بسم اللہ الرحمن الرحیم
عراقی حزب اسلامی کے ارکان کے پیچھے نماز کا شرعی حکم
ترحمہ: انصار اللہ اردو بلاگ
سوال نمبر: ۳۰۴
تاریخ اشاعت: ۲٦۔١۰۔۲۰۰۹
موضوع: فقہ اور اسکے اصول
جواب منجانب: منبر التوحید والجہاد کی شرعی کمیٹی
سوال: السلام علیکم! حزب اسلامی کے ارکان کے پیچھے نماز پڑھنے کا شرعی حکم کیا ہے کہ جو حزب کی سیاست کے منہج پر یقین رکھتے ہیں اور منبروں سے لوگوں کو انتخابات کی دعوت دیتے ہیں اور مجاہدین کو دہشت گرد کا نام دیتے ہیں؟ اور کیا ان کی مسجدیں ضرار مسجدیں کہلائیں گی؟
سائل: ابو عبیدہ –
جواب: وعلیکم السلام ورحمةٰ اللہ وبرکاتہ! اگر امام ایسا فاسق وبدعتی ہو کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے نہ نکلے یعنی کبیرہ گناہ یا مکفرہ بدعت کا مرتکب نہ ہوا ہو، تو جمہور علماء کے نزدیک صحیح اور رائج بات یہ ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ اس لیئے کہ بدعتی کی نماز ذاتی طور پر درست ہے، تو اس کی امامت دوسروں کے لئے بھی درست ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
اگر مقتدی کو علم ہو جائے کہ امام ایسا بدعتی ہے کہ جو اپنی بدعت کی طرف دعوت دیتا ہے یا ایسا فاسق ہو کہ جس کا فسق بھی ظاہر ہو، مگر وہ ایسا تنخواہ دار امام ہو کہ جس کے پیچھے نماز پڑھنے کےعلاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو، جیسے جمعہ اور عیدین کا امام اور میدان عرفات میں حج کی نماز کا امام وغیرہ، تو عام سلف اور متاخرین کے قول کے مطابق مقتدی کو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیئے اور یہ مذھب احمد، شافعی اور ابو حنیفہ وغیرہ کا ہے۔ اس لئے انہوں نے عقائد کے باب میں کہا کہ مقتدی کو نماز جمعہ اور عید کی نماز، ہر نیک یا فاجر امام کے پیچھے پڑھ لینی چاہیئے اور اسی طرح اگر کسی بستی میں صرف ایک ہی امام ہو، تو اس کے پیچھے کئی جماعتیں ہو سکتی ہیں کیونکہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے آدمی کی نماز سے بہتر ہے، خواہ امام فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ جمہور علماء احمد بن حنبل اور شافعی وغیرہ کا ہے۔ (مجموع الفتاوی – ۲۳)
لیکن اگر امام کا فسق، فسق اکبر ہو یا وہ بدعت مکفرہ کا مرتکب ہو یا اس بدعت مکفرہ کی طرف دعوت دیتا ہو، جیسا کہ ان لوگوں کا حال ہے کہ جن کا ذکر سوال میں ہوا کہ وہ مرتد حکومتوں کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اور مومنو ں کے بجائے، ان مرتد حکومتوں کو دوست بناتے ہیں اور انکی جہاد اور توحید والوں کے خلاف مدد کرتے ہیں اور لوگوں کو ایسے شخص کو منتخب کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ جو شریعت سازی میں اللہ تعالی کے ساتھ خود کو شریک قرار دیتا ہے۔ اور حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے کر خود کو عبادت کے لائق رب بنالیتا ہے، تو ایسے لوگوں کے پیچھے نماز کے باطل ہونے پر اجماع ہے کیونکہ انکی اپنی نماز باطل وضائع ہے۔ لہذا ان کے پیچھے پڑھنے والوں کی نماز بھی درست نہیں ہوگی۔
ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ:
اور یہ اس لئے کہ کافر کے پیچھے نماز درست نہیں خواہ اس نے اپنے کفر کو ظاہر کیا ہو یا چھپایا ہو۔
اورابن عبدالبر نے استذکار میں فرمایا کہ:
انہیں کسی نیک یا فاجر یا ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیئے کہ جس کی بدعت اسے دائرہ اسلام سے نہ نکالتی ہو۔
باقی رہا مسئلہ ان کی مسجدوں کے حکم کا، تو اگر وہ ان مسجدوں میں لوگوں کو شریعت ساز طاغوتی انتخابات کی طرف بلاتے ہیں اور ان میں سیاسی بیہودگی کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور اپنی مساجد کے منبروں سے لوگوں کو توحید وجہاد والوں کے خلاف جنگ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور لوگوں کو مرتد جماعتوں کے لشکروں میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں جیسا کہ ہمارے پاس اس طرح کے دوسرے سوال بھی آئے ہیں، تو ایسی مساجد، ضرار مساجد کے حکم میں آتی ہیں۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے کہ:
(وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ)۔
ترجمہ: ﴿اور جنہوں نے نقصان پہنچانے اور کفر کرنے اورمسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے لیے مسجد بنائی ہے اورواسطے گھات لگانے کے ان لوگوں کے جو الله اور اس کے رسول سے پہلے لڑ چکے ہیں اور یہ البتہ قسمیں کھائیں گہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی تھی اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں﴾۔ (التوبہ ۔ ۷)
یہ ہماری طرف سے ہے اور سب سے زیادہ اللہ تعالی ہی جانتا ہے وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
جواب منجانب: الشیخ ابو النور الفلسطینی
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد
ڈاؤن لوڈ کریں:
ایم ایس ورڈ:
http://www.mediafire.com/?259571aw4i7oyp5
پی ڈی ایف:
http://www.mediafire.com/?fnq3i4gdt5gf666
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔