی چلتی ہیں ، جوکہ)یعنی سرحدوں پر لڑائی ( اس سکّے کا پہلا رُخ تصور ہوتی ہے۔

دوم: اپنے کام کے طریقوں اور جہادی میڈیا مواد کی نشر و اشاعت کرنے کے طریقوں کو ترقی اور جدّت سے مزین کریں اور اپنے منبروں کو محفوظ بنانے کے اقدامات کریں تا کہ یہ جاری و ساری رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ارکان اور لکھاریوں کے رازوں کو طواغیت کی نظروں سے دور محفوظ و مامون رکھیں، کہ یہ لوگ جہادی جد و جہدکے لئے قدر و قیمت اور اہمیت کے لحاظ سے سرحدوں پر لڑنے والوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔

سوم: اپنے درمیان رابطہ کاری کو دوگنا کریں اور جہادی منبروں اور ویب سائٹس میں اس کو مستحکم اور مضبوط کریں اور اس کا بنیادی مقصد تجربات )پر مبنی معلومات (کا تبادلہ اور ان میدانوں اور مہارتوں میں تعاون ہو جو جہاد اور مجاہدین کے مفادات کے لئے کارآمد ہوں۔ چنانچہ اگر کوئی منبر موجود نہ رہے تو دیگر منبر مجاہدین کی کاروائیوں کااحاطہ و اشاعت کرتے رہیں اوراُن کے انصار کے مابین رابطے کو بحال رکھیں۔

چہارم: مجاہدین کے ساتھ اپنے روابط کوپختہ بنائیں اور ان کے ساتھ رابطہ کاری اورابلاغ کے چینلز )راستے( میں اضافہ کریں اور ان کو محفوظ بنائیں اور رابطہ کاری کے تیز تر وسائل تلاش کریں تا کہ خبر کی اشاعت یا جہاد کے مستقبل سے متعلق معاملات یا تازہ ترین حالات و واقعات کے بارے میں مجاہدین کو متنبہ کرنے میں جلدی اور سبقت سے کام لے سکیں۔

اسی طرح ان بابرکت منبروں کو یہ بھی چاہیئے کہ اپنے ارکان کے بارے میں معلومات کی حفاظت کریں او ریہ نہ بھولیں کہ اِن کی قوت اور بقاء اِن ارکان کی بقاء اور حفاظت کی وجہ سے ہی ممکن ہے تا کہ یہ جہادی سفر کے لئے اپنی نفع بخش تخلیقات اور انشائات کا مکمل آزادی کے ساتھ اظہار کر تے رہیں۔

ان سب باتوں کے ساتھ میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ جہادی منبروں اور ویب سائٹس کے منتظمین ہمارے بھائیوں کی حفاظت فرمائے اور انہیں مزیدصبر‘ حکمت اور ثابت قدمی عطا فرمائے ، اور اُن کے لئے کسی کمی کے بغیرمجاہدین کے جتنا مکمل اجر لکھے، اور ہمیں اور اُن کو اپنی راہ میں شہادت نصیب فرمائے اور اس سے قبل اللہ اپنے فضل اور قوت سے ہمیں اللہ کے دشمنوں کے ناک میں دم کر دینے اور ان کی سازشوں اور ان کے ایجنٹوں کو بے نقاب کرنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مثبت پہلوؤں کو تقویت دیں اور منفی پہلوؤں سے اجتناب کریں

میرے یقین کے مطابق جہادی میڈیا کے بہت سے مثبت پہلو ہیں اور یہی کافی ہے کہ یہ اس قابل رہا ہے کہ ہماری امت پر مسلط اتنے بڑے اور وسیع محاصرے )گھیرے( کو توڑدے اور دشمن کے ہشت پایہ میڈیا کے جادو کو اُڑا کرراکھ کردے اورامت کے بیٹوں تک حقائق پہنچائے اور دشمن کے عیوب کو بے نقاب کر ے اوراُن محاذوں پر اِس کی سازشوں اور کمزوریوں اور بے بسیوں اور شکستوں کا پردہ چاک کرے جہاں یہ )دشمن(بہترین مجاہدین کے خلاف بر سرپیکار ہوا ہے۔

چنانچہ یہ کام بذاتِ خودجہادی پیشرفت اور مجاہدین کے لئے یکساں طور پر ایک بہت بڑا اور حد درجہ منافع بخش اور قیمتی کام تصور ہوتا ہے ، جبکہ امت کی صفوں میں اِس کے اُس تحریصی کردار کے تو کیا ہی کہنے،کہ جس کے نتیجے میں اور نئے سپاہی مجاہدین کی صفوں سے جا ملیں ، اور جہاد کی مدد کے لئے مادی امداد اکٹھی کرنا اور ان کے علاوہ دیگربڑے بڑے قدرو قیمت والے کام۔

یہ حقائق اور دشوار حالات جن کا سامنا امت اِس ہمہ جہت صلیبی جنگ کے بحرِ بیکراں میں گھِری کر رہی ہے ،میں اِن کی روشنی میں جہادی میڈیا کے کوئی منفی پہلو نہیں دیکھتا، بلکہ میں ایسی مشکلات‘ رکاوٹیں اور حوصلہ شکن امور دیکھتا ہوں جن پر قابو پانا اور جنہیں ہٹانا ضروری ہے تا کہ یہ میڈیا مزید ثمرات اور شاندار نتائج برآمد کرے۔

ان میں سے درج ذیل ہیں:

1 مجاہدین کی صفوں میں میڈیا کے تنظیمی ڈھانچوں اورقابلیت و استعداد کو دوگنا کرنا ضروری ہے تا کہ میڈیا کے میدان میں مجاہدین کی جانب ترازو کا پلڑا بھاری ہو اورایسے فنی اسالیب اور مہارتوں کے حصول کی کوشش کرنا ضروری ہے جو لوگوں کے ذہنوں پر مزید بہتر اور زیادہ طاقتور تاثیر مرتب کریں………انصار اور مخالفین کے ذہنوں پر یکساں طور پر۔

2 جہادی میڈیا کی ضرورتوں اور اخراجات کو پورا کرنے کے لئے انصار اور امت کے بیٹوں کی طرف سے عام طور پر مادی امداد ہونی چاہیئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس میڈیا کو جاری رہنے اور دشمن میڈیا کا مقابلہ کرنے کے لئے لازما ًعمدہ وسائل اور ترقی یافتہ و جدیدفنی مہارتوں کا مالک ہونا چاہیئے اور اس کے علاوہ اس میڈیا کو چلانے والوں کی مستقل ترتیب و تشکیل بھی ضروری ہے تا کہ ہم اپنے دشمنوں پر فوقیت حاصل کر سکیں اور اپنے منہج اور دشمنوں کے ساتھ جنگ میں نتائج کی ایک مکمل اور حقیقی صورت نشر کر سکیں۔

3 جہاں تک مستقل ترتیب و تشکیل کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ انصار اور میڈیا ماہرین کو چاہیئے کہ دشمن کی ملکیتی میڈیا کمپنیوں یا خودمختار اداروںکو اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہیں تا کہ ان کی فنی مہارتوں اور ان میں پڑھائے جانے والے پروگراموں سے استفادہ حاصل کریں اور یہ اس امید پرکریں کہ )عنقریب(مجاہدین کی بھی اپنی ذاتی اور خودمختار کمپنیا ں ہوں گی )تو پھر ان میں حاصل کردہ صلاحیتیں کام آئیں گی(۔

4 میڈیا محاذ ایک مستقل محاذ ہے اور کسی طرح سے بھی اپنی قدر و قیمت میں محاذِ جنگ سے کم نہیں ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جہادی قیادت کی جانب سے اسے اور زیادہ اہمیت دی جانی چاہیئے اوراُن میڈیا کمپنیوں کے درمیان منظم ربط و ضبط اور تعاون ہونا چاہیئے جو ایک ایسی قیادت کے قیام کی منتظر ہیں جس کا بنیادی کردارمختلف میڈیا گروپس کے درمیان ذمہ داریوں اور مہارتوں کی تنسیق اور تقسیم ہو۔

5 مجاہدین کو کوشش کرنی چاہیئے کہ……… اپنے انصار کے ذریعے …………ایک ویڈیو چینل حاصل کریں جس کا کردار ناظرین کی ممکنہ ترین حد تک بڑی تعدادکے ہدف کا حصول ہواور اس کے اہم ترین پروگراموں میں اخباری نشریات اور مجاہدین کی کاروائیوں کی ایسی اشاعت ہو جس میں مختلف مفتوحہ محاذوں پر ان کا اللہ کے دشمنوں کو زبردست نقصان پہنچانا نمایاں کر کے دکھایا جائے، اوراس کے علاوہ جہادی قیادت اور اہم شخصیات کے درست منہج کے بارے میں دروس اور انٹرویوز نشر کیے جائیں جس منہج کا اتباع امت کے نوجوانوں پر واجب ہے ، بلکہ بنیادی طور پر تو مخالفین اور غیر مسلموں پر بھی واجب ہے )ہم ایسے کئی بھائیوں کو جانتے ہیں جو مشرف بہ اسلام ہو گئے جبکہ پہلے وہ دشمن کی صفوں میں تھے مگر بعد میں مخلص ترین سپاہی اور دشمن کے لئے مہلک ترین بن گئے ، اوراس ضمن میں گوانتانا موبے کے قیدیوں کی مثال زیادہ دور نہیں ہے(۔ میرے خیال میں یہ ہدف سب کے اندازوں سے بہت زیادہ جلدی حاصل ہو جائے گا اور میڈیا کے بھائی اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے کیونکہ وہ ہر ایسی جدّت اور ترقی پر ماہر ہیں جو دوستوں سے پہلے دشمنوں کو چونکا کر رکھ دے گی۔

میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو اس چیز کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے اور جس سے راضی ہوتا ہے اور جو جہاداور مجاہدین کی طاقت کومزید تقویت دے اور دین کے دشمنوں کے دلوں میں دہشت و ہیبت ڈال دے۔

جہاں تک بہت سے اہم جہادی رسالوں اور اشاعتوں کے رک جانے کی وجوہات کا تعلق ہے تو میں اللہ کی مدد لیتے ہوئے کہتا ہوں:

ہم جانتے ہیں کہ اس بابرکت )جہادی( پکار کے سابقہ مرحلوں میں کام کرنے والے بھائیوں پر بہت سخت پہرے تھے اور اس کے علاوہ افرادی قوت کی بھی قلت تھی اور مادی وسائل بھی عام طور پر محدود تھے اور آپ کو اللہ کی راہ میں اس منہج کی مدد کے لئے خرچ کرنے والے بمشکل ہی ملتے تھے جو منہج مسلمانوں کی اکثریت سے چھپ چکا تھا اور ان کے لئے اجنبی بن کر رہ گیا تھا۔بلکہ یہ )منہج(ان کے لئے خوفناک شکل اختیار کر گیا تھا کیونکہ اس کی مدد کرنے والوں کو سخت ترین نتائج بھگتنا پڑتے تھے۔

چنانچہ دعوت اور جہاد کے میدان میں رضاکاروں کی قلت تھی، اور میڈیا کے میدان میں یہ بہت ہی کم تھے جبکہ کام کرنے والے بھائیوں پر ایک ہی وقت میں بہت ساری ذمہ داریاں تھیں جنہیں نبھانا ان کے لئے ضروری تھا،اور ان کے کاموں کی فہرست میں ان ذمہ داریوں کواہم ترجیح حاصل تھی، اور ان حالات نے میڈیا کے میدان میں بہت سی ایسی جگہوں )ذمہ داریوں(کو جنم دیا جنہیں پُر ہونے کی ضرورت تھی، اور اس پر مستزاد میڈیا کے میدان میں ماہرین کی قلت اوراس کے لئے کل وقتی کارکنوں کی غیر موجودگی تھی۔

چنانچہ رسالہ یا اشاعت اپنے ابتدائی قدم بڑے جوش اور ہمت سے اٹھاتامگر جلد ہی یہ جذبہ کمزور پڑنے لگتا اور وقت کے ساتھ ساتھ اور وسائل کی کمی اور کاموں کی زیادتی کی وجہ سے دم توڑ نے لگتا ، اور پھرمختلف شکلوں میں اتنے زیادہ دباؤ‘خاص طور پر سیکیورٹی سے متعلق‘ بھائیوں کو اس ڈر سے میڈیا کے کام کی قربانی دینے پر مجبور کر دیتے کہ رازوں اور اہم معاملات کا افشاں ہونا کہیں جہادی کاوشوں کے مستقبل کو کلی طور پرتباہ نہ کر دے۔

جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ معاملات بہتری کی طرف تبدیل ہوگئے ہیں

کہ بہت سی جہادی تحریکوں کو قدرے استحکام حاصل ہو گیا ہے اوراب اُن کے پاس مضبوط مراکز ہیں، اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اور ان امور کی وجہ سے اب وہ اس قابل ہیں کہ اپنے ارکان کے لئے ترتیب و تشکیل اورکام کے پروگرام وضع کریں ۔ اور اسی طرح فنی وسائل اور امکانات بھی سہولت کے ساتھ وافر مقدار میں اور وسیع پیمانوں پر میسر ہو گئے ہیں ۔اوریہ جہادی تحریکیں اس میدان میں ایسے مخصوص تنظیمی ڈھانچے وقف کرنے کے قابل ہو گئی ہیں جنہوں نے میڈیا کے کام کو استقلال بخشا ہے اور ایسی منفرد وبے مثل جدت سے روشناس کرایا ہے کہ جس نے دشمن کے میڈیا کو مات دے دی ہے اور اسے عاجز و ناکام کر دیا ہے ۔

بلکہ مجاہدین مستقل اورخودمختار اسلامی امارات قائم کرنے کے بھی قابل ہو گئے ، جیسے کہ افغانستان‘ چیچنیا‘ )دو دریاؤں کے ملک( عراق‘ اور صومالیہ میں صورتحال ہے، اور ان سے چھوٹی امارات مغرب اسلامی‘ پاکستان اور مشرقی ترکستان میں قائم ہیں۔چنانچہ ان علاقوں میں مجاہدین کے پاس اللہ کے فضل و کرم سے میڈیا کااپنا مضبوط اور مستقل نظام اور آلات ہیں ، اور وزارت ابلاغ یا میڈیا کمیٹیوں کے بھائی ہر طرح کی جدت طرازی کرنے اور اس کے لئے درست اور مناسب طریق ِکار تلاش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

ہم مثال کے طور پر،گو قطعی طور پر نہیں،کچھ کا ذکر کرتے ہیں، جیسے السحاب میڈیا‘الفرقان میڈیا‘ الفجر میڈیا‘ عالمی اسلامی میڈیا محاذ‘الانصار میڈیا‘المأسدۃ میڈیا ‘ الملاحم میڈیا‘ الصمود میڈیا‘ ای میل گروپس، مرکز الیقین‘ سریۃ الصمود‘ اور الاندلس میڈیا اور دیگر جہادی میڈیا مراکز اور ادارے۔ اور ہم خصوصی طور پر با برکت جہادی فورمز کا ذکر کرتے ہیں………اور ان میں سر فہرست الشموخ کا مبارک فورم ہے اور التحدی اورانصار المجاہدین وغیرہ ہیں ………جو وہ بنیادی منبر تصور کیے جاتے ہیں جہاں سے اول الذکر اداروں سے نشر ہونے والی آوازیں آگے پھیلتی ہیں ۔ یہ سب سلفی جہادی منہج کی مدداورمجاہدین کی خبروں کی اشاعت کے لئے قائم ہوئے اور اس لئے بھی کہ امت کی اکثریت اور اللہ کے حکم پر قائم جہادی جماعتوں کے درمیان رابطے کا وسیلہ بن جائیں۔

ہم روزانہ مزیدنئے میڈیا منبروں اور اداروں کی تجدید اورحیات نو دیکھتے ہیں ، میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ ان کی تعداد میں اضافہ فرمائے اورانہیں اپنی حفاظت کے حصار میں رکھے تا کہ یہ اُس منفرد اور مسلسل جہادی میڈیا کے لئے اپنی قوتوں کا بھرپور اظہار کریں جو ہر سطح پر جہادی پیش قدمی کے ہم قدم آگے بڑھ رہا ہے۔

جدت او راختراع کی اہم ترین شرائط میں سیکیورٹی اور ضروری مادی وسائل کی فراہمی شامل ہیں ، اور میرے خیال میں یہ دونوں شرطیں ان تمام علاقوں میں وفرت سے موجود ہیں جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے۔ اور جدت طرازی کا سلسلہ ابھی بھی چل رہا ہے اور ہم آنے والے دنوں میں ایسی تعجب خیز چیزیں دیکھیں گے جو دوستوں کو خوش کر دیں گی اور دشمنوں کو غضبناک ، الحمد للہ رب العالمین۔

میڈیا کے کام میں علماء اور طلبائے علم کی شرکت کی ضرورت

علم اور عمل ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں ، بلکہ علم عمل پرمقدم ہوتا ہے ‘ جیسا کہ ہمارے دین میں بتایا گیاہے‘ میرے پیارے بھائی۔ اس بنیاد پر ہرمخصوص شعبے میں کام کرنے والے ہمارے بھائیوں پر لازم ہے کہ شرعی علم کے حصول میں کوئی کسر روا نہ رکھیں کہ یہی وہ روشنی ہے جو مزید معرفت اور سمجھ بوجھ اورجدت طرازی کی طرف ان کے راستے کو منور کرتی ہے، اور بے علم عامل کی مثال روشنی کے بغیر تاریک راستے پر چلنے والے کی سی ہے، وہ کیونکر ہدایت اور درست راستہ پا سکتا ہے؟

لہٰذا میں اپنے طلبائے علم بھائیوں کو کہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو محض حصول علم تک محدود نہ رکھیں بلکہ انہیں چاہیئے کہ اپنے بھائیوں کو ان میدانوں میں اپنی خدمات اور امداد فراہم کریں جہاں اُنہیں اِن کی ضرورت ہے ، جیسے میڈیا کے میدان میں جو ایک فعال اسلحے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور دشمن کو ہر طرح کی اذیت سے دوچار کر رہا ہے۔

اور اسی طرح میڈیا کا میدان مسلمانوں کے لئے دعوت و تبلیغ‘ حق کے پرچار‘ اور شریعت کے حقیقی مفاہیم کی اصلاح اور درستگی کرنے کا وسیلہ بن گیا ہے اور تمہارے لئے یہ چیزیں اس وسیلے کے بغیر آگے پہنچانا ممکن نہیں ہے۔

اور اس کے ساتھ ہی میں میڈیا کے میدان میں کام کرنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنا کچھ قیمتی وقت شرعی علم کے حصول کے لئے مختص کریں تا کہ اپنے معاملے میں بصیرت حاصل کر سکیں اور اللہ کی مدد سے میڈیا جہاد میں ترقی یافتہ کردار ادا کر سکیں۔

جنگ کے حالات بہت پیچیدہ اور انتہائی الجھے ہوئے ہیں کہ ان میں ایک مخصوص مہارت کے حامل فرد کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے شعبے میں قائد یا مثالی نمونہ بن جائے جبکہ ہمیں ہر میدان میں قائدین اور رہنماؤں اور مخترعین کی ضرورت ہے۔ اور شرعی علم سے تو کسی بھی صورت میں کوتاہی نہیں برتی جا سکتی ورنہ ہم پر دیگر منہج غالب آ جائیں گے اور ہم ان سے متاثر ہو جائیں گے۔

جہادی میڈیا حالات اور حقائق پر نظر رکھتا ہے

میڈیا پالیسی کے لئے حقیقی حالات کو مد نظر رکھنا لازم ہوتا ہے اور یہ میڈیا ادارے کے پس پشت اسے چلانے والوں کی ترجمانی کرتی ہے ، کہ ہربات جو معلوم ہوتی ہے کہی نہیں جاتی!

مثال کے طور پر الفرقان میڈیا اسلامی مملکت عراق کے عمومی موقف نشر کرنے سے غرض رکھتا ہے اورجیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ مملکت خودبہت سے محاذوں پر معرکہ آرائیوں میں مشغول ہے ، چنانچہ وہ صلیبی افواج )امریکہ اور اس کے حلیفوں( اور مرتد افواج )رافضی حکومت اور اس کے حلیفوں( اور منافق افواج )صحوات نامی بیداری کونسلوں( سے جنگ کر رہی ہے اوران جماعتوں سے بھی جو جہاد کا نام نہاد نعرہ لگاتی ہیں اور صلیبی حملہ آور سے لڑنے کا دعوی کرتی ہیں۔

پس ایسے محکمے ایک وقت میں دو محاذوں پر کام کرتے ہیں؛ عسکری محاذ جس کی مثال دشمن حملہ آورکو قوت کے حق)فاتح شمشیر( سے دفع کرناہے اور اس میں یہ رنگ برنگی جہادی کاروائیاں اور مختلف گروہ ہیں ، اور دعوتی محاذپر حق کی قوت )کتاب ہدایت( سے جس کی مثال اس کے میڈیا ادارے ہیں جو عامۃ الناس اور محارب گروہوں کی طرفدار عظیم اکثریت تک حق کی بات پہنچاتے ہیں ، تا کہ وہ توبہ کر لیں اور حق کی طرف پلٹ جائیں اور اِن کے مددگار بن جائیں۔ یہ اِن گروہوں کے تقسیم اور الگ الگ ہونے سے قبل تھا، مگر جب ان کی علیحدہ علیحدہ شناخت اور تقسیم ہو گئی ا ور ان میں سے ہر گروہ نے جاری لڑائی میں اپنا موقف اور اپنی جگہ متعین کر لی ،اور مملکت پر یہ بات کھل کر ظاہر ہو گئی کہ ان میں سے جو پہلے ایمان لا چکے تھے ان کے علاوہ اب کوئی ایمان لانے والا نہیں تو پھر اس وقت مملکت حقیقت کو بیان کرنے پر اتری کہ مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے ، تا کہ لوگ ہر گروہ کی حقیقت کو جان لیں اور جاری لڑائی کے بارے میں درست موقف اپنا سکیں۔ بالخصوص اُن جماعتوں کے بارے میں جو جہاد کا دعوی کررہی تھیں اور جن کے لئے مملکت خیر خواہی کے جذبات رکھتی تھی لہٰذا انہیں موقع دیا کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں اور ایک باعزت نقطہ نظر پر قائم ہو جائیں مگر انہوں نے اختلاف کوگہرا کرنے اور فتنہ پروری پر اصرار جاری رکھا جبکہ وہ جانتی تھیں کہ مملکت کے پاس حق اور قوت ‘وہ دونوں عناصر ہیں جنہوں نے اسے ایک ایسی جامع مملکت کے قیام کا اعلان کرنے کے قابل بنایا تھا جس نے رحمان کی شریعت کو قائم کیااور شیطان کی شریعتوں سے لڑرہی ہے ، چنانچہ ان جماعتوں کو اس بابرکت مملکت کی لگام ڈالنے والی قوت اور قبائل و مہاجرین کا اس کی مدد کرنے اور اس کے ارکان کی اکثریت میں اوراضافہ کرنے کے لئے اس کے گرد اکٹھے ہونا دیکھ کر بہت برا اور تکلیف دہ لگا۔

جہاں تک مغرب اسلامی کے بھائیوں کا تعلق ہے ، مثلاً، توان کا حال دو دریاؤں کے ملک)عراق( کے حال سے واضح طور پر مختلف ہے کہ وہاں پر بھائیوں کا دشمن بنیادی طور پرفرانسیسی صلیبی حکومت کے تابع چند سیکولر جرنیلوں کے ایک گروہ کی قیادت میں چلنے والی مرتد حکومت کی شکل میں ہے ، اور اس کے ساتھ صحافیوں اور مفکرین کا ایک جم غفیر ہے جومجاہدین کی ساکھ اور اہداف پر کیچڑ اچھالنے کے لئے میڈیا جنگ لڑ رہا ہے ۔ چنانچہ ان کے پھیلائے ہوئے اہم اور عظیم ترین شبہات اور الزامات کی تردید ضروری تھی تا کہ حکومت کی اصلیت عیاں ہو اور اس کا جھوٹ واضح ہو اور مسلمانوں کے دلوں اور عقلوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

میں اللہ جل و علا سے دعا گو ہوں کہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے اور ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم بنادے اور ہمیں اپنے دین اور اپنے اولیاء کی مدد کے لئے استعمال فرمائے اور ہم پر ایسا راستہ آسان بنا دے کہ جس پر چل کر جب ہم اُس سے ملیں تو وہ ہم سے راضی ہو، جس راستے پر ہم اس کے اطاعت گذاروں کو عزت دیں اور اس کے نافرمانوں کو ذلیل کریں، آمین، والحمد للہ رب العالمین۔

1 comments:

  • Anonymous says:
    April 9, 2012 at 3:41 AM

    mera nam abu safia hai me peshawar me rehta ho agar keo muslim al-qaida se toloq rakta hai to please me be is Qafial haq me shamil hone ka arman dil me rakta ho please contact me on this Email Address: abu_safia2011@yahoo.com

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔