Saturday, April 2, 2011

عورت کے جہاد کے بارے میں شرعی حکم

عورت کے جہاد کے بارے میں شرعی حکم

ترحمہ: انصار اللہ اردو بلاگ

سوال نمبر: ۲٦۷

تاریخ اشاعت: ١۴۔١۰۔۲۰۰۹

جواب منجانب: منبر التوحید والجہاد کی شرعی کمیٹی

سوال: اس عورت کا شرعی حکم کیا ہے کہ جو جہاد کے لیئے ظاہر ہوتی ہے اوراسی طرح جہاد کرتی ہے کہ جیسے مرد کرتا ہے اور وہ اللہ کی رضا کے لیئے شہادت کی متمنی ہے؟

سائل: sojod 33

جواب: وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!

عورت پرجہاد واجب نہیں ہے۔ ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:

جہاد کے واجب ہونے کی سات شرطیں ہیں۔ اسلام، بلوغت، عقل، آزاد، مرد، کسی بھی بیماری سے سلامت اور خرچ کرنے کے لیئے مال ہونا۔ رہا مرد ہونے کا تو یہ شرط عائشہ رضی اللہ عنہ کی اس رویت کی وجہ سے کہ انہوں نے کہا کہ عورتوں پر بھی جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

(ایسا جہاد، جس میں لڑائی نہیں۔ حج اورعمرہ)

(احمد اور ابن ماجہ)

اس لیئے کہ وہ عورت اپنی کمزوری کی وجہ سے لڑائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

لیکن کیا عورت مجاہدین کی مدد اور زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیئے نکل سکتی ہے؟

تو اس سلسلے میں (امام السرخسی) نے اپنی کتاب (شرح السیرالکبیر) میں فرمایا کہ:

ہمیں یہ پسند نہیں کہ عورتیں جنگ میں مردوں کے ساتھ مل کر لڑیں۔ کیونکہ عورت کی فطرت لڑائی کی نہیں۔ جیسا کہ اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ کیا ہے کہ:

(اوہ ہو ۔۔۔ یہ عورت لڑنے کی نہیں)

اور اس کے لڑائی میں حصہ لینے سے ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی بے عزتی ہوجائے اور مشرکین اس سے خوش ہوں۔ اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس چیز سے مشرک مسلمانوں کے خلاف جرت کریں۔ اور وہ اسے مسلمانوں کی کمزوری سمجھیں۔ اور کہیں کہ یہ مسلمان اب ہمارے خلاف اپنی عورتوں سے مدد لینے پر مجبورہوگئے ہیں۔۔۔! لہذا اس سے بچنا چاہیئے۔ اور اسی وجہ سے ان عورتوں کا لڑائی میں براہ راست حصہ لینا مستحب نہیں۔ ہاں اگر مسلمان واقعی اس پر مجبور ہوگئے ہوں، تو الگ بات ہے۔ کیونکہ مشرکوں کےفتنے کو ضرورت کے وقت ہر اس چیز سے روکنا جس کی مسلمان طاقت رکھتے ہوں جائز بلکہ واجب ہے۔ اور انہوں نے اس پر حنین کے واقعے سے استدلال کیا کہ اس قصے میں وضاحت ہے کہ ضرورت کے وقت ان عورتوں کے لڑنے میں کوئی حرج نہیں۔

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں اس سے منع نہیں کیا تھا۔ مگر یہ بھی نقل نہیں کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت کےعلاوہ عورتوں کو لڑنے کی اجازت دی ہو۔

آپ امام السرخسی نے کہا کہ:

اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ بڑی بوڑھی عورتیں جنگ میں جائیں اور زخمیوں کا علاج کریں اور پانی پلائیں اور ضرورت کے وقت مجاہدین کےلیئے کھانا پکائیں۔ باب: (عورتوں کا مردوں کے ساتھ مل کر لڑنا اور انکا جنگ میں حاضر ہونا)۔

یہ سب تو اس حالت میں ہے کی جب جہاد متعین نہ ہوا ہو۔ لیکن اگر دشمن نے مسلمانوں کے ملک پرحملہ کردیا، تو اس صورت میں ہر طاقت رکھنے والے پر جہاد فرض ہوجاتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ لہذا اس صورت میں عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نکل سکتی ہے۔

اور الکاسانی الحنفی رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ:

کسی ملک پر دشمن کے حملے کی وجہ سے اگر جہاد کا اعلان عام ہوگیا، تو اس صورت میں جہاد مسلمانوں کے ہر طاقت رکھنے والے پر اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے فرض عین ہوجاتا ہے۔

﴿ انفروا خفافا وثقالا ﴾

ترجمہ: ﴿نکلو ہلکے ہو یا بوجھل﴾۔

اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عورت پر جہاد اصل میں واجب نہیں، مگراس ضرورت کے وقت جیسا کہ اگر کافر مسلمانوں کے ملکوں پرحملہ کردیں، تو اس صورت میں اس پر بھی جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اور یہ اس کی استطاعت اور طاقت کے مطابق ہوگا۔ تو اگر وہ استطاعت نہ رکھے تو اللہ تعالی کے اس فرمان کی کی وجہ سے اس پر واجب نہیں ہوگا۔

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلا وُسْعَهَا﴾

ترجمہ: ﴿اللہ تعالی کسی جان کو اس کی جان سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا﴾۔

اور مسلم کمانڈر کو چاہیئے کہ وہ مسلمان عورتوں کو ایسی جگہوں پر نہ رکھے کہ جہاں اسکے غالب گمان کے مطابق انکے قیدی بنائے جانے اور اللہ کے دشمنوں کا ان پر اور ان کی عزتوں پر تسلط قائم ہونے کا خطرہ ہو۔

اس لیئے کہ جہاد کرنے کے بہت سے طریقے ہیں اور اس میں کسی بھی کمانڈر کے لیئے بہت اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر عورتوں کے جہاد میں شرکت کی ضرورت بھی پڑے، تو بہت سی جگہیں اور مہمات ایسی ہیں کہ جہاں انکی عزتیں اور جانیں زیادہ محفوظ خیال کی جاتی ہوں۔

اور آخر میں یہ کہ جو کوئی اللہ سے سچے دل کے ساتھ شہادت کا سوال کرے، تو اللہ اسے شہادت کی منزل پر پہنچادیتا ہے خواہ وہ اپنے بستر پر ہی فوت ہو۔

واللہ اعلم

جواب منجانب:الشیخ ابو اسامہ الشامی

عضو شرعی کمیٹی

منبر التوحيد والجهاد ويب سائٹ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔